Tumgik
#اڑا
apnibaattv · 1 year
Text
پیرس-نائس چھٹے مرحلے کو 'پرتشدد' ہوا نے اڑا دیا۔
ٹورز، فرانس – پیرس-نائس منتظمین کو ہوا کے “غیر معمولی پرتشدد” جھونکے کی وجہ سے جمعہ کو ‘سورج کی دوڑ’ کے چھٹے مرحلے کو منسوخ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ فیصلہ علاقے میں درختوں کے گرنے کے بعد “سواروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے” لیا گیا۔ “میرا وزن 60 کلو ہے، میں اس طرح کی ہوا کے ساتھ اپنی موٹر سائیکل پر نہیں ٹھہر سکتا تھا،” پچھلے سال ٹور ڈی فرانس کے فاتح جوناس وینگگارڈ نے کہا۔ منسوخ ہونے والا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 8 months
Text
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
10 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
"اور بدتر احساس سے بھی بدتر؛ آپ کا سب سے اچھا دوست اس بہانے آپ کا مذاق اڑا رہا ہے کہ آپ اپنے غم میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔"
"And worse than the ugliest feeling; is your best friend making fun of you under the pretext that you've gone too far in your grief."
12 notes · View notes
my-urdu-soul · 1 year
Text
ڈار سے اس کی نہ عرفانؔ جدا کر اس کو
کھول یہ بند وفا اور رہا کر اس کو
نظر آنے لگے اپنے ہی خد و خال زوال
اور دیکھا کرو آئینہ بنا کر اس کو
آخرِ شب ہوئی آغاز کہانی اپنی
ہم نے پایا بھی تو اک عمر گنوا کر اس کو
دیکھتے ہیں تو لہو جیسے رگیں توڑتا ہے
ہم تو مر جائیں گے سینے سے لگا کر اس کو
تیرے ویرانے میں ہونا تھا اجالا نہ ہوا
کیا ملا اے دل سفاک جلا کر اس کو
اور ہم ڈھونڈتے رہ جائیں گے خوشبو کا سراغ
ابھی لے جائے گی اک موج اڑا کر اس کو
(عرفان صدیقی)
4 notes · View notes
wannabewritersposts · 2 years
Text
کس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے ، ہر امتحان پہلے سے کڑا کیا ہے
*آس کا پرندہ آیا تھا چھت پہ، اسے بھی ہوا نے اڑا دیا ہے
گھر بہہ بھی رہے یہاں، گھر *ڈھے بھی رہے یہاں
شعلے تو کہیں ریلے یہاں،زمین ساری کو *جھڑا دیا ہے
دوستو! سنو کہ اک دیوارِ چین ہے کہ امن کا گہوارا
اک دیوارِ برِ صغیر ہے کہ جس نے دو قوموں کو لڑا دیا ہے
–Virgoilism
Kis morr p la khara kia hai, har imtehan pehle se karra kia hai
Ek aas* ka parinda tha chat pey, usey bhi hawa ne ura dia hai
Ghar beh bhi rahy yahan, ghar dhay* bhi rahy yahan
Sholey to kahin railey yahan, zameen saari ko jhara* dia hai
Dosto! Suno k ek deewar-e-cheen hai k aman ka gehvara*
Ek deewar-e-bar-e-sagheer* hai k jis ne do quomo ko lara dia hai
–Virgoilism
On which intersection have you brought us? Every test is getting tougher!
A bird of hope landed on my roof, and the breeze took it with itself
Houses are drowning here, houses are being demolished here
Fires somewhere, and floods in some places, all the land seems withered now
O Friends! listen to me that there is a 'Great wall of China' which is home to peace!
And then, there are borders in the subcontinent which have brought to nations to war against each other
17 notes · View notes
jhelumupdates · 17 hours
Text
سوہاوہ کے نجی تعلیمی ادارے کی ٹیچر کا بہن بھائی پر مبینہ تشدد، مقدمہ درج
0 notes
emergingpakistan · 2 months
Text
سول ملٹری تعلقات
Tumblr media
حکومتیں چاروں صوبوں میں بن چکی ہیں۔ وفاق میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کسی حد تک کنٹرول میں آچکی ہے خصوصاّ جو پچھلے دو سال سے تھی مگر اب بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ یہ خطرہ دوبارہ بھی جنم لے سکتا ہے، اگر نئی حکومت ملک میں معاشی استحکام نہیں لا سکی، اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو یقینا ہمیں مستقبل میں ترقی کے راستے بند ملیں گے۔ ہمارا ملک وجود میں آنے کے بعد چھبیس سال تک آئین سے محروم رہا، کسی آزاد اور خود مختار ریاست کے لیے یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور موجودہ آئین پر ہم چلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ برصغیر میں پاکستان سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حقیقتیں مختلف تھیں اور یہ کہ ہم سرد جنگ کے زمانوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر کیپٹلسٹ طاقتوں کے اتحاد کا حصہ رہے۔ یہ کام نہ ہندوستان نے کیا نہ ہی بنگلا دیش نے۔ جواہر لعل نہرو نے 1961 میں یوگوسلواکیہ کے صد ر مارشل ٹیٹو اور دیگر غیرمنسلک ریاستوں کے ساتھ مل کرایک تنظیم بنا لی جب کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اس خطے میں اسٹر ٹیجک حکمت عملی کے تحت اپنے تعلقات چین کے ساتھ استوار کرنا شروع کر دیے، کشمیر کا مسئلہ ہمیں ورثے میں ملا۔ اس دور میں کہیں یہ گمان نہ تھا کہ چین دو دہائیوں کے بعد اس دنیا کی ایک بڑی فوجی و معاشی طاقت بن کر ابھرے گا۔
ہمارے تعلقات امریکا سے بہت گہرے تھے۔ پاکستان پر مسلط تمام آمروں پر امریکا کا ہاتھ تھا اور جب بھی اس ملک میں جمہوریت یا ایسا کہیے کہ معذور جمہوریت کا نفاذ ہوا، اس جمہوریت کو بھی امریکا کا گرین سگنل ہوتا تھا، لیکن جب جب اس ملک میں جمہوریت آئی، وہ عوام کی طاقت سے آئی اور جب اس ملک پر آمریت مسلط ہوئی، اس کی بنیادی وجہ بھی ہماری سماجی پسماندگی تھی۔ امریکا و پاکستان کے منسلک مفادات میں کہیں بھی جمہوریت کا نفاذ نہ تھا۔ افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جب شمالی ہند اور وسط ایشیا میں امریکا کے اسٹرٹیجک مفادات میں تبدیلی آئی تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے C-130 کو گرتے بھی دیکھا گیا اور بارہا آئین کے آرٹیکل 58 (2) (b) کا اطلاق بھی، اسامہ بن لادن کی موت بھی۔ 9/11 کے بعد جب ان کو ہماری ضرورت پڑی، جنرل مشرف دس سال کے لیے مسلط کیے گئے۔ اس خطے میں چین کی ابھرتی طاقت نے امریکا کو پریشان کر دیا اور اس طاقت کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا نے ہندوستان سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا۔ہم نے اپنی خارجہ پالیسی ، ہندوستان کی طاقت اور اثر ورسوخ کے پس منظر میں دیکھی، یہ ہماری غلط پالیسی تھی۔
Tumblr media
اس زمانے میں میاں نواز شریف کی سوچ یہ تھی پاکستان کے بارڈر کم از کم باہمی تجارت کے لیے کھول دیے جائیں۔ نوازشریف صاحب نے ہندو ستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائے۔ ہندوستان کے وزیر ِ اعظم باجپائی صاحب نے پاکستان کا دورہ کیا۔ مینار پاکستان آئے اور اس زمرے میں باجپائی صاحب نے یہ مانا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ پھر کیا ہوا؟ کارگل کا محا ذ کھل گیا اور میاں صاحب کی حکومت چلی گئی۔ اگر امریکا میں 9/11 کا واقعہ نہ ہوتا اور امریکا کے صدر بش جونیئر نہ ہوتے تو یہاں جنرل مشرف مشکل سے دو سال ہی حکومت کرتے۔ میاں صاحب نے جب دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو ان کا یہ ایجنڈا بھی تھا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا کریں، میاں صاحب کالا کوٹ پہن کے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ میمو گیٹ کھلا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا، یوں چارٹر آف ڈیموکریسی کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس وقت تک خان صاحب میدان میں اتر چکے تھے۔ جب خان صاحب نے نواز شریف کی حکومت میں ڈی چوک پر دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی اس مشکل وقت میں اگرمیاں صاحب کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو صو رتحال مختلف ہوتی۔
پھر امریکا میں فسطائیت سوچ کی حامی ٹرمپ حکومت آگئی۔ ادھر یوسف رضا گیلانی کے بعد ایک اور منتخب وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو چلتا کر دیا گیا۔ جس طرح خان صاحب کو اقتدار میں لایا گیا وہ بھی لاجواب ہے۔ خان صاحب نے ملکی سیاست کو ٹی ٹو نٹی میچ بنا دیا۔ پتا یہ چلا کہ خان صاحب کے پیچھے ایک بین الاقوامی لابی تھی لیکن یہاں جو ان کے لوکل ہینڈلرز تھے انھوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہاں ٹرمپ صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پاکستان میں دو نظرئیے ہیں۔ ایک پارلیمنٹ کی برتری اورآئین کی پاسداری کی سوچ اور دوسری اسٹبلشمنٹ اور ارسٹوکریسی کی سوچ جس میں جمہوریت کو ملک کے لیے بہتر سمجھا نہیں جاتا۔ ان دونوں نظریوں میں جو تضاد ہے، اس تضاد کو ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ساکھ اور سالمیت کے لیے ان دونوں سوچوں کو قریب لایا جائے۔ بہت دیر ہوچکی اب! ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جس کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑے تو اس ملک میں خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے۔
ہمارے ملک کی صوبائی حکومتوں، عدالتوں اور تمام اداروں اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ ہم نے جو ٹرینڈ شروع سے اپنائے تاریخ کو مسخ کرنے کے، فیک نیوز، سیاستدانوں کو بدنام کرنا، جمہوریت کے خلاف سازشیں جوڑنا ان کو ختم کرنا ہو گا۔سول و فوجی تعلقات میں دوریاں ختم کرنی ہوں گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کیسے آگے بڑھتی ہے اس کو دیکھنا ہو گا۔ اچھا ہوا کہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا اور ان کی حکومت بنی۔ لیکن ان کے رحجانات جو ملکی انارکی کی طرف زیادہ ہیں، ان سے ملک کی معیشت کو خطرات ہو سکتے ہیں، اب افہام و تفہیم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے ممبران نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا، خان صاحب کے ماسک پہن کر اجلاس میں بد نظمی پھیلائی، ان کے ان رویوں نے اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ نگراں حکومت نے بڑی خوبصورتی سے ملکی بحرانوں کا سامنا کیا۔ معیشت کو سنبھالا، عدلیہ نے اپنا پازیٹو کردار ادا کیا۔ انتخابات کا وقت مقررہ پر کرائے جو ایک ناممکن ٹاسک تھا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادیں تبدیل کرنی ہوںگی۔ خارجہ پالیسی کی اول بنیاد ہماری معاشی پالیسی ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی اکانومی کو ڈاکیومنٹڈ بنانا ہے۔ بلیک اکانومی کو زیادہ سے زیادہ مارجنلئز کرنا ہے۔ اہم بات ہے سول ملٹری تعلقات، بین الاقوامی طاقتیں، پاکستان ان دونوں حقیقتوں کو ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا کرتی رہی ہیں۔ اس میں نقصان صرف اس ملک کا ہوا ہے۔
جاوید قاضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
ووٹ کو نہ سہی خود کو ہی عزت دے دو
Tumblr media
ماڈل بھی وہی ستر برس پرانا ہے اور خواہش بھی جوں کی توں یعنی انتخابات اچھے ہیں اگر نتائج کنٹرول میں رہیں۔ مگر سوار لاکھ اچھا ہو کبھی کبھی گھوڑا بدک بھی جاتا ہے۔ جیسے 1970 میں صدرِ مملکت کو حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی گئی کہ ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کے اصول پر پہلے عام انتخابات کی تاریخی کلغی پ�� کیپ میں سجانے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو گی مشرقی پاکستان کی 162 نشتسوں میں سے اگرچہ عوامی لیگ زیادہ نشستیں لے گی مگر نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) اور جماعتِ اسلامی کو بھی اچھی خاصی نشستیں ملیں گی۔ اسی طرح مغربی پاکستان کی 148 نشستیں پیپلز پارٹی، قیوم لیگ، جماعتِ اسلامی اور نیپ وغیرہ میں انیس بیس کے فرق سے تقسیم ہو جائیں گی۔ ان جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ چار و ناچار انھیں آپ کا تعاون حاصل کرنا ہو گا اور یوں آپ چاہیں تو وردی اتار کے بھی معقول حد تک بااختیار صدر بنے رہیں گے۔ پھر یوں ہوا کہ حساس اداروں کی تجزیاتی رپورٹیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ووٹروں نے ملک کے دونوں بازوؤں میں وہ میز ہی الٹ دی جس پر مستقبل کا نقشہ بچھایا گیا تھا اور پھر یہ میز ہی چھینا جھپٹی میں ٹوٹ ٹاٹ گئی۔ 
2018 میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ وہی ڈیزائن دوبارہ استعمال ہوا اور کم و بیش سب چیزیں توقعات کے مطابق کنٹرولڈ ماحول میں خوش اسلوبی سے انجام پا گئیں۔ جن کی مشکیں کسنی تھیں انھوں نے بہت زیادہ چوں چاں نہیں کی۔ جس جماعت کو فری ہینڈ ملا اس نے بھی لگ بھگ ڈھائی سال تک تابعداری دکھائی اور اس کے عوض اسے بھی ریاستی بزرگ انگلی پکڑ کے چلاتے سکھاتے رہے۔ پھر پتہ ہی نہ چلا کہ بچے کا قد کیسے بانس کی طرح بڑھنے لگا مگر بزرگ تو بزرگ ہوتے ہیں وہ اسے ببلو گبلو سعادت مند بچہ ہی سمجھتے رہے۔ یہ کرو وہ نہ کرو، یہ کھاؤ وہ کھاؤ، اس سے ملو اس سے گریز کرو وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن اس کی بس ہو گئی اور اس نے کوئی ایسی گستاخی کی کہ بزرگوں سے برداشت نہ ہو سکا اور انھوں نے کھڑے کھڑے یہ کہہ کر نکال دیا کہ لاڈ پیار نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ کچھ دن ٹھوکریں کھانے کے بعد خود ہی سمجھ جائے گا اور آ کے معافی مانگ لے گا اور پھر پہلے کی طرح ہمارے کہنے پر چلتا رہے گا۔
Tumblr media
مگر آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کے بچے کیسے ہوتے ہیں۔ مر جائیں گے پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔ چنانچہ بزرگوں کی پگڑی ہوا میں اڑا دی گئی اور پھر جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ برخوردار برابری کی سطح پر منھ کو آ گیا۔ لہذا تمام مروتیں اور روایات ایک طرف رکھ کے کمبل کٹائی شروع ہو گئی اور اسے عاق نامہ تھما دیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس گستاخ بے وفا برخوردار کے چکر میں جن نسلی تابعداروں کو چور ڈاکو بدعنوان قرار دے کر راندہِ درگاہ کیا گیا۔ انھیں دوبارہ منا کے واپس لایا جائے اور آئندہ کسی نئے لمڈے کو اس کے شجرہِ وفاداری کی چھان پھٹک کے بغیر گود نہ لیا جاوے۔ مگر ضدی بچہ کچھ لے دے کے بھی جان چھوڑنے پر تیار نہیں بلکہ مسلسل مفاداتی کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے اور فیصلہ خدا پر چھوڑ کے سائیڈ پکڑنے کے بجائے اپنے حصے سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
1970 کے بعد پہلا موقع ہے کہ پلان اے، بی، سی یکے بعد دیگرے ناکام ہوتے جا رہے ہیں اور بزرگوں کو ستر پوشی مشکل ہو رہی ہے۔ ان کے اعمال انہی کے سامنے ناچ رہے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں میں پلنے والا برخوردار انہی کو اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہلا ہلا کے دکھا رہا ہے اور مزید کا بھی دعوی دار ہے۔ مگر بزرگ ہیں کہ اس لمحے تک بھی سوشل میڈیا کے بدتمیز دور میں بیسویں صدی کے مائنڈ سیٹ میں مبتلا ہیں کہ ’ڈنڈہ پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔‘ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ 1979 نہیں کہ لٹکانے سے کام چل جائے۔ انیس سو ستانوے بھی نہیں کہ دو تہائی اکثریت کو ٹھکانے لگا کے ڈنڈہ ڈولی کر کے جہاز میں بٹھا دیا جائے۔ یہ تو عقل سے پیدل گروہ ہے جو اپنا نفع نقصان دیکھنے اور بزرگوں کی سننے کے بجائے ’ساڈا حق ایتھے رکھ‘ ٹائپ گیتوں پر ناچتا ہے۔ آگے کا راستہ بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ ان نوجوانوں کے غصے کی اصل وجوہات جاننے کی سنجیدگی سے کوشش کی جائے۔ ان کو محض بچہ سمجھ کے چپس، لیپ ٹاپ اور مفت دواؤں کے لالی پاپ دکھاتے رہیں گے تو یہ اور بھڑکیں گے۔
انھیں عزت کے ساتھ بٹھا کے ان کی بات تحمل سے سنی جائے۔ ان کا جتنا حصہ بنتا ہے دے دیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے کہ یہ ڈگمگا بھی گئے تو خود کو گر پڑ کے سنبھال ہی لیں گے۔ جب اور جتنا مشورہ مانگیں بس اسی پر اکتفا کیا جائے۔ ویسے بھی جو خاکی و نوری افلاطون اس نسل کے تاحیات مامے بننے پر مصر ہیں وہ زیادہ سے زیادہ پانچ دس برس جئییں گے یا اپنے عہدوں پر رہیں گے۔ بعد میں بھی تو انہی لڑکے لڑکیوں نے ملک چلانا ہے۔ بہتر ہے کہ انھیں ابھی سے برابر کا حصہ دار بنا لیا جائے تاکہ آگے کی زندگی گذارنے کے لیے کچھ مشق ہو جائے اور وہ تلخیوں اور بدزنی کے ماحول سے نکل کے مستقبل کے چیلنج جھیل سکیں۔ اگر آپ خدا سے لو لگانے کی عمر میں بھی ڈھیلی لنگوٹ پہن کے اس نسل کے سامنے کبڈی کبڈی کرتے رہیں گے تو پھر تھپڑ، قینچی اور دھوبی پٹکے کے لیے بھی اپنے لخلخاتے انجر پنجر کو تیار رکھیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urduchronicle · 4 months
Text
سرکاری ملازموں کے بچوں کو کوٹہ پر ملازمتیں، چیف جسٹس برہم
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کوترجیحی بنیادوں پربھرتی کرنے پرسوالات اٹھا دیٸے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل  کومخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہمت پکڑیں،وزیراعظم کولکھیں کہ یہ پالیسی غلط ہے،اس طرح کی پالیسی بناکرآٸین کی دھجیاں اڑا دی گٸی ایسی پالیسی کواٹھا کرباہر پھینک دینا چاہیے۔ چیف جسٹس قاضی فاٸزعیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جنرل پوسٹ آفس اسلام آباد میں  بھرتی سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
اگر اسرائیل کا نام سوڈان اور امریکا کمپوچیا ہوتا
Tumblr media
جو بائیڈن میں کم از کم ایک خوبی ضرور ہے، وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔ مثلاً سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس چھاپہ ماروں کی مسلح کارروائی کے دوران لگ بھگ بارہ سو اسرائیلی سویلینز بشمول تین سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے اور ڈھائی سو کے لگ افراد کو حماس کے چھاپہ مار یرغمال بنا کے اپنے علاقے میں لے گئے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ مگر پھر کردار کش مشنیری حرکت میں آ گئی اور یہ خبر اڑا دی گئی کہ حماس کے چھاپہ ماروں نے اپنی مسلح کارروائی کے دوران کئی خواتین کو ریپ کیا اور لگ بھگ چالیس اسرائیلی بچوں کے گلے کاٹ دیے۔ جو بائیڈن نے اس افواہ کی تصدیق کیے بغیر سچ مان لیا اور بچوں کے گلے کاٹنے کی خبر کو حماس کی سفاکی سے تعبیر کیا۔ حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ اور خود وائٹ ہاؤس کی وائٹ واش مشینری بارہا صدرِ ذی وقار کو سمجھانے کی کوشش کر چکی ہے کہ انکل جن چالیس بچوں کے گلے کٹے تھے وہ ماشااللہ آج بھی زندہ ہیں اور جن خواتین کا مبینہ ریپ ہوا تھا ان میں سے ایک بھی اسرائیلی حکومت کی جانب سے انھیں بدنام کرنے کے باوجود سامنے نہیں آئی۔ لہٰذا اگر کچھ ایسا ہوا تو ہم سب سے پہلے آپ کو ہی بتائیں گے۔ شانت رہیے اور ہماری بریفنگز کے مطابق چلتے رہیے۔
معلوم نہیں کسی نے جو بائیڈن کو یہ جتانے کی بھی کوشش کی ہو کہ چالیس افسانوی بچوں کے گلے کاٹنے اور بارہ سو اسرائیلیوں کی حقیقی موت کے بدلے اسرائیل اب تک انیس ہزار فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے اور ان میں ساڑھے سات ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ جب کہ اتنے ہی ملبے کے نیچے دبے دبے مر چکے ہیں اور اب ان کی لاشیں تدفین کے قابل بھی نہیں رہیں اور یہ سلسلہ اس لمحے تک جاری و ساری ہے۔ مگر آپ تو جانتے ہیں کہ ایک اسی سالہ بوڑھے کو اپنے ہی مفروضوں کے جال سے نکالنا ایک آٹھ سالہ بچے کو قائل کرنے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بچے کے تو آپ کان مروڑ کے بھی سمجھا سکتے ہیں مگر بوڑھوں کا کیا کریں۔ رہی سہی کسر بائیڈن کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے پوری کر دی جب انھوں نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد پہلی بار تل ابیب پہنچ کر اسرائیلی ہلاکتوں پر نیتن یاہو سے تعزیت کی تو یہ بھی کہا کہ وہ آج امریکی وزیر خارجہ ہونے کے ساتھ ساتھ بطور یہودی بھی افسردہ ہیں۔ 
Tumblr media
غزہ کے جاری قتلِ عام کے ساتویں ہفتے میں وائٹ ہاؤس میں یہودی تہوار ہنوکا کے موقعے پر منعقد روایتی تقریب میں بائیڈن نے نکسن کے بعد سے آنے والے ہر صدر کی طرح یہودی مہمانوں کے اجتماع کو یاد دلایا کہ امریکا مشرقِ وسطی میں اسرائیل کے طاقتور وجود کا ضامن رہے گا۔ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو آج دنیا میں ہر یہودی خود کو غیر محفوظ سمجھتا رہتا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے پینتیس برس قبل سینیٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل کو ہم تین ارب ڈالر سالانہ کی جو امداد دے رہے ہیں وہ امریکا کی سب سے بہتر سرمایہ کاری ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا شرط نہیں۔ میں صیہونی ہوں۔ دو ہفتے قبل وائٹ ہاؤس کی ہنوکا تقریب میں ان خیالات کے واشگاف اظہار اور اعادے کے بعد اب بھی اگر کسی کو بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل پالیسی سمجھ میں نہ آئے تو اسے کوئی بھی مثال یہ پالیسی نہیں سمجھا سکتی۔ امریکا نے انیس سو اڑتالیس کے نسل کشی مخالف بین الاقوامی کنونشن پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ 
اس کنونشن میں نسل کشی کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق انسانوں کے کسی نسلی، مذہبی یا قومی گروہ کو جزوی و کلی طور پر مٹانے کے لیے پانچ اقدامات میں سے کوئی بھی قدم نسل کشی کہلائے گا۔ اول۔ کسی مخصوص انسانی گروہ کو جان بوجھ کے قتل کیا جانا، دوم۔ اس گروہ کو اجتماعی طور پر شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچانا ، سوم۔ ایسی تادیبی پابندیاں لگانا جس سے ان کی اجتماعی بقا خطرے میں پڑ جائے ، چہارم۔ ان سے حقِ پیدائش چھیننا ، پنجم۔ ان کے بچوں کو ان سے الگ کر کے جبراً کہیں اور منتقل کرنا۔ اسرائیل ان پانچ میں سے پہلی تین شرائط پوری کر رہا ہے۔ وہ ایک مخصوص علاقے ( غزہ کی پٹی) میں آباد فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر مٹانے کے لیے اندھا دھند بمباری اور گولہ باری کر رہا ہے۔ اس نے سات اکتوبر سے اب تک جتنا بارود برسایا ہے۔ اس کی اجتماعی قوت ہیروشیما پر پھینکے گئے جوہری بم سے ڈھائی گنا زائد ہے۔ خود امریکی سی آئی اے نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک غزہ پر جتنے بم گرائے گئے۔ ان میں سے پچاس فیصد اندھے یا ان گائیڈڈ بم ہیں۔ اندھے بم محضوص ہدف کا تعین کیے بغیر کسی بھی انسان یا عمارت کو ختم کر سکتے ہیں۔ اور یہ اجتماعی جسمانی و نفسیاتی نقصان کا سبب ہیں۔ 
اسرائیل نے سات اکتوبر کے بعد سے غزہ کے لیے پانی ، خوراک ، بجلی ، ادویات کی ترسیل بند کر رکھی ہے اور اسپتالوں ، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو جان بوجھ کے تباہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے نسل کشی۔ نیز ان اقدامات سے ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ غزہ کی تئیس لاکھ آبادی یہ علاقہ جبراً خالی کر کے جلاوطن ہو جائے۔ بائیڈن انتظامیہ اس نسل کشی میں سب سے بڑی مددگار ہے۔ اس نے جنگ بندی کی ہر قرار داد کو ویٹو کر کے اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کی پابندیوں سے بچا کے رکھا ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ نہ صرف غزہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ اسرائیل کو مسلسل فراہم کر رہی ہے بلکہ کانگریس کو بائی پاس کر کے ہنگامی اختیارات کی آڑ میں اس نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو توپوں اور ٹینکوں میں استعمال ہونے والے چودہ ہزار گولوں کی تازہ کھیپ بھی پہنچائی ہے۔ اس سب کے باوجود امریکی ذرایع ابلاغ میں ایک بار بھی یہ لفظ آج تک کسی خبر، مضمون یا اداریے میں شایع یا نشر نہیں ہو پایا کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ میڈیا میں اگر کوئی جملہ تواتر سے استعمال ہو رہا ہے تو وہ ہے کہ اسرائیل حقِ دفاع استعمال کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے آئین کے مطابق یہ نسل کشی کا سیدھا سیدھا کیس ہے۔مگر معاملہ اگر امریکا اور اسرائیل کا ہو تو سیدھا سیدھا کیس بھی ہکلانے لگتا ہے۔دونوں ممالک انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے دائرہ کار سے منکر ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ پھر بھی اگر اسرائیل اور امریکا کا نام سوڈان، لائبیریا، کمپوچیا یا سربیا ہوتا تو آج جو بائیڈن اور نیتن یاہو دی ہیگ میں کرمنل کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے۔ البتہ یوکرین کے ساتھ اس سے نصف نسل کش سلوک کرنے پر پوتن کے بین الاقوامی وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ولادی میر پوتن گرفتاری کے ڈر سے کسی ایسے ملک میں نہیں جا سکتے جو انھیں گرفتار کر کے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں پیش کرنے کا پابند ہو۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduzz · 5 months
Text
نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا
مرے چارہ گرکو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
ا دھر ایک حرف کے کشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
urduz.com
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
فیض احمد فیض
kuch acha perho
#urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen
0 notes
winyourlife · 7 months
Text
سوشل فٹ نیس
Tumblr media
میں نے ہاتھ جیب میں ڈالا اور پھر پورا منظربدل گیا‘ بارش کے بعد سارا پارک نکھر گیا‘ درخت‘ پتے اور پھول پورے رنگوں کے ساتھ کھل کر سامنے آ گئے‘ کبوتروں کی ایک ڈار کسی طرف سے اڑتی ہوئی گھاس پر بیٹھی‘ دائیں بائیں دیکھ کر چونچیں مٹی پر رگڑیں‘ ہلکی سی ٹھک کی آواز آئی‘ ایک کبوتر اڑا اور پوری ڈار ہوا میں جوف بناتی تیرنے لگی۔ کبوتروں کی فارمیشن میں کوئی ایسا جادو تھا جس نے مجھے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا اور میں ڈار کے معدوم ہونے تک فضا پر نظریں جما کر کھڑا رہا‘ سامنے درخت کے نیچے دو پولیس اہلکار گھاس پر لیٹے ہوئے تھے‘ ان کی موٹر سائیکل‘ ہیلمٹ اور لمبے شوز سائیڈ پر پڑے تھے اور وہ آنکھوں پر ہاتھو کا چھجا رکھ کر سستا رہے تھے‘ یہ یقینا طویل ڈیوٹی کے بعد تھک گئے ہوں گے‘ واکنگ ٹریک پر صبح کی بارش کے آثار ابھی تک باقی تھے‘ پائوں ریت میں دھنستے تھے اور ریت کے ذرے تلوے کے ساتھ چپک جاتے تھے۔ گھاس سبز تھی لیکن نہیں ٹھہریے کچھ زیادہ ہی سبز تھی‘ میں نے یہ رنگ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا‘ مارگلہ کی پہاڑیوں کے سرمئی سائے دور سے نظر آ رہے تھے‘ وہ سفید غبار میں لپٹی ہوئی تھی‘ ہوا کے ساتھ ساتھ غبار کبھی دائیں اور کبھی بائیں سرک جاتا تھا اور ہوا میں بھی ایک طراوت‘ ایک تازگی تھی‘ میں نے لمبی سانس لی اور میرے پورے وجود میں توانائی کا دریا بہنے لگا اور میں سرشاری میں ڈولنے لگا‘ وہ زندگی کا ایک شان دار لمحہ تھا اور اس لمحے کو ابدی بنانے کے لیے چنار کے درخت سے ایک گلہری نیچے اتری اور حیرت سے میری طرف دیکھنے لگی۔
اس کی آنکھوں کے بنٹے تیزی سے دائیں بائیں لرز رہے تھے‘ جانوروں کی بے چینی کا مرکز ان کی آنکھیں ہوتی ہیں‘ یہ آنکھوں کی پتلیوں اور ڈھیلوں سے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہیں اور وہ بھی آنکھوں کے ڈھیلے گھما گھما کر مجھے بتا رہی تھی میں تم سے گھبرا رہی ہوں‘ میں کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگا اور وہ کینگرو کی طرح اگلی ٹانگیں اوپر اٹھا کر مجھے گھورنے لگی اور میں اسے پیار سے دیکھنے لگا‘ کائنات میں اس وقت صرف ہم دو تھے۔ میں نے وہاں کھڑے کھڑے محسوس کیا ہم انسان اگر کسی جانور کو پیار سے دیکھیں تو ہمارے درمیان اجنبیت کی دیواریں گر جاتی ہیں‘ ہم ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں اور ہم بھی بن گئے‘ اس کی آنکھوں کا خوف آہستہ آہستہ معدوم ہو گیا اور وہ اطمینان سے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی‘ میں آگے چل پڑا‘ پارک کی دو سائیڈز پر ٹریفک بہہ رہی تھی‘ لوگ ہارن بھی بجا رہے تھے اور افراتفری میں ایک دوسرے کا راستہ بھی کاٹ رہے تھے لیکن اس لمحے مجھے یہ افراتفری اور آپادھاپی بھی اچھی لگ رہی تھی۔
Tumblr media
میں بیزاری محسوس نہیں کر رہا تھا‘ ماحول کے تمام اجزاء اپنی اپنی جگہ پر تھے اور ان کے تمام رنگ بھی سلامت تھے لیکن پھر میں نے عادتاً وہی غلطی دہرا دی‘ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں یہ سارا منظر غائب ہو گیا اور میں بارش سے دھلی جنت سے سلگتے تڑپتے جہنم میں آ گرا‘ میرے تن من میں آگ لگ گئی اور میں پائوں کی انگلیوں سے لے کر سر کے بالوں تک جلنے لگا۔ میں کہاں تھا اور میرے ہاتھ اور میری جیب میں کون سا ایسا پش بٹن تھا جس نے پورا منظربدل دیا‘ میں اپنے گھر کے قریب گرین بیلٹ کے واکنگ ٹریک پر تھا‘ میں ٹینشن کے خوف ناک فیز سے گزر رہا تھا‘ اوپر نیچے چار پانچ بری خبریں سنی تھیں لہٰذا چپ چاپ اٹھ کر واک شروع کر دی تھی‘ انسان کی فطرت ہے یہ ٹینشن میں کندھے جھکا لیتا ہے اور آنکھیں زمین کے ساتھ چپکا کر لڑکھڑا کر چلنے لگ��ا ہے‘ میں بھی اس وقت لڑکھڑا کر چل رہا تھا‘ اچانک موبائل فون کی اسکرین چمکنے لگی‘ کوئی اجنبی مسلسل فون کر رہا تھا۔
میں نے شدت جذبات میں فون آف کیا اور اسے جیکٹ کی جیب میں ڈال لیا اور بس اس کے ساتھ ہی سارا منظر بدل گیا‘ مجھے پوری کائنات دکھائی دینے لگی اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں جنت میں پھر رہا ہوں‘ یہ صورت حال آدھ گھنٹے تک قائم رہی لیکن میں نے پھر غیر ارادی طور پر جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل فون باہر نکال لیا اور اس کی اسکرین آن ہونے کی دیر تھی اور میری نظروں سے یہ سارا منظر غائب ہ�� گیا اور اس کی جگہ سلگتے تڑپتے جہنم نے لے لی‘ مجھے پتا چلا ڈالر نے ریکارڈ توڑ دیے ہیں‘ اسٹاک ایکس چینج زمین پر آ گری ہے‘ سپریم کورٹ نے پانچ رکنی بینچ بنا دیا ہے۔ عمران خان سر پر سیاہ باکس اوڑھ کر عدالت جا پہنچے ہیں‘ آٹے کی بھگدڑ نے مزید دو لوگوں کی جان لے لی اور میں چند سیکنڈ میں دوبارہ اسی صورت حال کا شکار تھا جس سے جان چھڑانے کے لیے میں نے واک شروع کی تھی‘ مجھے اس وقت معلوم ہوا میرا ایشو حالات نہیں ہیں میرا مسئلہ موبائل فون ہے‘ یہ حالات کی شدت میں ہزار گنا اضافہ کر دیتا ہے۔
آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے فون کی ہر کال اور سوشل میڈیا کی ہر جھلکی کے بعد آپ کے اسٹریس میں ہزار گنا اضافہ ہو گیا تھا اور آپ شام تک خودکشی‘ ہارٹ اٹیک یا قتل تک پہنچ چکے تھے اور یہ حالت صرف آپ یا میری نہیں ہو گی بلکہ اسمارٹ فون ایجاد کرنے والا مارٹن کوپر بھی آج کل اسی صورت حال کا شکار ہے‘ مارٹن نے آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے (1973 میں) اسمارٹ فون ایجاد کیا تھا‘ یہ خود بھی اس وقت آئی فون استعمال کرتا ہے اور روز اپنے اور اپنی ایجاد پر لعنت بھیجتا ہے‘ مارٹن کوپر نے چند دن قبل ایک نوجوان کو موبائل فون میں گھسے ہوئے سڑک پار کرتے دیکھا تو اس کا کلیجہ منہ کو آ گیا اور اسے محسوس ہوا یہ نوجوان حادثے کا شکار ہو جائے گا۔ مارٹن خود کہتا ہے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا میری ایجاد اس طرح استعمال ہو گی جس طرح میرے پوتے‘ پوتیاں اور نواسے نواسیاں کر رہے ہیں‘ مارٹن کوپر کی عمر اس وقت 94 سال ہے‘ یہ امریکا کے شہر سین ڈیاگو کے ٹائون ڈیل مار (Del Mar) میں رہتا ہے اور روز صبح شام اپنی حماقت پر افسوس کرتا ہے‘ آپ بھی اگر کسی دن ریسرچ کرینگے تو آپ بھی خود کو مارٹن کوپر سمجھیں گے۔
ہم انسان خود کو فٹ رکھنے کے خبط میں مبتلا ہیں‘ ہم خود کو جسمانی‘ ذہنی اور روحانی لحاظ سے بھی فٹ رکھنا چاہتے ہیں اور معاشی‘ سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے بھی لیکن سوشل فٹ نیس ان شعبوں سے کہیں زیادہ اہم ہے‘ ہم اگر سوشلی (سماجی) فٹ ہوں گے تو ہی ہم اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی‘ روحانی‘ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے فٹ ہوں گے‘ انسان سوشل اینمل ہے‘ ہم سے اگر سوسائٹی یا سماج کو الگ کر دیا جائے تو ہم میں اور کھوتے میں کوئی فرق نہیں رہے گا لہٰذا ہم انسانوں کو سوشل فٹ نیس انسان بناتی ہے اور سوشل فٹ نیس کیا ہوتی ہے؟ یہ ہوتی ہے دوسروں کو سپیس دینا‘ دوسروں کو بھی انسان سمجھنا‘ ان کے جذبات‘ ان کے احساسات اور ان کی روایات کا احترام کرنا لیکن بدقسمتی سے موبائل فون نے ہماری سوشل ہیلتھ مکمل طور پر برباد کر دی ہے اور ہم جانور بن کر رہ گئے ہیں‘ آپ کسی روز اپنے نام آنے والے تمام پیغام یا فارورڈ میسجز پڑھ لیں آپ کا دماغ خراب ہو جائے گا اور آپ اس کے بعد اگلے تین دن تک کسی کام کے قابل نہیں رہیں گے اور آپ نے اگر ایک بار سوشل میڈیا کے گٹڑ میں جھانکنے کی غلطی کر لی تو پھر آپ سیدھے سائیکالوجسٹ کے پاس جائیں گے اور نیند کی گولیاں کھائیں گے لیکن ٹھہریے‘ اب تو سائیکالوجسٹ بھی موبائل فون کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔
ان کے خیالات اور اللہ دتہ اداس کے خیالات میں اب کوئی فرق نہیں رہا‘ یہ بھی مریضوں سے پہلے پوچھتے ہیں آپ کس پارٹی سے ہیں اور پھر علاج شروع کرتے ہیں۔ میں اپنی ٹینشن‘ ڈپریشن اور فرسٹریشن کا ڈیٹا بنا رہا ہوں‘ میں 13 سال کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں میرے آج تک جتنے بھی لوگوں سے تعلقات خراب ہوئے اس کی وجہ موبائل فون تھا‘ مارٹن کوپر کے اس بدبخت آلے نے میرے کان میں موتا‘ میں بھڑکا اور دوسری طرف موجود شخص سے بھڑ گیا‘ میں جب بھی ڈپریشن‘ ٹینشن اور اینگزائٹی کا شکار ہوا اس کی وجہ موبائل فون تھا چناں چہ میں اب سوشل فٹ نیس کے لیے موبائل فون کا استعمال کم سے کم کرتا چلا جا رہا ہوں‘ میں دو سال سے سوشل میڈیا کے میسجز نہیں پڑھتا چناں چہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں مجھے پتا نہیں ہوتا‘ میں نے نئے نمبر سیو کرنا بھی بند کر دیے ہیں۔ مجھ سے کوئی اختلاف کرے یا اعتراض کرے تو میں کسی چیز کی وضاحت نہیں کرتا‘ سیدھی سادی معافی مانگ لیتا ہوں‘ گو 95 فیصد لوگ اس کے باوجود مجھے معاف نہیں کرتے لہٰذا میں پر مارٹن کوپر پر لعنت بھیج کر خاموش ہو جاتا ہوں‘ میں 2024ء میں ان شاء اللہ موبائل سے مکمل جان چھڑا لوں گا اور بل گیٹس اور وارن بفٹ کی طرح موبائل فری زندگی گزاروں گا اور اگر میں ایسا نہ کر سکا تو پھر آپ یقین کریں مجھ میں اور شیخ رشید میں کوئی فرق نہیں رہے گا‘ ہم دونوں گلیوں میں کاغذ اکٹھے کر رہے ہوں گے۔
جاوید چوہدری  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urdu-poetry-lover · 9 months
Text
‏‎وہ نہ آئنگے کبھی دیکھ کے کالے بادل
دو گھڑی کے لیے اللہ ہٹا لے بادل
آج یوں جھوم کے کچھ آ گئے کالے بادل
سارے میخانوں کے کھلوا گئے تالے بادل
بال کھولے ہوئے یوں سیر سر بام نہ کر
تیری زلفوں کی سیاہی نہ اڑا لے بادل وقت رخصت عجب انداز سے انکا کہنا
پھر دعا کل کی طرح مانگ بلا لیے بادل ۔
5 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
کبھی کبھی حالات اتنے واضح ہوتے ہیں کہ وہ آپکی امید کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ۔
Sometimes the situations are so clear that they destroy your hope.
Sohail Hassan Raza
12 notes · View notes
globalknock · 7 months
Text
نوادرات، قلعے، ٹِرکوں کی قطاریں - ایکسپریس اردو
میری ایک عرصے سے خواہش رہی ہے کہ پنڈی کی گلیوں میں گھوما جائے۔ پرانا پنڈی دیکھا جائے، اس کی پرانی عمارات، مساجد کو دیکھا جائے۔ ایسے میں کچھ دوستوں نے مجھ سے تقریباً تقریباً وعدہ بھی کیا کہ وہ مجھے شہر اقتدار کی گلیاں اور چوبارے دکھائیں گے مگر سب ہی مکر گے۔ کسی کو فرصت نہ ملی تو کسی کو موسم لے اڑا۔ ایک بار پھر سے جب شہر اقتدار کو بس چھو کر ہی گزرا تو پرانے وعدے یاد آگئے جو اس شہر سے گزرتے ہوئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
roshniquotes · 8 months
Text
Strong and Successful Habits 5 Attitude in your life in hindi // in urdu
Tumblr media
خود اعتمادی کامیابی اور عزت کی سیڑھیاں اپ کو تب ہی ملتی ہیں جب اپ کا ایٹیٹیوڈ ایسا بن جاتا ہے کہ اپ کی ٹکر کا اس دنیا میں دوسرا کوئی نہیں ہے اپ کو لوگوں کی پرواہ نہیں رہتی آپ اپنے آپ کو پروف کرنا چھوڑ دیتے ہیں آپ کسی کو جتانا بتانا چھوڑ دیتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کچھ بھی ہو  آپ اپنے ہونٹ سی لیتے ہیں اور اپنے کام کو کہتے ہیں کہ وہ بولیں آپ اپنے آپ کو اپنے کام کو اتنا بہتر بنا لیتے ہیں اس طرح کے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ کا کام لوگوں کو کھینچنے لگتا ہے لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس شہر میں کوئی ایسا بندہ آگیا ہے جس میں کچھ خاص ہے اور لوگ اپنےآپ کو سرچ کرنے لگتے ہیں ہیں تو سب سے اہم بات ہے آپ کا ایٹیٹیوڈ آپ کا ایٹیٹیوڈ ایسا ہونا چاہیے کہ لوگوں کو نظر آئے شیر اپنے ایٹیٹیوڈ کی وجہ سے ہی جنگل کا راجہ ہے ایگل اپنے ایٹیٹیوڈ کی وجہ سے سب سے اوپر اڑتا ہے کیونکہ دونوں جانتے ہیں کہ اگر ہم ایوریج کے ساتھ رہیں گے تو ایوریج ہی بن کر رہ جائیں گے ایگل آپ کو کبھی کبوتروں کے جھنڈ میں نظر نہیں آئے وہ ہمیشہ اونچائی پر اکیلا اڑتا ہے اور جب وہ سامنے آتا ہے تو کوئی پرندہ ٹھہر نہیں پاتا سارے پرندے اپنے آپ ہی دائیں بائیں ہو جاتے ہیں تو اپنے ایٹیٹیوڈ کو کیسے بہتر بنایا جاتا ہے اج کے اس بلوگ  میں ہم یہی بات کریں گے تو اپنے ایٹیٹیوڈ میں سب سے پہلی اور ضروری چیز جو شامل کرنی ہے وہ ہے میری سوچ میرا مقصد بہت بڑا ہے آپ کی سوچ اور آپ کا مقصد ہمیشہ بڑا ہونا چاہیے جیسے کہ ایک کبوتر تھا جو ایک پنجرے میں پیدا ہوا تھا وہ اس پنجرے میں ہی رہا وہیں پلا بڑا وہی زندگی گزار ی اس کے مالک نے اسے کبھی بھی پنجرے سے باہر نہیں نکالا تھا پنجرے میں ہی  قید رکھا باہر کی دنیا کے بارے میں اس پرندے کو کچھ بھی علم نہیں کہ باہر بھی ایک دنیا ہے جو بہت بڑی ہے اڑنے کے لیے لمبا کھلا آسمان ہے وہ کبوتر شاید اس پنجرے میں ہی مر جاتا لیکن ایک دن کیا ہوا اس کا مالک بیچرا بند کرنا بھول گیا پنجرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر بھی وہ کبوتر کتنی ہی دے اپنی جگہ پر ہی بیٹھا تھا کیونکہ اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ اس پنجرے سے باہر بھی نکلا جا سکتا ہے اس پنجرے سے باہر بھی کوئی دنیا ہے پھر وہ آہستہ آہستہ ایک ایک قدم چل کر بجرے سے باہر آیا ادھر ادھر حیرت سے دیکھا کہ کہاں آگیا پھر اس نے اڑنے کی کوشش کی تھوڑا سا اڑ کر وہ گر گیا اس نے دوبارہ کوشش کی تیز ہوا آئی اور ا سے اپنے ساتھ اڑا کر لے گئی وہ آسمان پر اونٹنے لگا پہلے تو اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کہاں آگیا وہ سوچ رہا تھا کہ اس کا مالک جو اس سے پیار کرتا ہے وہ کتنا پریشان ہوگا مجھے ڈھونڈ رہا ہوگا اب وہ اپنے گھر کیسے جائیں گا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا اصل دشمن تو اس کا مالک ہی تھا جس نے ساری زندگی اسے پنجرے میں قید کر کے رکھا اس کو اڑنے سے روکا کتنی ہی دیر وہ کبوتر ادھر ادھر اڑتا رہا اپنے پنجرے کو جس کو اپنا گھر سمجھتا تھا ڈھونڈتا رہا لیکن وہ اسے کہیں نظر نہ آئے تھک ہار کر وہ ایک درخت پر آ کر بیٹھ گیا وہ رونے لگا جس درخت پر آ کر وہ بیٹھا تھا اس پر کئی پرندوں کے گھونسلے تھے کے شام کو جب وہ پرندے لوٹ کر آئے تو انہوں نے اس کبوتر کو روتے ہوئے دیکھا سب اس کے گرد اکٹھے ہو گئے اور رونے کی وجہ پوچھی کون ہو بھائی کہاں سے ائے ہو کیوں رو رہے ہو تو اس کبوتر نے ساری بات ان پرندوں کو بتا دیا سارے پرندے اس کی بات سن کر زور زور سے ہنسنے لگے جیسے وہ دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف ہو کبوتر تو بیچارہ پہلے ہی پریشان تھا اور سوچنے لگا کہ ایک تو میں پہلے ہی دکھی ہوں اور اوپر سے یہ سب میرا مذاق اڑا رہے ہیں اسے روتا دیکھ کر ان میں سے ایک بزرگ پرندہ بولا ہے تجھے رونے کی کوئی ضرورت نہیں تجھے تو آج نئی زندگی ملی ہے وہ بندپنجرا تیرا گھر نہیں تھا بلکہ تیرے لیے قید خانہ تھا اس پنجرے میں تمہارے ساتھ ساتھ تمہاری ساری قابلیت تمہاری ساری صلاحیتیں بھی قید تھی تمہاری دنیا وہ چھوٹا سا پنجرہ نہیں بلکہ یہ
Read For More Visit Our Site www.roshniquotes.com
0 notes