Tumgik
#Pakistan Democracy
emergingpakistan · 2 months
Text
سول ملٹری تعلقات
Tumblr media
حکومتیں چاروں صوبوں میں بن چکی ہیں۔ وفاق میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کسی حد تک کنٹرول میں آچکی ہے خصوصاّ جو پچھلے دو سال سے تھی مگر اب بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ یہ خطرہ دوبارہ بھی جنم لے سکتا ہے، اگر نئی حکومت ملک میں معاشی استحکام نہیں لا سکی، اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو یقینا ہمیں مستقبل میں ترقی کے راستے بند ملیں گے۔ ہمارا ملک وجود میں آنے کے بعد چھبیس سال تک آئین سے محروم رہا، کسی آزاد اور خود مختار ریاست کے لیے یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور موجودہ آئین پر ہم چلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ برصغیر میں پاکستان سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حقیقتیں مختلف تھیں اور یہ کہ ہم سرد جنگ کے زمانوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر کیپٹلسٹ طاقتوں کے اتحاد کا حصہ رہے۔ یہ کام نہ ہندوستان نے کیا نہ ہی بنگلا دیش نے۔ جواہر لعل نہرو نے 1961 میں یوگوسلواکیہ کے صد ر مارشل ٹیٹو اور دیگر غیرمنسلک ریاستوں کے ساتھ مل کرایک تنظیم بنا لی جب کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اس خطے میں اسٹر ٹیجک حکمت عملی کے تحت اپنے تعلقات چین کے ساتھ استوار کرنا شروع کر دیے، کشمیر کا مسئلہ ہمیں ورثے میں ملا۔ اس دور میں کہیں یہ گمان نہ تھا کہ چین دو دہائیوں کے بعد اس دنیا کی ایک بڑی فوجی و معاشی طاقت بن کر ابھرے گا۔
ہمارے تعلقات امریکا سے بہت گہرے تھے۔ پاکستان پر مسلط تمام آمروں پر امریکا کا ہاتھ تھا اور جب بھی اس ملک میں جمہوریت یا ایسا کہیے کہ معذور جمہوریت کا نفاذ ہوا، اس جمہوریت کو بھی امریکا کا گرین سگنل ہوتا تھا، لیکن جب جب اس ملک میں جمہوریت آئی، وہ عوام کی طاقت سے آئی اور جب اس ملک پر آمریت مسلط ہوئی، اس کی بنیادی وجہ بھی ہماری سماجی پسماندگی تھی۔ امریکا و پاکستان کے منسلک مفادات میں کہیں بھی جمہوریت کا نفاذ نہ تھا۔ افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جب شمالی ہند اور وسط ایشیا میں امریکا کے اسٹرٹیجک مفادات میں تبدیلی آئی تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے C-130 کو گرتے بھی دیکھا گیا اور بارہا آئین کے آرٹیکل 58 (2) (b) کا اطلاق بھی، اسامہ بن لادن کی موت بھی۔ 9/11 کے بعد جب ان کو ہماری ضرورت پڑی، جنرل مشرف دس سال کے لیے مسلط کیے گئے۔ اس خطے میں چین کی ابھرتی طاقت نے امریکا کو پریشان کر دیا اور اس طاقت کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا نے ہندوستان سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا۔ہم نے اپنی خارجہ پالیسی ، ہندوستان کی طاقت اور اثر ورسوخ کے پس منظر میں دیکھی، یہ ہماری غلط پالیسی تھی۔
Tumblr media
اس زمانے میں میاں نواز شریف کی سوچ یہ تھی پاکستان کے بارڈر کم از کم باہمی تجارت کے لیے کھول دیے جائیں۔ نوازشریف صاحب نے ہندو ستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائے۔ ہندوستان کے وزیر ِ اعظم باجپائی صاحب نے پاکستان کا دورہ کیا۔ مینار پاکستان آئے اور اس زمرے میں باجپائی صاحب نے یہ مانا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ پھر کیا ہوا؟ کارگل کا محا ذ کھل گیا اور میاں صاحب کی حکومت چلی گئی۔ اگر امریکا میں 9/11 کا واقعہ نہ ہوتا اور امریکا کے صدر بش جونیئر نہ ہوتے تو یہاں جنرل مشرف مشکل سے دو سال ہی حکومت کرتے۔ میاں صاحب نے جب دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو ان کا یہ ایجنڈا بھی تھا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا کریں، میاں صاحب کالا کوٹ پہن کے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ میمو گیٹ کھلا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا، یوں چارٹر آف ڈیموکریسی کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس وقت تک خان صاحب میدان میں اتر چکے تھے۔ جب خان صاحب نے نواز شریف کی حکومت میں ڈی چوک پر دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی اس مشکل وقت میں اگرمیاں صاحب کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو صو رتحال مختلف ہوتی۔
پھر امریکا میں فسطائیت سوچ کی حامی ٹرمپ حکومت آگئی۔ ادھر یوسف رضا گیلانی کے بعد ایک اور منتخب وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو چلتا کر دیا گیا۔ جس طرح خان صاحب کو اقتدار میں لایا گیا وہ بھی لاجواب ہے۔ خان صاحب نے ملکی سیاست کو ٹی ٹو نٹی میچ بنا دیا۔ پتا یہ چلا کہ خان صاحب کے پیچھے ایک بین الاقوامی لابی تھی لیکن یہاں جو ان کے لوکل ہینڈلرز تھے انھوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہاں ٹرمپ صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پاکستان میں دو نظرئیے ہیں۔ ایک پارلیمنٹ کی برتری اورآئین کی پاسداری کی سوچ اور دوسری اسٹبلشمنٹ اور ارسٹوکریسی کی سوچ جس میں جمہوریت کو ملک کے لیے بہتر سمجھا نہیں جاتا۔ ان دونوں نظریوں میں جو تضاد ہے، اس تضاد کو ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ساکھ اور سالمیت کے لیے ان دونوں سوچوں کو قریب لایا جائے۔ بہت دیر ہوچکی اب! ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جس کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑے تو اس ملک میں خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے۔
ہمارے ملک کی صوبائی حکومتوں، عدالتوں اور تمام اداروں اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ ہم نے جو ٹرینڈ شروع سے اپنائے تاریخ کو مسخ کرنے کے، فیک نیوز، سیاستدانوں کو بدنام کرنا، جمہوریت کے خلاف سازشیں جوڑنا ان کو ختم کرنا ہو گا۔سول و فوجی تعلقات میں دوریاں ختم کرنی ہوں گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کیسے آگے بڑھتی ہے اس کو دیکھنا ہو گا۔ اچھا ہوا کہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا اور ان کی حکومت بنی۔ لیکن ان کے رحجانات جو ملکی انارکی کی طرف زیادہ ہیں، ان سے ملک کی معیشت کو خطرات ہو سکتے ہیں، اب افہام و تفہیم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے ممبران نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا، خان صاحب کے ماسک پہن کر اجلاس میں بد نظمی پھیلائی، ان کے ان رویوں نے اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ نگراں حکومت نے بڑی خوبصورتی سے ملکی بحرانوں کا سامنا کیا۔ معیشت کو سنبھالا، عدلیہ نے اپنا پازیٹو کردار ادا کیا۔ انتخابات کا وقت مقررہ پر کرائے جو ایک ناممکن ٹاسک تھا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادیں تبدیل کرنی ہوںگی۔ خارجہ پالیسی کی اول بنیاد ہماری معاشی پالیسی ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی اکانومی کو ڈاکیومنٹڈ بنانا ہے۔ بلیک اکانومی کو زیادہ سے زیادہ مارجنلئز کرنا ہے۔ اہم بات ہے سول ملٹری تعلقات، بین الاقوامی طاقتیں، پاکستان ان دونوں حقیقتوں کو ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا کرتی رہی ہیں۔ اس میں نقصان صرف اس ملک کا ہوا ہے۔
جاوید قاضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
معیشت اور جمہوریت کو بچانے کا چیلنج؟
Tumblr media
پاکستان میں توقع یہی تھی کہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ملکی حالات میں بہتری آجائے گی اور اس کے باعث معاشی مشکلات بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائیں گی، اِس طرح پاکستان میں پُرامن باشعور جمہوریت پسند رحجان معاشرے میں فروغ پائے گا، جس کے باعث صنعتی و تجارتی شعبہ کی سرگرمیاں بھی مثبت سمت پر شروع ہو پائیں گی، مگر یہاں’’ اُلٹی ہو گئیں سب تدبریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ اور ملکی تاریخ میں ایک بارپھر الیکشن تنازع ہو گئے، اس بار تو کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہارنے والے تو شور مچاتے ہی ہیں جتنے والے بھی اندر ہی اندر سے گھبرائے اور پریشان پریشان نظر آرہے ہیں، انتخابات کے بعد یہ سب کچھ نہ ہوتا تو پاکستان اور عوام کیلئے اچھا ہوتا، اس سے اندرون ملک تو ہمارے 25 کڑور سے زائد عوام پر یشان ہیں اور انہیں روز مرہ مہنگائی اور بے روزگاری نے کئی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، اصل پریشانی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور اُن کے خاندانوں کو ہے ، میں ابھی آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں آٹھ دس ہفتے گزار کر آیا ہوں ، وہاں جمہوریت سے زیادہ ریاست کو عوام کو معاشی ریلیف اور Peace of Mind کی فکر ہے، وہاں ہر شخص روزگار کمانے میں مصروف ہے، وہاں ٹریفک اور روزمرہ زندگی میں مثالی ڈسپلن نظر آتا ہے، 
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا دیگر کئی ترقی یافتہ مغربی ممالک وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھی جاتی بلکہ اس سے پاکستان کا امیج سنورنے کی بجائے بگڑتا جا رہا ہے، یہ بات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس پر قومی اداروں کو ایک سوچ کے تحت کوئی کام کرنا ہو گا، ہمارے سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی ناہمواری ایک قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، قومی معاشی مسائل حل ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اندرون ملک تو عوام کی ایک بڑھتی تعداد جمہوریت ہی سے بیزار نظر آرہی ہے، جبکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، اب وہ بھی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو قومی وسائل کا ضیاع سمجھ رہے ہیں، اس سارے پس منظر میں پاکستان کے جمہوری نظام کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو ایک مثبت سوچ نہیں ہے اس سوچ کو دور کرنے کیلئے ہمارے سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر سیاسی کشیدگی اور مختلف اداروں پر نام لئے بغیر عدم اعتماد کے اظہار کے رحجان کو دور کرنا ہو گا، 
Tumblr media
دنیا بھر میں جمہوری نظام میں کئی جماعتیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کی جمہوری سیاسی جماعتیں خود اپنے آپ کو ٹھیک کرنے پر فوکس کرتی ہیں، اگر دنیا بھر میں ایسا ہو سکتا ہے تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا، اس وقت خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاق اور صوبوں میں کوئی مستحکم حکومت نہ ہوئی تو سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ نئے قرضوں کے حصول اور پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے پلان متاثر ہو سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ریاست اور عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور پھر سرکاری اداروں کے دعوئوں کے برعکس خوفناک قسم کی مہنگائی کا سیلاب آئے گا، جس سے سب سے زیادہ جمہوریت متاثر ہو گی، اس لئے پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو بچانا پڑے گا، چاہے اس کیلئے شراکت اقتدار کا فارمولا ہو یا مشاورت کا سلسلہ ہو، سب چیزوں پر اتفاق رائے ضروری ہے، اس سلسلے میں قومی سطح پر قومی اداروں اور سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر ایک متوازن اصلاحاتی نظام وضع کرنا ہو گا اس سے پاکستان میں زوال پذیر حالات شاید بہتری کی طرف چلے جائیں، اس وقت ہم سب کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے کیسے بچایا جائے۔ 
پاکستان الحمد للہ قدرتی وسائل سے مالا مال مثالی ملک ہے اس کے پاس 60 فیصد سے زائد یوتھ ہے، یہ اثاثہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں ہے، لیکن وہاں اس کے باوجود قومی ترقی کو ذاتی مفادات اور کاروبار پر ترجیح دی جاتی ہے کاش یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہو جائے، اور قومی وسائل قوم پر ہی استعمال کرنے کے قوانین اور نظام بن جائے، پھر عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ جمہوریت ہے یا نہیں، عوام کو روٹی ، سیکورٹی اور ذہنی سکون چاہئے اور یہ سب کچھ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو یہ سمجھنا ہو گا۔
سکندر حمید لودھی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 3 months
Text
آمریتوں سے جمہوریت تک کا ناکام سفر
Tumblr media
ملک میں پہلی بار چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دس ججزکے اکثریتی فیصلے میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور قانون سازی کی برتری تسلیم کی گئی اور جن ججز نے اس کی مخالفت کی، وہ وہی ہیں جنھیں ہم خیال کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی، نہ اس کے قانون سازی کے حق کا احترام کیا، بلکہ گزرے چھ سات برسوں میں تو پارلیمنٹ کی چلنے دی گئی اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو قانون بننے سے پہلے ہی کالعدم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ 1956 کے آئین کے خاتمے اور 1973 کے آئین کی متعدد بار معطلی کے اور بحالی کے چکر میں آئین کے 50 سال تو مکمل ہو گئے مگر آئین میں بعض خامیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور رہی۔ جنرل پرویز کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار دیا جو صرف پارلیمنٹ کا آئینی اختیار تھا مگر اس وقت کی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی کور فراہم کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل پرویز نے ہی ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا جب کہ 1985 کے بعد سے 1999 تک کوئی پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر سکی اور نہ ہی کسی وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری کرنے دی گئی۔
Tumblr media
وزیر اعظم کو فوجی صدور، سویلین صدور کے بعد 2008 میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سپریم کورٹ نے دو منتخب وزرائے اعظم کو عہدے سے ہٹایا جب کہ اس سے قبل فوجی صدور اور سویلین صدور ہی وزیر اعظم کو برطرف کیا کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین مارشل لا کو روکنے کی کوشش کی تھی جو 1977 میں ناکام رہی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں سویلین صدور کے 58-2/B کے اس اختیار کو ختم کیا جو فوجی صدر کے بعد دو سویلین صدور کو حاصل ہو گیا جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کر کے پارلیمنٹ بھی ختم کی تھی مگر سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں تین سال میں الیکشن کرانا پڑے تھے جس پارلیمنٹ سے انھوں نے وردی میں خود کو صدر منتخب کرا لیا تھا۔ جنرل پرویز کے اقتدار میں پارلیمنٹ اتنی مضبوط تھی کہ پارلیمنٹ سے خطاب جنرل پرویز صرف ایک بار کر سکے تھے اور اپنے خلاف پارلیمنٹ کے رویے پر انھوں نے آئین کے مطابق کیا جانے والا یہ صدارتی خطاب بھی ترک کر دیا تھا اور پارلیمنٹ میں نعرے بازی پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ آئین کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں جو بھی خطاب کریں، اس پر گرفت نہیں ہوتی اور پہلی بار اتحادی حکومت میں پارلیمنٹ میں بعض عدالتی فیصلوں پر کڑی تنقید ہوئی۔ پہلے پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کیے گئے وزیر اعظم کو دور آمریت میں نقصان پہنچا اور فوجی جنرلوں نے اقتدار سنبھال کر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ برطرف کی مگر جنرل پرویز مشرف دور میں 2007 تک قومی اسمبلی نے پہلی بار اپنی مدت پوری کی مگر اس پارلیمنٹ نے جنرل پرویز کی مرضی کے تین وزرائے اعظم منتخب کیے تھے۔ 2008 کی پارلیمنٹ کے بعد ملک میں آمریت کی جگہ جمہوریت تو آگئی مگر عدلیہ بحالی کے بعد مضبوط عدلیہ نے دو بار ملک کے منتخب وزرائے اعظم کو برطرف کیا۔  چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے عمر عطا بندیال تک عدلیہ نے پارلیمنٹ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اور اسے مضبوط نہیں ہونے دیا۔ پارلیمنٹ کے منظور کیے کیے قوانین اور ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جاتا رہا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور ہوئی اور آمریت کے بعد جمہوریت کا سفر کمزور ہوا۔ دنیا میں پارلیمنٹ مضبوط اور بااختیار ہوتی ہے۔
1973 کا آئین پارلیمنٹ نے بنایا تھا، ہر ادارے کے لیے قانون سازی کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے مگر پارلیمنٹ اپنے اس حق اور اختیار پر سمجھوتے بازی کرتی رہی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی مگر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے جانے کے بعد پارلیمنٹ کو اپنے حق اور اختیار کے لیے مزاحمت کرنا پڑی، جس کے جمہوریت اور سسٹم پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
queerism1969 · 1 year
Text
Tumblr media
51 notes · View notes
mel-rhodes-place · 4 months
Text
ZELENSKY IS PANICKING, PUTIN IS WATCHING
(Mark Stone, Sky News, Tuesday Morning (12/12/2023) “Zelensky in Washington as time runs out to push Congress for more aid (Independent, 12/12/2003) – Hamas leader Yahya Sinwar spent decades studying Israel’s psyche. He is staking his life on what he learned. “Sinwar is holding hostage 138 Israelis, including soldiers, betting he can force the release of thousands of Palestinian prisoners and…
Tumblr media
View On WordPress
2 notes · View notes
godisarepublican · 18 days
Text
For everyone but Trump:
Blackmail. And the blackmailer is charged with a crime.
For Trump:
Hush money. And the person being blackmailed is charged with a crime.
0 notes
pressnewsagencyllc · 22 days
Text
EU launches €270M plan to bring Armenia into the Western fold
“We will make investments to strengthen Armenia’s economy and society, making them more robust and stable in the face of shocks,” she added, with funds being allocated for electrification and new renewable energy projects. The move comes as Armenia works to cut ties with its former ally, Russia, which owns much of its energy network and infrastructure but has failed to step in amid a worsening…
View On WordPress
1 note · View note
prabodhjamwal · 2 months
Text
Electoral Musical Chairs Makes A Mockery Of Democracy In Pakistan
Wajid Islam, Khyber Pakhtunkhwa Technical Education and Vocational Training Authority and Hafsa Hina, Pakistan Institute of Development Economics in Peshawar ISLAMABAD: After enduring the worst economic crisis of 2023, Pakistan’s next election should be focused on repair and reform. What’s happening is more like musical chairs. Every citizen has heard it: “Pakistan is passing through critical…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
rashmeerl · 2 months
Text
Tumblr media
0 notes
emergingpakistan · 4 months
Text
انتخابی سیاست اور ٹکٹوں کی تقسیم کا کھیل
Tumblr media
ہمارا سیاسی اورانتخابی نظام بنیادی طور پر آج بھی ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ اصولی طور پر یہ ارتقائی عمل تسلسل کے ساتھ ایک مضبوط شکل میں آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت اور اس سے جڑے فیصلوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔ یہ ہی ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام کی ناکامی ہے اور اس ناکامی کے نتیجہ میں ہمارے جمہوری اور سیاسی نظام کو مختلف محاذوں پر سیاسی پسپائی کا سامنا ہے۔ ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور خارجی یا پس پردہ طاقتوں کی مداخلت کے باعث سیاسی جماعتیں ایک مضبوط شکل اختیار نہیں کر سکیں۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے، مگر مکمل سچ نہیں۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں کو خود بھی جتنا موقع ملا وہ بھی کوئی اچھی سیاسی روایات کو قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ حالیہ 2024 کے انتخابات کے سیاسی مناظر کو دیکھیں اور اسی تناظر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم سمیت عورتوں کی مخصوص نشستوں پر ان کی ترجیحاتی فہرستوں کو دیکھیں تو ہمیں خاندان، رشتہ داری، ذات برادری یا دوست پروی کی بے شمار جھلکیاں کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
ہم بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم میں پانچ بڑے مسائل دیکھ رہے ہیں۔ اول، مضبوط سیاسی خاندان کو ہی بنیاد بنا کر ٹکٹوں کی تقسیم کی جاتی ہے۔ دوئم، یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان میں پیسے والے افراد کتنے ہیں جو نہ صرف انتخابی مہم میں بڑے پیمانے پر پیسے خرچ کر سکتے ہیں بلکہ پارٹی فنڈ کے نام پر بھی کروڑوں روپے دے سکتے ہیں۔ سوئم، سیاسی پیرا شوٹرز اور بار بار پارٹیاں بدل کر اپنی وفاداریوں کو تبدیل کرنے والوں کو کئی سیاسی مجبوریوں کے باعث قبول کیا جاتا ہے۔ چہارم، عورتوں کی مخصوص نشستوں پر بڑے سیاسی خاندانوں کی بیگمات، بیٹیاں ، بہو، بہنوں یا بھانجیوں، بھتیجیوں کو پارٹی کی سطح پر ترجیحی فہرستوں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ پنجم ایسے سرکاری کار مختاروں کی پشت پناہی کی بنیاد پر بڑی سیاسی جماعتیں ٹکٹ دیتی ہیں تاکہ ان کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ قومی اور صوبائی جنرل نشستوں پر اور بعد میں عورتوں کی مخصوص نشستوں پر ایک ہی گھرانوں کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ ایک ہی گھر کے افراد کو قومی، صوبائی اور مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔
Tumblr media
اسی طرح جب مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو یہاں بھی چیرمین اور وائس چیرمین پر بھی ان ہی بڑے گھروں کی اجارہ داری دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ سیاسی خاندان اس عمل کو اپنا حق سمجھتی ہیں یہ رویہ ان تمام سیاسی کارکنوں کی تذلیل کرتا ہے جو سیاسی جماعتوں میں لمبے عرصہ تک جدوجہد کرتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، قید ہوتے ہیں۔ ان سیاسی کارکنوں کے پاس واحد آپشن سیاسی جماعتوں میں ان ہی بڑے خاندانوں کی عملی سیاست کے ساتھ کھڑے رہنا یا ان کے ساتھ مستقل بنیادوں پر وفاداری سے جڑا ہوتا ہے۔ جو سیاسی کارکن ان بڑے خاندانوں کی سیاست کو چیلنج کرتا ہے تو اسے سیاسی جماعتوں سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو سیاسی کارکن ٹکٹ کے حصول میں کامیاب بھی ہوتا ہے تو اس کی وجہ چاپلوسی ہوتی ہے۔ عورتوں کی نمایندگی کا موجودہ جو طریقہ کار مخصوص نشستوں کا ہے، اسے تبدیل ہونا چاہیے۔ عورتوں کی مخصوص نشستیں ضرور ہوں لیکن ان کا انتخابات براہ راست ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں کمزور ہی اسی وجہ سے ہیں ان کے اپنے اندر داخلی جمہوریت یا میرٹ کا کوئی نظام نہیں اور جب سیاسی جماعتوں کا نظام ہی اقرباپروری کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو جمہوری کھیل اور زیادہ خراب ہو گا۔
اب تو ہمیں سیاسی جماعتوں کے اندر باقاعدہ ٹکٹوں کی خریدوفروخت کا نظام بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اور جو امیدواروں سے پارٹی فنڈزکے نام پر لیا جاتا ہے، وہ بھی پارٹی کے اکاؤنٹس میں نہیں بلکہ کسی خاص فرد کے ذاتی اکاونٹ میں ڈالے جاتے ہیں۔ ہماری سیاست میں یہ جو روپے پیسے کا کھیل یا اسے کارپوریٹ سیاسی کلچر کہا جائے تو اس نے نے سیاسی نظام میں بے شمار خرابیاں پیدا کر دی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی فرد بھاری رقم دے کر ٹکٹ کے حصول کو یقینی بناتا ہے تو وہ منتخب ہونے کے بعد کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست سے کیسے خود کو علیحدہ رکھ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا سیاسی روائتی، خاندانی اور بڑے سیاسی گھرانوں کی سیاست سے باہر نکل سکے گا اور کیا ہم واقعی سیاسی جماعتوں میں ان کے داخلی سیاسی نظام میں مضبوط جمہوری عمل دیکھ سکیں گے ۔ کیونکہ اگر ہم نے اسی انداز میں سیاست اور اس سے جڑے فیصلے کرنے ہیں توہم کیسے اس نظام کی درستگی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ یہ کام محض سیاسی جماعتوں نے نہیں کرنا بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر سیاسی اصلاحات اور ان میں شفافیت کا نظام پورے ریاستی اور معاشرتی نظام کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔
جو لوگ بھی انفرادی یا اجتماعی طور پر یا اداروں کی شکل میں اس نظام میں اصلاح چاہتے ہیں ان کو ہر محاذ پر اور تواتر کے ساتھ ان سیاسی مسائل پر آواز بھی اٹھانی چاہیے ا ور ایک متبادل بہتر سیاسی نظام کی تشکیل کی طرف پیش رفت آگے بڑھانی ہو گی۔ اس میں ایک ضرب ہماری نئی نسل ہی لگاسکتی ہے کہ وہ اس روائتی سیاست کو چیلنج کرے۔ اس میں ایک بڑا کام سول سوسائٹی اور میڈیا سمیت علمای وفکری اداروں کی سطح پر منظم انداز میں ہونا چاہیے۔ اس نقطہ پر زور دینا ہو گا کہ سیاسی جماعتیں اسی انداز میں کام کریں یا فیصلے کریں جیسے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سے توقع رکھی جاتی ہے۔ کیونکہ میڈیا کا بھی ایک مجموعی مزاج یہ بن گیا ہے کہ وہ طاقت ور سیاسی گھرانوں کی سیاست کے درمیان خود کہیں پھنس کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں میں یہ گھرانے طاقت ور ہوتے ہیں تو میڈیا میں بھی ان کی مجموعی عکاسی کا غلبہ نظر آتا ہے۔ 
حالانکہ میڈیا کا ایک بڑا کام سیاست میں موجود خرابیوں کی حقیقی طور پر نشاندہی کرنا اور ایک متبادل آواز یا سوچ کو سامنے لاکر لوگوں کو شعور دینا ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں سول سوسائٹی اور رسمی یا غیر رسمی تعلیم میں ووٹرز کے شعور کو بنیادی فوقیت دینی ہو گی۔ کیونکہ یہ جو ہمارے سیاسی مسائل ہیں ان کا محض انتظامی یا قانونی بنیاد پر حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ہمیں شہریوں یا ووٹرز اور بالخصوص نئی نسل کے سیاسی اور سماجی شعور کو بھی اجاگر کرنا ہو گا۔ نئی نسل کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ وہ یرغمال نہیں بلکہ آزاد ووٹرز ہیں۔ ہم مضبوط سیاسی گھرانو ں کی ہم مخالفت نہیں کر رہے بلکہ اس عمل کو بھی عملی طور پر سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ سوچ اور فکر کے سیاسی نظام یا سیاسی جماعتیں کمزور اور خاندان زیادہ مضبوط ہونگے اس کی نفی کرنا اور ایک متبادل سیاسی و جمہوری نظام کی طرف پیش رفت ہی ہمیں بہترمنزل کی طرف لے جاسکتا ہے۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
Tumblr media
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
Tumblr media
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 6 months
Text
جوڑ توڑ اور اقتدار کی سیاست کا کھیل
Tumblr media
پاکستانی سیاست کا بڑا کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو جوڑ توڑ کی مہارت سے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ پاکستان جو سیاسی قیادت یا جماعت اسٹیبلیشمنٹ کے قریب سمجھی جاتی ہے، اس کے لیے اقتدار کا کھیل کافی آسانیاں کو پیدا کرتا ہے۔ یہ بات بجا کہ سیاست کا ایک بڑا مقصد اقتدار تک رسائی کو ممکن بنانا ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں اس کی بنیاد پر عملی سیاست کرتی ہیں۔ لیکن اگر سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ اقتدار کے کھیل کی کہانی محض اقتدار کے کھیل تک محدود رہتی ہے اور اس کھیل سے قومی مفاد یا عوامی مفاد کی کوئی جھلک نہ نظر آئے تو ایسی سیاست افراد کی طاقت کے گرد ہی گھومتی ہے۔ پاکستانی سیاست کی یہ بدقسمتی ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل ہو یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد پر اقتدار کے حصول کا کھیل دونوں کھیل میں عام آدمی کی سیاست کافی کمزور نظر آتی ہے۔ یہ کھیل انفرادی سطح سے شروع ہو کر خاندانی اور خاندان کے بعد مخصوص دوستوں کی مرہون منت رہتا ہے۔ اگر اقتدار کا کھیل ملک میں پہلے سے جاری بحران یا مسائل و مشکلات کے حل کا سبب نہیں بنتا اور اس کھیل نے پہلے سے موجود حالات میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا ہے تو پھر یہ کھیل مخصوص لوگوں کے مفادات تک ہی محدود رہے گا۔ 
اس کھیل میں فی الحال عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عوام اور سیاست و جمہوریت یا اقتدار کے کھیل کے درمیان ایک واضح اور بڑی خلیج موجود ہے جو اس نظام حکومت پر بھی عدم اعتماد کو پیدا کرتا ہے۔ ہماری اشرافیہ یا رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد اور اداروں میں بھی سیاسی محاذ پر ایسی ہی سیاسی قیادتوں کی پزیرائی کی جاتی ہے یا ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے جو جتنا بڑا جوڑتوڑ کا کھلاڑی ہوتا ہے۔ جب اس جوڑ توڑ میں غیر جمہوری , غیر آئینی اور غیر قانونی یا غیر اخلاقی حوالوں سے بات کی جاتی ہے تو منطق یہ دی جاتی ہے کہ اسی کا نام سیاست ہے اور سیاست میں اصول کو بنیاد بنا کر اگر آگے بڑھا جائے گا تو پھر کامیابی کے امکانات کم اور مایوسی یا ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری سیاست کا کھیل ہی بے اصولی اور بار بار کے یوٹرن کے گرد گھومتے ہیں اور ہم انھیں کامیاب سیاسی چال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے اقتدار کے کھیل میں ہمیں جو بندر بانٹ نظر آتی ہے اس میں ریاستی , ملکی, عوامی مفادات کی جھلک کیونکر نہیں ہوتی۔
Tumblr media
اگر ایسا ہی چلتا رہے گا تو پھر سیاسی اور جمہوری نظام کی ساکھ یا شفافیت کیسے پیدا ہو گی۔ کیا پاکستانی سیاست میں موجود اقتدار کے کھیل کی بندر بانٹ میں چاہے وہ سیاسی فریقوں کے درمیان ہو یا سیاسی فریقوں کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہو اس میں ہم عام آدمی کا مقدمہ پیش کر سکتے ہیں یا ان کے مفادات کو جوڑ کر اقتدار کے کھیل کے سیاسی رنگ سجائے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر عام آدمی یا ملکی مفادات کے معاملات کو پس پشت ڈال دیا جائے تو پھر اس مجموعی سیاست اور جمہوریت کے کھیل سے ایک مضبوط ریاست اور حکمرانی کے نظام کا تصور پس پشت چلا جائے گا۔ کیا ہمارے یہاں اہل دانش کی جانب سے اس طرز کی سیاست جو مخصوص افراد یا خاندان کے مفادات یا مخصوص اداروں تک محدور رہتی ہے پر مزاحمتی عمل طاقت پکڑ سکے گا۔ کیونکہ کب تک ہم سیاست اور جمہوریت کے نام پر اس طرح کے مصنوعی سیاسی نظام کی سیاسی آبیاری کرتے رہیں گے اور کب تک اس طرز کے عوام دشمن نظام کو جمہوریت کی چھتری دیتے رہیں گے,  یہ موجودہ نظام زیادہ دیر تک اسی طرح نہیں چلایا جاسکے گا۔ 
اہل سیاست سیاسی جوڑتوڑ اور اقتدار کے کھیل میں عوام کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں اوران کی پہلی ترجیح یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے کھیل میں اپنے ووٹرو ں کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ جذباتیت، نفرت یا تعصب، سیاسی دشمنی کے کھیل کو بنیاد بنا کر سیاسی تقسیم پیدا کرتے ہیں۔ جب عوام سے جڑے حقیقی مسائل پر بات چیت ہی نہیں ہونی تو پھر قومی سیاست کو غیر ضروری اور غیر سنجید ہ ایشوز درکار ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے حمایت یافتہ افراد کو ذندہ باد اور مردہ باد کے نعروں تک محدود کر کے اپنے سیاسی مفادات کو فائدہ پہنچاتے رہیں۔ سیاست کا دائرہ کار اسی اصولی , جمہوری , سیاسی , اخلاقی , آئینی اور قانونی نکات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر معاشروں میں ہم مضبوط جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تصور پنپتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاسی اور جمہوری یا آئینی یا قانونی جدوجہد اسی فریم ورک کے دائرہ کار میں ہو۔ لیکن یہ کام آسانی سے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں ایک منظم اور متحد ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا۔ 
سیاسی جماعتیں ہوں یا سیاسی قیادتیں یا سول سوسائٹی یا میڈیا یا عدلیہ سمیت اسٹیبلیشمنٹ سب کے طرز عمل کو اسی آئینی اور قانونی یا جمہوری فریم ورک میں دیکھنا ہو گا اور اسی بنیاد پر ان کو جوابدہ بھی بنانا ہو گا۔عمومی طور پر سول سوسائٹی اور میڈیا کے بارے میں رائے پائی جاتی ہے کہ یہ واچ گروپس کے طور پر اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ ہی گروپس ریاستی و حکومتی نظام کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ کر لیں، اپنے ذاتی تعلقات کو مضبوط بنا کر خود ان کی سیاست کا حصہ بن کر ان کے غلط کاموں کو تحفظ دینے کا کام شروع کر دیں تو پھر اصلاح کے امکانات اور زیادہ محدود ہو جاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی قومی سیاست کا بے لاگ و دیانت داری سے تجزیہ کریں اور بنیادی نوعیت کے وہ سوالات جو قومی سطح پر موجود ہیں ان کو تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریقوں میں اٹھایا جائے اور پوچھا جائے کہ ان سوالوں کے جوابات کیا ہیں۔ پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کے ایک نئے وژن اور نئی سوچ سمیت نئی سیاسی اور معاشی حکمت عملیاں درکار ہیں۔ یہ ہی حکمت عملیاں ہمیں مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا راستہ دے سکتی ہیں۔
سلمان عابد 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
jobaaj · 3 months
Text
Tumblr media
QUESTION: Is Pakistan a democracy? It’s elections say otherwise. The beleaguered South Asian country of Pakistan is currently going through its worst economic crisis since its founding in 1947. Adding to its long list of worries is the façade it calls an election. Various videos posted on social media show men taking ballot boxes, tearing apart voting stations, stuffing ballot boxes, and committing acts of violence in front of government officials!
However, the election results were beyond interesting as jailed ex-PM Imran Khan’s PTI, which couldn’t contest the elections, gained 93 seats in the Pakistan assembly! Pakistani Army’s favorite Nawaz Sharif and his party (PML-N) got only 73 seats, while Bilawal Bhutto’s PPP managed to land 54 seats, falling behind the PTI, whose candidates fought as independents! To make matters worse, the PTI’s supporters have launched nationwide protests, alleging rigged elections as Pakistani courts have been flooded with petitions challenging the election results!! Will the Pakistani people ever have peace?? Follow Jobaaj Stories (the media arm of Jobaaj.com Group) for more.
0 notes
kesarijournal · 3 months
Text
Pakistan Selections 2024 & its perpetual tightrope destiny
In the grand theater of South Asian politics, Pakistan’s post-election scenario is shaping up to be less of a triumphal procession and more of a high-wire act over a pit of economic despair, political vendettas, and regional brimstone. As the newly minted government takes the stage, one can’t help but admire the audacity—or is it naivety?—of stepping into the limelight where the plot twists rival…
youtube
View On WordPress
0 notes
beenasarwar · 3 months
Text
The cross-border solidarity of Amrita Pritam and Fahmida Riaz, the student movement, and peacemongering today
A hybrid event in Delhi commemorating two iconic feminist poets of Pakistan and India reminded me of the student movement my father led, and the need for cross-border solidarity, peace, and dialogue
Poster for the event honouring Amrita Pritam and Fahmida Riaz. Courtesy PIPFPD The latest Southasia Peace Action Network (Sapan) newsletter we put out highlighted a commemoration in Delhi for two iconic feminist poets of Pakistan and India: How the friendship of two cross-border feminist poets symbolises our work; upcoming events, and more Radical love, epitomised by the late Amrita Pritam and…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
easterneyenews · 4 months
Text
0 notes