Tumgik
#Pakistan Establishment
emergingpakistan · 11 months
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
shiningpakistan · 2 months
Text
کوئی تو سبق سیکھے
Tumblr media
عمران خان کی سیاست کا اصل ہدف اب بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ پہلے لڑائی اگر کھل کر لڑی جا رہی تھی اوراسٹیبلشمنٹ اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر براہ راست حملے کیے جا رہے تھے جس کا نکتہ عروج 9؍مئی تھا تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باوجود اپنی بڑی کامیابی کے بعد اب تحریک انصاف اور عمران خان نے اس لڑائی کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب براہ راست لڑائی کی بجائے ایک سرد جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کا اختتام نجانے کیا ہو گا۔ 9؍مئی کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں ریاست کی طرف سے سنگین الزامات کے شکار علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا بنوا کر اسٹیبلشمنٹ کو پہلا واضح پیغام دیا گیا ہے کہ عمران خان کی لڑائی جاری ہے۔ اس کے بعد اب محمود خان اچکزئی کی قومی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھواں دھار تقریر کے بعد اُنہیں اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر کے طاقت ور حلقوں کو دوسراپیغام دے دیا گیا ہے کہ عمران خان اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ 
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی تقریریں اور میڈیا ٹاک سنیں تو اُن کا اشاروں کنایوں میں اصل نشانہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ انتخابات سے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سے ٹوٹے ہوے رابطوں کو بحال کرنا تھا جس کا عمران خان بار بار اظہار کرتے رہے اور یہاں تک کہ الیکشن سے ایک دو ہفتہ قبل تک یہ شکایت کی کہ اُن سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں کیا جا رہا۔ الیکشن میں تحریک انصاف کی بڑی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکمت عملی کا اب کیا مقصد ہے؟ کیا اب وہ واقعی قانون کی حکمرانی اور اسٹیبلشمنٹ کو آئندہ کے لیے سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں یا اُن کی اب بھی کوشش یہی ہے کہ مقتدر حلقوں سے اُن کے رابطہ اور تعلقات بحال ہوں تاکہ اُن کے لیے موجودہ مشکلات سے نکلنے اور اقتدار میں آنے کا رستہ ہموار ہو سکے۔ عمران خان کی جدوجہد اگر واقعی قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور وہ واقعی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اُن کو کھل کر اس کا اعلان کرنا چاہیے۔ 
Tumblr media
اُن کو اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت اور رابطوں کی بحالی کی خواہش کی بجائے اپنے ماضی کی غلطیوں، جہاں اُنہوں نے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کی، کو تسلیم کر تے ہوئے تجاویز دینی چاہئیں کہ پاکستان کی سیاست کو کیسے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے دور رکھا جا سکتا ہے ابھی تک تو ہم دائروں کا سفر ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کوئی ایک سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بنتی ہے تو کبھی کوئی دوسری۔ جب کسی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جاتے ہیں لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے سیاست اور اقتدار کے حصول کے لیے اپنے تمام اصول اور بیانیے بھول جاتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور ن لیگ کے ’ ووٹ کو عزت دو ‘ کے نعرے کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اب تک عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا واحد مقصد اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی دوبارہ حاصل کرنا تھا۔ 
کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں مبینہ طور پر بڑی دھاندلی ہوئی جس کا اصل نشانہ تحریک انصاف تھی۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے سیاستدانوں کو ہی کردار ادا کرنا ہو گا جس کے لیے بار بار اپنے سیاسی مفادات اور حصول اقتدار کے لیے اُنہیں اپنے آپ کو استعمال ہونے سے روکنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت بنانے والی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے تو توقع نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے کے اصول پر اس وقت بات کریں۔ لیکن کیا عمران خان اس اصول پر قائم رہ سکتے ہیں؟ اس کا بھی یقین نہیں۔ بے شک عمران خان کے پاس ایک موقع ضرور ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینے کے خیال کو ترک کر دیں اور اپنی سیاسی لڑائی کو پرامن طریقے سے عوام کی حمایت سے آئین و قانون کی حدود میں رکھیں۔ کوئی تو ہو جو سبق سیکھے!
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ  
1 note · View note
prabodhjamwal · 2 months
Text
Election Outcome In Pakistan: Opportunities And Challenges
Election cycle in Pakistan reflects a broader historical pattern of political maneuvering, establishment influence and cyclical redemption of politicians. Justice (retd.) Manzoor Gilani* The Election Commission of Pakistan conducted the 16th National Assembly and Provincial Assemblies elections on February 8, spending an estimated 42.5 billion rupees in the process. However, the result has…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج
Tumblr media
آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔ 
Tumblr media
انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چی��نج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
 نسیم زہرہ  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
pakistantime · 6 months
Text
نواز شریف، شیر سے کبوتر تک : وسعت اللہ خان
Tumblr media
میاں جب جب باز بننے سے باز نہ آئے تب تب بازی چھنتی چلی گئی۔ چنانچہ اس بار انھوں نے جہاندیدہ لیگیوں کی درخواست پر اقبال کا شاہین احتیاطاً دوبئی میں چھوڑا اور مینارِ پاکستان کے سائے میں بازو پر کبوتر بٹھا لیا۔ یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی کہ کبوتر لقا نہ ہو کہ جس کی دم پنکھ کی طرح پھیلی اور گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ سادہ سا غٹرغوں ٹائپ باجرہ کھانے والا کبوتر ہو (باجرے کو براہِ کرم باجرہ ہی پڑھا جائے)۔ اس قدر پھونک پھونک کے تیاری کی گئی کہ اس بار جلسے میں نہ تو کوئی پنجرہ بند شیر نظر آیا اور نہ ہی یہ نعرہ لگا کہ ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا آیا‘۔ مبادا و خدانخواستہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اگر میاں شیر ہے تو پھر ہم کون ہیں؟ میاں صاحب نے ابتدا میں ہی شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعہِ ثانی جوڑ کے ایک نیا شعر اسمبل کیا اور ادب سے نابلد اسٹیبلشمنٹ کی توجہ چاہی۔
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں زرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں مگر اسی غزل کا یہ سالم شعر احتیاطاً نہیں پڑھا
انہی کے ظلم کا شکوہ کروں زمانے سے انہی کے حق میں دعائیں میں صبح و شام کروں
ان کی تقریر سے پہلے برادرِ خورد شہباز شریف نے ’امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر‘ کو مخاطب کر کے اشارہ دے دیا تھا کہ بڑے بھیا کے خطاب کی روح کیا ہو گی۔ انھیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ اب ماشااللہ تہتر برس کے ہیں۔ آپ کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں۔ آپ کو شاید ایک بار اور بھاری ذمہ داریاں اٹھانا پڑ جائیں۔ لہذا ’ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرے‘ یا ’اپنے حلف کی پاسداری کرے‘ یا ’جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے‘ یا ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے گھاتک جملے ہرگز زبان پر نہیں آنے چاہییں۔ بس پولی پولی باتیں کرنی ہیں۔ مثلاً ’ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں‘، ’کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے‘، ’معیشت کو مل کے دلدل سے نکالیں گے‘، ’مہنگائی ختم کریں گے‘، ’ہمسائیوں سے تعلقات اچھے کرنے کی کوشش کریں گے‘، ’فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘، ’ہم زندہ قوم ہیں نیز نو مئی دوبارہ نہیں ہونے دیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔
Tumblr media
گمان ہے کہ میاں صاحب کو لندن میں تین تصاویر بھی دکھائی گئی ہوں گی۔ عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور انوار الحق کاکڑ کی۔ اور پھر فیصلہ میاں صاحب پر چھوڑ دیا گیا ہو گا۔ انھیں بریف کیا گیا ہو گا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو انھوں نے چار برس پہلے چھوڑا تھا۔ آپ کے تو صرف پلیٹلیٹس بدلے گئے۔ پاکستان کی تو پلیٹیں بدل دی گئیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کو عدالت نے سزا سنائی اور عدالت نے ہی آپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور عدالت نے ہی آپ کو علاج کے لیے باہر بھیجا اور انھی عدالتوں نے آپ کو مجرم قرار دینے کے باوجود آپ کو عارضی ضمانت بھی دی تاکہ آپ بلا خوف و تردد سٹیج پر جلوہ افروز ہوں۔ انھیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر بتایا گیا ہو گا کہ آپ سے مرتضیٰ بھٹو والا سلوک نہیں ہو گا کہ جو بے نظیر کی وزراتِ عظمی کے دوران تین نومبر انیس سو ترانوے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں اشتہاری مجرم قرار دیے جانے کے سبب انھیں سیدھا لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا اور ان کی والدہ ایئرپورٹ پر ٹاپتی رہ گئیں۔
نہ ہی اس بار آپ اس حالت سے گزریں گے جب آپ کی اہلیہ لندن میں موت و زیست کی کش مکش میں تھیں مگر آپ اور آپ کی صاحبزادی جب چودہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو آپ دونوں کو مطلوب ملزم کے طور پر حراست میں لے کے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ حتیٰ کہ آپ کے برادرِ خورد بھی ٹریفک سگنل پر مسلسل لال بتی کے سبب آپ کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ میاں صاحب کو بتایا گیا ہو گا کہ فضا اگر آپ کے حق میں عارضی طور پر بدلی ہوئی لگ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلا زمانہ بھی جوں کا توں لوٹ آئے گا۔ آج کے پاکستان میں آئین کے ورقوں کو پھاڑ کے جہاز بنا کے اڑانا ایک معمول ہے، عدالت ضرور ہے مگر ترازو ہوا میں جھول رہا ہے، گرفتاری اور ایف آئی آر ایک لگژری ہے۔ رات کو انسان سوتا ہے تو صبح بستر خالی ہوتا ہے۔ گھر والے بھی نہیں جانتے کہ بندہ چالیس روزہ چلے پر گیا ہے، شمالی علاقہ جات میں دوستوں کے ساتھ عیاشی کر رہا ہے یا کسی غار میں بیٹھا سوچ رہا ہے کہ مجھے یہاں سے اسلام آباد پریس کلب جانا ہے کہ کسی ٹی وی اینکر کو فون کرنا ہے یا کسی جہانگیر ترین کے گھر کی گھنٹی بجانی ہے۔
ہو سکتا ہے طیارے کی لینڈنگ سے پہلے میاں صاحب سے یہ ’قسم بھی چکوائی گئی ہو‘ کہ جلسے میں اقبال کے کسی ایسے شعر کا حوالہ نہیں دینا جس میں شاہین اڑ رہا ہو۔ حبیب جالب آج کے بعد آپ کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ پروین شاکر پڑھ سکتے ہیں یا طبیعت بہت ہی مچلے تو غالب سے کام چلانا ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے اپنے تاریخی خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا۔ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے جس طرح چھ برس پہلے میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز نمٹانے کے لیے ثاقب نثار نے نیب عدالتوں پر ایک نگراں جج مقرر کیا تھا، لگتا ہے واپس آنے والے میاں نواز شریف پر شہباز شریف کو نگراں مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ جب بھی بڑے میاں صاحب عالمِ جذب میں جانے لگیں تو ان کے کان میں برادرِ خورد سرگوشی کر دیں کہ بے شک انسان فانی ہے۔ جولیس سیزر کا کوئی چھوٹا بھائی نہیں تھا۔ لہذا اسے ایک مصاحب کی ڈیوٹی لگانا پڑی تھی کہ جب بھی میں دورانِ خطابت جوش میں آ کے بڑک بازی میں مبتلا ہوں تو تمھیں میرے کان میں بس یہ کہنا ہے ’سیزر تو لافانی نہیں ہے‘۔
میاں صاحب نے جلسے کے اختتام پر قوم کی خیر کے لیے اجتماعی دعا کروائی۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اگر میاں صاحب کو چوتھی بار موقع ملے تو پہلے کی طرح اپنا دماغ لڑا کے دل سے فیصلے کرنے کے بجائے خود کو اس بار نگراں وزیرِ اعظم ہی سمجھیں تاکہ کوئی ایک مدت تو پوری ہو سکے کم از کم۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
pakistanpress · 1 year
Text
خان کو کون سمجھائے
Tumblr media
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو لیبیا، شام اورعراق بنانے کی طرف تیزی سے دھکیلا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا وہ ملک میں خانہ جنگی شروع کرانے کی پہلی جھلک تھی، جان بوجھ کر فوج اور دفاعی اداروں پر حملے کروائے گئے تاکہ اُس ادارے کو Demoralise کر دیا جائے جو پاکستان کے لیبیا، شام اور عراق بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مجھے نہیں معلوم واقعی کوئی سازش موجود ہے کہ نہیں لیکن حالات خانہ جنگی اور افراتفری کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ سب کو نظر آ رہا ہے کہ حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور یہاں وہ کچھ ہو رہا ہے جس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا نہ دیکھا۔ عمران خان پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ کس نے بھڑکایا اور کس نے دفاعی اداروں پر پرتشدد حملے اور، جلائو گھیراو کیا۔ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ یہ اُن کے لوگ نہیں دوسری طرف اُنہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر direct حملے شروع کر دئیے اور تمام تر صورتحال کا ذمہ دار اُنہیں ٹھہرا دیا۔ نیب کے چیئرمین کیلئے ’’بے غیرت‘‘ جیسے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ نیب چیئرمین کے ہینڈلرز بھی بے غیرت ہیں۔
دو دن کی قید کے بعد ملنے والی رہائی کے بعد عمران خان مزید بپھر گئے۔ جو کچھ 9 مئی کو ملک میں ہوا اُسے دیکھ کر خان صاحب کو ماحول کو ٹھنڈا کرنا چاہئے تھا لیکن مجھے محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ جس انداز میں عدلیہ نے9 مئی کےانتہائی قابل مذمت واقعات اور فوج پر حملوں کے باوجود اُن کو ضمانتوں پر ضمانتیں دیں اور حکومت کو اُنہیں کسی بھی پرانے یا نئے کیس میں گرفتار کرنے سے روکا، اسے خان صاحب اور اُن کے سپورٹرزنے اپنی جیت تصور کیا۔ شاہد یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان خود کو پاکستان کا مضبوط ترین شخص سمجھتے ہوئے فوج کے سربراہ کو کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ دوسری طرف جنرل عاصم منیر نے واضح کر دیا ہے کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو کٹہرے میں لائیں گے اور فوجی تنصیبات کو جلانے اور نقصان پہنچانے کی اب کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے۔ ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئی وڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں جس میں تحریک انصاف کے رہنما 9 مئی کے منصوبہ ساز دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ اشتعال انگیزی اور حملہ آوروں کے ساتھ موقع پر موجود پائے گئے لیکن عمران خان ماننے پر تیار نہیں۔
Tumblr media
اپنی رہائی کے بعد عمران خان نے آرمی چیف سے کھلی ٹکر لے لی ہے جس سے صورتحال پاکستان کیلئے بہت خطرناک ہو گئی ہے۔ اس صورت حال کی خرابی میں کیا عدلیہ کی کوئی ذمہ داری ہے؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی عمران خان کو دیکھ کر خوشی کا اظہار اور میڈیا کا یہ الزام کہ خان صاحب کی ضمانت اور اُنہیں دوبارہ گرفتاری سے بچانے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے ہو چکا تھا اور اس سلسلے میں خواجہ طارق رحیم اور جیو کے سینئر رپورٹر قیوم صدیقی کی آڈیو لیک کا سامنے آنا بہت حیران کن تھا۔ دوسرے دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت یا کسی دوسرے ادارے کو عمران خان کو کسی بھی کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا۔ عدلیہ نے عمران خان کو وہ سب کچھ دیا جو اُنہوں نے مانگا۔ یہاں تک کہ توشہ خانہ کیس جس میں عمران خان پیش ہونے سے کتراتے رہے اور اُن کی دو دن کی قید کے دوران اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں اُن پر فرد جرم عائدکی گئی، اُس کیس کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سٹے دے کر خان صاحب کے حق میں روک دیا۔ دوسرے دن اسلام آباد کی ایک عدالت نے عمران خان اور بشری بی بی کے عدت کے دوران نکاح والے کیس کو بھی ختم کر دیا۔
عدلیہ کی عمران خان پر ان بے مثال عنائتوں کو دیکھ کر حکومتی اتحاد نے بھی سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور ججوں پر خوب طعن کیا جا رہا ہے اُنہیں عمران خان کی ٹائیگر فورس سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ اب ڈر ہے، ایسا نہ ہو کہ حکومتی اتحاد کے دھرنے میں شامل عدلیہ کے خلاف بھڑکے ہوئے مظاہرین سپریم کورٹ پر ہی حملہ کر دیں جو ایک اور خطرناک عمل ہو گا اور موجودہ حالات کی مزید خرابی کا باعث بنے گا۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ حکومتی اتحاد کو سپریم کورٹ کے سامنے ایسا مظاہرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔ اگر ایک طرف عدلیہ کو اپنے رویے اور انصاف کے دہرے معیارپر نظر ثانی کرنی چاہئے تو دوسری طرف حکومت حالات کی مزید خرابی کا ذریعہ مت بنے۔ باقی جہاں تک عمران خان کا معاملہ ہے تو مجھے نہیں معلوم اُن کو کون سمجھا سکتا ہے؟
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
نظریہ ضرورت اور ہمارا سیاسی مستقبل
پاکستان کی سیاست میں جب تک ’’ نظریۂ ضرورت‘ رہے گا تب تک این آر او بھی رہے گا۔ دوبار امید ہوئی کہ شاید یہ ضرورت کا نظریہ دفن ہو جائے مگر حالات نے ثابت کیا کہ یہ کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہتا ہے۔ اس ’ نظریے‘ نے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ پر منفی اثرات مرتب کیے بلکہ سب سے زیادہ نقصان جمہوریت کو پہنچایا جب آئین کے محافظوں نے خود آئین کو روند ڈالا۔ ایک بار 1970 میں عاصمہ جیلانی کیس کے فیصلے سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اب کبھی مارشل لا نہیں لگے گا مگر 5 جولائی،1977 اور پھر 12 اکتوبر 1999 کے غیر آئینی اقدامات کو جس طرح آئینی تحفظ حاصل ہوا اس نے ایسے منفی رجحانات کو جنم دیا جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔ پاکستان میں جسٹس منیر کے لگائے ہوئے اسی پودے نے آگے چل کر ’ این آر او ‘ کو جنم دیا۔ آمروں کو اگر نظریہ ضرورت نے طاقتور بنایا تو انہوں نے اس کو اپنا ہتھیار بنا کر سیاست میں غیر جماعتی کاروباری سیاست اور این آر او جیسے نظریات کو جنم دیا ۔
ہماری 75 سالہ تاریخ کا بدترین ’’ این آر او ‘ دراصل یہی ایک نظریہ ہے جس نے ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک تمام فوجی ایڈونچرز کو جائز اور درست قرار دیا۔ لہٰذا ہماری موجودہ سیاسی نسل یا یوں سمجھیں کہ آئندہ آنے والی سیاسی قیادت کو بھی انہی مراحل سے گزرنا پڑے گا ورنہ اگر ہماری عدالتیں 5 جولائی،77 اور 12 اکتوبر کی رات بھی کھل جاتیں تو شاید ہمیں کوئی سیاسی سمت مل جاتی۔ آج ہماری سیاسی بحث کا موضوع وزیراعظم (سابقہ یا موجودہ) کی مبینہ’ آڈیو لیک‘ ہیں جس سے بقول بہت سے مبصرین خود وزیراعظم ہائوس کی سیکورٹی پر سوالات اٹھ گئے ہیں مگر آج سے 17 سال پہلے آج ہی کے دن تقریباً شام کے وقت چند اعلیٰ فوجی افسران آئے اور ایک منتخب وزیر اعظم کو ’’ کان سے پکڑ کر‘ بے دخل کر دیا اس وقت نہ ملک میں مارشل لا لگا تھا نہ اسمبلی ٹوٹی تھی۔ بعد میں دو سال بعد اس اقدام کو اعلیٰ عدلیہ کی مہر تصدیق ثبت کر کے ’جائز و آئینی‘ قرار دے دیا گیا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو پہلے ملزم، پھر مجرم اور پھر این آر او دے کر ملک سے باہر بھیج دیا گیا تاکہ اقتدار چلتا رہے آمروں کا، ایسا ہی کچھ 1981 میں بیگم نصرت بھٹو کیس میں ہوا۔
ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان میں نظریاتی سیاست دفن کر دی گئی اور ضرورت کے نظریے کو فروغ ملا۔ بدقسمتی سے جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے اقدامات کواس وقت کی حکومت کے سیاسی مخالفین نے نہ صرف ویلکم کیا بلکہ مٹھائیاں بھی بانٹیں۔ میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، عمران خان، آصف علی زرداری، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی، بلاول بھٹو اور مریم نواز سیاسی طور پر انہی 45 برسوں میں سامنے آئے۔ ان میں کچھ دوسرے سیاسی اکابر کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے مگر کم وبیش آج کی سیاست انہی کرداروں کے گرد گھومتی نظر آرہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی زرداری صاحب کے سپرد ہوئی اور اب پچھلے دنوں میاں نواز شریف کی لندن میں اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرنس سے اس تاثر نے زور پکڑا کہ مسلم لیگ (ن) کی آئندہ قیادت کس کے سپرد ہونے جارہی ہے جبکہ پی پی پی میں اب بلاول بھٹو ہی آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔
ان دو خاندانوں کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج ایک 70 سالہ مگر انتہائی فٹ عمران خان کا ہے۔ مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ اگر خاندان سیاست میں نہیں تو پاکستان تحریک انصاف میں بہرحال عمران کے بعد ’ کون‘ کا سوال جنم لے رہا ہے کیونکہ دوسرے چیئرمین کی رونمائی نہیں ہوئی۔ سیاسی طور پر عمران آئندہ ہونے والے انتخابات چاہے وہ اپنے مقررہ وقت پر ہوں یا کچھ پہلے سب سے زیادہ مضبوط امیدوار وزرات عظمیٰ کے نظر آتے ہیں مگر یہ صورتحال آج سے ایک سال پہلے نہیں تھی جب مسلم لیگ (ن) پنجاب اور پی پی پی سندھ میں واضح طور پر آگے نظر آرہی تھی۔عدم اعتماد کی تحریک نے گویا عمران کو پانچ سال اور دے دیے ہیں۔ اب اگر کوئی غیر معمولی حالات ہو جائیں تو الگ بات ہے مگر مسلم لیگ کو اپنے مضبوط قلعہ پنجاب میں تخت پنجاب اور مرکز میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خود پارٹی کے اندر بھی ابھی ’ رسہ کشی ‘ نے تیز ہونا ہے۔
میاں نواز شریف نے حال ہی میں ہونے والی میڈیا ٹاک میں کچھ بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں جن کا گہرا تعلق 2016 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس انداز میں ’’ پانامہ پیپرز‘ کیس آگے بڑھا اور پہلے سپریم کورٹ سے تاحیات نااہلی ہوئی اور پھر احتساب عدالت سے سزا اس نے کئی سوالات کو جنم دیا مگر ’ پانامہ پیپرز ‘ میں اپنے بچوں کے نام آنے کے سوال کا جواب تو بہرحال ان کو ہی دینا تھا۔ میرے سوال کا تعلق 2016 کے بعد کی سیاست سے نہیں کیونکہ عدالتی فیصلوں اور نااہلی کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا سیاسی قلعہ مضبوط رہا۔ میاں صاحب سے میرے سوال کا تعلق 12 اکتوبر 1999 کے بعد ہونے والے اس ’’ معاہدے ‘ سے ہے جس کے تحت وہ اپنے اہل خانہ سمیت 10 سال سیاست کو خیر باد کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور سزا کے لیے جاوید ہاشمی کو چھوڑ گئے۔
 شاید اس وقت اگر وہ سیاسی طور پر تھوڑے سے بھٹو بن جاتے تو آج کی سیاست مختلف ہوتی۔ مطلب یہ نہیں کہ اللہ نہ کرے آپ پھانسی چڑھ جاتے مگر کم ازکم ایسے NRO سے تو بہتر تھا یہاں جیل میں وقت گزارتے، کلثوم نواز صاحبہ مرحومہ نے جو ایک غیر سیاسی خاتون تھیں جدوجہد کی بنیاد رکھ دی تھی۔ وہ بے شک ایک بہادر خاتون تھیں ان سے چند ملاقاتیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ میاں صاحب سے دوسرا سوال یہ کہ آپ نے تین سال پہلے کیا کیا؟ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے مگر آپ ’علاج ‘ کی غرض سے باہر گئے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اگر آپ چند ماہ بعد ہی واپس آجاتے اور عدالتوں کا سامنا کرتے تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی، اب اس کو میں اور کیا کہوں سوائے این آر او کے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ نے بہت نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ اگر ’نظریہ ضرورت‘ نے PCO کو جنم دیا اور یوں بہت سے اعلیٰ ترین جج جو چیف جسٹس بن سکتے تھے حلف لینے سے انکار پر نہ بنے مگر تاریخ آج بھی جسٹس دراب پٹیل کو یاد رکھتی ہے۔ ’نظریہ ضرورت‘ اور این آر او ہی اگر ہمارا سیاسی مستقبل ہیں تو دراصل ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ باقی ضرورت کے نظریہ کی سیاست تو چلتی رہے گی اور نئے نئے کردارسامنے آتے رہیں گے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کہ پار اترا تو میں نے دیکھا
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-news · 2 years
Text
جو اشرافیہ جانتی ہے بس وہی جانتی ہے
لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہر چھوٹے بڑے ’’ ہو از ہو‘‘ کو بلوچستان کے دو سے زائد شہروں کے نام بھلے ماتھے پر ہاتھ مار مار کے یاد کرنا پڑیں البتہ اسلام آباد میں متعین ہوئے اور ہونے والے امریکی سفیرکا برتھ ڈے اور وائٹ ہاؤس کے کمروں کی گنتی تک ازبر رہتی ہے۔ مگر ایک عام امریکی شہری زیادہ سے زیادہ اپنے شہر، اپنی ریاست اور بہت ہی تیر مارا تو کینیڈا، میکسیکو اور اسرائیل کے نام سے واقف ہے۔ باقی دنیا میں کون کیا کیوں ہے ؟ اس کی بلا سے۔ اسے تو شاید یہ بھی ٹھیک سے نہیں معلوم ہوتا کہ ہمسائے میں جو شخص برسوں سے تنہا رہ رہا ہے اس کے گھر میں کتنی مشین گنیں ہیں اور ان سے وہ کیا اور کب کرے گا۔ خود پر استعمال کرے گا یا کسی کالے محلے میں گھس جائے گا یا اسکول کی دیوار کود کے ہر سامنے آنے والے کو نشانے پر رکھ لے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس عمومی امریکی بیگانگی پر اتنا بل کھانے کی کیا بات ہے۔ بھلا سپرپاور کے کسی شہری کو کیا ضرورت کہ وہ جاننے کی کوشش کرے کہ ہر چپٹا چینی نہیں ہوتا۔ پاناما کسی نہر کا نہیں بلکہ ملک کا نام ہے۔ 
ہنڈوراس میں صرف کیلے نہیں انسان بھی ہوتے ہیں۔ بھارت اور انڈیا ایک ہی چیز ہے۔ ایران میں ایرانی نہیں فارسی بولی جاتی ہے۔ اس قسم کی معلومات صاحبوں کی نہیں محکوم طبیعت ضرورت مند ممالک کی متوسط و اشرافی کلاس کی ضرورت ہیں تاکہ وہ صاحبوں کی پسند ناپسند، رنگوں ، مزاج ، مشاغل ، رشتے داریوں اور نجی و غیر نجی مصروفیات کا رضاکارانہ ریکارڈ سینہ پھلا کر ایک دوسرے کو بتاتا دکھاتا پھرے۔ کیا کسی چوہدری سے کبھی کسی مراثی کا شجرہ سنا ؟ بعض حاسد نو آبادیاتی ماضی میں گندھی سویلین و غیر سویلین دیسی اشرافیہ کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ اس کا اندازِ بیگانگی امریکیوں جیسا ہے۔ عام پاکستانی شہری تو رہا ایک طرف کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن بھی جب ملتے ہیں تو اکثر شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں تو یہ تک یاد رکھنا پڑتا ہے کہ آج مولانا صاحب نے کون سا عطر لگایا ہے، میاں صاحب نے آج کس رنگ کی ٹائی کس کے لیے پہنی۔ خان صاحب کو ان دنوں کون سا مارملیڈ پسند ہے اور جنرل گوجر کتنی نسلوں سے سپاہ گر ہیں۔
مگر آؤڈی سے ہمر اور محل سے مرمریں ایوانوں تک محدود قومی قسمت کے برہمنی مزاج فیصلہ سازوں اور کاسہ لیسوں اور آل اولادوں کو بالکل ضرورت نہیں کہ وہ بلوچ اور بلوچی، تھر اور تھر پارکر، مالاکنڈ اور سوات ، بابا فرید اور خواجہ فرید میں فرق کرتا پھرے۔ اس کی بلا سے سنانگھڑ سندھ میں ہے یا بلوچستان میں ��ا پھر یہ مچھلی کی کوئی قسم ہے۔ کیا ایک اشرافی بچے کے لیے اتنا جاننا کافی نہیں کہ سوئی گیس بلوچستان یا اندرونِ سندھ کے کسی علاقے سے آتی ہے اور ختم بھی ہو گئی تو ایران اور ترکمانستان اور قطر سے اور ’’ سوئی گیس‘‘ آجائے گی۔ کیا اتنی معلومات کافی نہیں کہ باڑہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سستا اسمگل شدہ سامان ملتا ہے یا پھر یہ دہشت گردوں کی گذرگاہ ہے۔ مگر میں ایک چھوٹے قصبے کا پیدائشی نیم پنجابی و نیم سرائیکی و نیم فلاں ابنِ فلاں ہونے کے ناتے اس اشرافی تجاہل ِ عارفانہ عرف بیگانگی سے متعلق حاسدوں کی جلی کٹی ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا ہوں۔
کیونکہ جانتا ہوں کہ جس طرح پسماندہ اقوام امریکا کی فراست، ترقی اور طاقت سے جلتی ہیں اسی طرح بچارے چھوٹے لوگوں کی میری قومی اشرافیہ کے بارے میں سوچ بھی چھوٹی رہے گی۔ جنھیں آزادی سے قبل اور فوراً بعد کی شاندار اشرافی خدمات کے بارے میں نہیں معلوم ان بے چاروں کو یہ سوچ کر معاف کردینا چاہیے کہ یہ بے چارے معاف کرنے کے ہی قابل ہیں۔ ان میں سے کوئی نہیں جاننا چاہتا کہ ہماری اشرافیہ کا دل اس ملک کے رقبے اور آبادی سے بھی بڑا ہے۔ اس نے قومی یکجہتی کی خاطر اپنی ماں بولیوں کے فروغ پر توجہ نہ دینے کی قربانی دیتے ہوئے انگریزی اور انگریزی کی سوتیلی بہن اردو کو ترجیح دی تاکہ نادانوں کے اژدھام عرف عوام کو اپنی بات سمجھانے کے باوجود نہ سمجھانے میں آسانی رہے۔ حالانکہ پنجاب کا عام پنجابی، سرائیکی و پوٹھوہاری بھی اشرافیہ کے ہاتھوں اتنا ہی دوبھر ہے جتنا کسی اور صوبے کا رہواسی۔ مگر توپوں کا رخ اشرافیہ کی جانب سے پورے پنجاب کی طرف کروایا جاتا ہے تاکہ جسے بھی غصہ آئے وہ محلوں، رقبوں، بینک بیلنسوں، دہرے پاسپورٹیوں اور آف شور اکاؤنٹنٹیوں اور ہر صوبے کے طاقتوروں کی ایک دوسرے سے نجی و سیاسی رشتہ داریوں اور کاروباری شراکتوں اور مشترکہ بندربانٹ کے بارے میں کوئی سوال پوچھنے کے بجائے بس ایک ہی ہدف کو نشانہ بنائے کہ یہ سب کچھ پنجاب کا کیا دھرا ہے۔
یوپی بھی ہے سی پی بھی ہے ، ہیں اور بہت صوبے اک صوبہِ پنجاب ہے معلوم نہیں کیوں ( جون ایلیا )
نتیجہ یہ ہے کہ پنجابی اشرافی تو ہاتھ آنے سے رہا لہٰذا غلام کا غصہ غلام پر ہی نکل جاتا ہے۔ جب کہ اشرافیہ کو ایسا کوئی احساسِ کمتری نہیں اسی لیے جیونی سے سکردو تک سارا جہاں ہمارا۔ اشرافیہ کے بھی مفاد میں ہے کہ جب ہر ہما شما غلط ٹارگٹ کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے تو پھر اسے کیا پڑی کہ اپنی صفائیاں پیش کرنے کی پابند ہو اور ہر چھوٹے بڑے معاملے میں حصہ داری یا دخل در معقولات کی وضاحت کرتی پھرے۔ اشرافیہ کو اگر ضرورت ہے تو بس گودی میڈیا کی جو اس بیانیے کی تصویر مسلسل دکھاتا رہے کہ ’’ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم اس مسائل زدہ زمین کے کوڑھ مغزوں کے ساتھ سر کھپائیں جب کہ ہم دنیا میں کہیں بھی اپنی پسند کی جگہ اور ماحول میں رہ سکتے ہیں۔ مگر ہم اپنے نادان بھائیوں کی ترقی کے لیے نہ صرف افسروں ، ماہرین و مشیران اور علما کی شکل میں علم و ہنر بانٹتے ہیں بلکہ برادرانِ یوسف کو عملاً کر کے دکھاتے ہیں کہ ڈیم اور موٹر وے ایسے بنتے ہیں، کانکنی یوں ہوتی ہے، بندرگاہیں اس طریقے سے چلتی ہیں۔ لا اینڈ آرڈر ایسے برقرار رکھا جاتا ہے۔
صحرائی ، بنجر اور پہاڑی زمینیں ایسے الاٹ ہو کے شاد آباد ہوتی ہیں، پاکستانیت کے اظہار کے موثر طریقے یہ یہ یہ ہیں۔غداری کی سند کی ایکسپائری ڈیٹ کیسے پڑھی جاتی ہے، اچھے اور برے ملک دشمنوں میں کیسے تمیز کی جائے اور پھر ان سے کیسے کیسے نمٹا جائے۔ پر افسوس صد افسوس کہ اشرافِ کے اخلاصِ اور بے لوث سنہری خدمات کی قدر کرنے والا کوئی نہیں۔ چنانچہ باپ کی عدم موجودگی میں پھر یہ بڑے بھائی کی ذمے داری بن جاتی ہے کہ ایسے کور چشم چھوٹوں کو عقل کا جلاب دیتا رہے۔ اس تنگ نظر ہجوم کی تو طوطے کی طرح ایک ہی رٹ ہے کہ اشرافیہ کو ہمارے لیے بس وہی بہتر لگتا ہے جو وہ ہمارے لیے بہتر سمجھتی ہے۔  اوپر سے یہ جلن کہ دیگر طبقات میں اس قدر غلط فہمی اور مزاج میں دھماکا خیزی ہے تو اشرافیہ کیسے محفوظ ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ جب مشرق ِ وسطی اور یوکرین جل رہا ہے تو امریکا ایک اور نائن الیون سے کیسے بچا ہوا ہے۔ مگر ان بیوقوفوں کو یہ سامنے کی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس طرح امریکا نے دنیا میں جگہ جگہ اپنے اہل کار فائر بریگیڈ کے طور پر بھیج رکھے ہیں اسی طرح اشرافیہ بھی اپنے فرائض سے ایک لمحے کے لیے غافل نہیں۔
حتی کہ کسی نے سادہ لوح بلوچوں کو بھی پٹی پڑھا دی کہ یہ وہ نجیب الطرفین پنجابی خانوادے نہیں جنہوں نے پانچ سو سال پہلے تمہارے چاکرِ اعظم کے لیے بازو کھول دیے تھے۔ وہ دیوانے اور تھے جو چالیس سال پہلے تمہاری محبت میں تمہارے ساتھ ہی پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے۔ پھر وہ بھی عقل کے ہتھے چڑھ گئے۔ اب تو کوئی ملک غلام جیلانی بھی نہیں جو تمہارے لیے مال روڈ پر پلے کارڈ اٹھائے تنہا کھڑا رہے۔ مدت ہوئی اس زمین کو بے فیض و جالب ہوئے۔ اور کوئی احمد فراز بھی تو نہیں بچا۔ بس نشیب ہی نشیب ہے۔ مگر سادگی کو سلام ہے کہ اتنا کچھ گذرنے کے بعد بھی اسی آئین اور اسی جمہوریت اور اسی عدلیہ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں جنھیں خود ان دنوں اپنے ہونے کا جواز ڈھونڈنے کے لالے پڑے ہیں۔ یہ نری بکواس سننے کے بعد بھی یہ ہماری اشرافیہ کا بڑا پن ہی تو ہے کہ ہر بار ایسے زبان درازوں پر ترس کھا کے ہنس پڑتی ہے۔ کیونکہ جو وہ جانتی ہے وہ ہم اکیس کروڑ اسی لاکھ پگلے نہیں جانتے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
meherya · 2 years
Text
dying at ppl screaming/crying/throwing up/etc under tweets talking about the Khalistan Referendum votes happening today in Ontario
3 notes · View notes
Text
Pakistan: Nawaz Sharif To Reclaim PML-N Presidency Seven Years After He Was Disqualified - News18
Three-time former prime minister Nawaz Sharif is all set to become the president of his party, PML-N, seven years after he was disqualified by the apex court from holding any public post, the party announced here on Friday. A senior Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) leader told PTI that Nawaz, 74, will be elected president of the ruling party on May 11 in a meeting of the party leadership. In…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 2 months
Text
سول ملٹری تعلقات
Tumblr media
حکومتیں چاروں صوبوں میں بن چکی ہیں۔ وفاق میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کسی حد تک کنٹرول میں آچکی ہے خصوصاّ جو پچھلے دو سال سے تھی مگر اب بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ یہ خطرہ دوبارہ بھی جنم لے سکتا ہے، اگر نئی حکومت ملک میں معاشی استحکام نہیں لا سکی، اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو یقینا ہمیں مستقبل میں ترقی کے راستے بند ملیں گے۔ ہمارا ملک وجود میں آنے کے بعد چھبیس سال تک آئین سے محروم رہا، کسی آزاد اور خود مختار ریاست کے لیے یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور موجودہ آئین پر ہم چلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ برصغیر میں پاکستان سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حقیقتیں مختلف تھیں اور یہ کہ ہم سرد جنگ کے زمانوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر کیپٹلسٹ طاقتوں کے اتحاد کا حصہ رہے۔ یہ کام نہ ہندوستان نے کیا نہ ہی بنگلا دیش نے۔ جواہر لعل نہرو نے 1961 میں یوگوسلواکیہ کے صد ر مارشل ٹیٹو اور دیگر غیرمنسلک ریاستوں کے ساتھ مل کرایک تنظیم بنا لی جب کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اس خطے میں اسٹر ٹیجک حکمت عملی کے تحت اپنے تعلقات چین کے ساتھ استوار کرنا شروع کر دیے، کشمیر کا مسئلہ ہمیں ورثے میں ملا۔ اس دور میں کہیں یہ گمان نہ تھا کہ چین دو دہائیوں کے بعد اس دنیا کی ایک بڑی فوجی و معاشی طاقت بن کر ابھرے گا۔
ہمارے تعلقات امریکا سے بہت گہرے تھے۔ پاکستان پر مسلط تمام آمروں پر امریکا کا ہاتھ تھا اور جب بھی اس ملک میں جمہوریت یا ایسا کہیے کہ معذور جمہوریت کا نفاذ ہوا، اس جمہوریت کو بھی امریکا کا گرین سگنل ہوتا تھا، لیکن جب جب اس ملک میں جمہوریت آئی، وہ عوام کی طاقت سے آئی اور جب اس ملک پر آمریت مسلط ہوئی، اس کی بنیادی وجہ بھی ہماری سماجی پسماندگی تھی۔ امریکا و پاکستان کے منسلک مفادات میں کہیں بھی جمہوریت کا نفاذ نہ تھا۔ افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جب شمالی ہند اور وسط ایشیا میں امریکا کے اسٹرٹیجک مفادات میں تبدیلی آئی تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے C-130 کو گرتے بھی دیکھا گیا اور بارہا آئین کے آرٹیکل 58 (2) (b) کا اطلاق بھی، اسامہ بن لادن کی موت بھی۔ 9/11 کے بعد جب ان کو ہماری ضرورت پڑی، جنرل مشرف دس سال کے لیے مسلط کیے گئے۔ اس خطے میں چین کی ابھرتی طاقت نے امریکا کو پریشان کر دیا اور اس طاقت کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا نے ہندوستان سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا۔ہم نے اپنی خارجہ پالیسی ، ہندوستان کی طاقت اور اثر ورسوخ کے پس منظر میں دیکھی، یہ ہماری غلط پالیسی تھی۔
Tumblr media
اس زمانے میں میاں نواز شریف کی سوچ یہ تھی پاکستان کے بارڈر کم از کم باہمی تجارت کے لیے کھول دیے جائیں۔ نوازشریف صاحب نے ہندو ستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائے۔ ہندوستان کے وزیر ِ اعظم باجپائی صاحب نے پاکستان کا دورہ کیا۔ مینار پاکستان آئے اور اس زمرے میں باجپائی صاحب نے یہ مانا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ پھر کیا ہوا؟ کارگل کا محا ذ کھل گیا اور میاں صاحب کی حکومت چلی گئی۔ اگر امریکا میں 9/11 کا واقعہ نہ ہوتا اور امریکا کے صدر بش جونیئر نہ ہوتے تو یہاں جنرل مشرف مشکل سے دو سال ہی حکومت کرتے۔ میاں صاحب نے جب دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو ان کا یہ ایجنڈا بھی تھا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا کریں، میاں صاحب کالا کوٹ پہن کے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ میمو گیٹ کھلا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا، یوں چارٹر آف ڈیموکریسی کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس وقت تک خان صاحب میدان میں اتر چکے تھے۔ جب خان صاحب نے نواز شریف کی حکومت میں ڈی چوک پر دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی اس مشکل وقت میں اگرمیاں صاحب کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو صو رتحال مختلف ہوتی۔
پھر امریکا میں فسطائیت سوچ کی حامی ٹرمپ حکومت آگئی۔ ادھر یوسف رضا گیلانی کے بعد ایک اور منتخب وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو چلتا کر دیا گیا۔ جس طرح خان صاحب کو اقتدار میں لایا گیا وہ بھی لاجواب ہے۔ خان صاحب نے ملکی سیاست کو ٹی ٹو نٹی میچ بنا دیا۔ پتا یہ چلا کہ خان صاحب کے پیچھے ایک بین الاقوامی لابی تھی لیکن یہاں جو ان کے لوکل ہینڈلرز تھے انھوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہاں ٹرمپ صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پاکستان میں دو نظرئیے ہیں۔ ایک پارلیمنٹ کی برتری اورآئین کی پاسداری کی سوچ اور دوسری اسٹبلشمنٹ اور ارسٹوکریسی کی سوچ جس میں جمہوریت کو ملک کے لیے بہتر سمجھا نہیں جاتا۔ ان دونوں نظریوں میں جو تضاد ہے، اس تضاد کو ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ساکھ اور سالمیت کے لیے ان دونوں سوچوں کو قریب لایا جائے۔ بہت دیر ہوچکی اب! ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جس کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑے تو اس ملک میں خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے۔
ہمارے ملک کی صوبائی حکومتوں، عدالتوں اور تمام اداروں اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ ہم نے جو ٹرینڈ شروع سے اپنائے تاریخ کو مسخ کرنے کے، فیک نیوز، سیاستدانوں کو بدنام کرنا، جمہوریت کے خلاف سازشیں جوڑنا ان کو ختم کرنا ہو گا۔سول و فوجی تعلقات میں دوریاں ختم کرنی ہوں گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کیسے آگے بڑھتی ہے اس کو دیکھنا ہو گا۔ اچھا ہوا کہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا اور ان کی حکومت بنی۔ لیکن ان کے رحجانات جو ملکی انارکی کی طرف زیادہ ہیں، ان سے ملک کی معیشت کو خطرات ہو سکتے ہیں، اب افہام و تفہیم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے ممبران نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا، خان صاحب کے ماسک پہن کر اجلاس میں بد نظمی پھیلائی، ان کے ان رویوں نے اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ نگراں حکومت نے بڑی خوبصورتی سے ملکی بحرانوں کا سامنا کیا۔ معیشت کو سنبھالا، عدلیہ نے اپنا پازیٹو کردار ادا کیا۔ انتخابات کا وقت مقررہ پر کرائے جو ایک ناممکن ٹاسک تھا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادیں تبدیل کرنی ہوںگی۔ خارجہ پالیسی کی اول بنیاد ہماری معاشی پالیسی ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی اکانومی کو ڈاکیومنٹڈ بنانا ہے۔ بلیک اکانومی کو زیادہ سے زیادہ مارجنلئز کرنا ہے۔ اہم بات ہے سول ملٹری تعلقات، بین الاقوامی طاقتیں، پاکستان ان دونوں حقیقتوں کو ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا کرتی رہی ہیں۔ اس میں نقصان صرف اس ملک کا ہوا ہے۔
جاوید قاضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 2 months
Text
پی ٹی آئی ووٹرز کا انتقام
Tumblr media
الیکشن نے سب کو حیران اور بہت سوں کو پریشان کر دیا۔ سب اندازے، تجزیے غلط نکلے۔ تحریک انصاف کے ووٹر، سپورٹر اتنے نکلے کہ ہر طرف چھا گئے۔ انتخابات سے پہلے تمام تر پابندیوں، سختیوں، جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود، بلے کے بغیر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ قومی اسمبلی میں نمبر ون، خیبر پختونخوا میں تو سویپ کر لیا، پنجاب بھی میں ایک بڑا نمبر حاصل کر لیا اوریہ سب کچھ 2018 کے آر ٹی ایس کے بدلے میں الیکشن کمیشن کے نئے نظام ای ایم ایس کے بیٹھنے کے باوجود ممکن ہوا۔ الیکشن کمیشن کا الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے حوالے سے بنایا گیا ای ایم ایس (Election Management System) تو آر ٹی ایس کا بھی باپ نکلا۔ یہ نظام ماضی کے آ ر ٹی ایس کی طرح پہلے تو بیٹھ گیا اور پھر جب صبح اُٹھا تو مبینہ طور پر رات کو کئی ہارنے والوں کو جیتنے والا اور کئی جیتنے والوں کو ہارنے والے بنا دیا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُس کے کوئی پچاس ساٹھ جیتے ہوئے امیدواروں کو ای ایم ایس کو بٹھا کر ہرایا گیا۔ گویا 8 فروری تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں کے لیے ’’ـ بدلہ لینے‘‘ یا ’’انتقام لینے‘‘ کا دن ثابت ہوا۔ 
دھاندلی کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ابھی تک کے الیکشن نتائج کے مطابق وفاق میں کوئی ایک جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکی، اس لیے یہاں صرف ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے جس کیلئے ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، جے یو آئی ایف وغیرہ میں پہلے ہی بات چیت شروع کر چکی ہے وفاقی سطح پر تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت سازی کیلئے ابھی تک کسی سیاسی جماعت سے رابطہ کرنے کی اطلاعات نہیں ملیں۔ دھاندلی کے الزامات اور ان الزامات کی شنوائی کا جو نظام ہمارے ہاں موجود ہے اُس سے تحریک انصاف کو وہ 150 یا 170 سیٹیں فوری نہیں ملیں گی جس کا وہ دعویٰ کر رہی ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح حکومت سازی کیلئے کوشش کرتی اور ساتھ ساتھ اپنے دھاندلی کے الزمات کیلئے قانونی چارہ جوئی کرتی رہتی۔
Tumblr media
تحریک انصاف کے ترجمان کی خواہش (کہ حکومت سازی کے عمل کو اُس وقت تک روکا جائے جب تک کہ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزمات کا فیصلہ نہیں ہوتا) تو کسی صورت کوئی پوری نہیں کر سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ سے مل کر حکومت بنانےکیلئے ہاتھ ملانے پر تیار ہونگے؟ اگر دوسروں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو پھر وفاق میں حکومت کیسے بنے گی۔ عمران خان کے ماضی کے رویے کی وجہ سے کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے تحریک انصاف سے بھی رابطہ کی اطلاعات نہیں ملیں۔ تحریک انصاف نے ووٹ تو بہت لیے لیکن اگر وہ ماضی کی طرح کسی دوسری سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی یا پھر دھاندلی کا رونا ہی روتی رہے گی تو پھر وہ وفاق میں حکومت کیسے بنا سکتی ہے۔ 
اس وقت تحریک انصاف کیلئے یہ بھی چیلنج ہے کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو سنبھالے کیوں کہ خطرہ موجود ہے کہ ان میں سے کئی، حکومت کا حصہ بننے کی لالچ میں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جا سکتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا، پنجاب میں ممکنہ طور پر ن لیگ ہی حکومت بنائے گی جبکہ وفاق میں اگر تحریک انصاف کو حکومت بنانی ہے تو اپنےماضی کے رویے سے ہٹ کر اپنے سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کیلئے بہت اچھا ہو گا لیکن مجھے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پاکستان کیلئے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ سب سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور اس ملک و قوم کو مشکلات سے نکالیں ۔ یہ ایک خواب ہے جو نجانے کب پورا ہو گا۔ فی الحا ل جو نظر آ رہا ہے اُس کے مطابق وفاق میں پی ڈی ایم طرز کی ہی حکومت بنے گی، پنجاب میں ن لیگ، کے پی کے میں تحریک انصاف، سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت بنے گی جس کا وزیراعلی ٰممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کا ہو گا۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
prabodhjamwal · 2 months
Text
Pakistan Elections: The ‘Militablishment’ May Have Won The Battle, But Is It Losing The War?
“Pakistan’s multiple socio-economic and geographic challenges will only worsen if the country’s powerful military continues to try to control the nation’s decision-making processes” Ershad Mahmud* The recent general elections in Pakistan, the results of which are yet to be finalised, gave birth to distinct themes, echoing with clarity and significance. Among these, a resounding message becomes…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
ووٹ کو نہ سہی خود کو ہی عزت دے دو
Tumblr media
ماڈل بھی وہی ستر برس پرانا ہے اور خواہش بھی جوں کی توں یعنی انتخابات اچھے ہیں اگر نتائج کنٹرول میں رہیں۔ مگر سوار لاکھ اچھا ہو کبھی کبھی گھوڑا بدک بھی جاتا ہے۔ جیسے 1970 میں صدرِ مملکت کو حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی گئی کہ ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کے اصول پر پہلے عام انتخابات کی تاریخی کلغی پی کیپ میں سجانے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو گی مشرقی پاکستان کی 162 نشتسوں میں سے اگرچہ عوامی لیگ زیادہ نشستیں لے گی مگر نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) اور جماعتِ اسلامی کو بھی اچھی خاصی نشستیں ملیں گی۔ اسی طرح مغربی پاکستان کی 148 نشستیں پیپلز پارٹی، قیوم لیگ، جماعتِ اسلامی اور نیپ وغیرہ میں انیس بیس کے فرق سے تقسیم ہو جائیں گی۔ ان جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ چار و ناچار انھیں آپ کا تعاون حاصل کرنا ہو گا اور یوں آپ چاہیں تو وردی اتار کے بھی معقول حد تک بااختیار صدر بنے رہیں گے۔ پھر یوں ہوا کہ حساس اداروں کی تجزیاتی رپورٹیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ووٹروں نے ملک کے دونوں بازوؤں میں وہ میز ہی الٹ دی جس پر مستقبل کا نقشہ بچھایا گیا تھا اور پھر یہ میز ہی چھینا جھپٹی میں ٹوٹ ٹاٹ گئی۔ 
2018 میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ وہی ڈیزائن دوبارہ استعمال ہوا اور کم و بیش سب چیزیں توقعات کے مطابق کنٹرولڈ ماحول میں خوش اسلوبی سے انجام پا گئیں۔ جن کی مشکیں کسنی تھیں انھوں نے بہت زیادہ چوں چاں نہیں کی۔ جس جماعت کو فری ہینڈ ملا اس نے بھی لگ بھگ ڈھائی سال تک تابعداری دکھائی اور اس کے عوض اسے بھی ریاستی بزرگ انگلی پکڑ کے چلاتے سکھاتے رہے۔ پھر پتہ ہی نہ چلا کہ بچے کا قد کیسے بانس کی طرح بڑھنے لگا مگر بزرگ تو بزرگ ہوتے ہیں وہ اسے ببلو گبلو سعادت مند بچہ ہی سمجھتے رہے۔ یہ کرو وہ نہ کرو، یہ کھاؤ وہ کھاؤ، اس سے ملو اس سے گریز کرو وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن اس کی بس ہو گئی اور اس نے کوئی ایسی گستاخی کی کہ بزرگوں سے برداشت نہ ہو سکا اور انھوں نے کھڑے کھڑے یہ کہہ کر نکال دیا کہ لاڈ پیار نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ کچھ دن ٹھوکریں کھانے کے بعد خود ہی سمجھ جائے گا اور آ کے معافی مانگ لے گا اور پھر پہلے کی طرح ہمارے کہنے پر چلتا رہے گا۔
Tumblr media
مگر آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کے بچے کیسے ہوتے ہیں۔ مر جائیں گے پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔ چنانچہ بزرگوں کی پگڑی ہوا میں اڑا دی گئی اور پھر جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ برخوردار برابری کی سطح پر منھ کو آ گیا۔ لہذا تمام مروتیں اور روایات ایک طرف رکھ کے کمبل کٹائی شروع ہو گئی اور اسے عاق نامہ تھما دیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس گستاخ بے وفا برخوردار کے چکر میں جن نسلی تابعداروں کو چور ڈاکو بدعنوان قرار دے کر راندہِ درگاہ کیا گیا۔ انھیں دوبارہ منا کے واپس لایا جائے اور آئندہ کسی نئے لمڈے کو اس کے شجرہِ وفاداری کی چھان پھٹک کے بغیر گود نہ لیا جاوے۔ مگر ضدی بچہ کچھ لے دے کے بھی جان چھوڑنے پر تیار نہیں بلکہ مسلسل مفاداتی کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے اور فیصلہ خدا پر چھوڑ کے سائیڈ پکڑنے کے بجائے اپنے حصے سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
1970 کے بعد پہلا موقع ہے کہ پلان اے، بی، سی یکے بعد دیگرے ناکام ہوتے جا رہے ہیں اور بزرگوں کو ستر پوشی مشکل ہو رہی ہے۔ ان کے اعمال انہی کے سامنے ناچ رہے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں میں پلنے والا برخوردار انہی کو اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہلا ہلا کے دکھا رہا ہے اور مزید کا بھی دعوی دار ہے۔ مگر بزرگ ہیں کہ اس لمحے تک بھی سوشل میڈیا کے بدتمیز دور میں بیسویں صدی کے مائنڈ سیٹ میں مبتلا ہیں کہ ’ڈنڈہ پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔‘ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ 1979 نہیں کہ لٹکانے سے کام چل جائے۔ انیس سو ستانوے بھی نہیں کہ دو تہائی اکثریت کو ٹھکانے لگا کے ڈنڈہ ڈولی کر کے جہاز میں بٹھا دیا جائے۔ یہ تو عقل سے پیدل گروہ ہے جو اپنا نفع نقصان دیکھنے اور بزرگوں کی سننے کے بجائے ’ساڈا حق ایتھے رکھ‘ ٹائپ گیتوں پر ناچتا ہے۔ آگے کا راستہ بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ ان نوجوانوں کے غصے کی اصل وجوہات جاننے کی سنجیدگی سے کوشش کی جائے۔ ان کو محض بچہ سمجھ کے چپس، لیپ ٹاپ اور مفت دواؤں کے لالی پاپ دکھاتے رہیں گے تو یہ اور بھڑکیں گے۔
انھیں عزت کے ساتھ بٹھا کے ان کی بات تحمل سے سنی جائے۔ ان کا جتنا حصہ بنتا ہے دے دیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے کہ یہ ڈگمگا بھی گئے تو خود کو گر پڑ کے سنبھال ہی لیں گے۔ جب اور جتنا مشورہ مانگیں بس اسی پر اکتفا کیا جائے۔ ویسے بھی جو خاکی و نوری افلاطون اس نسل کے تاحیات مامے بننے پر مصر ہیں وہ زیادہ سے زیادہ پانچ دس برس جئییں گے یا اپنے عہدوں پر رہیں گے۔ بعد میں بھی تو انہی لڑکے لڑکیوں نے ملک چلانا ہے۔ بہتر ہے کہ انھیں ابھی سے برابر کا حصہ دار بنا لیا جائے تاکہ آگے کی زندگی گذارنے کے لیے کچھ مشق ہو جائے اور وہ تلخیوں اور بدزنی کے ماحول سے نکل کے مستقبل کے چیلنج جھیل سکیں۔ اگر آپ خدا سے لو لگانے کی عمر میں بھی ڈھیلی لنگوٹ پہن کے اس نسل کے سامنے کبڈی کبڈی کرتے رہیں گے تو پھر تھپڑ، قینچی اور دھوبی پٹکے کے لیے بھی اپنے لخلخاتے انجر پنجر کو تیار رکھیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
pakistantime · 11 months
Text
اس گھر کو آگ لگ گئی
Tumblr media
یہ آگ تو برسوں سے لگی ہوئی ہے صرف شعلے اب نظر آئے ہیں۔ تین صوبے تو یہ تپش بہت عرصہ سے محسوس کر رہے تھے کچھ رہنمائوں نے بار بار خبردار بھی کیا تھا، چاہے وہ خان عبدالولی خان ہوں یا مولانا شاہ احمد نورانی۔ ’تختہ دار‘ پر جانے سے پہلے تو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں آنے والے وقت کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا تھا۔ آج ساری لڑائی کا مرکز ’پنجاب‘ ہے اور جھگڑا بھی بظاہر ’تخت پنجاب‘ کا ہے دیکھیں ’انجام گلستاں کیا ہو گا‘۔ اس بار آخر ایسا کیا مختلف ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پہلے بھی سیاست بے ربط ہی تھی اب بھی کچھ مختلف نہیں، پہلے بھی ملک میں ’سنسرشپ‘ تھی اب بھی ’زباں بندی‘ ہے۔ پہلے بھی سیاسی کارکن، صحافی غائب ہوتے تھے اب بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، پہلے بھی ماورائے عدالت قتل ہوتے تھے اب بھی ہوتے ہیں۔ جو کچھ الگ ہو رہا ہے وہ کچھ یوں ہے: پہلے وزیراعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا تو ’سہولت کار‘ عدلیہ اس عمل کو درست قرار دے دیتی، ملک میں آئین پامال ہوتا تو ’نظریہ ضرورت‘ آ جاتا، ایک وزیراعظم پھانسی چڑھا تو ایک نے ’جوڈیشل مرڈر‘ کیا دوسرے نے عمل کیا۔ دوتہائی اکثریت والے وزیراعظم کو چند افسران نے وزیراعظم ہائوس سے ’کان‘ پکڑ کر باہر نکالا تو اس اقدام کو درست قرار دیا اور کسی نے اف تک نہ کی۔ 
آج مختلف یہ ہے کہ عدلیہ منقسم ہی سہی بظاہر وقت کی اپوزیشن کے ساتھ کھڑی اور سابق وزیراعظم کو وہ ریلیف مل رہا ہے جو مانگا بھی نہیں۔ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ گڈلک، بیسٹ آف لک کے ساتھ زمان پارک پہنچا دیا گیا۔ مگر یہ بات تاریخی طور پر جاننا بہت ضروری ہے کہ پہلے کسی وزیراعظم پر سو کے قریب مقدمات بھی نہیں بنائے گئے۔ جو کچھ پچھلے ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا، کم و بیش ویسا ہی عمل 1992 میں پی پی پی کے رہنما مسرور احسن کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ میں ہوا تھا جب چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد تھے۔ مگر جو قید مسرور نے کاٹی اس کے بارے میں صرف عمران جان ہی لیں تو انہیں اندازہ ہو گا کہ قید و بند کیا ہوتی ہے۔ آج مختلف یہ ہے کہ بادی النظر میں عدلیہ عمران کو ریلیف دینے میں لگی ہے اور اسٹیبلشمنٹ 13 جماعتی حکومتی اتحاد کے ساتھ ہے مگر آگ ہے کہ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ یہ بھی پہلے نہیں دیکھنے کو ملا کہ ایک وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا ہو اور وہ پارلیمنٹ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ہو۔ اب وہ لڑائی کیسی لڑ رہا ہے کامیاب ہو گا یا ناکام اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں مگر شاید عدلیہ سے ایسا ریلیف نہ ملتا تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔ رہ گئی بات اس کے ’لاڈلے‘ ہونے کی تو یہاں تو لاڈلوں‘ کی فوج ظفر موج ہے۔ جو لاڈلا نہیں رہا وہ دوبارہ بننا چاہتا ہے مگر کوئی بنانے کو تیار نہیں۔
Tumblr media
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو سے لے کر عمران خان تک زیادہ تر بڑے سیاست دان گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں مگر شاید یہ بات اس لئے بھی کی جاتی ہے کہ بھٹو کا سیاسی سفر ایوب خان سے شروع ہوا۔ اس نے اس کا آغاز اسکندر مرزا کے زمانے میں ایوان صدر کی لائبریری سے کیا اور بقول قدرت اللہ شہاب ’’چند روز میں پریزیڈینٹ ہائوس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کر رکھ دیا۔‘‘ پھر تو وہ کوئے یار سے نکلا اور سوئے دار تک گیا۔ میاں صاحب اور عمران خان کی تخلیق میں قدر ِمشترک یہ ہے کہ دونوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جبکہ بھٹو نے اپنی عملی سیاست کا آغاز اسکندر مرزا کی کابینہ اور پھر ایوب خان کی کابینہ سے پہلے ہی کر دیا تھا جب وہ 1954ء میں لاڑکانہ آبادگار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ بےنظیر بھٹو نے تو اپنی سیاست کا آغاز برطانیہ میں زمانہ طالب علمی سے کیا اور مارشل لا کیخلاف جدوجہد سے سیاست آگے بڑھائی۔ ہماری سیاست کو برا کہنے، جمہوریت اور سیاست دانوں کو گالی تک دینے والوں کی کوئی کمی نہیں مگر یہ سارے دانشور، تجزیہ کار اور سیاسی دوست صرف ’تخت پنجاب‘ کی سیاست کا جائزہ لے لیں تو بہت سی باتیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ 
ویسے تو یہ اصطلاح ’تخت لاہور‘ کی شریفوں کے دور میں آئی مگر اس کی اصل کہانی جاننے کیلئے سابق مشرقی پاکستان کی سیاست، ون یونٹ اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان کو سمجھنا ضروری ہے۔ میں نے کہا نا کہ آگ تو بہت پہلے سے لگی ہوئی ہے اب اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ اب پنجاب اس کی لپیٹ میں ہے۔ پی پی پی کو چار بار تقسیم کیا گیا کامیابی نہ ہوئی تو شریفوں کو تخلیق کیا گیا۔ انہوں نے آنکھیں دکھائیں تو عمران خان کی تخلیق ہوئی۔ پہلے جنرل ضیاء نے سیاست میں آنے کا مشورہ دیا، دعوت دی پھر جنرل حمید گل سے لے کر دیگر جرنیلوں نے حمایت کی زیادہ تر کا مسئلہ عمران کی محبت نہیں شریفوں اور بھٹو سے نفرت تھی۔ اور یہ سارے ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور آخر کار جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2018 میں اقتدار دلوانے میں مدد کی اور پھر جب وہ ناراض ہوئے تو بہت سے نئے پرانے لاڈلوں کو جمع کر کے اس لاڈلے سے نجات حاصل کی بس 13 لاڈلے اور تخلیق کار ایک غلطی کر گئے کہ ایک تیزی سے غیر مقبول ہوتے وزیراعظم کو مقبول ترین بنا دیا۔ دوسری غلطی یہ کر گئے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے کہ جن کی کوئی کی ضد بن جائے تو وہاں وہ نقصانات اور انجام کی بھی پروا نہیں کرتے۔
اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا، اب بات بہت آگے تک جا چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں اور ہفتوں میں جتنے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے، وہ تین چار سال میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ جو کچھ 9 مئی کو کراچی تا خیبر ہوا وہ بظاہر اتفاقیہ یا قدرتی ردعمل نہیں تھا ایک خاص منصوبہ بندی نظر آرہی تھی۔ عمران کی لڑائی حکومت سے نہیں کہ وہ اس حکومت کو کچھ سمجھتا ہی نہیں اس کی براہ راست لڑائی اور ٹارگٹ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ماضی میں جو لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہے ہیں وہ آج ’اگر مگر‘ کا شکار ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی سیاسی صورت حال ہے اور لگتا ہے انجام بھی غیر معمولی ہو گا۔ جب تک شعلے چھوٹے صوبوں تک رہے کسی کو اس کی تپش کا احساس تک نہ ہوا اب یہ آگ بڑے صوبے تک آگئی ہے۔ ’تخت پنجاب‘ کی لڑائی تختہ تک آن پہنچی ہے۔ ولی خان نے کہا تھا کہ ہم جو کھیل افغانستان میں کھیل رہے ہیں اس کا اختتام ایسا نہ ہو کہ اسلام آباد میں ہو۔ مولانا نورانی نے 1982ء میں کراچی پریس کلب میں کہا تھا ’’اگر یہ باربار کی مداخلت ختم نہ ہوئی تو اس آگ کو کوئی پھیلنے سےکوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
مظہر عباس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
کیا واقعی سب کچھ پاکستان کے لئے؟؟؟؟
ہمارے "سارے بڑے" جو کچھ بھی کرتے ہیں، چاہے منفی ہو یا مثبت، دعوئ یہی کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ملک کے لئے کیا۔ جن لوگوں نے یہ دعوئ نہیں کیا وہ تو واقعی بہت کچھ کر گئے تھے۔ جنہیں قوم آج بھی عزت کی نظر سے دیکھتی ہے اور اپنا محسن سمجھتی ہے۔ لیکن پچاس کی دہائی کے دور سے جو کچھ بھی ہوا اور ہوتا چلا آرہا ہے اس میں اخلاص دور دور تک موجود نہیں بلکہ ذاتی مفادات بڑے نمایاں ہیں۔ لیکن یہ ذاتی مفادات کی جنگ جس خوبصورتی سے ملک اور عوام پر احسان کر کے لڑی جاتی ہے کہ لوگ بھی اس خوبصورت جال میں پھنس جاتے ہیں اور ان "بڑوں" کو کچھ عرصے تک اپنا خیر خواہ اور نجات دہندہ سمجھتے رہتے ہیں۔ لیکن جب ان "بڑوں" کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور وہ " غائب" ہو جاتے ہیں تو پھر یہ معصوم لوگ اپنا سر پیٹتے ہیں۔ لیکن جلد ہی کسی دوسرے "بڑے" کے گرویدہ ہو کر اس کا راگ الاپتے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اب تک یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ ہر دفعہ "ہر بڑے" سے دھوکہ کھانے کے باوجود یہ لوگ پھر بھی کسی "بڑے" ہی کی تلاش میں رہتے ہیں؟ 
شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ ان کے دماغ کو ایسے تیار کیا گیا ہے کہ بغیر کسی "بڑے" کے ان کا گزارہ نہیں، یہ اتنے کمزور اور کم عقل لوگ ہیں کہ خود کچھ نہیں کر سکتے، یہ محتاج ہیں "بڑوں" کے۔ اسی لئے آئے دن نت نئے "بڑے" مارکیٹ میں آتے ہیں اور لوگوں کا ہجوم ان کے پیچھے چل پڑتا ہے کہ بس یہی ہے جس کا انتظار ہے یہی ہماری نئیا پار لگائے گا۔ لیکن افسوس ان چھیاسٹھ سالوں ( کیوں کہ ابتدائی چند سال اچھے لوگ تھے) میں کچھ بھی نہ بدلا بلکہ اور برا ہوتا ہی چلا گیا۔ لیکن سب نے دعوئ یہی کیا کہ جو کچھ بھی کیا "پاکستان" کے لئے کیا۔ ایک اور لطف کی بات یہ ہے کہ جو بھی "بڑا" آیا، ملک کی خدمت کے لئے آیا لیکن خاندانی جاگیر بنا کر گیا، کیوں کہ اس کے بعد اس کی نسل سے مسلسل "بڑے" بنتے ہی چلے جاتے ہیں۔ "خاندانی اینٹر پرائز اور خاندانی اینکروچمنٹ"۔ لیکن درحقیقت ان "بڑوں" نے دیا کیا؟ نسلی تعصب، عصبی تعصب، لسانی تعصب، سماجی و معاشی تخصیص، جہالت، مفلسی، علاج معالجے کی شدت سے کمی، تباہ شدہ انفراسٹرکچر، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی، سیکیورٹی ندارد جو کہ قانوناً ریاست کی ذمہ داری ہے "اسی فیصد " ان "بڑوں " کی حفاظت کے لئے ہے۔ 
کیا یہی پاکستان کی خدمت ہے؟ دوسری طرف ان میں سے کسی کی بھی حالت درگوں نہیں سب ماشاءاللہ سے باہر جائیداد بھی رکھتے ہیں اور وقت پڑنے پہ ان کی پناہ گاہیں بھی باہر ہی کہ ممالک ہوتے ہیں۔ اصل میں "ان بڑوں" نے دوسرے ممالک کے "مندوبین" کے طور پر یہاں کام کیا پاکستان کے وسائل بڑی خوبصورتی سے ان ممالک میں منتقل کئے اپنا مستقبل محفوظ کیا اور ان ممالک کی معاشی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اسی لئے تو یہ جس تسلسل سے ان ممالک کا دورہ کرتے یا لمبی رہائش اختیار کرتے ہیں، کسی عام "گرین پاسپورٹ" رکھنے والے شخص کے لئے یہ ممکن ہے؟ ذرا سوچیں۔ جب کبھی "حقیقت پر مبنی" تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ کتنے ملکوں پاکستان کی بدولت ترقی کی۔ ایک لمبی فہرست ہو گی۔ یہ وہ سارے ممالک ہوں گے جن میں ہمارے "بڑے یا ان کی نسل" سکھ اور چین کی زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ اس پر بھی بس نہیں ہوتا ہے، پھر ان ممالک کا خوف ایسا ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے کہ اگر وہ ناراض ہو گیا تو ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی، ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا، پاکستان کی بقا (نعوذبااللہ) اسی ملک سے وابستہ ہے۔ 
اس کے بتائے ڈکٹیشن کے علاوہ کچھ نہیں کرنا۔ اور ہم بے وقوفوں کی طرح سر ہلاتے رہتے ہیں۔ ان "بڑوں" کا ایک کمال یہ تھا کہ انہوں نے لوگوں میں اتنی دوریاں اور نفرتیں پیدا کیں کہ لوگ اس سے باہر ہی نہ نکل سکے کہ اجتماعی مفاد کی کوئی بات سوچتے۔ ایک معمولی سی مثال لیں پاکستانی ڈرامے ساٹھ کی دہائی سے ہی مشہور تھے۔ وہ صرف قومی زبان میں ہی بنتے تھے پھر جیسے جیسے ترقی ہوئی علاقائی زبانوں میں بھی ڈرامے بننے لگے۔ لیکن حال یہ کہ اردو کے ڈرامے میں سب اردو ہی بولیں گے یا انگریزی کی آمیزش کی اجازت تھی بالکل اسی طرح سندھی ڈرامے میں ہر کوئی سندھی ہی بولے گا یا انگریزی، الغرض پشتو ڈرامے ہوں، پنجابی یا بلوچی انگریزی کی شمولیت ممکن تھی لیکن قومی یا کسی علاقائی زبان کی نہیں۔ یہیں سے وہ تعصب کا بیج ڈلا جس سے نفرتیں جنم لیتی ہی چلیں گئی۔ جب کہ بہت آسانی سے اور زبانوں کو استعمال کیا جاسکتا تھا اور ان کا ترجمہ اسکرین پر لکھ کر آسکتا تھا۔ 
یوں کرنے سے زبانوں سے ہم آہنگی بڑھتی اور آپس کی محبت بھی۔ لیکن یہی تو نہیں چاہیے تھا، چاروں صوبے والے ایک دوسرے سے اجنبی رہیں، تب ہی تو ان کی کامیابی تھی، ان کی تہذیب میں کہیں میلاپ نہ ہو جائے، انہیں الگ الگ ہی رکھنا ہے۔ اپنے دل کی بات یہ کھل کر کہہ تو سکتے نہیں تھے تو کہتے تھے کہ: پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے، فلاں علاقے میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، وہ پاکستان اور عوام کے دشمن ہیں، کوئی کبھی میر جعفر تو کبھی میر صادق قرار دیا جاتا، خراب زبان کا کھل کر استعمال کیا جاتا اور پس پردہ پکی یاری۔ اب اب سے گزارش ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور ان بڑوں سے جان چھڑائیں جنہوں نے پاکستان کے لئے کچھ نہیں صرف اپنے لئے سب کچھ کیا ہے۔
سید منہاج الرب
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes