Tumgik
risingpakistan · 4 days
Text
پی ٹی وی کی بھی نجکاری کی جائے
Tumblr media
ہماری لڑکھڑاتی معیشت اگر پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے اداروں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو کیا یہ پی ٹی وی کے لنگر خانے کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟ اگر دیگر اداروں کی نجکاری کا سوچا جا سکتا ہے تو کیا پی ٹی وی کے سفید ہاتھی کی نجکاری نہیں ہو سکتی؟ پبلک پرائیویٹ پارٹنر سکیم کا بڑا شہرہ ہے تو کیا اس سکیم کا اطلاق پی ٹی وی پر نہیں ہو سکتا؟ کیا عقل اور دلیل کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار ہے کہ بجلی کے بلوں سے تیس پینتیس روپے ٹیکس کاٹ اس ادارے میں منظور نظر افراد کو نوازا جائے اور اندھا دھند نوازا جائے؟ یہ ایک قومی ابلاغی ادارہ ہے اور یہاں کوئی میرٹ ہے یا یہ محض اپنے اپنے حصے کے کارندوں کو نوازنے کے لیے ایک چراگاہ ہے؟ پی ٹی وی کی الیکشن ٹرانسمیشن اس وقت شہر اقتدار میں زیر بحث ہے۔ معلوم نہیں آپ میں سے کسی نے یہ ٹرانسمیشن دیکھی ہے یا نہیں لیکن واقفان حال کا دعوی ہے کہ یہ ایک ایسی واردات تھی کہ اپنی نوعیت میں یہ نیب کا کیس ہے۔ یہ ٹرانسمیشن صرف بیس بائیس روز چلی۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس مختصر مدت کے لیے جو دو اینکر رکھے گئے تھے ان کا معاوضہ کیا تھا؟ سر پیٹ لیجیے ، یہ رقم قریب پونے دو کروڑ روپے بنتی ہے۔ یعنی قریب 84 لاکھ فی کس۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ایک ماہ سے بھی کم مدت کے لیے ٹی وی شو کرنے پر کسی میزبان کو 84 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا کوئی جواز بنتا ہے؟ چند روز کے پروگرام اور دو اینکروں کو پونے دو کروڑ روپے۔ اس بے رحمی سے تو کوئی مال غنیمت بھی تقسیم نہ کرتا ہو جس سفاک انداز سے پاکستان ٹیلی وژن کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔ اس رقم میں دنیا کا قابل ترین آدمی بلایا جا سکتا تھا اور اس سے پروگرام کرایا جا سکتا تھا۔ لیکن پی ٹی وی نے اس رقم سے جو اینکر رکھے، ان کی صلاحیت اور تعارف کیا ہے۔ یہ معاوضہ کیا انہیں ان کی صلاحیت پر دیا گیا یا اس کی وجوہات کچھ اور تھیں؟ یہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ کیا کوئی فورم ہے جہاں پر اس بندر بانٹ کی بابت سوال پوچھا جا سکے؟ پی ٹی وی میں معاوضے دینے کا طریقہ کار کیا ہے؟ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کا کوئی اصول ہے یا یہ مال غنیمت ہے اور یہ بانٹنے والے کی مرضی ہے کس کو کتنا عطا فرما دے؟ اتنا بھاری معاوضہ جنہیں دیا گیا ان کا مارکیٹ ریٹ کیا ہے؟
Tumblr media
یہی نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق پی ٹی وی کی اس الیکشن ٹرانسمیشن کا صرف کھانے کی مد میں آخری دو دن کا بل 48 لاکھ روپے بنا۔ کیا کوئی ہے جو پی ٹی وی انتظامیہ سے پوچھ سکے کہ ان دو دنوں میں اس ٹرانسمیشن کے مہمانوں نے ایسا کیا کھا لیا کہ اس کا بل 48 لاکھ روپے بنا؟ یہ لوگ کھانا کھاتے رہے یا سارے معززین نے مل بیٹھ کر پیسے ہی کھائے؟ اس سارے پینل کو تمام شرکا کو اور ٹیکنیکل سٹاف کو اکٹھا کر کے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں بند کر دیجیے اور اسے کہیے کہ دو دن جب اور جتنا اور جو چاہو یہاں سے کھا لو۔ پھر دو دن کے بعد حساب کر لیجیے کہ کیا وہ 48 لاکھ کا کھانا کھا گئے؟ ٹرانسپورٹ کا بھی سن لیجیے، سینیہ گزٹ کی خوف ناک چیزوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق ٹرانسپورٹ پر ایک کروڑ روپے کا خرچ آیا، قریب اتنا ہی خرچ لوگوں کی رہائش کی مد میں ڈالا گیا۔ یہ بے رحم اور سفاک اخراجات اس ادارے کے ہیں جو اپنے ذرائع خود تلاش کرنے کے قابل نہیں اور جسے چلانے کے لیے ہر گھر کے بجلی بل سے تیس روپے کا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ 
غریب اور مسکین لوگ بھی یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کیا اس لیے کہ پی ٹی وی میں منظور نظر افراد کو نوازا جائے۔ کیا قومی اداروں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے؟ اور کیا ایسا سلوک کرنے والے قومی مجرم نہیں؟ ایسا ہر گز نہیں کہ پی ٹی وی میں قابل سٹاف نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کارندوں کو نوازا جاتا ہے اور اس انداز سے نوازا جاتا ہے کہ محنت کرنے والا کارکن مایوس ہو کر لا تعلق ہو جاتا ہے۔ ہزاروں میں پی ٹی وی کا سٹاف ہے لیکن ڈائریکٹر نیوز اور ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز اور اس جیسے عہدے پر باہر سے منظور نظر کارندوں کو لا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی کا اپنا ریگولر سٹاف جب موجود ہے تو باہر سے کنٹریکٹ پر لوگوں کو بھاری معاوضے پر لا کر کیوں بٹھایا جاتا ہے؟ جو بندر بانٹ پر اعتراض کرتا ہے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور جو سہولت کار بن جاتا ہے وہ بیک وقت جی ایم ، نیوز کنٹرولر اور ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز کے تین تین عہدوں پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
پی ٹی وی ایک متفقہ چراگاہ بن چکا ہے۔ میرٹ نام کی یہاں کوئی چیز نہیں رہی۔ ہر حکومت اپنے منظور نظر لوگوں کو باہر سے لا کربٹھاتی ہے اور اس کی وجہ ان کی متعلقہ شعبوں میں مہارت نہیں ہوتی ۔ یہ امور دیگر ہوتے ہیں جو ان لوگوں کو منصب پر لا بٹھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے ۔ موجودہ معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ پی ٹی وی کو ایک چراگاہ کے طور پر چلایا جائے۔ اسے ایک ادارہ بنانا ہو گا۔ اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر سفید ہاتھی کو ختم کر دینا چاہیے۔ اس کا سنہرا دور گزر چکا۔ اب یہ ایک بوجھ ہے۔ سماج پر بھی اور قومی خزانے پر بھی۔ قومی زندگی میں اس کا مثبت کردار عرصہ ہوا ختم ہو چکا ہے۔ نہ یہ اچھے ڈرامے بنا رہا ہے نہ کوئی ڈھنگ کی ڈاکومنٹری بن رہی ہے۔ سیاحت سے سماج تک کسی موضوع میں اس کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں رہا۔ یہ صرف ایک چراگاہ بن چکا ہے۔ جہاں منظور نظر لوگ آتے ہیں تین چار ہفتوں میں اسی نوے لاکھ لے کر چلے جاتے ہیں۔
اب کچھ آئوٹ آف دی باکس سوچنا ہو گا۔ یا تو اسے ایک ادارے کے طور پر کھڑا کیا جائے اور بندر بانٹ کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے اور اگر یہ ممکن نہیں تو جہاں سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کی جارہی ہے وہیں پی ٹی وی کی بھی نجکاری کر دی جائے۔ جتنے وسائل اور انفراسٹرکچر اس کے پاس ہے، اس میں پاکستان کے تمام چینل چل سکتے ہیں۔ اگر پی ٹی وی اپنے لیے مالی امکانات خود تلاش نہیں سکتا تو بجلی کے بلوں کی مد میں مہنگائی کے ستائے لوگوں سے ٹیکس لے لے کر اسے کیوں چلایا جائے۔ بجا کہ ریاستی ٹی وی کو نجی ٹی وی کے کاروباری ماڈل پر نہیں چلایا جا سکتا لیکن اسے موجودہ طرز پر بھی نہیں چلایا جا سکتا جہاں قومی وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر بے رحمی سے منظور نظر افراد میں بانٹا جاتا ہے۔
  آصف محمود 
بشکریہ روزنامہ ٩٢نیوز
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
اینڈرائیڈ فون کے سسٹم کی رفتار کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟
Tumblr media
سمارٹ فون استعمال کرنے والے بیش تر افراد کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کا اینڈرائیڈ سسٹم چلتے چلتے سست پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں کافی دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ مجلہ ’سیدتی‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اینڈرائیڈ سسٹم کے سست پڑنے کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں جن میں سب سے کامن وجہ سٹوریج کا بھر جانا ہوتا ہے جس کے باعث سسٹم کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق سمارٹ فون کی رفتار کو بڑھانے کے متعدد طریقے ہیں جن میں فون کو ’ری سٹارٹ‘ کرنا سب سے پہلا طریقہ ہے۔ ایسا کرنے سے فون کی میموری بھی دوبارہ مرتب ہو جاتی ہے اور اضافی جگہ بھی مل جاتی ہے جس سے فون کی رفتار میں قدرے بہتر آ جاتی ہے۔ ایسا کرنے سے یعنی فون کو ری سٹارٹ کرنے کے باوجود بھی حالت میں بہتری نہ آنے کی صورت میں کچھ اور طریقوں پر عمل کیا جاسکتا ہے۔  ۔ ممکن ہے کہ فون کی میموری بھر چکی ہو۔ اس میں کمی کریں۔ ۔ اینڈرائیڈ سسٹم کو اَپ ڈیٹ کیا جائے۔ ۔ فون میں انسٹالڈ متعدد ایپلی کیشنز جو بیک گراؤنڈ میں ایکٹیو رہتی ہیں، وہ بھی فون کی رفتار کو متاثر کر سکتی ہیں۔ ۔ جدید ایپلی کیشنز جو کہ مخصوص فونز کے لیے ہوتی ہیں، اگر انہیں پرانے ورژن کے فون میں انسٹال کیا جائے تو اس سے پرانے فون کی رفتار پر فرق پڑ سکتا ہے۔
Tumblr media
اینڈرائیڈ فون کو فاسٹ کرنے کے بعض طریقے سکرین کو صاف کرنا بعض اوقات سمارٹ فون کی سکرین بھی رفتار کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ متعدد ونڈوز سکرین پر ایکیٹو ہوتی ہیں جیسے ای میلز ، موسم کے حالات یا کیلنڈر وغیرہ، اس صورت میں بھی فون کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔ جب بھی آپ اپنے فون کو استعمال کرنے کے لیے ایکٹیو کرتے ہیں تو اس صورت میں آپ کا فون ان تمام ایپلی کیشنز کو ایکٹیو کرتا ہے۔ اگر ان ایپلی کیشنز کی تعداد کو کم کر دیا جائے تو فون کی رفتار بھی قدرے بہتر ہو سکتی ہے۔
ایپلی کیشنز کی صفائی وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے فون پر ایپلی کیشنز کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات آپ ضروری سمجھ کر کسی ایپلی کیشن کو انسٹال کر لیتے ہیں مگر وہ آپ کے استعمال میں نہیں آتی مگر فون کی میموری میں جگہ بنا لیتی ہے جس سے فون کے سٹوریج بھر جاتی ہے۔  ’فیس بک‘ ایپلی کیشن آپ کے فون کی زیادہ سپیس استعمال کرتی ہے۔ اس کی جگہ اگر آپ ’فیس بک لائٹ‘ استعمال کریں تو یہ زیادہ مناسب ہو گی جو فون کے وسائل کو بھی زیادہ استعمال نہیں کرتی۔ اسی طرح ’ایکس ایپ‘ سابق ٹوئٹر یا اوبر اور یوٹیوب کے بھی لائٹ ورژن موجود ہیں تاہم یہ ورژن تمام ممالک کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے لیے آپ کو چاہیے کہ ’اینڈرائیڈ گو‘ سسٹم کو استعمال کریں۔
محفوظ ڈیٹا کی صفائی اس مرحلے میں آپ کو چاہیے کہ اپنے فون کی رفتار کو بہتر بنانے کے لیے غیرضروری سٹور کیے ہوئے ڈیٹا کو فون سے نکالیں کیونکہ اضافی و غیرضروری ڈیٹا آپ کے فون کی رفتار کو کم کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ اس عمل کو بہتر طور پر کرنے کے لیے آپ کو گوگل سے ’فائلز‘ ایپ کو انسٹال کرنا ہو گا جو خودکار طریقے سے آپ کے فون کی سٹوریج کا جائزہ لینے کے بعد تمام غیرضروری یا ڈبل سٹور ہونے والی فائلز جو آپ کے استعمال میں نہیں، کو ڈیلیٹ کر دے گی۔ اگر آپ کے فون کی سٹوریج کیپسٹی 16 گیگا بائٹس ہو تو اس ایپ کے ذریعے اضافی ڈیٹا کو اپنے فون سے نکالنے میں معاون ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ آپ اپنے فون کو اضافی لوڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے ’گوگل ڈرائیو‘ یا ’کلاؤڈ‘ کا بھی استعمال کر سکتے ہیں تاکہ فون کی سٹوریج پر دباؤ میں کمی کی جا سکے۔
بیک گراؤنڈ کے عمل کو محدود کرنا فون کے بیک گراؤنڈ میں استعمال ہونے والی ایپس کسی بھی ڈیوائس کے لیے مفید نہیں ہوتیں، ان سے کارکردگی بہترین نہیں ہو سکتی۔
جی پی یو کی کارکردگی فون کی رفتار کو بہتر رکھنے کےلیے اپنے سیٹ کے سافٹ ویئر پر انحصار کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ ’جی پی یو‘ سسٹم کی کارکردگی کو فعال کریں۔ اس سے سیٹ کی کارکردگی بہتر ہو گی۔
نقصان دہ پروگرامز سے بچیں سمارٹ فونز کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ وہ پروگرامز ہوتے ہیں جو فون کی میموری کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ یہ پروگرامز بعض ایپلی کیشنز کے ساتھ ضمنی طور پر انسٹال ہو جاتے ہیں، اس لیے انہیں فون سے نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ آخر میں اس بات کو یاد رکھیں کہ فون کو وائرس سے محفوظ رکھنے اور اس کی رفتار کو بہتر رکھنے کےلیے ضروری ہے کہ آپ اچھی قسم کا اینٹی وائرس اپنے فون میں انسٹال کریں اور اس کے ذریعے اپنے فون کو ان نقصان دہ پروگراموں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟
Tumblr media
نگران حکومت کے سنہرے دور کے آغاز میں ہی ایک وزیر نے سب کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس لیے یہاں پر اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا خیال تھا نگران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے چلے ہیں۔ جتنا بڑا آپ کے پاس ہتھیار ہوتا ہے، خوف اتنا ہی کم ہونا چاہیے۔ جب سے ہم نے بم بنایا ہے ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ اب دشمن ہمیں کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ سے انڈیا تک جتنی آوارہ طاقتیں ہیں، جہاں چاہے گھس جاتی ہیں وہ پاکستان کی سرحدوں کے اند آتے ہوئے سو دفعہ سوچیں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار بھی یہی بتاتے تھے کہ یہ والا بم چلانے کے لیے نہیں، دشمن کو دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب نگران وزیر صاحب نے اس بم سے اپنے ہی عوام کو دھمکانا شروع کیا تو لگا کے شاید پاکستان ایک اور طرح کی دفاعی ریاست بننے جا رہی ہے۔ کل اسلام آباد میں زیرِ حراست صحافی اور یوٹیوبر اسد طور کی 78 سالہ والدہ کا ایک مختصر سا ویڈیو دیکھا جب وہ اپنے بیٹے سے مل کر آئی تھیں۔ وہ کھانا لے کر گئیں تھیں طور نے نہیں کھایا، وہ اصرار کرتی رہیں۔ طور بھوک ہڑتال پر تھا اس لیے غالباً والدہ کو ٹالنے کے لیے کہا بعد میں کھا لوں گا۔
ان کی والدہ نے ایف آئی اے کو، عدالتوں کو یا کسی اور ادارے سے کوئی شکوہ نہیں کیا صرف یہ دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو ہدایت دے۔ اسلام آباد کو ہمیشہ دور سے حسرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی شام میں دس سیانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ کسی کے پاس اندر کی خبر، کسی کے پاس اندر سے بھی اندر کی اور پھر وہ جو اندر کی خبر باہر لانے والوں کے نام اور حسب نسب بھی بتا دیتے ہیں۔ اسد طور سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی سیانا لگا۔ کبھی کبھی اس کے یوٹیوب چینل پر بٹن دبا دیتا تھا۔ منحنی سا، جذباتی سا، گلی کی نکڑ پر کھڑا لڑکا جو ہاتھ ہلا ہلا کر کبھی ٹھنڈی کبھی تلخ زبان میں باتیں کرنے والا۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں بلوچستان سے اپنے اغوا شدہ پیاروں کا حساب مانگنے آئی ہوئی بچیوں اور بزرگوں نے کیمپ لگایا اور اسلام آباد کے زیادہ تر سیانے اپنے آتش دانوں کے سامنے الیکشن کے نتائج پر شرطیں لگا رہے تھے تو وہ کیمرا لے کر احتجاجی کیمپوں سے ان کی آواز ہم تک پہنچاتا رہا۔
Tumblr media
میں نے سوچا کہ یہ کیسا یوٹیوبر ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ بلوچ کہانیاں سنا کر کبھی بھی کوئی یوٹیوب سٹار نہیں بنا۔ اس سے پہلے سنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس پر بُرا وقت آیا تھا تو ان کی عزت کا محافظ بنا ہوا تھا۔ عدلیہ کی سیاست کی کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن میں یہی سمجھا کہ سیانوں کے اس شہر اسلام آباد میں شاید ہمیشہ ایک دیوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ اور ثقافتی روایت بھی ہے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار میں مسخرہ رکھتے تھے، گاؤں کا چوہدری بھی میراثی کو برداشت کرتا ہے۔ گاؤں میں ایک ملنگ نہ ہو تو گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اسد طور بھی مجھے کیمرے والا ملنگ ہی لگا جس کے بغیر اسلام آباد کا گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اس گاؤں میں ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ طور پر زیادہ غصہ عدلیہ عظمیٰ کو ہے یا ان کو جن کے لیے اسلام آباد کے صحافی کندھوں پر انگلیاں رکھ کر بتاتے تھے، پھر کسی نے بتایا کہ یہ کوڈ ورڈ پاکستان کے عسکری اداروں کے لیے ہے۔ اسلام آباد کے ایک بھیدی نے بتایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کس ادارے کی زیادہ بےعزتی ہوئی ہے لیکن یہ کہ اسد طور تھوڑا سا بدتمیز ہے، کسی کی عزت نہیں کرتا۔
مجھے اب بھی امید ہے کہ اسلام آباد میں کوئی سیانا کسی بڑے سیانے کو سمجھا دے گا کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے دشمن چنا ہے اتنا دبلا پتلا طور۔ اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے نگران وزیراعظم ہمیں ایک دفعہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں۔ اسد طور کی والدہ کیمرے پر دعا مانگ چکی ہیں کہ اللہ ان کے بیٹے کو ہدایت دے۔ دونوں ادارے جن کے ساتھ اسد طور نے بدتمیزی کی ہے، ان کے سربراہ ہمیں کبھی کبھی دین کا درس دیتے ہی��۔ دعا ہر دین کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر وہ انصاف نہیں دے سکتے تو طور کی والدہ کی دعا کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ اپنے لیے بھی اللہ سے ہدایت مانگ لیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
معیشت اور جمہوریت کو بچانے کا چیلنج؟
Tumblr media
پاکستان میں توقع یہی تھی کہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ملکی حالات میں بہتری آجائے گی اور اس کے باعث معاشی مشکلات بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائیں گی، اِس طرح پاکستان میں پُرامن باشعور جمہوریت پسند رحجان معاشرے میں فروغ پائے گا، جس کے باعث صنعتی و تجارتی شعبہ کی سرگرمیاں بھی مثبت سمت پر شروع ہو پائیں گی، مگر یہاں’’ اُلٹی ہو گئیں سب تدبریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ اور ملکی تاریخ میں ایک بارپھر الیکشن تنازع ہو گئے، اس بار تو کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہارنے والے تو شور مچاتے ہی ہیں جتنے والے بھی اندر ہی اندر سے گھبرائے اور پریشان پریشان نظر آرہے ہیں، انتخابات کے بعد یہ سب کچھ نہ ہوتا تو پاکستان اور عوام کیلئے اچھا ہوتا، اس سے اندرون ملک تو ہمارے 25 کڑور سے زائد عوام پر یشان ہیں اور انہیں روز مرہ مہنگائی اور بے روزگاری نے کئی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، اصل پریشانی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور اُن کے خاندانوں کو ہے ، میں ابھی آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں آٹھ دس ہفتے گزار کر آیا ہوں ، وہاں جمہوریت سے زیادہ ریاست کو عوام کو معاشی ریلیف اور Peace of Mind کی فکر ہے، وہاں ہر شخص روزگار کمانے میں مصروف ہے، وہاں ٹریفک اور روزمرہ زندگی میں مثالی ڈسپلن نظر آتا ہے، 
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا دیگر کئی ترقی یافتہ مغربی ممالک وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھی جاتی بلکہ اس سے پاکستان کا امیج سنورنے کی بجائے بگڑتا جا رہا ہے، یہ بات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس پر قومی اداروں کو ایک سوچ کے تحت کوئی کام کرنا ہو گا، ہمارے سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی ناہمواری ایک قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، قومی معاشی مسائل حل ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اندرون ملک تو عوام کی ایک بڑھتی تعداد جمہوریت ہی سے بیزار نظر آرہی ہے، جبکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، اب وہ بھی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو قومی وسائل کا ضیاع سمجھ رہے ہیں، اس سارے پس منظر میں پاکستان کے جمہوری نظام کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو ایک مثبت سوچ نہیں ہے اس سوچ کو دور کرنے کیلئے ہمارے سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر سیاسی کشیدگی اور مختلف اداروں پر نام لئے بغیر عدم اعتماد کے اظہار کے رحجان کو دور کرنا ہو گا، 
Tumblr media
دنیا بھر میں جمہوری نظام میں کئی جماعتیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کی جمہوری سیاسی جماعتیں خود اپنے آپ کو ٹھیک کرنے پر فوکس کرتی ہیں، اگر دنیا بھر میں ایسا ہو سکتا ہے تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا، اس وقت خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاق اور صوبوں میں کوئی مستحکم حکومت نہ ہوئی تو سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ نئے قرضوں کے حصول اور پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے پلان متاثر ہو سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ریاست اور عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور پھر سرکاری اداروں کے دعوئوں کے برعکس خوفناک قسم کی مہنگائی کا سیلاب آئے گا، جس سے سب سے زیادہ جمہوریت متاثر ہو گی، اس لئے پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو بچانا پڑے گا، چاہے اس کیلئے شراکت اقتدار کا فارمولا ہو یا مشاورت کا سلسلہ ہو، سب چیزوں پر اتفاق رائے ضروری ہے، اس سلسلے میں قومی سطح پر قومی اداروں اور سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر ایک متوازن اصلاحاتی نظام وضع کرنا ہو گا اس سے پاکستان میں زوال پذیر حالات شاید بہتری کی طرف چلے جائیں، اس وقت ہم سب کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے کیسے بچایا جائے۔ 
پاکستان الحمد للہ قدرتی وسائل سے مالا مال مثالی ملک ہے اس کے پاس 60 فیصد سے زائد یوتھ ہے، یہ اثاثہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں ہے، لیکن وہاں اس کے باوجود قومی ترقی کو ذاتی مفادات اور کاروبار پر ترجیح دی جاتی ہے کاش یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہو جائے، اور قومی وسائل قوم پر ہی استعمال کرنے کے قوانین اور نظام بن جائے، پھر عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ جمہوریت ہے یا نہیں، عوام کو روٹی ، سیکورٹی اور ذہنی سکون چاہئے اور یہ سب کچھ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو یہ سمجھنا ہو گا۔
سکندر حمید لودھی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
Tumblr media
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
Tumblr media
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
پاکستان میں مہنگائی کا سونامی آنے والا ہے
Tumblr media
امریکا میں سرمایہ کاری اور مالیاتی امور کے حوالے سے مشاورتی خدمات دینے والی ایک بڑی کمپنی فرانوٹمنٹس نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتے قرضوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام بڑی معیشتیں اپنی ’’مالی موت‘‘کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ کمپنی کے سربراہ نے امریکی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں پیش گوئی کی ہے کہ آنے والی ایک دہائی’’مشکل قرضہ جات کی دہائی‘‘ہو گی۔ قرض لینے کے بحران نے ترقی یافتہ اور ابھرتے ممالک کو اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے اور اس بحران کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی قرضہ جات میں ایک ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ ستمبر میں یہ حد 3 ہزار ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچی ہے۔ یہ صورت حال گزشتہ چالیس برسوں میں عالمی شرح سود میں سب سے زیادہ اضافے کے موقع پر سامنے آئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جاپان جیسے ملکوں میں قرضوں میں اضافے کی شرح بے قابو ہو چکی ہے اور عالمی قرضہ جات میں انھی ممالک کا قرضہ 80 فیصد سے زائد ہے۔ ابھرتی مارکیٹوں کو دیکھیں تو چین بھارت اور برازیل نے سب سے زیادہ قرضے لیے ہیں۔ کمپنی کے سربراہ آرتھر لافر کا کہنا ہے کہ خدشہ اس بات کا ہے کہ اپنے قرضوں کے مسائل حل نہ کرنے والے کچھ بڑے ممالک سست نمو کا شکار ہو کر اپنی مالیاتی موت مر جائیں گے جب کہ کچھ ابھرتی معیشتیں دیوالیہ بھی ہو سکتی ہیں۔
بری خبر یہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتیں جاپان اور برطانیہ 2023 کے دوسرے نصف میں سرد بازاری کا شکار ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف جاپان کی معیشت غیر متوقع طور پر گراوٹ کا شکار ہو کر اس کی GPD گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں 3.3 فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ جب کہ برطانوی معیشت میں گراوٹ اس سال میں آنے والی ہے۔ جو اعداد و شمار جاپان کی کابینہ نے دیے ہیں اس کے مطابق جاپان عالمی معیشتوں میں اپنی تیسرے نمبر کی پوزیشن کھو چکا ہے۔ اب وہ دنیا کی تیسری بڑی عالمی معیشت نہیں رہا۔ گزشتہ اکتوبر میں آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی تھی کہ اب جرمنی برطانیہ کی جگہ تیسری بڑی عالمی معیشت بن جائے گا۔ برطانوی جریدے اکنامسٹ کے معاشی تجزیہ نگار نے بی بی سی کو بتایا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کہ جاپانی معیشت کی قدر 4.2 ٹریلین ڈالر کے برابر ہے جب کہ اس کے مقابلے میں جرمن معیشت کی قدر 2023 میں 4.4 ٹریلین ڈالر رہی۔ آئی ایم ایف کی ڈپٹی ہیڈ گیتا گوپی ناتھ نے ایک پریس کانفرنس نے اس کی اہم وجہ یہ بتائی کہ جاپانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ سال 9 فیصد تک گر گئی۔
Tumblr media
برطانیہ کے لیے بھی برا ٹائم شروع ہونے والا ہے۔ گزشتہ سال میں اس کی GDP 0.3 فیصد رہی۔ اور گزشتہ سال ہی جولائی سے ستمبر کے درمیان اس کی معیشت 0.1 فیصد سکڑ گئی۔ جب کہ اسڑلنگ ڈالر اور یورو کے مقابلے میں کمزور رہا۔ گزشتہ ہفتے جو ڈیٹا ریلیز ہوا ہے اس کے مطابق برطانیہ اور جاپان جو گروپ آف سیون کہلاتے ہیں کو سرد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کنزرویٹو پارٹی پچھلے ستر سالوں سے زیادہ تر اقتدار میں رہی ہے اب معاشی معاملات میں عوام لیبر پارٹی پر زیادہ اعتماد کر رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی عوام کا پہلی مرتبہ معیار زندگی گرا ہے۔ اب پاکستان کی طرف آجاتے ہیں۔ جب دنیا کی اتنی بڑی معیشتیں اتنے بڑے بحران میں ہیں تو اس کا اثر لامحالا پاکستان پر بھی پڑے گا۔ نئی حکومت بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنے جا رہی ہے۔ عوام پر مزید ٹیکسوں کی بھر مار ہو گی۔ عوام کی رہی سہی برداشت بھی جواب دے جائے گی۔ پرائیو ٹائزیشن سے عوام کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو کر سڑکوں پر آجائے گی۔ ایسی مہنگائی ہو گی جو عوام نے نہ کبھی دیکھی سنی ہو گی۔ 
عوام اگلے دو سال کسی بھی ریلیف کو بھول جائیں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتیں۔ اس دفعہ اتنے زیادہ بجلی کے بل آئیں گے کہ عوام پنکھے چلانا بھی بھول جائیں گے۔ ایرکنڈیشنر کا تو عام آدمی کو سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے صنعت کار فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح بے روزگاری غربت مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ سیاست دانوں کی طرف سے انتخابات میں کیے گئے وعدے سبز باغ ہی رہیں گے۔ انتخابی نتائج کے پیش نظر مستقبل میں ممکنہ سیاسی بحران کے نتیجے میں ڈیفالٹ کا خطرہ خدانخواستہ پھر منڈلا سکتا ہے۔ ایک غیر ملکی رپورٹ کے مطابق آیندہ جون تک پاکستان کو 28 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ عالمی بینک نے حکومت پاکستان پر غیر ملکی قرضہ جون 2024 تک 820 کھرب روپے تک پہنچ جانے کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح بڑھ کر 41 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان میں غربت کے شکار افراد کی تعداد 12 کروڑ 66 لاکھ ہے۔ اندازہ کریں یہ تعداد تو پاکستان کی نصف آبادی سے بھی زائد ہے۔ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے روزگاری کا شکار ہیں۔ ﷲ پاکستانی عوام اور پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ زمرد نقوی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
risingpakistan · 2 months
Text
بدنام سیاست میں چھپے خوبصورت چہرے
Tumblr media
پاکستانی سیاست میں سچ، اصول اور کردار کی بہت کمی ہے۔ سیاست کا جب نام لیا جاتا ہے تو دماغ میں فوری طور پر ایک منفی تاثر ابھرتا ہے۔ اکثر جب کسی کو جھوٹ نہیں بلکہ سیدھی اور صحیح بات کرنے کیلئے کہنا مقصد ہوتا ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ ’’مجھ سے سیاست نہ کرو، سیدھی اور سچی بات کرو‘‘۔ ہمارے ہاں سیاست بہت بدنام ہو چکی اور اس میں سیاستدانوں کا اپنا بہت بڑا کردار ہے۔ ایک دن حلف دے کر جو بات کی جاتی ہے، دوسرے دن اُس سے کھلے عام مکر کر بالکل الٹ بات کر دی جاتی ہے۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کیلئے اپنی ہی کی گئی باتوں ، وعدوں اور اصولوں سے پھرنا سیاستدانوں کیلئے بہت عام ہے۔ گزشتہ چند سال سے اس سیاست کو نفرت اور گالم گلوچ نے مزید خراب کر دیا اور سیاسی اختلاف کو دشمنی میں بدل کے رکھ دیا۔ ایسے ماحول میں حال ہی میں ہماری سیاست میں کچھ ایسے مثالیں سامنے آئی ہیں جن کو دیکھ اور سن کر دل خوش ہوا اور سیاست کا وہ خوبصورت چہرہ سامنے آیا جسے سراہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری سیاست کا یہ خوبصورت چہرہ عام ہو اور اُس بدصورتی کو ختم کرنے میں مددگار ہو جو پاکستانی سیاست کی بدنامی کا سبب بنا ہوا ہے۔
Tumblr media
جن خوبصورت مثالوں کی میں بات کرنا چا ہ رہا ہوں اُن میں ایک کراچی سے جماعت اسلامی کے رہمنا حافظ نعیم الرحمن کی طرف سے سندھ اسمبلی کی سیٹ پر اپنی جیت سے اس وجہ سے دستبرداری کا اعلان کرنا کہ فارم 45 کے تحت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے امیدوار نے اُن سے زیادہ ووٹ لیے اس لیے وہ نہیں بلکہ اُن کا مخالف الیکشن جیتا، شامل ہے۔ اُنہوں نے الیکشن کمیشن کے اپنے حق میں فیصلہ کو رد کرتے ہوے کہا کہ وہ خیرات میں اسمبلی سیٹ نہیں لینا چاہتے۔ مبینہ طور پر نجانے کتنے ہارے ہوئوں کو جتوایا گیا لیکن پورے پاکستان میں صرف حافظ نعیم صاحب ہی وہ واحد فرد ہیں جنہوں نے جھوٹ کی بنیاد پر جیت کو قبول کرنے سے انکار کر کے بہترین کردار کا مظاہرہ کیا۔ ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق کے حوالے سے یہ بات کی جا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس (یعنی ایم ای ایس) خواجہ صاحب کو بھی مبینہ طور پر جتوانا چاہ رہا تھا لیکن اُنہوں نے ایسی جیت قبول کرنے سے نہ صرف معذرت کی بلکہ اپنے مخالف لطیف کھوسہ کو جیت پر مبارکباد بھی دی۔ 
کھوسہ صاحب نے البتہ یہ کہہ کر کہ سعد رفیق نے اُنہیں مبارکباد دینے میں بڑی دیر کر دی، اپنے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما ثمر ہارون بلور صاحبہ نے الیکشن ہارنے کے بعد اپنے مخالف کی جیت پر اُن کے گھر جا کر مبارکباد دی۔ تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر مملکت علی محمد خان نے الیکشن میں کامیابی کے بعد جو بیان دیا وہ بھی انتہائی قابل تعریف ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دیے گئے اپنے بیان میں علی محمد خان نے اپنے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے ایک ایک امیدوار کا احترام کے ساتھ نام لکھ کر کہا کہ الیکشن ہو گیا، ایک جمہوری عمل مکمل ہو چکا، جہاں تحریک انصاف کے لوگوں کا شکرگزار ہوں وہیں اپنے مدمقابل امیدواروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ سب میرے لئے قابل احترام ہیں اور میرے بھائی ہیں، یہ میری نہیں بلکہ اُن سب کی جیت ہے اور میری طرف سے علاقہ کی ترقی کیلئے ہمیشہ اُن کی طرف تعاون اور دوستی کا ہاتھ بڑھے گا۔ 
اس کے ساتھ ساتھ علی محمد خان نے مخالف سیاسی جماعتوں کے ووٹرز، سپورٹرز کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ وہ سب میرے لیے جھوٹے بھائیوں جیسے ہیں اور علاقہ کی ترقی میں ہمیشہ اُن کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھوں گا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ووٹرز، سپورٹرز کسی بھی کام کیلئے مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں، میرے حجرے اور میرے دل کے دروازے سب کو ہمیشہ کھلے ملیں گے، سب مل کر علاقہ کو ترقی اور اخلاق کا گہوارا بنائیں گے۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج
Tumblr media
آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔ 
Tumblr media
انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
 نسیم زہرہ  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
ووٹ کو نہ سہی خود کو ہی عزت دے دو
Tumblr media
ماڈل بھی وہی ستر برس پرانا ہے اور خواہش بھی جوں کی توں یعنی انتخابات اچھے ہیں اگر نتائج کنٹرول میں رہیں۔ مگر سوار لاکھ اچھا ہو کبھی کبھی گھوڑا بدک بھی جاتا ہے۔ جیسے 1970 میں صدرِ مملکت کو حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی گئی کہ ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کے اصول پر پہلے عام انتخابات کی تاریخی کلغی پی کیپ میں سجانے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو گی مشرقی پاکستان کی 162 نشتسوں میں سے اگرچہ عوامی لیگ زیادہ نشستیں لے گی مگر نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) اور جماعتِ اسلامی کو بھی اچھی خاصی نشستیں ملیں گی۔ اسی طرح مغربی پاکستان کی 148 نشستیں پیپلز پارٹی، قیوم لیگ، جماعتِ اسلامی اور نیپ وغیرہ میں انیس بیس کے فرق سے تقسیم ہو جائیں گی۔ ان جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ چار و ناچار انھیں آپ کا تعاون حاصل کرنا ہو گا اور یوں آپ چاہیں تو وردی اتار کے بھی معقول حد تک بااختیار صدر بنے رہیں گے۔ پھر یوں ہوا کہ حساس اداروں کی تجزیاتی رپورٹیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ووٹروں نے ملک کے دونوں بازوؤں میں وہ میز ہی الٹ دی جس پر مستقبل کا نقشہ بچھایا گیا تھا اور پھر یہ میز ہی چھینا جھپٹی میں ٹوٹ ٹاٹ گئی۔ 
2018 میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ وہی ڈیزائن دوبارہ استعمال ہوا اور کم و بیش سب چیزیں توقعات کے مطابق کنٹرولڈ ماحول میں خوش اسلوبی سے انجام پا گئیں۔ جن کی مشکیں کسنی تھیں انھوں نے بہت زیادہ چوں چاں نہیں کی۔ جس جماعت کو فری ہینڈ ملا اس نے بھی لگ بھگ ڈھائی سال تک تابعداری دکھائی اور اس کے عوض اسے بھی ریاستی بزرگ انگلی پکڑ کے چلاتے سکھاتے رہے۔ پھر پتہ ہی نہ چلا کہ بچے کا قد کیسے بانس کی طرح بڑھنے لگا مگر بزرگ تو بزرگ ہوتے ہیں وہ اسے ببلو گبلو سعادت مند بچہ ہی سمجھتے رہے۔ یہ کرو وہ نہ کرو، یہ کھاؤ وہ کھاؤ، اس سے ملو اس سے گریز کرو وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن اس کی بس ہو گئی اور اس نے کوئی ایسی گستاخی کی کہ بزرگوں سے برداشت نہ ہو سکا اور انھوں نے کھڑے کھڑے یہ کہہ کر نکال دیا کہ لاڈ پیار نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ کچھ دن ٹھوکریں کھانے کے بعد خود ہی سمجھ جائے گا اور آ کے معافی مانگ لے گا اور پھر پہلے کی طرح ہمارے کہنے پر چلتا رہے گا۔
Tumblr media
مگر آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کے بچے کیسے ہوتے ہیں۔ مر جائیں گے پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔ چنانچہ بزرگوں کی پگڑی ہوا میں اڑا دی گئی اور پھر جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ برخوردار برابری کی سطح پر منھ کو آ گیا۔ لہذا تمام مروتیں اور روایات ایک طرف رکھ کے کمبل کٹائی شروع ہو گئی اور اسے عاق نامہ تھما دیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس گستاخ بے وفا برخوردار کے چکر میں جن نسلی تابعداروں کو چور ڈاکو بدعنوان قرار دے کر راندہِ درگاہ کیا گیا۔ انھیں دوبارہ منا کے واپس لایا جائے اور آئندہ کسی نئے لمڈے کو اس کے شجرہِ وفاداری کی چھان پھٹک کے بغیر گود نہ لیا جاوے۔ مگر ضدی بچہ کچھ لے دے کے بھی جان چھوڑنے پر تیار نہیں بلکہ مسلسل مفاداتی کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے اور فیصلہ خدا پر چھوڑ کے سائیڈ پکڑنے کے بجائے اپنے حصے سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
1970 کے بعد پہلا موقع ہے کہ پلان اے، بی، سی یکے بعد دیگرے ناکام ہوتے جا رہے ہیں اور بزرگوں کو ستر پوشی مشکل ہو رہی ہے۔ ان کے اعمال انہی کے سامنے ناچ رہے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں میں پلنے والا برخوردار انہی کو اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہلا ہلا کے دکھا رہا ہے اور مزید کا بھی دعوی دار ہے۔ مگر بزرگ ہیں کہ اس لمحے تک بھی سوشل میڈیا کے بدتمیز دور میں بیسویں صدی کے مائنڈ سیٹ میں مبتلا ہیں کہ ’ڈنڈہ پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔‘ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ 1979 نہیں کہ لٹکانے سے کام چل جائے۔ انیس سو ستانوے بھی نہیں کہ دو تہائی اکثریت کو ٹھکانے لگا کے ڈنڈہ ڈولی کر کے جہاز میں بٹھا دیا جائے۔ یہ تو عقل سے پیدل گروہ ہے جو اپنا نفع نقصان دیکھنے اور بزرگوں کی سننے کے بجائے ’ساڈا حق ایتھے رکھ‘ ٹائپ گیتوں پر ناچتا ہے۔ آگے کا راستہ بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ ان نوجوانوں کے غصے کی اصل وجوہات جاننے کی سنجیدگی سے کوشش کی جائے۔ ان کو محض بچہ سمجھ کے چپس، لیپ ٹاپ اور مفت دواؤں کے لالی پاپ دکھاتے رہیں گے تو یہ اور بھڑکیں گے۔
انھیں عزت کے ساتھ بٹھا کے ان کی بات تحمل سے سنی جائے۔ ان کا جتنا حصہ بنتا ہے دے دیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے کہ یہ ڈگمگا بھی گئے تو خود کو گر پڑ کے سنبھال ہی لیں گے۔ جب اور جتنا مشورہ مانگیں بس اسی پر اکتفا کیا جائے۔ ویسے بھی جو خاکی و نوری افلاطون اس نسل کے تاحیات مامے بننے پر مصر ہیں وہ زیادہ سے زیادہ پانچ دس برس جئییں گے یا اپنے عہدوں پر رہیں گے۔ بعد میں بھی تو انہی لڑکے لڑکیوں نے ملک چلانا ہے۔ بہتر ہے کہ انھیں ابھی سے برابر کا حصہ دار بنا لیا جائے تاکہ آگے کی زندگی گذارنے کے لیے کچھ مشق ہو جائے اور وہ تلخیوں اور بدزنی کے ماحول سے نکل کے مستقبل کے چیلنج جھیل سکیں۔ اگر آپ خدا سے لو لگانے کی عمر میں بھی ڈھیلی لنگوٹ پہن کے اس نسل کے سامنے کبڈی کبڈی کرتے رہیں گے تو پھر تھپڑ، قینچی اور دھوبی پٹکے کے لیے بھی اپنے لخلخاتے انجر پنجر کو تیار رکھیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
عزیز ووٹر ۔۔۔ اس تحریر کو ضرور پڑھیے
Tumblr media
اگر آپ آج ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں تو پہلے چند منٹ نکال کر اس تحریر کو پڑھ لیں۔ میں یہاں کسی امیدوار کی حمایت نہیں کررہا۔ ہم سب ایک ہی چیز چاہتے ہیں، ہمارا ملک خوشحال ہو، ہمارے حقوق کا تحفظ ہو اور ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہو۔ عزیز ووٹر، براہ کرم اس بات کو سمجھیں کہ یہ اتخابات 2007ء کے بعد سے کسی بھی الیکشن سے زیادہ اہم ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ اُس سال پاکستان نے فوجی حکمرانی سے سویلین جمہوریت کی طرف ایک انتہائی مشکل منتقلی کا آغاز کیا تھا۔ فوجی حکمرانی کے دور کے اثرات سخت تھے، ادھار کے ڈالروں سے مصنوعی طور پر کھڑی کی جانے والی معیشت واپس نیچے آرہی تھی، آمر کی طرف سے سپریم کورٹ کو محدود کرنے کی کوشش سے عدلیہ مجروح تھی، لال مسجد کے واقعے کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا تھا، میدان جنگ میں طالبان کی کامیابیوں کے ساتھ امریکا سے تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے تھے، بینظیر بھٹو کا قتل اور بہت کچھ۔ منتقلی کے اس سفر کو انجام دینا تقریباً ناممکن تھا۔ اس میں معیشت کو مستحکم کرنے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تیز کرنے اور ملک میں اپنی گہری جڑیں رکھنے والے جہادی گروہوں کے غضب کو دعوت دینے اور وکلا کی تحریک کو سنبھالنے کی سیاسی قیمت کو برداشت کرنا شامل تھا۔
یقیناً یہ مکمل فہرست نہیں ہے۔ یہ صرف ایک یاد دہانی ہے کہ معاملات ایسے ادوار میں انتہائی پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب ملک کو فوجی حکمرانی سے سویلین جمہوریت کی طرف منتقل ہونا پڑتا ہے۔ موجودہ لمحہ شاید فوجی حکمرانی سے جمہوری حکمرانی کی طرف منتقلی جیسا نہیں ہے۔ لیکن اس میں منتقلی کے کچھ عناصر شامل ہیں جو اُن لمحات سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غور کریں کہ ملک 2017ء سے ہائبرڈ حکومتوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، اس سال کے بعد سے ہر ایک ہائبرڈ تجربہ قلیل المدتی تھا، یعنی اسے ضرورت کی وجہ سے چلایا جارہا تھا اور بنیادی طور پر اس کی بقا کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ 2017ء کے ہر ہائبرڈ تجربے کی اپنی منفرد ساخت تھی۔ مثال کے طور پر عدالتوں کی جانب سے نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد 2017ء میں شاہد خاقان عباسی کی زیر قیادت حکومت حکمران جماعت کی باقیات میں سے چنی گئی قیادت پر مشتمل تھی۔ اگلی حکومت ایک نئی سیاسی جماعت کی تھی جس نے پہلے کبھی ملک پر حکومت نہیں کی تھی، یہ حکومت عمران خان کی زیر قیادت تھی۔
Tumblr media
اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آئی جس کی قیادت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے ایک غیر متوقع اتحاد کے ذریعے کی گئی تھی، یہ عمران خان کی مخالفت کرنے یا ملک بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، اس کا انحصار آپ کے سیاسی نظریے پر ہے۔ پی ڈی ایم کے بعد نگران حکومت آئی جسے ہم ووٹر آج گھر بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہائبرڈ حکومتوں کے ان نہ ختم ہونے والے سات طویل سالوں نے معیشت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ انہی سات سالوں میں ملکی تاریخ کے کسی بھی دوسرے سات سالہ دور کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں اب تک کا سب سے بڑا نقصان دیکھا گیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں 2017ء کے موسم گرما سے 2023ء کے موسم گرما تک، تقریباً تین گنا اضافہ ہوا جس کے بعد آخر کار اس میں کچھ کمی آئی لیکن اس کمی کو یہ 2024ء کے موسم گرما تک دوبارہ پورا کرسکتا ہے۔ ان برسوں نے ملک میں مہنگائی کے سب سے زیادہ خوفناک دور کو بھی دیکھا 2021ء سے شروع ہونے والی مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جو ہماری تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے، ایسا لگ رہا تھا کہ ہم اپنا گزارا کرنے کے لیے جس رقم پر انحصار کرتے ہیں اس کی قدر ہماری آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہی تھی۔
میں اس بحث کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتا کہ اس کا ذمہ دار کون تھا اور مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے محرکات کیا تھے۔ میں ان معاملات کے بارے میں پہلے ہی کافی لکھ چکا ہوں۔ آج کے لیے صرف اس بات پر زور دینا کافی ہے کہ یہ دونوں مظاہر آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ ایک کے بعد ایک ہائبرڈ حکومتوں کے سات سال مہنگائی میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ درآمدی پابندیوں میں شدت آنے اور زرمبادلہ کے قلیل ذخائر کے انتظام کی کوششوں اور اس کے نتیجے میں ترقی کے زوال اور بےروزگاری میں اضافے کا باعث بنے۔ یہ چیزیں ایک دوسرے سے منسلک نہیں بلکہ ایک ہی سکے کو دو رخ ہیں۔ ہمیں اسی چیز کو آج نکال باہر کرنا ہے۔ آج فوجی حکومت کو نہیں بلکہ ہائبرڈ حکومتوں کا سلسلہ ختم کرنے کا دن ہے۔ آج جس حکومت کو آپ اور میں مل کر وجود میں لانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں، اس کے پاس اس ہائبرڈ دور سے باہر نکلے کا ایجنڈا ہو گا۔ اس حکومت کو بھی ایک مہنگائی زدہ معیشت ملے گی جوکہ شاید کم تو ہو جائے لیکن یہ تلوار پھر بھی لٹکی رہے گی۔ ایک بار پھر اس حکومت کو بڑھتی دہشتگردی اور یکے بعد دیگرے ہائبرڈ دور کے سیاسی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آنے والی حکومت کے پاس مبہم مینڈیٹ نہیں ہونا چاہیے۔ اس حکومت کے سامنے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ معاشی محاذ پر کن اقدامات کی ضرورت ہے چاہے ان کے لیے حکومت کو انتخابی مہم کے کچھ وعدوں کو ایک طرف رکھنا پڑے۔ اسے اپنے ماضی کا یرغمال نہیں بننا چاہیے اور اور بدلے لینے کے کھیل میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اسے جمہوری اصولوں اور طریقہ کار کا احترام کرنا سیکھنا اور اپنی مثال سے دوسروں کو سکھانا چاہیے۔ جمہوریت کے اس گھر کو آہستہ آہستہ دوبارہ تعمیر کرنا چاہیے جو ان دنوں تقسیم اور نفرت کی آگ سے جل رہا ہے۔ نئی حکومت کو آئین کو دوبارہ پڑھنا چاہیے اور قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ آدھی رات کو پی ٹی آئی کے کارکنوں اور امیدواروں اور دیگر افراد کا اغوا بند ہونا چاہیے۔ جبری گمشدگیاں ختم ہونی چاہئیں۔ مفاہمت کی سیاست کو چلنے دینا چاہیے۔ بدلہ لینے کی خواہش پر جمہوریت پر یقین کو ترجیح ملنی چاہیے۔ آیئے، میرے ساتھ آپ بھی اپنے ملک کے لیے ایک نئی شروعات کی خواہش میں اس لائن میں کھڑے ہوں۔ آئیے مل کر اپنا راستہ تلاش کرنے کا عزم کریں۔ اپنے اختلافات کو نہ ختم ہونے والی نفرتیں نہ بننے دیں۔ جمہوریت کو موقع دیں کہ وہ خود بھی ٹھیک ہو اور ہمارے لیے بھی بہتری کے راستے نکلیں۔ پیارے ووٹر، یہی آپ کے لیے اور اپنے لیے میری دعا ہے۔
خرم حسین  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
اسٹیبلشمنٹ سے جیت کا واحد رستہ
Tumblr media
عمومی طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ آج سلیکشن ڈے ہے، الیکشن کا تماشہ تو صرف ایک رسم کے طور پر رچایا جا رہا ہے ۔ یہ بھی تاثر عام ہے کہ ن لیگ کو حکومت دینے کے ارادے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا ن لیگ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لے بھی پائے گی کہ نہیں۔ سرپرائیز کی بھی بات کی جا رہی ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصا ف کے ووٹر سپورٹر غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں نکل کر سلیکشن کے پراسس کو الیکشن میں بدل کر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کو کامیابی دلوا کر اس سلیکشن کو الیکشن میں بدل دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا تو پھر کہا جا رہا ہے کہ آزاد آزاد نہیں رہیں گے اور اُنہیں قابو کر لیا جائے گا اور تحریک انصاف کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ بحرحال آج کا دن بہت اہم ہے اور آج رات تک الیکشن ہے یا سلیکشن اس کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ اب جس قسم کی جمہوریت ہم دیکھنے جا رہے ہیں وہ پہلے سے زیادہ ہائبرڈ اور کنٹرولڈ ہو گی۔ بنگلہ دیش ماڈل کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ سیاستدانوں اور سول حکومت نے بہت سپیس کھو دی ہے جس کی واپسی کیسے ممکن ہو سکتی ہے اُس پر میں بات کرنا چاہوں گا۔ 
Tumblr media
اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بغیر کچھ کیے یہ سپیس سول حکومت اور سیاستدانوں کو دے دے گی تو بھول جائیں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کی طرح فوج سے ہی ٹکر لے کر اور 9 مئی جیسے واقعات سے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کیا جا سکتا ہے تو ہم نے دیکھا کہ اس سے تو ملک، سیاست کے نقصان کے ساتھ سب سے زیادہ نقصان اپنا ہی ہوتا ہے اور اس صورتحال کا عمران خان اور تحریک انصاف کو سامنا ہے۔ مسئلہ لڑائی سے حل نہیں ہو گا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے جیتنا ہے تو پھر سیاستدانوں کو دائرہ کا سفر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جب حکومت ملے، جیسے بھی ملے، تو پھر کام، کام اور کام پر ہی زور دینا پڑے گا۔ پرفارمنس بہترین ہو گی، طرز حکمرانی اچھا ہو گا، عوام دیکھے گی، محسوس کرے گی اور سمجھے گی کہ حکمراں اُن کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور سرکاری محکموں کو سروس ڈیلوری کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں تو پھر سولین سپریمیسی کا رستہ ہموار ہو گا، اسٹیبلشمنٹ کے لیے سپیس کم ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ عمران خان بے شک ایک پروجیکٹ تھے، وہ سلیکٹڈ تھے۔
اگر اُن کی حکومت نے بہترین کارکردگی دکھائی ہوتی، گڈ گورننس کی مثال قائم کی ہوتی، سرکاری اداروں کو سروس ڈیلوری کے لیے فعال کیا ہوتا تو آج عمران خان یہ کچھ نہ دیکھ رہے ہوتے اور نہ ہی جمہوریت مزید کنٹرولڈ ہوتی۔ نواز شریف بھی ایک پروجیکٹ کے طور پر ہی سامنے آرہے ہیں، وزیراعظم وہ بنتے ہیں یا شہباز شریف یا کوئی اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔ لیکن اگر ن لیگ کا وزیراعظم بنتا ہے اور کوئی سرپرائز نہیں ملتا تو پھر چاہے نواز شریف ہوں یا شہباز اُن کا سارا زور پرفامنس، پرفامنس، پر فامنس پر ہی ہونا چاہئے۔ اگر ایک طرف دن رات لگا کر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے پڑیں گے تو دوسری طرف ایک ایک سرکاری محکے کو عوام دوست بنانے کے لیے سول سروس کو میرٹ اور غیر سیاسی انداز میں چلانا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ چند ایک کاموں پر تو توجہ دی جائے لیکن باقی ذمہ داریوں سے بے فکر ہو جائیں۔ آئین پاکستان کے مطابق عوام سے متعلق حکومت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اور ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید سپیس ملے گی۔ 
اگر کارکردگی بہترین ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لیے سپیس نہیں ملے گی۔ اگر سیاستدان بادشاہوں کی طرح حکومت کریں گے، نہ طرز حکمرانی کو ٹھیک کریں گے نہ ہی سرکاری اداروں کو عوامی خدمت کے لیے فعال بنائیں گے، معیشت کا بھی ستیاناس کریں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی معاملات میں مداخلت کا رستہ آسان ہو جائے گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
شہید حکیم محمد سعید … یادیں اور باتیں
Tumblr media
کتاب ’’شہید حکیم محمد سعید…. یادیں اور باتیں‘‘ میں سعدیہ راشد ’’ابا جان‘‘ کے عنوان سے لکھتی ہیں۔ ’’ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور پھر ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ، سارے نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے، حکیم محمد سعید، میرے آئیڈیل۔ وہ ایک مکمل شخصیت تھے۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی۔ میں شروع میں ان سے ڈرتی تھی لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا، میری امی نے بھی نہیں لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں جو میرے ابا جان کے معیار سے گری ہوئی ہو۔
میرے قول اور عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہوکہ کوئی یہ کہے ’’یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہے۔‘‘ مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ عمل کر کے دکھاتے تھے، انھیں کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور وہ تمام قدریں جو انھیں عزیز تھیں، اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انھوں نے مجھے سب سکھا دیا۔ میں چودہ سال کی تھی کہ ابا جان نے مجھے پارٹیز میں لے جانا شروع کر دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی پارٹی جس میں مجھے وہ اپنے ساتھ لے گئے چینی سفارت خانے میں تھی۔ چینی سفارت خانہ ان دنوں ہمارے گھر کے قریب تھا۔‘‘
Tumblr media
سعدیہ لکھتی ہیں ’’ابا جان اپنے بڑے بھائی، حکیم عبدالحمید سے بہت محبت کرتے تھے۔ دونوں کی قدریں ایک تھیں، ان کی سوچ، خدمت کا جذبہ�� عام لوگوں کی بھلائی، ذاتی خوبیاں ایک تھیں، البتہ شخصیتیں مختلف تھیں، کام کا انداز مختلف تھا۔ نہ جانے ابا جان انھیں دلی میں چھوڑ کر کیسے چلے آئے۔ یہ پاکستان کا جذبہ تھا اور مسلم لیگ سے وابستگی جس نے انھیں پاکستان آنے پر مجبورکیا۔ میں سمجھتی ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی۔ اللہ کو ان سے اچھے کام کرانے تھے۔ انھوں نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا۔ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’دفتر میں ابا جان ایک ڈسپلن قائم رکھتے تھے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ بینہم کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد میں تھے وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ 
ایک طرف ہمدردکی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طب یونانی کا جسے ابا جان کہتے تھے کہ یہ طب اسلامی ہے، دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور پھر علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں، یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جانفشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی تو وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل جاتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر نہ کرتے لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔ آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ’’مجھے اب اپنی نیند کا ایک گھنٹہ اور کم کرنا پڑے گا۔‘‘ میں نے کہا ’’یہ آپ کیسے کریں گے؟ چارگھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر اپنے فنکشن کس طرح پورے کریں گے؟‘‘ وہ کہنے لگے، ’’نہیں مجھے بہت کام ہے، مجھے اپنی نیند کا ایک گھنٹہ کم کرنا پڑے گا۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی، وہ اپنا مشن پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ 
اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا، برملا اظہار کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو، اپنے خیالات کو، احساسات کو، سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو چھپا رہ گیا ہو۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ لو پڑھ لو، جان لو، پرکھ لو۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’جب غیر ملکی کرنسی پر پابندیاں تھیں اور بیرونی سفر کے لیے بینک سے مقررہ زر مبادلہ ملتا تھا تو ابا جان سفر سے واپس آ کر ایک ایک ڈالر واپس کر دیتے تھے۔ انھیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں بلایا جاتا، یونیسکو، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونی سیف، اسلامی ملکوں کی تنظیم اور دوسرے اداروں کے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا جاتا اور سفری خرچ پیش کیا جاتا۔ ابا جان لکھ دیتے کہ ’’اس کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے خرچ پر آؤں گا۔‘‘ کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالوں پر معاوضہ پیش کیا جاتا۔ عموماً یہ اچھی خاصی رقم ہوتی، وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ کہہ دیتے کہ علمی کاموں کا معاوضہ لینا مجھے پسند نہیں۔ 
زندگی کے تمام معاملات میں انھوں نے ہمیشہ اصول پسندی اور دیانت داری سے کام لیا اور اسی نے ان میں وہ اخلاقی جرأت پیدا کردی تھی کہ وہ ہر بددیانتی کو، ہر غلط کام کو ٹوک دیتے تھے اور لوگ اسے خاموشی سے برداشت کر لیتے تھے۔ ابا جان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کی۔ جنھوں نے انھیں نقصان پہنچانا چاہا، ان کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی، ان کے لیے در پردہ مشکلات پیدا کیں، ابا جان نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی۔ ان سے شکوہ تک نہ کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اُجلے، ایسے بھلے، نیک نفس انسان پرکیسے گولیاں چلائی گئیں، جو دوسروں کے لیے جیتا تھا اسی کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ اس روشنی کو بجھا دیا جو نہ جانے کتنے گھروں کی روشنی کا سامان کیے ہوئے تھی۔ ابا جان شہید ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے، خدمت کرنے والے امر ہو جاتے ہیں، وہ امر ہو گئے۔‘‘
رفیع الزمان زبیری  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
کیسے اور کس کو ووٹ دینے کا وقت ہے
Tumblr media
پاکستان کے عام انتخابات جن کے بارے میں بہت ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بالا آخر پولنگ کا وقت آہی پہنچا ہے۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے تو انتخابی مہم اختتام پذیر ہوچکی ہو گی۔ اب ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے ساری انتخابی مہم کے بعد کس کو ووٹ دینا ہے۔ اسی طرح انتخابی امیدواروں نے پولنگ ڈے کی تیاری کرنی ہے، ووٹر کو پولنگ اسٹیشن لانے کے انتظامات کرنے ہیں۔ پولنگ ایجنٹ مقرر کرنے ہیں۔ پولنگ کیمپ لگانے ہیں۔ پولنگ ڈے پر کام کرنے والے پارٹی کارکنوں اور انتخابی عملے کو کھانا پہنچانا ہے، سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج اکٹھے کرنے کے لیے اپنے سیل بنانے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز نے الیکشن سیل قائم کر دیے ہیں۔ لوگوں کو چھٹی دے دی گئی ہے تا کہ وہ آرام سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ جن دوستوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ انتخابات نہیں ہوںگے، ان کی شرط ہارنے کا دن قریب آگیا ہے۔ جن دوستوں نے انتخاب ہونے کی شرط لگائی ہوئی تھی ان کے شرط جیتنے کا دن آگیا ہے۔ پاکستان کے انتخابی معرکوں کے نتائج عوام کے لیے خاص دلچسپی کاباعث ہوںگے۔ ایک تجسس تو تحریک انصاف کے آزاد امیدواران کے بارے میں رہے گا کہ ان میں سے کتنے جیتے اور کتنے ہارتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی تجسس ہے کہ جن وکلا کو ٹکٹ دیے گئے تھے، کیا وہ جیت جائیں گے؟ وکلا کو ٹکٹ دینے کی حکمت عملی کتنی کامیاب اور کتنی ناکام رہی ہے۔
بہت دوستوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا یہ وکلا سیٹ نکال لیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ وکلا تو تحریک انصاف کی بہت محفوظ سیٹوں سے کھڑے ہیں، یہ وہ سیٹیں ہیں جو تحریک انصاف گزشتہ دو انتخابات سے جیت رہی ہے۔ وہاں تو وکلا کا کچھ چانس ہے۔ لیکن باقی حلقوں میں مجھے ان کی کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں لگتے۔ مجھے لگتا ہے کہ وکلا کی اکثریت ہار جائے گی۔ سیاسی لوگوں کے جیتنے کا زیادہ چانس لگ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ووٹر کو پاکستان کے نازک حا لات کا اندازہ ہونا چاہیے۔ انھیں پاکستان کے معاشی بحران کا اندازہ ہونا چاہیے۔ پاکستان اس وقت کسی بھی تقسیم اور محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ووٹر کو محاذ آرائی بڑھانے نہیں بلکہ محاذ آرائی ختم کرنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہو گا۔ پاکستان کے ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنا ہو گی کہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں کوئی بحران پیدا نہ ہو بلکہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا ہونی چاہیے۔ اس کو اپنے ووٹ کا استعمال کسی فرد یا جماعت کے حق میں نہیں بلکہ پاکستان کے حق میں استعمال کرنا چاہیے ووٹر کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کسی بھی قسم کا بحران پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بیانیے کے تحت ووٹ دینے کا وقت نہیں۔
Tumblr media
یہ پاکستان کو آنے والی مشکلات سے بچانے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ ذاتی پسند سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی قوم نے اس نازک وقت پر اپنے ووٹ کا درست فیصلہ نہ کیا تو خطرناک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کے معاشی چیلنجز بہت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اس لیے کمزور حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کسی بھی قسم کی مخلوط حکومت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں کسی بھی قسم کا سیاسی عدم استحکام برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے پاکستان کے ووٹر کو ایک مستحکم حکومت کے لیے ووٹ دینا ہو گا۔ انھیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ان کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں مزید تقسیم پیدا نہ ہو۔ بلکہ ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قیام ہو۔ پاکستان اب مزید کسی سیاسی چوں چوں کے مربہ حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ووٹر ز کو کسی ایک جماعت کو پاکستان کی باگ دوڑ دینا ہو گی۔ کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت دینا ہو گی۔ تا کہ وہ بحرانوں سے نبٹنے کے لیے کسی کی محتاج نہ ہو۔
پاکستان اسٹبلشمنٹ اور سیاست کی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے، مل کر چلنے کا ہے۔ میں مقتدر حلقوں کے سیاسی کردار کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ لیکن آج وہ حقیقت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے ان سے لڑائی لڑیں یا پہلے پاکستان کے معاشی مسائل حل کر لیں۔ ایک طرف پاکستان کے معاشی ، معاشرتی اور عوامی مسائل ہیں، دہشت گردی ہے۔ دوسری طرف اسٹبلشمنٹ ہے۔ کیا یہ وقت اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کا ہے یا یہ وقت ملک کے مسائل حل کرنے کا ہے۔ ایک دفعہ ہم نے معاشی مسائل حل کر لیے، لوگوں کے مسائل حل کر لیے پھر اسٹبلشمنٹ سے بھی لڑائی ہو سکتی۔ آپ کہیں گے کہ میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو جائز قرار دینے کی راہ تلاش کر رہا ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کسی بحرانی کیفیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے۔ باقی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے حق میں نہیں ہیں لیکن سب نے ہی ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس لیے نہ تو کسی کا ماضی صاف ہے، اس لیے کسی ایک کو کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ 
پاکستان کے ووٹر پر بہت بھاری ذمے د اری ہے۔ کل کو وہ کسی اور کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر ووٹ دینا ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے ووٹ نہیں دے سکتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تو بس ووٹ دے دیا ہے۔ پاکستان میں تقسیم اور سیاسی بحران پاکستان کے دشمنوں کی خواہش ہے، دشمن بحران چاہتا ہے، دشمن انتشار چاہتا ہے، دشمن لڑائی چاہتا ہے۔ لڑائی ختم کرنے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ یہ کسی فرد کی محبت میں نہیں پاکستان کی محبت میں ووٹ دینے کا وقت ہے، لڑنے والوں کو نہیں صلح کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کام کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ سب کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے کسی کو پہلی باری نہیں دینی ہے۔ سب نے باریاں لے لی ہیں ان کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ووٹ دینے کا وقت ہے۔ مناظروں کے تحت نہیں موازنوں کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کارکردگی کے تقابلی جائزہ کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔
مزمل سہروردی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
جب آئے گا عمران، کب آئے گا عمران
Tumblr media
اسلام آباد میں طاقت کے ایوانوں کی دیواروں سے کان لگا کر ہمیں گیان بانٹنے والے بتاتے ہیں کہ دو سے تین سال لگیں گے۔ جس عجلت کے ساتھ عمران خان کو سزائیں سُنائی جا رہی ہیں تو عدالتی فیصلوں میں بہت سے قانونی سُقم ہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں معطل ہوں گے۔ تجزیہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمارے اصلی حکمران جس کو بھی چُن کر اسلام آباد میں اقتدار دیتے ہیں اُس سے اُن کا جی بھرنے میں دو تین سال کا وقت ہی لگتا ہے۔ اُن کی سچی محبت بھی دو تین سال کے بعد بیزاری میں بدل جاتی ہے، پر یہ بیزاری دشمن داری میں تبدیل ہوتی ہے۔ فائلیں ہر وقت تیار رہتی ہیں، گواہ ڈھونڈنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، جج رات گئے تک عدالتیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور سزائیں اس طرح سُناتے ہیں جیسے آج ہی فیصلہ نہ سُنایا تو شاید رات کو نیند نہ آئے۔ عمران خان تین سال کی سزا پہلے ہی کاٹ رہے تھے، پھر ایک دن دس سال کی سزا، اُس سے اگلے دن 14 سال کی سزا۔ مبصرین ان سزاؤں کے محاسن اور نقائص بتا رہے تھے میرا دماغ کیلکولیٹر بنا ہوا تھا کہ جتنے عمران خان پر مقدمات ہیں اور جس تیزی سے فیصلے آ رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ الیکشن کے دن تک عمران خان کو کم از کم ڈیڑھ ہزار سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق عمران خان پر درجنوں مقدمات ہیں، ان پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو وہ دہشت گرد بھی ہیں، کرپٹ بھی ہیں، چور بھی ہیں، ملکی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بھی ثابت ہوئے ہیں (جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے ملک سے غداری کی ہے) ایک کیس ایسا بھی چل رہا ہے جس میں اُن کے آخری نکاح کو مبینہ طور پر ’عدت کے دوران‘ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ عمران خان نے جب اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا تو اُن پر دو الزام لگتے تھے کہ وہ ذرا طبعیت کے عیاش ہیں اور سیاسی طور پر بے وقوف ہیں۔ پاکستان میں کسی مرد سیاستدان کی چھوٹی موٹی عیاشیاں اُن کے حق میں ہی جاتی ہیں اور اس سیاسی بے وقوفی نے سب پرانے سیانوں کی دوڑیں لگوا دیں۔ جو لوگ پاکستان کی سیاست میں عمران خان کو ایک ہلکا پھلکا لطیفہ یا آئٹم نمبر سمجھتے تھے انھیں بھی اُن کے قہر کی تپش محسوس ہوئی۔ لیکن آخر میں اُن سے وہی غلطی ہوئی جو پاکستان میں منتخب ہونے والے ہر وزیر اعظم کے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھی ہوتی ہے یعنی وہ اپنے آپ کو وزیر اعظم سمجھنے لگتے ہیں۔ 
Tumblr media
اور وہ اپنی اس پہلی بھول پر اپنے لیے اڈیالہ میں یا سہالا میں یا اٹک قلعے والی جیل میں ایک سیل بُک کروا لیتے ہیں۔ ان جیلوں کے سب سے بڑے عادی رہائشی اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ جیل سیاستدانوں کی یونیورسٹی ہوتی ہے۔ انھیں اب کچھ سیکھنا چاہیے۔ ایک اور سیانے نے سمجھایا کہ ہوسکتا ہے جیل میں سوشل میڈیا سے دور رہے گا تو کچھ عقل آجائے گی۔ سوشل میڈیا کے شور پر ملک میں حکمرانی کرنے کے خواب دیکھنے والے دیوانے بہت ہیں۔ ان سے ان کی پارٹی چھین لی گئی ہے، جنھوں نے انھیں انقلاب کا ہراول دستہ بنایا تھا وہی ان کو غدارِ وطن کہتے ہیں۔ ان کے خوابوں میں اب بھی یہ آس باقی ہے کہ وہ الیکشن کے دن اپنی ایپس اور واٹس ایپس کے ذریعے، اپنا خواب زندہ رکھنے کے لیے، اپنے خان کے لیے، اتنے ووٹ ڈالیں گے کہ اڈیالہ جیل کی دیواریں ہل جائیں گی۔ قیدی نمبر 804 کو قید نہ رکھ پائیں گی۔ اور وہ پھر ہمارے درمیان میں ہو گا۔ 
پاکستان میں الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی پر بہت پابندیاں ہیں لیکن خواب دیکھنے کی پابندی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے جیل میں ڈالنے والوں اور ان کے سابقہ قیدیوں نے کچھ ایسا معاہدہ کیا ہو کہ اس دفعہ ہم آپس میں نہیں لڑیں گے اور عمران خان کو نہ صرف جیل میں رکھیں گے بلکہ نہ اس کی آواز، نہ اس کی تصویر کبھی باہر آنے دیں گے۔ جیل کے سیل سے نکال کر جیل میں لگی عدالت میں پیش کریں گے اور دس، بیس، تیس ہزار سال کی سزا دلوائیں گے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ ہزار سال کی قید پوری کر کے اڈیالہ جیل سے نکلیں، باہر پھر الیکشن ہو رہا ہو، ملک میں کرکٹ کا خاتمہ ہو چکا ہو اور وادی میں بیٹھا کوئی سیانا ہمیں یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ایوب خان کے دور میں سب اچھا تھا، ہم آپ کو وہیں لے جا رہے ہیں۔
محمد حنیف
بشکریہ  بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
اچھا جج بشیر، بُرا جج بشیر
Tumblr media
احتساب عدالت کے جج بشیر نے نیب ک�� مقدمہ میں سال 2018 میں نواز شریف اور اُنکی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوے دس سال اور سات سال کی قید بامشقت کی سزا دی۔ اُس موقع پر عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں اور ووٹروں، سپوٹروں نے خوشیاں منائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسے انصاف اور احتساب کے نام پر سراہا اور اس فیصلہ کا ہر جگہ دفاع کیا۔ آج تقریباً کوئی پانچ چھ سال کے بعد اُسی احتساب عدالت کے اُسی جج بشیر نے اُسی نیب کے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور اُنکی اہلیہ کو 14,14 سال کی قید بامشقت اور کوئی ڈیڑھ ارب کے جرمانے کی سزا سنا دی۔ آج تحریک انصاف جج بشیر کے فیصلہ کو انصاف کا قتل قرار دے رہی ہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مٹھائیاں تو نہیں بانٹیں لیکن دونوں سیاسی جماعتیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ کو انصاف کی عملداری کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ انہی جج بشیر کی اسی عدالت کے سامنے اسی نیب کا توشہ خانہ ریفرنس کا مقدمہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف درج ہے۔ 
نواز، زرداری اور گیلانی کے خلاف نیب نے توشہ خانہ ریفرنس چند سال پہلے دائر کیا تھا۔ عمران خان اور اُنکی اہلیہ کے خلاف توشہ خانہ کا کیس چند ماہ پہلے جج بشیر کی عدالت کے سامنے دائر کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا کیس چند ماہ پہلے دائر ہوا، اُس کا نیب نے خوب پیچھا کیا اور آج جج بشیر کی عدالت نےاس مقدمہ میں فیصلہ بھی سنا دیا۔ جو توشہ خانہ کیس جج بشیر کی عدالت کے سامنے بہت پہلے دائر کیا گیا تھا وہ کہاں گم ہے، اُسکے حوالے سے نیب کیوں سویا ہوا ہے اور اُس کیس میں جج بشیر کیوں روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ نہیں چلا رہے۔ جج بشیر کو ایک فرد کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسے نظام کا نام ہے جس نے احتساب کے نام پر گزشتہ 25 سال کے دوران ہماری سیاست، ہماری ریاست، ہمارے نظام احتساب اور عدالتی سسٹم کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا لیکن اسکے باوجود جاری و ساری ہے۔ جج بشیر نے ماضی میں جو فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف دیا اُس میں اُنکی بریت ہو چکی۔ 
Tumblr media
نیب اور عدلیہ کی آنکھیں نواز شریف کے حوالے سے بالکل بدل چکیں اور اب عمران خان جس نظام احتساب کو ماضی میں احتساب کے نام پر انصاف کا نام دیتے تھے، خوشی مناتے تھے، دوسروں کو مٹھائیاں کھلاتے تھے اُن کو آج سود سمیت وہی نظام 14 سال قید بامشقت واپس لوٹا رہا ہے اور آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ نانصافی ہو گئی اور احتساب کے نام پر اُن کو سیاسی وجہ پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ن لیگ کی طرف سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے بعد پریس کانفرنس کی گئی اوراس فیصلے کو Justify کیا گیا۔ یاد رہے کہ جج بشیر کی طرف سے نیب کے توشہ خانہ کیس میں فیصلہ کو سراہنے والی ن لیگ نے اپنے حالیہ الیکشن منشور میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیب کے ادارہ کو ختم کر دے گی، جس سے نیب کی عدالتیں بھی ختم ہو جائیں گی کیوں کہ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ نیب کے ادارے نے کبھی احتساب کیا ہی نہیں بلکہ احتساب کے نام پر سیاسی انجینئرنگ کی، غلط طریقہ سے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو جیلوں میں ڈالا، اُن کو خلاف جھوٹے سچے مقدمات میں سزائیں دیں۔ 
وہ نیب جو بُرا تھا اور جسے ختم کیا جانا چاہیے اُس کے عمران خان کے خلاف فیصلے پر ن لیگ مطمئن کیوں ہے؟ دوسری طرف اس فیصلہ کے بعد عمران خان کی بہن علیمہ خان نے پاکستان کے عدالتی نظام پر سوالاٹ اُٹھا دیے۔ علیمہ خان اور ان کے بھائی نے یہی سوالات ماضی میں کیوں نہیں اُٹھائے جب اُن کے سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان کرپشن ، بدعنوانی یا غیر قانونی عمل میں شریک نہیں ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام احتساب اور نظام عدل ایک آنکھ سے دیکھنے کا عادی بن چکا ہے۔ اُن کو ایک آنکھ سے جو دکھایا جاتا ہے وہ وہی کچھ دیکھتے ہیں اور جب اُن کی ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ کھولنے کو کہا جاتا ہے تو وہ دوسری آنکھ سے بالکل اُس کے برعکس دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو کچھ اُنہیں پہلے دکھایا جاتا ہے۔ ہماری سیاست، نواز شریف اورعمران خان کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اس ناقص نظام کے ہاتھوں ڈسے جانے پر خوشی مناتے ہیں اور جب خود ڈسے جاتے ہیں تو ناانصافی کا رونا روتے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ ناکامی رہی کہ وہ اس ملک کو ایک با اعتبار، آزاد اور انصاف پسند احتساب کا نظام دینے میں ناکام رہے۔ وہ کبھی اقتدار اور کبھی سزا اور جیل کی قید کاٹنے کے دائرہ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ نیب اورجج بشیر والا نظام احتساب اپنی جگہ قائم ہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں
Tumblr media
دو دن میں دو فیصلے۔ پہلے ’ریاستی راز افشا کرنے پر‘ 10 سال کی سزا اور پھر ’بدعنوانی‘ پر 14 سال کی سزا۔ پہلے ان کے قریب ترین ساتھی اور اب ان کی شریک حیات کو بھی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ ریاست اپنی دشمنی ظاہر کرنے میں کس حد تک جائے گی؟ 8 فروری کے انتخابات تک مزید ’سرپرائز‘ آسکتے ہیں۔ فی الحال ہم صرف بیٹھ کر تماشہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح حقائق، ضابطہ کار، قوانین اور ادارے ان لوگوں کی مرضی کے سامنے جھکتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک وہ نہ چاہیں کوئی بھی منتخب رہنما آزادی کا حق نہیں رکھتا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران تحفے کے طور پر ملنے والے زیورات کے سیٹ کی قیمت کم بتانے پر سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ احتساب عدالت کے جج کے ذریعے سنایا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات سے چند روز قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 2024ء کے انتخابات کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آنے والے رہنما کو سزا سنائی تھی۔ 
Tumblr media
اس فیصلے کو گزشتہ سال نومبر میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کی سزا کا فیصلہ بھی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گا۔ اتفاق سے یا شاید جانتے بوجھتے ہوئے ان ہی جج صاحب کو اسی طرح کے ایک اور کیس کی سماعت کرنی ہے جو توشہ خانہ سے حاصل کی گئی اشیا سے متعلق ہے۔ اس مقدمے میں متعدد گاڑیاں شامل ہیں جو مبینہ طور پر نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری نے توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے پاس رکھی تھیں۔ تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جج کی توجہ اور توانائیاں عمران خان اور ان کی شریک حیات کو ’احتساب‘ برانڈ کا انصاف فراہم کرنے کے لیے وقف کر دی گئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس زیر التوا دیگر معاملات کے لیے بہت کم وقت بچا ہے۔ وہ 11 سال نیب کی احتساب عدالتوں میں رہنے کے بعد مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ احتساب عدالتوں کے زیادہ تر جج تین سال کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں۔ 
اپنی توسیعی مدت کے دوران انہوں نے 4 سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کا فیصلہ کیا ہے، یہ سبھی اس وقت ان کے سامنے لائے گئے جب ان کو دی گئی چھوٹ اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہاں کچھ ذکر نیب کا بھی کر لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ صرف طاقتوروں کی خواہشات کی بنیاد پر سیاسی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔ سیاست دان کو ملی چھوٹ ختم ہونے پر نیب اس پر پِل پڑتا ہے اور ہدف بنائے گئے سیاست دانوں کے خلاف ہر طرح کے ’بدعنوانی‘ کے مقدمات قائم کرکے انہیں قانونی چارہ جوئی میں پھنسا دیتا ہے۔ بعض اوقات، ضابطے کی پروا کیے بغیر کمزور شواہد کی بنیاد پر قانونی کارروائی کے ذریعے ایک یا دو سزائیں سنادی جاتی ہیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ زیادہ تر مقدمات اور سزائیں چند سالوں میں ہی ختم ہو جاتی ہیں اور جن پر کبھی سنگین بددیانتی کا الزام لگایا جاتا ہے وہ آخرکار سیاسی شہید بن کر واپس آجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس نے دھیرے دھیرے احتساب کے خیال کو کسی بھی قانونی جواز سے محروم کر دیا ہے۔ اس تازہ ترین سزا سے بھی یہ لگتا ہے کہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes