Tumgik
#Pakistani immigrants
risingpakistan · 2 months
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
languagexs · 3 months
Text
Online Pashtu to English Translation Services - Quickly and Accurately Translate Pashto Conversations
Pashtu to English: Unlocking Opportunities for Immigrant Families For the nearly 40 million Pashto speakers around the world, communicating across languages can often get lost in translation. As more Afghan and Pakistani immigrants settle in America, bridging the cultural and linguistic divides through accurate Pashto to English translation becomes increasingly vital. This comprehensive guide…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
پیسہ کماؤ یا باہر جاؤ
Tumblr media
معاشی بدحالی کے ساتھ جہاں ملک میں چوریوں، ڈکیتیوں اور سٹریٹ کرائمز میں واضح اضافہ نظر آتا ہے وہیں جائز طریقے سے پیسہ کمانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کی اولین ترجیح اب بیرونِ ملک منتقلی ہے۔ ادارئہ شماریات کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھی گزشتہ برس کے دوران بیرونِ ملک جانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ روپے کی گرتی قدر کے پیشِ نظر اب زیادہ تر پاکستانی گھر بیٹھے ڈالر یا کسی اور بیرونی کرنسی میں کمائی کو ترجیح دیتے ہیں اور جو ایسا نہیں کر پاتے وہ زیادہ تر خلیجی یا مغربی ممالک کا رُخ کر جاتے ہیں۔  پاکستانیوں میں دیارِ غیر میں منتقل ہونے کا رجحان نیا نہیں لیکن روز افزوں بگڑتی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر اس میں حالیہ کچھ عرصہ کے دوران اضافہ ہوا ہے اور بیرونِ ملک منتقلی کے خواہش مند افراد کی ان مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے آج کل کئی فراڈیے بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں۔ ویسے امیگریشن ایجنٹوں کے فراڈ کی کہانی تو کافی پرانی ہے، اکثر اوقات ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں شہر میں فلاں بندہ دیارِ غیر کے ویزے کے نام پر شہریوں کے اتنے پیسے لے اُڑا۔ لیکن اب جہاں ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ان فراڈیوں کے طریقہ واردات میں بھی جدت آ چکی ہے۔
سوشل میڈیا نے یہ کام مزید آسان بنا دیا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے سوشل میڈیا پر ایک خاتون کا پیغام موصول ہوا، انہوں نے ایک ایجنٹ کو 40 لاکھ روپے دے کر کینیڈا کا امیگرینٹ ویزہ لگوایا تھا۔ وہ اُس ویزے سے متعلق خدشات کا شکار تھیں کہ پتا نہیں یہ اصلی ہے یا نہیں۔ اُس ویزے کی اُنہوں نے مجھے جو تصویر بھیجی تھی، اُس سے تو وہ بالکل اصلی لگ رہا تھا اور یہ بتانا ناممکن تھا کہ یہ نقلی ہے۔ لیکن دو چیزوں نے مجھے شک میں ڈالا، ایک تو یہ کہ ویزہ انقرہ، ترکیہ سے جاری کیا گیا تھا اور دوسرا یہ کہ مذکورہ خاتون نے ویزہ کے لئے فنگرپرنٹس نہیں دیے تھے جبکہ کینیڈین ویزہ کے لئے فنگر پرنٹس ایک لازمی شرط ہے۔ میں نے اُنہیں کینیڈین امیگریشن والوں کا نمبر دیا اور کہا کہ وہ وہاں سے معلومات لے لیں۔ وہاں سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ویزہ بالکل نقلی تھا۔ خاتون کے مطابق جو ایجنٹ تھا وہ خود کو وکیل بھی ظاہر کر رہا تھا، سوشل میڈیا پر اُس کے اچھے خاصے فالور بھی تھے جوویزہ لگوانے پر دن رات اُس کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے تھے۔ کئی تو ایسے تھے جو کینیڈا کے تاریخی مقامات پر کھڑے ہو کر بنائی جانے والی تصاویر بھی شکریہ کے ساتھ اس کی وال پر پوسٹ کرتے تھے۔
Tumblr media
انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ if it is too good to be true, it isn’t۔ یعنی اگر کوئی چیز ناقابلِ یقین حد تک اچھی لگ رہی ہو تو اُس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ یہی بات بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ اگر تھوڑی سی کامن سینس استعمال کی جائے اور اس اصول کو اپنی زندگی پر لاگو کیا جائے تو انسان ایسے دھوکوں سے ہوشیار بھی رہتا ہے اور ان سے بچ بھی سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے گروہوں کی بھرمار ہو چکی ہے جو لوگوں کو ڈالر میں کمائی کیلئے نوکریاں چھوڑ کر کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس تناظر میں کئی کاروباری مشورے بھی دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی بھی سوشل میڈیا پر کافی فالونگ ہے اور ان کیلئے پیسہ بنانا جیسے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن اُن سے عملاً کچھ سیکھنے کیلئے آپ کو اُن کے مہنگے مہنگے کورس کرنا پڑتے ہیں یا کوئی مہنگی ممبر شپ لینا پڑتی ہے اور اُن کے کسی منصوبے میں کوئی انویسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے۔ ایسے فراڈیوں کی پہلے بھی کوئی کمی نہیں تھی لیکن اب سوشل میڈیا نے اُن کیلئے کافی آسانی پیدا کر دی ہے۔ 
سوشل میڈیا پر ان لوگوں کی فین فالونگ دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاں، یہ بندہ واقعی صحیح کام کر رہا ہے۔ لوگ اس اُمید میں ڈالروں میں اُن کی مہنگی ممبر شپ خریدتے ہیں کہ شاید اُن کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں لیکن ایسے بیشتر ماڈل یا تو سرے سے ہی فراڈ ہوتے ہیں یا اُتنا آسان نہیں ہوتا جتنا سوشل میڈیا کمپین میں دکھایا جاتا ہے۔ عوام خود سوچیں، ایک عقل مند انسان، جسے ڈھیروں پیسہ کمانے کا طریقہ آتا ہے، وہ اُس طریقے سے لا محدود دولت اکٹھی کرنے کے بجائے دن رات ایسے کورس کیوں کروائے گا جن میں دوسرے لوگوں کو پیسہ کمانے کے طریقے سکھائے جائیں۔ حالانکہ ایسے کورس کرنے کے بعد بھی بندہ اُتنے پیسے نہیں کما سکتا جتنے پیسے کمانے کے سبز باغ دکھا کر ایسے کورسز بیچے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ ہم دوسروں کے بھلے کیلئے ایسا کرتے ہیں لیکن اگر وہ لوگ واقعی دوسروں کا بھلا چاہتے ہیں تو یہ کام فی سبیل للہ کیوں نہیں کرتے؟ 
مسئلہ یہ ہے کہ ہماری جبلت بھی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم ایسے سبز باغ دکھانے والوں پر یقین کریں، کیونکہ یہ یقین اچھے کی اُمید پیدا کرتا ہے اور اُن پر یقین نہ کرنے سے ہم مایوسی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں بھی ایسے بے شمار فراڈیے منظر عام پر آئے تھے اور کچھ اب بھی موجود ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں روز افزوں مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روز گاری، معاشی مواقع کی کمی اور عوام میں تیزی سے پھیلتی مایوسی کی وجہ سے اِن اور ایسے امیگریشن ایجنٹوں کی چاندی ہے۔ جتنا پیسہ ہم ایسے ایجنٹوں کے پیچھے لگا کر برباد کرتے ہیں اُس سے بہتر ہے کہ یہی پیسہ ہم ��نی تربیت اور اعلیٰ تعلیم کے حصول پر خرچ کریں، اپنی محنت سے آگے بڑھیں۔ اور کسی بھی امیگریشن اسکیم سے متعلق پہلے خود اچھی طرح تحقیق کر لیں اور ایسے ایجنٹوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔
علی معین نوازش 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
بھاگتے رہنا ہمارے بھروسے نہ رہنا
Tumblr media
پچھتر برس پہلے لاکھوں لوگ اپنی مٹی ، گھر بار اور یادیں چھوڑ کے پاکستان آ رہے تھے۔ آج انھی لاکھوں لوگوں کی تیسری چوتھی نسل ہر حربہ استعمال کر کے اپنے گھر بار اور یادیں چھوڑ کے یا تو پاکستان سے جا رہی ہے یا پہلی فرصت میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہے۔ پہلی نسل نے بھی سیاسی، معاشی و سماجی وجوہات اور عدم رواداری کے سبب ہجرت کی تھی۔ ان کی چوتھی نسل بھی انھیں وجوہات کے سبب زمین چھوڑ رہی ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ انسان تب ہی زمین چھوڑتا ہے جب گھر شارک کا جبڑا بن جائے۔ آج ہر ایک کے پاس باہر جانے کا کوئی نہ کوئی ٹھوس جواز ہے اور سب سے بڑا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ اب امید بھی نظر نہیں آ رہی۔ گجرات ، منڈی بہاؤ الدین ، گوجرانوالہ بیلٹ میں ایسے بہت سے گاؤں ہیں جہاں سوائے بچوں کے کوئی بالغ لڑکا نہیں۔ سب باہر ہیں۔ کوئی قانونی طور پر تو کوئی غیرقانونی طور پر نکل گیا ہے۔ اور جو ادھیڑ عمر مرد پائے جاتے ہیں وہ بھی کبھی نہ کبھی باہر جانے کی ’’ ٹرائیاں ’’ مار چکے ہیں۔ کچھ خود واپس آ گئے ، کچھ ڈی پورٹ ہوئے اور کچھ مالی مشکلات کے سبب سفر ملتوی کر بیٹھے۔
ایف آئی اے ہر برس جو ریڈ بک تازہ کرتی ہے۔ اس میں یہ ممکن ہی نہیں کہ سو میں سے پچھتر ہیومین ٹریفکرز اور نام نہاد ٹریول کنسلٹنٹس کا تعلق شمالی یا وسطی پنجاب سے نہ ہو۔ جتنے پکڑے جاتے ہیں، اتنے ہی اور سامنے آ جاتے ہیں۔ ویسے بھی اسمگلنگ آف مائیگرنٹس ایکٹ مجریہ دو ہزار اٹھارہ کے تحت زیادہ سے زیادہ کیا سزا ملے گی ؟ پانچ برس قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ۔ زیادہ تر ملزموں کے خلاف مقدمات ہیومین ٹریفکنگ کی دفعات کے تحت بنانے کے بجائے جعلی دستاویز کی تیاری اور تحویل کے بنتے ہیں اور اس جرم کی سزا نہ ہونے کے برابر ہے۔ پکڑے بھی جاتے ہیں تو پیچھے کوئی بھائی ، بیٹا ، بھتیجا تو ہوتا ہی ہے کاروبار رواں رکھنے کے لیے۔ لہٰذا پکڑ دھکڑ اور چھاپوں سے بس اتنا فرق پڑتا ہے جیسے برف کی سل درمیان سے توڑ دیں تو پانچ منٹ بعد وہ دوبارہ جڑ جاتی ہے۔ جب میں سری نگر کے شہدا قبرستان میں گھوم رہا تھا تو یہ بات نوٹ کی کہ ایک چوتھائی قبریں پاکستانی لڑکوں کی ہیں اور ان میں سے بھی پچاس فیصد کی قبر پر جو لوح نصب ہے۔ اس پر جنوبی پنجاب کے کسی شہر یا قصبے کا نام درج ہے۔ 
Tumblr media
جب بھی دنیا میں کوئی دھماکا یا حملہ ہوتا ہے پہلا خیال یہ آتا ہے کہ اس میں کوئی پاکستانی ملوث نہ ہو۔ جب بھی سعودی عرب سے کسی کے سر قلم ہونے کی خبر آتی ہے۔ دل میں خدشے کا سانپ لہرا جاتا ہے کہ یہ کہیں کوئی ہمارا ہی بھائی بند نہ ہو۔ جب بھی لیبیا، تیونس اور اٹلی کے درمیان حائل بے رحم بحیرہ روم میں کسی کشتی کے ڈوبنے کی خبر آتی ہے تو دماغ میں لال بتی جلنے بجھنے لگتی ہے۔ مرنے والوں میں کوئی گجرات ، منڈی بہاؤ الدین یا گوجرانوالہ کا بچہ نہ ہو، مگر ہر بار کوئی نہ کوئی پاکستانی نکل ہی آتا ہے۔ اب جیسے تین روز قبل ترکی سے روانہ ہونے والی تارکینِ وطن سے بھری جو پھٹیچر سی کشتی جنوبی اٹلی کے ساحل پر ڈوب گئی۔ اس میں سوار ساٹھ افراد کا تعلق ایران ، عراق ، افغانستان اور پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔ اطالوی ، یونانی ، ترک اور شمالی افریقی امیگریشن حکام کے ریکارڈ کی مجموعی تصویر یہ بنتی ہے کہ ایک برس میں جتنے بھی لوگ غیرقانونی طور پر بحیرہ روم پار کرنے کی کامیاب یا ناکام کوشش کرتے ہیں ان میں پاکستانی باشندے تعداد کے اعتبار سے کسی برس چوتھے تو کسی برس تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ یہ زمینی و بحری سفر موت کی بارودی سرنگوں سے اٹا پڑا ہے۔پہلے انھیں ایران کے راستے ترکی یا پھر خلیجی ممالک کے راستے شمالی افریقہ یا وسطی ایشیا کے راستے رومانیہ ، بلغاریہ ، پولینڈ پہنچایا جاتا ہے۔ اکثر راہ کی صعوبتوں کا لقمہ بن جاتے ہیں یا سرحدی محافظوں سے مڈبھیڑ میں ہلاک و گرفتار ہو جاتے ہیں یا انھیں اسمگلر راستے میں چھوڑ کے بھاگ جاتے ہیں۔ جو کسی نہ کسی طرح لیبیا ، تیونس یا ترکی پہنچ جاتے ہیں انھیں بے یقینی کی کشتی میں سوار کروا کے سمندر میں ہنکال دیا جایا ہے۔ سفر کامیاب ہو بھی گیا تو مشکوک یا جعلی دستاویزات فاش ہونے کے خوف سے چھپ چھپا کے قلیل دہاڑی پر غلامی یا بلیک میلنگ کی زندگی بسر کرتے ہیں یا پھر کسی جرائم پیشہ گینگ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں یا ان گروہوں کے لیے ہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر کوئی لڑکی یا عورت اس راستے سے یورپ پہنچا دی جائے تو زیادہ تر کے مقدر میں جنسی استحصال ہی لکھا ہوتا ہے۔ 
مسئلہ صرف ہیومین اسمگلنگ تک ہی رہتا تو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اب تو یہ بحران دوطرفہ تعلقات کو بھی کھا رہا ہے۔ مثلاً ترکی کی جیلوں میں کسی بھی وقت تین ہزار سے چھ ہزار پاکستانی آپ کو ضرور ملیں گے۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جو یورپ میں غیرقانونی طور پر داخل ہوتے ہوئے دھر لیے گئے یا پھر ترکی میں غیرقانونی قیام کے جرم میں پکڑے گئے یا پھر یہاں عارضی اقامت نامے پر رہتے ہوئے کوئی نہ کوئی چھوٹی بڑی واردات کرتے ہوئے تنبو ہو گئے۔ ترکی وہ ملک ہے جہاں دو برس پہلے تک پاکستانی ہونا فخریہ تعارف تھا۔ مگر استنبول میں جنسی ہراسانی کے چند واقعات اور چار یمنی سیاحوں کو گزشتہ برس دن دہاڑے اسلحے کے زور پر اغوا کرنے کی واردات نے ساری عمومی خیرسگالی ملیامیٹ کر دی۔ اب ترکی کا ویزہ بھی بہت سی شرائط میں جکڑ دیا گیا ہے اور عارضی اقامت نامے کا حصول بھی پہلے سے کہیں مشکل بنا دیا گیا ہے۔ 
ترکوں کی بے ساختہ محبتی نگاہوں میں بھی سوالیہ نشانات ابھر آئے ہیں۔ ترک حکام زیرِ لب یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود پاکستان میں ہیومین اسمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑنے اور اس نیٹ ورک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر کے کچھ لوگوں کی سرپرستی کے جال کو چھانٹنے کے سلسلے میں ٹھوس عملی اقدامات کے بجائے انھیں زبانی جمع خرچ پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ جو لوگ مذہبی عدم تحفظ اور جان کے خوف سے یہ ملک چھوڑ رہے ہیں یا چھوڑنا چاہتے ہیں سب کی حتمی منزل یورپ ، امریکا ، کینیڈا ، آسٹریلیا ہی ہے۔  کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں یا چھوڑنا چاہ رہے ہیں۔ مگر وجہ سب کی سانجھی ہے ’’ ہم اس لیے چھوڑنا چاہتے ہیں کیونکہ اس ریاست نے ہمیں ��پنے حال پر چھوڑ دیا ہے ۔‘‘
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
queen0ftheroses · 2 years
Text
Links to Pakistani Flood Relief
So there is currently horrifying floods happening in Pakistan right now, and I wanted to share some links for easy donating to some relief orgs helping with the flood relief right, please donate if possible or at least share this around. https://www.muslimaid.org/pakistan-flood-emergency/
https://minhajwelfare.org/pakistanfloods/
https://prcs.org.pk/
211 notes · View notes
apeshit · 11 months
Text
ppl keep reducing the billionares vs immigrants thing to “rich vs poor” and like . i think the immigrants being ignored has a lot more to it than just them being poor
11 notes · View notes
granitxhka · 1 year
Text
besties help i need the wisdom and guidance of the tumblr goonerinas<3
say at the beginning of the season you wanted to buy one of the new kits and you thought you could only have one so you picked the home kit bc it’s the iconic red and instantly recognizable as arsenal and it’s cute and you love it
but now you said screw it and you’re going to get another one but you can only have one (1) more for real. would you buy the black kit or the pink kit?
or would you do the secret third thing that would most likely upset your mom and buy both of them bc life is short and arsenal is forever etc. ?
14 notes · View notes
choropilled · 7 months
Text
lore for cypress and zarahs names are like.
the name zarah i took from my irl's cousin + khan is a very common muslim last name.
cypress comes from cy, shortened version of cypher (i went by cy for a short time and. took the name from bill cipher LOL) and dawood is another common muslim last name
cy's birthname Aisha is the more common version of my birthname Eisha lol
i never came up with other language names for them simply bc it just never occurred to me and i suppose for their lore it wouldn't make sense
3 notes · View notes
mainfaggot · 7 months
Text
sometimes I forget how homophobic like 95% of pakistanis are
6 notes · View notes
muskaanayesha · 2 years
Text
On independence day, my father says to us: "Nations disappear when their people don't care for them". The same applies to daughers... for whom you do not care for, or care for in a way that you call "protection" but only feels like suffocation. Nations dissappear when people do not care about them, and who cared about the daughter of an immigrant father who had to uphold his honor by walking on eggshells? Who cared about the 12 year old that was shunned for not wearing a dupatta while boys older than her celebrated independence day on the street? Nations dissappear when people do not care about them, but who cares about the girls that just wanted a hug from their parents? Who cares about the over-achieving student, the one that leaves her work to cook, the one who becomes the marriage counselor for her own mother? And when you sing "Is Parcham Kay Saye Talay, Hum Ek Hain" are we excluded? Are our opportunities, our dreams, our desire to be treated like humans not a part of it? When do the daughters of our nations gain freedom? When is their independence day?
28 notes · View notes
wiafm · 1 year
Text
HR Assistant, Auditor, Mason, Carpenter, Steel Fixer, Plumber, Painter & few others are required for Seychelles- All Free work visa.
youtube
HR Assistant, Auditor, Mason, Carpenter, Steel Fixer, Plumber, Painter & few others are required for Seychelles- All Free work visa.
Note:-These work permits are free, so don’t ever pay anything to anyone. All nationalities can apply. Job descriptions and all necessary details such as company contact number Email Id, website etc you can find in this video:- https://youtu.be/WuvV0mQoeN0
WIAFM- Real time global jobs, Subscribe to access free ocean of opportunities: -
4 notes · View notes
shopcopes · 29 days
Text
Oman Nationality for Pakistani
Tumblr media
Introduction
In today's interconnected world, individuals are constantly seeking opportunities to enhance their lives and secure a better future for themselves and their families. One such avenue that holds immense promise is the acquisition of Oman nationality for Pakistani citizens. At Shopcope, we understand the importance of providing comprehensive information to individuals looking to explore this pathway to prosperity.
Tumblr media
Image by Canva
Understanding Omani Nationality Laws
Oman boasts a robust legal framework governing the acquisition of nationality. It's imperative for Pakistani citizens to grasp the intricacies of these laws to navigate the process smoothly. From residency requirements to language proficiency, each criterion plays a pivotal role in determining eligibility.
Eligibility Criteria for Omani Nationality
To qualify for Omani nationality, Pakistani citizens must fulfill specific criteria, including but not limited to: - Residency Requirement: Applicants must meet the prescribed residency period in Oman to be eligible for citizenship. - Good Character: Demonstrating good conduct and abiding by Omani laws and regulations is essential. - Language Proficiency: Proficiency in Arabic is often a prerequisite for citizenship, reflecting the importance of cultural integration.
Benefits of Oman Nationality for Pakistani Citizens
Acquiring Omani nationality opens doors to a myriad of benefits for Pakistani citizens: - Employment Opportunities: Omani citizens enjoy preferential treatment in the job market, providing Pakistani citizens with access to a wider array of career prospects. - Access to Social Services: From education to healthcare, Omani citizens are entitled to various social services, ensuring a higher quality of life for Pakistani families. - Stability and Security: Omani nationality offers a sense of stability and security, providing Pakistani citizens with peace of mind as they build their lives in Oman
Tumblr media
Image by Canva
Navigating the Acquisition Process
While the benefits of Omani nationality are evident, navigating the acquisition process can be daunting for Pakistani citizens. Our team at Shopcope is dedicated to providing guidance and support at every step of the journey, from document preparation to interview readiness.
Steps to Obtain Omani Nationality
- Document Preparation: Ensuring all required documentation is complete and accurate is crucial for a successful application. - Interview Preparation: Our experts offer invaluable insights and tips to help Pakistani citizens prepare for citizenship interviews with confidence. - Legal Assistance: Seeking professional legal assistance can streamline the process and minimize the risk of delays or complications.
Tumblr media
Image by Canva
Cultural Integration
Cultural integration is an integral aspect of acquiring Omani nationality. From learning the Arabic language to embracing Omani customs and traditions, Pakistani citizens embarking on this journey must immerse themselves in the rich tapestry of Omani culture.
Community Support and Resources
At Shopcope, we understand that embarking on the journey to acquire Omani nationality can be overwhelming. That's why we offer a wealth of resources and support networks to assist Pakistani citizens every step of the way. From informational guides to community events, we're here to ensure a smooth transition to Omani citizenship. https://youtu.be/bKD0ybvH0VQ?si=vzo0EkodzCR1Qw1x Video by Centre of Wisdom YouTube Channel
Conclusion: Oman Nationality for Pakistani
Acquiring Omani nationality is not just about obtaining a passport; it's about unlocking a world of opportunities and securing a brighter future for oneself and future generations. At Shopcope, we're committed to empowering Pakistani citizens to navigate the complexities of the citizenship acquisition process with confidence and ease.
FAQs
1. Can Pakistani citizens hold dual nationality in Oman? Pakistani citizens can hold dual nationality in Oman under certain conditions, subject to Omani laws and regulations. 2. What are the benefits of acquiring Oman nationality for Pakistani citizens? Acquiring Oman nationality for Pakistani citizens access to education, healthcare, employment opportunities, and social services, enhancing their quality of life and prospects for the future. 3. Are there any language proficiency requirements for Omani nationality? Proficiency in Arabic is often required for Omani nationality, as it facilitates integration into Omani society and adherence to cultural norms. 4. How long does it take to obtain Omani nationality? The time frame for obtaining Omani nationality varies depending on individual circumstances, the completeness of documentation, and the efficiency of the application process. 5. What challenges do Pakistani citizens face when acquiring Omani nationality? Pakistani citizens may encounter challenges such as cultural adaptation, legal procedures, and bureaucratic hurdles when acquiring Omani nationality, necessitating careful planning and preparation. Read the full article
0 notes
uglyandtraveling · 1 month
Text
Ready to ditch the tourist visa and explore on your own terms? Dive into this comprehensive guide to PR, discover its benefits, and find out if it's the perfect travel upgrade for you!
0 notes
starkidlabs · 5 months
Text
Americans are doing that thing on Twitter again where in order to dunk on the Brits they attempt to argue that immigrants to Britain aren’t really British.
0 notes
kendallroygf · 5 months
Text
i think the hatred or dislike of british/english people is real and right bc this country is shit and shouldn’t exist but when talking abt culture and history i do think being britasian is it’s own thing at this point
1 note · View note
booksperience · 7 months
Photo
Tumblr media
(via The Reluctant Fundamentalist by Mohsin Hamid)
While this conversation scene is fairly tranquil, the subject matter is not. Changez is subjected to constant “othering” during his stay in the US. Even prior to the World Trade Center attacks, he is never quite included in social circles, never quite one of the crowd... (Read full text on Booksperience site.)
0 notes