Tumgik
#ہوگیا
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
تیونشا کا جسم پنچاتوا میں ضم ہوگیا۔
تیونشا کا جسم پنچاتوا میں ضم ہوگیا۔
تیونشا شرما کی آخری رسومات: تیونشا شرما نے محض 20 سال کی کم عمری میں موت کو گلے لگا کر گھر والوں اور پیروکاروں کو کسی بھی طرح سے صدمہ نہیں دیا۔ ہفتے کے روز خود کشی کرنے والی تیونشا کی آخری رسومات 27 دسمبر کو ادا کی گئی ہیں۔ پوسٹ مارٹم کی وجہ سے آخری رسومات میں تاخیر ہوئی۔ اسی وقت تیونشا کا جسم 5 حصوں میں ضم ہو گیا ہے۔ شمشان گھاٹ سے وائرل ہونے والا ویڈیو پیروکاروں کے ساتھ ساتھ خاندان کے مخالف…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
کوئٹہ میں موسلا دھار بارش کے بعد رابطہ منقطع ہوگیا۔
کوئٹہ میں موسلا دھار بارش کے بعد رابطہ منقطع ہوگیا۔
کوئٹہ میں سیلابی ریلے کے دوران امدادی کارکن پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ – ریڈیو پاکستان کوئٹہ: بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کا ملک کے دیگر حصوں سے مؤثر طریقے سے رابطہ منقطع ہو گیا جب کہ موسلادھار بارش سے ہر قسم کی مواصلاتی لائنوں کے ساتھ ساتھ زمینی اور فضائی ٹریفک کے راستے بھی منقطع ہو گئے۔ شہر میں گزشتہ رات ہونے والے بجلی کے بریک ڈاؤن کے باعث انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند ہو گئی جس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
حریم شاہ کی شوہر کے ہمراہ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
حریم شاہ کی شوہر کے ہمراہ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
پاکستان کی مشہور ٹک ٹاکر و اداکارہ حریم شاہ کی شوہر بلال شاہ کے ہمراہ متنازع ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ اداکارہ کی جانب سے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے۔ ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حریم شاہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے قبل حریم شاہ نے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔ وائرل ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا…
View On WordPress
0 notes
masailworld · 1 year
Text
سورہ ملک پڑھ کر برباد ہوگیا کہنا کیسا؟مفتی محمد ارشد حسین فیضی۔
سورہ ملک پڑھ کر برباد ہوگیا کہنا کیسا؟مفتی محمد ارشد حسین فیضی۔
سورہ ملک پڑھ کر برباد ہوگیا کہنا کیسا؟مفتی محمد ارشد حسین فیضی کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید ایک مسجد میں امامت کرتا ہے اس نے ایک مقتدی سے کہا آپ عشاء کی نماز کے بعد سورۂ ملک پڑھا کریں مقتدی سورۂ ملک پڑھنے لگا کچھ دنوں کے بعد سورہ ملک پڑھنے والا مقتدی گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ امام صاحب نے مجھے ایک ایسی سورت پڑھنے کے لیے کہا جس کو پڑھ کر میں برباد ہوگیا…
View On WordPress
0 notes
therealmehikikomori · 2 years
Text
سَگْری عُمْر میں پاپ ، کمائے جَنَم نَہ کِیتا پُن ، لیون ہار گیا تو تن من ہوگیا سن
تمام عمر گناہ کیے اور کوئی نیک کام نہ کیا جب آخری وقت آیا تو فوت ہوگیا ، بناوٹی بھگتوں کے لیے مستعمل ۔
0 notes
0rdinarythoughts · 4 months
Text
جب اُسے علم ہوگیا کہ میں اُس کا عادی ہو چُکا ہوں اور میں سر سے پاؤں اُس کی محبّت میں گرفتار ہوں تو اُس نے جان بوجھ کر مُجھ سے منہ موڑ لیا اور جب میرے احساسات محبّت کی عدم دستیابی سے مر گئے تب وہ میرے پاس لوٹی تو اُس نے مجھے بلکل تبدیل شدہ ایک بدلے ہوئے انسان کے رُوپ میں پایا جِس سے وہ کبھی واقف نہیں تھی ایک ایسا انسان جو اُس کی محبّت سے نا آشنا تھا جو ہر تعلق اور شخص سے بیزار تھا
When she came to know that I was addicted to her and that I was in love with her from head to toe, she deliberately turned away from me, and when my feelings died from lack of love, she returned to me. So she found me completely changed, a changed man she had never known, a man unacquainted with her love, averse to every relation and person.
34 notes · View notes
amiasfitaccw · 3 months
Text
رکھیں باپ کا دھیان
قسط 03 - آخری
اس لیے محلے والوں کو ان سے کوئی اعتراض نہیں تھا کامی آیا تو نصرت نے اسے کھانا دیا باقی سب لوگ کھانے کھا کر جا چکے تھے اسوقت وہاں کوئی نہیں تھا میں نے کامی کو دکان پر جانے کو کہا کامی اور میں اٹھ کر اندر بیٹھک میں آکر لیٹ گیا میرے ذہن میں نصرت کا جسم گھوم رہا تھا نصرت کے جسم کا لمس میرے ذہن پر سوار تھا میرے زہن میں ساری فلم گھوم رہی تھی جس سے میرا کہنی جتنا لن تن کر پھنکارنے لگا میرا ضمیر مجھے روکنے کی کوشش کرتا کہ نصرت میری سگی بیٹی ہے پر کئی دنوں سے ذہن پر چھائی شہوت بھی سکون نہیں آنے دے رہی تھی آخر ضمیر اور شہوت کی جنگ میں شہوت جیت گئی اور میں نے نالا کھول کر پانا کہنی جتنا تنا ہوا لن باہر نکال لیا
Tumblr media Tumblr media
میں نے اپنا لن مسل کر نصرت کے جسم کا تصور آنکھوں میں لے آیا اپنی بیٹی کو اپنے سامنے لیٹا پاکر میں کانپ گیا میں نے کراہ کر تیزی سے ہاتھ چلا کر لن کو مسلنے لگا اپنی سگی بیٹی کو اپنے تصور میں میں نے ننگا کردیا میرے تصور میں میری سگی بیٹی کے تن کر کھڑے ننگے موٹے ممے اور ننگا بدن میری جان لے گیا میں کراہ کر تیز ہاتھ چلاتا ہوا نڈھال ہوگیا اپنی سگی بیٹی نصرت کو اپنے سامنے ننگا سوچ کر میں ہمت جواب دے گئی مجھے ایسا لگا کہ یہ احساس میرا ندر سے ساری گرمی کھینچ کا رہا ہے جس سے میں کانپتی ایسا تڑپنے لگا اسی لمحے میری بیٹی نصرت بھی دروازہ کھول کر اندر آگئی وہ میرے لیے چائے لائی تھی اسے لگا کہ شاید کامی بھی اندر ہوگا جیسے ہی وہ اندر آئی تو سامنے مجھے اپنا کہنی جتنا لن ننگا کرکے ہاتھ میں پکڑ کر تیزی سے مسلتے ہوئے کراہ کر ہانپتا دیکھ کر گھبرا کر چونک گئی
Tumblr media Tumblr media
نصرت کی ہلکی سی چیخ نکلنے لگی جو نصرت نے منہ پر ہاتھ رکھ کر دبا لی اپنے باپ کو یوں ننگا ہوکر مٹھ مارتا دیکھ کر نصرت کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی وہ چونک کر پٹھی آنکھوں سے اپنے باپ کو کا موٹا کہنی جتنا لن دیکھ کر پٹھی آنکھوں سے حیرت سے کھڑی منہ پر ہتھ رکھے کونے میں چلی گئی تھی نصرت کی نظر اپنے باپ کے کہنی جتنے موٹے لن پر تھی میں اپنی بیٹی نصرت کو اپنے تصور میں ننگا دیکھ کر نڈھال ہوکر اسی لمحے کراہ گیا اور ایک لمبی منی کی دھار مار کر کرلاتا ہوا فارغ ہوگیا نصرت میرے لن سے گاڑھی سفید منی کی دھار ہوا میں بلد ہوکر نیچے گرتی دیکھ کر گھبرا گئی نصرت حیرت سے آنکھیں پھاڑے میرے کہنی جیسے لن کو منی ابلتا دیکھ کر ہوش کھو چکی تھی
Tumblr media
میں کراہ کر اپنا لن اپنی بیٹی کے سامنے ننگا کیے لمبی لمبی پچکاریاں مارتا نڈھال ہوچکا تھا نصرت حیرت سے اپنے باپ کے کہنی جتنے لمبے موٹے لن کو منی ابلتا دیکھ کر بے بنی کھڑی تھی اتنا بڑا اور آنکھوں کے سامنے ننگا لن شاہد میری بیٹی نے پہلی بار دیکھا تھا جس سے وہ ہوش کھو چکی تھی میری آنکھ کھلی تو سامنے اپنی بیٹی نصرت کو منہ پر ہاتھ رکھے پٹھی آنکھوں سے اپنے لن غورتے دیکھا تو میرے پاؤں سے زمین نکل گئی میں ہڑبڑا کر اوپر ہوا تو نصرت مجھے دیکھ کر ڈر کر ہلکی سی کر بولی اوئے ہالیوئے ابو اور جلدی سے چائے کے دو کپ وہیں رکھے
Tumblr media
اور میرے سیدھے ہونے سے پہلے مڑی اور بھاگ کر کمرے سے باہر نکل گئی میں ہڑبڑا کر سیدھا ہوا تو نصرت جا چکی تھی میں ایک منٹ میں ہوش میں آکر سمجھ گیا کہ سب کچھ برباد ہوچکا ہے میں اپنی بیٹی کے سامنے مٹھ لگا رہا تھا وہ کیا سوچے گی کہ اس کا باپ کہیں وہ یہ نا سوچے کہ میں اس پر مٹھ لگا رہا تھا یہ سوچ کر میرے اندر کا ضمیر مجھے کہنے طعن کرنے لگا کہ میں نے یہ کیا کر دیا اپنی ہی سگی بیٹی پر مٹھ لگا دی میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور خود کو کوسنے لگا مجھے خود پر بہر غصہ آیا نصرت مجھے بہت چاہتی تھی میں اسکا باپ تھا وہ تو مجھے اپنا سہارا سمجھتی تھی میں نے اس کے ساتھ کیا کیا یہ سوچ کر میرا ندامت سے سر پھٹا جا رہا تھا میرا دل کسی کام کو نا کیا میں نے خود کو سنبھالا اور خود کو لعن طعن کرتا لیٹ کر نیند کی وادیوں میں کھو گیا
//ختم شد//
Tumblr media Tumblr media
12 notes · View notes
my-urdu-soul · 10 months
Text
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم بر ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
مجھے کچھ خبر نہیں کہ آخر محبوب کو دیکھتے ہی میں رقص کیوں کر رہا ہوں لیکن پھر بھی مجھےاپنی اس خوش ذوقی پر ناز ہے کہ میں اپنے محبوب کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔
نگاہش جانب من چشم من محو تماشایش
منم دیوانہ لیکن با دل ہشیار می رقصم
اس کی نگاہ میری طرف ہے اور میری نظر اسے دیکھنے میں مصروف ہے، میں دیوانہ ہوگیا ہوں لیکن ہوشیار دل کے ساتھ رقص کر رہا ہوں۔
زہے رندے کہ پامالش کنم صد پارسائی را
خوشا تقویٰ کہ من با جبہ و دستار می رقصم
کیسی اچھی وہ رندی ہے کہ سیکڑوں پارسائی کو پامال کرتی ہے، کیا خوب تقویٰ ہے کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص میں ہوں (یعنی جبہ و دستار اہل تقویٰ کی علامت ہے اور رقص رندوں کا طریقہ ہے لیکن محبت میں بے خودی کا یہ عالم ہے کہ جبہ و دستار کی اہمیت بھی باقی نہ رہی )۔
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جاں بازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
اے معشوق! آ دیکھ کہ جانبازوں کے اس مجمع میں بصد سامان رسوائی میں رقص کر رہا ہوں۔
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خون من
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم
تو وہ قاتل ہے کہ برائے تماشا میرا خون بہانا چاہتا ہے، اور میں وہ بسمل ہوں جو خنجرِ خونخوار کے نیچے رقص کر رہاہوں۔
تپش چوں حالتے آرد بروئے شعلہ می غلطم
خلش چوں لذتے بخشد بہ نوک خار می رقصم
تپش کی وجہ سے میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ گویا میں شعلہ کے اوپر لوٹ رہا ہوں, خلش کی وجہ سے مجھے ایک ایسی لذت مل رہی ہے کہ میں کانٹے کی نوک پر رقص کر رہا ہوں۔
زہے رنگ تماشایش خوشا ذوق دلم فاضلؔ
کہ می بیند چو او یک بار من صد بار می رقصم
اس کے تماشے کے رنگ کا کیا کہنا اور اے فاضلؔ میرے ذوقِ دل کا کیا کہنا، وہ مجھے ایک بار دیکھتا ہے اور میں سیکڑوں بار رقص کرتا ہوں۔
- سیدی عثمان ھارون
31 notes · View notes
aiklahori · 2 months
Text
‏اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسیں بدلی بیٹھے بھیس
ساڈی جِند نماݨی کُوکدی اسیں رُݪ گئے وِچ پردیس
(اے شاہ حسین اٹھ کے دیکھ لے، ہم نے اپنے طور طریقے بدل لیے، تبھی تو ہماری جان بےسکون ہے اور ہم پردیس (دنیا) میں دھکے کھا رہے ہیں)
ساڈا ہر دم جی کُرلاوندا، ساڈی نِیر وگاوے اَکّھ-
اساں جیوندی جانے مرگئے، ساڈا مادھو ہویا وَکھ
(ہم ہروقت روتے رہتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری، ایسا لگتا ہے کہ مادھو (محبوب) کے بچھڑ جانے سے ہم جیتے جی مر گئے ہیں)
سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا، سانوں پَل پَل چَڑھدا زہر
ساڈے اندر بیلے خوف دے، ساڈے جنگݪ بݨ گئے شہر
(وقت کے زہریلے سانپ نے ہمیں ڈس لیا ہے تو زہر لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے، ہمارے اندر خوف نے ڈیرے ڈال لیے ہیں ہمارے شہر جنگل بن گئے ہیں)
اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساڈی رُڑھ گئی ناؤ پتوار
ساڈے بولݨ تے پابندیاں، ساڈے سِر لٹکے تلوار
(ہم ایسے غموں میں ڈوبے کہ ہماری کشتی بھی پانی کے ساتھ بہہ گئی، ایسا دور آگیا ہے کہ سچ بولنے بلکہ کچھ بھی بولنے پر پابندی ہے اور کہیں سے حکم کی اک تلوار ہر وقت ہمارے سروں پر لٹکتی رہتی ہے)
اساں نیناں دے کھوہ گیڑ کے کِیتی وتّر دل دی بھوں
ایہ بنجر رہ نماننڑی، سانوں سجّݨ تیری سَونھ
(ہم نے آنکھوں کے کنویں چلا کر دل کی زمین کو وتر یعنی نم کیا (مطلب رو رو کر ہمارا دل نرم ہوگیا) لیکن اے میرے محبوب تیری قسم! یہ سب کچھ کرنے کے باوجود راہیں ویران اور بنجر ہی رہیں)
اساں اُتوں شانت جاپدے، ساڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے، پئے آکھݨ لوک ملنگ
(ایسا لگتا ہے ہم باہر سے پرسکون ہیں لیکن ہمارے اندر جنگ لگی ہوئی ہے (موجودہ ملکی حالات کی عکاسی)، ہمیں خاموش دیکھ کے لوگ ہمیں ملنگ (بیوقوف) کہتے ہیں (لیکن وقت سب کچھ بتائے گا ان شاءاللہ)
اساں کُھبھے غم دے کھوبڑے، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تاݨے باݨے سوچدے، اساں بُݨدے رہندے کھیس
(ہم غموں میں ایسے کھو گئے کہ ہمارے بال (زلفیں) لمبے ہوگئے، ہم تانے بانے بنتے رہتے ہیں کہ کھیس چادریں بنانے سے شاید کوئی بہتری ہو جائے)
ہُݨ چھیتی دوڑیں بُلھیا، ساڈی سوݪی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنایت دا، نہ توڑیں ساڈا ماݨ
(اے بابا بلھے شاہ جلدی آجائیے ہماری جان سولی پر لٹکی ہے، آپ کو شاہ حسین کا واسطہ ہمارا مان اور بھروسا نہ توڑنا)
اساں پیریں پا لئے کُعھنگرو، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساڈی جان لباں تے اپّڑی، ہُݨ چھیتی مُکھ وِکھاݪ
(ہم نے پیروں میں گھنگھرو باندھ لیے ہیں اور ہم دھمالیں اور لڈیاں ڈال رہے ہیں، ہماری جان، جان بلب ہے، جلدی جلدی اپنا منہ دکھا دیجیے)
ساڈے سر تے سورج ہاڑھ دا، ساڈے اندر سِیت سیال
بَݨ چھاں ہُݨ چیتر رُکھ دی، ساڈے اندر بھانبڑ باݪ
(ہمارے سر پر گرم سورج ہے لیکن ہمارا اندر ٹھنڈا ٹھار ہے، چیت یعنی بہار کی چھاؤں بن کے ہمارے ٹھنڈے جسم گرم کر دیجیے)
اساں مچ مچایا عشق دا، ساڈا لُوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانوݪا، اساں ہر دم جپیا توں
(ہمارے اندر اتنا عشق (محبت) ہے کہ ہمارا لوم لوم جل رہا ہے، اور ہم نے آپ کا اتنا نام پکارا ہے کہ خود کو بھول گئے ہیں)
سانوں چِنتا چِخا چڑھاوݨ دی، ساڈے تِڑکݨ لَگے ہَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساڈے سینے دتی گَڈ
(غموں نے ہمیں بہت دکھ دیئے ہیں اور ہماری ہڈیاں بولنے لگ گئی ہیں، قسمت نے دکھوں کی درانتی ہمارے سینے میں گاڑھ دی ہے)
اساں دُھر تُوں دُکھڑے چاکدے ساڈے لیکھیں لکھیا سوگ
ساڈی واٹ لمیری دُکھ دی، ساڈے عُمروں لمے روگ
(ہم ہمیشہ سے دکھ ہی دیکھتے آ رہے ہیں اور ہمارے مقدر میں سوگ اور غم لکھا گیا ہے، ہماری دکھ بھری زندگی کے روگ بہت لمبے ہیں)
ساڈے ویہڑے پھوہڑی دُکھ دی، ساڈا رو رو چویا نور
ایہ اوکڑ ساڈی ٹاݪ دے، تیرا جیوے شہر قصور
(ہمارے اندر اتنا دکھ ہے کہ رو رو کر آنکھوں کا نور ختم ہوگیا ہے، ہماری یہ مشکلات اللہ کرے ختم ہو جائیں اور آپ کا شہر قصور ہنستا بستا رہے)
آ ویکھ سُخن دیا وارثا، تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں ناݪ رکھݨ وَیر
(اے دانش و سخن کی باتیں کرنے والے بابا وارث شاہ آپ کے جنڈیالہ شہر کی خیر ہو، آ کے دیکھ لے کہ ماں بولی (پنجابی) کے بیٹے ہی اپنی ماں کے دشمن ہیں)
اَج ہیر تیری پئی سہکدی، اَج کَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ہزارے ڈھے گئے، اَج اُجڑیا تیرا جَھنگ
(اس دور میں آپ کی ہیر (عورت ذات) سسکیاں بھر رہی ہے اور کیدو (برے لوگوں) پر رنگ چڑھا ہوا ہے، اب تو کئی تخت ہزارے (جھنگ جیسے ہمارے شہر) بھی برباد ہو رہے ہیں)
اَج بیلے ہو گئے سُنجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنھا
اَج پِھرن آزُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء
(اب بیلے اور ڈیرے ویران ہیں اور راوی و چناب سوکھے پڑے ہیں، اب رانجھے (دوسروں کا خیال رکھنے والے لوگ) غمزدہ پھرتے ہیں اور کھیڑے (برے لوگ) خوشیاں منا رہے ہیں)
اَج ٹُ��ی ونجݪی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَݨ جوگی دَر دَر ٹوݪھیا، سانوں کوئی نہ مِݪیا مِیت
(اب تو پیار کی بانسری بجانے والا بھی کوئی نہیں، سب بانسریاں اور سکون بھرے گیت ختم ہوگئے، ہم نے جگہ جگہ اچھا ساتھی ڈھونڈنے کی کوشش لیکن ہمیں ہمارا محبوب نہ ملا)
(بابا غلام حسین ندیمؔ)
(ترجمہ: قاسم سرویا)
source
3 notes · View notes
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
انکت گپتا کے گدے پر ایک عورت نظر آئی، وہاں ہنگامہ ہوگیا۔
انکت گپتا کے گدے پر ایک عورت نظر آئی، وہاں ہنگامہ ہوگیا۔
انکت گپتا ویڈیو: انکت گپتا، جنہیں حال ہی میں ‘بگ باس 16’ سے نکال دیا گیا تھا، جیسے ہی ایک بار پھر سرخیوں میں آئے ہیں۔ انکت یہاں گھر سے نکلا اور ٹھہرا، اس دوران ایک خاتون اس کے گدے پر نظر آئی۔ جسے دیکھ کر سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی پرینکا چاہر چودھری کے ساتھ انکت کے تعلقات پر بھی کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ انکت گپتا فلمیں وائرل ویڈیو میں انکت گپتا انٹرویو دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
کراچی ایک بار پھر رہنے کے لیے بدترین جگہوں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔
کراچی ایک بار پھر رہنے کے لیے بدترین جگہوں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔
11 جولائی 2022 کو کراچی، پاکستان میں مون سون کے موسم میں ایک خاندان سیلاب زدہ گلی سے گزر رہا ہے۔ — رائٹرز اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (EIU) کی جانب سے جاری کردہ گلوبل لائیوبلٹی انڈیکس 2022 میں رہنے کے لیے دنیا کے بہترین اور بدترین مقامات کا انکشاف کرتا ہے اور کراچی ایک بار پھر ٹاپ 10 بدترین مقامات میں شامل ہے۔ انڈیکس نے پانچ عوامل کے لیے 172 شہروں کا تجزیہ کیا اور نشان زد کیا: بنیادی ڈھانچہ، صحت کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
Tumblr media
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
Tumblr media
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر   یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
paknewsasia · 2 years
Text
حریم شاہ کی بلال شاہ کے ساتھ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
حریم شاہ کی بلال شاہ کے ساتھ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
پاکستان کی مشہور ٹک ٹاکر و اداکارہ حریم شاہ کی اپنے شوہر بلال شاہ کے ہمراہ متنازع ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ حریم شاہ نے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جسے دیکھ کر صارفین ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ وائرل ویڈیو پر اداکارہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ مختلف تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس سے قبل اداکارہ کی جانب سے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
syedale · 1 year
Text
جو دنیا کے بارے میں رنجیدہ ہو کرصبح کرے وہ درحقیقت قضائے الٰہی سے ناراض ہے اور جو صبح اٹھتے ہی کسی نازل ہونے والی مصیبت کاشکوہ شروع کردے اس نے درحقیقت پروردگار کی شکایت کی ہے۔جوکسی دولت مند کے سامنے دولت کی بنا پرجھک جائے اس کا دو تہائیدین بابرباد ہوگیا۔اورجوشخص قرآن پڑنے کے باوجود مرکر جہنم واصل ہوجائے گویا اسنے آیات الٰہی کامذاق اڑایا ہے۔جس کا دل محبت دنیامیں وارفتہ ہو جاء اس کے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہو جاتی ہیں۔وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ' وہ لالچ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اوروہ امید جسے کبھی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔
Imam ali
3 notes · View notes
empty-eyes-world · 2 years
Text
جگ ٹھگ باز دا علم تے ہائیا
ناز ادائیں تے ڈلنڑاں نائیا
منکھ لوائی بھولے آ
دل کتھے کھڑایائی او بھولے آ
دھوکے باز دنیا کا علم تو تھا
جھوٹ اور فریب پی قربان ہوگیا
اب بہت دکھ ہو رہا ہے
او بھولے انسان دنیا میں دل کیاں گم کر لیا
8 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 years
Text
ہم اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟
نیا ڈنر سیٹ خریدا ہے تو کھانا پرانے میں کیوں کھایا جائے؟
نئے کپڑے سلوائے ہیں تو اُنہیں عام حالات میں بھی پہننے میں کیا مضائقہ ہے؟
گھر میں ڈیڑھ لٹر والے کولڈ ڈرنک کی خالی بوتلوں کے انبار لگتے جارہے ہیں لیکن پھینکنے کا حوصلہ نہیں پڑ رہا۔
نیا بلب خرید لیا ہے تو پرانے کو سٹور میں کیوں سنبھال کے رکھ دیا ہے؟
باتھ رو م میں نیا شیونگ ریزر موجود ہے تو پرانے پندرہ ریزر کا انبار کیوں لگا رکھا ہے؟
پانچ سو روپے والا لائٹر خرید ہی لیا ہے تو اُسے استعمال کیوں نہیں کرتے؟
نئی بیڈ شیٹ کیوں سوٹ کیس میں پڑی پڑی پرانی ہوجاتی ہے؟
جہیز میں ملی نئی رضائیاں کیوں بیس سال سے استعمال میں نہیں آئیں؟
باہر سے آیا ہوا لوشن کیوں پڑا پڑا ایکسپائر ہوگیا ہے؟؟؟
دل چاہیے۔۔۔! نئی چیز استعمال کرنے کے لیے پہاڑ جتنا دل چاہیے ‘جو لوگ اس جھنجٹ سے نکل جاتے ہیں ان کی زندگیوں میں عجیب طرح کی طمانیت آجاتی ہے۔ یہ شرٹ خریدیں تو
اگلے دن پورے اہتمام سے پہن لیتے ہیں۔
یہ ہر اوریجنل چیز کو اُس کی اوریجنل شکل میں استعمال کرتے ہیں اور ہم جیسے دیکھنے والوں کو لگتاہے جیسے یہ بہت امیر ہیں حالانکہ یہ سب چیزیں ہمارے پاس بھی ہوتی ہیں لیکن ہماری ازلی بزدلی ہمیں ا ن کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتی۔
دن پہ دن گذرتے جاتے ہیں لیکن ہم نقل کی محبت میں اصل سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کسی کے گھر سے کیک آجائے تو خود کھانے کی بجائے سوچنے لگتے ہیں کہ آگے کہاں دیا جاسکتا ہے۔
ہر وہ کیک جس پر لگی ٹیپ تھوڑی سی اکھڑی ہوئی ہو‘اس بات کا ثبوت ہے کہ اہل خانہ نے ڈبہ کھول کر چیک کیا ہے اور پھر
اپنے تئیں کمال مہارت سے اسے دوبارہ پہلے والی حالت میں جوڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔پتانہیں کیوں ہم میں سے اکثر کو ایسا کیوں لگتاہے کہ اچھی چیز ہمارے لیے نہیں ہوسکتی۔
اور تو اور ہم بچے سے جوان ھو گئے مگر اپنے ناپ کے کپڑے اور جوتے نصیب نہ ھوئے ، جوتا احتیاطاً ایک دو نمبر بڑا لیا جاتا
لاکھ پہن کر رو کر بھی دکھایا کہ دیکھو اماں میری ایڑھی تو اس جوتے کی کمر تک جا رھی ھے مگر ایک ہی جواب کہ پاؤں بڑھ رھا ھے اگلے سال پورا ھو جائے گا اور قسم سے اگلا سال آیا بھی نہ ھوتا اور جوتا لیرو لیر ھو جاتا ، کپڑے ہمیشہ ایک بالشت بڑے رکھوانے ہیں تا کہ اگلے سال چھوٹے بھائی کو بھی
پورے ھو جائیں ـ چلیں اس شر میں بھی خیر یہ تھی کہ جو لڑکیاں کسی کو بھی گھاس نہ ڈالتی تھیں وہ ان كو دیکھ کر ضرور مسکراتی تھیں ،،
ہم ساری زندگی اچھے لباس کے میلا ہونے کے ڈر سے جیتے ہیں اور پھر ایک دن دودھ کی طرح اجلا لباس پہن کر مٹی میں اتر جاتے ہیں۔
”خوش رھیے اور خوشیاں بانٹیے“
6 notes · View notes