Tumgik
#متنازع
akksofficial · 2 years
Text
نئے آرمی چیف کا انتخاب دباو میں آکر نہیں کرینگے،خواجہ آصف
نئے آرمی چیف کا انتخاب دباو میں آکر نہیں کرینگے،خواجہ آصف
اسلام آ باد (نمائندہ عکس) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر حکومت کسی دبا ومیں نہیں آئے گی، جو فیصلہ ہوگا آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق ہوگا۔ اس عمل کو متنازع بنانے والوں کے خلاف بلا رعایت کارروائی کی جائے گی۔ امریکی ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے انٹرویو میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان آرمی کے سپہ سالار کی تقرری کے معاملے میں کسی کے دبا میں آ کر کوئی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
حریم شاہ کی شوہر کے ہمراہ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
حریم شاہ کی شوہر کے ہمراہ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
پاکستان کی مشہور ٹک ٹاکر و اداکارہ حریم شاہ کی شوہر بلال شاہ کے ہمراہ متنازع ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ اداکارہ کی جانب سے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے۔ ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حریم شاہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے قبل حریم شاہ نے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔ وائرل ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا…
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
سپین کی فٹبال سٹار جینی ہرموسو نے متنازع بوسے پر بیان ریکارڈ کرادیا
ہسپانوی فٹ بال اسٹار جینی ہرموسو نے منگل کو میڈرڈ ہائی کورٹ میں متنازع بوسے پر گواہی دی، ہعموسو نے کہا کہ فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ لوئس روبیلس نے گزشتہ موسم گرما میں خواتین کے ورلڈ کپ میں اسپین کی جیت کے بعد ان کی رضامندی کے بغیر ان کے ہونٹوں پر بوسہ دیا تھا۔ ہرموسو نے تفتیشی جج فرانسسکو ڈی جارج سے بند دروازوں کے پیچھے بات کرتے ہوئے تقریباً 2-1/2 گھنٹے گزارے، جو الزامات کو منظور کرنے اور مقدمے کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
lifephilosophys-blog · 5 months
Text
عندما ترفض أن تساعد شخصًا يريد استغلالك لمصالحه الشخصية ويستخدمك كأداة لظلم نفسه عبر الاعتماد الزائد، فإنك بالفعل تمنحه فرصة للتأمل ولإعادة التقييم. ربما يكتشف طرقًا أفضل للحياة، وربما يفتح عقلك لفهم القيم الحقيقية للتعاون والمساعدة.
رفض المساعدة في حالات معينة قد يكون فعلاً خطوة صحيحة. فالمساعدة المستمرة دون تحقيق التوازن والعدالة يمكن أن تكون ضارة للجميع، بما في ذلك للشخص الذي يطلب المساعدة. إذا كان الشخص ينتهج سُلوكاً يعتمد على الاستغلال أو عدم المسؤولية، فإن رفض المساعدة قد يكون تنبيهًا له بأنه بحاجة إلى التفكير في سلوكه واتخاذ خطوات لتغييره.
أحيانا، قد يكون رفض المساعدة هو أفضل طريقة لمساعدة الشخص على التقدم وتحقيق التغيير. فالاعتماد الدائم على الآخرين لا يساهم في نضوج الفرد وتقوية قدراته على الاعتماد على الذات. عندما يجد الشخص نفسه بمفرده، يمكنه اكتشاف القوة الحقيقية التي تكمن داخله والبحث عن حلول لمشاكله بدلاً من الاعتماد على الآخرين.
إن رفض المساعدة يمكن أن يكون فرصة للشخص لتحمل المسؤولية الكاملة عن حياته وقراراته. وهذا قد يساعده في تطوير قدراته في اتخاذ القرارات الصائبة وتحمل عواقب تصرفاته. فالتنمية الشخصية تأتي من خلال مواجهة التحديات والمسؤولية وليس عبر الاعتماد الزائد على الآخرين.
ربما يكون رفض المساعدة هو بمثابة إشارة للشخص ليبحث عن سبل أفضل للتطور والنمو. قد يدفعه ذلك للبحث عن حلول ذاتية وتعلم كيف يصنع الفرص بنفسه، مما قد يؤدي إلى نتائج أفضل على المدى الطويل.
وفي النهاية، ربما يكون رفض المساعدة هو فرصة للتحكم في حياتك وفي مدى تأثير الآخرين فيها. بدلاً من تقديم المساعدة بلا حدود ودون أي معايير، قد يكون من الضروري وضع حدود وتعيين معايير لتقديم المساعدة، مما يساعد في تحقيق التوازن بين العناية بالآخرين والعناية بالذات.
في النهاية، رفض المساعدة لشخص يريد استغلال الآخرين قد يكون فعلاً فرصة للتغيير والتحسين، له ولك. إنه يسمح للشخص بالتأمل في تصرفاته ويقدم له فرصة للنمو والتطور، وفي الوقت نفسه يمنحك قوة لتعيش بحرية وبمعايير غير متنازع عليها.
When you refuse to help someone who wants to exploit you for their personal gain and uses you as a tool to unjustly benefit from an excessive reliance, you are actually giving them an opportunity for reflection and reassessment. Perhaps they will discover better ways of living, and perhaps it will open your mind to understand the true values of cooperation and assistance.
Refusing to help in certain situations may indeed be the right step. Continued assistance without achieving balance and fairness can be detrimental to everyone, including the person seeking help. If the person engages in behavior based on exploitation or irresponsibility, refusing to help may serve as a warning to them that they need to reconsider their behavior and take steps to change.
Sometimes, refusing to help may be the best way to help a person progress and bring about change. Constantly relying on others does not contribute to an individual's maturity or the strengthening of their self-reliance. When a person finds themselves alone, they can discover the true strength within themselves and seek solutions to their problems instead of relying on others.
Refusing to help can be an opportunity for the person to take full responsibility for their life and decisions. This may help them develop their abilities to make the right decisions and bear the consequences of their actions. Personal development comes from facing challenges and responsibilities, not from excessive reliance on others.
Refusing to help may be a signal for the person to seek better ways for development and growth. It may compel them to search for self-reliant solutions and learn how to create opportunities for themselves, leading to better long-term results.
Ultimately, refusing to help may be an opportunity to take control of your life and the extent of others' influence on it. Instead of providing assistance without boundaries and without any standards, it may be necessary to set boundaries and establish standards for providing assistance, helping to achieve a balance between caring for others and caring for oneself.
In the end, refusing to help someone who wants to exploit others may indeed be an opportunity for change and improvement, for both them and for you. It allows the person to reflect on their actions and provides an opportunity for growth and development, while also giving you the power to live freely and by uncompromising standards.
17 notes · View notes
risingpakistan · 5 months
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
Tumblr media
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔ 
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
Tumblr media
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔ 
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
4 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
Tumblr media
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟ 
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبل�� کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
Tumblr media
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟  معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes · View notes
alqahria · 6 days
Text
بدء فرز الأصوات في الانتخابات العامة في الهند
د. إيمان بشير ابوكبدة بدأت مفوضية الانتخابات الهندية، فرز الأصوات في الانتخابات العامة لمجلس النواب بالبرلمان (لوك سابها)، البالغ عدد مقاعده 543 مقعدا، والتي شارك فيها نحو 650 مليون شخص على مدى أكثر من ستة أسابيع. أوبدأ العد في الساعة الثامنة صباحا بتوقيت المحلى ببطاقات الاقتراع البريدية، قبل مواصلة التصويت على الأجهزة الإلكترونية في مراكز العد الموجودة في نصف ألف دائرة انتخابية متنازع عليها،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
شرح القاعدة الفقهية: التابع تابع - مع أمثلة
التابع : هو الذي يكون جزءاً مما يضره التبعيض كالفص للخاتم، أو كان وصفاً له كالشجر والبناء في الأرض، أو من ضروراته كالمفتاح للقفل أو كالطريق الدار . وهذا حيث لا عُرف فيه، فلو كان هناك عُرف في ذلك فيجب أن يُتبع .  قال العلامة حيدر : التابع للشيء في الوجود تابع له في الحكم. وكما أن التابع يدخل في عقود التمليك يدخل أيضاً في الشهادة والقضاء ودخوله فيهما تبعاً يعتبر ما دام مسكوتاً عنه وغير متنازع فيه،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
قوم سیلاب سے دو چار ، عمران خان قومی اداروں کیخلاف سنگین بہتان تراشی کر رہے ہیں،وفاقی وزیر تعلیم
قوم سیلاب سے دو چار ، عمران خان قومی اداروں کیخلاف سنگین بہتان تراشی کر رہے ہیں،وفاقی وزیر تعلیم
شیخوپورہ(نمائندہ عکس)وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے کہا کہ قوم سیلاب سے دو چار ہے اور عمران خان مسلح افواج سمیت قومی اداروں کیخلاف سنگین بہتان تراشی کر رہے ہیں، اس بہتان تراشی کا مقصد عوام کو فوج سے لڑاناہے عمران خان کے افواجِ پاکستان کیخلاف نفرت پھیلانے اور حساس پیشہ وارانہ امور کو متنازع بنانے کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہیں پاک افواج نے پاکستان کی سالمیت اور دفاع کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
حریم شاہ کی بلال شاہ کے ساتھ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
حریم شاہ کی بلال شاہ کے ساتھ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
پاکستان کی مشہور ٹک ٹاکر و اداکارہ حریم شاہ کی اپنے شوہر بلال شاہ کے ہمراہ متنازع ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ حریم شاہ نے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جسے دیکھ کر صارفین ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ وائرل ویڈیو پر اداکارہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ مختلف تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس سے قبل اداکارہ کی جانب سے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 7 months
Text
کروشیا کے وزیر خارجہ کا جرمن ہم منصب کو بوسہ تنازع کا باعث بن گیا
جمعرات کو برلن میں یورپی یونین کے وزراء کے اجلاس میں کروشیا کے وزیر خارجہ نے اپنے جرمن ہم منصب کو بوسہ دے کر تنازعہ کو جنم دیا۔ Gordan Grlić-Radman نے جرمن وزیر خارجہ Annalena Baerbock سے مصافحہ کیا، پھر اسے چومنے کے لیے آگے جھک گئے۔ The Croatian Minister of Foreign Affairs tried to kiss Analena Berbok, she slipped away pic.twitter.com/bsuOiSwJvu — S p r i n t e r X (@SprinterX99880) November 4,…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
sawtelghad · 26 days
Link
بعدما أنهى حكمها الذاتي.. لماذا يخشى حزب بهاراتيا الحاكم بالهند خوض الانتخابات التشريعية بكشمير؟ https://sawtelghad.net/79149?feed_id=2611&_unique_id=6643d0e1623ef
0 notes
jhelumupdates · 1 month
Text
برطانیہ میں گرفتار تارکین وطن کی پہلی کھیپ روانڈا منتقل کرنے کے تیاری مکمل
0 notes
tihama24 · 3 months
Text
مقتل سائق جرافة على يد مسلحين شمال صنعاء
New Post has been published on https://tihama24.com/yemen/news292190
مقتل سائق جرافة على يد مسلحين شمال صنعاء
أقدم مسلحون على قتل سائق جرافة أثناء عملة في قطعة أرض متنازع عليها شمال العاصمة صنعاء المحتلة صنعاء. وذكرت مصادر قبلية الخميس أن سائق جرافة، قتل ليل أمس بمنطقة ضلاع همدان شمال غربي محافظة صنعاء خلال محاولته العمل في قطعة أرض متداخلة مع مزرعة أخرى . وأوضحت أن سائق الجرافة القتيل يدعى “عبد الواحد القحيطه” …
0 notes
my-yasiuae · 3 months
Text
مانيلا - أ ف ب أعلن خفر السواحل الفيليبيني، أن إحدى سفنه تعرضت لأضرار الثلاثاء، إثر اصطدامها بأخرى تابعة لخفر السواحل الصيني، خلال قيامها بمهمة إمداد في بحر الصين الجنوبي. وقال العميد في خفر السواحل الفيليبيني، جاي تارييلا في منشور على منصة إكس: «إن سفينة تابعة لخفر السواحل الصيني ترافقها مجموعة سفن قامت بمناورات خطيرة وعرقلة؛ نتج عنها تصادم أدى إلى أضرار طفيفة في هيكل سفينة خفر السواحل الفيليبيني». وأشار إلى أنه تم نشر سفينة «بي ار بي سندانغان» وسفينة ثانية، لدعم عملية التناوب وإعادة تموين القوات المسلحة الفيليبينية في المنطقة. وتطالب الصين بالسيادة على بحر الصين الجنوبي بكامله تقريباً، متجاهلة مجموعة من دول جنوب شرق آسيا المطلة على البحر، وحكماً قضائياً دولياً بعدم أحقيتها. وأعلن خفر السواحل الصيني الثلاثاء، في بيان أنه اتخذ إجراءات السيطرة ضد ما وصفه بـ «توغل غير قانوني» لسفن فيليبينية في جزء متنازع عليه من بحر الصين الجنوبي. وقال البيان: «في 5 آذار/ مارس، اتخذ خفر السواحل الصيني إجراءات السيطرة، وفقاً للقانون ضد تسلل غير قانوني لسفن فيليبينية في المياه المتاخمة لشعاب ريناي جياو المرجانية في جزر نانشا الصينية». و«ريناي جياو» هو الاسم الصيني لجزيرة «ساكند توماس شول» ضمن مجموعة جزر «سبراتلي» التي تطلق عليها بكين اسم «نانشا». وهذا الاصطدام هو الحادث الثاني من نوعه منذ كانون الأول/ ديسمبر، عندما أطلقت سفن صينية خراطيم مياه على زوارق عسكرية فيليبينية. المصدر: صحيفة الخليج
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
عمران خان کی نا اہلی
پاکستانی جمہوریت کا المیہ یہ رہا کہ اس کے مقدر میں ہمیشہ کم نصیبی ہی آئی۔ پروڈا اور ایبڈو جیسے کالے قوانین ماضی میں جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئے۔ آج کے زمانے میں نیب وہی کچھ کر رہا ہے جو ماضی میں ایبڈو کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ ہماری جمہوریت کے دامن میں نااہلیاں ہیں، پھانسیاں ہیں اور جلاوطنیاں ہیں۔ سزائیں اور کال کوٹھڑیاں ہیں، ہماری جمہوریت کا دامن محترمہ بے نظیر بھٹو کے دن دہاڑے قتل کے خون سے رنگین ہے اور میاں نواز شریف کی بار بار سزا کا داغ بھی اس کی پیشانی پر نمایاں ہے۔ جمہوریت کے قبرستان میں عمران خان کی نااہلی کی صورت میں ایک تازہ قبر کھودی گئی ہے۔ اب معلوم نہیں اس میں کیا کچھ دفن ہو گا۔ جمہوری روایات مدت ہوئی دم توڑ چکیں، شخصی احترام کی باتیں تو قصۂ پارینہ بن گئیں، اب اس دور میں اور کیا کچھ دفن ہونا ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ماضی میں بھٹو کی پھانسی پر عوامی اتحاد نے مٹھائیاں بانٹی تھیں، نواز شریف کی تاحیات نااہلی پر تحریک انصاف نے جشن منایا تھا، اسی طرح عمران خان کی نااہلی پر پی ڈی ایم کی اتحادی پارٹیاں شاداں و فرحاں نظر آ رہی ہیں۔
ہمارے سیاسی جماعتوں کے قائدین یہ کب سمجھیں گے کہ ہمارے نظام انصاف نے کبھی جمہوریت کی شان میں اضافہ نہیں کیا۔ اب پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے لیے پر تولے جا رہے ہیں۔ کوئی تو صاحبِ دانش ہو، جو اس کلاس کو یہ بتائے کہ ان کے سیاسی مسائل کا حل عدالتوں کے پاس نہیں بلکہ عوام کے ووٹ کی طاقت میں ہے۔ آخر کب تک انصاف کی راہداریوں میں سیاستدان بے لباس ہوتے رہیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو کب ہوش آئے گا کہ وہ اپنے باہمی تنازعات کے حل کیلئے گیٹ نمبر 4 کی طرف یا عدالتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے عوام سے رجوع کریں کیوں کہ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ تو عوام ہیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن نے گزشتہ جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس کیس میں متفقہ فیصلے کے ذریعے نااہل قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں ان کی وہ نشست خالی قرار دے دی جس سے وہ پہلے سے ہی مستعفی ہو چکے تھے۔
وہ حالیہ ضمنی انتخاب میں جیتی ہوئی چھ نشستوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے جن پر ابھی انہوں نے حلف ہی نہیں اٹھایا۔ اب یہ بحث اپنی جگہ پر موجود ہے کہ آیا الیکشن کمیشن کسی کو نااہل قرار دینے کا مجاز ہے یا نہیں، دوسری طرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلائے جانے کا بھی امکان ہے۔ آرٹیکل 63/1-P کے تحت نااہلی موجودہ اسمبلی کی دستوری میعاد پوری ہونے تک رہے گی جب کہ فوجداری مقدمہ چلنے کی صورت میں الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 174 کی رو سے کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب شخص کو تین سال قید اور ایک لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ ان قانونی نکات کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس طرح کے احکامات سے نہ تو سیاسی جماعت ختم کی جا سکتی ہے نہ ہی کسی سیاسی شخصیت کا کیریئر ختم کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی لیکن انکی پارٹی آج بھی زندہ ہے۔ میاں نواز شریف جلاوطن ہوئے، پھر نااہل ہوئے، ایک مرتبہ پھر جلاوطنی اختیار کی، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نون اپنی جگہ پر قائم ہے، یہ الگ بات ہے کہ میاں شہباز شریف کے بعض عوام دشمن اقدامات کی بدولت عوام میں مسلم لیگ نون کی مقبولیت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان کو نااہل کر کے وہ ان کی سیاست ختم کر دے گا تو یہ سوچ درست نہیں۔ نااہلی کے فیصلے کے باوجود عمران خان آج ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے، جس کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ اس نوعیت کے متنازع فیصلے کبھی عوام میں مقبول نہیں ہو سکے۔ اگر ان فیصلوں کی کوئی وقعت ہوتی تو ’’عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘‘ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس قاضی فائز عیسٰی یہ نہ کہتے کہ عدالتوں کے ذریعے نواز شریف کو غلط سزا دلوائی گئی۔جسٹس عیسٰی کا عدالتی سیاسی فیصلوں پر کھلا تبصرہ یہ بتا رہا ہے کہ عدالت، عظمیٰ ہو یا عالیہ، اب ان فیصلوں کا مزید بوجھ اٹھانے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان کی عدالتوں میں اب یہ بات کھلے عام کہی جانے لگی ہے کہ عدلیہ کے ماضی میں کیے گئے فیصلوں سے ملک میں جمہوریت عدم استحکام کا شکار ہوئی۔اس لئے سیاستدانوں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نئے جمہوری اور آئینی میثاق پر اتفاق کرنا ہو گا۔ تب ہی پارلیمنٹ کا وقار بحال ہو گا۔ اگر سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جھگڑے کوئی اور ادارہ نمٹاے گا تو انہیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس سے جمہوریت کا ادارہ روز بروز طبعی موت کی طرف بڑھتا جائے گا۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ اس نوعیت کی متنازع مداخلت سے نہ تو ملک کی جمہوریت کو استحکام نصیب ہوا اور نہ ہی آئندہ ممکن ہے۔ ایسے غیر جمہوری اقدامات سے نہ بھٹو کو سیاست کے میدان سے نکالا جا سکا، نہ نواز شریف کا کردار ختم کیا جا سکا اور نہ ہی عمران خان کو بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ کا سیاسی منظر نامہ تشکیل دینے کیلئے مل بیٹھنا ہو گا۔
اگرچہ سیاسی میدان سے کوئی اچھی خبر نہیں ملی تاہم اس خبر نے پوری قوم کو سرشار کر دیا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ایف اے ٹی ایف کے شکنجے سے نکلنے کیلئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ نون کے آخری دور میں جب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف نے اپنے شکنجے میں لیا تھا تب اس کی کوئی سمت واضح نہ تھی۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے نہ صرف تمام اداروں کو منظم کیا بلکہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیئے گئے اہداف کو مقررہ مدت سے پہلے ہی مکمل کر لیا۔ اس خوشخبری پر آرمی چیف مبارکباد کے مستحق ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کی حکومت اور دفتر خارجہ بھی تحسین کا حقدار ہے جن کی محنتیں رنگ لائیں اور پاکستان عالمی برادری میں سرخرو ہوا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note