Tumgik
#ہمراہ
paknewsasia · 2 years
Text
حریم شاہ کی شوہر کے ہمراہ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
حریم شاہ کی شوہر کے ہمراہ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
پاکستان کی مشہور ٹک ٹاکر و اداکارہ حریم شاہ کی شوہر بلال شاہ کے ہمراہ متنازع ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ اداکارہ کی جانب سے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے۔ ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حریم شاہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے قبل حریم شاہ نے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔ وائرل ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا…
View On WordPress
0 notes
moizkhan1967 · 2 months
Text
Tumblr media
بڑا ویران موسم ھے کبھی ملنے چلے آؤ
ہر اک جانب تیرا غم ھے کبھی ملنے چلے آؤ
ہمارا د ل کسی گہری جدائی کے بھنور میں ھے
ہماری آنکھ بھی نم ھے کبھی ملنے چلے آؤ
میرے ہمراہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ھے
مگر جیسے کوئی کم ھے کبھی ملنے چلے آؤ
تمہیں تو علم ھے میرے دلِ وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ھے کبھی ملنے چلے آؤ
اندھیری رات کی گہری خموشی اور تنہا دل
دیئے کی لَو بھی مدھم ھے کبھی ملنے چلے آؤ
تمہارے روٹھ کے جانے سے ہم کو ایسا لگتا ھے
مقدر ہم سے برہم ھے کبھی ملنے چلے آؤ
ہواؤں او ر پھولوں کی نئی خوشبو بتاتی ھے
تیرے آنے کا موسم ھے کبھی ملنے چلے آؤ
عدیم ہاشمی
.
.
.
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 months
Text
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سوجاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے
کردیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور
کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے
ناصر کاظمی
4 notes · View notes
amiasfitaccw · 5 months
Text
اکڑ آخر ٹوٹ گئی
اکڑآخر ٹوٹ گئی
نمرہ اور باسط ایک یونیورسٹی میں ہم جماعت تھے۔ پوری جماعت میں ان کے درمیان بہت بحث و تکرار کسی بھی بات پر ہوجاتی اور آپس میں مقابلہ بھی بہت ہوتا۔ دونوں پڑھنے لکھنے میں تیز تھے۔ باسط بہت شریف اور سادہ سا لڑکا تھا اس میں نشہ کرنے اور دوسرے عیب ہرگز نا تھے۔ کلاس میں کبھی نمرہ زیادہ نمبر لے جاتی کبھی باسط یعنی مقابلہ دونوں میں اوپر نیچے ہوتا رہتا تھا۔ نمرہ کچھ زیادہ جذباتی تھی اور اس میں اکڑ کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ اپنی عزت یا اوقات پر زرے برابر بھی بات برداشت نا کرتی اور پوری کلاس میں اکڑ کر کلاس کی لڑکیوں کو اپنے پیچھے لگائی رکھتی۔ امیر فیملی کی لڑکی تھی اس کو کوئی ڈر خوف بھی نہیں تھام کسی سے بھی الجھ جاتی تھی۔ اساتذہ کی بہت عزت کرتی مگر بے عزتی پر ان سے بھی تکرار شروع کردیتی۔ سب اس سے تھوڑا ڈرتے اور اس کی قابلیت کی عزت بھی کرتے اساتذہ کو بھی وہ اسی بات پر اچھی لگتی تھی کے وہ قابل تھی اور پڑھائی میں اس کی کبھی کوئی شکایت نا تھی۔ باسط کے بھی کلاس فیلوز سب اس سے بہت پیار کرتے اور اس کے پکے دوست تھے اس کا ساتھ دیتے اور اس کے ساتھ رہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ نمرہ جان بوجھ کر گزرتے گزرتے باسط کو آگ لگانے والی باتیں کرتی کے دیکھیں گے اس بار کون پہلی پوزیشن لیتا ہے کون زیادہ نمبر یا گریڈ لے گا۔ اور باسط اس کی بس سن لیتا اور اسے دیکھیں گے کا جواب دے دیتا۔ وہ شاید لڑکی ہونے کے ناتے بھی اس کی عزت کرتا اور اس سے زیادہ بحث میں نا پڑتا تھا۔
Tumblr media
اساتذہ کے سامنے بھی کئی بار ان کی بحث اور لڑائی ہوجاتی اور وہ دونوں ایک دوسرے کو
دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اب ان کے فائنل امتحان قریب تھے تیاریاں خوب زور شور پر تھی۔ پڑھائی کو سبھی پورا پورا وقت دے رہے تھے۔ باسط اپنی جگہ اور نمرہ اپنی جگہ پہلے سے بھی زیادہ محنت کر رہے تھے۔ اساتذہ اور باقی کے اسٹوڈنٹس بھی ان دونوں میں مقابلے کے منتظر تھے۔ دونوں کا مقابلہ بھی کسی الیکشن سے کم نا تھا۔ کلاس میں ایسے نعرے لگائے جاتے جیسے بس وہی دونوں پوزیشن حاصل کرنے کے لیئے رہ گئے ہیں اور کوئی ان کے مقابلے میں ہے ہی نہیں۔ خیر امتحان قریب آئے اور سب کے محنت کی سب کے سب اب صرف باسط اور نمرہ کے نتیجے کا انتظار کر رہے تھے۔ جب نتیجہ نکلا تو باسط نمرہ سے چند نمبر زیادہ لے کر پہلے نمبر پر رہا اور نمرہ ��وسرے نمبر پر۔ باسط کے سب دوستوں نے بہت جشن کیا پوری یونیورسٹی میں اسے کندھوں پر اٹھائے گھومتے رہے۔ یہ بات نمرہ کو راس نا آئی اور وہ اندر ہی اندر جلتی گئی اسے اپنی شکست کو دیکھنا قبول ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ دانتوں کو پیس پیس کر باسط کے ساتھ جشن کرنے والوں پر غصہ کر رہی تھی۔ اب بات اس کی انا پر آگئی تھی۔ تو پاس کھڑی دوست نے مشورہ دیا کے دشمن کو غصے سے نہیں پیار کی مار مارتے ہیں۔ اور زبان کڑوی نہیں شہد جیسی میٹھی رکھو اور مٹھی زبان کی تلوار سے اپنے دشمن کو کاٹ ڈالو۔ نمرہ کی سمجھ میں یہ بات آئی اس نے ایک پلان کیا۔ باسط کی کامیابی کے دن ہی اس نے کلاس میں جاکر باسط سے بہت پیار سے بات کی۔ جب وہ اس کے پاس گئی تو اس ساری جماعت دیکھ
رہی تھی
Tumblr media
نمرہ: بہت بہت مبارک ہو باسط۔
باسط: شکریہ!
نمرہ: ہاتھ نہیں ملاو گے؟
باسط: کیوں نہیں ہاتھ ملانے میں کوئی مسئلہ نہیں یہ لو۔
نمرہ: خیر تمہاری محنت تھی شاید میری محنت میں کمی تھی جو تم سے پیچھے رہی۔
باسط: مممممم
نمرہ: تم حقدار تھے اس مقام کے اور عقلمند تو ہو ہی خیر میں تمہیں انعام کے طور پر کچھ دینا چاہوں گی۔
باسط: وہ کیا؟
نمرہ: میں تمہاری کامیابی پر ایک پارٹی دینا چاہتی ہوں۔
باسط: اس کی ضرورت نہیں تم نے مبارکباد دی وہ کافی ہے میرے لیئے۔
نمرہ: ارے کیا ہوگیا ہے اس کا مطلب ہے تم ابھی بھی دل میں کدورت رکھتے ہو۔
باسط: نہیں ایسی بات نہیں ہم کرلیں گے خود پارٹی کیوں بوائیز؟
نمرہ: میں پوری کلاس کو دعوت دیتی ہوں۔ اور ایسا ہے تو میرا خیال ہے کے تم اپنی خوشی میں شامل نہیں کرنا چاہو گے مجھے۔
Tumblr media
باسط: نہیں ایسی بھی بات نہیں اتنے برے نہیں ہم۔
ساری کلاس بولنے لگی کے باسط مان جا خوشی سے دعوت دے رہی ہے نمرہ مان جا سب مل کر انجوائے کریں گے۔ باسط مان جاتا ہے اور نمرہ باسط کی کامیابی کی خوشی میں ایک شاندار پارٹی کا اپنے فارم ہاوس پر اعلان کرتی ہے۔ سب بہت پرجوش ہوتے ہیں اور اس پارٹی کا سبھی کو بہت انتظار ہونے لگتا ہے۔ پارٹی کا دن آتا ہے باسط اپنے دوستوں کے ہمراہ پہنچتا ہے پارٹی کے دن کلاس کے کافی لوگ نہیں آپاتے مگر پھر بھی جو نمرہ اور باسط کے زیادہ قریب تھے وہ تو ضرور آتے ہیں۔ پارٹی چلتی ہے کھانا پینا چل رہا ہوتا ہے اور پارٹی میں بہت سے لڑکے لڑکیاں نشے کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے اوپر گر رہے ہوتے ہیں اور خوب ہنسی مذاق چل رہا ہوتا ہے۔ نمرہ باسط کو دیکھ دیکھ کر آج اور بھی زیادہ جلتی ہے کے وہ اس قدر خوبصورت لگ رہا ہوتا ہے کے کلاس کی سب لڑکیاں اور نمرہ کی یونیورسٹی سے ہٹ کر بھی سہیلیاں باسط کی تعریف کرتی ہیں۔ نمرہ شراب کے گلاس پر گلاس کھینچتی چلی جاتی ہے۔ اور باسط کی طرف غصے سے دیکھتی جاتی ہے جب بھی وہ کبھی اسے پلٹ کر دیکھتا ہے تو نمرہ آگے سے مسکرا دیتی۔ ڈانس چل رہا ہوتا ہے اور سب اپنی اپنی گپ شپ میں مگن ہوتے ہیں کے نمرہ ہاتھ میں شراب کا گلاس لیئے باسط کے پاس جاتی ہے اسے اس کی جگہ سے بہت پیار سے اٹھاتی ہے۔ باسط بالکل اپنی اصل حالت میں ہوتا ہے اس نے کچھ بھی ایسا نہیں کیا ہوتا کے ڈگمگائے یا اپنے ہوش میں نا رہے۔ نمرہ باسط کو اسٹیج پر لیجاتی ہے اور ہاتھ میں شراب کا
گلاس لیئے سب کو اپنی طرف مخاطب کرتی ہے۔
نمرہ: ہیلو! آپ سب کے آنے کا شکریہ آج کی شام یہ پارٹی جو آپ انجوائے کر رہے ہیں باسط کی کامیابی کی خوشی میں ہے۔
سب لوگ شور مچاتے ہیں اور اونچی آواز سے نمرہ کو سراہتے ہیں۔ ساتھ ہی نمرہ مڑ کر باسط کی طرف دیکھتی ہے تو ہاتھ میں پکڑا شراب سے بھرا گلاس اچھال کر ساری شراب باسط کے منہ پر پھینک دیتی ہے۔ سب کے سب حیران رہ جاتے ہیں اور ایک دن سناٹا چھا جاتا ہے۔ نمرہ باسط کے منہ پر تھوکتی ہے اور نشے میں اسٹیج پر ڈگماتے ہوئے سب کو کہتی ہے۔
نمرہ: یہ پارٹی اس کی ہے؟ یہ یہ ہی یہ ہی سمجھ سسسسس سمجھ رہے ہو نا آپ سب؟ نہیںییییییی یہ پارٹی یہ پارٹی میری ہے اس کو چیلنج دینے کے لیئے اگلی بار اگ اگگگ اگلی بار یہ مجھ سے جیت کر دکھائے اگلی بار میر میری کامیابی کی پارٹی ہوگی۔ اس کی کیا اوقات ہے؟
باسط چپ چاپ غصے سے نمرہ کی اس حرکت پر اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے وہ خاموشی سے کھڑا رہتا ہے۔ نمرہ وہیں کھڑے سگریٹ لگاتی ہے۔ اور سگریٹ کا ایک کش کھینچ کر دھواں باسط کے چہرے پر اڑا کر بولتی ہے چلو بس ختم پارٹی اور تو تو جو ہے نا تو سب سے پہلے نکل۔ اور تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا چل دیکھ کیا رہا ہے چل اب کھا پی لیا نا
دفعہ ہو یہاں سے چل۔
Tumblr media
نمرہ باسط کو بہت زیادہ بے عزت اور رسوا کرتی ہے۔ باسط اسی وقت چل پڑتا ہے اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور وہ تیزی سے فارم ہاوس کے باہر کا رخ کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساری پارٹی کا ماحول خراب ہوجاتا ہے اور سب حالانکہ نمرہ کی اپنی سہیلیاں اسے چھوڑ کر چل پڑتی ہیں۔ وہ چلاتی ہے چیختی ہے کے تم لوگ تو رکو۔ مگر کوئی نہیں رکتا اس وقت وہ اپنی بھی بے عزتی سمجھ کر وہاں سے چل پڑتے ہیں اور نمرہ کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ نمرہ کے نوکر اٹھا کر اسے اندر کمرے میں لیجا کر سلا دیتے ہیں۔ نمرہ کو کچھ ھوش نہیں ہوتا کے وہ کہاں پڑی ہے اور اس سے کیا حرکت سرزد ہوئی ہے۔ کالج سے پندرہ دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اگلی صبح نمرہ اٹھتی ہے اور اٹھ کر تھوڑا بہت پریشان ہوتی اس کے زہن میں اتنا ضرور ہوتا ہے کے رات کو اس سے کچھ غلط حرکت ہوئی ضرور ہے اور اسی کے بارے مکمل جانکاری کے لیئے وہ اپنے نوکروں کو بلاتی ہے اور وہ بھی سر جھکائے نمرہ کو اس کی رات کی گئی حرکت کے بارے میں صاف صاف بتا دیتے ہیں۔ نمرہ بہت پریشان ہوجاتی ہے کے وہ کیوں اپنے غصے پر قابو نہیں کر پائی اور اس نے یہ کیا حرکت کردی۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے کے وہ غصے کی اس قدر گھٹیا ہے کے وہ قابو نا کر پائی کسی کی کامیابی اسے ہضم تک نا ہو پائی اور کونسی زندگی موت کا مقابلہ تھا اس شریف لڑکے باسط سے بلآخر پڑھائی ہی کا تو مقابلہ تھا۔ اس کا زہن کام کرنا بند کر دیتا ہے اسے باسط کا چہرہ یاد آتا ہے اور وہ اس کا معصوم چہرہ یاد کرکے زار زار رونے لگتی ہے۔ وہ اپنی ایک دو قریبی سہیلیوں کو کال ملاتی ہے تو ان سے بھی اسے پتا چلتا ہے کے رات اس نے کیا حرکت کی۔ خیر یونیورسٹی دوبارہ شروع ہوتی ہے تو نمرہ باسط سے نظریں نہیں ملا رہی ہوتی اور باسط تو اس کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ باقی بھی کلاس کے سب اسٹوڈنٹس نمرہ کے اس برے رویئے سے اس کے ساتھ بات چیت کم کر دیتے ہیں۔ یونیورسٹی کے چند دن بعد نمرہ رات کو ایک پارٹی سے گھر جارہی ہوتی ہے تو اس کے سامنے ایک لڑکا سڑک پر گر کر ایکٹنگ کرتا ہے اور نمرہ اس پر ترس کھا کر باہر آتی ہے اور اسے قریب ہوکر دیکھتی اور پوچھتی ہے تو اسے فوری پیچھے سے کوئی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے اغواء کر لیتا ہے۔ وہ چلانے کی کوشش کرتی ہے ہاتھ پیر مارتی ہے مگر کچھ نہیں ہوتا۔ پانچ سے چھ لڑکے ہوتے ہیں جو اسے ایک خالی گھر میں لےجاتے ہیں۔ مگر سب میں سے صرف ایک ہی نمرہ کے ساتھ بند کمرے میں ہوتا ہے۔
Tumblr media
نمرہ: کون ہو تم کس لیئے لائے ہو مجھے؟ تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔
وہ لڑکا منہ پر نقاب پہنے کچھ بولتا ہی نہیں۔ اور اسے ایک کمرے میں لیجا کر پھینک دیتا ہے۔
ہاتھ باندھے وہ اسے پہلے بٹھا دیتا ہے اور پھر اس کو اسی کمرے کے باتھ روم میں لیجا کر اس کے ساتھ ظالمانہ انداز میں پیش اتا ہے۔ نمرہ بہت چیختی اور چلاتی ہے کوشش کرتی ہے کے اس کی جان چھوٹ جائے وہ ان درندوں کے شکنجے سے چھوٹ جائے مگر وہ اسے بالکل نہیں چھوڑتا۔
نمرہ کا رو رو کر برا حال ہوا ہوتا ہے اور سامنے والا لڑکا بس اسے زیادہ کسی قسم کی تکلیف دیئے اپنا لن نکال کر اسے چوسنے کو کہتا ہے۔ وہ نخرے کرتی ہے تو اسے رکھ کر ایک تھپڑ مارتا ہے اور اس کا منہ لال کر دیتا ہے۔ نمرہ کے آنسو نکل آتے ہیں۔ اور وہ آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے ہی لولا منہ میں لیکر چوسنا شروع کردیتی ہے۔
لڑکا بہت سختی سے پیش آتا ہے وہ لولا اس کے حلق میں پھنسا پھنسا کر اسے درد دیتا ہے اور
جب لولا چند سیکنڈ پھنسا کر نکالتا ہے تو نمرہ منہ کھول کھول کر سانس لیتی ہے۔
لڑکا مکمل جوش میں آیا ہوتا ہے اسے بہت مزا آتا ہے اور وہ نمرہ کے منہ کو ہی پھدی بنا کر چودنے کے انداز میں لن بیچ میں پھنسائے دیتا ہے۔ اس کے حلق تک لولا کرکے سر کے پیچھے سے پکڑ کر اسے ہلنے بھی نہیں دیتا اور جب سانس بند ہونے کی نوبت تک آتا ہے تو وہ پھر اپنا
لولا ایک دم باہر نکالتا ہے اور لولا رالوں سے بے شمار بھرا ہوتا ہے۔
نمرہ کے منہ سے لولا نکال کر وہ اس کے منہ کے آگے گانڈ کرتا ہے کے اس کی گانڈ کو چاٹے۔ مگر نمرہ انکار کرتی ہے اور بار بار منہ پیچھے کرتی ہے۔ وہ لڑکا رکھ کر پھر ایک تھپڑ مارتا ہے اور نمرہ پھر سے آنسووں سے رونا شروع کردیتی ہے اور اس کے روتے روتے لڑکا اپنی گانڈ کھول کر اس کے آگے کرتا ہے تو پھر وہ زبان نکال کر اس کی گانڈ کا سوراخ چاٹنے لگتی ہے۔ لڑکا اسی طرح گانڈ کے سوراخ کو چٹوانے کا خوب مزا لیتا ہے۔ نمرہ بھی مجبوری میں
اپنے گھٹنوں پر بیٹھے اس کی گانڈ میں منہ دیئے رکھتی ہے۔
لڑکا اپنی گانڈ کافی دیر اور ظالمانہ انداز میں چٹوانے کے بعد اسے الٹا کرتا ہے اور اس کی پھدی میں لن دے مارتا ہے اسے درد پہنچانے کے لیئے اس کے گالوں میں انگلیاں پھنسا کر کھینچتا ہے اس کی شکل کو بگاڑتا ہے ساتھ ہی ساتھ لن بھی اس کی پھدی میں ظالمانہ طریقے
سے دیئے ہی رکھتا ہے۔
اس قدر ظلم پر اتر آتا ہے کے زور دار جھٹکوں سے نمرہ رونے والی ہوجاتی ہے اور چلاتی ہے بس کرو مجھے معاف کردو کون ہو تم لوگ بس کرو۔ مگر وہ ظالم اس کی پھدی ہوں لے رہا ہوتا ہے جیسے اس نے دوبارہ کسی پھدی کا منہ نہیں دیکھنا۔ لڑکے کو تو اتنی زبردست پھدی مارنے کا مزا آرہا ہوتا ہے مگر نمرہ کی جان جاتی ہے اسے مزا تو آتا ہے مگر جو ظالمانہ جھٹکے اس کی جان کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ اور بد تمیزی کا یہ عالم ہوتا ہے کے وہ نمرہ کا سر
کمبوڈ میں دے دیتا ہے۔
سر کمبوڈ میں دیئے ��وئے وہ اس کی صرف ایک ہی انداز میں گھوڑی بنا کر پھدی لے رہا ہوتا ہے۔ نمرہ کے ساتھ نہایت بری ہوتی ہے۔ نمرہ منت کرتی ہے کے اسے چھوڑ دیا جائے۔ مگر مجال ہے کے لولا اس کی پھدی سے باہر آجائے۔ لن دھنا دھن اس کی پھدی کے گہرے سمندر میں ڈبکیاں لے رہا ہوتا ہے اور نمرہ درد سے رو رہی ہوتی ہے۔
آدھا گھنٹہ چودنے کے بعد وہ لڑکا اس کی موبائل سے ویڈیو اور تصاویر بنا لیتا ہے۔ اور جب اس کے منہ پر منی گرانے کی باری آتی ہے تو وہ سچ میں بہت رو رہی ہوتی ہے جس طرح اسے
بری طرح چودا گیا تھا۔
پھر لڑکا اپنا لن ہلا ہلا کر اس کے چہرے کو منی سے بھر دیتا ہے اور نمرہ چپ چاپ ساری کی ساری منی اپنے چہرے پر گرانے دیتی ہے۔ نمرہ اس لڑکے کی انگلی پر ایک ٹیٹو بنا دیکھتی ہے جو اس نے باسط کی اسی انگلی پر دیکھا تھا۔ نمرہ کو سمجھ آجاتی ہے کے باسط نے اس سے بدلہ لیا ہے اور وہ اس کے خلاف کچھ بھی کرنے کا نہیں سوچتی اور خاموش رہ کر اس بات سے انجان رہتی ہے
ختم شُد
1 note · View note
nooriyahasan · 2 years
Photo
Tumblr media
بڑھاپا خوب صورت ہے کسی کو آپ کے بالوں کی چاندی سے محبت ہو کسی کو آپ کی آنکھوں پہ اب بھی پیار آتا ہو لبوں پر مسکراہٹ کے گلابی پھول کھل پائیں جبیں کی جُھریوں میں روشنی سمٹی ہوئی تو بڑھاپا خوبصورت ہے شکن آلود ہاتھوں پر دمکتے ریشمی بوسے سعادت کا، عقیدت کا، تقدس کا حوالہ ہوں جوانی یاد کرتا دل، اداسی کا سمندر ہو اداسی کے سمندر میں کوئی ہمراہ تَیرے تو بڑھاپا خوبصورت ہے ذرا سا لڑکھڑائیں تو سہارے دوڑ کر آئیں نئے اخبار لا کر دیں، پرانے گیت سنوائیں بصارت کی رسائی میں پسندیدہ کتابیں ہوں مہکتے سبز موسم ہوں، پرندے ہوں، شجر ہوں تو بڑھاپا خوب صورت ہے پرانی داستانیں شوق سے سنتا رہے کوئی محبت سے دل و جاں کی تھکن چنتا رہے کوئی ذرا سی دھوپ میں حدت بڑھے تو چھاؤں مل جائے برستے بادلوں میں چھتریاں تن جائیں سر پر تو بڑھاپا خوب صورت ہے جنہیں دیکھیں تو آنکھوں میں ستارے جگمگا اٹھیں جنہیں چومیں تو ہونٹوں پر دعائیں جھلملا اٹھیں جواں رشتوں کی دولت سے اگر دامن بھرا ہو تو رفیقِ دل، شریکِ جاں برابر میں کھڑا ہو تو بڑھاپا خوب صورت ہے حمیدہ شاہین (at Kashmir) https://www.instagram.com/p/ClGf4DsNvMy/?igshid=NGJjMDIxMWI=
9 notes · View notes
pakistantime · 1 year
Text
ڈاکٹر عافیہ بہت ظلم سہہ چکی
Tumblr media
امریکی جیل میں 13 سال سے قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ خبروں کے مطابق یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کو لاپتہ ہوے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا لیکن اس کے باوجود دونوں بہنوں کو نہ ہاتھ ملانے دیا گیا نہ وہ گلے مل سکیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد، جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ امریکہ گئے ہوئے ہیں، نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دونوں بہنوں کی یہ ملاقات جیل کے ایک کمرے میں ہوئی لیکن دونوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا جس سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور سن تو سکتی تھیں لیکن چھو نہیں سکتی تھیں۔ سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈرس میں ملبوس عافیہ صدیقی سے اُن کی بہن کی ڈھائی گھنٹے کی اس ملاقات میں پہلے ایک گھنٹہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات بتائیں۔ ڈاکٹر عافیہ اپنی بہن سے اپنی ماں (جو اُن کی قید کے دوران وفات پاچکی ہیں) اور اپنے بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں اور کہا کہ ماں اور بچے اُنہیں ہر وقت یاد آتے ہیں۔ 
Tumblr media
ڈاکٹر عافیہ کو اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں ہے۔ امریکہ کی قید میں پاکستان کی اس بیٹی کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور اُن کے سر پر لگنے والی ایک چوٹ کی وجہ سے انہیں سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ سینیٹر مشتاق کے مطابق کل ڈاکٹر عافیہ سے اُن کی ڈاکٹر فوزیہ اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ سمیت جیل میں ملاقات ہو گی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کی (عافیہ صدیقی سے) ملاقات کا افسوسناک احوال سناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صورتحال تشویشناک ہے لیکن ملاقاتوں کا، بات چیت کاراستہ کھل گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آواز اُٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فوری اقدامات کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اُٹھائیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اُن کی ملاقات کا یہ مختصر احوال پڑھ کر دل رنجیدہ ہو گیا۔ سوچ رہا ہوں کہ اُن افراد کے ضمیر پر کتنا بوجھ ہو گا جنہوں نے پاکستان کی اس بیٹی کو امریکہ کے حوالے کیا ،جہاں ایک نام نہاد مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی پچاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔ 
یہ ظلم پرویزمشرف کے دور میں ہوا۔ پرویزمشرف کا انتقال ہو چکا ہے، جنہو ں نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا کہ اُنہوں نے ڈالرز کے بدلے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکہ کے دباو میں اپنے شہریوں اور پاکستان کی ایک بیٹی کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کے جن افراد کا کردار تھا وہ بھی آج کیا سوچتے ہوں گے۔؟ بڑی تعداد میں امریکہ کے حوالے کئے گئے پاکستانی جنہیں گوانتامو بے میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا تھا اُن میں سے کئی پاکستان واپس لوٹ چکے لیکن اس گھناونے کھیل میں شامل اُس وقت کے ہمارے ذمہ دار اور کرتا دھرتا اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔ نجانے کب تک ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں پڑی رہیں گی۔ ہماری مختلف سیاسی جماعتیں یہ وعدہ کرتی رہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کیلئے امریکہ سے بات چیت کی جائے گی۔ اس دوران ن لیگ، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں آئیں لیکن ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی ہوتی دکھائی نہ دی۔ یہ موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان منتقلی کا مسئلہ امریکہ کے سامنے سنجیدگی سے اُٹھائے اور اُس وقت تک اس کیس کا پیچھا کرے جب تک کہ پاکستان کی اس بیٹی کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ پہلے ہی بہت ظلم سہہ چکی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
veiled-writer · 1 year
Text
Tumblr media Tumblr media
آج بہت عرصے بعد وہ لکھنے بیٹھی تھی۔ ہیڈ فونز سے آتی آواز مسلسل اس کا دھیان بھٹکا رہی تھی۔ آخر تنگ آ کر اس نے ڈائری بند کر کے ایک جانب رکھی اور وہیں ٹیبل پر سر ٹکا کر ان الفاظ پر غور کرنے لگی جو کوئی گلوکارا بہت خوبصورت انداز میں سماعتوں کی نظر کر رہی تھی۔
"نہ ہو کے بھی قریب تو، ہمیشہ پاس تھا
کہ سو جنم بھی دیکھتی، میں تیرا راستہ"
اس کے دل کو اداسی نے گھیرنا شروع کیا۔ اسے وہ سب وعدے یاد آنے لگے جو اس نے کبھی کسی کو لے کر خود سے کئے تھے اور وہ خواب۔۔۔جو وہ کھلی آنکھیں سے بھی دیکھا کرتی تھی، کہ جن کی تعبیر صرف اسی شخص کے ہمراہ ہی ممکن تھی جو اب محض خواب و خیال تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ ضروری تھوڑی ہے جس کی خواہش آپ کرو وہ آپ کو مل بھی جائے۔ ایسا ہونے لگے تو شاید صبر کا تصور ہی ختم ہو جائے۔ اور ویسے بھی زندگی باپ جیسی شفیق تھوڑی ہے کہ ادھر منہ سے بات نکلے اور مطلوبہ چیز حاضر ہو جائے۔ مگر پھر بھی یہ دل۔۔۔۔کہاں سمجھتا ہے۔۔۔
خلوت ہو یا جلوت ہو، بیداری یا پھر بے خودی
تجھ ہی کو بس ڈھونڈا کریں یہ نگاہیں چار سو
سیدہ امل
3 notes · View notes
my-urdu-soul · 2 years
Text
بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہر اک جانب تیرا غم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہمارا د ل کسی گہری جدائی کے بھنور میں ہے
ہماری آنکھ بھی نم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
میرے ہمراہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے
مگر جیسے کوئی کم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
اندھیری رات کی گہری خموشی اور تنہا دل
دیئے کی لَو بھی مدھم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
تمہارے روٹھ کے جانے سے ہم کو ایسا لگتا ہے
مقدر ہم سے برہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہواؤں او ر پھولوں کی نئی خوشبو بتاتی ہے
تیرے آنے کا موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
- عدؔیم ہاشمی
2 notes · View notes
jhelumupdates · 3 days
Text
مانچسٹر: پاکستان کے معروف فنکار ملکو 22جون کو مانچسٹر میں اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے ان کے ہمراہ دیگر فنکار بھی اس عظیم الشان شو میں شرکت کریں گے۔ اس سلسلہ میں مانچسٹر کے معروف سماجی رہنما ڈاکٹر لیاقت ملک نے عزیز چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر ڈیمو کریٹ پبلک ریفرنڈم ایوارڈ بھی دئیے جائیں گے مذکورہ شو عوام کی تفریح کیلئے اورمکمل طو رپر غیر سیاسی ہوگا۔
0 notes
googlynewstv · 15 days
Text
فلمساز فرح خان کی دکھ دینے والوں کو بددعائیں
فلمساز فرح خان کی دکھ دینے والوں کو بدعائیں کہا تمہاری واٹ لگ جائے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق فرح خان نے سینیئر اداکار انیل کپور کے ہمراہ معروف کامیڈین کپل شرما کے ‘دی گریٹ انڈین کپل شو’ میں بطورِ مہمان شرکت کی ۔ شو کے میزبان کپل شرما نے فرح خان اور انیل کپور سے پوچھا کہ وہ اُن کے ساتھ غلط کرنے والوں کو معاف کرتے ہیں یا پھر بدلہ لیتے ہیں؟ انیل کپور نے کہا کہ جب لوگ مجھے تکلیف دیتے ہیں یا مجھ سے نفرت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mediazanewshd · 2 months
Link
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
شاہد کپور کی اہلیہ کے ہمراہ سیرو تفریح کی تصاویر وائرل
شاہد کپور کی اہلیہ کے ہمراہ سیرو تفریح کی تصاویر وائرل
بالی ووڈ اداکار شاہد کپور کی اہلیہ نے  یورپ کی سیرو تفریح کی تصاویرشئیر کردیں۔  غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق میرا راجپوت نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر کچھ تصاویر شیئر کی ہیں۔ دوسری جانب اداکار شاہد کپور نے بھی انسٹاگرام پر اپنی فیملی کے ہمراہ تصاویر پوسٹ کی ہیں۔ انسٹاگرام پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر میں اداکار کو اپنی فیملی کے ساتھ انجوئے کرتے ہپوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل اداکار شاہد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
allservices1 · 2 months
Text
وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کی وفد کے ہمراہ ملاقات
وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کی وفد کے ہمراہ ملاقات ۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات، علاقائی اور عالمی امور، اور دو طرفہ تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
Tumblr media
0 notes
urdu-poetry-lover · 11 months
Text
دیر تک بیٹھے ہوئے دونوں نے بارش دیکھی
وہ دکھاتی تھی مجھے بجلی کے تاروں پہ لٹکتی ہوئی بوندیں
جو تعاقب میں تھیں اِک دوسرے کے
اور اِک دوسرے کو چھوتے ہی تاروں سے ٹپک جاتی تھیں
مجھ کو یہ فکر کہ بجلی کا کرنٹ
چھو گیا ننگی کسی تار سے تو آگ کے لگ جانے کا باعث ہو گا
اس نے کاغذ کی کئی کشتیاں پانی پر اُتاریں
اور یہ کہہ کے بہادیں کہ سمندر میں ملیں گے
مجھ کو یہ فکر کہ اس بار بھی سیلاب کا پانی
کود کے اُترے گا کہسار سے جب
توڑ کے لے جائے گا یہ کچے کنارے
اوک میں بھر کے وہ برسات کا پانی
اَدھ بھری جھیلوں کو ترساتی رہی
وہ بہت چھوٹی تھی، کمسن تھی، وہ معصوم بہت تھی
آبشاروں کے ترنم پہ قدم رکھتی تھی اور گونجتی تھی
اور میں عمر کے افکار میں گم
تجربے ہمراہ لئے
ساتھ ہی ساتھ میں بہتا ہوا، چلتا ہوا، بہتا گیا
گلزار
1 note · View note
amiasfitaccw · 3 months
Text
کنواری حاملہ
قسط 01
کسی گاوں میں ایک غریب مولوی رہتا تھا ۔ وہ اس چھوٹے سے گاوں کی اکلوتی مسجد کا امام تھا اور نماز کے علاوہ گاوں کے بچوں کو قرآن بھی پڑھاتا تھا جبکہ اس کی بیوی گاوں کی بچیوں کو مدرسہ پڑھاتی تھی۔ جس سے ان کا گزر بسر ہوجاتا تھا۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھی جو کہ بہت خوبصورت تھی ۔ اس کی خوبصورتی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اور یہی بات گاوں کے چودھری صاحب کے بیٹے تک بھی پہنچ گئی۔
اس نے موقع کی تلاش شروع کر دی کہ کسی طرح ایک بار اس حسین لڑکی کو دیکھ لے آخر وہ ہے کیا بلا۔ ایک دن وہ مولوی صاحب کے گھر چلا گیا کہ کچھ نیاز وغیرہ دینے کے بہانے مولوی کی بیٹی کا دیدار ہو جائے گا۔ اور اس طرح وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ۔ جب امام صاحب مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے تو اس نے دروازے پر دستک دی اور مولوی کی بیٹی کی آواز آئی ۔۔۔ کون ۔۔۔۔؟؟
اس نے کہا کہ اس کے پاس کچھ سامان ہے جو چودھری صاحب نے بھیجا ہے وہ لے لیں۔۔۔ لڑکی نے کہا کہ آپ دروازے میں رکھ دیں میں اٹھا لوں گی۔ اس نے سامان رکھا اور وہیں انتظار کرنے لگا۔ جب لڑکی نے سمجھا کے سامان رکھنے والا چلا گیا ہے تو اس نے سامان اٹھانے کیلئے دروازہ کھولا تو اس لڑکے نے اسے دیکھ لیا۔ دیکھا ہی نہیں بلکہ اس پر عاشق ہو گیا۔ اور وہیں اپنا دل دے بیٹھا ۔
Tumblr media
لڑکا گھر آیا اور ضد پکڑ لی کہ اس نے شادی کرنی ہے تو مولوی کی بیٹی سے ہی کرنی ہے۔ چودھری صاحب اس رشتے کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے بیٹے سے کہا کہ میں جا کر مولوی صاحب سے بات کرتا ہوں۔ چودھری صاحب آئے اور مولوی سے کہا کہ میرا بیٹا شراب پیتا ہے جوا کھیلتا ہے اور ہر برائی ہے اس میں۔ میں اپنے بیٹے کیلئے آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگنے آیا ہوں۔ اگر آپ انکار کریں گے تو میں ہنسی خوشی چلا جاوں گا ۔ یہ نا سوچنا کہ میری ناراضگی آپکی زندگی میں کوئی خلل ڈالے گی۔ اب ظاہر سی بات ہے مولوی صاحب نے انکار ہی کرنا تھا۔
چودھری صاحب گھر گئے اور بیٹے سے کہا کہ مولوی نے انکار کر دیا ہے اور ب دوبارہ کبھی اس گلی سے بھی نا گزرنا ۔ لیکن لڑکے کو بہت غصہ آیا کہ اتنی دولت عزت اور شہرت کے باوجود مولوی نے یہ رشتہ کیسے ٹھکرا دیا۔ میں ضرور انتقام لوں گا۔ اور اس نے دل میں انتقام کی ٹھان لی۔
Tumblr media
ادھر مولوی صاحب کی بیٹی بیمار ہو گئی اور اسے پیٹ میں درد شروع ہوگیا ۔ پہلے تو وہ گھریلو ٹوٹکوں سے علاج کرتے رہے لیکن جب بیٹی کا پیٹ پھولنے لگا تو وہ گاوں کے واحد حکیم کے پاس چلے گئے۔ اس وقت الٹرا ساونڈ وغیرہ اور جدید آلات تو تھے نہیں ۔ لہذہ حکیم صاحب نے بچی کی نبض چیک کی پیٹ درد کی شدت کا جانچتے ہوئے بتایا کہ آپکی بیٹی حاملہ ہے مولوی کے گھر میں تو جیسے کہرام مچ گیا۔ ایک قیامت آن پڑی۔ مولوی نے بیٹی کو بہت مارا پیٹا کہ کس کے ساتھ منہ کالا کروا آئی ہے ۔ کس کا بچہ ہے تیرے پیٹ میں۔ ایک دو بار اسے قتل بھی کرنا چاہا لیکن میں بیچ میں آگئی۔ اسے یقین تھا کہ اس کی بیٹی بے گناہ ہے۔ وہاں ان کی بیٹی بھی اس امتحان پر اللہ سے امید لگا کر بیٹھ گئی کہ اب کوئی معجزہ ہی اسے اس نا کردہ گناہ سے نکال سکتا ہے۔
ادھر چودھری کے بیٹے نے جب دو تین بار مولوی کو بیٹی کے ہمراہ حکیم کے پاس جاتا دیکھا تو حکیم کے پاس چلا گیا۔ تھوڑی سی رقم ادا کی تو حکیم نے ساری بات اگل دی۔
Tumblr media
چودھری کا بیٹا واپس آیا اور گاوں کے میراثی کو کچھ رقم دت کر سارے گاوں میں اعلان کروا دیا کہ مولوی کی بیٹی بغیر نکاح کئے حاملہ ہو گئی ہے۔
گاوں کی عورتیں مولوی کے گھر آنے لگیں اور پوچھنے لگیں کہ ایسا کیا ہوگیا کہ بیٹی کو یہ گناہ کرنا ہڑا۔ اس کی شادی کیوں نا کروادی کس کیساتھ منہ کالا کیا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ گاوں کی پنچائت نے مولوی صاحب سے امامت واپس لے لی اور انہیں ایک ماہ کا وقت دے دیا کہ وہ اپنی رہائش کا بندوبست کسی اور گاوں میں کر لیں۔
گاوں والوں نے بھی اپنی بچیوں کو مولوی کی بیوی کے پاس بھیجنا چھوڑ دیا۔ ہر طرف سےمولوی صاحب پریشانیوں میں گھیرے جا چکے تھے انہیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
Tumblr media
ایک دن وہ پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
جا کر دروازہ کھولو تو سامنے ایک خوبرو نوجوان کھڑا تھا۔ اندر آنے کی اجازت طلب کی تو مولوی صاحب پریشانی کے عالم میں کچھ سوچنے لگے۔ لڑکا سمجھ گیا اور اپنا تعارف کروایا کہ میں آپ کا شاگرد بچپن میں آپ سے قرآن پڑھا ہے فلاں شخص کا بیٹا ہوں اور برابر والے گاوں سے آیا ہوں ۔ مولوی صاحب نے پہچان لیا اور اسے اندر لے آئے ۔ اس نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی بیٹی کیساتھ یہ ماجرا پیش آیا ہے ۔
مذید بتایا کہ وہ شہر سے حکمت کو کورس مکمل کر کے آیا ہے اور گاوں میں حکمت خانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
لیکن آتے ہی اسے اس بات کا علم ہوا تو اسے یقین نہیں آیا کہ یہ واقعہ سچ ہے۔ اور وہ اس کاراز معلوم کرنے پہنچ گیا مولوی صاحب کو بھی کچھ امید سی نظر آنے لگی۔
اس لڑکے نے مولوی صاحب کی بیٹی کی نبض دیکھی کچھ تفصیلات پوچھیں اور پھر کچھ سوچتے ہوئے مولوی صاحب سے ایک بکرے اور ایک کتے کا بندوبست کرنے کو کہا جبکہ لڑکی کو دن کا کھانا کھانے سے منع کیا اور بھوکا رہنے کو کہا۔ اس کی بات پر عمل کرنا پڑا مولوی صاحب اور کرتے بھی کیا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔
Tumblr media
رات تک سارا بندوبست کر دیا لڑکے یعنی حکیم نے گاوں کی کچھ معزز عورتوں کو بھی بلوا لیا اور ان سے بکرے کا گوشت پکانے کو کہا۔ جب گوشت پک چکا تو اس لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ پیٹ بھر کر گوشت کھائے۔ لڑکی بھی صبح سے بھوکی تھی جی بھر کر گوشت کھایا ۔
جب لڑکی نے گوشت کھا لیا تو اس وقت تک محلے کے کچھ مزید لوگ بھی مولوی کے گھر کے باہر جمع ہونے شروع ہوگئے۔
جاری ہے
Tumblr media
1 note · View note
urduchronicle · 4 months
Text
خدا کا واسطہ ہے، مخلوط حکومت کا نام نہ لیں، نواز شریف
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نےعام انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کردیا لیکن ٹھپہ شیر کے بجائے عقاب پر لگایا۔ نواز شریف لاہور کے حلقہ این اے 128 میں مریم نواز کے ہمراہ ووٹ کاسٹ کرنے پہنچے۔ مسلم لیگ ن نے اس حلقے سے اپنے کسی امیدوار کو کھڑا نہیں کیا جبکہ این اے 128 میں استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کی جانب سے عون چوہدری انتخابی امیدوار ہیں۔ ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes