Tumgik
#کہاوت
therealmehikikomori · 3 months
Text
نالی کے َڈنڑ پیلنا
نالی پر ڈنڑوں کی کسرت کرنا ؛ بازاری عورت سے مجامعت کرنا ، رنڈی بازی کرنا
0 notes
Text
اَطلُبِ الجَارَ قَبَل الدَّارِ
گھر بنانے سے پہلے ہمسایہ تلاش کرو۔
0 notes
adabpic · 13 days
Text
Tumblr media
Arabian proverb : ‎"Behind every delay, there's khayr (goodness)".
عربی کہاوت: ‏ "ہر تاخیر کے پیچھے خیر ہے۔".
21 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
بے بسی کی انتہاوں میں ایک عربی کہاوت یاد آجاتی ہے بس ۔ کیا یہ ہے وہ زندگی جس کے لیے میں ماں کے پیٹ میں لات مارا کرتا تھا-
In the extremes of helplessness, I just remember an Arabic proverb.
Is this the life I used to kick in the mother's womb for-
41 notes · View notes
amiasfitaccw · 6 months
Text
Tumblr media
مشہور کہاوت ہے کہ جب کسی طاقتور کو اس کے جرم کی سزا نہیں دی جاتی، تو وہ سزا پورے سماج پر تقسیم ہو جاتی ہے۔ پہلے ہم صرف یہ کہاوت سنتے تھے، آج ہم لاقانونیت کی شکل میں اسے بھگت بھی رہے ہیں۔
6 notes · View notes
bazmeurdu · 2 years
Text
شاعر مزدور، احسان دانش
احسان دانش لاہور سے کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور ہم اپنے دوست سراج منیر (مرحوم) کے ساتھ ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت کے ایک کمرے میں ان کی آمد کے منتظر تھے۔ دراصل ہمیں ہندوستانی سامعین کے لیے نشر ہونے والے ایک پروگرام کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا۔ ویسے بھی دانش صاحب سے ملاقات کا شرف ہمارے لیے سرمایہ حیات سے کم نہ تھا، جس کا ہمیں عرصہ دراز سے بڑی شدت کے ساتھ انتظار تھا، وہ ان بڑے لوگوں میں سے تھے جو منہ میں سونے کا چمچہ لیے پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ جنھوں نے اپنا جہان اپنی محنت و مشقت کے بل پر خود آباد کیا تھا۔ حسب وعدہ صبح وقت مقررہ پر ٹھیک دس بجے احسان دانش نے ہمارے کمرے میں قدم رکھا تو ہمارے احساسات اور جذبات بیان سے باہر تھے۔ جی چاہتا تھا کہ وقت کا کیمرہ اس تاریخ ساز منظر کو اپنے اندر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے رکھ لے کیوں کہ ایسے مواقعے زندگی میں بار بار میسر نہیں آتے۔ 
وہ سادگی اور عظمت کا ایک دل نشین پیکر تھے۔ ہم نے انھیں بچپن سے پڑھا بھی تھا اور ان کے بارے میں بہت کچھ سنا بھی تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے، جن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام بے حد سخت اور کٹھن تھے، جب انھیں جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ کبھی مزدوری کی تو کبھی کسی چھاپے خانے میں بطور انک مین کام کیا۔ کبھی باورچی گیری کی تو کبھی چپڑاسی گیری، کبھی راج مزدور کی حیثیت سے کام کیا تو کبھی چوکیداری کی۔ وہ مالی بھی رہے اور قالین بننے والے بھی۔ ایک زمانے میں انھوں نے کتابوں کی ایک دکان پر بطور مددگاربھی خدمات انجام دیں اور زندگی کے آخری حصے میں کتب فروشی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ اس کج کلاہ نے سب کچھ کیا مگر ضمیر فروشی سے تادم آخر گریز کیا۔
ان کا اصل نام قاضی احسان الحق تھا، مگر علمی دنیا میں ان کی شہرت احسان دانش کے نام سے ہوئی۔ وہ قاضی احسان علی دانش کے فرزند تھے جن کا کل سرمایہ حیات زرعی زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا، جو خاندان کی گزر بسر کے لیے ناکافی تھا۔ ان کا آبائی وطن باغت، ضلع میرٹھ تھا لیکن جائے پیدائش قصبہ کاندھلہ ضلع مظفر نگر تھی۔ گفتگو کے دوران ان کی جنم بھومی کا تذکرہ چھیڑا تو احسان دانش یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ حسن اتفاق سے ہماری جائے پیدائش بھی ضلع مظفر نگر کا ہی ایک قصبہ ہے جس کا نام بگھرہ ہے۔ کاندھلہ اور تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یوپی) کے وہ مشہور تاریخی قصبے ہیں جو مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی جیسے علمائے کرام کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ احسان دانش کی ابتدائی پرورش تو قصبہ باغت ہی میں ان کے نانا جان کے زیر سایہ ہوئی لیکن نانا کی وفات کے بعد ان کے والد انھیں اپنے ساتھ لے کر کاندھلہ میں آکر مقیم ہو گئے۔ احسان دانش کو پڑھنے لکھنے کا شوق بچپن سے ہی جنون کی حد تک تھا لیکن خاندانی غربت کی وجہ سے وہ چوتھی جماعت سے آگے اپنی پڑھائی جاری نہ رکھ سکے۔
اسی غربت نے انھیں لڑکپن میں ہی محنت مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا تاآنکہ انھوں نے لاہور کا رخ کیا اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہاں بھی انھیں جان توڑ محنت کرنا پڑی مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ مطالعے کا شوق اور شاعری کا چسکا انھیں بچپن ہی سے تھا جس میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا، اس زمانے میں بعض شاعر اپنا کلام پمفلٹ کی صورت میں خود ہی چھپوا کر گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر پڑھتے ہوئے فروخت کیا کرتے تھے۔ حضرت بوم میرٹھی جیسے بے مثل شاعر کو بھی اپنا پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً یہی طریقہ اختیار کرنا پڑا تھا۔ پھر جب احسان دانش کو پنجاب یونیورسٹی کے ایک ٹھیکیدار کے یہاں کام کرنے والے ایک راج مستری کے مددگار کی جاب مل گئی تو انھوں نے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد جو وقت انھیں میسر آتا اسے وہ لائبریری میں صرف کر دیا کرتے تھے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
آخرکار وہ دن بھی آیا جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو کے پیپرز کے ممتحن بنے اور جب وہ چیف ایگزامنر کی حیثیت سے اپنے معاوضے کا چیک لینے کے لیے یونیورسٹی پہنچے تو ان کے پرانے ساتھی مزدور انھیں پہچان گئے اور ان کی اس عظیم الشان کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ احسان دانش نے ثابت کر دیا کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ یہ کہاوت بڑی مشہور ہے کہ ’’خوش نصیبی انسان کے دروازے پر کبھی نہ کبھی دستک ضرور دیتی ہے۔‘‘ احسان دانش کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انھیں لاہور کی مشہور شملہ پہاڑی کی چوکیداری کی ملازمت میسر آئی۔ اس ملازمت نے انھیں آرام سے پڑھنے لکھنے کی فراغت مہیا کر دی جس کے نتیجے میں ان کی شاعری ادبی وسائل و جرائد میں شایع ہو کر عوام و خواص میں مقبول ہونا شروع ہو گئی اور پھر وہ مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے جس نے ان کی شہرت میں روز بہ روز اضافہ کر دیا۔
ایک نعتیہ مشاعرے میں ان کی ملاقات گورنر ہاؤس کے ہیڈ مالی سے ہو گئی جس نے ان کی شاعری سے متاثر ہو کر انھیں گورنر ہاؤس میں مالی کی ملازمت دلوائی جہاں کچھ عرصے کام کرنے کے بعد احسان دانش نے یہ ملازمت چھوڑ دی اور محکمہ ریلوے میں چپراسی لگ گئے پھر انھوں نے اس نوکری کو بھی خیرباد کہہ دیا اور ایک بک اسٹال پر کام کرنے لگے۔ روزی روٹی کے چکر نے شاعر مزدور احسان دانش کو سرمایہ داروں اور ان کی ذہنیت سے بدظن کر دیا۔ یہ ان کی زندگی کا انتہائی نازک موڑ تھا جس کے نتیجے میں وہ بعض دوسرے لوگوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام سے متنفر ہو کر مارکسزم کا رخ بھی اختیار کر سکتے تھے مگر ان کے دل و دماغ پر لگی ہوئی مذہب کی چھاپ اتنی گہری تھی کہ انھوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ تاہم وہ مزدور اور اس کی عظمت کے ترانے لکھتے رہے، گاتے رہے اور ’’شاعر مزدور‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نام نہاد شاعر مزدور نہیں بلکہ حقیقی شاعر مزدور کہلانے کے مستحق ہیں، کیوں کہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ مزدوری پر ہی محیط ہے۔
وہ محض شاعر ہی نہیں بلکہ ایک وسیع المطالعہ دانشور اور اسکالر بھی تھے، جنھوں نے اردو لسانیات اور لغات کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جو ’’حضرِ عروض‘‘، تذکیر و تانیث، لغت الاصلاح، اردو مترادفات اور دستور اردو جیسی لافانی کتابوں کی شکل میں ہمیشہ یاد رکھی جائیںگی۔ انھوں نے بے شمار نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی کی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان کی خودنوشت ’’جہان دانش‘‘ بھی ان کا بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اور بہت سی کتابیں بھی ہیں جن کی تعداد پچاس سے بھی زیادہ ہے، ان کی غیر مطبوعہ تحریریں اس کے علاوہ ہیں۔ اردو زبان اور ادب کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں نشان امتیازاور ستارہ امتیاز کے ایوارڈز بھی دیے گئے۔
شکیل فاروقی  
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
risingpakistan · 4 months
Text
الیکشن ہو رہے ہیں یا منہ پہ مارے جا رہے ہیں؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے پہلے تو متعلقہ اداروں کے سر آپس میں ٹکرانے پڑے۔ جب عدالتِ عظمیٰ کے بے حد اصرار پر آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب بھی آنا کانی ہیرا پھیری کی کوشش جاری رہی اور معزز عدالت کو ایک بار پھر آٹھ تاریخ کو کھونٹے سے باندھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالکل نوے نکور ناتجربہ کار دو کروڑ پینتیس لاکھ فرسٹ ٹائمر ووٹروں سے خائف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروانے پر آمادہ تو ہے مگر اب تک کی حرکتیں بتا رہی ہیں کہ گویا یہ الیکشن منعقد نہیں ہو رہے قوم کے منہ پہ مارے جا رہے ہیں ’لے مر ٹھونس لے۔‘ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ’آج مورخہ چوبیس دسمبر کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کا آخری دن ہے۔‘ اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ فروری کو (خدانخواستہ ) الیکشن ہوا تو اتنا شفاف ہو گا کہ سب اس میں اپنا سا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمیں اور آپ کو گذشتہ الیکشنز کی قدر و قیمت بھی تب ہی معلوم ہو گی جب آٹھ فروری کے بعد بھی زنجیربکف پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے اور وعدوں کے تازہ خربوزے پھوڑنے کے کام کے لیے ایک اور منتخب ’نگراں حکومت‘ حجلہِ عروسی میں داخل ہو گی۔
شیر، مگرمچھ، بھیڑیے اور باز پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کی نگرانی میں تیندوے، بکری، طوطے، گرگٹ، ہرن، مینڈک، بارہ سینگے، سانپ، کوّے، اور لگڑبگے پر مشتمل مخلوط سرکار جنگل کا نظام چلائے گی۔ یعنی ایک اور ہزمیجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔ شکار آدھا آدھا۔ نظام کی گرفت اس قدر سخت ہے کہ ہمارے مہربان ژوب کے انوار الحق کاکڑ جو ہم صحافیوں سے ایک برس پہلے تک اس بات پر خفا ہو جاتے تھے کہ یار تم لوگ کوئٹہ آ کے ملے بغیر کیسے چلے جاتے ہو۔ آج انہی کے صوبے کے کچھ مہمان ان کے سرکاری گھر سے محض دو کلومیٹر پرے پڑے ہیں۔ مگر کاکڑ صاحب شاید ان سے کبھی بھی نظریں ملا کے گلہ نہ کر سکیں گے کہ تم میرے صوبے سے آئے ہو۔ میرے لوگ ہو۔ اس موسم میں یہاں کیوں پڑے ہو۔ اتنا بڑا وزیرِ اعظم ہاؤس اور وہاں کے تمام روپہلے آتش دان حاضر ہیں۔ چل کے آرام کرو، بھلے دھرنا دو اور پھر بتاؤ کہ میں تمہاری کیا خدمت کروں۔ 
Tumblr media
کاکڑ صاحب کا مطالعہ خاصا وسیع ہے اور منطق کا سویٹر بننے کے لیے بھی ہمیشہ اچھی کوالٹی کا اون استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ گمان بھی ممکن نہیں کہ انھوں نے یہ بلوچی کہاوت سنی ہی نہ ہو کہ ’ایک پیالہ پانی کی قیمت سو برس کی وفاداری ہے‘۔ جو آدمی گھر آئے مہمانوں کو ایک کٹورہ پانی بھی نہ بجھوا سکے۔ اس کی بے چارگی کا عالم اللہ اللہ۔ سوری سوری سوری۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔ اسلام آباد نے ان مہمانوں کو کٹورہ بھر پانی نہیں بھجوایا بلکہ ان پر ٹھنڈے پانی سے بھرا پورا ٹینکر برسا کے والہانہ سواگت کیا۔ تاکہ کل ک��ئی یہ طعنہ نہ دے سکے کہ گھر آئے مہمان کو پانی تک نہ پوچھا۔ کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہمان کوئی مسلح بلوچ سرمچار یا طالبان ہوتے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوتے یا پھر 2014 کے دھرنے کی طرز پر پارلیمنٹ کے جنگلوں پر اپنے کپڑے سکھا رہے ہوتے اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے گیٹ پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہوتے اور مسلسل الٹی میٹم دے رہے ہوتے اور کچھ نادیدہ سائے ان کے آگے پیچھے متحرک ہوتے تو شاید وزیرِ اعظم ان کا خیرمقدم ذاتی طور پر کرتے۔
مگر وفاق سے آخری امید رکھنے والے یہ مسلسل بے آرام بچے اور بوڑھے ایک دن جب اتمامِ حجت کے بعد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے تو ہو سکتا ہے کوئی وطن دشمن انھیں ایسی حرکتوں سے اکسانے کی کوشش کرے۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انھیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے (سلیم کوثر) اور جنہیں آٹھ فروری کے بعد بلوچستان میں بھی حکمرانی کی اداکاری کرنی ہے وہ کیا ہوئے؟ کوئی وفاق پرست بلاول یا مریم جو کوئٹہ جا کر بلوچ بچے بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کے اور گلے لگا کے فوٹو سیشن کرتے ہیں اب تک اسلام آباد پریس کلب کے اطراف میں بھی نہیں پھٹکے۔ منافقت اور دنیا دکھاوے میں بھی اس قدر احتیاط پسندی؟ ممکنہ خیرات چھن جانے کا اتنا خوف؟ استغفراللہ۔۔۔
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم ( جون ایلیا )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
hassanriyazzsblog · 8 months
Text
🌹🌹 🆆🅸🆂🅳🅾🅼
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL LIVING**🔹
2️⃣1️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *WISDOM :*
*The companion of the Prophet ﷺ , Umar ibn alKhattab r.a., said, “Kill falsehood by remaining silent about it.”*
(Hilyatul Awliya, Vol. 1, p. 55)
This statement shows the power of silence.
There is a well-known saying that it takes two hands to clap.
If you retaliate falsehood with falsehood, it will gain more support.
On the contrary, if you adopt the method of silence, the falsehood will vanish on its own.
*If you refrain from retaliation, the forces of nature will mobilize in your support. They will accomplish your job better than you.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *حکمت :*
*صحابی رسول ﷺ، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں، " غلط بات کو اس پر خاموش (صابر) رہ کر مار ڈالو۔"*
(ہلیۃ الاولیاء، جلد 1، صفحہ 55)
*اس بیان سے خاموشی کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔*
ایک مشہور کہاوت ہے کہ تالی بجانے کے لیے ہمیشہ دو ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر ہم غلط بات کا جواب غلط بات سے دیں گے تو ، بات ( مسئلہ ) اور بھی بڑھتی ہی چلے جائے گی.
اس کے برعکس، اگر ہم خاموشی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں تو ، غلط بات (مسئلہ) اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گی۔
*اگر ہم انتقامی کارروائیوں سے باز رہتے ہیں ، تب فطرت کی قوتیں ہماری حمایت میں متحرک ہوجاتی ہیں۔ اور وہ ہمارا کام ہم سے بہتر طریقے سے انجام دیتی ہیں۔*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
gamekai · 1 year
Text
وہ جنگجو جس کی فتوحات کا راستہ جسمانی معذوری نہ روک سکی -
مشہور ہے کہ امیر تیمور بیک وقت اپنے دونوں ہاتھوں کی قوّت سے کام لے سکتا تھا۔ اگر وہ ایک ہاتھ میں تلوار اٹھاتا تو دوسرے میں کلہاڑا تھام لیتا تھا۔ نوجوانی میں اس کا اعتقاد اس کہاوت پر پختہ ہوچکا تھا کہ ’جو ہاتھ تلوار اٹھانا جانتا ہے، تخت و تاج کا حق دار بھی ہوتا ہے۔‘ امیر تیمور سلطنت و فرماں روائی میں‌ اس کہاوت کی نظیر بن گیا۔ چودہویں صدی عیسوی میں امیر تیمور کو اس کی سلطنت اور فتوحات کی بنیاد پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
دوست وہ ہوتے ہیں جو ضرورت کے وقت کام آتے ہیں: ترکی نے شدید زلزلے کی وجہ سے تباہی کے بعد امداد بھیجنے پر ہندوستان کا شکریہ ادا کیا - Siasat Daily
انقرہ: ترکی نے 24 گھنٹوں کے اندر یکے بعد دیگرے تین زلزلوں سے لرزنے والے ترکی کو امداد فراہم کرنے کے لیے ہندوستان کو ‘دوست’ قرار دیا۔ ہندوستان میں ترکی کے سفیر فرات سنیل نے ہندوستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا، “دوست صرف وہی جو ضرورت مند ہیں فرات سنیل نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا، “ترکی اور ہندی دونوں زبانوں میں لفظ ‘دوست’ ہے ہمارے ہاں ایک ترکی کہاوت ہے دوست کارا گندے بیلی اولور” (دوست جو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
دوست وہ ہوتے ہیں جو ضرورت کے وقت کام آتے ہیں: ترکی نے شدید زلزلے کی وجہ سے تباہی کے بعد امداد بھیجنے پر ہندوستان کا شکریہ ادا کیا - Siasat Daily
انقرہ: ترکی نے 24 گھنٹوں کے اندر یکے بعد دیگرے تین زلزلوں سے لرزنے والے ترکی کو امداد فراہم کرنے کے لیے ہندوستان کو ‘دوست’ قرار دیا۔ ہندوستان میں ترکی کے سفیر فرات سنیل نے ہندوستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا، “دوست صرف وہی جو ضرورت مند ہیں فرات سنیل نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا، “ترکی اور ہندی دونوں زبانوں میں لفظ ‘دوست’ ہے ہمارے ہاں ایک ترکی کہاوت ہے دوست کارا گندے بیلی اولور” (دوست جو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
therealmehikikomori · 10 months
Text
چُونا اَور چَمار کُوٹے ہی ٹِھیک رَہْتا ہے
چونے کو جتنا زیادہ کوٹیں اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے چمار کو جوتے لگتے رہیں تو درست رہتا ہے.
0 notes
saths6604 · 1 year
Photo
Tumblr media
أُحب صوتكِ المُتعَب وكأن مرحباً تعني "عانقيني" "مجھے تمہاری تھکی ہوئی آواز بہت پسند ہے جیسے ہیلو کا مطلب ہے، مجھے گلے لگا لو" عربی کہاوت #travellingthroughtheworld #memories💕 (at Kotli - Azad Jammu Kashmir) https://www.instagram.com/p/CoVeQ3sLlBR/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
darbaareurdu · 1 year
Photo
Tumblr media
عربی کہاوت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ #urdupoetry #poetry #sadpoetry #urdulines #sadedits #urduadab #urduqoutes #urdumems #urdughazals #urduposts #urduzone #urduliterature #urdupoetrylovers #urduwrites #urdushayeri #urduzuban #poetryofinsta #spilledinkpoetry #poetrybooks  #streetpoetry #instapoetry #poetrycorner  #romanticpoetry #urdu #nfak #darbaareurdu #muslimpsyche (at Caption.) https://www.instagram.com/p/Cn9j78YsD3d/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
shiningpakistan · 2 years
Text
آڈیو لیکس یا چور سپاہی کا کھیل
وہ جو کہتے ہیں کہ ’مردے کے بال مونڈھنے سے وزن کم نہیں ہوتا۔‘ یہی حال وزیرِ اعظم ہاؤس کی وڈیو لیکس کا ہے۔ جانے کتنے مہینے کی ریکارڈڈ گ��تگو اب انٹرنیٹ کی منڈی میں چار آنے پاؤ دستیاب ہے۔ اس واردات کے اسباب اور کھلاڑیوں کے شجرے تک پہنچنے کی بجائے یہ مجرب حل نکالا گیا ہے کہ ایک کمیٹی اور وہ بھی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں چھان بین کرے گی کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ حالانکہ سب سے پہلے تو خود رانا ثنااللہ کو اپنے عہدے سے ’علامتی‘ استعفی دینا چاہئے۔ مبینہ عبوری انتظام یہ کیا گیا ہے کہ کابینہ اجلاسوں اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں کسی بھی اعلی ترین افسر کو لیپ ٹاپ اور موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نیز حفاظتی عملے کی سہہ ماہی سکریننگ ہو گی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ جب 1972 میں واٹر گیٹ سکینڈل کا بھانڈا پھوٹا تو اس کی قیمت صدر رچرڈ نکسن کو بدنامی اور برطرفی کی شکل میں ادا کرنا پڑی تھی۔   جب یہ راز منکشف ہوا کہ ٹرمپ کی مدِ مقابل صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن حساس معلومات کے تبادلے کے لیے بطور وزیرِ خارجہ محفوظ سرکاری ای میل اکاؤنٹ کے بجائے نجی ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتی رہی ہیں تو پیشہ وارانہ غیر زمہ داری کا یہ انکشاف ان کی انتخابی شکست کا ایک اور سبب بن گیا۔ جب یہ پتہ چلا کہ سابق صدر ٹرمپ کچھ ریاستی حساس دستاویزات ازخود ہی گھر لے گئے تو ایف بی آئی نے ان کے نجی ٹھکانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ جب چند برس پہلے یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر اینجلا مرکل سمیت کئی قریبی امریکی اتحادیوں کی گفتگو ٹیپ کرتی ہے تو یورپ اور امریکہ تعلقات میں سنگین تناؤ پیدا ہو گیا جسے دور کرنے کے لئے امریکہ کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ گیا۔ مگر پاکستان میں ملک ٹوٹنے سے لے کر، کارگل کی جنگ، انتخابی نتائج کے الیکٹرونک نظام کے اچانک بیٹھنے، بیک روم رجیم چینج، چیف آف سٹاف، ججوں اور وزرائے اعظم کی اپنے اور بیرونی مہمانوں سے گفتگو، اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور جبراً غائب ہونے والے ہزاروں افراد سمیت ہر المیے اور سکینڈل کا ایک ہی علاج ہے ’دفع کرو، مٹی پاؤ، آگے بڑھو۔‘
ہم ہر بار درخت سے گر کے کپڑے جھاڑتے ہوئے یہ کہتے کہتے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوا چیونٹی مر گئی، چیونٹی مر گئی۔ جس طرح کارِ ریاست چلایا جا رہا ہے اس طرح تو کسی پیلے سرکاری سکول کا نظام چلنے پر ہیڈ ماسٹر معطل ہو جاتا ہے۔ اس طرح تو بچے اپنے کھلونے بھی صحن میں نہیں چھوڑتے۔ اس طرح تو فقیر بھی کٹیا کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑتا مبادا ہر کتا بلی اندر آ کر برتن میں منہ نہ ڈال دے۔ اس طرح تو اپنے کپڑے گھر کی گیلری کی الگنی پر بھی نہیں سکھائے جاتے۔ اس طرح تو کوئی تھکا ہارا نوجوان گلی میں موٹرسائیکل کو بنا قفل بھی نہیں کھڑا کرتا۔ اس طرح تو کوئی کریانہ فروش دکان کھلی چھوڑ کے اذان کی آواز پر بھی نہیں دوڑتا۔ اگر ریاست چلانے والے ذہنی دیوالیہ پن میں مبتلا ہوں تو پھر ملک دیوالیہ ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے۔ جس ملک میں منظور شدہ پارلیمانی بل، خفیہ سفارتی کیبلز اور تحقیقاتی رپورٹوں کی اصل کاپی فائلوں سمیت اغوا ہونے کو بھی ایک عام خبر کی طرح بھلا دیا جائے وہاں ہاتھی کا سوئی کے ناکے سے گذر جانا بھی معمول کی اطلاع ہے۔
اب سب ایک دوسرے کے پیچھے گول گول بھاگ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کی گفتگو کس نے کیسے لیک کی اور یہ غیر ذمہ دار ہاتھوں میں کس نے پہنچائی۔ چوری کی ایک ’چھوٹی سی واردات‘ جس کا خاتمہ امریکی صدر کے استعفے پر ہوا ان گول گول بھاگنے والے اداکاروں میں وہ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ کارستانی دکھانے کا شبہہ ہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اس ملک میں آنے اور جانے والی تمام انٹرنیٹ ٹریفک کے ڈیٹا کیبلز پر سیندھ لگا کے بیٹھے ہیں اور انھیں فرداً فرداً ہر ہر عمارت، کمرے، لیپ ٹاپ اور موبائیل پر ’چور چپ‘ نصب کرنے کی اب حاجت ہی نہیں۔ پورے سکینڈل میں رسمی خانہ پری کے طور پر اتنا احتسابی ڈرامہ رچنے کا بھی امکان نہیں جو اس سے 99 فیصد کم اہم ڈان لیکس کے موقع پر رچایا گیا تھا۔ جس واردات میں چور، سپاہی اور تماشائی شامل ہوں وہ واردات نہیں رہتی سستے آرٹ کا نمونہ بن جاتی ہے۔
البتہ ایک فوری فائدہ ضرور ہوا۔ چور سپاہی کے تازہ تھیٹر کے سبب ریٹنگ گزیدہ کیمروں کا رخ ایک بار پھر ساڑھے تین کروڑ سیلاب زدگان کے حقیقی مصائب پر فوکس ہونے کے بجائے اسلام آباد کی علی بابائی غلام گردشوں کی جانب مڑ گیا۔انٹرویو لینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے اور انٹرویو دینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ یہ کس کی کارستانی ہے؟ اور جس گیری کیسپروف کی یہ کارستانی ہے وہ کہیں ٹھنڈے کمرے میں بساط سامنے دھرے ایک مہرے کو دوسرے سے پیٹنے کی مشقِ مسلسل میں ہے۔
ترک کہاوت ہے ’غلام کا غصہ غلام پر ہی نکلتا ہے۔‘
وسعت اللہ خان 
بشکریہ بی بی سی اردو  
0 notes
zahidashz · 2 years
Text
ایک شخص نے بہتر گھر خریدنے کیلئے اپنا پہلے والا گھر بیچنا چاہا.. اس مقصد کیلئے وہ اپنے ایک ایسے دوست کے پاس گیا جو جائیداد کی خرید و فروخت میں اچھی شہرت رکھتا تھا.. اس شخص نے اپنے دوست کو مُدعا سنانے کے بعد کہا کہ وہ اس کے لئے گھـر برائے فروخت کا ایک اشتہار لکھ دے..
اس کا دوست اِس گھر کو بہت ہی اچھی طرح سے جانتا تھا.. اشتہار کی تحریر میں اُس نے گھر کے محل وقوع' رقبے' ڈیزائن' تعمیراتی مواد' باغیچے' سوئمنگ پول سمیت ہر خوبی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا.. اعلان مکمل ہونے پر اُس نے اپنے دوست کو یہ اشتہار پڑھ کر سُنایا تاکہ تحریر پر اُس کی رائے لے سکے..
اشتہار کی تحریر سُن کر اُس شخص نے کہا.. "برائے مہربانی اس اشتہار کو ذرا دوبارہ پڑھنا.." اُس کے دوست نے اشتہار دوبارہ پڑھ کر سُنا دیا.. اشتہار کی تحریر کو دوبارہ سُن کو یہ شخص تقـریباً چیخ ہی پڑا کہ کیا میں ایسے شاندار گھر میں رہتا ہوں..؟
اور میں ساری زندگی ایک ایسے گھر کے خواب دیکھتا رہا جس میں کچھ ایسی ہی خوبیاں ہوں مگر یہ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ میں تو رہ ہی ایسے گھر میں رہا ہوں جس کی ایسی خوبیاں تم بیان کر رہے ہو.. مہربانی کرکے اس اشتہار کو ضائع کر دو.. میرا گھر بکاؤ ہی نہیں ہے_______!!
ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ اللّہ تعالیٰ نے جو کچھ نعمتیں تمہیں دی ہیں ان کو ایک کاغذ پر لکھنا شروع کر دو.. یقیناً اس لکھائی کے بعد تمہاری زندگی اور زیادہ خوش و خرم ہو جائے گی..
اصل میں ہم اللّہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہی بھلائے بیٹھے ہیں.. کیوں کہ جو کچھ برکتیں اور نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں ہم اُن کو گننا ہی نہیں چاہتے.. ہم تو صرف اپنی گنی چنی چند پریشانیاں یا کمی اور کوتاہیاں دیکھتے ہیں اور برکتوں اور نعمتوں کو بھول جاتے ہیں..
ایک اور نے کہا.. "میں اپنے ننگے پیروں کو دیـکھ کر کُڑھتا رہا.. پھر ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں ہی نہیں تھے تو شکر کے ساتھ اللّہ کے سامنے سجدے میں گر گیا.."
کتنے ایسے لوگ ہیں جو آپ جیسا گھر' گاڑی' ٹیلیفون' تعلیمی سند' نوکری وغیرہ' وغیرہ' وغیرہ کی خواہش کرتے ہیں..؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جب آپ اپنی گاڑی پر سوار جا رہے ہوتے ہو تو وہ سڑک پر ننگے پاؤں یا پیدل جا رہے ہوتے ہیں..؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ہوتی' جب آپ اپنے گھر میں محفوظ آرام سے سو رہے ہوتے ہیں
اللّہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔ آمین ۔۔۔
0 notes