Tumgik
#اردو شاعری نظم
nadiaumberlodhi · 2 years
Text
ناول صفر کی توہین، سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں - ہم سب
ناول صفر کی توہین، سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں – ہم سب
ناول صفر کی توہین، سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں – ہم سب — Read on www.humsub.com.pk/478229/nadia-umber-lodhi-10/
View On WordPress
0 notes
(نظم)فلسطین
از: وارث رضا ناتمام
میں عجم کی سرزمین سے
عرب کی طرف دیکھ رہا ہوں
یعنی میں اپنے ملک ہندوستان سے
فلسطین کی طرف دیکھ رہا ہوں
میں دیکھ رہا ہوں کہ فلسطین میں کربلا کا میدان برپا ہے
اور جبہ اور دستار میں لپٹے ہوئے تمام عربی حکمران کوفیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں
میں دیکھ رہا ہوں کہ
غزہ کے لوگ پھر ایک بار امام حسین کے لہجے میں دنیا والوں سے کہہ رہے ہیں
"ہے کوئی تم میں سے جو ہماری مدد کرے"
مگر تمام دنیا کے لوگ بے حس اور بے بصیرت ہو چکے ہیں اور یزید کے لہجے میں بات کر رہے ہیں
میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ یہودی
سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر کے پاس قہقہے لگا رہے ہیں
اپنے بوٹ سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر کو ٹھوکر مار کر کہہ رہے ہیں
"اٹھ اے صلاح الدین ہم پھر واپس آ گئے
اب تمہارے لوگوں کو کون بچائے گا"
میں سوچ رہا ہوں کہ اس قہقہے کا جواب کون دے گا
میں دیکھ رہا ہوں
میں دیکھ رہا ہوں کہ پھر کوئی محمود درویش
'سجل انا عربی'
یعنی "لکھو کہ میں ایک عرب ہوں"
کی صدائیں لگا کر اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہا ہے
ایک باپ اپنے بچوں کے لیے روٹی لانے بازار نکلا ہے
وہ سر راہ مار دیا جاتا ہے
اور روٹیاں خون میں سَن جاتی ہیں
میں دیکھ رہا ہوں کہ بچے اسکول کے لیے نکلے ہیں
لیکن وہ اسکول نہیں پہنچ پاتے ہیں
اور ان کے جوتے خون میں ڈوب جاتے ہیں
میں دیکھ رہا ہوں
کہ بچوں کی کتابوں میں اڑنے والی تتلیاں
نفرت کی اگ میں جھلس رہی ہیں
میں دیکھ رہا ہوں کہ بیٹیوں کی عزت تار تار کی جا رہی ہے
میں دیکھ رہا ہوں
مظلوم کی لاشوں پر یہودی کود رہے ہیں
میں دیکھ رہا ہوں کہ انسانیت مر رہی ہے
اور ساتھ ہی مر رہا ہے یہ یقین
کہ اہل مغرب انسانی حقوق کے محافظ ہیں
میں یہ سارا منظر اپنے ملک ہندوستان سے کھڑے ہو کر
فلسطین میں دیکھ رہا ہوں
اور سوچ رہا ہوں کہ ظلم اور بربریت کس انتہا تک پہنچ سکتی ہے
اور تمام دنیا کے لوگ بے حسی کی کس دہلیز تک جا سکتے ہیں
یہ سارا منظر دیکھ کر میرا وجود
دو حصوں میں پھٹا جا رہا ہے
میری شریانوں میں خون اُبل رہا ہے
اور میں یہیں سے چیخ رہا ہوں
کیونکہ میں مظلوموں کی طرف ہوں
اور ظلم کا حامی نہیں ہوئی
میں اپنے ملک ہندوستان سے
فلسطین کی طرف دیکھ رہا ہوں
1 note · View note
bazmeur · 1 year
Text
نیا جزیرہ ۔۔۔ اسلمؔ عمادی
نیا جزیرہ (شعری مجموعہ) اسلمؔ  عمادی اؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل ای پب فائل کنڈل فائل مکمل کتاب پڑھیں ….. بسم اللہ الرحمن الرحیم یَا عِماَدُمنْ لَا عِمَادَلَہُ انتساب میرے محترم جناب سعید الحق عمادی کے نام تحفہ میرے پیارے دوست محمد اعظم کے لیے حمد ہنستے رہیں گے لب یہ عنایت اُسی کی ہے برسیں گے ہم یہ پھول یہ اُلفت اُسی کی ہ�� میں کیا ہوں ایک قطرہ بحر کمال…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
pakistanwink · 5 months
Text
Dastak: Urdu Nazm Recitation | Gulzar's Masterpiece #Lyrics
اسلام علیکم اور آواز کی دنیا کے دوستوں کو میرا سلام!شاعری کے چینل “ڈیوائن صدیقی” میں خوش آمدید!اردو نظم کے سیگمینٹ میں شاعر گلزار کی خوبصورت نظم دستک باذوق سماعتوں کی نذرصبح صبح اک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا’ دیکھاسرحد کے اس پار سے کچھ مہمان آئے ہیںآنکھوں سے مانوس تھے سارےچہرے سارے سنے سنائےپاؤں دھوئے، ہاتھ دھلائےآنگن میں آسن لگوائےاور تنور پہ مکی کے کچھ موٹے موٹے روٹ پکائےپوٹلی میں مہمان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nooriblogger · 6 months
Text
کلام ِ اقبال کی پیروڈی
Time to read:9 minutes کلام ِ اقبال کی پیروڈی ڈاکٹرعبدالحلیم انصاری(محمد حلیم) شعبہء اردو، رانی گنج گرلس کالج(مغربی بنگال) ہزل اور ہجو کی طرح پیروڈی بھی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کی ایک صنف ہے۔ اس میں کسی مشہور نظم یا شعر یا غزل کی طنزیہ و مزاحیہ نقل پیش کی جاتی ہے۔ جس نظم یا شعر کی پیروڈی کی جائے اس کا مشہور ہونا شرط ہے کیونکہ پیروڈی سے پوری طرح محظوظ تب ہی ہوا جا سکتا ہے جب اصل نظم یا شعر ذہن…
View On WordPress
0 notes
shazi-1 · 3 years
Text
بہت ہی مدت کے بعد کل جب
کتاب ماضی کو میں نے کھولا
بہت سے چہرے نظر میں اترے
بہت سے ناموں پہ دل پسیجا
اک ایسا صفحہ بھی اس میں آیا
لکھا ہوا تھا جو آنسووں سے
کہ جسکا عنوان ہمسفر تھا
جو صفہ سب سے ہی معتبر تھا
کچھ اور آنسو پھر اس پہ ٹپکے
پھر اس سے آگے میں پڑھ نہ پایا
کتاب ماضی کو بند کر کے
تمہاری یادوں میں کھو گیا میں
اگر تُو ملتا تو کیسا ہوتا
انہی خیالوں میں سو گیا میں
17 notes · View notes
kbr8 · 3 years
Video
youtube
INQILABI SHAYARI - Madam (Poem/Nazm) - SAHIR LUDHIANVI - Best Urdu Poetry Collection
1 note · View note
fhfdigi · 4 years
Text
ہمارے دم سے ہے
ہمارے دم سے ہے اب آبروئے دار و رسن
ہمارے حرف ہیں آبِ حیاتِ شعر و سُخن
ہمارے نام سے ہے حرمتِ شبِ زنداں
ہماری سانس سے بادِ نسیمِ صُبحِ جواں   (فواد حسن فواد) Follow: Facebook: https://www.facebook.com/fawadhasanfawadofficial Instagram: https://www.instagram.com/officialfhf/ Twitter: https://twitter.com/officialfhf Pinterest: https://www.pinterest.com/fawadhasanfawad/_saved/
0 notes
bazmeurdu · 2 years
Text
ابن انشا : مزاح کا اچھوتا انداز
وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی، اس گھر میں تھے مہمان گئے
''کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا‘‘ کے خالق ابن انشا پر لکھوں تو کیا لکھوں۔ شیر محمد خاں نام کا ایک شخص جو 1926ء میں جالندھر میں پیدا ہوا۔ جو آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کر گیا۔ جس نے اردو کالج کراچی سے اردو میں ایم۔ اے۔ کیا اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کے بعد اس لیے اس سے دست بردار ہو گیا کہ محقق اور اسکالر وغیرہ بننا اس کے مزاج کے منافی تھا۔ جس نے ایک خط میں مجھے لکھا تھا کہ: ''میں برنارڈ شا کا مرید ہوں جس نے لکھا تھا کہ ساری انسائیکلو پیڈیا لکھنے کی نسبت ''ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ کا مصنف ہونا زیادہ پسند کروں گا۔‘‘ یہ ابن انشا میرا بڑا جگری دوست تھا۔ میرا پیارا بھائی اور مجھ پر جان چھڑکنے والا۔ اس نے مجھے بڑی اپنائیت کے ساتھ خطوط لکھے اور ان خطوط میں اپنی شخصیت کو بارہا آشکار کیا۔
لاہور میں ایک چینی موچی کی دکان تھی۔ سڑک پر گزرتے ہوئے ابن انشا نے اس دکان کے شوکیس میں رکھا ہوا ایک انوکھا اور خوبصورت جوتا دیکھا۔ فوراً وہیں رک کر دکان میں داخل ہوا اور اس کے مالک سے پوچھنے لگا ''اس جوتے کے کیا دام ہیں‘‘؟ دکاندار بولا'' مگر آپ اسے خرید کر کیا کیجیے گا یہ آپ کے پاؤں کا جوتا نہیں ہے‘‘۔ وہ بولا ''مگر میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔‘‘ ایک پراسرار اور انوکھی، طباع اور رومانی شخصیت ''جوتے کا ترجمہ‘‘ تو محض ان کی ''خوش طبعی‘‘ کا ایک مظاہرہ تھا مگر اس جوتے کی بدولت انہیں چینی شاعری کی تلاش ہوئی۔ طرح طرح کے مجموعے اور انتخابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے اور ان کے منظوم ترجمے اردو میں کر ڈالے اور چینی نظموں کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی۔ اس کتاب میں قدیم چین کے لوک گیت ہیں۔ کنفیوشس کی نظمیں ہیں، چرواہوں کی تانیں، جوگیوں اور بیراگیوں کی خود کلامیاں اور ان کے اقوالِ دانش ہیں اور عہد جدید کے منظومات بھی۔
شخصیت کی اسی پراسراریت اور انوکھے پن کی وجہ سے وہ ایڈگر ایلن پو کو اپنا ''گرو دیو‘‘ کہتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی انوکھی شخصیت اور اس کی شاعری نے سب سے پہلے ہمارے یہاں میرا جی کو اپنا دلدادہ بنایا تھا اور انہوں نے بہت پہلے پو کی شخصیت اور شاعری پر ادبی دنیا میں ایک مضمون لکھا تھا ۔ پو کے دوسرے عاشق ابن انشا تھے جنہوں نے پو کی پر اسرار کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اسے''اندھا کنواں‘‘ کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کیا۔ خود ابن انشا کی اپنی شاعری میں یہی پر اسراریت ، رومانیت اور نرالی فضا ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام ''چاند نگر‘‘ ہے جو 1955ء میں مکتبہ اردو، لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام بھی پو کی ایک نظم سے مستعار ہے۔ ابن انشا اپنی اس رومانیت کے باوجود اپنے زمانے کے سماجی مسائل اور عوام کے دکھ درد کے ہی شاعر تھے۔ 
ابن انشا نئی نسل کے ان شاعروں کا سرخیل رہا جس نے پہلی بار شاعری میں ذاتی اور شخصی تجربے کی اہمیت پر زور دیا اور ترقی پسندی کے چراغ جلائے۔ پنجابی شاعری کی صنف ''سی حرفی‘‘ کو بھی میرے علم کے مطابق سب سے پہلے ابن انشا نے اپنی نظم ''امن کا آخری دن‘‘ میں برتنے کی کوشش کی۔ ابن انشا کی نظموں کی اپنی ایک فضا ہے۔ ان نظموں میں شام اور رات کے دھندلکے کو عام طور پر منظر نامے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ اور ان نظموں میں کسی گرجا کا گھڑیال بھی اکثر آتا ہے جو ہمیشہ دو ہی بجاتا ہے۔ کہیں ریل کی سیٹی بھی گونج اٹھتی ہے۔ ایک ریل کا پل بھی ہے۔ 1955ء میں ''چاند نگر‘‘ کی اشاعت اس سال کا ایک اہم ادبی واقعہ تھی۔ انشا کے مزاح کا انداز اچھوتا تھا۔ ناصر کاظمی کی ''برگ نے‘‘ بھی اسی سال شائع ہوئی۔ ابن انشا اور ناصر کاظمی دونوں سے میری ذہنی قربت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوستی محض خط و کتابت تک ہی محدود تھی۔ ایک کراچی میں تھا (ابن انشا) دوسرا لاہور میں (ناصر کاظمی) اور تیسرا علی گڑھ میں (راقم الحروف) مگر نصف ملاقاتوں کے ذریعہ خوب پینگیں بڑھیں۔
ان کے مزاحیہ مضامین، بچوں کی نظمیں، غرض کہ ہر طرح کی چیزیں دیکھنے میں آئیں۔ کبھی ''چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ کے نام سے اور کبھی''ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ کے عنوان سے اپنی سیاحی کا حال لکھا۔ 1960ء کے بعد اردو شاعری کے ایوان میں بڑی چہل پہل رہی۔ جدیدیت کے میلان نے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کی۔ ہم سب اسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے اور خوب خوب دھومیں مچائیں۔ ناصر کاظمی کا بھری جوانی میں انتقال ہو گیا۔ ان کی یاد میں لاہور سے لے کر علی گڑھ تک جلسے ہوئے۔ 1978ء کے آغاز میں جب ابن انشا ایک عارضے میں مبتلا ہو کر لندن کے ایک اسپتال میں اپنی جان جان آفرین کو سپرد کرتے ہیں تو کیا انگریزی اور کیا اردو سبھی اخباروں میں اردو کے ایک مزاح نگار کی موت کی مختصر سی خبر شائع ہوئی۔ اکیاون سال کی عمر میں وفات پانے والا البیلا شاعر ''چاند نگر‘‘ جیسے مجموعے کا خالق ایک''مزاح نگار‘‘ کی صورت میں منوں مٹی کے نیچے جا سویا۔ جب ان کی میت ہوائی جہاز کے ذریعے پاکستان لائی جارہی تھی تو ان کی یہ غزل مسافروں کو سنائی گئی''انشا جی اٹھو ، اب کوچ کرو‘‘۔ وہاں موجود ہر دوسری آنکھ اشک بار ہو گئی۔
خلیل الرحمان اعظمی
بشکریہ دنیا نیوز
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
Tumblr media
Waqt Ne Kiya Kya Haseen Sitam,
Tum Rahe Na Tum, Hum Rahe Na Hum...
Tribute to one of the most celebrated, legendary Urdu poet/lyricist KaifiAzmi saab on 19death anniversary🙏 (May 10)
اردو کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کو ہم سے بچھڑے19 سال گزر گئے لیکن ان کے لکھے گئے سریلے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار اختر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور پہلی نظم 11 سال کی عمر میں تحریر کی۔1940 کے اوائل میں کیفی اعظمی بمبئی آ گئے اور صحافت کے شعبے سے منسلک ہوگئے اور یہیں ان کی شعری کا پہلا مجموعہ“جھنکار”شائع ہوا۔مختلف صلاحیتوں کے مالک کیفی اعظمی نے لاتعداد فلموں کے لئے نغمے لکھے، فلم کاغذ کے پھول میں ان کے گانے“وقت نے کیا کیا حسیں ستم”کو بہت سراہا گیا۔اس کے بعد پاکیزہ فلم کا گانا“چلتے چلتے کہیں کوئی مل گیا تھا”، ہیر رانجھا کا ”یہ دنیا یہ محفل“ اور ارتھ کے گیت“تم اتنا جو مسکرا رہے ہو”بے حد مقبول ہوئے۔ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ ان میں جذبات کا بے پناہ اظہار، الفاظ کی خوبصورتی اور غیر منصفانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔اردو شاعری کے فروغ کے لئے انتھک کام کرنے پر انہیں ساہتیا اکیڈمی فیلوشپ انعام سے نوازا گیا۔واضح رہے کہ کیفی اعظمی معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے والد اور شاعر جاوید اختر کے سسر تھے۔ اپنے نغموں سے ناظرین کا دل جیتنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو ئے۔
4 notes · View notes
alibabactl · 4 years
Text
💜معلومات اردو ادب💜
س۔1۔
*آورد* ۔ جب شاعر ارادی طور پر فکر سخن میں بیٹھے اور شعر کہنے کے بعد اس کے لفظ و بیان اور ترتیب و تنظیم پر غور و غوض کرے اور بہتر پیرایہ میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔
س2۔
*ابتذال*۔ کلام میں غیر مہذب سوقیانہ اور بازاری الفاظ لانا یا ایسا کلام کہنا جس کا مضمون شائستگی سے بعید ابتذال کہلاتا ہے ۔
س۔3۔
*استعارہ*۔ استعارہ علم بیان کی اصطلاح ہے جس کا معنی ادھار لینا ہے کسی شے کے لوازمات اور خصوصیت کو کسی دوسری شے سے منسوب کرنا ۔
س۔4۔
*اشتراکیت* ۔ شخصی ملکیت کے تصور اور اجتماعی ملکیت کا فلسفہ جس میں معاشرے کے افراد میں ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم و اشتراکیت کہلاتا ہے۔
س5۔
*المیہ*۔ المیہ اس ڈرامے کو کہتے ہیں جس کو پڑھنے یا دیکھنے سے قاری یا ناظر میں رحم یا خوف دونوں جزبات پیدا ہوں یعنی وہ ڈرامہ جس کے واقعات میں حزنیہ فضا ہو اور وہ اپنے اختتام پر قاری یا ناظر کو حزیں افسردہ ہمدرد اور اندوہ گیر چھوڑ دے ۔
س۔6۔
*انشا پرداز*۔ کسی نثر پارے میں دو چیزیں قابل توجہ ہوتی ہیں اول مواد دوم اسلوب اگر کسی نثر پارے کا اسلوب نہایت نرالا شعرانہ اور متخیلہ کی کرشمہ سازی کا حامل ہے تو وہ نثر پارہ اپنے اسلوب کی بدولت زندہ رہتا ہے اردو میں رجب علی بیگ سرور محمد حسین آذاد ملا وجہی اور غالب ایسے صاحب طرز انشا پرداز ہیں جن کی نثر شاندار اسلوب کی بنا پر ہمیشہ سے مقبول ہے ۔
س۔7۔
*ایجاز* ۔ کسی موضوع کو کم سے کم ممکنہ حرفوں میں ادا کرنا ایجاز کہلاتا ہے۔
س۔8۔
*علم بدیع* ۔ یہ شعری تنقید کی ایک اصطلاح ہے چنانچہ علم بدیع وہ علم ہے جس میں کلام کی خوبیوں سے بحث کی جاتی ہے۔
س۔9۔
*بحر* ۔ یہ علم عروض کی اصطلاح ہے شعر جس وزن پر کہے جاتے ہیں اس کا اصطلاحی نام بحر ہے ۔
س۔10۔
*بلاغت* ۔ اس سے مراد پہنچنا اثر آفرینی اور کلام کا سریع الفہم ہونا ہے بلاغت ہر وہ زریعہ ہے جس سے ہم اپنے معنی کو خوبصورت انداز میں فصاحت کے ساتھ سامع تک پہنچاتے ہیں اور سامع کے دل میں وہی اثر پیدا کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے دل میں ہوتا ہے۔
س۔11۔
*تاثر* ۔ وہ جزباتی اثر جو قاری سامع یا ناظر کسی فن پ��رے کو پڑھ س یا دیکھ کر فوری طور پر قبول کرتا ہے تاثر کہلاتا ہے۔
س۔12۔
*تجسیم* ۔ غیر مرئی حقائق جبلات یا عادات وغیرہ کو حرکی مادی جسم میں ڈھال کر پیش کرنا تجسیم کہلاتا ہے ۔
س۔13۔
*تجنیس* ۔ یہ ایک صنعت شاعری ہے اس سے مراد ہم جنس ہونا اور ہم صوتیت ہے کلام میں دو ایسے الفاظ استعمال کرنا جو تلفظ یا املا یا دونوں میں مشابہت رکھتے ہوں لیکن معنوں میں اختلاف ہو تجنیس کہلاتا ہے۔
س۔14۔
*تحریف* ۔ پیروڈی کا لفظ یونانی الاصل ہے اردو می اس کے لیے تحریف کی اصطلاح رائج ہوئی کسی شاعر کے سنجیدہ کلام کو معمولی رد وبدل سے مضحکہ خیز بنا دینا یا کسی سنجیدہ کلام کی اس طرح نکل اتارنا کہ وہ مضحک بن جاے ۔
س۔15۔
*تخلص* ۔ شاعر اپنے ذاتی اور خاندانی نام کے علاوہ جو نام شعرانہ شناخت کے طور پر اپناتا ہے اسے اصطلاحاً تخلص کہلاتا ہے ۔
س۔15۔
*خطاب* ۔ جو بادشاہ یا سرکار سے اعزازی طور پر ملتا ہے جیسے علامہ الدولہ وغیرہ۔
س۔16۔
*لقب* ۔ ایک وصفی نام جو کسی خصوصیت یا وصف کی وجہ سے پڑ گیا ہو جیسے مرزا نوشہ لقب ہے اسد اللہ خان غالب کا ۔
س۔17۔
*ترفع*۔ تنقید کی عظیم اور قدیم اصطلاح ہے جو دوسری صدی عیسوی سے رائج ہے ترفع کسی فن پارے کی وہ خوبی ہے جس کے باعث اس کا اسلوب عام سطح سے بلند ہو کر خاص امتیاز کا حامل ہو جاتا ہے ۔
س۔18۔
*تصرف* ۔ یہ عمومی طور پر شعری اصطلاح ہے جس سے دخل دینا اختیار قبضہ وغیرہ مراد ہے کسی شاعر یا نثر نگار کے کلام میں کچھ ردوبدل کرکے ایک نئی معنوی کیفیت پیدا کرنا تصرف کہلاتا ہے۔
س۔19۔
*تصوّف* ۔ یہ روحانیت کی اصطلاح ہے فرد کے روحانی تجربے کو تصوف کہتے ہیں تصوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صاحبِ حال کے تجربے میں آتا ہے یہ فرد کی مکمل تنہائی کا تجربہ ہے جو ناقابل بیان ہے یعنی اس تجربے کا ابلاغ نہیں ہو سکتا کیونکہ ابلاغ عمرانی ہے۔
س۔20
*تضاد* ۔ یہ ایک شعری صنعت ہے جب کلام میں ایسے الفاظ لاے جائیں جو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہوں صنعت تضاد کہلاتی ہے
س۔21۔
*تقریظ*۔ کسی ادب پارے کے بارے میں تبصرہ کرنا عکاظ کے مقام پر ایک میلہ لگتا تھا جہاں ایک شعری نشست منعقد کی جاتی تھی صدر محفل کسی ایک قصیدے کو دوسرے پر برتری دے کر اس کی خوبیوں اور محاسن پر ایک بلیغ تقریر کرتا تھا اسے تقریظ کہتے تھے۔
س۔22۔
*تلمیح* ۔ تلمیح کی اصطلاح علم بدیع کے حصے میں آئی ہے کلام میں کوئی ایسا لفظ یا مرکب استعمال کرنا جو کسی تاریخی مذہبی یا معاشرے واقعے یا کہانی کی طرف اشارہ کرے تلمیح ہے ۔
س۔23۔
*تنقید* ۔ کسی فن پارے کے محاسن کو معیاراتِ فن کے مطابق پرکھنا جانچ پڑتال کرنا اور اندرونی حاسبہ جمال کی مدد سے اس کی قدر وقیمت کا تعین کرنا "تنقید" کہلاتا ہے۔
س۔24۔
*جزئیات نگاری* ۔ کسی واقعے یا امیج کو شاعری یا افسانے میں بیان کرتے وقت اس کے نہایت معمولی حصے کو بھی مدِ نظر رکھنا جزئیات نگاری کہا جاتا ہے۔
س۔25۔
*خارجیت* ۔ یہ تنقید شعر کی اصطلاح ہے جو خارجی واردات لوازمات اور متعلقات میں راہ کر شاعری کرے وہ خارجیت پسند ہوتا ہے خارجیت پسند شاعر زندگی کی بیرونی سطح دیکھتا ہے
س۔26۔
*مقفیٰ نثر* ۔ ایسی نثری عبارت جس کے فقروں میں وزن نہ ہو لیکن قافیہ کا استعمال کیا گیا ہو ۔
س27۔
*مسجع نثر* ۔ ایسی عبارت جس کے ایک فقرے کے الفاظ دوسرے فقرے کے الفاظ میں ہم وزن اورہم قافیہ ہوں ۔
28۔
*صنعت حسن تعلیل* ۔ حسن تعلیل ایسی شعری صنف ہے جس میں شاعر کسی واقعے کی اصل منطقی جغرافیائی یا سائنسی وجہ نظر انداز کر کے ایک تخیلاتی جزباتی اور عین شاعرانہ وجہ بیان کرے
؎پیاسی جو تھی سپاہِ خدا تین رات کی
ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی۔
س۔29۔
*راجائیت*۔ ادبی اصطلاح کے طور پر آرزو مندی زندگی سے محبت اور پر امید لہجہ اختیار کرنا ۔
س۔30۔
*ریختی*۔ ایسی نظم جو عورتوں کے بارے میں عورتوں کی طرف سے لکھی جاے ۔
س31۔
*شہر آشوب* ۔ وہ نظم جس میں کسی ملک شہر یا معاشرے کے اقتصادی سیاسی یا معاشرتی دیولیہ پن مجلسی زندگی کے پہلوؤں کا نقشہ طنزیہ انداز میں پیش کیا جاے ۔
س۔32۔
*واسوخت*۔ ایسی نظم جس میں شاعر اپنے محبوب کی بےوفائی تفافل اور رقیب کے ساتھ اس کے تعلق کی شکایت کرتا ہے اور ساتھ ہی کسی اور محبوب کے ساتھ واسطہ ظاہر کر کے اسے دھمکاتا ہے ۔
س33۔
*رمزوایمائیت*۔ رمزوایمائیت سے مراد کسی پوشیدہ بات کو اشاروں میں بیان کرنا ۔
س34۔
*تغزل*۔ یہ ایک شعری اصطلاح ہے تغزل اس کیفیت کا نام ہے جو شاعری میں لطیف و اثر اور حسن و درد پیدا کرتی ہے۔
؎چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ۔
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے ۔
س35۔
*سہل ممتنع* ۔ ایسا شعر جو اس قدر آسان لفظوں میں ادا ہو جاے کہ اس کے آگے مزید سلاست کی گنجائش باقی نہ رہے ۔
؎ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا ۔
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔
س۔36۔
*امیجری* ۔ کسی امیج کو زبان دینا شاعر یا ادیب الفاظ کے زریعے سے وہ تصویریں پیش کرتا ہے جو تہ درتہ کیفیات کی شکل میں اس کے زہنی تجربوں میں آتی ہیں اور خارجی دنیا میں اس کا وجود نہیں ہوتا۔
س۔37۔
*خمریات*۔ یہ بنیادی طور پر شاعری کی اصطلاح ہے ایسی شاعری جس میں شراب اور متعلقات شراب کا بکثرت زکر ہو اسے خمریات کہتے ہیں ۔
س۔38۔
*داخلیت*۔ ادب میں داخلیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر اپنی قلبی واردات اپنے نجی جزبات و احساسات میں ہی اپنی تخلیقی زندگی گزارتا ہے ۔
س۔39۔
*دبستان* ۔ جب بہت سے ادیب اور شعرا ایک مخصوص علاقے اور زمانے کی طرز بود و باش اور سماجی اقدار سے متاثر ہو کر ادب میں ایک ہی طرز فکر اور انداز نظر اپناتے ہیں تو اسے دبستان کہا جاتا ہے۔ جیس دبستان لکھنو دبستان دہلی
س۔40۔
*رعایت لفظی* ۔ رعایت لفظی شاعری و نثری اصطلاح ہے لفظوں کی مناسبت سے ایک ایسی دلچسپ اور مضحکہ خیز صورت حال کو سطح پر لانا جو پہلے نظروں سے غائب تھی مثلاً اے بی اور بی اے میں تجنیسی
ربط ہے
Copied
17 notes · View notes
bazmeur · 1 year
Text
رابعہ (طویل نظم) ۔۔۔ فرحت عباس شاہ
رابعہ فرحت عباس شاہ ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل ای پب فائل کنڈل فائل ٹیکسٹ فائل مکمل نظم پڑھیں۔۔۔۔۔ رابعہ طویل نظم فرحت عباس شاہ دو حرف میں نے اس وقت طویل نظمیں لکھنا شروع کیں جب اردو شاعری میں بہت کم شعراء اس مشکل اور کٹھن میدان میں نظر آئے۔ ن م راشد کی نظم حسن کوزہ گر پڑھی تو میرے اندر سے آواز آئی کہ اسے کسی اور طرح سے ہونا چاہیے تھا۔ پھر میں بھول گیا۔ سالوں بعد یہ نظم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 4 years
Text
آغا شورش کاشمیری اور ان کی کاٹ دار تحریریں
قوم اپنی اعلیٰ اقدار اور روایات کھو چکی اور اس میں ایک زوال پذیر معاشرے کی تمام خامیاں نشوونما پا چکی ہیں۔ زوال کی اس سے بڑی نشانی کیا ہو گی کہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنی قومی زبان کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنے بچوں کواپنی تاریخ اور مذہب بھی غیر ملکی زبان میں پڑھاتے ہیں۔ والدین کے لیے یہ بات ذرا بھی تشویش کا باعث نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والے بچّے اپنی قومی زبان اردو نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ اپنی اولاد کی غلط انگریزی سن کر والدین فخر محسوس کرتے ہیں جو بدترین احساسِ کمتری کی نشانی ہے۔ جو نسل اردو زبان سے نا بلد ہے، وہ اپنی تاریخ اور آزادی کی تحریک سے بھی بے خبر رہی گی اور جس غیر ملکی زبان کو وہ برتر سمجھتی ہے، اُسی کی تہذیب اور معاشرت کی تقلید کرے گی اور اسی کی غلامی کو اپنا عقیدہ اور ایمان بنا لیگی۔
اب بھی وقت ہے کہ اربابِ اختیار، والدین اور اہلِ قلم ایک بھرپور جدّوجہد کے ذریعے نئی نسل کو انگریزی کی ذہنی غلامی سے نجات دلا کر اردو کی جانب راغب کریں۔ اس سلسلے میں راقم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اردو زبان کے معروف تخلیق کاروں کی منتخب نگارشات قارئین سے گاہے بہ گاہے شئیر کرتا رہوں گا۔ آغاز آغا شورشؔ کاشمیری سے کیا جا رہا ہے۔ غالبؔ ، اقبالؔ ، اور فیضؔ کی شاعری پر بھی بات ہوتی رہے گی۔ شورشؔ کاشمیری کی شاعری بڑی جاندار اور نثر اس سے بھی کاٹ دار تھی ، نظم اور نثر دونوں ولولے، طنطنے کے علاوہ انقلابیّت سے بھرپور ہے۔ مگر ان کی وجہء شہرت ان کی بے مثال خطابت تھی۔ برّصغیر نے بڑے بلند پایہ مقرّر اور خطیب پیدا کیے ہیں۔ اردوخطابت کے حرفِ آخر کا نام سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ہے۔ شاہ جی کو اردو زبان کا سب سے بڑا خطیب مانا جاتا ہے۔ خطابت کے اُسی قافلے کا آخری سالار آغا شورش کاشمیری تھا۔
زندگی کی آخری دھائی میں اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب (Public Speaker) بلا شبہ آغا شورش تھے۔ وہ لاکھوں کے مجمعے کو مٹھی میں لینے اور ان کے جذبات کو آگ لگا دینے کا فن جانتے تھے، بے پناہ مطالعے کے باعث وہ زبان و بیان کے رموز پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ہم قافیہ الفاظ ان کے منہ سے آبشار کے پانی کی طرح نکلتے اور دریا کی روانی کیطرح بہتے چلے جاتے تھے۔ وہ انگریزوں اور دیسی حکمرانوں سے ٹکرّ لیتے رہے اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ میٹرک کے بعد ہم ان کا ہفت روزہ چٹان (جسکی 1970 کی دھائی میں سرکولیشن ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی تھی) باقاعدگی سے پڑھتے رہے۔ بارھا ان کی تقریر یں سننے کا اتفاق ہوا اور چند مرتبہ مرکزی مجلسِ اقبال کی تقریب میں بھی ان کے خطاب سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ موجودہ دور میں آغا شورش کاشمیری پر سرکاری سطح پر کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔ حالانکہ موجودہ حکومت کی کابینہ کے دو ارکان (ایک وزیر اور ایک مشیر) تو آغا صاحب کے شاگرد ہونے کا دعوٰ ی کرتے ہیں۔ 
وزیر صاحب تقریر میں ان کی نقّالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر موصوف کا مطالعہ قلیل اور زبان طویل ہے جسکے باعث دو تین فقرے روانی سے نہیں بول پاتے۔ مشیر محنتی ہیں اور اپنے کالموں میں اکثر آغا صاحب کے شعر استعمال کرتے ہیں۔ پرانی کتابوں میں سے” مضامینِ شورش” کے نام سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی جو آغا صاحب کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں پر مشتمل ہے جسے پروفیسر اقبال جاوید نے بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔ پروفیسر اقبال جاوید لکھتے ہیں، ” شورش ؔکے شعور نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ صحافت و خطابت اور شعر و سخن کے لحاظ سے سماوی رفعتوں کو چھو رہا تھا۔ اقبال ؒ کا مفکرانہ سوز و ساز، ظفرعلی خانؒ کا نعرہء پیکار، محمد علی جوہرؒ کا پر خلوص طنطنہ ، ابوالکلام آزاد کی پُر شکوہ علمیّت اور سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے خطیبانہ زمزمے فضاؤں میں منتشر ہو کر دلوں کے انجماد کو اضطراب بخش رہے تھے”۔
عبد السلام خورشید کے الفاظ میں ” شورش کو ابوالکلام نے شعور بخشا، اقبال ؒ نے فکر دی، ظفر علی خان نے سج دھج عطاء کی اور عطاء اللہ شاہ بخاری کے پاکیزہ ذوق نے ان کی زبان کو خاراشگافی کی صلاحیتّیں بخشیں” ۔ اور اب آغا صاحب کی چند تحریروں سے لطف اُٹھائیں۔ “ کیا ہمارے ملک میں اسوقت کوئی بڑا ادیب یا شاعر ہے ؟ ” کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ”اس حقیقت کے سامنے بہر حال سر جھکانا پڑتا ہے کہ ہماری ادبی اور شعری صفیں باعظمت لوگوں سے خالی ہیں۔ سن رسیدہ اہلِ قلم میں غلام رسول مہر اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے نام لیے جا سکتے ہیں مگر ان کے ادب میں علم ہے یا تاریخ ۔ مولانا مودودی تو ایک ادیب کی نسبت ایک عالم یا مفکّر زیادہ ہیں، شاعروں میں حفیظ جالندھری کا بڑا کام ہے، پختہ مشق شعراء میں احسان دانش بوڑھے ہو گئے،    جوش ملیح آبادی آثار قدیمہ میں سے ہیں، فیض احمد فیض کو بڑے شاعر کی حیثیّت سے پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کی تائید ادبی رائے سے کم اور سیاسی راستے سے زیادہ ہوتی ہے۔
” پھر لکھتے ہیں” غالب مسلّمہ طور پر ایک عظیم شاعر ہے ، حالی ؔقوم کا مرثیہ خواں تھا۔ اقبال ؒ نے ملّت کو نصب العین اور ایشیاء میں اسلام کو شعلہء نوا بخشا ، جوش نے نظم کا رخ پھیرا۔ حفیظ ؔنے بھی کبھی گرمیء محفل پیدا کی اور فیضؔ نے آشفتہ مغز نوجوانوں کی جماعت کو متا ثر کیا۔” “وہ کتابیں جنھوں نے مجھے متاثر کیا “ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں “کتابوں کی طاقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا، پوری دنیا کتابوں کی مرہون ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے کتاب کو جدید انسان کی شریک ِ حیات قرار دیا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ ایک بہترین ساتھی، شائستہ ترین دوست اور ہر وقت فراہم ہونے والی رفیقہء حیات ہے۔” لکھتے ہیں ”میں 1935 سے 1946 تک جیل میں رہا، یہ زمانہ ایسا تھا جس میں مَیں نے اچھی بری کتابوں کو پڑھا ہی نہیں کھنگال ڈال، بے شمار کتابوں اور مصنفوں نے گرویدہ کیا لیکن میں کسی کے سایہء افکار میں ٹھہرا نہیں۔ 
میں نے فکر و نظر کا دامن بھرنے کے بعد اس سے نکل جانے کی کوشش کی ہے ۔ میں نے رو سو کے اعترافات میں بڑی لذّت محسوس کی ہے ھیوگو وکٹر کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتا رہا۔ والٹیئر نے مجھ پر خاصا اثر کیا۔ کارل مارکس کے سرمایہ کو میں نے بہ التزام سبقََا سبقََا پڑھا ہے۔ افلاطون کی جمہوریّت نے بھی میرے خیالات کو متاثر کیا۔ لیکن جن مصنفّوں نے میرے عقیدے میں پختگی پیدا کی وہ دو ہی تھے۔ مولانا ابولکلام آزادؔ اور علّامہ اقبال۔ ابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن اور الہلال نے میری تعمیر میں حصّہ لیا ہے اور کلام ِ اقبالؔ نے مجھ میں نہ صرف مسلمانوں سے یک گونہ وابستگی پیدا کر دی ہے بلکہ اسلام کے ماضی کا شَیداء، حال کا نقّاد اور مستقبل کا سپاہی بنا دیا ہے” ۔ آغا صاحب نے کئی نامور شخصیات کے خاکے لکھے ہیں۔ حکیم محمد سعید کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں، “ دلّی اپنے ساتھ مسلمانوں کی جملہ روایتیں لے کر کراچی آئی، ثقافت کا ہمہمہ، فراست کا طنطنہ، زبان کا لوچ، لہجے کی نزاکت، رہن سہن کی نفاست، دماغ کا نور ، دل کا سرور۔ 
ان لوگوں کا اثاثہ مہاجرت تھا جو دہلی سے رخصت ہو کر پاکستان پہنچے اور کراچی کو بسایا اور دیکھتی آنکھوں ایک ایسا شہر جوان ہو گیا جو سمندر کے ساحل پر ایک بے قابو شہر تھا۔ یہاں بولی کے اضلاع کا نچوڑ اٹھ آیا تھا، حیدرآباد کی فراست چلی آئی تھی اور دہلی جو مسلمانوں کی نو سو سالہ عظمت کاچمکا ہوا نشان تھا اس کی وجاہتیں رَختِ سفر باندھ کر کراچی کو عروس البلاد بنا رہی تھیں” ۔ سعادت حسن منٹو اور اختر شیرانی کے بارے میں لکھتے ہیں ” دونوں میں بہت سی باتیں مشترک تھیں مثلََا دونوں شراب کی نذر ہو گئے ، دونوں نے اسطرح پی کہ ان کی زندگی میں سے شراب نکال دی جائے تو ایک چوتھائی رہ جاتی ہے”۔ اور آخر میں آغا شورشؔ کی زبانی اختر شیرانی کا ایک واقعہ سن لیں۔ “عرب ہوٹل میں ایک دفعہ بعض کیمونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے، ان سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ اختر شیرانی اُسوقت تک دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اوراُنکے ہوش قائم نہ تھے، تمام بدن پر رعشہ طاری تھا۔ کسی نے ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا، وہ اپنے موڈ میں تھا کہا ” یہ افلاطون، ارسطو یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے قدموں میں بیٹھتے، ہمیں ان سے کیا ؟ اس لڑکھڑاتی ہوئی گفتگو سے فائدہ اٹھا کر ایک بدبخت نے سوال کر دیا۔
آپ کا حضرت محمدﷺ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اللہ اللہ ایک شرابی پر جیسے کوئی برق گری ہو۔ بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کو دے مارا ۔ پھر کہا “بد بخت ایک عاصی سے سوال کر تا ہے۔ ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟ ” تمام جسم کانپ رہا تھا ۔ رونا شروع کر دیا ، گھِگھی بندھ ہو گئی، پھر بولے” تم نے اس حالت میں یہ پاک نام کیوں لیا۔ تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ ” گستاخ ! بے ادب !مسلسل روتے جاتے اور کہتے جاتے۔” کمبخت ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ میں گناہگار ضرور ہوں مگر یہ مجھے کافر بنانا چاہتے ہیں” ۔ شیخ سعدیؒ یا د آتے ہیں جو فرما گئے کہ ہزار باربشویم دھن زمشک وگلاب،ھنوز نامی تو گفتن کمالِ بے ادبی ست (ہزار بار بھی اگر منہ مشک و گلاب سے دھوؤں تو پھر بھی آپﷺ کا پاکیزہ نام لینا بہت بڑی بے ادبی ہے)
ذوالفقار احمد چیمہ  
4 notes · View notes
urduu · 5 years
Text
اردو بچوں کا کھیل نہیں۔۔😴
اردو ادب کی اصطلاحات
اردو ادب کے دامن میں ان گنت تراکیب و اصطلاحات موجود ہیں۔ ہم اردو ادب کی اصطلاحات سے بہت حد تک شناسا ہونے کے باوجود ان سے کلی طور پر کم ہی واقف ہو پاتے ہیں۔ گرچہ یہ موضوع بہت وسیع ہے تاہم ان سے کسی حد تک واقف ہونے کے لیے ذیل میں فقط ان اصطلاحات کی فہرست درج ہے۔
علوم قواعد
1۔علمِ صرف 2۔ علمِ نحو 3۔ علمِ عروض 4۔علمِ شعر 5۔ علمِ قافیہ 6۔ علم معانی / علم بدیع 7۔علم بیان 8۔ علمِ لغت 9۔ علمِ اشتقاق 10 ۔ علمِ انشا 11 ۔ علمِ خط 12 ۔ علمِ تاریخ
علم بیان کی چار اقسام میں تشبیہ ، استعارہ، کنایہ ، مجاز مرسل شامل ہیں۔
تخلیقی ادب
تخلیقی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب۔
افسانوی ادب غیر افسانوی ادب
داستان ۔ ناول ۔ افسانہ ۔ ڈراما مقالہ ۔ مضمون ۔ تاریخ ۔ (سوانح/ سوانح حیات / آپ بیتی /خود نوشت سوانح )۔ خود نوشت ۔ (خاکہ/خاکہ نگاری) – سفر نامہ ۔ طنز و مزاح ۔ (مکتوب/خط)
(ڈائری/روزنامچہ) ۔ انشائیہ ۔ (تذکرہ / تذکرہ نگاری) ۔ دیباچہ، مراسلہ ۔ روزنامچہ ۔ تبصرہ ۔ لغت نویسی ۔ رپورتاژ
نظم و نثر
نثر شاعری
(کہانی /مختصر کہانی )
ڈراما ۔ ناول ۔ ناولیٹ
افسانہ ۔ افسانچہ ۔
( خاکہ/ خاکہ نگاری ) ۔
انشائیہ ۔ سفرنامہ ۔
(سوانح /سوانح حیات ) ۔
(داستان / قصہ )
فلم ۔ پیروڈی ۔تنقید ۔
(کالم/ بیانیہ / مقالہ /مضمون)
( حمد ۔ نعت/نعتیہ قصیدہ ۔ مدح ۔ قصیدہ ۔ منقبت ۔ مناجات ۔ سلام ۔ مرثیہ۔شخصی مرثیہ ۔ شاہنامہ ۔ رزمیہ/رزم نامہ )
( غزل ۔ مثنوی ۔جدید مثنوی ۔ نظم ۔ پابند نظم ۔ شہرآشوب ۔ واسوخت ۔ ریختی ۔ہجو ۔ تلمیح )
(ثلاثی ۔ رباعی ۔قطعہ ۔ مخمس ۔مسدس )
( ماہیا ۔ سہرا ۔ دوہا ۔ گیت ۔)
بیرونی زبانوں کی ہئیتیں
(معریٰ نظم ۔ آزاد نظم ۔ سانیٹ ۔ ترائیلے ۔ ہائیکو ۔ نثری شاعری ۔)
نظم کی اقسام :
موضوعاتی نظم ، نیچرل نظم ، وطنی نظم ، قومی نظم ، رومانی نظم ، انقلابی نظم ، علامتی نظم ، آزاد نظم ، معری نظم ، جدید نظم )
غزل کی اقسام :
( مردف غزل ، غیرمردف غزل )
غزل کے اجزائے ترکیبی : ( 1۔ ردیف 2۔ قافیہ 3۔ مطلع 4۔ مقطع)
نظم کو موضوعات کے حوالے سے مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں واسوخت۔قصیدہ۔ شہرآشوب۔مرثیہ۔ شامل ہیں
صنعتی شاعری اور صنعتوں کی اقسام ترميم
علم میں مختلف قسم کی صنعتیں بیان کی جاتی ہیں۔اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ا۔صنائع لفظی :۔
ب۔ صنائع معنوی:۔
صنائع لفظی صنائع معنوی
صنعتِ تجنیس ۔ صنعتِ تثلیث ۔ صنعتِ اشتقاق ۔ صنعتِ شبہِ اشتقاق ۔ (صنعتِ تکریر/صنعتِ تکرار )۔ صنعتِ تصحیف ۔
صنعتِ توسیم ۔ صنعتِ ایداع ۔(صنعتِ متتابع /استتباع) ۔(صنعتِ تزلزل /متزلزل) ۔(صنعتِ قلب /مقلوب ) ۔
صنعتِ ردا لعجز علی الصدر ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الارض ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الابتدا ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الحشو ۔صنعتِ مجنح
صنعتِ محاذ ۔ صنعتِ قطار العبیر ۔ صنعتِ تفریح ۔ صنعتِ قلب ۔ صنعتِ مقلوب ۔ صنعتِ مثلث ۔
صنعتِ ترصیع ۔صنعتِ ایہام۔صنعتِ مبادلہ الراسین ۔ صنعتِ تضمین المزدوج ۔ صنعتِ ترافق۔( صنعتِ نظم والنثر / سہل ممتنع)
(صنعتِ مربع/چہار در چہار) ۔صنعتِ مدور ۔ صنعتِ اقسام الثلثہ ۔ صنعتِ سیاق الاعداد ۔صنعتِ مسمط ۔ صنعتِ توشیح ۔
صنعتِ ترصیح ۔صنعتِ متلون ۔ صنعتِ مخذف ۔ (صنعتِ ذوالقوافی/ ذوالقافتین)۔ صنعتِ مشجر ۔(صنعتِ لزوم ما لا یلزم )۔
(صنعتِ حذف / قطع الحروف) ۔(صنعتِ عاطلہ / مہملہ / غیر منقوطہ) ۔ صنعتِ منقوطہ ۔ صنعتِ خیفا ۔ صنعتِ رقطا ۔
صنعتِ فوق النقاط ۔ صنعتِ تحت النقاط ۔ صنعتِ واصل الشفتین۔صنعتِ واسع الشفتین ۔ صنعتِ جامع الحروف ۔
صنعتِ مخلوط ۔ صنعتِ منشاری ۔ صنعتِ مقطع یا غیر موصل ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ اربعہ الحروف ۔ صنعتِ معجزہ الاستہ والشفا ۔
صنعتِ متحمل المعانی ۔ صنعتِ معرب ۔صنعتِ افراد ۔ صنعتِ موصل ۔ صنعتِ اظہارِ مضمر ۔ صنعتِ معما ۔ ( صنعتِ نغز / چیستاں / پہیلی )
صنعتِ تابع مہمل ۔ صنعتِ اشارہ ۔ صنعتِ تلمیح ۔
(صنعتِ تضاد/ طباق ) ۔ صنعتِ تذبیح ۔ (صنعتِ ایہام / تضاد )۔ ( صنعتِ ایہام / توریہ ) ۔ (صنعتِ استباح / مدح الموجہ )
(صنعتِ مراۃ النظیر /تناسب) ۔ ( صنعتِ تنسیق الصفات )۔ صنعتِ براعت الاستہلال ۔ صنعتِ تشابہ الاطراف ۔
صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ اطراد ۔ صنعتِ ارصاد ۔ صنعتِ تاکید المدح بما یشبہ الذم ۔ صنعتِ تاکید الذم بما یشبہ المدح ۔
صنعتِ الحاق النجزی بالکلی ۔ صنعتِ تجرید ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ متحمل الضدین ۔ صنعتِ ہجوِ ملیح ۔ صنعتِ استدراک ۔
صنعتِ تجاھلِ عارفانہ ۔ صنعتِ لف و نشر ۔ صنعتِ جمع ۔صنعتِ تفریق ۔ صنعتِ تقسیم ۔ صنعتِ جمع و تفریق ۔
صنعتِ جمع و تفریق و تقسیم ۔ صنعتِ رجوع ۔ صنعتِ حسنِ تعلیل ۔ صنعتِ مشاکلہ ۔ صنعتِ عکس ۔
صنعتِ قول بالموجب ۔ صنعتِ مذہبِ کلامی ۔ صنعتِ مذہبِ فقہی ۔ صنعتِ ادماج ۔ صنعتِ مبالغہ ۔ صنعتِ تعجب ۔
صنعتِ جامع اللسانین ۔ صنعتِ ذو رویتین ۔ صنعتِ ذو ثلثہ ۔ صنعتِ ترجمہ اللفظ ۔ صنعتِ ابداع ۔ صنعتِ تصلیف
صنعتِ صلب و ایجاد ۔ صنعتِ کلامِ جامع ۔ صنعتِ ایرادالمثل / ارسال المثل ۔ صنعتِ استخدام ۔
صنعتِ الہزال الذی یراد بہ الجد / ہزل ۔ صنعتِ تلمیح ۔ صنعتِ نسبت ۔ صنعتِ اتفاق / حسنِ مقطع ۔ صنعتِ اتساع
صنعتِ تضاد ۔صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ تجنیس ۔
1۔صنعتِ اہمال 2۔ صنعتِ لزوم مالایلزم 3۔صنعتِ ہما 4۔ صنعتِ ابہام
5۔ صنعتِ مُبالغہ 6۔صنعتِ حُسن التعلیل 7۔صنعتِ طباق 8۔صنعتِ مراعات النظیر
9۔ صنعتِ لف و نشر 10۔صنعتِ مہملہ 11۔صنعتِ تلمیح 12۔صنعتِ معاد
13۔صنعت رجوع 14۔صنعتِ ترصیح 15۔صنعتِ تنسق الصفات 16۔صنعتِ سیاق اعداد
17۔صنعتِ ذو قافیتین و ذو القوافی 18۔صنعتِ جمعیت الفاظ 19۔صنعتِ تضاد 20۔صنعتِ ضرب المَثَل
صنعت توشیع
اردوتنقید میں مستعمل دیگر اصطلاحات ترميم
آزاد تلازمہِ خیال ۔ آفاقیت ۔ آہنگ ۔ (آزاد نظم / فری ورس )ابتذال ۔ ابدیت ۔ اجتماعیت ۔ اجتماعی لاشعور ۔(اجمال / اختصار / ایجاز ) ۔ ادب برائے ادب ۔ ادب برائے زندگی ۔ ادب لطیف ۔ ( ارتفاع / عروج / بلندی ) ۔ استعارہ۔
اشتراکیت ۔اشتقاق ۔اشکال ۔ اصلیت /واقعیت ) ۔ انفرادیت ۔ (ایہام/ توریہ) ۔ ایہام تناسب ۔ ایہام گوئ ۔
بدیع ۔ (برجستہ /برجستگی) ۔ (بلینک ورس / نظم معری) ۔ بیت الغزل۔ (بورژوا / پرولتاریہ) ۔ بورژوازی۔ پرولتاریہ ۔بیان(علم) ۔ پلاٹ ۔ ( پیکر/ پیکر تراشی ) ۔ (تجاہل عارفانہ / تجنیس) ۔ تحلیلِ نفسی ۔ تخیل ۔ ترقی پسند ادبی تحریک
ترقی پسندی ۔ تخلص ۔ تلمیح۔ تشبیب ۔ تحت اللفظ ۔تشبیہ۔ تزکیہ Catharsis ۔ تشبیہ ۔ (تضاد / طباق ) ۔ تضمین۔تعقید ۔ تغزل ۔ تفحص الفاظ ۔ تقریظ ۔ تکنیک۔تلمیح ۔تمثیل ۔ تنافر ۔توالی اضافات ۔ توجیہ ۔ ٹکسالی زبان
جدت ادا ۔ جدلیاتی مادیت ۔ جمالیات ۔ (جوش/جوش بیان) ۔ (چیستان / معما) ۔ حسن تعلیل ۔ (حشو/ زوائد) ۔ (حقیقت پسندی / حقیقت نگاری) ۔ (فطرت پسندی / فطرت نگاری) ۔ خارجیت ۔
داخلیت۔ دبستان ۔ ربط ۔ رجعت پسندی ۔ رزمیہ ۔(رعایت لفظی / مناسبت لفظی) ۔ روایت ۔ رومانویت ۔ردیف ۔ روزمرہ ۔ ریختی ۔ زٹل ۔ زمین
سادگی ۔ سراپا ۔ماورائے حقیقت پسندی ۔ سرقہ ۔سلاست۔ سلام ۔ سوز و گداز۔ سوقیانہ ۔ سہلِ ممتنع ۔ شاعری ۔ شعر ۔ شعور کی رو ۔ ( شکوہِ الفاظ / شوکتِ الفاظ ) ۔ شہر آشوب ۔
صنعت ۔ ( صنمیات / اساطیر/ دیومالا) ۔ ضرب المثل ۔ ضرب‌المثل ۔ضعفِ تالیف ۔ضلع جگت ۔ طبقاتی کشمک�� ۔ ظرافت ۔ بذلہ ۔ پند ۔طنز ۔ مزاح ۔ ہزل ۔
عقلیت ۔ علامت ۔علامتیت ۔ عملیت ۔ ( عینیت / تصوریت / مثالیت ) ۔ ( غرابت / غریب ) ۔ (فاشزم / فسطائیت ) ۔ فحاشی۔ فرد ۔ فصاحت ۔ بلاغت ۔ قافیہ ۔قولِ محال ۔ قافیہ ۔
کردار ۔ (کلاسک/کلاسیک)۔کلاسیکیت ۔ کنایہ ۔ کنایہ ۔ گرہ ۔ گلدستہ۔ گریز۔لاشعور ۔لف و نشر ۔ لہجہ ۔مادیت ۔ مبالغہ ۔ مجاز ۔ مجازِ مرسل ۔مطلع ۔مقطع ۔مصرع ۔محاکات ۔ محاورہ ۔ مراعات النظیر ۔ مزاح ۔ (مضمون / مضمون آفزینی)
معاملہ بندی ۔ علمِ معانی ۔ ( معنی / معنی آفزینی ) ۔ ( مہملہ / مہملا) ۔ مجاز مرسل ۔ محاورہ ۔( موضوع )
نازک خیالی ۔ نثرِ عا ری ۔ نثرِ مرجز ۔ نثرِ مسجع ۔ نثرِ مقفی ۔نشاۃ الثانیہ ۔ نعت ۔( نقطہِ عروج / منتہی ) ۔ نوٹنکی ۔ نوحہ ۔ نیچرل شاعری ۔ واسوخت ۔ واقعہ نگاری ۔ وجدان ۔ وحدتِ تاثر ۔ وحدتِ ثلاثہ ۔ ہزل ۔ہیرو-
13 notes · View notes
Text
Ehsan Danish (احسان دانش) - کسان
فضا ویران ہے گرمی کی شدت ہے زمانے میں
مگر مصروف ہیں بیچارے دیقاں ہل چلانے میں
دلِ مجرُوح میں امّید کی تابانیوں والے
کڑکتی دھوپ میں تپتی ہوئی پیشانیوں والے
یہی دہقاں چلاتے ہیں جو ہل بنجر زمینوں میں
چراغِ آرزو سے دل ہیں روشن ان کے سینوں میں
یہ وہ انساں ہیں دامانِ مَشقت میں جو پلتے ہیں
جہاں سوتا ہے اور یہ آبیاری کو نکلتے ہیں
ابھی ہوتا نہیں کچھ ذکرِ ’’ہُو حق‘‘ پارساؤں میں
جُدا بچّوں سے ہو جاتے ہیں یہ تاروں کی چھاؤں میں
انہیں پایا ہے گاتے اس گھڑی سنسان راہوں میں
خموشی ہوتی ہے جب شہریوں کی خواب گاہوں میں
زباں سے ان کے شکرِ ایزدی سو بار ہوتا ہے
خدا کے نام سے ہر وقت ان کو پیار ہوتا ہے
انہی کے بازوؤں سے ہیں بہاریں گلستانوں کی
انہی کے دم سے ہے تعلیم جاری نوجوانوں کی
انہی فاقوں سے گھبرائے ہوؤں میں پارسائی ہے
انہی ڈوبے ہوؤں کے دم سے زندہ ناخدائی ہے
1 note · View note
aiklahori · 5 years
Text
جنت سے جون ایلیا کا خط انور مقصود کے نام
انو جانی !
تمہارا خط ملا، پاکستان کے حالات پڑھ کر کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی۔ یہاں بھی اسی قسم کے حالات چل رہے ہیں۔شاعروں اور ادیبوں نے مر مر کر یہاں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔مجھے یہاں بھائیوں کے ساتھ رہنے کا کہا گیا تھا، میں نے کہا کہ میں زمین پر بھی بھائیوں کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا، مجھے ایک الگ کوارٹر عنایت فرمائیں۔مصطفیٰ زیدی نے یہ کام کر دیا اور مجھے کواٹر مل گیا، مگر اس کا ڈیزائن نثری نظم کی طرح کا ہے جو سمجھ میں تو آجاتی ہے لیکن یاد نہیں رہتی، روزانہ بھول جاتا ہوں کہ میرا بیڈ روم کہاں ہے۔ لیکن اس کوارٹر میں رہنے کا ایک فائدہ ہے، میر تقی میر کا گھر سامنے ہے۔ ان کے 250 اشعار جن میں وزن کا فقدان تھا، نکال چکا ہوں مگر میر سے کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔
کُوچہ شعر و سخن میں سب سے بڑا گھر غالب کا ہے۔میں نے میر سے کہا آپ غالب سے بڑے شاعر ہیں آپکا گھر ایوانِ غالب سے بڑا ہونا چاہئے، میر نے کہا ، دراصل وہ گھر غالب کے سسرال کا ہے، غالب نے اس پر قبضہ جما لیا ہے۔میر کے گھر کوئی نہیں آتا، سال بھر کے عرصے میں بس ایک بار ناصر کاظمی ��ئے وہ بھی میر کے کبوتروں کو دیکھنے کے لئے۔ایوانِ غالب مغرب کے بعد کھلا رہتا ہے، جس کی وجہ تم جانتے ہو
مجھے کیا بُرا تھا مرنا ،
اگر ایک “بار” ہوتا۔
یہاں آکر یہ مصرعہ مجھے سمجھ میں آیا۔ اس میں “بار” انگریزی والا ہے۔
دو مرتبہ غالب نے مجھے بھی بلوایا لیکن منیر نیازی نے یہاں بھی میرا پتہ کاٹ دیا۔ سودہ کا گھر میرے کوارٹر سے سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہاں آنے کے بعد میں ان سے ملنے گیا، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے، میاں! تم میرا سودا لا دیا کرو۔ مان گیا۔ سودہ کا سودا لانا میرے لئے باعث عزت ہے۔ لیکن جانی!جب سودہ حساب مانگتے تھے تو مجھ پر قیامت گزر جاتی تھی۔جنت کی مرغی اتنی مہنگی لے آئے، حلوہ کیا نیاز فتح پوری کی دکان سے لے آئے؟، تمہیں ٹینڈوں کی پہچان نہیں ہے؟ ہر چیز پہ اعتراض۔ مجھے لگا تھا کہ وہ شک کرنے لگے ہیں کہ میں سودے میں سے پیسے رکھ لیتا ہوں۔چار روز پہلے میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں اردو ادب کی تاریخ کا واحد شاعر ہوں جو اسی لاکھ کیش چھوڑ کے یہاں آیا ہے۔ آپکے ٹینڈوں سے کیا کماؤں گا۔آپکو بڑا شاعر مانتا ہوں اس لئے کام کرنے کو تیار ہوا، آپکی شاعری سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا، آپکی کوئی زمین استعمال نہیں کی۔آئیندہ اپنا سودا فیض احمد فیض سے منگوایا کیجیئے، تاکہ آپکا تھوڑا بہت قرض تو چکائیں۔میرے ہاتھ میں بینگن تھا، وہ ان کو تمایا اور کہا:
بینگن کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
ایک شہد کی نہر کے کنارے احمد فراز سے ملاقات ہوئی، میں نے کہا میرے بعد آئے ہو اس لئے خود کو بڑا شاعر مت سمجھنا، فراز نے کہا، مشاعرے میں نہیں آیا۔ پھر مجھ سے کہنے لگے، امراؤ جان کہاں رہتی ہے؟ میں نے کہا، رسوا ہونے سے بہتر ہے گھر چلے جاؤ، مجھے نہیں معلوم کہا وہ کہاں رہتی ہے۔
جانی! ایک حُور ہے جو ہر جمعرات کی شام میرے میرے گھر آلو کا بھرتا پکا کے لے آتی ہے۔ شاعری کا بھی شوق ہے، خود بھی لکھتی ہے، مگر جانی! جتنی دیر وہ میرے گھر رہتی ہے صرف مشتاق احمد یوسفی کا ذکر کرتی ہے۔ اس کو صرف مشتاق احمد یوسفی سے ملنے کا شوق ہے۔ میں نے کہا، خدا ان کو لمبی زندگی دے، پاکستان کو ان کی بہت ضرورت ہے، اگر ملنا چاہتی ہو تو زمین پر جاؤ، جس قسم کی شاعری کر رہی ہو کرتی رہو، وہ خود تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے اور پکنک منانے سمندر کے کنارے لے جائینگے۔ابنِ انشاء، سید محمد جعفری، دلاور فگار، فرید جبال پوری اور ضمیر جعفری ایک ہی کوارٹر میں رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے 9 نومبر کو اقبال کی پیدائش کے سلسلے میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔اقبال، فیض، قاسمی، صوفی تبسم، فراز اور ہم وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔کوارٹر میں اندھیرا تھا اور دروازے پر پرچی لگی تھی: “ہم لوگ جہنم کی بھینس کے پائے کھانے جا رہے ہیں، ڈنر اگلے سال 9 نومبر کو رکھا ہے۔”اگلے دن اقبال نے پریس کانفرنس کی اور ان سب کی ادبی محفلوں میں شرکت پر پابندی لگا دی۔
تم نے اپنے خط میں مشفق خواجہ کے بارے میں پوچھا تھا۔ وہ یہاں اکیلے رہتے ہیں، کہیں نہیں جاتے ۔ مگر حیرت کی بات ہے جانی!میں نے ان کے گھر اردو اور فارسی کے بڑے بڑے شاعروں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔یہاں آنے کی بھی جلدی نہ کرنا کیونکہ تمہارے وہاں رہنے میں میرا بھی فائدہ ہے۔اگر تم بھی یہاں آگئے پھر وہاں مجھے کون یاد کرے گا؟؟؟
جیتے رہو اور کسی نہ کسی پر مرتے رہو،ہم بھی کسی نہ کسی پر مرتے رہے مگر جانی! جینے کا موقع نہیں ملا
۔ انور مقصود
13 notes · View notes