Tumgik
#Pakistan Supreme Court
risingpakistan · 7 months
Text
اگر عدلیہ آزاد ہوتی
Tumblr media
چیف جسٹس عمر بندیال کو تاریخ کیسے یاد رکھے گی یہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب ہے امتحان نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں کہ الیکشن 2023ء کے ہونے نہ ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 2007ء میں سابق چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کے انکار کے نتیجے میں جس تحریک نے جنم لیا وہ تاریخی جدوجہد ہونے کے باوجود اپنے اصل مقاصد یعنی اعلیٰ عدلیہ کو نظریہ ضرورت اور پی سی او کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہ کر پائی البتہ ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دیگر اداروں کی طرح یہاں عہدہ کی میعاد میں توسیع نہیں ہوتی اور آپ کو پتا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں کون کب چیف جسٹس ہو گا۔ جناب افتخار چوہدری سے لیکر جسٹس بندیال تک شاید ہم وہ خواب پورے نہ کر سکے کہ عام آدمی کو بھی جلد انصاف ملے۔ ایک ایسے تقسیم شدہ معاشرہ میں جہاں لوگ بینچ کی تشکیل سے فیصلے سمجھ جائیں، جہاں ریاست کے اندر ریاست کا تصور عدلیہ کو کمزور سے کمزور کر رہا ہو وہاں بہت زیادہ توقعات بھی نہیں ہونی چاہئیں بس نئے چیف پر بھاری ذمہ داری اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کی بھی آگئی ہے۔ 
ایک کنٹرول جمہوریت میں جہاں چند سال بعد سیاست کا نیا اسکرپٹ تیار کیا جاتا ہو، جماعتیں بنانے اور توڑنے کی فیکٹریاں لگی ہوں وہاں عدلیہ کے سیاسی فیصلوں میں شک و شہبات آتے ہی ہیں۔ ریاست کے چار ستونوں میں اگر تضاد آجائے اور تصادم والی صورت حال پیدا ہو جائے تو سب کی نظر اعلیٰ عدلیہ پر ہی جاتی ہے۔ کاش 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے گورنر راج والے فیصلے کو فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نظریہ ضرورت کے تحت درست نہ قرار دیتے اور سندھ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے تو شاید ہمیں 1971ء دیکھنے کو نہ ملتا۔ اس وقت غلام محمد اور جسٹس منیر کے درمیان خفیہ پیغامات نے پاکستان توڑنے کی بنیاد فراہم کر دی اور اسکے بعد سے آج تک ہم سنبھل ہی نہ پائے اور عدلیہ اتنی آزاد ہوئی جتنی جمہوریت اور صحافت۔ اس ملک میں چار مارشل لا لگے 1958ء سے 1999ء کے درمیان۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلی ہی آمریت کو آمریت اور آمر کو آمر کہہ دیتے تو شاید مارشل لا دفن ہو جاتا ہمیشہ کیلئے اور نظریہ ضرورت زندہ نہ ہوتا، کیا بدقسمتی ہے کہ جہاں ججز کیا عدلیہ ہی نظر بند ہو، ججز، چیف جسٹس اپنے گھروں سے باہر نہ آ سکیں وہاں کیسی آزاد عدلیہ اور کہاں کے انصاف پر مبنی فیصلے، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور گھروں کی آڈیو ویڈیو لیک ہوتی ہوں اور کوئی تحقیق تک نہ ہو کمیشن بنے تو اسے روک دیا جائے وہاں خود ججزز کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔
Tumblr media
ایسے فیصلے تو ویڈیو ریکارڈ کرنے والے کو حوصلہ دیتے ہیں۔ ایک بار سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم نے بتایا تھا کہ 16؍ اکتوبر 1999ء کی شام جب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ حکومت ختم کر دی گئی ہے اور فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے میں نے ساتھی ججوں کو فون کرنا شروع کیا کہ کیا کرنا ہے ماسوا چند ججز کے جن کا تعلق کراچی سے تھا کسی نے یا تو فون نہیں اٹھایا یا اگر مگر کر کے اس مسئلے پر بات نہیں کی۔ جب ہم خود ہی کمزور ہو جائیں تو کسی سے کیا شکایت۔ میں کورٹ جانے کے لئے دوسرے دن باہر نکلا تو ایک جونیئر آفیسر نے جو باہر ہی کھڑا تھا مجھ سے کہا سر آپ گھر میں رہیں۔ جس ملک میں ایک وزیراعظم کو عدالتی قتل کے ذریعہ پھانسی دیدی جائے اور اس بینچ کے ایک جج سالوں بعد اعتراف کریں کہ انہوں نے جونیئر جج ہونے کے ناتے پھانسی کے حق میں فیصلہ دبائو میں دیا اور پھر وہی جج اس ملک کا چیف جسٹس بنے وہاں انصاف نہ ہوتا ہے اور نہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے، ایک زمانہ تھا جب ججزز اپنے فیصلوں سے بولتے تھے اب ریمارکس اور ٹی وی کے ٹکرز کے ذریعہ بولتے ہیں۔
بدقسمتی سے وکیلوں اور صحافیوں، سیاستدانوں اور سی ایس پی اور بیورو کریسی کی جو نئی پود اس فرسودہ تعلیمی نظام کی وجہ سے سامنے آ رہی ہے اسکے واضح اثرات ہمیں ان اداروں میں نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں اس ملک کے نئے چیف جسٹس کیا تبدیلی لاسکتے ہیں اور یہ ہی ان کا اصل امتحان ہو گا۔ ان کے سامنے کئی چیلنجزز ہیں کاش چیف جسٹس عمر بندیال صاحب فل کورٹ اجلاس بلا کر اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے تقسیم کا تاثر ختم کرتے، کسی ایک آدھ مسئلہ پر فل کورٹ بنا ڈالتے، مفادات کے ٹکرائو پر بینچ سے الگ ہونے کی اعلیٰ روایت برقرار رکھی جاتی اور کچھ نہیں تو یا تو پنجاب اسمبلی کے معاملے پر از خود نوٹس نہ لیتے اور یا پھر 14 مئی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کو توہین عدالت پر سزا ہی دے ڈالتے۔ ہر چیز تاریخ پرچھوڑنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ ہم تو تاریخ بھی اپنے مطلب کی لکھتے ہیں۔ 
اب نئے چیف صاحب ایک ایسے وقت میں اپنے عہدہ کا حلف لینے جا رہے ہیں جہاں انہیں ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنا ہے، بہت سے اہم فیصلے کرنے ہیں، سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا ہے، ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو اور اس کیخلاف اپیل والے مسئلے کو دیکھنا ہے اور سب سے بڑھ کر سول کورٹ سے سیشن کورٹ تک ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک اور ان عدالتوں کے درمیان انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے لے کر ملٹری کورٹ تک کے معاملات کو صرف دیکھنا ہی نہیں حل نکالنا ہے۔ عام آدمی کے لئے تاریخ پر تاریخ کے رحجان کو ختم کرنا ہے۔ شاید ان کے لئے یہ آسان نہ ہو کیونکہ خود ہماری وکلا برادری اور بار ایسوسی ایشن سیاسی طور پر مکمل تقسیم ہیں وکیلوں پر بدقسمتی سے سیاسی مفادات حاوی ہیں۔ خود میری برادری میں صحافیوں کو وزیر، مشیر اور وزیراعلیٰ بننے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے تو دوسرں سے کیا شکایت۔ آج کا تو فلسفہ صحافت بھی یہ ہے جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ چاہے ضمیر ہی کیوں نہ ہوں۔
مظہر عباس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 7 months
Text
ج��ٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا
Tumblr media
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کے 29 ویں چیف جسٹس بن گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب تک اس عہدہ پر فائز ہونے والے چیف جسٹس صاحبان سے اس بناء پر مختلف ہیں کہ انھیں عدلیہ سے باہر کرنے کی مسلسل کوشش ہوئی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بہادری، ان کی اہلیہ کی مشکل حالات برداشت کرنے کی صلاحیت اور ان وکلاء اور سول سوسائٹی کی جدوجہد سے طالع آزما قوتوں کی سازش ناکام ہوئی۔ گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر انھوں نے زیادہ تر وکالت کا وقت کراچی میں گزارا۔ وکلاء تحریک کے جلوسوں کو کور کرنے والے صحافی گواہی دیتے ہیں کہ فائز عیسیٰ ان جلوسوں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے، جب سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت مقرر ہونے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان بشمول چیف جسٹس رخصت کر دیے گئے تو فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے براہِ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اخبارات میں کالعدم تنظیموں کی خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کوئٹہ میں 8 اگست 2016 کو مرکزی شاہراہ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کانسی کو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا تو بلال انور کانسی کی میت سول اسپتال لے جائی گئی تو کوئٹہ کے وکیل سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ دہشت گردوں نے سول اسپتال کوئٹہ پر خودکش حملہ کیا۔ اس حملہ میں 70 کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ٹریبونل اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خودکش دھماکے کے تمام محرکات کا گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ افغانستان کی سرحد عبور کر کے خودکش حملہ آور کس طرح کوئٹہ میں اپنا ہدف پورا کرتے ہیں؟ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثارکو جسٹس فائز عیسیٰ کی اس رپورٹ سے شدید صدمہ ہوا تھا۔ انھوں نے اس رپورٹ پر عملدرآمد میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ذرایع ابلاغ پر رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
Tumblr media
2018 میں ایک مذہبی تنظیم نے انتخابی قوانین میں ہونے والی ترمیم کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد چوک پر دھرنا دیا، یہ دھرنا کئی ہفتوں جاری رہا۔ اس دھرنا کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ ایک معاہدہ کے بعد دھرنے کے شرکاء منتشر ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس غیر قانونی اجتماع کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں دھرنے کے ذمے داروں کا تعین کیا تھا۔ اس رپورٹ میں آزادئ صحافت اور آئین کے آرٹیکل 19 پر لگنے والی پابندیوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ان معرکتہ الآراء فیصلوں پر سپریم کورٹ نے عملدرآمد پیدا کرنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔ صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کیا۔ ان پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے گوشوارے انکم ٹیکس میں جمع نہ کرانے کا الزام لگایا گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان الزامات سے بری کر دیا مگر ان کی اہلیہ کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا لیکن ان پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحریک انصاف کے جیالوں نے سوشل میڈیا پر حقائق کے منافی بہت سی وڈیوز وائرل کیں۔ سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں صدر عارف علوی کے خلاف یہ فیصلہ تحریر کیا کہ انھوں نے ریفرنس بھیجتے وقت اپنا ذہن استعمال نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کو غلطی قرار دیا اور اس کی ذمے داری سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم پر عائد کی۔ بہر حال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بحال تو ہوئے مگر چیف جسٹس، ریٹائرڈ عمر عطاء بندیال نے کسی بھی اہم مقدمہ میں انھیں بنچ میں شامل نہیں کیا۔ جسٹس عطاء بندیال نے عدالتی تاریخ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ وہ ایک متنازعہ جج کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بن گئے۔
جسٹس عطاء بندیال نے تو اپنی ساس اور سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو کے آڈیو اور دیگر رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل آڈیوز کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔ بہرحال اب جسٹس عطاء بندیال کا دور تو ختم ہوا اور قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ انھوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کر کے صنفی مساوات کی ایک نئی مثال قائم کی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التواء ہیں۔ گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں پر حملے ہوئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ اس برادری کے اکثر افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ساتھ مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کے لیے جڑانوالہ گئے، یوں مظلوم طبقات سے یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی مگر معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے اہم تجاویز پیش کی تھیں مگر ان تجاویز پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس فیصلہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔ گزشتہ 23 برسوں سے لاپتہ افراد کا معاملہ کسی صورت حل نہیں ہو پایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ کسی اور غیر جانبدار اور بہادر جج کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
voiceuppakistan · 10 months
Text
0 notes
coffeebooksandmore · 5 months
Text
Tumblr media
God I pray
The people of Yemen get fed
The floods in Pakistan be brought to the shoppers clicking on their 10th unnecessary Amazon purchase
Immigrants trying to get to work on the bus can make it home without violence
The peasant farmers’ harvests overflow
The Monsanto executives are haunted every second of every day by the faces of the farmers that commit suicide because of their greed
The billions of dead birds poisoned every year by chemically coated seeds fill the buildings of Bayer
Indigenous people around the world protecting the Earth are kept safe from Darren Woods and Wael Sawan
I curse the greed to poison our water and clear our wetlands leaves Michael and Chantell Sackett’s developments in ruins
God I pray one day the fire of injustice consumes us and we burn every single billionaire’s home and from the ashes build the world the future needs. That one day all the oppressed people of the world will come together and realize the power they hold and take down the people that make our children work in factories that steal our water and resell it to us.
I’m sorry I have no more love in me to offer.
I only have fire now.
5 notes · View notes
indizombie · 1 year
Quote
In the 1961 census, Christians from the choorra caste were categorised as Isai. Isai is taken from Isa, an Arabic equivalent of Jesus. Their profession was officially written as sweepers in the 1961 census. Over time, the word Isai got stigmatised because of its association with their ancestral caste-based cleaning occupation. Therefore, as observed by researcher Asif Aqeel and journalist Sama Faruqi, Punjabi Christians became involved in an ongoing social movement to call themselves Maseehi, not Isai. The community representatives even went to the Supreme Court of Pakistan to request that the Christian community be referred to as Maseehi instead of Isai. A court order was passed in their favour.
Ayra Indrias Patras, ‘Once a sweeper…?’, Dawn
4 notes · View notes
syedqumail · 2 years
Text
I went out today to look for a poem,
But everywhere i turned i saw only you.
Tumblr media
4 notes · View notes
awaisdilshadme-blog · 4 months
Text
Tumblr media
ISLAMABAD A report presented to the Supreme Court on Tuesday by the Commission of Inquiry on Enforced Disappearances reveals that merely 7% of the production orders issued for missing individuals have been carried out, despite the commission's monthly salary of at least Rs2.2 million. The top court issued orders on January 3rd, asking a three-judge panel made up of Justice Muhammad Ali Mazhar, Justice Musarrat Hilali, and Chief Justice of Pakistan (CJP) Qazi Faez Isa to gather information from the commission. The commission then responded with its report.
0 notes
xtruss · 4 months
Text
From The Rapes Capital of The World, RANDIA! Fascist Indian Supreme Court’s Unilateral Rulings Driven By 2024 Election Consideration
— Jin Cuodao | December 18, 2023
Tumblr media
Illustration: Xia Qing/Global Times
The Fascist Supreme Court of India upheld Indian government's decision to abolish Article 370 of the Constitution on December 11, and ruled that the government acted lawfully when it revoked the autonomy of the state of Occupied Jammu and Kashmir and brought it directly under control of the center.
At the same time, the ruling deemed the so-called Ladakh Union Territory, established by the Indian government in 2019, as legally valid. This ruling not only disregards the wishes and interests of the people of Jammu and Kashmir, but also overlooks the bilateral agreements and existing contradictions between India and Pakistan, as well as between China and India. Furthermore, it ignores the consensus and calls from the international community.
Pakistan firmly rejects the Supreme Court's ruling, stating that it has "no legal value" and that the international law doesn't recognize New Delhi's "unilateral and illegal actions" of August 5, 2019. The spokesperson of the Chinese Ministry of Foreign Affairs stated on December 13 that China has never recognized the so-called union territory of Ladakh set up unilaterally and illegally by India. India's domestic judicial verdict does not change the fact that the western section of the China-India border has always belonged to China. The Organization of Islamic Cooperation has also called for the resolution of the regional issue in accordance with the relevant resolutions of the United Nations Security Council.
So why did the Indian government once again unilaterally provoke the dispute over the Kashmir issue? First, it may want to take advantage of the current favorable international environment. Currently, the international strategic environment is very favorable to India. The US regards China as its biggest strategic competitor and sees India as a pillar to counterbalance China, so Washington no longer focuses on the Kashmir issue. Pakistan is facing political, economic and social crises and challenges domestically, with weak national strength resulting in a decline in its global strategic position.
Currently, India's GDP is around 11 times that of Pakistan, and the significant change in the strength of the two countries clearly favors India, with the gap between them likely to continue to widen. In addition, some Muslim countries value the Indian market and maintain friendly relations with India.
In addition, India's move may be related to the 2024 Indian general elections, with Prime Minister Narendra Modi having declared his intention for a third term. Despite leading in opinion polls, Modi faces a challenge from the opposition coalition. The main activities of the Indian government in 2023 as well as the Fascist Hindus Extremist’s Bharatiya Janata Party (BJP) are actually geared toward the general elections next year.
The revocation of the special status of Indian-administered Kashmir is one of the key promises of the BJP during the 2019 general elections, and the Supreme Court's decision to issue this ruling by the end of 2023 - just a few months before the general elections - is both to endorse and justify the decision of the BJP in 2019, and also to highlight Modi's tough image of practicing what he promises and consolidating his position among the domestic population, especially in the Hindi-speaking regions, to garner more support and votes.
Kashmir is an internationally recognized disputed area, and is not an issue that can be resolved by unilateral domestic legislation or by altering maps and constantly reinforcing the narrative of its ownership. India's attempts to endorse the BJP through the Supreme Court of India and to realize its objective of permanent possession by altering the demographic structure of Indian-controlled Kashmir is an act of unilateralism that places domestic laws above international law. This does not find solutions to problems, but rather creates more and more problems.
This is a great irony for India, who is striving to become a "leader of the global South" and a permanent member of the United Nations Security Council. India's constant unilateral repetition of such behavior cannot be justified and will only lead to opposition from Pakistan and the countries concerned, as well as resentment from the international community, thus resulting in deeper contradictions and fissures. The Kashmir issue, which is a historical legacy of the British colonization, can only be resolved properly and peacefully in accordance with the UN Charter, the UN Security Council resolutions and bilateral agreement.
In the recent Israel-Palestine conflict, the Indian government had initially strongly supported Israel's campaign against Hamas, reflecting its deep-seated hatred of Muslims and its disdain for disunity in Muslim countries, as it had done in the case of Kashmir. The Supreme Court's ruling will have a negative impact on the regional situation. While resolutely defending its rights and interests, China adheres to its basic position of resolving disputes through dialogue and strives to play a positive and constructive role in maintaining regional peace and stability.
— The author is a scholar of international studies in Shanghai.
0 notes
pakistanpress · 5 months
Text
کیا پاکستان ہائبرڈ وار کے دور میں داخل ہو چکا ہے؟
Tumblr media
ہائبرڈ نفسیاتی جنگ میں عوام نہیں سمجھ سکتی کہ ملک کا دشمن کون ہے اور دوست کون؟ اس وقت پاکستان کے عوام ہائبرڈ وار لیول کے مدار میں داخل ہو چکے ہیں۔ زمینی حقائق کے مطابق عوام مختلف بیانیے میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ اپنے گھر میں تقسیم، اپنے محلے میں تقسیم، شہر میں تقسیم، ملک کی پارلیمنٹ میں تقسیم، اداروں میں تقسیم، عدلیہ میں تقسیم، ہر جگہ تقسیم۔ یہی ہمارے دشمن کا بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔ قوم کو چاہیے کہ اس انتشار، خلفشار اور تقسیم سے بچیں اور عدلیہ، ریاست کے وسیع تر مفاد میں اپنے فیصلوں میں توازن پیدا کریں۔ سانحہ نو مئی کے شرپسندوں کو عبرت ناک سزا دینے کے لیے عدلیہ، حکومت اور عسکری ادارے کے ساتھ کھڑی ہونی چاہیے۔ حملہ آوروں اور سہولت کاروں پر دہشت گردی کے مقدمات چلانے اور ان کو آئندہ دنوں میں گرفتار کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ جناح ہاؤس اور عسکری تنصیبات پر حملے میں ملوث افراد کی شناخت ہو چکی ہے۔ تصاویر جاری اور 2800 سے زائد گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں اور نادرا کے تعاون سے ان کی مکمل شناخت ملنے کے بعد اخبارات میں ان ’قومی مجرموں‘ کی تصاویر شائع ہو چکی ہیں۔
نو مئی کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ 52 کی دفعہ 59 اور 60 کے تحت مقدمہ درج کروایا جا سکتا ہے اور ان دفعات کے تحت سزائے موت یا کم از کم عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ آرمی ایکٹ 1952 کی کلاز 59 جو 76 صفحات پر مشتمل ہے، سول جرائم سے متعلق ہے۔ عسکری املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں 3500 افراد کے مقدمات آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کا امکان ہے۔ القادر ٹرسٹ کے لیے پنجاب حکومت، ٹرسٹ ایکٹ کے تحت عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو تبدیل کر کے قانون کے مطابق ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کے لیے قانونی ماہرین سے رائے حاصل کر رہی ہے  کیونکہ طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے جلاؤ گھیراؤ اور عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کے لیے نئی روایت کی داغ بیل ڈال کر ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ سیاسی کشمکش نے ملک کو ایک مدت سے جس انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کا دائرہ جس طرح کلیدی ریاستی اداروں تک وسیع ہو گیا ہے، اس کی وجہ سے حالات کی سنگینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
Tumblr media
آئین کی بالادستی کو یقینی بنا کر معاملات کو درست کرنے میں عدلیہ کا ادارہ مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن آج اس کے اندر بھی اختلافات و تقسیم اور جانبداری واضح ہے، جس نے اس کے منصوبوں کو سخت متنازع بنا دیا ہے۔ اس کی روشن مثال عمران خان کی گرفتاری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے اس گرفتاری کو قانونی طور پر جائز قرار دیے جانے کے فیصلہ اور اس پر ملک بھر میں تشدد اور احتجاج کے بعد 11 مئی کو چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے عمران خان کی فوری رہائی اور 12 مئی کو اس معاملے کی ازسرِ نو سماعت کے حکم کی شکل میں ہوا۔ حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ میں ہونے والی اس تمام کارروائی اور اس کے فیصلے کی تفصیل نے آئین و قانون کی باریکیوں کو بخوبی سمجھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کیونکہ جو ملزم ریمانڈ پر ہو تو ریمانڈ کے خاتمے تک اس کوعبوری ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔
قومی سطح پر یہ امید کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے مسلح افواج کے شہدا کی یادگاروں اور جی ایچ کیو سمیت قومی اور عسکری اہمیت کے متعدد مقامات، جناح ہاؤس جو کورکمانڈر کی رہائش گاہ تھی اور سرکاری املاک کو جس طرح تخریب کاری کا نشانہ بنایا ہے، عدالتِ عظمیٰ اس کا نوٹس لے گی۔ لیکن چیف جسٹس آف پاکستان نے ان واقعات پر عمران خان سے محض ندامت کی اپیل کی، جو ان کی طرف سے عملاً مسترد کر دی گئی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق 12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے خلاف دس مقدمات میں غیرمعمولی ریلیف دیا گیا۔ توشہ خانہ جیسا اہم فوجداری مقدمہ جس میں عمران خان پر فردِ جرم عائد ہو رہی تھی، آٹھ جون تک حکم امتناع کے علاوہ آئندہ کسی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم صادر ہوا۔ حالانکہ قانونِ فوجداری کے مطابق فردِ جرم عائد ہونے پر حکمِ امتناعی جاری نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان نے رہائی کے بعد نہایت غیر ذمے داری کے ساتھ قومی احتساب بیورو کی جانب سے اپنی گرفتاری کا الزام آرمی چیف پر عائد کیا۔ اپنے حامیوں کی تخریب کاری کی مذمت اور اس سے باز رہنے کی ہدایت کے بجائے انہوں نے عملاً اس کی یوں حوصلہ افزائی کی کہ اگر ان کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ایسا ہی ردِعمل دوبارہ سامنے آئے گا۔ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اور ملک کی سلامتی، قانون کی حقیقی بالادستی کے لیے مقتدر حلقوں میں آئین و قانون کے مطابق حل نکالنے کے لیے روڈ میپ تیار کیا جا رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے حالیہ طرزِ عمل اور مس کنڈکٹ کے دائرہ کار کا بھی جائزہ لیتے ہوئے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے حالیہ ایکٹ کے مطابق اہم فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جب عمران خان کو ایک شب کے لیے عدالتِ عظمیٰ کا مہمان بنانے کا فیصلہ ہوا تو ان کے لیے آرام دہ قیام کی خاطر ایوانِ صدر سپریم کورٹ سے ملحق ہونے کے باعث عمران خان کی اولین ترجیح تھی۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت انہیں دوبارہ گرفتار نہیں کر سکے گی اور ایوانِ صدر ایک محفوظ مقام رہے گا، لیکن سپریم کورٹ نے ان کو پولیس لائن کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کی اجازت دی کیونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قریب ہے لیکن ایوانِ صدر سے 20 مہمانوں کا کھانا گیسٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا اور ایوانِ صدر نے ان کی میزبانی کی۔ سپریم کورٹ کے خلاف حکومتی اتحاد نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے ریڈ زون میں دھرنے کا اعلان بھی کیا، تاہم ایک روزہ احتجاج کے بعد اسے ملتوی کر دیا گیا۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا، پاکستان کی تاریخ میں شاید اس سے سیاہ دن نہ آئے، لیکن آرمی چیف کے ضبط اور برداشت نے قوم کو خانہ جنگی کے عذاب سے بچا لیا۔
کنور دلشاد  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
ainews18 · 9 months
Link
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
نئے چیف جسٹس سے قوم کی توقعات
Tumblr media
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس منصب جلیلہ پر فائز ہوتے ہی ان سے قوم نےبہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں کیونکہ ان کی شہرت ایک ایسے جج کی ہے جو نہ صرف آئین کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ آئین کی بنیادی روح کو بھی سمجھتے ہیں اور ان پر کوئی اثر انداز بھی نہیں ہو سکتا۔ بحیثیت قوم ہمارا عظیم المیہ یہ رہا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ قابل فخر نہیں رہی، جس کی وجہ سے ہم عظیم بحرانوں کا شکار ہیں ۔ چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال کا دور ختم ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے ان کے دور میں بھی ہماری عدلیہ کے ناقابل فخر کردار کا عمومی تاثر نہ صرف یہ کہ ختم یا کم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے فیصلوں سے جتنا اختلاف ان کے ساتھ بینچز میں شامل جج صاحبان نے کیا ، شاید اتنا اختلاف کسی اور چیف جسٹس کے فیصلوں پرنہیں ہوا ۔ ان کی سربراہی میں قائم کردہ ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے پر تو ایک جج صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ تک لکھ دیا کہ’’ اس فیصلے سے آئین کو ازسر نو تحریر کیا گیا ہے۔ ‘‘اختلافی نوٹ کا یہ جملہ عدلیہ کی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی ایک تاریخی چارج شیٹ ہے۔ 
چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے اپنی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بینچ کا دو ایک کی اکثریت سے جو آخری فیصلہ سنایا ہے، جس میں قومی احتساب آرڈی ننس یعنی نیب آرڈی ننس میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے نہ صرف بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کیا بلکہ اپنا ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھا ہے، جس میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ’’ اس کیس میں بنیادی سوال نیب آرڈی ننس میں ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمان کی بالادستی کا ہے۔‘‘ اس اختلافی نوٹ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے پارلیمان کے اختیارات استعمال کئے ہیں۔ ہماری عدلیہ کا یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف مقننہ ( پارلیمنٹ ) اور انتظامیہ (ایگزیکٹو) کے اختیارات میں مداخلت کی اور جوڈیشل ایکٹیوزم سے اس مداخلت میں اضافہ کیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوجی آمروں کی آئین شکنی کو بھی درست قرار دیا۔ 
Tumblr media
عدلیہ پر نہ صرف یہ الزام ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے راستہ ہموار کیا بلکہ بعض جج صاحبان نے خود بھی پولیٹیکل انجینئرنگ بھی کی۔ عمر عطا بندیال ، ثاقب نثار ، آصف سعید کھوسہ ، گلزار احمد اور افتخار چوہدری پر یہ الزامات بہت زیادہ ہیں ۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی ، کرپشن اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جنگ اور معاشی بحران پر قابو پانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن اس جنگ اور ان کی کوششوں میں ہر ادارے کی اپنی آئینی حدود ہیں ، جو خطرناک حد تک پار کر لی گئی ہیں۔ یہ صورت حال حقیقی جمہوریت ، قانون، آئین کی عمل داری اور معاشی استحکام کیلئے خطرناک ہے ۔ اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کریں گے تو حالات مزید بگڑ تے جائیں گے ۔ ملک میں نہ جمہوریت جڑ پکڑ سکے گی، نہ امن قائم ہو سکے گا ، نہ معیشت ٹھیک ہو گی اور نہ احتساب کا مضبوط نظام قائم ہوپائے گا۔ اس صورت حال میں پاکستان کی عدلیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سمیت دیگر اداروں کو آئینی حدود سے باہر نہ نکلنے دے۔ 
مقننہ اور سویلین انتظامیہ کے اختیارات میں تجاوز کر کے انہیں مفلوج کر دیا گیا ہے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ’’ ہیرو‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ناجائز خواہش پر مبنی کردار کی تمنا ہی ازخود آئینی اور ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر رہی ہے ۔ ریاست پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز نہیں رہا، جس کی مضبوط بنیاد عوام کے آزادانہ جمہوری فیصلے ہوتے ہیں بلکہ طاقت کے کئی مراکز بن گئے ہیں ، جو انتشار کا باعث ہیں۔ احتساب کا نظام صرف پولیٹیکل انجینئرنگ کا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے اور بعض طاقتور حلقے احتساب سے بالاتر ہیں۔ اب پاکستان کو کسی ’’ ہیرو ‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کی ضرورت نہیں ۔ مہذب اور جمہوری معاشروں کی طرح ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ، جو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے قائل ہوں ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داروں کو مقننہ اور انتظامیہ کی حدود میں مداخلت سے روکنا ہی آج کی عدلیہ اور خصوصاً نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس چیلنج سے کیسے بنرد آزما ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے انہیں اپنے ’’ ہاوس کو آرڈر میں لانا ہو گا ‘‘ یعنی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ جج صاحبان میں گروہ بندی کا وہ تاثر ختم ہو ، جو عمر عطا بندیال کے دور میں پیدا ہوا ۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے مطابق یا خود عدلیہ کی سوچ کے مطابق سب مسائل کو حل کرنے کا زعم اگر کسی میں ہے تو اسے ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان میں مقننہ اور سول انتظامیہ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ احتساب کا سیاسی انتقام یا پولیٹیکل انجینئرنگ والا نظام ختم کر کے جمہوری اداروں کے ذریعے احتساب کا مضبوط نظام قائم کرنا ہو گا۔ اس کیلئے نیب آرڈی ننس کو درست کرنے کی پارلیمان کی دانش سے اتفاق کرنا ہو گا کیونکہ یہ آرڈی ننس نہ صرف پروڈا ، ایبڈو اور پوڈا جیسے سیاہ قوانین کا چربہ اور تسلسل ہے بلکہ انہی سیاہ قوانین کے پس پردہ مذموم مقاصد اور بدنیتی کا ورثہ ہے۔ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس آجاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی بڑی کامیابی ہو گی بلکہ عدلیہ کی ساکھ اور اس کا اعتبار بحال کرنے میں مددگاربھی ملے گی۔ قوم کو نئے چیف جسٹس سے یہی توقعات ہیں۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
emergingpakistan · 7 months
Text
نئے چیف جسٹس پاس ہونگے یا فیل
Tumblr media
چیف جسٹس عمر عطا بندیال رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اپنے ساتھ ایسے تنازعات کی ایک لمبی فہرست لے گئے جن کا تعلق اُن کے دور کے عدالتی فیصلوں سے ہے۔ اپنے مختلف پیشروئوں کی طرح ہو سکتا ہے وہ بھی اپنے آپ سے مطمئن ہوں کہ اُنہوں نے بہت کام کئے لیکن سچ پوچھیں تو بندیال کا نام بھی تاریخ کے ناکام چیف جسٹسز میں ایک اور اضافہ ہو گا۔ ویسے تو اُنہیں تاریخ اس حوالے سے بھی یاد رکھے گی اُنہوں نے سیاسی نوعیت کے فیصلے کس قدر جانبداری سے کئے، کیسے ہم خیال ججوں کو مرضی کے فیصلے کرانے کےلئے استعمال کیا، کس طرح سپریم کورٹ کے اندر تقسیم پیدا کی لیکن اُن کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں عدالتوں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کر سکے۔ کسی فرد سے پوچھ لیں، پاکستان کے کسی خطہ میں چلے جائیں کسی کو بھی عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں۔ لوگ عدالتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ نہ صرف انصاف بہت مہنگا ہو چکا بلکہ اگر کوئی اپنا سب کچھ بیچ کر انصاف کے لئے عدالت میں چلا بھی جائے تو برسوں بلکہ کچھ کیسوں میں تو دہائیوں تک فیصلے نہیں ہوتے۔
Tumblr media
مجموعی طور پر عدالتی نظام ناکام ہو چکا۔ اپنے گزشتہ کئی چیف جسٹسز کی طرح بندیال صاحب نے بھی اس بنیادی مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ دوسروں کی طرح اُن کی توجہ بھی بڑے بڑے سیاسی مقدمات پر ہی مرکوز رہی اور یوں عدلیہ مزید تنازعات کا بھی شکار ہوئی اور عوام کو انصاف دینے کے بنیادی فریضے سے بھی مزید دور ہوتی چلی گئی۔ بندیال رخصت ہو گئے اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے۔ اب اُن کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔ نئے چیف جسٹس اچھی ساکھ کے مالک ہیں لیکن اُن کو تاریخ کیسے دیکھے گی اس کا فیصلہ اس بات پر ہو گا کہ اُن کا کردار بحیثیت چیف جسٹس کیا رہتا ہے۔ مختلف لوگوں کی اُن سے مختلف توقعات وابستہ ہیں۔ کوئی چاہتا ہے کہ چیف جسٹس ماضی میں کئے گئے غلط سیاسی فیصلوں کو درست کریں۔ کسی کی خواہش ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کو سب سے پہلے ختم کریں۔ سیاسی جماعتوں کی چیف جسٹس سے متعلق اپنی اپنی توقعات ہیں۔ تاہم میری نظر میں چیف جسٹس صاحب کا اصل امتحان یہ ہو گا کہ کیا وہ عمومی طور پر پاکستان کی عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کر پائیں گے۔
اگر ایک طرف سپریم کورٹ سے یہ توقع ہو گی کہ اُس کا جھکاؤ کسی ایک سیاسی طبقہ کی بجائے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے پر مرکوز ہو، عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تقسیم ختم ہو، چیف جسٹس کے بینچ بنانے، مقدمات لگانے وغیرہ جیسے اختیارات کو غلط استعمال ہونے سے بچانے کے لئے اصلاحات کی جائیں تو دوسری طرف پاکستانی قوم کو عام عدالتوں میں انصاف چاہئے۔ جلد اور سستا انصاف۔ ایسا عدالتی نظام جو مظلوم کے لئے امید کا ذریعہ ہو اور ظالم اور قانون شکن کے لئے خوف کی علامت۔ پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے آخری نمبروں پر آتی ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف دینے میں ناکام ہیں۔ اگر یہاں مظلوم تھانے میں جانے سے ڈرتا ہے تو کورٹ کچہری کا بھی یہی حال ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سب سے زیادہ توجہ پاکستان کے عدالتی نظام کی سمت درست کرنے کی طرف ہونی چاہئے تاکہ عدالتیں ظالم کی بجائے مظلوم کو انصاف دینا شروع کریں۔ عدالتیں انصاف دیں گی تو اُن کا احترام ہو گا۔ اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا جیسے کئی دہائیوں سے چل رہا ہے تو پھر چیف جسٹس فائز عیسیٰ خود سوچ سکتے ہیں کہ تاریخ اُن کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
voiceuppakistan · 11 months
Text
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
بغاوت یا انقلاب
Tumblr media
سپریم کورٹ میں تقسیم گہری اور نمایاں ہو گئی ہے۔ اس پر بہت سے لوگ پریشان ہیں اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ دیکھیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کیا حال ہے؟ تاہم میری نظر میں اس تقسیم میں سپریم کورٹ کے لئے، انصاف کے نظام کے لئے اور پاکستان کے لئے بہت بہتری ہو گی۔ دوسروں کو چھوڑیں اب سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن لینے کے اختیار پر سوال اُٹھا دیے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ بھی ہوا کہ چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار اور منطق پر بھی سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی اعتراض اٹھا دیا۔ ایک روز قبل تو سپریم کورٹ کے دو جج حضرات نے اس بات پر بھی سوال کیا کہ کس اصول کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے کیس لگائے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ موجودہ نظام شفاف نہیں جس میں کسی کیس کو سماعت کے لئے منتخب کر لیا جاتا ہے اور کسی کو برسوں گزرنے کے باوجود سنا ہی نہیں جاتا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس کے سٹاف افسر کی طرف سے موصول ہونے والی چٹ پر دی گئی ہدایت پر مقدمات مختلف بینچوں کے سامنے لگاتے ہیں۔ یہ سن اور دیکھ کر اچھا لگا کہ سپریم کورٹ کے اندر سے ججوں نے آڈیو سکینڈل کی زد میں آنے والے جج صاحب سمیت دو ججوں کا نوے دن میں الیکشن کروانے کے لئے چیف جسٹس کا سوموٹو کیس سننے کے لئے بنائے گئے نو رُکنی بنچ میں شامل ہونے پر اعتراض اُٹھایا جس کے نتیجے میں وہ بینچ ہی ٹوٹ گیا۔ 
Tumblr media
سپریم کورٹ کو انصاف کے نظام کی بہتری اور اپنی Repute کے لئے اصلاحات اور شفافیت کی بہتر ضرورت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو بنچ بنانے اور سوموٹو نوٹس لینے کے اپنے اختیار کو ختم کر کے سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کی ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو یہ فیصلے کرے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ چیف جسٹس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ سمیت دو سینئر ترین ججوں کو نہ ہی اہم بنچوں میں شامل کیا جاتا ہے نہ ہی اُنہیں اہم ��وعیت کے کیس سننے کے لئے دیے جاتے ہیں۔ بظاہر کیس لگانے کا اختیار اگرچہ رجسٹرار سپریم کورٹ کا ہے لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ زیادہ تر اہم مقدمات کو چیف جسٹس کے حکم پر ہی اُن کی مرضی کے ججوں کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان معاملات کی درستی سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں ہونی چاہئے۔ ایسا نہیں کہ یہ خرابی اب پیدا ہوئی ہے۔ یہ نظام کی خرابی ہے جو پہلے سے چل رہی ہے اور جسے درست کرنے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔ کسی نے ہمیشہ کے لئے کسی عہدے پر نہیں بیٹھے رہنا۔ چیف جسٹس بھی آتے ہیں اور ریٹائر ہو جاتے ہیں۔
اُس چیف جسٹس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جو اپنے اختیارات جن کا غلط استعمال ہوتا رہا، ختم کر کے کیسوں کو مختلف ججوں کے سامنے فکس کرنے، عدالتی بنچ بنانے، سوموٹو نوٹس لینے کے لئے ایک ایسا نظام وضح کرے گا جو شفافیت پر مبنی ہو، انصاف کے نظام میں بہتری کی کوشش ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے نظام پر نظر ثانی کرے تاکہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے ججوں کا معیار جان پہچان اور تعلقات کی بجائے میرٹ ، اعلیٰ کردار اور انصاف پسندی پر ہو۔کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ایک چپراسی کی تعیناتی کے لئے اخباروں میں اشتہار جاری ہوتا ہے، مقابلے کے لئے ایک پالیسی اپنائی جاتی ہے لیکن ہائی کورٹوں کے جج جو بعد میں سپریم کورٹ میں جانے کے اہل بن جاتے ہیں اُن کی تعیناتی کے لئے نہ کوئی اشتہار، نہ کوئی مقابلہ، نہ کوئی ٹیسٹ اور نہ ہی کوئی انٹرویو۔ ان تعیناتیوں کی بنیاد چند افراد کی پسند و ناپسند پر ہوتی ہے۔ 
اس نظام کو بدلا جائے۔ اسی طرح ملک کی موجودہ معاشی بدحالی کے تناظر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف جسٹس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی مراعات، پروٹوکول اور ریٹائرڈ ججوں کی دس سے پندرہ لاکھ روپے ماہانہ پنشن جیسے معاملات پر نظر ثانی کریں۔ ایک ملک جو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے وہ اپنے ججوں اور اعلیٰ عدلیہ سے توقع رکھتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی مراعات، پروٹوکول اور پنشن میں کمی کریں گے بلکہ دوسرے سرکاری اداروں اور محکموں کے افسروں اور حکمراں طبقے کی قوم کے پیسے پر عیاشیوں پر قدغن لگائیں گے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
ثاقب نثار کے اعترافات
Tumblr media
پاکستان کے نویں چیف جسٹس شیخ انوارالحق کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ایک ڈکٹیٹرجنرل ایوب خان نے انہیں ہائیکورٹ کا جج بنایا، دوسرے ڈکٹیٹرجنرل یحییٰ خان نے انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا جب کہ تیسرے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ جالندھر سے تعلق رکھنے والے شیخ انوارالحق نے انڈین سول سروس سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور کئی اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، انتظامیہ سے عدلیہ کی طرف آئے تو کراچی اور لاہور سمیت متعدد اضلاع میں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کام کیا۔ جسٹس انوارالحق تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے اکانومسٹ تھے مگر عدلیہ کا رُخ کیا تو یہاں بھی اپنی قابلیت کا سکہ منوایا لیکن انہیں تاریخ ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر یاد کرتی ہے جن کے دور میں نہ صرف مارشل لا کی توثیق کی گئی بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت ڈکٹیٹر کو آئین میں من چاہی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس ان کے دامن پر سب سے بدنما داغ ہے، وہ عمر بھر اس حوالے سے وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ جسٹس انوارلحق اپنی کتاب ’’Revolutionnary, Legality in Pakistan‘‘ میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کوآئین سازی یا آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت ضرور دی مگر یہ اجازت صریحاً نظریۂ ضرورت کے تحت دی گئی۔
یہ ایک عبوری بندوبست تھا اور فیصلے کے مطابق عدالتیں نظریہ ٔضرورت کے تحت سی ایم ایل اے کی طرف سے بنائے گئے کسی بھی قانون کا جائزہ لے سکتی تھیں۔ نصرت بھٹو کیس میں جسٹس افضل چیمہ نے اضافی نوٹ لکھ کر نظریۂ ضرورت کے حق میں دلائل دیئے اور لکھا کہDoctrine of Necessity یعنی نظریۂ ضرورت کو اسلامک جیورس پروڈنس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ جسٹس انوارالحق کے علاوہ سپریم کورٹ کے اس بنچ میں شامل بیشتر جج صاحبان صفائیاں دیتے رہے یا پھر ندامت کا اظہار کرتے دکھائی دیئے۔ جسٹس دراب پٹیل جن کا شمار باضمیر جج صاحبان میں ہوتا ہے، انہوں نے بھی برملا اس فیصلے پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس دراب پٹیل اپنی سوانح حیات ’’Testament of a liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلے پر تنقید کی گئی کیونکہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیدیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لا جرنلز شائع نہیں ہوتے جن میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے اور ان پر تنقید کی جائے چنانچہ یہ کام جج صاحبان خود کر سکتے ہیں اور انہیں یہ کرنا چاہئے کہ مخصوص وقت کے بعد اپنے فیصلوں پر تنقید کا جائزہ لیں۔
Tumblr media
(نصرت بھٹوکیس) پر ہونے والی تنقید کہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دے دیا، اس کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ تنقید درست ہے۔ نصرت بھٹو کیس کے بعد جنرل ضیا الحق نے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے آئین سازی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آئین میں آرٹیکل 212A کا اضافہ کر کے اعلیٰ عدالتوں کے پر کاٹ دیئے۔ آرٹیکل 212A کے تحت سپریم کورٹ پر تو کوئی قدغن نہ لگائی گئی البتہ ہائیکورٹس کو فوجی عدالتوں سے متعلق رٹ جاری کرنے سے روک دیا گیا گویا اب ہائیکورٹ کسی فوجی عدالت کی کارروائی روکنے کے لئے حکم جاری نہیں کر سکتی تھی۔ دراب پٹیل اپنی خود نوشت ’’Testament of a Liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آرٹیکل 212A کے نفاذ سے پہلے جنرل ضیا الحق نے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوارالحق اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مولوی مشتاق کو مشاورت کے لئے راولپنڈی بلایا۔ جسٹس انوارالحق ،جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ اورمیں، ہم سب پشاور میں تھے۔ 
مولوی مشتاق کے مطابق انہیں معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق آئین کو منسوخ کرنیوالے ہیں اس لئے انہوں نے آئین کی منسوخی کے متبادل کے طور پر ایک آئینی مسودہ تیار کر لیا۔ یہ آئینی مسودہ جسٹس مولوی مشتاق نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا اور چیف جسٹس انوارالحق نے اس کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ہاتھ سے اس میں کچھ ترامیم کیں۔ پھر یہ دونوں چیف جسٹس صاحبان جنرل ضیاالحق سے ملنے گئے جو راولپنڈی میں سینئر جرنیلوں کے ہمراہ ان کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ملاقات بہت کٹھن تھی مگر آخر کار جرنیلوں نے دونوں چیف جسٹس صاحبان کا تیار کردہ مسودہ قبول کر لیا اور آئین کو منسوخ کرنیکا ارادہ ترک کر دیا گیا۔ اس مسودے نے ہی آرٹیکل 212A کی شکل اختیار کی اور سپریم کورٹ کی جیورس ڈکشن کو بچا لیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ اس خوش فہمی کی بنیاد پر دیا گیا کہ اعلیٰ عدالتیں کام کر رہی ہیں ان کے جوڈیشل ریویو کا اختیار باقی ہے مگر پھر خود ہی اپنے ہاتھ قلم کر دیئے گئے۔ 
یہ سب باتیں یوں یاد آئیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند صحافیوں سے گفتگو کے دوران اعتراف کیا ہے کہ بطور جج ان سے غلط فیصلے ہوئے۔ مگر ان فیصلوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے انہوں نے کہا کہ بعد از مرگ ان کی آپ بیتی شائع ہو گی جس میں یہ تمام تفصیلات موجود ہوں گی۔ اگر جسٹس دراب پٹیل کے الفاظ مستعار لوں تو پاکستان میں جج صاحبان خود ہی اپنے فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ یادداشتیں اور مشاہدات قلمبند کئے جائیں۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی زندگی میں ہی اعتراف کرلیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کس طرح ہوا۔ حال ہی میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح حیات شائع ہوئی۔ بہتر ہو گا کہ ثاقب نثار بھی اپنی زندگی میں ہی یہ کتاب منظر عام پر لے آئیں۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
sabnews24x7 · 1 year
Link
0 notes