عشق_اور_حوس
شادی کے دو ماہ بعد میرے میاں تو فارن اپنی جاب پرچلے گئے ۔ اور میں ساس اور سُسرکے
ساتھ رہ گئی ۔ ہم ایک گراں، گاؤں یعنی پنڈ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اک دوجے
کو جانتا ہے ۔ بڑے شہروں میں تو ہمسائے کو بھی کوئی نہیں جانتا مگر پنڈ میں ایسا نہیں ہوتا
میرے میکے اور سسرالی سارے رشتہ دار تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے ہیں کئی کی تو
دیواریں بھی ایک ہیں ۔ دائیں طرف میری پھوپھی کا گھر تھا بائیں طرف میرے دیور کا
اسی طرح دائیں طرف تین گھر چھوڑ کر ایک بند گلی تھی جس میں میری نند رہتی تھی
أس گلی میں صرف تین گھر تھے ایک میری نند کا ایک اس کے جٹیھ کا اور ان کے سامنے
میری نند کے ساس سسر رہتے تھے وہ گلی میری نند کی سسرال کی ہی سمجھ لیں ۔ تفصیل
اس لئے دی ہے کہ جو واقعہ میں آپ لوگوں سے شئیر کرنے جا رہی ہوں وہ میری نند کے
جیٹھ کے متعلق ہے جو رنڈوا تھا شاھد 28سال سے زیادہ کا تھا ۔سب أسے چاچو کہتے تھے ۔ بلا کا نظرباز تھا اور کافی بدنام تھا ۔ رنڈوا تھا بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی اس نے نہیں کی تھی اور گھرمیں اکیلا رہتا تھا ۔ لوگوں میں اسکے بارے مشہور تھا کہ وہ عورتوں کی جنسی ضرورت پوری کرتا ہے اور ان سے کماتا ہے مگر یقین سے کوئی ایسا نہیں کہ سکتا تھا افواہیں سمجھی جاتی تھیں ۔ میں اکثر اپنی نند کے گھر جاتی تھی کیونکہ ایک تو وہ صرف چند سال بڑی تھی اور ہماری ایک دوجے سے خوب بنتی تھی دوسرا میری ساس ار سُسر بھی خوش رہتے کہ ان کی بیٹی سے اچھی بنارکھی ہے نند کے گھر سے پہلے اس کے جیٹھ کا گھر تھا اور وہ ہمیشہ دروازہ کھول کے اپنی ڈیوڑھی میں بیٹھا رہتا تھا۔ میں جب بھی نند کے ہاں جاتی اس کے گھر کے آگے سے گذرنا ہوتا اور وہ فورا أٹھ کر دروازے پر آجاتا تو حال احوال پوچھنے لگتا
کے حال نیں ، ول تے آہو ناں
میں ۔
شاھد تُسی دسو
وہ ۔ کوئی خط سط وی آوندا نیں کہ اوتھے دل لا گدا نیں
نہ بھی خط آیا ہوتا تو یہی کہتی کہ ایہ کل پرسوں آیا تے چاچو تساں کی سلام لکھیا نیں
وہ۔ ہلا ، تُو جواب دتا تے مینڈا وی لکھیناس ‘ جی چاچو کہہ کے آگے نند کے دروازے کی
طرف بڑھتی ۔ مجھے جن نظروں سے وہ دیکھتا اس میں ہوس صاف ظاھر ہوتی ۔ مرد کی نظر عورت پہچان جاتی ہے کہ وہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ میں آگے نند کے گھر کی جانب بڑھتی تو اس کی میلی نظروں کی حدت کولہوں اور کمر پر محسوس کرتی ۔ وہ تب تک دروازے سے جھانکتا رہتا جب تک میں نند کے گھر میں داخل نہ ہوجاتی ۔ خیر ۔ میں اس کو روزمرہ کی روٹین سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ۔
اردو اور پشتو کی خاص کہانیاں گروپ کی شاندار کہانی شاندار محفل
میرے میاں کو جب چھ ماہ سے زیادہ ہوگئے تو دن بدن میری فطری خواہش بڑھنا شروع ہوگئی اورعورت ہی جانتی ہے کہ مرد پاس نہ ہو تو کیسا عذاب جھیلتی ہےعورت ۔ چاچو عورت کے بارے کافی کُچھ معلومات رکھتا تھا اور اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب ایک دن نند کےگھر جاتے ہوئے أسے درازے پر کھڑا دیکھا تو میں نے اسے سلام بولا تو چاچو نے کہا
سیمو تھکی تھکی وی دسدی ایں خیر کوئی گل نہیں چار پنج دناں بعد تھکاوٹ وی أتر جانی
۔ اس دن مجھے پیریڈ شروع ہوئے دوسرا دن تھا اور اس کو میرا چہرہ دیکھ کے اندازہ ہو گیا ۔
جب کبھی میں ہارنی ہوتی تو نظروں میں نظریں ڈال کے کہہ دیتا کہ سیمو تے بڑی اوکھی اوکھی پئی دسنی اے تے سجن ماہی وی ُدور ۔ میں بات کو ٹال کے آگے بڑھ جاتی ۔ اسی طرح.یہ انٹرٹینمنٹ رومانٹک ناول خاص لوگ گروپ کے لیئے لکھی گئی.
چلتا رہتا ۔ وہ چونکہ اکیلا رہتا تھا خود تو گھریر کبھی کبھارہی پکاتا اور کھاتا سامنے کے گھر میں چونکہ اس کے والدین رہتےتھے تو ان کے پاس اورکبھی کبھار میری نند کے ہاں بھی
کھالیتا جس طرح عام طور پر ہوتا ہے کوئی اچھی ڈش بنائی جائے تو قریبی اور آس پاس
کے گھروں میں بھی شئیر کرتے ہیں اسی طرح ہم کوئی سپیشل ڈش وغیرہ بناتے تو چاچو
کو ضرور دیتے ۔ یعنی ہم سب گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ اچھی بنا کر رکھتے۔ اور عزیز
واقارب بھی قریب ہی رہتے مگر میرے ساس ُسسر اپنی بیٹی میری نند کی وجہ سے اس کی
سسرال کاخاص خیال رکھتے ۔ اور مجھے اپنی سُسرال کی خوشنودگی عزیز تھی ۔ ایک روز
مجھے خیال آیا کہ میں نے ٹانگوں کے بال کافی عرصہ سے ��اف نہیں کئے جن کے خاوند
پاس ہوں تو باقاعدگی سے کرتی ہیں مگر پردیس گئے پیا کی پیاری سُستی کرجاتی ہے ۔
خیرمیں نے اچھی صفائی کی اور نہا دھو کر اک نواں جوڑا لا کے اپنی نند کے ہاں گئی۔ ہمارے گاؤں میں ان دنوں پردہ وغیرہ نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ ایک ہی برادری کے تھے ہم عورتیں اگر شہر جاتیں تو بُرقعہ لے لیتی تھیں خیر حسب معمول چاچو دروازے پر آگئے اور حال احوال پوچھا اور باتوں ہی باتوں میں کہنے لگے کہ سیمو کوئی عجیب جیہی مشک پی آوندی اے
میں نے کہا پتہ نہیں مجھے تو نہیں آرہی پھر مجھے خیال آیا سیمو مرجانی ایہ تے بال صفا
پوڈر کی بات کر رہا ہے میں تو ہکا بکا رہ گئی اور اس نے بات کو بدل دیا اور میرے نئے جوڑے کی آڑ میں میری تعریف کرنے لگے میں جلدی سے ��گے نند کے گھر چلی گئی ۔ مگر میں کافی نروس بھی تھی اور چاچو کی بات سے کافی شرمندہ شرمندہ بھی اور خجالت محسوس کرنے لگی ، کچھ دیر بیٹھ کے اپنے گھر کو لوٹی تو چاچو دروازے پر ہی اٹکا ہوا تھا
جیسے میرا ہی انتظار کر رہا ہو کہنے لگا نظر بد دُور اج اپنی نظر ضرور اتارنا
میں نے کہا چاچو تسُی وی جو منہ اؤندہ کہہ دیندے او اور جلدی جلدی قدم بڑھا کر گھر آگئی
شام کو میری ساس نے کہا کہ اج تے گُڑ آلے چاولاں تے دل کردا پیا ، میں نے شام کو
گُڑ کے چاول یعنی میٹھے چاول پکائے اور اپنی نند کو دینے گئی تو چاچو جو کہ میری
نند کا جیٹھ لگتا تھا بھی ان کے گھر ہی کھانا کھا رہا تھا وہ کہنے لگا سیمو گُڑا الے چاول
تے مینو وی بڑے چنگے لگدے آ میں کہیا چنگا چاچو تساں وی دے ویساں ۔ گھر آکر کھانا
کھایا اورسریوں کے دن تھے بہت چھوٹے اور لمبی راتیں میرے ساس اور سُسر کھانے سے پہلے ہی عشاء کی نماز سےفارغ ہوگئے تھے اور اپے کمرےمیں چلے گئے تھے ۔ برتن رکھتے ہوئے مجھے یاد آیا چاچو کو تو چاول بھی دینے تھے ۔ اگرچہ اتنی زیادہ دیر نہیں ہوئی تٓھی مگر پنڈ میں تو مغرب کے بعد ہی سُناٹا ہوجاتا ہے میں نےسوچا چاچو کونسا سو گیا
ہوگا اسے چاول دے ہی آؤں ۔ میں نے سردی سے بجنے کےلئے شال لی اور مٹھےچاول چاچو کو دینے گئی ۔ گھر سے نکل کر مجھے خیال آیا ایک تو چاچو چھڑا چھانڈ اور پھر بدنام بھی
اور اگر اس وقت کسی نے اس کے دروازے پر کسی نے دیکھ لیا تو سیمو تیرے پلے کجھ وی
نہیں رہنا ۔ سوچا واپس جاؤں اور کل دن میں اسے چاول دے دونگی مگر پھر خیال آیا
کہ میں نے کونسا وہاں رکنا ہے اور گلی میں تین ہی گھر ہیں وہ بھی اپنے ہی کسی نے
پوچھا تو بول دونگی چاول دینے آئی ہوں اور چاچو کو اپنی نند کے سامنے میں نے بولا تھا
کہ دے جاؤں گی چول ۔ ہم چاول نہیں کہتے چول کہتے ہیں یہی سوچ کر چاچو کے دروازے
پر پہنچ گئی
چاچو کا دروازہ ناک کرنے ہپلے سے میں نے چیک کیا ، دروزاہ کھلا ہوا تھا ۔ آگے
ڈیوڑھی میں اندھیرا گُھپ ، میں نے چاچو کو دو تین بار آستہ آہستہ چاچو کہہ کر بلایا
مگر چاچو شاید اندرکمرے میں اور وہاں تک جانے کے صحن سے گذرنا پڑتا تھا ۔ اک
کمرے میں لالٹین کی روشنی کھڑکی کی درزوں سے جھانک رہی تھی میں نے آہستہ
آہستہ دروازہ ناک کیا تو چاچو کی آواز آئی ’ دروازہ کھلا سیمو اندر لنگ آ‘ میں حیران
ہوئی کہ چاچو کو کیسے پتہ چلا کہ میں دروازے پر ہوں اتنے تک چاچو دروازے پر تھا
بولا ’’کہ میں تمہارے چاولوں کی انتظار میں تھا ‘‘ میں نے پلیٹ چاچو کے ہاتھ میں دی
اور جانے کے لئے مُڑی کہ چاچو نے کہا ٹہر سیمو میں رسوئی میں چاول رکھ کر پلیٹ
تمہیں دیتا ہوں پہلے والے برتن بھی کافی اکٹھے ہوئے پڑے ہیں ، میں بھی ساتھ چلنے لگی
تو چاچو نے کہا تم رکو میں آتا ہوں اتنے میں چاچو جلدی سے کمرے سے جلا گیا اور
تھوڑی دیر میں واپس تو برتن اس کے ہاتھ میں نہیں تھے ۔
چاچو نے کہا ہاں سنا سیمو کوئی خط سط ، میں کہیا دیر ہوگئی میں صبح ہی برتن
لے لاں گی ۔ اور دروازے کی طرف بڑھی اس سے پہلے کہ میں دروازے سے نکلتی
چاچو نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور گلے لگانے کی کوشش کی ، مجھے بڑا غصہ
آیا اور میں نے جھٹکے سے بازو چھڑایا اور بولی چاچو تینو اینی جراءات کس طرح ہوئی
مجھےچاچو کی خراب نیت کا تو اندازہ تھا مگر مجھے یقین تھا کہ چاچو ایسی بے غیرتی نہیں
کرسکتا ۔ اب میں بے یقینی اور اور صدمہ کی کیفیت میں تھی کہ میں کس مصیبت میں
پھنس گئی ۔ اور باہر کی طرف دوڑی مگر چاچو تو کنڈی لگا چکا تھا ۔
میں نے چاچو کو بولا
دیکھ مجھے جانے دے نہیں تو تمہارے باپ کو بتاؤں گی اس کا باپ سامنے والے گھر میں
رہتا تھا اور پنڈ کا نمبردار تھا ، اس نے مجھے پیچھے سے کمر سے پکڑا اور اپنے طرف کھینچ کے اپنے سینہ سے لگا لیا ، میں کو شش کرنے لگی کہ کسی طرح اپنے آپ کو چُھڑاؤں
ایک خیال آیا زور زور سے شور مچاؤں مگر اس خیال سے رک گئی کہ اس طرح بدنامی تو میری ہی ہوگی اور میں کس طرح کسی کویقین دلاسکونگی کہ اتنی رات میں چاول دینے آئی تھی وہ بھی
ایک بدنام رنڈوے کو ۔ میں چاہتی تھی کوئی ایسی چیزمیرے ہاتھ لگ جائے جو چاچو کے سر
پر مار کر اسے بیہوش کرکے بھاگ جاؤں ۔ مگر کچھ آس پاس نہ تھا میں نے چھڑالیا یا
چاچو نے مجھے آذاد کیا کہ میں دوڑی دروازے کی طرف مگر یہ اندروٹھے کا دوازہ تھا
جو پٹ سے کھل گیا اور اندھیرا ہونے کی وجہ سےدہلیز کے ساتھ ٹھوکر کھا کر میں اندروٹھے
کمرے میں جا گری ( ہماری طرف ایک کمرے کے آگے بھی کمرا بنا دیتے تھے پہلے وقتوں
میں یعنی ایک کمرے میں دو کمرے جن کا مین دروازہ ایک ہی ہوتا تھا ۔ اب شاید یہ رواج
نہیں رہا ۔ اب میں اٹھنے کی کو شش کر رہی تھی کہ چاچو نے پیچھے سے دبوچ لیا میں گھوڑی کی حالت میں تھی یعنی چاروں پاؤں پر اور چاچو مجھے لپٹنے کی ٹرائی کرنے لگا ، مجھے اپنے کولہو پر اس کا اوزارمحسوس ہو رہا تھا میں نے کوشش کی اور کھڑی ہوگئی مگر چاچو میرے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور اس کا ہتھیار میری ٹانگوں کے بیچ تھا میں نے چاچو کو بولا چاچو مجھے جانے دو ۔ دیر بہت ہوگئی ہے ۔ چاچو کچھ بولا نہیں مگر مجھے أٹھا کر پلنگ پر لٹا کر پھر مجھے دبوچ لیا ۔ چاچو کی کوشش تھی کہ کسی طرح میرا بوسہ لے مگر میں اپنے ہونٹ اس سے بچا رہی تھی گالوں پر تو اکا دکا چومیاں لے رہا تھا اور مجھے گلے سے لگا کربھینچ رہا تھا میں نے اسے گالیاں دینی شروع کردیں اور اپنے سے دور دھکیلنے لگی مگر زور ور تھا میں ایک کبوتری کی طرح پھنس چکی تھی وہ میرے مموں کو دبانے لگا اور جسم پر ہاتھ بھی پھیر لیتا ۔
اس کا نیولا سر أٹھا کر کسی سوراخ میں جانے کے لئے میری ٹانگوں کے بیچ ٹکڑیں مار
رہا تھا چاچو نےحرامزدگی کی کہ اپنی چادر دھوتی کھول کے نیچے پھینک دی اب وہ صرف
قمیض پہنے ہوئے تھا اور نیچے ننگا ۔ میں نے اچٹتی نظروں سے اسے دیکھا تو اتنا بُرا نہیں لگا ۔ اب اس نے میری شلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے سختی سے منع کیا مگر اس نے ایک نہ سُنی اور میرا ازار بند کھولنے میں کامیاب ہوگیا ۔ میں نے پھر باندھنے کی کوشش کی
کی اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ شلوار کے اندر ڈال دیا اورمیری ٹانگوں کے سنگم پر رکھدیا
میری منہ سے بے ساختہ سسکاری سی نکلی تو اسنے انگلی وہاں لپس پر پھیرنا اور مساج کرنا
شروع کردیا اب میں اسکے ہاتھ کو ہٹانے کی کوش کر رہی تھی اس کا دوسرا بازو میری کمر کو جکڑے ہوئے تھا اور اس کے ہونٹ برابر کوشش کررہے کہ کسی طرح میرے ہونٹوں تک رسائی حاصل کرلیں مگر میں برابر سر کو ہلا رہی تھی ۔ ادھر اس نے اب انگلی اندر ڈال کر
ہلانا شروع کی اورمیں اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کو کھینچنے لگی ۔مگر اسے ہٹانے کی بجائے دبا بیٹتھی دراصل اب میں شدت سے ٹرائی نہیں کر رہی تھی اور أس کا ٹچ اچھا لگنے لگا مگر میں نےأس پر ظاھر نہ ہونے دیا کہ ہارنا چاہتی ہوں ۔ اس نے یوں ہی مجھے جکڑے رکھا اور خود میری ٹانگوں میں آکر بیٹھ گیا میں نے پاؤں سے اسے دھکیلنےکی کوشش کی تو اس نے میری ٹانگوں کو قابو کرلیا
اب وہ میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھا تھا ۔ اور اس کا باز بڑےناز سے سر أٹھائے اپنے
شکار کی تلاس میں ادھر ادھر اوپر نیچے اپنی ایک آنکھ سے ڈھونڈھ رہا تھا ۔ میری شلوار کا آزار بند تو کھلا تھا مگر شلوار ابھی پہنی ہوئی تھی ۔ اب شاھد
مجھ پر لیٹ گیا اور لپٹ گیا
اس کے باز نے کُھلے ازار بند کا فائدہ أٹھایا اورسیدھا اپنےشکار سے جا ٹکرایا ۔ چاچو اسے
اوپراوپر سے رگڑنے لگا ۔ وہ مجھے خوار کرنے کی کوشش میں تھا اور میں نے بھی سوچ لیا
تھا کہ اس کو یہ باور نہیں کرنے دونگی کہ میں کمزور پڑ گئی ہوں ۔ مجھے اس کی رگڑ
اچھی لگ رہی تھی چھ ماہ سے زیاد بنا مرد کے ٹچ رہ رہی تھی اور ترس رہی تھی کسی کے مضبوط بازو۔ پیار بوسے شرگوشیوں اور زور دار جھٹکوں کے لئے ۔ چاچو نے میرے نیچے
سے اچانک شلوار کھینچ کر نیچے پھنک دی اب میں اس کے سامنے صرف قمیض میں تھی
نیچا دھڑ ننگا تھا ۔ چاچو کچھ دیر تو میری رانی کو دیکھتا رہا پھر اچانک أس پر جُھک کر
رانی کو چوم لیا ۔ أفف میری سسکاری سی نکل گئی میں نے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اوپر
کیا اور غصہ سے دیکھا ۔ أ س نے جواب میں کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ میری نظریں جھک گیئں یہ ایک قسم کا میرا سرنڈر تھا اس نے اسی جگہ کےدو چار بوسے اور لئے اور اچانک اس نے میری ٹانگیں اپنے شانوں پر رکھ لیں اور اپنے سالار کو میری راجدھانی پر اچانک حملہ کرکے ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ اندر کردیا میری راجدھانی اس حملے کے لئے تیار نہ اس کی دیواریں تک چھل گئیں۔ میں بمشکل اپنی چیخ روک پائی ۔ اب توچاچو اپنے سالار کو کبھی دائیں کبھی بائیں دوڑاتا میں اپنی لذت بھری سسکیوں کو روکنے کی ناکام کوشش کررہی تھی ۔ اور سر کو ادھر أدھرپھینک رہی تھی میری آنکھیں بند تھیں اور میں سُرور کی حدیں چُھو رہی تھی اس کا سالار کافی تجربہ کار تھا اور ہر اس کونے میں چوٹ لگاتا جہاں جہاں لگانے کی ضروت تھی آخ کار اس نے راجدھانی پر فتح کاجھنڈا گاڑ دیا اور اس خوشی میں سوغات کی بوچھاڑ کردی ۔
مجھے اس وقت جاجو بہت اچھا لگا میں نے اسے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف جھکایا اور اپنے لب اس کے ہونٹوں پر رکھ دئیے جنہیں اس نے خوب چوسا وہ میرے ساتھ ہی لیٹ گیا اور کہنےلگا سوری ۔ میں کچھ نہ بولی اب کچھ بولنےکو شاید کچھ بچا ہی نہ تھا ۔ ہم دونو یوں ہی لیٹےرہے چاچو کچھ کہنے کی کوشش میں رہا مگر میں کسی اور ہی دنیا میں تھی چاچو میرے مموں سےکھیل رہا میں یوں لیٹی رہی کہ چاچو کے نفس نے میری ران کو ٹچ کیا وہ دوبارہ نیم ا یستادہ ہوچکا تھا میں نے اسے چھونا چاہا مگر ایک جھجھک تھی سوچا چاچو کیا سوچے گا ۔ چاچو نے میرے ہاتھ کو بڑھتے او رکتے ہوئےمحسوس کر لیاتھا اس نے میرا ہاتھ اپنےہاتھ میں لے کر دو چار بوسے دیئے اور پھر میرا ہاتھ اپنے شہزادے پر رکھ دیا میں نے شرماتے ہوئے اسے ہاتھ لگایا تو شہزاد ے نے سر اٹھالیا میں نے اس کو ہاتھ میں لے لیا اور ہولے ہولے دبانے لگی ۔ وہ مست ہونے لگا اور جھومنے لگا ۔ وہ اپنی شہزادی سے ملنے کےلئے بے چین نظر آرہا تھا ۔ چاچو میرے نپل چوسنے لگا مجھے بہت مز آرہا تھا میں نے چاچو کو پیچھے دھکیلا اور خود أٹھ کر بیٹھ گئی ۔ چاچو بھی سیدھا ہو کر لیٹ گیا میں اس کے اوپر بیٹھ گئی ۔ شہزادےکو اپنےہاتھ میں لے کر اس پر شہزادی کو ٹکایا اور شہزادے کا سر اس پر پھیرنے لگی پھر شہزادی کو شزادے کے اوپر آستہ آہستہ دبانے لگی اور شہزادی کے اندر پھسلتے ہوئے جانے لگا جب مجھے محسوس ہوا
کہ شہزادہ گھر پہنچ چکا ہے میں چاچو کے اوپر جُھکی اور اسے چومنے لگی اس کے گال
گردن ہونٹ اس کے بالوں بھری چھاتی کے نپل اور ساتھ ساتھ شہزادے کے اوپر شہزادی کو
ہلاتی چاچو نے میرے ہونٹ چوسنےشرو ع کردیئے اور ہاتھوں سے میرے ممے دبانا
مجھے بہت سواد آرہا تھا اب کسی قسم کاڈرنہیں رہا تھا تھوڑی دیر میں میں فارغ ہوگئی
چاچو کو اشارہ کیا اور خود نیچے لیٹ گئی مگر
شاھد نے مجھے گھوڑی بنادیا
اور ایک بار پھر اس نے زبردست انٹری دی ۔ چاچو نے خوب ارمان نکالے اور میری
چولیں تک ہلا ڈالیں آخرکار شہزادے نےشہزادی کا اندر بھرکر خراج ادا کیا ۔
میں نے شلوار پہن لی اور چاچو کو بولا اب جانے دو ۔ چاچو بولا سیمو اینا مزہ
فر کدوں میں کہیا جدوں فر صفائی کیتی اودوں ۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے شکرہے میرے ساس سُسر سوگئے تھے میں باتھ روم میں گئی
تو رانی کو ہاتھ لگا کر دیکھا بیچاری سُوج گئی تھی چاچوکا پہلا وار ہی اس کا کام کر گیا تھا
آج صبح جب اسے صفا کر رہی تھی خیال و خواب میں بھی نہ تھا کہ آج شام کواس کی مانگ
بھری جائیگی اورمن کی مراد پوری ہوگی ۔
چاچو سے پرامس کیا تھا جب بھی صفائی کی تومزہ دونگی اور لوں گی ۔ اور جب تک وہاں ریی ہفتہ میں صفائی ضرور کرتی رہی اور جب صفائی کرکے چاچوکے پاس سے گذرتی تو اس کو مشک آجاتی کہ رات کو دروزہ کُھلا رکھنا ہے....
ختم شد
10 notes
·
View notes
مجھے نہیں پتہ، یہ تحریر سچی ہے یا فسانہ؛ بس شرط ہے کہ آنکھیں نم نہ ہونے پائیں۔ آپ دوستوں کے ذوق کی نظر:
۔۔۔
میں ان دنوں جوہر شادی ہال کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک نگاہ پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!"
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پیسے نکالے، دو کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا.
بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی.
ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے". اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو۔۔
---
ذریعہ : فیسبک
8 notes
·
View notes
گھر کے حالات
قسط نمبر 3
میں حیرانی سے احسن کی باتیں سن رھا تھا احسن میری طرف دیکھ کر بولا اس لیے کل میں نے کہا تھا کہ گھر کی ذمہ داری پوری کر اور اب یہ تیرے اوپر ھے گھر کی بات گھر میں رھے گی عورت کو لوڑا چاہے ھوتا ھے پھدی اورلو ڑے کا کھیل ایسا ھے اسمیں رشتے سب ختم ھوجاتے ہیں احسن اپنی بات ختم کرکے بولا چل یار چلتا ھوں پھر ملتے ہیں احسن چلا گیا اور میں اسکی باتیں سوچنے لگا اور پھر حریم کے بارے میں سوچنے لگا کہ کس طرح وہ میرے روم میں اچانک آتی ھے اب کچھ سمجھ نہی آرھا تھا کہ یہ سب کیسے ھوگا جبھی موبائل کی بیل بجی میں نے فون اٹینڈ کیا تو دوسری طرف حریم تھی میں نے کال اٹینڈ کی جی حریم بولو
حریم -بھای بزی تو نہی ہیں
میں -نہی بولو کیا بات ھے
حریم -بھای آپ جلدی آسکتے ہیں
میں -کیوں خیریت ھے
حریم-بھای سب خیریت ھے
حریم-بھای مجھے کچھ شاپنگ کرنی تھی
میں - تو تم امی اور خالہ کے ساتھ چلی جاو گھر میں گاڑی ھے ڈراویور ھے انعم کو ساتھ لے لو حریم بولی امی اور خالہ تو تھکی ھوی آی ہیں
میں -اچھا کل پھر ٹائم نیکال کر لے جاونگا ابھی تو میں جم جارھا ھوں
حریم -ٹھیک ھے بھای
حریم نے فون بند کردیا میں جم چل�� گیا جم سے فری ھوکر گھر آیا تو پتہ چلا امی اور خالہ سو رھیں تھیں میں نے شاور لیا ٹراوزر پہنا تو حریم میرے روم میں آگی حریم نے لان کا ہلکا سا سوٹ پہنا ھوا تھا اور نیچے لوز ٹراوز شرٹ میں سے حریم کہ بریزر صاف نظر آرھی تھی میں نے کہا امی اور خالہ کی طبعیت ٹھیک ھے حریم بولی ہاں ٹھیک ھے بس ابھی اٹھ جاینگی حریم بولی آپ کے لیے کھانا لاوں میں نے کہا ہاں لے آو حریم کھانا لے کر آگی اسی طرح جھک کر اس نے کھانا رکھا جس سے حریم کے ممے میری نظروں کے سامنے تھے آج حریم نے بلیک بریزر پہنی ھوی تھی حریم نے کھا نا رکھا اور صوفے پر بیٹھ گی میں کھانا کھانے لگا جبھی حریم بولی بھای ایک بات کرنی ھے آپ سے میں بولا ہاں کہو کیا کہنا ھے حریم بولی بھای یہ جو ہمارے ڈراویور خالد انکل ہیں یہ کچھ مجھے صیح نہی لگتے میں نے کہا حریم یہ ابو کے زمانے سے ہمارے پاس ہیں اور مجھے تو ان میں ایسی کوی بات نظر نہی آتی حریم بولی بھای انکی نظر بہت خراب ھے میں تو انکے ساتھ کہیں نہی جاونگی میں نے کہا تمھارا وہم ھوگا امی اور خالہ بھی تو جاتی ہیں امی اور خالہ نے تو ایسی کوی بات نہی کی حریم بولی بس بھای مجھے خالد انکل اچھے نہی لگتے میں نے کہا اچھا کل میں تم کو بازار لے جاونگا حریم بولی ٹھیک ھے میں کھانا کھا چکا تو حریم برتن اٹھا کر لے گی میں نے کچھ دیر ٹیوی دیکھا اور سو گیا
صبح اٹھکر وہی روٹیں نہا کر ناشتہ کیا اور پنمپ پر آگیا کام سے فری ھوا تو ابو کے ایک دوست آگے بولے بیٹا میرے ساتھ چل سکتے ھو میں نے کہا جی انکل کہاں جانا ھے انکل بولے بیٹا میں نے ہاکس بے پر ایک ہٹ خریدنا ھے تو وہ پراپڑٹی ڈیلر بلا رھا ھے کہ آکر دیکھ لوں تو تم میرے ساتھ چلو ہم لوگ دیکھ کر آجاتے ہیں میں نے کہا چلیں میں انکی گاڑی میں بیٹھ کر انکے ساتھ ہاکس بے ساحل سمندر پر جہاں ہٹس بنے ھوتے ہیں وہاں آگیا انھوں نے ایک ہٹ کے پاس گاڑی روکی ہم لوگ اندر گے وہاں پراپڑٹی ڈیلر بھی تھا انکل نے اور میں نے ہٹس دیکھا انکل نے مجھ سے پوچھا کیسا ھے میں نے کہا انکل بہت اچھا ھے آپ لےلیں انکل پراپڑٹی ڈیلر سے بات کرنے لگے میں ہٹس کو دیکھنے لگا باھر نیکلا تو اس ہٹس کے تھوڑے فاصلے پر ایک دوسرے ہٹس کی پارکنگ میں مجھے اپنی گاڑی نظر آی جو گھر کے استعمال میں ھوتی ھے میں اپنی گاڑی یہاں دیکھ کر حیران ھوگیا کہ میری گاڑی یہاں کون لے کر آیا انکل بھی پراپڑتی ڈیلر کے ساتھ باھر آگے انکل نے بتایا کہ انکا سودا ھوگیا ھے میں نے کہا ٹھیک ھے آپ یہ خرید لیں اور اچھا بنا ھوا ھے انکل بولے چلو چلتے ہیں اسکو بیانا دے دوں میں نے کہا انکل آپ چلیں مجھے یہاں ایک دوست مل گیا ھے میں اسکے ساتھ آجاونگا انکل بولے چلو ٹھیک پھر ملتے ہیں وہ اپنی گاڑی پر چلے گے میں پیدل اس ہٹ کی طرف چل پڑا جہاں میری گاڑی کھڑی تھی میں ہٹ پر پہنچا اسکا مین دروازہ کھولا اندر گیا تو اندر کی طرف کے دروازے بند تھے اندر سے مجھے باتوں کی آوازیں آرھی تھیں لیکن دروازے بند تھے میں سمندر کی سائٹ سے ہٹ کے اندر آیا تو وہاں پر کچھ کھانے پینے کی چیزیں ٹیبل پر رکھی ھوی تھیں میں ایک کمرے کی طرف بڑھا تو کمرے کا دروازہ بھی بند تھا لیکن ایک سائڈ پر کھڑکی تھی میں کھڑکی کے پاس گیا تو کھڑکی کا پردہ تھوڑا ہٹا ھوا تھا میں نے جب اندر کا نظاری دیکھا تو میرے پیرو کے نیچے سے زمین نیکل گی اندر کمرے میں امی اور خالہ دونو ں ننگی بیڈ پر لیٹی ھوی تھیں
امی اور خالہ بلکل رنڈیوں کی طرح ننگی بیڈ پر لیٹی ھوی تھیں امی اور خالہ کا گورا سیکسی بدن دیکھ کر لن بھی جھٹکے مار رھا تھا پہلی دفہ میں امی اور خالہ کو اس طرح ننگا دیکھ رھا تھا میرے دماغ میں احسن کی باتیں گونج رھیں تھیں وہ صیح کہہ رھا تھا کہ گھر کی ذمہ داریاں پوری کروں اب مجھے پتہ چلا کہ امی اور خالہ خالد انکل کے ساتھ کیوں جاتی ہیں اور حریم ٹھیک کہہ رھی تھی میں کھڑکی کے باھر سے اپنی ماں اور خالہ کو ننگا دیکھ رھا تھا بہت سیکسی جسم تھا بڑے بڑے ممے اور بڑے بڑے چوٹر جو مجھے بھی بہت پسند تھے
ان دونوں کے سامنے خالد انکل اور وہ دوسرا آدمی اسکو میں نہی جانتا تھا ننگے کھڑے اپنے اپنے لن کو سہلاتے ھوے آگے بڑھے ایک نے اپنا لوڑا میری خالہ کی پھدی میں ڈال کر خالہ کے اوپر چڑھ گیا خالد انکل نے اپنا لوڑا میری امی کی پھدی میں ڈال کر انکے اوپر چڑھ گیا دونوں چودای میں مصروف ھوگے جبھی امی بولیں
خالد اب تیرے لن میں جان نہی ھے چود ذور ذور سے یہ آواز میری امی کی تھی میں اپنی سوچوں سے باھر نیکلا اور دوبارہ کمرے میں دکھنے لگا اور خالد انکل جو ہمارے ڈراویور تھے وہ امی کے اوپر چڑھے ھوے تھے اور ایک دوسرا آدمی خالہ کے اوپر چڑھا ھوا تو چاروں ننگے تھے اور چودنے کے کام مصروف تھے دوسرا آدمی جو خالہ پر چڑھا ھوا تھا امی اور خالہ دونوں اپنی پھدیاں غیر مرد سے مروارھی تھیں امی بول رھی تھی چود اور تیز آہ اوفففففف مجھ سے اب یہ سب برداشت نہی ھوا وہ میں نے دروازہ پر ذور لگایا تو وہ کھل گیا میں کمرے میں داخل ھوا تو امی اور خالہ نے مجھے کمرے میں دیکھا تو تو چیخ مار کر اٹھ گیں وہ دونوں مرد بھی کھڑے ھوگے خالد انکل مجھے دیکھ کر پریشاں ھوگے دوسرا آدمی مجھے دیکتھے ہی ننگا باھر کی طرف بھاگ گیا سب سے پہلے تو میں نے خالد انکل کا موبائل اپنے قابو میں کیا کہ کہیں بعد میں کویی پرابلم نہ ھوامی اور خالہ نے اپنے جسم کو بیڈ شیٹ سے چھپا لیا تھا میں نے خالد انکل کو کہا بہت افسوس کہ بات ھے مجھے آپ سے ایسی امید نہی تھی میں نے کہا گاڑی کی چابی دیں اور اب آپ کو گھر آنے کی ضرورت نہی ھے وہ شرمندہ ھوکر وہاں سے کپڑے پہن کر نیکل گے میں نے خالہ اور امی سے کہا آپ لوگ بھی کپڑے پہن کر گاڑی میں آجائیں میں باھر گاڑی میں بیٹھا ھوں کچھ دیر کے بعد امی اور خالہ دونوں گاڑی میں آکر بیٹھ گیں میں نے گاڑی نیکالی اور ان دونوں کو لے کر گھر پہنچ گیا گارڈ نے دروازہ کھولا گاڑی اندر کھڑی کی حریم مجھے امی اور خالہ کے ساتھ دیکھ کر پریشان ھوگی میں سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا مجھے احسن کی بات صیح لگی اسکا کہنا بلکل ٹھیک تھا کہ مجھے گھر پر دھیان دینا چاھے اور گھر کی ذمہ داریاں بھی پوری کرنی چاہے اب مجھے بھی احسن کی طرح گھر میں چدای شروع کرنی چاھیے ورنہ یہ تو باھر کے مردوں سے پھدیاں مروانا شروع کردینگی انکی بھی غلطی نہی ھے سیکس تو ہر کسی کی ضرورعت ھے اب مجھے ھی انکی پھدیاں مارنی ھونگی جبھی حریم روم میں آی اور بولی بھای کیا ھوا آپ امی اور خالہ کو کہاں سے لاے میں نے کہا امی اور خالہ نے نہی بتایا حریم بولی نہی وہ دونوں اپنے کمرے میں ہیں اور دروازہ بند ھے میں نے کہا کیا بتاوں حریم بولی کچھ تو میں نے کہا امی اور خالہ خالد انکل کے ساتھ ہاکس بے کے ایک ہٹ کے اندر پھدی مروارھی تھیں
میرے منہ سے یہ سن کر حریم منہ پر ھاتھ رکھ کر بولی اوہ بھای پھر میں نے حریم کو ساری اسٹوری بتای حریم بولی بھای مجھے اس بات کا کچھ اندازہ تھا لیکن کنفرم نہی تھا جبھی میں نے صبح آپ سے کہا تھا کہ خالد انکل صیح آدمی نہی ہیں حریم بولی اب بھای کیا ھوگا میں نے کہا کچھ نہی امی اور خالہ سے تم کوی بات نہی کرنا اب میں ہی اس پرابلم کو حل کرونگا حریم بولی کیا حل ھے اسکا میں نے حریم کے مموں کو دیکتھے ھوے کہا کہ تم سب کی خواہشیں پوری کرنا مطلب اپنی ساری ذمہ داریاں پوری کرنا حریم کو بھی پتہ چل رھا تھا کہ میں اسکے مموں کو دیکھ رھا ھوں وہ تھوڑا اور جھکتے ھوے بولی بھای یہ تو بہت اچھی بات ھے آپ ہماری ذمہ داریاں پوری کرنیگے حریم اسی طرح جھکی مجھے
اپنے مموں کا نظارہ کرواکر بولی بھای آپ گھر کے بڑے ہیں اب آپ ہی نے سب کچھ کرنا میں نے حریم کو دیکتھے ھوے کہا کیا کروں وہ سیدھی ھوتے ھوے بولی جو بھی کرنا چاہیں میں نے حریم کا ھاتھ پکڑ کر کہا تم راضی ھو حریم شرماتے ھوے بولی جی بھای میں راضی ھوں جب آپ کہینگے میں دے دونگی میں نے کہا کیا دوگی حریم مسکراتے ھوے جو بھی آپ لینا چاہیں اور روم سے باھر نیکل گی میں نے آنکھیں بند کی اور آج کے سارے واقعات کو سوچتا ھوا سو گیا
شام کو حریم نے مجھے اٹھایا میں نے آنکھیں کھولیں تو میرے سامنے حریم کھڑی تھی حریم نے نہا کر آی تھی بال کھلے ھوے ہلکا ہلکا میک اپ کھلے گلے کی سیگرین شڑت نیچے ٹائٹ لیگیز جو اس کے جسم پر فیٹ تھی میں نے حریم کو دیکھ کر پوچھا کہا جارھی ھوں حریم بولیں آپ کے ساتھ میں نے اٹھتے ھوے کہا میرے ساتھ کہا جاوگی حریم بولی پیزا کھانے میں نے کہا اوکے چلینگے حریم روم سے چلی گی میں واش روم گیا نہا کر ننگا اپنے روم میں آیا تو دیکھا سامنے صوفےپر امی اور خالہ بیٹھی ہیں میں نے جلدی سے بیڈ سے ٹاول اٹھا کر لپیٹا امی اور خالہ کی نظریں میرے لن پر تھیں خالہ مجھے دیکتھے ھوے بولیں بیٹا آج جو کچھ ھوا اس پر ہم لوگ شرمندہ ہیں اور آیندہ ایسا نہی ھوگا ہمیں معاف کردو میں امی اور خالہ کے سامنے بیٹھ گیا اور دونوں کو ھاتھ پکڑ کر بولا مجھے اندازہ ھے اب آپ لوگ معافی نہ مانگیں آپ دونوں کی مجبوری سمجھ سکتا ھوں لیکن باھر کے لوگوں کے ساتھ آپ دونوں پھدی مروا رھی تھیں بس یہ صیح نہی تھا کل کو وہ آپ لوگوں کر بلیک میل کرتا ہمیں بدنام کرتا پھر کیا ھوتا اب جو ھونا تھا ھوگیا اب میں نے سوچا ھے کہ اس گھر کی یہ ذمہ داری بھی میں ہی پوری کرونگا امی اور خالہ نے حیرانی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا پھر میری طرف دیکھتے ھوے امی بولیں بیٹا یہ کیا کہہ رھے ھو میں نے کہا صیح کہہ رھا ھوں جو کام گھر میں ھو وہ گھر تک ہی رہتا ھے باھر والے کو کیا پتہ کہ ہم گھر میں کیا کرتے ہیں خالہ بولیں یہ غلط ھوگا گھر میں تمھاری بہنیں بھی ہیں میں نے کہا کوی مسلہ نہی اس سے پہلے کہ کوی باھر والا انکو چود دے تو پھر گھر میں چود والیں تو ٹھیک نہی ھے مرے منہ سے یہ باتیں سن کر امی بولیں تم کچھ زیادہ ھی بول رھے ھو میں نے کہا وہ اس لیے بول رھا ھوں کہ آج آپ دونوں کو پھدی مرواتے دیکھا ھے بولیں میں صیح کہہ رھا ھوں
امی بیٹا وہ غلطی ھوگی بس امی اور خالہ نظریں نیچے کیے بیٹھیں تھیں میں نے امی کا چہرہ اوپر کیا اور بولا میں بھی احسن کی طرح گھر کی ذمہ داری پوری کرونگا امی اور خالہ حیرانی سے دیکتھے ھوے بولیں مطلنب احسن بھی اپنی امی کی مارتا ھے میں نے کہا جی دیکھا نہی کتنی خوش تھیں وہ اور اسکی بہن وہ اپنی بہن کی بھی مارتا ھے میں نے پھر کہا کہ بس اب میرا یہ فیصلہ ھے کہ آپ سب کی جنسی خواھشات میں پوری کرونگا امی اور خالہ میری طرف دیکھ کر بولیں تو یہ تمھارا آخری فیصلہ ھے کہ اب تم اپنی ماں بہن اور خالہ کی پھدی ماروگے میں نے کہا جی
خالہ اپنی جگہ سےاٹھکر میری گود میں بیٹھتے ھوے بولیں مجھے منظور ھے خالہ کے بڑے چوٹر لن پر رکھ کر بیٹھی ھوی مجھے پیار کرتے ھوے بولیں میں تو راضی ھوں تم سے چدوانے کے لیے خالہ امی سے بولیں باجی میرا خیال ھے کہ کامران ٹھیک کہہ رھا ھے اب ہم سب کامران سے پھدی مرواینگے امی کیسی باتیں کر رھی ھو شرم کرو خالہ بولیں باجی کامران نے اب خود ہمیں ننگا پھدی مرواتے دیکھا ھے اب کیسی شرم خالہ میرے گال پر پیار کرنے لگیں ٹاول کے نیچے لوڑا بھی فل کھڑا ھوگیا خالہ لوڑے کو فیل کرتے ھوے بولیں لگتا ھے بہت جاندار لوڑا ھے خالہ امی کی طرف دیکھ کر بولیں باجی میرے بھانجے کا لوڑا بہت زبردست ھے
امی خالہ کی طرف دیکھ کر بولیں شرم کرو میں نے امی کا ھاتھ پکڑ کر سہلاتے ھوے کہا امی آپ کیا کہتی ھو امی اٹھکر کھڑی ھوگیں اور بولیں میں سوچ کر جواب دونگی نیچے میرا لوڑا کھڑا ھوکر خالہ کی گانڈ کو ٹیچ کر رھا تھا خالہ میری گود سے اٹھ کر کھڑی ھویں میرے لن کو پکڑ کر بولیں بہت جاندار لگ رھا ھے میرے ہونٹوں پر کس کرکے بولیں تمھاری امی کو میں منا لونگی ہم سب تمھارے لوڑے سے اپنی پھدیاں مروانگی یہ کہتے ھوے خالہ کمرے سے باھر نیکل گیں
میں نے ٹاول اتارا تو میرا لوڑا خالہ کی گانڈ کی گرمی سے فل کھڑا ھوا تھا میں لوڑے کو ھاتھ میں پکڑ کر سہلاتے ھوے بولا اب تو گھر کی گرم پھدیوں کو چودنا ھے جبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور حریم اندر داخل ھوی مجھے ننگا دیکھ ک�� میرے لوڑے کو دیکھنے لگی میں نے حریم سے کہا کیا دیکھ رھی ھو حریم دروازہ بند کرکے آندر آی اور مجھ سے لیپٹ کر بولی بھای بس اب مجھے بھی آپ نے چودنا ھے مجھ سے اب برداشت نہی ھوتا آپ نے جو فیصلہ کیا ھے مجھے منظور ھے وہ مجھ سے لیپٹ کر دیوآنہ وار پیار کررھی تھی اپنی پھدی اور ممے میرے جسم سے رگڑتے ھوے بولی آج رات میں آپ کے کمرے میں سونگی پوری رات آپ مجھے چودنا میں نے حریم کو پیار کرتے ھوے اپنے سے الگ کیا حریم میرے لوڑے کو پکڑ کر بولی بھای بہت شاندار لوڑا ھے اور نیچے بیٹھ کر لوڑے کو چوسنے لگی میں نے کہا جان صبر کرو آج رات کو تمھاری پھدی مارونگا ابھی باھر چلتے ہیں پیزا کھاتے ہیں پھر چودای کرنگے حریم کھڑی ھوگی اور مجھے پیار کرتے ھوے بولی اوکے آپ کپڑے پہن کر آئو
جاری ہے
3 notes
·
View notes