Tumgik
#پتہ
apnibaattv · 2 years
Text
نئی آڈیو لیکس سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی نے پاکستان-آئی ایم ایف ڈیل کو ٹارپیڈو کرنے کا منصوبہ بنایا
نئی آڈیو لیکس سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی نے پاکستان-آئی ایم ایف ڈیل کو ٹارپیڈو کرنے کا منصوبہ بنایا
اسلام آباد: پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور خیبرپختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ سے پی ٹی آئی کی جانب سے 29 اگست کو ہونے والے قرض دہندہ کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے قبل 6 ارب ڈالر مالیت کے آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی سازش کا انکشاف ہوا ہے۔ آج)۔ لیک ہونے والی ایک آڈیو میں ترین کو پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری سے قرض…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ariesvibe · 10 months
Text
.
10 notes · View notes
akksofficial · 2 years
Text
مریم نواز نے انٹرنیٹ پر ایک شخص سے اس کا نمبر اور پتہ مانگ لیا
مریم نواز نے انٹرنیٹ پر ایک شخص سے اس کا نمبر اور پتہ مانگ لیا
لاہور(نمائندہ عکس)مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز نے انٹرنیٹ پر ایک شخص سے اس کا نمبر اور پتہ مانگ لیا،29ستمبر کو ٹوئٹر پر ایک اکاونٹ سے مریم نواز کو مخاطب کر کے لکھا گیا کہ میں نے آپ کا ٹوئٹر پر بڑا کیس لڑا ہے، آپ نے بلانا تو ہے نہیں، بندہ مٹھائی ہی بھیج دیتا ہے(بڑا کیس لڑیا اے میں تواڈا ٹویٹر تے۔ بلانا تے تسی کوئی نئیں بندا مٹھائی ہی پیج دیندا اے)،مریم نواز جو اکثر سوشل میڈیا پر متحرک رہتی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 3 months
Text
Tumblr media
پتہ نہیں کب تک اس سارے تضاد کے ساتھ رہوں گا۔ کبھی آسمان میرا سینہ ہے اور کبھی زمین کے آتش فشاں میرا خون ہے اور کبھی ایسا بجھ جاتا ہے گویا ساری کائنات میرے لیے کچھ بھی نہیں۔
I don't know how long I will remain with all this contradiction. Sometimes the sky is as if my chest, and at other times as if the earth's volcanoes are my blood, and at other times it is extinguished as if the entire universe means nothing to me.
34 notes · View notes
kafi-farigh-yusra · 6 months
Text
" کیا پتہ قیامت گُزر چکی ہو اور ہم جہنم میں رہ رہے ہوں..؟"
-مستنصر حسین تارڑ
Tumblr media
"Kia pata qayamat guzar chuki hou aur hum jahannum mai reh rhe hon۔۔?"
-Mustansar Hussain Tarrar
49 notes · View notes
ispeakmyhrart · 1 month
Text
جب کسی کا کوئی مر جائے، یا ایک دن ایک عام سی ہنستی کھیلتی صبح اُس کا گھر اُجڑ جائے، جب ایک پرفیکٹ لائف گزارتے ہویے اُس پتہ چلے کہ یہ سب ایک دھوکا ہے، وہ دن کتنے عجیب ہوتے ہیں سورج کی روشنی دل کو کتنا سوگوار کرتی ہے، روڈ پے چلتے ہوئے ہنستے کھیلتے لوگ کتنا حیران کن لگتے ہیں میری زندگی اُجڑ گئی اور یہ سب لوگ کتنے نارملُ ہیں کسی کو کوئی فرق پڑا سب کتنے خوش قسمت ہیں، اور میں کتنا بد نصیب، اُس دن بچون نے کھانا کھایا یا نہی پڑھا یا نہی روز کے مسائل روز کی ڈیوٹیز سب غیر اہم ہو جاتے ہیں، احساس ہوتا ہے زندگی میں کتے بڑے مسلے ہیں، ہنستا کھیلتا چہکتا ہوا لاونج کتنا بے رونق اور disoriented لگتا ہے۔
وہ دن کتا عجیب ہوتا ہے۔
9 notes · View notes
amiasfitaccw · 24 days
Text
عشق_اور_حوس
شادی کے دو ماہ بعد میرے میاں تو فارن اپنی جاب پرچلے گئے ۔ اور میں ساس اور سُسرکے
ساتھ رہ گئی ۔ ہم ایک گراں، گاؤں یعنی پنڈ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اک دوجے
کو جانتا ہے ۔ بڑے شہروں میں تو ہمسائے کو بھی کوئی نہیں جانتا مگر پنڈ میں ایسا نہیں ہوتا
میرے میکے اور سسرالی سارے رشتہ دار تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے ہیں کئی کی تو
دیواریں بھی ایک ہیں ۔ دائیں طرف میری پھوپھی کا گھر تھا بائیں طرف میرے دیور کا
اسی طرح دائیں طرف تین گھر چھوڑ کر ایک بند گلی تھی جس میں میری نند رہتی تھی
أس گلی میں صرف تین گھر تھے ایک میری نند کا ایک اس کے جٹیھ کا اور ان کے سامنے
میری نند کے ساس سسر رہتے تھے وہ گلی میری نند کی سسرال کی ہی سمجھ لیں ۔ تفصیل
اس لئے دی ہے کہ جو واقعہ میں آپ لوگوں سے شئیر کرنے جا رہی ہوں وہ میری نند کے
جیٹھ کے متعلق ہے جو رنڈوا تھا شاھد 28سال سے زیادہ کا تھا ۔سب أسے چاچو کہتے تھے ۔ بلا کا نظرباز تھا اور کافی بدنام تھا ۔ رنڈوا تھا بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی اس نے نہیں کی تھی اور گھرمیں اکیلا رہتا تھا ۔ لوگوں میں اسکے بارے مشہور تھا کہ وہ عورتوں کی جنسی ضرورت پوری کرتا ہے اور ان سے کماتا ہے مگر یقین سے کوئی ایسا نہیں کہ سکتا تھا افواہیں سمجھی جاتی تھیں ۔ میں اکثر اپنی نند کے گھر جاتی تھی کیونکہ ایک تو وہ صرف چند سال بڑی تھی اور ہماری ایک دوجے سے خوب بنتی تھی دوسرا میری ساس ار سُسر بھی خوش رہتے کہ ان کی بیٹی سے اچھی بنارکھی ہے نند کے گھر سے پہلے اس کے جیٹھ کا گھر تھا اور وہ ہمیشہ دروازہ کھول کے اپنی ڈیوڑھی میں بیٹھا رہتا تھا۔ میں جب بھی نند کے ہاں جاتی اس کے گھر کے آگے سے گذرنا ہوتا اور وہ فورا أٹھ کر دروازے پر آجاتا تو حال احوال پوچھنے لگتا
کے حال نیں ، ول تے آہو ناں
میں ۔
شاھد تُسی دسو
وہ ۔ کوئی خط سط وی آوندا نیں کہ اوتھے دل لا گدا نیں
نہ بھی خط آیا ہوتا تو یہی کہتی کہ ایہ کل پرسوں آیا تے چاچو تساں کی سلام لکھیا نیں
وہ۔ ہلا ، تُو جواب دتا تے مینڈا وی لکھیناس ‘ جی چاچو کہہ کے آگے نند کے دروازے کی
طرف بڑھتی ۔ مجھے جن نظروں سے وہ دیکھتا اس میں ہوس صاف ظاھر ہوتی ۔ مرد کی نظر عورت پہچان جاتی ہے کہ وہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ میں آگے نند کے گھر کی جانب بڑھتی تو اس کی میلی نظروں کی حدت کولہوں اور کمر پر محسوس کرتی ۔ وہ تب تک دروازے سے جھانکتا رہتا جب تک میں نند کے گھر میں داخل نہ ہوجاتی ۔ خیر ۔ میں اس کو روزمرہ کی روٹین سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ۔
اردو اور پشتو کی خاص کہانیاں گروپ کی شاندار کہانی شاندار محفل
میرے میاں کو جب چھ ماہ سے زیادہ ہوگئے تو دن بدن میری فطری خواہش بڑھنا شروع ہوگئی اورعورت ہی جانتی ہے کہ مرد پاس نہ ہو تو کیسا عذاب جھیلتی ہےعورت ۔ چاچو عورت کے بارے کافی کُچھ معلومات رکھتا تھا اور اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب ایک دن نند کےگھر جاتے ہوئے أسے درازے پر کھڑا دیکھا تو میں نے اسے سلام بولا تو چاچو نے کہا
سیمو تھکی تھکی وی دسدی ایں خیر کوئی گل نہیں چار پنج دناں بعد تھکاوٹ وی أتر جانی
۔ اس دن مجھے پیریڈ شروع ہوئے دوسرا دن تھا اور اس کو میرا چہرہ دیکھ کے اندازہ ہو گیا ۔
جب کبھی میں ہارنی ہوتی تو نظروں میں نظریں ڈال کے کہہ دیتا کہ سیمو تے بڑی اوکھی اوکھی پئی دسنی اے تے سجن ماہی وی ُدور ۔ میں بات کو ٹال کے آگے بڑھ جاتی ۔ اسی طرح.یہ انٹرٹینمنٹ رومانٹک ناول خاص لوگ گروپ کے لیئے لکھی گئی.
Tumblr media
چلتا رہتا ۔ وہ چونکہ اکیلا رہتا تھا خود تو گھریر کبھی کبھارہی پکاتا اور کھاتا سامنے کے گھر میں چونکہ اس کے والدین رہتےتھے تو ان کے پاس اورکبھی کبھار میری نند کے ہاں بھی
کھالیتا جس طرح عام طور پر ہوتا ہے کوئی اچھی ڈش بنائی جائے تو قریبی اور آس پاس
کے گھروں میں بھی شئیر کرتے ہیں اسی طرح ہم کوئی سپیشل ڈش وغیرہ بناتے تو چاچو
کو ضرور دیتے ۔ یعنی ہم سب گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ اچھی بنا کر رکھتے۔ اور عزیز
واقارب بھی قریب ہی رہتے مگر میرے ساس ُسسر اپنی بیٹی میری نند کی وجہ سے اس کی
سسرال کاخاص خیال رکھتے ۔ اور مجھے اپنی سُسرال کی خوشنودگی عزیز تھی ۔ ایک روز
مجھے خیال آیا کہ میں نے ٹانگوں کے بال کافی عرصہ سے ��اف نہیں کئے جن کے خاوند
پاس ہوں تو باقاعدگی سے کرتی ہیں مگر پردیس گئے پیا کی پیاری سُستی کرجاتی ہے ۔
خیرمیں نے اچھی صفائی کی اور نہا دھو کر اک نواں جوڑا لا کے اپنی نند کے ہاں گئی۔ ہمارے گاؤں میں ان دنوں پردہ وغیرہ نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ ایک ہی برادری کے تھے ہم عورتیں اگر شہر جاتیں تو بُرقعہ لے لیتی تھیں خیر حسب معمول چاچو دروازے پر آگئے اور حال احوال پوچھا اور باتوں ہی باتوں میں کہنے لگے کہ سیمو کوئی عجیب جیہی مشک پی آوندی اے
میں نے کہا پتہ نہیں مجھے تو نہیں آرہی پھر مجھے خیال آیا سیمو مرجانی ایہ تے بال صفا
پوڈر کی بات کر رہا ہے میں تو ہکا بکا رہ گئی اور اس نے بات کو بدل دیا اور میرے نئے جوڑے کی آڑ میں میری تعریف کرنے لگے میں جلدی سے ��گے نند کے گھر چلی گئی ۔ مگر میں کافی نروس بھی تھی اور چاچو کی بات سے کافی شرمندہ شرمندہ بھی اور خجالت محسوس کرنے لگی ، کچھ دیر بیٹھ کے اپنے گھر کو لوٹی تو چاچو دروازے پر ہی اٹکا ہوا تھا
جیسے میرا ہی انتظار کر رہا ہو کہنے لگا نظر بد دُور اج اپنی نظر ضرور اتارنا
میں نے کہا چاچو تسُی وی جو منہ اؤندہ کہہ دیندے او اور جلدی جلدی قدم بڑھا کر گھر آگئی
شام کو میری ساس نے کہا کہ اج تے گُڑ آلے چاولاں تے دل کردا پیا ، میں نے شام کو
گُڑ کے چاول یعنی میٹھے چاول پکائے اور اپنی نند کو دینے گئی تو چاچو جو کہ میری
نند کا جیٹھ لگتا تھا بھی ان کے گھر ہی کھانا کھا رہا تھا وہ کہنے لگا سیمو گُڑا الے چاول
تے مینو وی بڑے چنگے لگدے آ میں کہیا چنگا چاچو تساں وی دے ویساں ۔ گھر آکر کھانا
کھایا اورسریوں کے دن تھے بہت چھوٹے اور لمبی راتیں میرے ساس اور سُسر کھانے سے پہلے ہی عشاء کی نماز سےفارغ ہوگئے تھے اور اپے کمرےمیں چلے گئے تھے ۔ برتن رکھتے ہوئے مجھے یاد آیا چاچو کو تو چاول بھی دینے تھے ۔ اگرچہ اتنی زیادہ دیر نہیں ہوئی تٓھی مگر پنڈ میں تو مغرب کے بعد ہی سُناٹا ہوجاتا ہے میں نےسوچا چاچو کونسا سو گیا
ہوگا اسے چاول دے ہی آؤں ۔ میں نے سردی سے بجنے کےلئے شال لی اور مٹھےچاول چاچو کو دینے گئی ۔ گھر سے نکل کر مجھے خیال آیا ایک تو چاچو چھڑا چھانڈ اور پھر بدنام بھی
اور اگر اس وقت کسی نے اس کے دروازے پر کسی نے دیکھ لیا تو سیمو تیرے پلے کجھ وی
نہیں رہنا ۔ سوچا واپس جاؤں اور کل دن میں اسے چاول دے دونگی مگر پھر خیال آیا
کہ میں نے کونسا وہاں رکنا ہے اور گلی میں تین ہی گھر ہیں وہ بھی اپنے ہی کسی نے
پوچھا تو بول دونگی چاول دینے آئی ہوں اور چاچو کو اپنی نند کے سامنے میں نے بولا تھا
کہ دے جاؤں گی چول ۔ ہم چاول نہیں کہتے چول کہتے ہیں یہی سوچ کر چاچو کے دروازے
پر پہنچ گئی
چاچو کا دروازہ ناک کرنے ہپلے سے میں نے چیک کیا ، دروزاہ کھلا ہوا تھا ۔ آگے
ڈیوڑھی میں اندھیرا گُھپ ، میں نے چاچو کو دو تین بار آستہ آہستہ چاچو کہہ کر بلایا
مگر چاچو شاید اندرکمرے میں اور وہاں تک جانے کے صحن سے گذرنا پڑتا تھا ۔ اک
کمرے میں لالٹین کی روشنی کھڑکی کی درزوں سے جھانک رہی تھی میں نے آہستہ
آہستہ دروازہ ناک کیا تو چاچو کی آواز آئی ’ دروازہ کھلا سیمو اندر لنگ آ‘ میں حیران
ہوئی کہ چاچو کو کیسے پتہ چلا کہ میں دروازے پر ہوں اتنے تک چاچو دروازے پر تھا
بولا ’’کہ میں تمہارے چاولوں کی انتظار میں تھا ‘‘ میں نے پلیٹ چاچو کے ہاتھ میں دی
اور جانے کے لئے مُڑی کہ چاچو نے کہا ٹہر سیمو میں رسوئی میں چاول رکھ کر پلیٹ
تمہیں دیتا ہوں پہلے والے برتن بھی کافی اکٹھے ہوئے پڑے ہیں ، میں بھی ساتھ چلنے لگی
تو چاچو نے کہا تم رکو میں آتا ہوں اتنے میں چاچو جلدی سے کمرے سے جلا گیا اور
تھوڑی دیر میں واپس تو برتن اس کے ہاتھ میں نہیں تھے ۔
چاچو نے کہا ہاں سنا سیمو کوئی خط سط ، میں کہیا دیر ہوگئی میں صبح ہی برتن
لے لاں گی ۔ اور دروازے کی طرف بڑھی اس سے پہلے کہ میں دروازے سے نکلتی
چاچو نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور گلے لگانے کی کوشش کی ، مجھے بڑا غصہ
آیا اور میں نے جھٹکے سے بازو چھڑایا اور بولی چاچو تینو اینی جراءات کس طرح ہوئی
مجھےچاچو کی خراب نیت کا تو اندازہ تھا مگر مجھے یقین تھا کہ چاچو ایسی بے غیرتی نہیں
کرسکتا ۔ اب میں بے یقینی اور اور صدمہ کی کیفیت میں تھی کہ میں کس مصیبت میں
پھنس گئی ۔ اور باہر کی طرف دوڑی مگر چاچو تو کنڈی لگا چکا تھا ۔
Tumblr media
میں نے چاچو کو بولا
دیکھ مجھے جانے دے نہیں تو تمہارے باپ کو بتاؤں گی اس کا باپ سامنے والے گھر میں
رہتا تھا اور پنڈ کا نمبردار تھا ، اس نے مجھے پیچھے سے کمر سے پکڑا اور اپنے طرف کھینچ کے اپنے سینہ سے لگا لیا ، میں کو شش کرنے لگی کہ کسی طرح اپنے آپ کو چُھڑاؤں
ایک خیال آیا زور زور سے شور مچاؤں مگر اس خیال سے رک گئی کہ اس طرح بدنامی تو میری ہی ہوگی اور میں کس طرح کسی کویقین دلاسکونگی کہ اتنی رات میں چاول دینے آئی تھی وہ بھی
ایک بدنام رنڈوے کو ۔ میں چاہتی تھی کوئی ایسی چیزمیرے ہاتھ لگ جائے جو چاچو کے سر
پر مار کر اسے بیہوش کرکے بھاگ جاؤں ۔ مگر کچھ آس پاس نہ تھا میں نے چھڑالیا یا
چاچو نے مجھے آذاد کیا کہ میں دوڑی دروازے کی طرف مگر یہ اندروٹھے کا دوازہ تھا
جو پٹ سے کھل گیا اور اندھیرا ہونے کی وجہ سےدہلیز کے ساتھ ٹھوکر کھا کر میں اندروٹھے
کمرے میں جا گری ( ہماری طرف ایک کمرے کے آگے بھی کمرا بنا دیتے تھے پہلے وقتوں
میں یعنی ایک کمرے میں دو کمرے جن کا مین دروازہ ایک ہی ہوتا تھا ۔ اب شاید یہ رواج
نہیں رہا ۔ اب میں اٹھنے کی کو شش کر رہی تھی کہ چاچو نے پیچھے سے دبوچ لیا میں گھوڑی کی حالت میں تھی یعنی چاروں پاؤں پر اور چاچو مجھے لپٹنے کی ٹرائی کرنے لگا ، مجھے اپنے کولہو پر اس کا اوزارمحسوس ہو رہا تھا میں نے کوشش کی اور کھڑی ہوگئی مگر چاچو میرے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور اس کا ہتھیار میری ٹانگوں کے بیچ تھا میں نے چاچو کو بولا چاچو مجھے جانے دو ۔ دیر بہت ہوگئی ہے ۔ چاچو کچھ بولا نہیں مگر مجھے أٹھا کر پلنگ پر لٹا کر پھر مجھے دبوچ لیا ۔ چاچو کی کوشش تھی کہ کسی طرح میرا بوسہ لے مگر میں اپنے ہونٹ اس سے بچا رہی تھی گالوں پر تو اکا دکا چومیاں لے رہا تھا اور مجھے گلے سے لگا کربھینچ رہا تھا میں نے اسے گالیاں دینی شروع کردیں اور اپنے سے دور دھکیلنے لگی مگر زور ور تھا میں ایک کبوتری کی طرح پھنس چکی تھی وہ میرے مموں کو دبانے لگا اور جسم پر ہاتھ بھی پھیر لیتا ۔
اس کا نیولا سر أٹھا کر کسی سوراخ میں جانے کے لئے میری ٹانگوں کے بیچ ٹکڑیں مار
رہا تھا چاچو نےحرامزدگی کی کہ اپنی چادر دھوتی کھول کے نیچے پھینک دی اب وہ صرف
قمیض پہنے ہوئے تھا اور نیچے ننگا ۔ میں نے اچٹتی نظروں سے اسے دیکھا تو اتنا بُرا نہیں لگا ۔ اب اس نے میری شلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے سختی سے منع کیا مگر اس نے ایک نہ سُنی اور میرا ازار بند کھولنے میں کامیاب ہوگیا ۔ میں نے پھر باندھنے کی کوشش کی
کی اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ شلوار کے اندر ڈال دیا اورمیری ٹانگوں کے سنگم پر رکھدیا
میری منہ سے بے ساختہ سسکاری سی نکلی تو اسنے انگلی وہاں لپس پر پھیرنا اور مساج کرنا
شروع کردیا اب میں اسکے ہاتھ کو ہٹانے کی کوش کر رہی تھی اس کا دوسرا بازو میری کمر کو جکڑے ہوئے تھا اور اس کے ہونٹ برابر کوشش کررہے کہ کسی طرح میرے ہونٹوں تک رسائی حاصل کرلیں مگر میں برابر سر کو ہلا رہی تھی ۔ ادھر اس نے اب انگلی اندر ڈال کر
ہلانا شروع کی اورمیں اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کو کھینچنے لگی ۔مگر اسے ہٹانے کی بجائے دبا بیٹتھی دراصل اب میں شدت سے ٹرائی نہیں کر رہی تھی اور أس کا ٹچ اچھا لگنے لگا مگر میں نےأس پر ظاھر نہ ہونے دیا کہ ہارنا چاہتی ہوں ۔ اس نے یوں ہی مجھے جکڑے رکھا اور خود میری ٹانگوں میں آکر بیٹھ گیا میں نے پاؤں سے اسے دھکیلنےکی کوشش کی تو اس نے میری ٹانگوں کو قابو کرلیا
اب وہ میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھا تھا ۔ اور اس کا باز بڑےناز سے سر أٹھائے اپنے
شکار کی تلاس میں ادھر ادھر اوپر نیچے اپنی ایک آنکھ سے ڈھونڈھ رہا تھا ۔ میری شلوار کا آزار بند تو کھلا تھا مگر شلوار ابھی پہنی ہوئی تھی ۔ اب شاھد
مجھ پر لیٹ گیا اور لپٹ گیا
Tumblr media
اس کے باز نے کُھلے ازار بند کا فائدہ أٹھایا اورسیدھا اپنےشکار سے جا ٹکرایا ۔ چاچو اسے
اوپراوپر سے رگڑنے لگا ۔ وہ مجھے خوار کرنے کی کوشش میں تھا اور میں نے بھی سوچ لیا
تھا کہ اس کو یہ باور نہیں کرنے دونگی کہ میں کمزور پڑ گئی ہوں ۔ مجھے اس کی رگڑ
اچھی لگ رہی تھی چھ ماہ سے زیاد بنا مرد کے ٹچ رہ رہی تھی اور ترس رہی تھی کسی کے مضبوط بازو۔ پیار بوسے شرگوشیوں اور زور دار جھٹکوں کے لئے ۔ چاچو نے میرے نیچے
سے اچانک شلوار کھینچ کر نیچے پھنک دی اب میں اس کے سامنے صرف قمیض میں تھی
نیچا دھڑ ننگا تھا ۔ چاچو کچھ دیر تو میری رانی کو دیکھتا رہا پھر اچانک أس پر جُھک کر
رانی کو چوم لیا ۔ أفف میری سسکاری سی نکل گئی میں نے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اوپر
کیا اور غصہ سے دیکھا ۔ أ س نے جواب میں کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ میری نظریں جھک گیئں یہ ایک قسم کا میرا سرنڈر تھا اس نے اسی جگہ کےدو چار بوسے اور لئے اور اچانک اس نے میری ٹانگیں اپنے شانوں پر رکھ لیں اور اپنے سالار کو میری راجدھانی پر اچانک حملہ کرکے ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ اندر کردیا میری راجدھانی اس حملے کے لئے تیار نہ اس کی دیواریں تک چھل گئیں۔ میں بمشکل اپنی چیخ روک پائی ۔ اب توچاچو اپنے سالار کو کبھی دائیں کبھی بائیں دوڑاتا میں اپنی لذت بھری سسکیوں کو روکنے کی ناکام کوشش کررہی تھی ۔ اور سر کو ادھر أدھرپھینک رہی تھی میری آنکھیں بند تھیں اور میں سُرور کی حدیں چُھو رہی تھی اس کا سالار کافی تجربہ کار تھا اور ہر اس کونے میں چوٹ لگاتا جہاں جہاں لگانے کی ضروت تھی آخ کار اس نے راجدھانی پر فتح کاجھنڈا گاڑ دیا اور اس خوشی میں سوغات کی بوچھاڑ کردی ۔
Tumblr media
مجھے اس وقت جاجو بہت اچھا لگا میں نے اسے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف جھکایا اور اپنے لب اس کے ہونٹوں پر رکھ دئیے جنہیں اس نے خوب چوسا وہ میرے ساتھ ہی لیٹ گیا اور کہنےلگا سوری ۔ میں کچھ نہ بولی اب کچھ بولنےکو شاید کچھ بچا ہی نہ تھا ۔ ہم دونو یوں ہی لیٹےرہے چاچو کچھ کہنے کی کوشش میں رہا مگر میں کسی اور ہی دنیا میں تھی چاچو میرے مموں سےکھیل رہا میں یوں لیٹی رہی کہ چاچو کے نفس نے میری ران کو ٹچ کیا وہ دوبارہ نیم ا یستادہ ہوچکا تھا میں نے اسے چھونا چاہا مگر ایک جھجھک تھی سوچا چاچو کیا سوچے گا ۔ چاچو نے میرے ہاتھ کو بڑھتے او رکتے ہوئےمحسوس کر لیاتھا اس نے میرا ہاتھ اپنےہاتھ میں لے کر دو چار بوسے دیئے اور پھر میرا ہاتھ اپنے شہزادے پر رکھ دیا میں نے شرماتے ہوئے اسے ہاتھ لگایا تو شہزاد ے نے سر اٹھالیا میں نے اس کو ہاتھ میں لے لیا اور ہولے ہولے دبانے لگی ۔ وہ مست ہونے لگا اور جھومنے لگا ۔ وہ اپنی شہزادی سے ملنے کےلئے بے چین نظر آرہا تھا ۔ چاچو میرے نپل چوسنے لگا مجھے بہت مز آرہا تھا میں نے چاچو کو پیچھے دھکیلا اور خود أٹھ کر بیٹھ گئی ۔ چاچو بھی سیدھا ہو کر لیٹ گیا میں اس کے اوپر بیٹھ گئی ۔ شہزادےکو اپنےہاتھ میں لے کر اس پر شہزادی کو ٹکایا اور شہزادے کا سر اس پر پھیرنے لگی پھر شہزادی کو شزادے کے اوپر آستہ آہستہ دبانے لگی اور شہزادی کے اندر پھسلتے ہوئے جانے لگا جب مجھے محسوس ہوا
کہ شہزادہ گھر پہنچ چکا ہے میں چاچو کے اوپر جُھکی اور اسے چومنے لگی اس کے گال
گردن ہونٹ اس کے بالوں بھری چھاتی کے نپل اور ساتھ ساتھ شہزادے کے اوپر شہزادی کو
ہلاتی چاچو نے میرے ہونٹ چوسنےشرو ع کردیئے اور ہاتھوں سے میرے ممے دبانا
مجھے بہت سواد آرہا تھا اب کسی قسم کاڈرنہیں رہا تھا تھوڑی دیر میں میں فارغ ہوگئی
چاچو کو اشارہ کیا اور خود نیچے لیٹ گئی مگر
شاھد نے مجھے گھوڑی بنادیا
اور ایک بار پھر اس نے زبردست انٹری دی ۔ چاچو نے خوب ارمان نکالے اور میری
چولیں تک ہلا ڈالیں آخرکار شہزادے نےشہزادی کا اندر بھرکر خراج ادا کیا ۔
میں نے شلوار پہن لی اور چاچو کو بولا اب جانے دو ۔ چاچو بولا سیمو اینا مزہ
فر کدوں میں کہیا جدوں فر صفائی کیتی اودوں ۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے شکرہے میرے ساس سُسر سوگئے تھے میں باتھ روم میں گئی
تو رانی کو ہاتھ لگا کر دیکھا بیچاری سُوج گئی تھی چاچوکا پہلا وار ہی اس کا کام کر گیا تھا
آج صبح جب اسے صفا کر رہی تھی خیال و خواب میں بھی نہ تھا کہ آج شام کواس کی مانگ
بھری جائیگی اورمن کی مراد پوری ہوگی ۔
چاچو سے پرامس کیا تھا جب بھی صفائی کی تومزہ دونگی اور لوں گی ۔ اور جب تک وہاں ریی ہفتہ میں صفائی ضرور کرتی رہی اور جب صفائی کرکے چاچوکے پاس سے گذرتی تو اس کو مشک آجاتی کہ رات کو دروزہ کُھلا رکھنا ہے....
ختم شد
Tumblr media
10 notes · View notes
my-urdu-soul · 3 months
Text
جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
اِک چراغ بُجھتا ہے، اَک چراغ جلتا ہے
شرطِ غم گُساری ہے ورنہ یوں تو سایہ بھی
دُور دُور رہتا ہے ساتھ ساتھ چلتا ہے
سوچتا ہوں آخر کیوں روشنی نہیں ہوتی
داغ بھی اُبھرتے ہیں چاند بھی نکلتا ہے
کیسے کیسے ہنگامے اُٹھ کے رہ گئے دل میں
کُچھ پتہ مگر اُن کا آنسوؤں سے چلتا ہے
وہ سرودِ کیفِ آگیں سوزِ غم جسے کہیے
زندگی کے نغموں میں ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتا ہے
- رساؔ چغتائی
13 notes · View notes
mazahbigay · 1 year
Text
شادی پر باجی کی ممے کو دیکھ کر بھائی گرم ہو کر مٹھ لگاتا اور بہن غیر مرد کے نیچے لیٹ کر ٹانگیں اٹھا کر پورا اندر لیتی۔ بھائی کو بھی پتہ ہوتا کہ بہن شادی سے پہلے ہی کئی مردوں کے أگے گھوڑی بنی ہے۔ باہر کے جوان مرد جب بہن سے محبت کرتے تو أگے پیچھے سے پوری کھول دیتے۔
Tumblr media
48 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 1 month
Text
یہ شہر ذہن سے خالی نمو سے عاری ہے
بلائیں پھرتی ہیں یہاں دست و پا و سر کے بغیر
کوئ نہیں جو پتہ دے دلوں کی حالت کا
تمام شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر
6 notes · View notes
ariesvibe · 9 months
Text
کبھی کبھی میں رات کے اندھیرے میں اپنے کمرے کے اک خاموش کونے میں آنکھیں بند کیے بیٹھا یہ سوچتا ہوں کی میں زندگی سے ایسے کیسے ہار گیا؟ میں تو وہ تھا جو کبھی بحث میں کسی سے نہیں ہارا کرتا تھا، میں تو وہ تھا کہ جو بات اک دفعہ کہہ دیتا اسے ہر صورت پورا کر کے دم لیتا تھا۔ مگر اب، میں ہر چیز سے ہارا بیٹھا ہوں۔ زندگی سے، اپنے خوابوں سے، اپنی خواہشات سے، اپنی زندگی میں موجود ہر چیز سے، یہاں تک کہ اپنی زات سے بھی ہار چکا ہوں۔ پتہ نہیں زندگی کب ایسی ہوگئی اور کب میں اس مقام تک پہنچ گیا۔ میرے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو مجھ سے ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے کہ میں بے حس ہوں، مجھے کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کوئی رہے نہ رہے، کوئی آئے یا جائے، شاید کسی حد تک ایسا ہی ہے۔ مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ میں کن حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہوں، نا جانے کون کون سی مشکلات اٹھائی میں نے۔ پر میں اپنا آپ ظاہر نہیں کرتا کسی کے سامنے بھی، سوائے اس پاک ذات کے جو دلوں کے راز جانتی ہے، اس کے سوا مجھے کوئی نہیں جانتا۔
احسان زندگی پر کیے جا رہے ہیں ہم
من تو نہیں پھر بھی جیے جا رہے ہیں ہم
9 notes · View notes
aiklahori · 10 months
Text
مجھے نہیں پتہ، یہ تحریر سچی ہے یا فسانہ؛ بس شرط ہے کہ آنکھیں نم نہ ہونے پائیں۔ آپ دوستوں کے ذوق کی نظر:
۔۔۔
میں ان دنوں جوہر شادی ہال کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک نگاہ پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!"
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پیسے نکالے، دو کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا.
بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی.
ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے". اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو۔۔
---
ذریعہ : فیسبک
8 notes · View notes
0rdinarythoughts · 11 months
Text
انسان جو سوتا ہے سب سے بری نیند وہ ہے جسے وہ اپنے پیارے کو کھونے کے بعد سوتا ہے، جب وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ اس کی توانائی ختم ہو جاتی ہے، پھر وہ نہ جانے کیسے سو گیا اور سوچتا ہے کہ سب کچھ تھا ڈراؤنا خواب، پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ نہیں تھا اور یہ خواب حقیقت میں سچ ہے۔
"The worst sleep a person sleeps is the first sleep he sleeps after losing the one he loves, when he closes his eyes after a long cry that his energy runs out, then he wakes up not knowing how he slept and thinks that everything was a scary dream, then he finds out that it wasn't and that the dream is actually real. "
56 notes · View notes
noorayspersona · 1 month
Text
پھولوں کی جھرمٹ میں کنوئیں کے منڈیر پہ گرا ایک زرد پتہ ہوں!
کہ اک خانہ بدوش شخص میری خاطر برسوں بعد وطن لوٹ آئے اس قدر قیمتی تو نہیں ہوں میں!
مشایم عباس
Tumblr media
3 notes · View notes
priiisdope · 11 months
Note
پتہ ہے جب کسی کو بچھرنا ہو وہ ہم سے اجنبی بن کر بات کرنا شروع کر دیتا ہے پھر اُس کو ہماری باتیں بھی ناگوار محسوس ہونے لگتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے بات یہاں آکر ختم ہو جاتی ہے کہ اچھا وقت گزرا ساتھ لیکن ہمارا راستہ الگ الگ ہے بہتر ہے ہم دور ہو جائیں اسی میں بھلائی ہے اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا جو زندگی ہم سے چھپ چھپا کر کرتی ہے🙃❤‍🩹
Bhot hi zyada relatable tha ye to 🥹
Translation -
मालूम होता है कि जब कोई बिछड़ना चाहता है तो हमसे ऐसे बात करने लगता है जैसे कोई अजनबी हो, फिर हमारी बातों से असहज होने लगता है और एक समय ऐसा आता है कि बातचीत यहीं खत्म हो जाती है कि हमने साथ में अच्छा समय बिताया लेकिन हमारे रास्ते अलग है हम दूर हो जाये तो अच्छा है इसी में अच्छाई है क्या बड़ा मज़ाक है जो ज़िन्दगी हम पर छुप छुप कर खेलती है
8 notes · View notes
amiasfitaccw · 8 days
Text
گھر کے حالات
قسط نمبر 3
میں حیرانی سے احسن کی باتیں سن رھا تھا احسن میری طرف دیکھ کر بولا اس لیے کل میں نے کہا تھا کہ گھر کی ذمہ داری پوری کر اور اب یہ تیرے اوپر ھے گھر کی بات گھر میں رھے گی عورت کو لوڑا چاہے ھوتا ھے پھدی اورلو ڑے کا کھیل ایسا ھے اسمیں رشتے سب ختم ھوجاتے ہیں احسن اپنی بات ختم کرکے بولا چل یار چلتا ھوں پھر ملتے ہیں احسن چلا گیا اور میں اسکی باتیں سوچنے لگا اور پھر حریم کے بارے میں سوچنے لگا کہ کس طرح وہ میرے روم میں اچانک آتی ھے اب کچھ سمجھ نہی آرھا تھا کہ یہ سب کیسے ھوگا جبھی موبائل کی بیل بجی میں نے فون اٹینڈ کیا تو دوسری طرف حریم تھی میں نے کال اٹینڈ کی جی حریم بولو
حریم -بھای بزی تو نہی ہیں
میں -نہی بولو کیا بات ھے
حریم -بھای آپ جلدی آسکتے ہیں
میں -کیوں خیریت ھے
حریم-بھای سب خیریت ھے
حریم-بھای مجھے کچھ شاپنگ کرنی تھی
میں - تو تم امی اور خالہ کے ساتھ چلی جاو گھر میں گاڑی ھے ڈراویور ھے انعم کو ساتھ لے لو حریم بولی امی اور خالہ تو تھکی ھوی آی ہیں
میں -اچھا کل پھر ٹائم نیکال کر لے جاونگا ابھی تو میں جم جارھا ھوں
حریم -ٹھیک ھے بھای
حریم نے فون بند کردیا میں جم چل�� گیا جم سے فری ھوکر گھر آیا تو پتہ چلا امی اور خالہ سو رھیں تھیں میں نے شاور لیا ٹراوزر پہنا تو حریم میرے روم میں آگی حریم نے لان کا ہلکا سا سوٹ پہنا ھوا تھا اور نیچے لوز ٹراوز شرٹ میں سے حریم کہ بریزر صاف نظر آرھی تھی میں نے کہا امی اور خالہ کی طبعیت ٹھیک ھے حریم بولی ہاں ٹھیک ھے بس ابھی اٹھ جاینگی حریم بولی آپ کے لیے کھانا لاوں میں نے کہا ہاں لے آو حریم کھانا لے کر آگی اسی طرح جھک کر اس نے کھانا رکھا جس سے حریم کے ممے میری نظروں کے سامنے تھے آج حریم نے بلیک بریزر پہنی ھوی تھی حریم نے کھا نا رکھا اور صوفے پر بیٹھ گی میں کھانا کھانے لگا جبھی حریم بولی بھای ایک بات کرنی ھے آپ سے میں بولا ہاں کہو کیا کہنا ھے حریم بولی بھای یہ جو ہمارے ڈراویور خالد انکل ہیں یہ کچھ مجھے صیح نہی لگتے میں نے کہا حریم یہ ابو کے زمانے سے ہمارے پاس ہیں اور مجھے تو ان میں ایسی کوی بات نظر نہی آتی حریم بولی بھای انکی نظر بہت خراب ھے میں تو انکے ساتھ کہیں نہی جاونگی میں نے کہا تمھارا وہم ھوگا امی اور خالہ بھی تو جاتی ہیں امی اور خالہ نے تو ایسی کوی بات نہی کی حریم بولی بس بھای مجھے خالد انکل اچھے نہی لگتے میں نے کہا اچھا کل میں تم کو بازار لے جاونگا حریم بولی ٹھیک ھے میں کھانا کھا چکا تو حریم برتن اٹھا کر لے گی میں نے کچھ دیر ٹیوی دیکھا اور سو گیا
Tumblr media
صبح اٹھکر وہی روٹیں نہا کر ناشتہ کیا اور پنمپ پر آگیا کام سے فری ھوا تو ابو کے ایک دوست آگے بولے بیٹا میرے ساتھ چل سکتے ھو میں نے کہا جی انکل کہاں جانا ھے انکل بولے بیٹا میں نے ہاکس بے پر ایک ہٹ خریدنا ھے تو وہ پراپڑٹی ڈیلر بلا رھا ھے کہ آکر دیکھ لوں تو تم میرے ساتھ چلو ہم لوگ دیکھ کر آجاتے ہیں میں نے کہا چلیں میں انکی گاڑی میں بیٹھ کر انکے ساتھ ہاکس بے ساحل سمندر پر جہاں ہٹس بنے ھوتے ہیں وہاں آگیا انھوں نے ایک ہٹ کے پاس گاڑی روکی ہم لوگ اندر گے وہاں پراپڑٹی ڈیلر بھی تھا انکل نے اور میں نے ہٹس دیکھا انکل نے مجھ سے پوچھا کیسا ھے میں نے کہا انکل بہت اچھا ھے آپ لےلیں انکل پراپڑٹی ڈیلر سے بات کرنے لگے میں ہٹس کو دیکھنے لگا باھر نیکلا تو اس ہٹس کے تھوڑے فاصلے پر ایک دوسرے ہٹس کی پارکنگ میں مجھے اپنی گاڑی نظر آی جو گھر کے استعمال میں ھوتی ھے میں اپنی گاڑی یہاں دیکھ کر حیران ھوگیا کہ میری گاڑی یہاں کون لے کر آیا انکل بھی پراپڑتی ڈیلر کے ساتھ باھر آگے انکل نے بتایا کہ انکا سودا ھوگیا ھے میں نے کہا ٹھیک ھے آپ یہ خرید لیں اور اچھا بنا ھوا ھے انکل بولے چلو چلتے ہیں اسکو بیانا دے دوں میں نے کہا انکل آپ چلیں مجھے یہاں ایک دوست مل گیا ھے میں اسکے ساتھ آجاونگا انکل بولے چلو ٹھیک پھر ملتے ہیں وہ اپنی گاڑی پر چلے گے میں پیدل اس ہٹ کی طرف چل پڑا جہاں میری گاڑی کھڑی تھی میں ہٹ پر پہنچا اسکا مین دروازہ کھولا اندر گیا تو اندر کی طرف کے دروازے بند تھے اندر سے مجھے باتوں کی آوازیں آرھی تھیں لیکن دروازے بند تھے میں سمندر کی سائٹ سے ہٹ کے اندر آیا تو وہاں پر کچھ کھانے پینے کی چیزیں ٹیبل پر رکھی ھوی تھیں میں ایک کمرے کی طرف بڑھا تو کمرے کا دروازہ بھی بند تھا لیکن ایک سائڈ پر کھڑکی تھی میں کھڑکی کے پاس گیا تو کھڑکی کا پردہ تھوڑا ہٹا ھوا تھا میں نے جب اندر کا نظاری دیکھا تو میرے پیرو کے نیچے سے زمین نیکل گی اندر کمرے میں امی اور خالہ دونو ں ننگی بیڈ پر لیٹی ھوی تھیں
امی اور خالہ بلکل رنڈیوں کی طرح ننگی بیڈ پر لیٹی ھوی تھیں امی اور خالہ کا گورا سیکسی بدن دیکھ کر لن بھی جھٹکے مار رھا تھا پہلی دفہ میں امی اور خالہ کو اس طرح ننگا دیکھ رھا تھا میرے دماغ میں احسن کی باتیں گونج رھیں تھیں وہ صیح کہہ رھا تھا کہ گھر کی ذمہ داریاں پوری کروں اب مجھے پتہ چلا کہ امی اور خالہ خالد انکل کے ساتھ کیوں جاتی ہیں اور حریم ٹھیک کہہ رھی تھی میں کھڑکی کے باھر سے اپنی ماں اور خالہ کو ننگا دیکھ رھا تھا بہت سیکسی جسم تھا بڑے بڑے ممے اور بڑے بڑے چوٹر جو مجھے بھی بہت پسند تھے
ان دونوں کے سامنے خالد انکل اور وہ دوسرا آدمی اسکو میں نہی جانتا تھا ننگے کھڑے اپنے اپنے لن کو سہلاتے ھوے آگے بڑھے ایک نے اپنا لوڑا میری خالہ کی پھدی میں ڈال کر خالہ کے اوپر چڑھ گیا خالد انکل نے اپنا لوڑا میری امی کی پھدی میں ڈال کر انکے اوپر چڑھ گیا دونوں چودای میں مصروف ھوگے جبھی امی بولیں
Tumblr media
خالد اب تیرے لن میں جان نہی ھے چود ذور ذور سے یہ آواز میری امی کی تھی میں اپنی سوچوں سے باھر نیکلا اور دوبارہ کمرے میں دکھنے لگا اور خالد انکل جو ہمارے ڈراویور تھے وہ امی کے اوپر چڑھے ھوے تھے اور ایک دوسرا آدمی خالہ کے اوپر چڑھا ھوا تو چاروں ننگے تھے اور چودنے کے کام مصروف تھے دوسرا آدمی جو خالہ پر چڑھا ھوا تھا امی اور خالہ دونوں اپنی پھدیاں غیر مرد سے مروارھی تھیں امی بول رھی تھی چود اور تیز آہ اوفففففف مجھ سے اب یہ سب برداشت نہی ھوا وہ میں نے دروازہ پر ذور لگایا تو وہ کھل گیا میں کمرے میں داخل ھوا تو امی اور خالہ نے مجھے کمرے میں دیکھا تو تو چیخ مار کر اٹھ گیں وہ دونوں مرد بھی کھڑے ھوگے خالد انکل مجھے دیکھ کر پریشاں ھوگے دوسرا آدمی مجھے دیکتھے ہی ننگا باھر کی طرف بھاگ گیا سب سے پہلے تو میں نے خالد انکل کا موبائل اپنے قابو میں کیا کہ کہیں بعد میں کویی پرابلم نہ ھوامی اور خالہ نے اپنے جسم کو بیڈ شیٹ سے چھپا لیا تھا میں نے خالد انکل کو کہا بہت افسوس کہ بات ھے مجھے آپ سے ایسی امید نہی تھی میں نے کہا گاڑی کی چابی دیں اور اب آپ کو گھر آنے کی ضرورت نہی ھے وہ شرمندہ ھوکر وہاں سے کپڑے پہن کر نیکل گے میں نے خالہ اور امی سے کہا آپ لوگ بھی کپڑے پہن کر گاڑی میں آجائیں میں باھر گاڑی میں بیٹھا ھوں کچھ دیر کے بعد امی اور خالہ دونوں گاڑی میں آکر بیٹھ گیں میں نے گاڑی نیکالی اور ان دونوں کو لے کر گھر پہنچ گیا گارڈ نے دروازہ کھولا گاڑی اندر کھڑی کی حریم مجھے امی اور خالہ کے ساتھ دیکھ کر پریشان ھوگی میں سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا مجھے احسن کی بات صیح لگی اسکا کہنا بلکل ٹھیک تھا کہ مجھے گھر پر دھیان دینا چاھے اور گھر کی ذمہ داریاں بھی پوری کرنی چاہے اب مجھے بھی احسن کی طرح گھر میں چدای شروع کرنی چاھیے ورنہ یہ تو باھر کے مردوں سے پھدیاں مروانا شروع کردینگی انکی بھی غلطی نہی ھے سیکس تو ہر کسی کی ضرورعت ھے اب مجھے ھی انکی پھدیاں مارنی ھونگی جبھی حریم روم میں آی اور بولی بھای کیا ھوا آپ امی اور خالہ کو کہاں سے لاے میں نے کہا امی اور خالہ نے نہی بتایا حریم بولی نہی وہ دونوں اپنے کمرے میں ہیں اور دروازہ بند ھے میں نے کہا کیا بتاوں حریم بولی کچھ تو میں نے کہا امی اور خالہ خالد انکل کے ساتھ ہاکس بے کے ایک ہٹ کے اندر پھدی مروارھی تھیں
Tumblr media
میرے منہ سے یہ سن کر حریم منہ پر ھاتھ رکھ کر بولی اوہ بھای پھر میں نے حریم کو ساری اسٹوری بتای حریم بولی بھای مجھے اس بات کا کچھ اندازہ تھا لیکن کنفرم نہی تھا جبھی میں نے صبح آپ سے کہا تھا کہ خالد انکل صیح آدمی نہی ہیں حریم بولی اب بھای کیا ھوگا میں نے کہا کچھ نہی امی اور خالہ سے تم کوی بات نہی کرنا اب میں ہی اس پرابلم کو حل کرونگا حریم بولی کیا حل ھے اسکا میں نے حریم کے مموں کو دیکتھے ھوے کہا کہ تم سب کی خواہشیں پوری کرنا مطلب اپنی ساری ذمہ داریاں پوری کرنا حریم کو بھی پتہ چل رھا تھا کہ میں اسکے مموں کو دیکھ رھا ھوں وہ تھوڑا اور جھکتے ھوے بولی بھای یہ تو بہت اچھی بات ھے آپ ہماری ذمہ داریاں پوری کرنیگے حریم اسی طرح جھکی مجھے
اپنے مموں کا نظارہ کرواکر بولی بھای آپ گھر کے بڑے ہیں اب آپ ہی نے سب کچھ کرنا میں نے حریم کو دیکتھے ھوے کہا کیا کروں وہ سیدھی ھوتے ھوے بولی جو بھی کرنا چاہیں میں نے حریم کا ھاتھ پکڑ کر کہا تم راضی ھو حریم شرماتے ھوے بولی جی بھای میں راضی ھوں جب آپ کہینگے میں دے دونگی میں نے کہا کیا دوگی حریم مسکراتے ھوے جو بھی آپ لینا چاہیں اور روم سے باھر نیکل گی میں نے آنکھیں بند کی اور آج کے سارے واقعات کو سوچتا ھوا سو گیا
Tumblr media
شام کو حریم نے مجھے اٹھایا میں نے آنکھیں کھولیں تو میرے سامنے حریم کھڑی تھی حریم نے نہا کر آی تھی بال کھلے ھوے ہلکا ہلکا میک اپ کھلے گلے کی سیگرین شڑت نیچے ٹائٹ لیگیز جو اس کے جسم پر فیٹ تھی میں نے حریم کو دیکھ کر پوچھا کہا جارھی ھوں حریم بولیں آپ کے ساتھ میں نے اٹھتے ھوے کہا میرے ساتھ کہا جاوگی حریم بولی پیزا کھانے میں نے کہا اوکے چلینگے حریم روم سے چلی گی میں واش روم گیا نہا کر ننگا اپنے روم میں آیا تو دیکھا سامنے صوفےپر امی اور خالہ بیٹھی ہیں میں نے جلدی سے بیڈ سے ٹاول اٹھا کر لپیٹا امی اور خالہ کی نظریں میرے لن پر تھیں خالہ مجھے دیکتھے ھوے بولیں بیٹا آج جو کچھ ھوا اس پر ہم لوگ شرمندہ ہیں اور آیندہ ایسا نہی ھوگا ہمیں معاف کردو میں امی اور خالہ کے سامنے بیٹھ گیا اور دونوں کو ھاتھ پکڑ کر بولا مجھے اندازہ ھے اب آپ لوگ معافی نہ مانگیں آپ دونوں کی مجبوری سمجھ سکتا ھوں لیکن باھر کے لوگوں کے ساتھ آپ دونوں پھدی مروا رھی تھیں بس یہ صیح نہی تھا کل کو وہ آپ لوگوں کر بلیک میل کرتا ہمیں بدنام کرتا پھر کیا ھوتا اب جو ھونا تھا ھوگیا اب میں نے سوچا ھے کہ اس گھر کی یہ ذمہ داری بھی میں ہی پوری کرونگا امی اور خالہ نے حیرانی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا پھر میری طرف دیکھتے ھوے امی بولیں بیٹا یہ کیا کہہ رھے ھو میں نے کہا صیح کہہ رھا ھوں جو کام گھر میں ھو وہ گھر تک ہی رہتا ھے باھر والے کو کیا پتہ کہ ہم گھر میں کیا کرتے ہیں خالہ بولیں یہ غلط ھوگا گھر میں تمھاری بہنیں بھی ہیں میں نے کہا کوی مسلہ نہی اس سے پہلے کہ کوی باھر والا انکو چود دے تو پھر گھر میں چود والیں تو ٹھیک نہی ھے مرے منہ سے یہ باتیں سن کر امی بولیں تم کچھ زیادہ ھی بول رھے ھو میں نے کہا وہ اس لیے بول رھا ھوں کہ آج آپ دونوں کو پھدی مرواتے دیکھا ھے بولیں میں صیح کہہ رھا ھوں
Tumblr media
امی بیٹا وہ غلطی ھوگی بس امی اور خالہ نظریں نیچے کیے بیٹھیں تھیں میں نے امی کا چہرہ اوپر کیا اور بولا میں بھی احسن کی طرح گھر کی ذمہ داری پوری کرونگا امی اور خالہ حیرانی سے دیکتھے ھوے بولیں مطلنب احسن بھی اپنی امی کی مارتا ھے میں نے کہا جی دیکھا نہی کتنی خوش تھیں وہ اور اسکی بہن وہ اپنی بہن کی بھی مارتا ھے میں نے پھر کہا کہ بس اب میرا یہ فیصلہ ھے کہ آپ سب کی جنسی خواھشات میں پوری کرونگا امی اور خالہ میری طرف دیکھ کر بولیں تو یہ تمھارا آخری فیصلہ ھے کہ اب تم اپنی ماں بہن اور خالہ کی پھدی ماروگے میں نے کہا جی
خالہ اپنی جگہ سےاٹھکر میری گود میں بیٹھتے ھوے بولیں مجھے منظور ھے خالہ کے بڑے چوٹر لن پر رکھ کر بیٹھی ھوی مجھے پیار کرتے ھوے بولیں میں تو راضی ھوں تم سے چدوانے کے لیے خالہ امی سے بولیں باجی میرا خیال ھے کہ کامران ٹھیک کہہ رھا ھے اب ہم سب کامران سے پھدی مرواینگے امی کیسی باتیں کر رھی ھو شرم کرو خالہ بولیں باجی کامران نے اب خود ہمیں ننگا پھدی مرواتے دیکھا ھے اب کیسی شرم خالہ میرے گال پر پیار کرنے لگیں ٹاول کے نیچے لوڑا بھی فل کھڑا ھوگیا خالہ لوڑے کو فیل کرتے ھوے بولیں لگتا ھے بہت جاندار لوڑا ھے خالہ امی کی طرف دیکھ کر بولیں باجی میرے بھانجے کا لوڑا بہت زبردست ھے
امی خالہ کی طرف دیکھ کر بولیں شرم کرو میں نے امی کا ھاتھ پکڑ کر سہلاتے ھوے کہا امی آپ کیا کہتی ھو امی اٹھکر کھڑی ھوگیں اور بولیں میں سوچ کر جواب دونگی نیچے میرا لوڑا کھڑا ھوکر خالہ کی گانڈ کو ٹیچ کر رھا تھا خالہ میری گود سے اٹھ کر کھڑی ھویں میرے لن کو پکڑ کر بولیں بہت جاندار لگ رھا ھے میرے ہونٹوں پر کس کرکے بولیں تمھاری امی کو میں منا لونگی ہم سب تمھارے لوڑے سے اپنی پھدیاں مروانگی یہ کہتے ھوے خالہ کمرے سے باھر نیکل گیں
Tumblr media
میں نے ٹاول اتارا تو میرا لوڑا خالہ کی گانڈ کی گرمی سے فل کھڑا ھوا تھا میں لوڑے کو ھاتھ میں پکڑ کر سہلاتے ھوے بولا اب تو گھر کی گرم پھدیوں کو چودنا ھے جبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور حریم اندر داخل ھوی مجھے ننگا دیکھ ک�� میرے لوڑے کو دیکھنے لگی میں نے حریم سے کہا کیا دیکھ رھی ھو حریم دروازہ بند کرکے آندر آی اور مجھ سے لیپٹ کر بولی بھای بس اب مجھے بھی آپ نے چودنا ھے مجھ سے اب برداشت نہی ھوتا آپ نے جو فیصلہ کیا ھے مجھے منظور ھے وہ مجھ سے لیپٹ کر دیوآنہ وار پیار کررھی تھی اپنی پھدی اور ممے میرے جسم سے رگڑتے ھوے بولی آج رات میں آپ کے کمرے میں سونگی پوری رات آپ مجھے چودنا میں نے حریم کو پیار کرتے ھوے اپنے سے الگ کیا حریم میرے لوڑے کو پکڑ کر بولی بھای بہت شاندار لوڑا ھے اور نیچے بیٹھ کر لوڑے کو چوسنے لگی میں نے کہا جان صبر کرو آج رات کو تمھاری پھدی مارونگا ابھی باھر چلتے ہیں پیزا کھاتے ہیں پھر چودای کرنگے حریم کھڑی ھوگی اور مجھے پیار کرتے ھوے بولی اوکے آپ کپڑے پہن کر آئو
جاری ہے
Tumblr media
3 notes · View notes