Tumgik
#طاقتوں
akksofficial · 2 years
Text
قوم سب طاقتوں سے لڑ کر حقیقی آزادی حاصل کر رہی ہے، اسد عمر
قوم سب طاقتوں سے لڑ کر حقیقی آزادی حاصل کر رہی ہے، اسد عمر
لاہور (نمائندہ عکس ) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ قوم سب طاقتوں سے لڑ کر حقیقی آزادی حاصل کر رہی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے جاری کردہ ٹوئٹ پیغام میں اسد عمر نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ گاڑیوں میں کیش بھر کے لاہور لا کر اسمبلی اراکین کے ضمیر خرید کر پنجاب کے عوام کا مینڈیٹ چرا لے گا اور قوم خاموشی سے دیکھتی رہے گی تو وہ یہ بھول جائے۔ جاری کردہ ٹوئٹ میں اسد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 2 years
Text
عالمی طاقتوں کا مہرہ بننے سے گریز کریں، چین نے ایشیائی ممالک کو خبردار کر دیا
عالمی طاقتوں کا مہرہ بننے سے گریز کریں، چین نے ایشیائی ممالک کو خبردار کر دیا
انڈونیشا : (ویب ڈیسک) چین نے ایشیائی اقوام کو خبردار کیا ہے کہ عالمی طاقتوں کا مُہرہ بننے سے گریز کریں۔ انڈونیشا کے دارالحکومت جکارتا میں آسیان سیکرٹریٹ میں ایک خطاب کے دوران چین کے وزیر خارجہ وانگ یی ( Wang Yi) نے کہا کہ خطے میں کئی ممالک پر دباؤ ہے کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کریں یا کسی ایک طاقت کی حمایت کریں۔ وانگ یی نے مزید کہا کہ ایک ایسے خطے کو جسے جیو پولیٹیکل عوامل کی طرف سے تشکیل نو کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 5 months
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
Tumblr media
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
Tumblr media
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر   یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
پاکستان کا مستقبل امریکا یا چین؟
Tumblr media
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بلاشبہ دونوں ممالک کی دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ چین نے ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جب پاکستان دہشت گردی اور شدید بدامنی سے دوچار تھا اور کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چین کی جانب سے پاکستان میں ابتدائی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 62 ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اب تک 27 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک منصوبوں سے اب تک براہ راست 2 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملے اور چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصہ بنی۔ سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے، لیکن منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے پروجیکٹس کے بعد سی پیک کے دیگر منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی اکنامک زونز کا قیام تھا جس کے بعد انڈسٹری اور دیگر پیداواری شعبوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک خصوصی اکنامک زونز قائم کرنے کے منصوبے مکمل نہیں کیے جا سکے۔
سی پیک منصوبوں میں سست روی کی ایک وجہ عالمی کورونا بحرا ن میں چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور دوسری وجہ امریکا اور مغربی ممالک کا سی پیک منصوبوں پر دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی ترجیحات اور رفتار پر تو تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اور موجودہ معاشی مسائل کا حل اب سی پیک کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو پر مبنی لیک ہونے والے حساس ڈاکومنٹس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو اسٹرٹیجک پارٹنر چننا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات خصوصا مشرقی وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اب چین عالمی سیاست کا محور بنتا نظر آرہا ہے۔
Tumblr media
پاکستان کو اب امریکا اور مغرب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کر کے چین کے ساتھ حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہو گی چاہے اس کے لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چین کی طرف سے گوادر تا کاشغر 58 ارب ڈالر ریل منصوبے کی پیشکش کے بعد پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک سمت دے سکتا ہے بلکہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان چین کو بذریعہ ریل گوادر تک رسائی دیکر اپنے لیے بھی بے پناہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تاحال سی پیک کے سب سے مہنگے اور 1860 کلومیٹر طویل منصوبے کی پیشکش پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے فیصلہ ساز امریکا کو ناراض کر کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے یا دونوں عالمی طاقتوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی جزوقتی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے مفادات براہ راست امریکا اور مغربی ممالک سے وابستہ ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے بچے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت کے پاس امریکا اور مغربی ممالک کی دہری شہریت ہے۔ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی اور سرمایہ کاری امریکا اور مغربی ممالک میں ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک ہی اشرافیہ کے ان افراد کا ریٹائرمنٹ پلان ہیں۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قربان کر کے چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ان کوخوف ہے کہیں روس، ایران اور چین کی طرح پاکستان بھی براہ راست امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ریٹائرمنٹ پلان برباد ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین خارجہ پالیسی کا مطلب تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات اور معاشی ترقی کے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ لیکن ماضی میں روس اور امریکا کی سرد جنگ کے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے لیے امریکا اور چین کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات کی قربانی کا فیصلہ کرنا ہو گا تو کیوں نہ پاکستان مشرقی وسطیٰ میں چین کے بڑھتے کردار اور اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کرے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا لیکن عالمی حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر مسرت امین    
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes · View notes
urduchronicle · 3 months
Text
اس لمحے سے اگلے ہزار سال کی بنیاد رکھنی ہے، مودی نے متنازع رام مندر کا افتتاح کردیا
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کے روز شمالی ہندوستان کے شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر بنے متنازع رام مندر کا افتتاح کردیا۔ مودی حکومت نے اس مندر کو مسلم اور نوآبادیاتی طاقتوں کی طرف سے صدیوں کی محکومیت کے بعد ہندو بیداری کے طور پر پیش کیا ہے، اس واقعہ کو مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں مودی کی غیر معمولی تیسری مدت کے لیے انتخابی مہم کے لیے ایک اہم عنصر کے طور پر بھی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
roshanquotations · 4 months
Text
 دل کو جلاتے ہوئے مقصد کی تلاش میں سفر
ہر شخصیت کے دل میں ایک چمک ہوتی ہے جو کہ ہمیشہ اڑتی رہتی ہے، ایک خواب کا امکان ہوتا ہے۔ مقصد کی تلاش میں دل کو جلانا ایک راستہ ہے جو ہمیں اپنی طاقتوں اور قدرتوں کو شناخت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ حسین حسین خواب ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے کی راہ میں راہنمائی کرتے ہیں۔ Read More
Tumblr media
0 notes
pakistanpress · 5 months
Text
ریاست کا سیاسی اور معاشی بحران
Tumblr media
ریاست اوراس سے جڑے سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی بحران کو سمجھنے کے لیے بنیادی نقطہ یہ ہے کہ یہاں ریاست اور حکومت کی حکمرانی کا نظام ’’ اقتدار کے حصول کی سیاست ‘‘ سے جڑا ہوا ہے۔ اقتدار کا حصول ایک فطری نظام ہے لیکن اگر اقتدار کی سیاست میں سے عوام کو عملی طور پر نکال دیا جائے تو ایسی حکمرانی یا ریاستی نظام اپنی ساکھ سمیت افادیت کے عمل کو بھی کھو دیتا ہے یہ ہی حقیقت ہے کہ ایک طرف ہماری سیاسی قیادت کا مرکزی نقطہ اقتدار کی سیاست ہے تو دوسری طرف غیر سیاسی قوتیں بھی ’’ طاقت کی حکمرانی ‘‘ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور اسی کشمکش کا کھیل ’’ عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی ‘‘ کے نظام کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے یا طاقت کی حکمرانی کے نظام میں عوامی مفادات کی ترجیحات کا عمل بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ دنیا میں ریاستی یا حکمرانی کے نظام کی کنجی عوام یا ریاستی سطح پر عوام سے کیے گئے وعدوں, معاہدوں پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست میں عوام کی حیثیت محض ایک بڑے سیاسی تماشائی کے اور کچھ بھی نہیں اور لوگوں کو نہ صرف سیاسی اور معاشی معاملات کی سطح پر اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ مجموعی حکمرانی کے نظام میں ان کی شمولیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
یہاں تک کہ جمہوری معاشروں میں عوامی حکمرانی کے لیے عوام کو ووٹ کی مدد سے حکمرانی کے نظام میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق قیادت کا انتخاب کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ مگر ہماری سیاسی تاریخ ہو یا انتخابی تاریخ ہمیں یہ ہی سبق دیتی ہے کہ یہاں حکمرانی کا نظام جو بذریعہ عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر سامنے آتی ہے، یہ مکمل سچ نہیں۔ کیونکہ عوام کے ووٹوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کی اپنی مرضی، منشا اور خواہشات سمیت کسی کی حمایت یا مخالفت کی بنا پر انتخابی نظام پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں یہ پیغام واضح ہے کہ ہمیں عوام کو اپنی سیاسی طاقت بنانے کے بجائے اصل توجہ پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات کی بہتری پر لگانے چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات عوام کی حمایت کے بجائے پس پردہ قوتوں کی حمایت سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کا بنیادی نقطہ عوامی مفادات ہی ہوتے ہیں اور اسی نقطہ کو بنیاد پر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر عملی طور پر ہمارا مجموعی ریاستی، سیاسی یا حکومتی نظام بڑے طاقتور طبقات کے گرد گھومتا ہے اور ان ہی کے مفادات کو ہی بالادستی حاصل ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج کا ریاستی و حکومتی نظام اور عوام میں ایک بڑی سیاسی , سماجی اور معاشی خلیج واضح نظر آرہی ہے۔
Tumblr media
لوگوں کو اپنے ہی ریاستی و حکومتی نظام پر اعتماد کا عمل کمزور ہورہا ہے۔ ایک طرف عوامی مفادات پر مبنی کمزور حکمرانی کا نظام اور دوسری طرف ریاستی یا سیاست کے عمل میں سیاسی فریقین کے درمیان محاذ آرائی ، ٹکراؤ ، نفرت، تشدد، تعصب او ر ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا عمل ہمارے مجموعی ریاستی عمل یا نظام کو کمزور کررہا ہے۔ یہ جو طبقاتی حکمرانی کا نظام ہے جہاں طاقتور اور کمزور افراد یا محروم طبقات کے درمیان مختلف اور تضادات پر مبنی پالیسیاں ہیں وہی معاشرے میں ایک بڑے انتشار کا سبب بن رہی ہیں۔ ریاستی یا حکومتی بحران کا پیدا ہونا ایک مسئلہ مگر اس بحران کو حل کرنے کے بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا دوسرا مسئلہ اور عوامی حکمرانی کے بجائے طاقتور افراد یا اداروں کے درمیان حکمرانی کے نظام کے تانے بانے تیسرا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ریاستوں میں مسائل کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے مگر اگر ہم اپنی سیاست اور سیاسی یا ریاستی فیصلوں کو بنیاد بنا کر ان مسائل کو حل نہیں کریں گے تو کیونکر لوگوں کا ریاستی یا حکومتی نظام پر اعتماد بحال ہو گا۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ’’ طاقت کی لڑائی‘‘ میں جو بھی سیاسی یا غیرسیاسی فریق شامل ہیں سب کو ہی طاقت کی حکمرانی کا نشہ ہی سوار ہوا ہے اور ہمیں عوامی مسائل یا اس سے جڑے مشکلات پر کوئی نہ تو حیرانگی ہے اور نہ ہی اس کو حل کرنے کے حوالے سے ہماری کوئی عملی کمٹمنٹ نظر آتی ہے۔
سیاسی جماعتیں بالخصوص جو اقتدار میں شامل ہوتی ہیں ان کے پاس دو ہی نقطہ ہوتے ہیں اول عوامی مسائل کا درست ادراک اور اس پر ٹھوس منصوبہ بندی اور دوئم ان مسائل کے حل میں ان کا روڈ میپ اور عملدرآمد کا موثر نظام ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی سطح پر عملا سیاسی جماعتوں کے منشور اور پالیسیوں کو دیکھ لیں تو اس میں عوامی مسائل کی جھلک کم یا عملی منصوبہ بندی اور وسائل کی درست تقسیم کا عمل بھی کمزور نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے خود کو اس حد تک کمزور کر لیا ہے کہ ان کی سیاسی حیثیت بھی متاثر ہوئی ہے اور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام کی کمزوری ان کو اور زیادہ سیاسی تنہائی میں مبتلا کررہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جو علمی و فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا واضح اور گہرا فقدان ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے بانجھ پن کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بنتے جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ وہ ایک کمزور وکٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتیں تواتر کے ساتھ طاقتور ہوتی جارہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہی ایک متبادل نظام پیش کرتی ہیں اور جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کی اپنی اہمیت بھی ہوتی ہے اور لوگ ان پر بھروسہ بھی کرتے ہیں۔
لیکن جو آج ہماری سیاسی جماعتوں کا انداز سیاست ہے اس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں۔ کیونکہ موجودہ سیاسی جماعتوں کا نظام خود ایک مثبت اور بڑی تبدیلی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلوں کے بغیر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش نہیں کیا جاسکے گا۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلیشمنٹ ، سب کو ہی سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ کیونکہ جس انداز میں ریاستی عمل کمزوری کی جانب بڑھ رہا ہے وہ تشویش کا پہلو ہے اور ہمیں ریڈ لائن کی طرف لے کر جارہا ہے۔ سیاسی، سماجی، قانونی اور انتظامی سمیت معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومی اور استحصا ل کی سیاست یا حکمرانی عوام کو مزید تنہا کررہی ہے۔ یہ عملا مشکل حالات ہیں اور غیر معمولی بھی اور اس کا علاج بھی غیر معمولی ہی ہونا چاہیے۔ یہ جو ہمارے شاندار الفاظ ہیں یا جذباتیت پر مبنی نعرے یا خوش نما دعووں کی سیاست ہو یا سب کچھ مثبت طور پر بدلنے کی لگن، شوق اور جنون ہو جب تک عوام ان معاملات کو حقیقی معنوں میں تبدیل یا بہتر حالات کی صورت میں نہیں دیکھیں گے تو کچھ نہیں بدلے گا۔ کاش ہمارا ریاستی اور حکومتی نظام عام آدمی یا محروم طبقات کی کمزور آوازوں کو سن سکتا اور ان کے کانوں میں عام آدمی کی صدائیں گونجتی کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں یا ان کی سیاسی اور معاشی توقعات کیا ہیں۔
ہمارے ریاستی یا حکومتی نظام کو گونگے یا بہرے پن سے باہر نکلنا ہو گا۔ کھلی آنکھوں سے اور لوگوں کی آوازوں سے جائزہ لینا ہو گا کہ لوگ حقیقی معنوں میں کہاں کھڑے ہیں اور کیونکر ان میں مایوسی یا لاتعلقی کا عمل بڑھ رہا ہے۔ آمدنی اور آخراجات میں بڑھتے ہوئے عدم توازن اور دیگر سیاسی و معاشی یا قانونی نا ہمواریوں نے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں کم اور مشکلات زیادہ کھڑی کردی ہیں یہ جو ہم سیاسی , سماجی محاذ پر اسلامی , جمہوری اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا یا ہمیں یہ خواب دکھایا گیا تھا اس کی تکمیل, تعبیر کیسے ممکن ہو گی اور کیسے عوام یا لوگوں کا اجتماعی شعور اس بات کو تسلیم کرے گا کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام کمزور آدمی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہر سطح پر بڑی تبدیلیاں درکار ہیں۔ یہ تبدیلیاں سخت گیر بھی ہونگی اور کڑوی بھی لیکن اس کڑوے پن کو ہضم کرنا ہو گا۔ طاقتور لوگوں کو حکمرانی کے نظام میں جوابدہ بنانا اور ان کے مقابلے میں کمزور افراد کو طاقتور بنانا ہی ہماری ریاستی و حکومتی ترجیحات کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب ہم طاقت کی حکمرانی کے نشے سے باہر نکل کر عوامی خدمت یا عوام کی حالت بدلنے کی حکمرانی کو اپنی بڑی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنالیں۔ لیکن اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارا حکمرانی کا نظام لوگوں میں مزید تکالیف پیدا کرے گا اور یہ پہلے سے موجود بداعتمادی کے ماحول میں اور زیادہ بداعتمادی پیدا کرے گا جو ریاستی نظام کی مزید کمزوری کا سبب بنے گا۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
apnabannu · 5 months
Text
وہ نظریہ جس کے تحت امریکہ نے یورپی طاقتوں کو دھمکا کر خطے کے ’پولیس مین‘ کا روپ دھار لیا
http://dlvr.it/SzgdmV
0 notes
emergingkarachi · 5 months
Text
محسن پاکستان ۔ نہ بھولنے والی شخصیت
Tumblr media
جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں ان کی ناقدری کرتی ہیں ایسی قوموں کا مستقبل روشن ہر گز نہیں ہو سکتا۔ قوموں کی زندگی میں خوش قسمتی سے ایسے ہیروز پیدا ہوتے ہیں جو ان میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے ہیرو گزرے ہیں جنھوں نے اپنے وطن کے دفاع اور ترقی کے لیے ہر وہ قربانی پیش کی جس کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا شمار بھی ایسے ہی ہیروز میں ہوتا ہے۔ وہ یورپ کی پُر آسائش زندگی کو خدا حافظ کہہ کر پاکستان آئے تاکہ ملک کے لیے ایٹمی طاقت بنانے کی جدوجہد میں مصروف سائنسدانوں کی ٹیم کا حصہ بن جائیں۔ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر جب ماضی کو یاد کرتے تھے تو ان کا لب و لہجہ دیدنی ہوتا تھا۔ وہ ماضی کی یادوں کو ایسے بیان کرتے کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا کہ وہ کیسے کٹھن حالات تھے جن میں انھوں نے اور ان کے رفقاء کار نے ایٹم بم بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر ان کی زندگی میں وہ دن بھی آگیا کہ جب پاکستان ایٹمی دھماکے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 
وہ بتاتے تھے کہ یہ ان کی زندگی کا وہ تاریخی دن تھا جس کا وہ ایک مدت سے انتظار کر رہے تھے اور اس کامیابی کے لیے شبانہ روز محنت کی جارہی تھی۔ اس خوشی کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ہے، یہ ان کی ذات کی کامیابی تو تھی ہی لیکن اس کامیابی نے ان کے ملک اور امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ الف لیلوی داستان ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں نے جس مشن کو ناکام بنانے کی بھر پور کوشش کی وہ مشن نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ اس سے اگلے مشن کی بھی تیاری شروع کر دی گئی۔ دفاع وطن کے اس اہم ترین مشن میں ہر حکومت نے اپنے اپنے حصے کا کام کیا، ڈاکٹر قدیر اور ان کو ہر وہ مدد فراہم کی گئی جس کی ان کو ضرورت تھی۔ وہ اس بات کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ کسی بھی حکومت نے ایٹم بنانے کے عمل کے دوران کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کیا تھا بلکہ وہ خاص طور پر ذکر کرتے تھے کہ ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے مختلف ذرایع استعمال کیے گئے اور کہیں نہ کہیں سے اس کے حصول کو ممکن بنایا گیا۔
Tumblr media
ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا ضیاء الحق یا ان کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان سب نے اس میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو صاحب نے ایٹم بم بنانے کی بنیاد رکھی۔ بھٹو صاحب نے دفاع وطن کے لیے کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں بیرونی طاقتوں نے انھیں عبرت کی مثال بنا دیا۔ بعد ازاں جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی ریاست بن جانے کا اعلان کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر امریکا اور اس کے حواریوں کی جانب سے شدید دباؤ تھا کہ وہ ہندوستان کے مقابلے میں جوابی دھماکے نہ کریں، اس کے بدلے ان کو کئی ارب ڈالر کی پیشکش بھی کی گئی لیکن میاں نواز شریف کی استقامت اور جرات کو داد دینی پڑے گی۔ جنھوں نے بے پناہ بیرونی دباؤ کے باوجود ایک محب وطن حکمران کے ذمے داری نبھائی اور جوابی ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور یوں پاکستان کو پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کا درجہ بھی مل گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنھیں پاکستانی محسن پاکستان کے نام سے یاد کر تے ہیں لیکن مجھے انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ قوم کے اس محسن کی دوسری برسی بھی خاموشی سے گزر گئی، سرکاری سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی اور نہ کسی اہم عہدیدار نے انھیں یاد کیا۔ پیپلز پارٹی جو ایٹم بم کی خالق جماعت ہونے اور مسلم لیگ نواز جو ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے سے کبھی نہیں چوکتی اور 28 مئی کو یوم تکبیر منایا جاتا ہے، ان دونوں جماعتوں نے بھی انھیں یاد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ افسوس ہوتا ہے ان پاکستانی رہنماؤں پر جو دفاع وطن کے اس اہم ترین منصوبے پر سیاست تو کرتے ہیں لیکن اس کے خالق کو بھول گئے ہیں۔ محسن پاکستان اس دنیا میں پہنچ چکے ہیں جہاں انھیں دنیاوی چیزوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے رب کے ہاں اعلیٰ و ارفع درجہ پائیں گے لیکن افسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کا حافظہ اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ہم نے اپنے محسن کو دو برس میں ہی بھلا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی ناقدری کا شدید احساس ہو گیا تھا، شاید اسی لیے وہ اس کو محسوس کر کے یہ لازوال شعر بھی کہہ گئے۔
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
محسن پاکستان کو عالم برزخ میں پاکستانی قوم یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس کے حکمران اپنی بشری کمزوریوں کے باعث انھیں یاد کریں یا نہ کریں مگر پاکستانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ہمیشہ احسان مند رہیں گی اور انھیں یاد کرتے رہیں گے۔
اطہر قادر حسن  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
dai-ilallah · 7 months
Text
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
بیرونی طاقتوں کو برداشت نہیں پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا ہوسکے، اسلم اقبال
بیرونی طاقتوں کو برداشت نہیں پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا ہوسکے، اسلم اقبال
لاہور(نمائندہ عکس ) سینئر صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال نے کہا ہے کہ بیرونی طاقتوں کو برداشت نہیں پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا ہو،ن لیگ کا مقصد اپنے کیسز ختم کرنا ہے،اسحاق ڈار آئے ہیں اب کرپشن کا نیا طریقہ ہوگا۔میاں اسلم اقبال نے الحمرا میں کیلی گرافی نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بارہ ربیع الاول کی مناسبت سے بہت خوبصورت نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے، الحمرا میں آنے والے آرٹسٹ دنیا میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
besturdunews · 10 months
Text
بلوچستان، سوئی میں طاقت سے جھڑپ میں تین جوان جوان
سے: بلوچستان کے علاقے سوئی میں ذرائع ابلاغ کے درمیان تبادلے کے دوران پاک فوج کے تین جوان شہید جبکہ دو مختلف گرد گھومتے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی) آپریشن کے دوران آپس میں شدید طاقتوں سے ضلع میں جاری آپریشن کے مطابق آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔ آپس کے تبادلے کے دوران 3 بہادر لڑتے ہوئے لڑتے ہوئے لڑتے لڑتے لڑتے لڑتے لڑتے لڑتے لڑتے لڑتے لڑتے جہنم واصل کر دیتے ہیں۔ مزید پڑھیں: ژوب گیریژن…
View On WordPress
0 notes
eshaal-rajpoot · 11 months
Text
"توکل علی اللہ! تمام تر طاقتوں کا سرچشمہ ہے؛ جیسا کہ بعض سلف نے کہا:
جِس کی خواہش ہے، کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ قوت والا ہو؛ اُسے چاہیے کہ اللہ پر توکل کرے!"
امام ابنِ القيم رحمه اللہ
(زاد المعاد : 331/2)♥️🦋
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
مسئلہ فلسطین عالمی عدالت انصاف میں
Tumblr media
مسئلہ فلسطین عالمی دنیا کے ماتھے پر ایک ایسا بد نما داغ بن چکا ہے جس کو مٹانے کے لیے شاید صدیاں لگ جائیں۔ عالمی طاقتوں کا دہرا معیار، مسلم امہ کی بے حسی، مغرب کی طوطا چشمی، اپنوں کی بے وفائی اور غیروں کی سنگ دلی نے مسئلہ فلسطین کو ایک انسانی المیہ بنا دیا ہے۔ یوں تو تمام عالمی ادارے مغرب کی خواہشات کے غلام ہیں اور انہی کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو یا غزہ میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام ، عالمی عدالت انصاف یا دیگر عالمی اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اقوام متحدہ اور اس کے تمام ذیلی ادارے محض مذمتی بیانات تک محدود ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر امریکہ سمیت تمام مغربی طاقتوں کی خاموش حمایت نے انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کی قلعی کھول دی ہے اور عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے چہرے سے بھی نقاب اتار کے رکھ دیا ہے۔ امریکہ سمیت تمام با اثر عالمی قوتوں نے اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے محافظ کے طور پر رکھا ہوا ہے اور یہ عالمی ٹھیکے دار جب اور جہاں چاہیں اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ان حالات میں عالمی عدالت انصاف نے گزشتہ دنوں ایک اہم فیصلہ دے کر امید کی ایک نئی کرن پیدا کی ہے۔ جب مسلم امہ اور عالمی دنیا فلسطینیوں کی مسئلہ کے حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکے، مسلم امہ بھی خاموشی کے ساتھ تماشہ دیکھتی رہے،عالمی امن کے ٹھیکیدار فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے میں مکمل طور پر ناکام رہے تو جنوبی افریقہ نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا۔ گزشتہ سال کے آخری ایام میں جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں اس حوالے سے شکایت درج کرائی۔جنوبی افریقہ کے صدر راما فوسا نے عالمی عدالت انصاف سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دے اس کے جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کرے۔ جنوبی افریقہ کا اپنی درخواست میں یہ کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ ہسپتالوں اور دیگر انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ 
Tumblr media
ہزاروں فلسطینی موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ لہذا اسرائیل کو نسل کشی کے جرائم سے روکا جائے اور اس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ اسرائیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم صرف دفاعی کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان جرائم کا ارتکاب نہیں کر رہے۔ عالمی عدالت انصاف کے 17 رکنی پینل میں سے 16 ججز موجود تھے۔ جن میں سے 15 ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا جبکہ دو ججز نے اختلافی نوٹ جاری کیا۔عالمی عدالت انصاف نے قرار دیا کہ غزہ میں شامل تمام فریق عدالتی احکامات کے پابند ہیں۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ جنوبی افریقہ کے عائد کردہ الزامات درست ہیں اور غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پر بے گناہ شہری شہید ہوئے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف نے مزید کہا کہ عدالت غزہ میں انسانی المیے کی حدت سے آگاہ ہے اور ہم اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں۔ یوں تو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے تاہم 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی کا سلسلہ شروع ہوا ہزاروں افراد شہید ہوئے۔
63 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ 9 اکتوبر کو اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ کے محاصرے کا اعلان کیا بجلی اور پانی کی سپلائی معطل کر دی۔ ہسپتالوں کو بھی نہ بخشا گیا اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں زخمیوں اور بچوں کو بھی شہید کیا گیا۔یہاں پر ایک ایسے المیہ نے جنم لیا جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے فلسطینیوں کا موقف تسلیم کیا اور انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت غزہ میں فلسطینیوں کو نسل کشی سے محفوظ رکھنے کا حق تسلیم کرتی ہے اور اسے نسل کشی کنونشن کے تحت یہ کیس سننے کا اختیار حاصل ہے انہوں نے اپنے تاریخی فیصلے میں قرار دیا کہ اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کا کیس خارج نہیں کریں گے اور نسل کشی کنونشن پر عمل درآمد کرنے کے لیے اسرائیل کو ہنگامی احکامات جاری کیے اور حکم دیا کہ وہ اس نوعیت کے اقدامات سے اجتناب کرے۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ اسرائیل اس امر کا پابند ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی نہ کرے عدالت نے اسرائیل کو غزہ میں انسانی صورتحال بہتر بنانے کا بھی حکم دیا اور کہا کہ اس علاقے میں شہریوں کو ان مشکل حالات سے نکالنے اور بحران حل کرنے کے لیے اسرائیل اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہر دن قیامت کا دن بن کر طلوع ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں دوسری طرف اسرائیلیوں کی کارپٹ بمباری نے وہاں زندگی کے آثار ہی معدوم کر دیے ہیں۔عالمی عدالت انصاف نے اگرچہ جنگ بندی کا حکم نہیں دیا لیکن امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ کہیں سے تو فلسطینیوں کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
emergingpakistan · 2 months
Text
سول ملٹری تعلقات
Tumblr media
حکومتیں چاروں صوبوں میں بن چکی ہیں۔ وفاق میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کسی حد تک کنٹرول میں آچکی ہے خصوصاّ جو پچھلے دو سال سے تھی مگر اب بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ یہ خطرہ دوبارہ بھی جنم لے سکتا ہے، اگر نئی حکومت ملک میں معاشی استحکام نہیں لا سکی، اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو یقینا ہمیں مستقبل میں ترقی کے راستے بند ملیں گے۔ ہمارا ملک وجود میں آنے کے بعد چھبیس سال تک آئین سے محروم رہا، کسی آزاد اور خود مختار ریاست کے لیے یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور موجودہ آئین پر ہم چلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ برصغیر میں پاکستان سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حقیقتیں مختلف تھیں اور یہ کہ ہم سرد جنگ کے زمانوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر کیپٹلسٹ طاقتوں کے اتحاد کا حصہ رہے۔ یہ کام نہ ہندوستان نے کیا نہ ہی بنگلا دیش نے۔ جواہر لعل نہرو نے 1961 میں یوگوسلواکیہ کے صد ر مارشل ٹیٹو اور دیگر غیرمنسلک ریاستوں کے ساتھ مل کرایک تنظیم بنا لی جب کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اس خطے میں اسٹر ٹیجک حکمت عملی کے تحت اپنے تعلقات چین کے ساتھ استوار کرنا شروع کر دیے، کشمیر کا مسئلہ ہمیں ورثے میں ملا۔ اس دور میں کہیں یہ گمان نہ تھا کہ چین دو دہائیوں کے بعد اس دنیا کی ایک بڑی فوجی و معاشی طاقت بن کر ابھرے گا۔
ہمارے تعلقات امریکا سے بہت گہرے تھے۔ پاکستان پر مسلط تمام آمروں پر امریکا کا ہاتھ تھا اور جب بھی اس ملک میں جمہوریت یا ایسا کہیے کہ معذور جمہوریت کا نفاذ ہوا، اس جمہوریت کو بھی امریکا کا گرین سگنل ہوتا تھا، لیکن جب جب اس ملک میں جمہوریت آئی، وہ عوام کی طاقت سے آئی اور جب اس ملک پر آمریت مسلط ہوئی، اس کی بنیادی وجہ بھی ہماری سماجی پسماندگی تھی۔ امریکا و پاکستان کے منسلک مفادات میں کہیں بھی جمہوریت کا نفاذ نہ تھا۔ افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جب شمالی ہند اور وسط ایشیا میں امریکا کے اسٹرٹیجک مفادات میں تبدیلی آئی تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے C-130 کو گرتے بھی دیکھا گیا اور بارہا آئین کے آرٹیکل 58 (2) (b) کا اطلاق بھی، اسامہ بن لادن کی موت بھی۔ 9/11 کے بعد جب ان کو ہماری ضرورت پڑی، جنرل مشرف دس سال کے لیے مسلط کیے گئے۔ اس خطے میں چین کی ابھرتی طاقت نے امریکا کو پریشان کر دیا اور اس طاقت کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا نے ہندوستان سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا۔ہم نے اپنی خارجہ پالیسی ، ہندوستان کی طاقت اور اثر ورسوخ کے پس منظر میں دیکھی، یہ ہماری غلط پالیسی تھی۔
Tumblr media
اس زمانے میں میاں نواز شریف کی سوچ یہ تھی پاکستان کے بارڈر کم از کم باہمی تجارت کے لیے کھول دیے جائیں۔ نوازشریف صاحب نے ہندو ستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائے۔ ہندوستان کے وزیر ِ اعظم باجپائی صاحب نے پاکستان کا دورہ کیا۔ مینار پاکستان آئے اور اس زمرے میں باجپائی صاحب نے یہ مانا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ پھر کیا ہوا؟ کارگل کا محا ذ کھل گیا اور میاں صاحب کی حکومت چلی گئی۔ اگر امریکا میں 9/11 کا واقعہ نہ ہوتا اور امریکا کے صدر بش جونیئر نہ ہوتے تو یہاں جنرل مشرف مشکل سے دو سال ہی حکومت کرتے۔ میاں صاحب نے جب دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو ان کا یہ ایجنڈا بھی تھا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا کریں، میاں صاحب کالا کوٹ پہن کے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ میمو گیٹ کھلا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا، یوں چارٹر آف ڈیموکریسی کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس وقت تک خان صاحب میدان میں اتر چکے تھے۔ جب خان صاحب نے نواز شریف کی حکومت میں ڈی چوک پر دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی اس مشکل وقت میں اگرمیاں صاحب کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو صو رتحال مختلف ہوتی۔
پھر امریکا میں فسطائیت سوچ کی حامی ٹرمپ حکومت آگئی۔ ادھر یوسف رضا گیلانی کے بعد ایک اور منتخب وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو چلتا کر دیا گیا۔ جس طرح خان صاحب کو اقتدار میں لایا گیا وہ بھی لاجواب ہے۔ خان صاحب نے ملکی سیاست کو ٹی ٹو نٹی میچ بنا دیا۔ پتا یہ چلا کہ خان صاحب کے پیچھے ایک بین الاقوامی لابی تھی لیکن یہاں جو ان کے لوکل ہینڈلرز تھے انھوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہاں ٹرمپ صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پاکستان میں دو نظرئیے ہیں۔ ایک پارلیمنٹ کی برتری اورآئین کی پاسداری کی سوچ اور دوسری اسٹبلشمنٹ اور ارسٹوکریسی کی سوچ جس میں جمہوریت کو ملک کے لیے بہتر سمجھا نہیں جاتا۔ ان دونوں نظریوں میں جو تضاد ہے، اس تضاد کو ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ساکھ اور سالمیت کے لیے ان دونوں سوچوں کو قریب لایا جائے۔ بہت دیر ہوچکی اب! ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جس کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑے تو اس ملک میں خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے۔
ہمارے ملک کی صوبائی حکومتوں، عدالتوں اور تمام اداروں اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ ہم نے جو ٹرینڈ شروع سے اپنائے تاریخ کو مسخ کرنے کے، فیک نیوز، سیاستدانوں کو بدنام کرنا، جمہوریت کے خلاف سازشیں جوڑنا ان کو ختم کرنا ہو گا۔سول و فوجی تعلقات میں دوریاں ختم کرنی ہوں گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کیسے آگے بڑھتی ہے اس کو دیکھنا ہو گا۔ اچھا ہوا کہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا اور ان کی حکومت بنی۔ لیکن ان کے رحجانات جو ملکی انارکی کی طرف زیادہ ہیں، ان سے ملک کی معیشت کو خطرات ہو سکتے ہیں، اب افہام و تفہیم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے ممبران نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا، خان صاحب کے ماسک پہن کر اجلاس میں بد نظمی پھیلائی، ان کے ان رویوں نے اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ نگراں حکومت نے بڑی خوبصورتی سے ملکی بحرانوں کا سامنا کیا۔ معیشت کو سنبھالا، عدلیہ نے اپنا پازیٹو کردار ادا کیا۔ انتخابات کا وقت مقررہ پر کرائے جو ایک ناممکن ٹاسک تھا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادیں تبدیل کرنی ہوںگی۔ خارجہ پالیسی کی اول بنیاد ہماری معاشی پالیسی ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی اکانومی کو ڈاکیومنٹڈ بنانا ہے۔ بلیک اکانومی کو زیادہ سے زیادہ مارجنلئز کرنا ہے۔ اہم بات ہے سول ملٹری تعلقات، بین الاقوامی طاقتیں، پاکستان ان دونوں حقیقتوں کو ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا کرتی رہی ہیں۔ اس میں نقصان صرف اس ملک کا ہوا ہے۔
جاوید قاضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 7 months
Text
ایران کی ڈرون صلاحیتیں، جن کا پہلے کبھی مظاہرہ نہیں کیا گیا، ویڈیو دیکھیں
ایران کی دفاعی صنعت نے کئی دہائیوں سے ملک کی حیثیت کو دنیا کی تین اعلیٰ ترین ڈرون طاقتوں میں سے ایک کے طور پر محفوظ کرنے کے لیے کام کیا ہے، ریورس انجنیئرڈ دشمن ڈرون کے علاوہ مکمل طور پر ملکی ساختہ درجنوں قسم کے پروپیلر، راکٹ سے چلنے والی اور ہیلی کاپٹر کی طرز کی بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوں کی ڈیزائننگ، تعمیر اور فیلڈنگ کی ہے۔ ایران کی دو روزہ ‘1402 جوائنٹ ڈرون مشق’ مکمل ہو گئی، مشق میں اسلامی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes