بچے کی پیدائش کے بعد شویتا تیواری نے اپنا 10 کلو وزن کیسے کم کیا؟
بچے کی پیدائش کے بعد شویتا تیواری نے اپنا 10 کلو وزن کیسے کم کیا؟
بھارتی شوبز سے وابستہ سدا بہار اداکارہ اور ماڈل شویتا تیواری نے اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد بڑھنے والے وزن سے چھٹکارا پانے کی کہانی بیان کی ہے۔
شویتا کا کہنا ہے کہ دوسرے حمل کے بعد ان کا وزن بہت بڑھ گیا تھا۔
انہوں نے انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا، “میں 73 کلو کی ہو گئی تھی۔ ‘ہم تم اور انہیں’ شروع کرنے سے پہلے مجھے اپنے کردار کے مطابق وزن کم کرنے کی سخت ضرورت تھی۔”
دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد وزن کم…
View On WordPress
0 notes
فرانس میں جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے کم شرح پیدائش ریکارڈ، بچے پیدا کرنے پر چھٹیاں، مالی فوائد بڑھانے کا اعلان
فرانس میں گزشتہ سال دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے کم پیدائش ریکارڈ کی گئی، فرانسیسی صدر عمانویل میکرون نے منگل کے روز بچے کی پیدائش پر چھٹیوں پر نظر ثانی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
INSEE نے اپنی سالانہ مردم شماری کی رپورٹ میں کہا کہ فرانس میں گزشتہ سال 678,000 پیدائشیں ریکارڈ ہوئیں، جو 2022 سے 7% کم اور 2020 میں عروج کے بعد سے 20% کمی ظاہر کرتی ہے۔
یہ ملک کئی دہائیوں سے دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں…
View On WordPress
0 notes
عورت کیلئے سبق
میں ایک جاب ہولڈر لڑکی ہوں الحمدللہ گریڈ 18 کی ملازم ہوں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں۔
اور بدقسمتی سے دو بچوں کی ماں اور خلع یافتہ ہوں ۔
عورت ہمیشہ جذباتی ہوتی ہے جذبات میں آ کر فیصلہ کر لیتی ہے جو کہ نہیں کرنا چاہیے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہیے۔
37 میری عمر ہے 28 سال کی عمر میں میری شادی ہوئی تھی میری شادی اپنی فیملی میں ہوئی تھی میرے ہسبینڈ بھی ایک گورنمنٹ جاب ہولڈر تھے ۔
ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں وہ جاب کرتے تھے گریڈ 15 میں۔ میری پہلی اولاد بیٹا تھا بیٹے کی پیدائش تک ہم جوائنٹ فیملی میں رہے اور اچھا وقت گزرا اب میں ویسے جھوٹ کیوں بولوں کے جوائنٹ فیملی میں مجھے کوئی مسلہ نہیں تھا یا کبھی نہیں ہوا بہت اچھے تھے وہ مگر مجھے جوائنٹ فیملی میں رہنے کا دل نہیں کرتا تھا
میں نے اپنے ہسبینڈ سے کہا ہم اپنا گھر بناتے ہیں اور الگ ہو جاتے ہیں ہم دونوں کی سیلری اتنی تو ہے کہ ہم ایک سال میں اپنا گھر بنا ہی لیں گے اور گاڑی بیچنی پڑے تو بیچ کر پہلے گھر بناتے ہیں پھر گاڑی لے لیں گے وہ اس بات پر تیار ہو گے
میرے پاس جو پیسے تھے میں نے پلاٹ لے لیا اور ایسے ہی ہم نے ایک سال کے اندر دونوں نے مل کر اپنا گھر بنا لیا۔
میری سیلری میرے ہسبینڈ سے ذیادہ تھی ۔گھر بن گیا ہم الگ ہو گے۔الگ ہونے کے بعد گھر میں چھوٹے موٹے مسلے تو ہوتے ہیں ہر گھر میں ہوتے ہیں مگر سچ بولوں تو مجھے اپنی نوکری پر بڑا غرور تھا اور میں اپنی نوکری کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھی تھی جو کہ میری لائف کی سب سے بڑی بیوقوفی تھی جو آج مجھے سمجھ آ رہی ہے
پھر میری بیٹی کی پیدائش ہوئی ۔اور یہاں ایک بات یاد رکھنا عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہوتی ہے مرد اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنی ایک عورت عورت کو پہنچاتی ہے۔
گھر جو ہم نے بنانا تھا اسمیں ذیادہ پیسے میرے لگے تھے اور وہی غرور وتکبر گھر میں کوئی بھی بات ہوتی تو میں بات بات پر یہی طعنہ دے دیتی کہ گھر میں میرے پیسے ذیادہ ہیں تمہارا کیا ہے ؟
بس پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہی میری کزن جسکا آنا جانا ذیادہ تھا اسنے مجھے ورعلانہ شروع کر دیا کہ تم اس سے ذیادہ سیلری لیتی ہو وہ کم لیتا ہے ایسے ہی کہانیاں اسنے شروع کر دیں میرے دل میں انکے لئے نفرت پیدا کرتی رہی اس قدر اسنے زہر گھولا کہ میں اپنے بچوں تک کو بھول گئی یہ بھی بھول گئی کہ میرے تو دو بچے بھی ہیں ۔
لڑائی جھگڑے بڑھتے گے ہم نے گاڑی لی تھی اسمیں بھی میرے پیسے ذیادہ تھے ۔بدقسمتی میری کہ میں نے اپنے خاوند کو ایک دن کہہ دیا کہ یا تو آپ مجھے گاڑی کے پیسے واپس کریں یا پھر آج کے بعد آپ گاڑی استعمال نہیں کرینگے۔
یہ بات میرے لئے تو معمولی تھی مگر انکے لئے تو نہیں ہوئی ہو گی کیونکہ میرے اندر زہر ہی اتنے گھول دیا گیا تھا ۔انہوں نے گاڑی بیچ دی اور میرے پیسے مجھے دے دیئے میرے جو خاوند تھے انکے بڑے بھائی کینیڈا میں ہوتے ہیں ۔وہ گھر آئے تین ماں رہے اور واپسی جاتے انہوں نے گاڑی اپنی بھائی کو دے دی
وہ کافی مہنگی گاڑی تھی مجھ سے نہ برداشت ہوئی تو میں نے ایک دن مطالبہ کر دیا کہ گھر میں میرے جو پیسے لگے ہیں مجھے واپس کرو ( اور یہاں پر ایک اٹل حقیقت) وہ یہ کہ یہ سب کچھ میں اس لئے واپس لے رہی تھی کہ میں اپنی اس کزن کی باتوں میں آ کر خلع کا فیصلہ کر چکی تھی اللہ اسکو بھی ہدایت دے مگر جو ایسے کسی کا گھر برباد کرتا ہے خدا اسے بھی کبھی خوش رہنے نہیں دیتا خوش وہ بھی آج نہیں
انہوں نے وہ گاڑی بیچی اور مجھے میرے پیسے واپس کر دیئے باقی جو پیسے بچے تھے انہوں نے نوکری چھوڑ دی اور ان پیسوں سے اپنا بزنس شروع کر دیا ۔ ایک ہوٹل اوپن کیا تھا آج انکے پاس اپنے ذاتی تین ہوٹل ہیں اور میں غرور وتکبر میں ڈھوبی ہوئی عورت نفسیاتی مریض بن چکی ہوں ۔
جب وہ پیسے مجھے مل گے میں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا انہوں نے اور میرے گھر والوں نے مجھے تب بہت سمجھایا مگر میری عقل پر پردہ پڑ چکا تھا نہیں سمجھی ۔کیونکہ میری جو کزن ہے اب یہاں اگر مزید سچ لکھوں تو مجھ سے ہونے والی غلطیاں مجھے خود ایک عورت ذات کی توہیں لگتی ہیں ۔
بہرحال میں اپنی کزن کی باتوں میں آ گئ اسکا جو دیور تھا اسکی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھی اسکی ایک بیٹی بھی تھی اور وہ آرمی میں میجر تھا میں بھی ذیادہ کی لالچ میں اور بڑے عہدوں کی لالچ میں اسکی باتوں میں آ گئی اور طلاق لے لی ۔
اور میری زندگی کی دوسری سب سے بڑی غلطی طلاق مجھے انہوں نے ایک شرط رکھ کر دی تھی کہ میں بچے تمہیں نہیں دوں گا میں نے اس شرط کو قبول کیا اور طلاق لے لی ۔
عدت پوری ہونے کے بعد میری کزن نے اپنے دیور کے ساتھ شادی کروا دی چار ماہ وہاں رہی
نوکری بھی کرتی پیسے وہ سارے لے لیتے گھر انکا بہت بڑا تھا.
مگر کوئی سکون نہیں ہر وقت ٹارچر ہی کرتے اپنے بچوں کو چھوڑ کر اسکی بچی کو سنبھالتی صبح سکول جاتی تو بچی کو ساتھ لے کر جاتی ۔انکے گھر میں بڑی بڑی گاڑیاں ڈرائیور سب کچھ مگر میں رکشے پر آتی جاتی ۔
اور وہ میری کزن جسکی میں نے ہر بات مانی وہاں میرے ساتھ اسکا رویہ ایسے ہو گیا تھا جیسے میں کوئی اسکی دشمن ہوں ۔ وقت گزرتا گیا میں جس نوکری کو اپنا سہارا سمجھتی تھی 11 ماہ وہاں رہی اپنی سیلری سے مجھے دس ہزار مہینے کا ملتا تھا کہ یہی تمہارا جیب خرچ ہے ۔ 11 ماہ کے بعد پتہ چلا کہ اسنے اسلام آباد شادی کر رکھی ہے پہلے سے ہی
وہاں میں نے بہت نبھانے کی کوشش کی اور یہ تعیہ کر لیا تھا کہ اب کچھ بھی ہو یہاں سے نہیں جانا مگر وہ بار بار کہتا جاؤ میری طرف سے تم آذاد ہو بار بار ٹارچر کرتا کہ کسی طرح میں طلاق کا مطالبہ کروں
باپ تو ماں پاب ہوتے ہیں ایک دن ابو نے مجھے کہا کہ کوئی بات نہیں تم واپس آ جاو گھر وہاں ایسے اذیت بھری زندگی نہ گزارو وہاں سے بھی طلاق ہو گئی واپس آ گئی امی ابو کے پاس ۔ابھی دو ماہ پہلے میرے ابو کی وفات ہو گئی وہی میرا سہارا تھے بھائی چار میں سب شادی شدہ انکی اپنی زندگی ہے اپنے بچے ۔ اب میری حالت یہ ہے سیلری تو میں لیتی ہوں وہ جاب جس پر مجھے بڑا غرور تھا
وہ مجھے کوئی سہارا نظر نہیں آتی پیسے تو آتے ہیں لگاؤں کہاں ؟ آج میں نے یہ تحریر لکھی بہت دکھی تھی آج امی کے اسرار پر مجھے میرے بچوں سے ملوایا گیا میں نے انکو گاڑیاں اور کچھ کھولنے لے کر دئے انکے باپ نے ابھی کچھ دیر پہلے اپنے چھوٹے کے ہاتھ واپس لوٹا دئے ۔
اور میرے بچے اپنی دوسری ماں کے ساتھ خوش ہیں ۔ اب میری ایک ہی زندگی کی خواہش ہے جو میں کوشش بھی کر رہی ہوں اگر وہ مجھے بچے ہی دے دیں تو میں جو دن بدن نفسیاتی مریض بنتی جا رہی ہوں شاہد میں ٹھیک ہو جاؤں مگر لگتا نہیں کہ مجھے وہ دیں گے آپ لوگوں سے گزارش ہے دعا کریں کے دے دیں
جو غلطیاں میں نے کی اس قابل تو نہیں مگر اللہ کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ۔
میری آپ تمام بہنوں سے گزارش ہے جو جاب ہولڈر ہیں چائے وہ پرائیوٹ سیکٹر میں ہیں یا گورنمنٹ سیلری خاوند سے زیادہ ہے یا کم کبھی جاب کو اپنا غرور وتکبر مت بنانا پیسہ تو ہے جاب ہے مگر پیسہ انسان کا سہارا نہیں بنتا آپ پیسوں سے اور نوکریوں سے خوشیاں نہیں خرید سکتے۔ میری چھوٹی بہن ڈاکٹر ہے گورنمنٹ جاب ہولڈر ہے اسکے ہسبینڈ ایک پرائیویٹ سیکٹر میں جاب کرتے ہیں میں جب ان دونوں کو سب کچھ مل جل کر بناتے دیکھتی ہوں تو مجھے اپنی ذندگی سے اور نفرت ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔
میں نے کیوں کیا اپنے ساتھ ایسا ؟کیوں ہوا میرے ساتھ ایسا ؟ عموماً پوسٹ دیکھنے کو ملتی ہیں مرد یہ ہے وہ ہے کوئی شک نہیں ہوتے ہیں مرد بھی ایسے مگر عورتیں بھی بہت ذیادہ ایسی ہوتی ہیں جو غرور وتکبر میں اپنا خود برباد کر دیتی ہیں پھر پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے ۔
اور میری بہنوں کبھی بھی کسی عورت کی بات میں آ کر اپنا گھر برباد مت کرنا عورت ہی عورت کی دشمن ہے یہ کبھی مت بھولنا۔ مجھے اتنی ٹھوکریں کھا کر سمجھ آئی کہ بیشک آپکے پاس جاب ہو بہت بڑی نوکری ہو بہت بڑی انکم ہو مگر ایک مرد کے بغیر عورت نامکمل ہے اور ایک مرد عورت کے بغیر نامکمل ہے ۔ یہی فیملی ہوتی ہے میاں بیوی بچے اسکے علاؤہ کوئی چیز آپکو کبھی خوشی نہیں دے سکتی اور یہ معاشرہ ایسا ہے یہاں ایک طلاق یافتہ عورت کتنی ہی پاک صاف کیوں نہ ہو اسکو ہر کوئی غلط نظر سے ہی دیکھتا ہے ۔
اپنے ہوں یا غیر ہر کوئی غلط ہی سمجھتا ہے ۔
اللہ ہر کسی کی بہن بیٹی کے نصیب اچھے کرے غرور وتکبر سے اللہ ہر ایک کو بچائے ۔ میرے لئے دعا کرنا اللہ کوئی بہتری والا معاملہ کرے ورنہ جس قدر میں نفسیاتی مریض بنتی جا رہی ہوں میرے پاس یہ نوکری بھی نہیں رہے گی ۔
میری اس تحریر کا مقصد صرف اتنا ہے جو غلطیاں غرور وتکبر میں مجھ سے ہوئی ہیں وہ آپ نہ کریں۔
اور یہ کوئی کہانی نہیں ایک ایک بات سچ پر مبنی ہے
ایک بہت ہی قریبی سہیلی کی یہ تلخ حقیقت کہانی ہے اس میں سب کیلئے سبق ہے
---end---
13 notes
·
View notes
سعادت حسن منٹو کے اقوال
سعادت حسن منٹو ایک ادیب، شاعر اور صحافی تھے، جنہوں نے اپنے ادبی کاموں کو سماجی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ ان کی یوم پیدائش 11 مئ کی مناسبت سے ان کے کچھ اقوال ۔۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں میں اپنی آنکھیں بند کر بھی لو، مگر اپنے ضمیر کا کیا کروں؟
ہم عورت اُسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو۔ باقی ہمارے لئے کوئی عورت نہیں ہوتی، بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں، جن کی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر نکی رہتی ہے۔
مسجد میں دیوبندی ، شیعہ، سُنی ،وہابی سنیما میں ایک ذات۔
میرے جانے کے بعد میری لکھی ہوئی ہر بات کو سراہا جائے گا میرا نام لیا جائے گا مجھے یاد کیا جائے گا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
ہاتھ چھوڑ دینے والے کی اپنی اذیت ہے اور ہاتھ چھڑوا لینے والے کی اپنی کہانی ہے ، لیکن اس عمل میں محبت یتیم ہوجاتی ہے۔
میں ایسے عشق کا قائل نہیں جو مرد کی طرف سے شروع ہو۔
آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا صرف ایک دکان بچ گئی جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا، یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان موجود ہے۔
دنیا میں جتنی لعنیتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
بیٹی کا پہلا حق جو ہم کھا جاتے ہیں و�� اُس کے پیدا ہونے کی خوشی ہے۔
غلط کار انسان نہیں وہ حالات ہیں جن کے کھیتوں میں انسان غلطیاں پیدا کرتا ہے اور پھر ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے۔
مرد بھی کیا عجیب شے ہے، بیوی میں طوائف جیسی ادائیں اور طوائف میں بیوی جیسی وفاداری تلاش کرتا ہے۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اہنی ذات کے لئے وہ کام بھی کرتے ہیں، جو شیطان بھی کرنے سے گریز کرتا ہے۔
سچ بولنے والوں کو میٹھی باتیں کرنا نہیں آتیں۔
عشق ایک مرض ہے اور جب تک طول نہ پکڑے، مرض نہیں ہوتا محض ایک مذاق ہوتا ہے۔
میں اس کا ذمہ دار ہوں جو میں نے کہا ، لیکن اس کا ذمہ دار نہیں جو آپ نے سمجھا۔
مختصر الفاظ میں زندگی کے متعلق صرف یہ کہا جاسکتا ہے، کہ یہ ایک آہ ہے جو واہ میں لپیٹ کر پیش کی گئی ہے۔
میں نے محبت میں عورت سے بڑا بے وقوف نہیں دیکھا، اکثر ایسے لوگوں کو اپنا سمجھ بیٹھی ہے جو خود اپنے بھی نہیں ہوتے ۔
لوگ اکثر اس چیز کو محبت کرتے ہیں جو حقیقت میں محبت کئے جانے کے قابل نہیں ہوتی۔
انسان کو مارنا کچھ نہیں ، لیکن اُس کی فطرت کو ہلاک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
عشق جیومیٹری ہے نہ الجبرا۔ بس بکواس ہے۔ چونکہ اس بکواس ہے۔ اس لئے اس میں گرفتار ہونے والے کو بکواس ہی سے مدد لینی چاہئے۔
میرے شہر کے معززین کو میرے شہر کی طوائفوں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔
کپڑوں کے بغیرآدمی حیوان معلوم ہوتا ہے۔
مذہبی محبوبہ، ان پڑھ بیوی اور دیہاتی دوست تینوں وفادار ہوتے ہیں۔
محبت تو جذبوں کی امانت ہے، فقط بستر کی سلوٹ زدہ چادر پر گزارے جانے والے چند بدبودار لمحے محبت نہیں کہلاتے ۔
چنگاری کو شعلوں میں تبدیل کردینا آسان ہے مگر چنگاری پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔
اگر آپ کی زندگی درد کے احساس کے بغیر گزری ہے تو شاید آپ ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
یہ عیب مجھ میں شروع سے رہا ہے کہ مجھے جھوٹ بولنے کا سلیقہ نہیں۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے ہر وقت آدمی کھویا کھویا سارہتا ہے اس لئے کہ اس کے دل ودماغ میں صرف خیال یار ہوتا ہے۔
مرد کے اعصاب پر عورت سوارنہ ہو تو کیا ہاتھی گھوڑے سوارہو؟
انسانوں سے حیوانوں کی دوستی اچھی میرے بھائی، انہیں کوئی ورغلا تو نہیں سکتا۔
جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں اس طرح وہ محبت بھی کمزور رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے۔
جسم داغا جاسکتا ہے لیکن روح نہیں داغی جاسکت۔
میرا کام تو آئینہ دکھانا ہے اگر آپ کا چہرہ گرد آلود اور بدنما ہے تو وہ ویسا ہی نظر آئیگا۔
3 notes
·
View notes
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تُو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اداس لوگوں سے!
حسن تیرا بکھرنہ جائے کہیں
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔ
پھر یہ دریا اترنہ جائے کہیں
#یومِ پیدائش ناصرؔ کاظمی
8دسمبر، 1925 انبالہ
2 notes
·
View notes
حقیقی چیزیں صرف ایک بار ہوتی ہیں.. موت، پیدائش، محبت، کچھ بھی دو بار نہیں ہوتا سوائے وہم کے۔
Real things only happen once.. Death, birth, love, nothing happens twice except illusion.
• Carlos Zafone
14 notes
·
View notes
یکم جنوری ١٩٥٠ یومِ پیدائش "راحت اندوری"
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
(راحت اندوری)
(1st january 1950 , birth anniversary of "Rahat Indori")
Roz Pathar ki Himayat mein Ghazal Likhty hain
Roz Sheeshon se koi Kaam Nickal Parta hai ..
(Rahat Indori)
10 notes
·
View notes
اہل بیعت اور اہل بیت
ابراھیم سے لے کر محمد تک ایک ہی شجرہ ہے۔سب انبیاء اسی نسب سے نازل ہوتے رہے۔
اہل بیت کا سلسلہ محمد پر آ کر ختم ہوا۔
پھر اہل بیعت کا سلسلہ چل پڑا یعنی خلافت۔یہ روحانی اولاد تھی نا کہ جسمانی اولاد۔
آج بھی یہ تنازعہ موجود ہے۔
جسمانی علاج خود کو نبی اور اسلام کا وارث سمجھتی ہے،چھاتیاں پیٹتی ہے اور ماتم کرتی ہے جبکہ روحانی اولاد نبوت و خلافت کے خواص کو شجرہ میں منتقل کرنا مکروہ و ممنوع سمجھتی ہے۔
کیا یہ طاقت کی بھوک ہے یا واقعی نبوت کی شاخ کو سنبھالنے کا جوش ہے۔اس کا جواب آپ دیں گے۔
برس ہا برس سے وراثت بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔حتی کہ نبوت نے بھی ایک وراثت کا لبادہ اوڑھا اور بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔نبی کے بعد اس کا بیٹا نبی اور پھر اس کے بعد اس کا بیٹا بھی نبی اور پھر نبی در نبی در نبی۔
رسول اللہ کی آمد کے بعد جب آپ کے ہاں بیٹوں کی پیدائش ہوئی تو غیر معمولی طور پر آپ کے بیٹے فوت ہوتے گئے۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ جن افراد نے نبی کی موت کے بعد خلافت سنبھالی وہی لوگ رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دینے میں بلاواسطہ شامل تھے۔بلاواسطہ یوں کہ جب خلافت علی ابن طالب کے بجائے ابوبکر کو منتقل ہوئی تو وہی لوگ گروہ بندی کرنے میں سب سے آگے تھے جنہوں نے رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دے کر بچپن میں ہی مار دیا تھا۔انہی لوگوں نے پس پردہ یہ راگ الاپا کہ وراثت میں نبوت کو منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ رسول اللہ اپنی ذات کو کبھی ترجیح نہیں دیتے تھے اس لیے علی خلیفہ نا بنے۔
2 notes
·
View notes
شرح پیدائش میں کمی، ’2025 تک چین کی آبادی سکڑ جائے گی
شرح پیدائش میں کمی، ’2025 تک چین کی آبادی سکڑ جائے گی
شرح پیدائش میں کمی، ’2025 تک چین کی آبادی سکڑ جائے گی
بیجنگ، 25 جولائی ( آئی این ایس انڈیا)
چین کے سرکاری عہدیدار نے کہا ہے کہ ملک کی آبادی بڑھنے کی رفتار میں کمی دیکھی گئی ہے اور 2025 سے قبل آبادی سکڑنے کا عمل شروع ہونے کا امکان ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے چینی حکومت کے حمایت یافتہ اخبار گلوبل ٹائمز اور شعبہ صحت کے سینئر عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ مختلف صوبوں میں پیدائش…
View On WordPress
2 notes
·
View notes
مختار مسعود پیدائش 15 دسمبر
مختار مسعود پیدائش 15 دسمبر
مختا ر مسعود علی گڑھ سے تعلیم یافتہ تھے۔ وہ مینار پاکستان کی تعمیر ی کمیٹی کے صدر بھی تھے۔
مختار مسعود کی تاریخِ پیدائش اور مقامِ پیدائش کے بارے میں بہت مغالطے رہے ہیں۔ کسی نے ان کا سالِ پیدائش 1918ء لکھا تو کسی نے 1928ء۔ کسی نے علی گڑھ کو ان کی جائے پیدائش قرار دیا تو کسی نے انہیں گجرات(پنجاب) میں اتارا، لیکن پنجاب یونیورسٹی میں لکھے گئے ایک حالیہ تحقیقی مقالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مختار مسعود…
View On WordPress
0 notes
انعمتا قریشی کے ہاں پہلے بیٹے کی پیدائش، تصاویر وائرل
انعمتا قریشی کے ہاں پہلے بیٹے کی پیدائش، تصاویر وائرل
پاکستان شوبز انڈسٹری کی اُبھرتی اداکارہ انعمتا قریشی کے ہاں پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے۔
اداکارہ نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اپنے شوہر اور نوزائیدہ بیٹے کے ہمراہ اپنی تصاویر شیئر کی ہیں۔
گزشتہ ہفتے انعمتا قریشی کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے جس کی خوشخبری انہوں نے سوشل میڈیا پر سنائی ہے۔
انہوں نے اپنی اس پوسٹ کے کیپشن میں بیٹے کی تاریخِ پیدائش کے ساتھ نیلے رنگ کا دل اور نظرِ بد…
View On WordPress
0 notes
چین میں ریکارڈ کم شرح پیدائش کے ساتھ مسلسل دوسرے سال آبادی میں کمی
چین کی آبادی میں 2023 میں مسلسل دوسرے سال کمی واقع ہوئی، کیونکہ شرح پیدائش ریکارڈ کم ہوئی اور کووڈ 19 سے اموات کی لہر آئی۔
شماریات کے قومی بیورو نے کہا کہ 2023 میں چین میں لوگوں کی کل تعداد 2.08 ملین یا 0.15 فیصد کم ہو کر 1.409 بلین رہ گئی۔
یہ 2022 میں 850,000 کی آبادی میں کمی سے کافی زیادہ تھی، جو کہ 1961 کے بعد سے ماؤ زے تنگ دور کے عظیم قحط کے دوران پہلا واقعہ تھا۔
چین نے تین سال کی سخت…
View On WordPress
0 notes
باجی کی پھدی کی ٹھکائی
میرا نام من موجی عرف مرشد ہے میں ایک گاؤں کا رہائشی ہوں میں آج اپنی سچی کہانی آپ سب کے سامنے پیش کر رہا ہوں ہم تین بھائی بہن ہیں سب سے بڑی بہن کا نام نصرت ہے نصرت کی عمر 28 سال کے لگ بھگ ہے اس سے چھوٹی کا نام سعدیہ ہے سعدیہ کی عمر 26 سال ہے اس سے چھوٹا میں میری عمر 19 سال ہو گی ابو کا انتقال میری پیدائش کے دو سال بعد ہو گیا امی کا نام شاندانہ ہے امی کی عمر 40 سے اوپر ہے دونوں بہنیں ابھی تک کنواری ہیں ان کی شادی کیوں نہیں ہوسکی یہ بھی خاندانی روایت ہے کہ خاندان سے باہر نہیں کرنی اور خاندان میں ابھی کوئی ایسا لڑکا نہیں جس پر امی مطمئن ہو اس لیے ابھی تک دونوں کنواری ہیں ابو کے انتقال کے وقت باجی نصرت کی عمر آٹھ نوسال جب کہ سعدیہ کی عمر چھ سات سال تھی اور میں لگ بھگ دو سال کا۔ ہماری گاؤں میں کچھ زمین ہے جو ابو کے انتقال کے بعد امی نے ابو کے ایک دوست سرو جس کا نام تو سردار ہے لیکن اسے سرو بولتے ہیں اسے گڈائی پر دے دی سرو ذات کا کمہار ہے لیکن ابو کا دوست تھا اس لیے امی نے اسے گڈائی پر دے دی زمین کافی تھی اس لیے فصل کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ سرو رکھ لیتا ایک ہمیں مل جاتا جس سے ہمارا گھر کا نظام اچھا خاصا چل رہا تھا کوئی تنگی نہیں تھی امی نے نصرت اور سعدیہ دونوں کو بی اے تک تعلیم دلوا دی تھی آگے ویسے بھی پڑھنا مشکل تھا کیوںکہ لڑکیاں گاؤں سے باہر کم ہی جاتی تھیں اور آگے کی تعلیم شہر میں ہونا تھا اس لیے تعلیم اتنی ہی حاصل کر سکیں باجی نصرت بی اے کے بعد آگے پڑھنے کی بجائے سلائی سکول جو گاؤں کی ہی ایک درزانی نے بنایا تھا وہاں سے کپڑے سینے سیکھ لیے اور سعدیہ نے گاؤں میں کھلنے والے ایک سکول میں پڑھانا شروع کردیا یوں دونوں نے اپنے لیے فرصت بنا لی باجی نصرت اور امی گھر کے کام دیکھتی سعدیہ سکول پڑھاتی باجی اکثر آس پاس کی عورتوں کے کپڑے سیتی تھی اور فری ہوتی تو گھر کے کام کرتی تھی ہمارے مزارے سرو کی عمر لگ بھگ پچاس سال تھی اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام ساجد تھا ساجد باجی نصرت کا ہم عمر تھا میں نے جب سے ہوش سنبھالا سرو اور اس کے بیٹے ساجو کو اکثر اپنے گھر ہی پایا وہ دن کا زیادہ تر وقت ہمارے گھر ہی پائے جاتے تھے کیوں ہر وقت ہمارے گھر ہوتے میں نہیں جانتا تھا لیکن سرو اور ساجو کی امی اور میری بہنوں کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی ایسا لگتا یہ ہمارے گھر کا حصہ ہیں کبھی کبھی تو مجھے لگتا کہ سرو میرا باپ ہی ہے اس لیے ۔یں اسے بابا سرو ہی بولتا اور ساجو کو ساجو بھائی ذات کے کمہار تھے اور ہماری تو کوئی رشتہ داری بھی نہیں تھی لیکن اب تو کوئی تعلق تھا جس وجہ سے وہ اکثر ہمارے گھر ہی رہتے جیسے جیسے میں بڑا ہو رہا تھا تو میں دیکھتا کہ ساجو کی باجی نصرت کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی دونوں کو اکثر میں اکھٹا ہی دیکھتا تھا گاؤں کے اس ماحول میں جہاں دو ہم عمر لڑکی لڑکے کا کھڑا بیٹھا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا وہاں ساجو بھائی ہر وقت باجی نصرت کے ساتھ چمٹا۔ رہتا باجی نصرت کو بھی شاید برا نہیں لگتا تھا۔ اس لیے وہ بھی ساجو سے بہت بے تکلفی سے پیش آتی ان دونوں کا آپس میں تعلق بہت ہی گہرا تھا اندر کیا تھا میں نہیں جانتا تھا مجھے تو بس یہی پتا تھا کہ ساجو ہمارا بھائی ہی ہے اور باجی نصرت کا بھی بھائی ہے میں بڑا ہوتا گیا اس دوران باجی نصرت نے مجھے اپنے قریب رکھا میں اکلوتا تھا اس لیے سب کا لاڈلہ تھا لیکن باجی نصرت کے کچھ زیادہ ہی قریب تھا باجی نے مجھے گاؤں کے ماحول سے بچائے رکھا وہ میری غلطی پر مجھ سے سختی بھی کرتی اور مجھے پیار بھی بہت کرتی بہن کے روپ میں ایک اور ماں مجھے باجی نصرت کے اندر نظر آئی یہی وجہ تھی کہ میں بہت سلجھا رہا اور میٹرک اچھے نمبرز میں کر گیا میٹرک تک تو میں بھی جوان ہو چکا تھا لیکن کبھی غلط بیٹھک میں گیا نہیں تھا اس لیے کچھ خاص پتا نہیں تھا۔ لیکن باجی نے میرے پر بہت روک ٹوک بھی نہیں کی مجھ جس چیز کا شوق ہوتا وہ پورا کرتی تھیں
ہمارے مکان کے ساتھ ہی چاچے جیدی کا گھر تھا جیدی کبوتر باز تھا وہ ہر وقت کبوتر اڑاتا تھا اس لیے مجھے بھی اس کو دیکھ کر شوق ہوا تو باجی نے ساجو سے کہ کر مجھے کبوتر لے دئیے لیکن باجی نے مجھے ایک حد تک کبوتروں کے پاس رکھا کبوتر رکھنے سے میری چاچے جیدی سے بھی دوستی تھی میٹرک کے بعد میں کالج چلا آیا گاؤں کے ماحول سے تو بچ گیا لیکن کالج کے ماحول نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا پہلے ہی سال میں وہ سب کچھ سیکھ گیا جو گاؤں کے ماحول میں سولہ سال تک نا سیکھ سکا شاید صحبت کا اثر تھا کالج میں ہر جگہ اور ہر قسم کے لڑکے تھے اس لیے جلد ہی میں بھی ان میں گھل مل گیا اور جلد ہی سب کچھ سیکھ گیا کالج کی لائف کے دوران ہی عجیب عجیب رازوں سے پردہ اٹھا کہ میں بھی دنگ رہ گیا اسی میں ایک راز انسیسٹ بھی تھا انسیسٹ سے تعارف اسی کالج کی صحبت میں ہوا میں پڑھائی میں اچھا تھا اور باجی نصرت کے سائے میں بھی تھا اس لیے کالج میں بھی پڑھائی اچھی رہی لیکن ایک واقعے نے میری زندگی ہی بدل دی کالج میں ہم چند دوستوں کا گروپ تھا جو بریک ٹائم اپنے من پسند ٹاپک پر گفتگو کرتا لیکن زیادہ تر گفتگو سیکس پر ہی ہوتی تھی یہ وہی صحبت تھی جس سے میں سب کچھ سیکھ چکا تھا ایک دن ایک دوست نے عجیب بات کی انسیسٹ کے بارے میں تو اب حیران ہوئ�� یہ ہمارا پہلا تعارف تھا تو سب نے نا ممکن کہ کر اس کو جھٹک دیا اور اسے جھوٹا ثابت کیا لیکن اس نے کہا کہ میرے پاس ثبوت ہے ہم نے اس سے ثبوت مانگا تو وہ اگلے دن ایک انسیسٹ کہانی لے کر آیا جس میں بھائی بہن باپ بیٹی ماں بیٹے کی آپس میں سیکس کی کہانیاں تھیں جسے دیکھ کر ہم سب ہکا بکا تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے لیکن ایک عجیب بات تھی کہ پہلی ہی کہانی پڑھ کر ہم سب بے قرار ہوچکے تھے عجیب سی مستی جسم میں چڑھ چکی تھی پہلی کہانی ہی بھائی بہن کے بارے تھی اس لیے میرا تو لوں لوں کھڑا ہوچکا تھا مجھے رہ رہ کر باجی نصرت کا خیال آ رہا تھا میرا لن اس کہانی کو پڑھ کر پھٹ رہا تھا بہت گرم کہانی تھی میں باجی کو سوچ کر شرمندہ بھی ہو رہا تھا ضمیر نہیں مان رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ہم سب کا یہی حال تھا اس لیے ہم سب بے قرار اور بے حال تھے سب نے باری باریجا کر واشروم میں مٹھ لگا کر خود کو ٹھنڈا کیا مٹھ بھی کالج میں آ کر میں نے سیکھی تھی جب کبھی زیادہ گرمی بڑھتی تو میں مٹھ لگا کر ٹھنڈا ہوجاتا لیکن اس دن تو کہانی میں پتا نہیں کیا جادو تھا گرمی اتر پی نہیں رہی تھی اگلے دن وہ کہانی نہیں لایا تو ہم نے اسے برا بھلا کہا اگلے دن سے وہ کہانی لانے لگا تو ہم بھی شوق سے پڑھنے لگے ایک ہفتے میں ہم نے دو کتابیں پڑھ ڈالیں انسیسٹ کہنیاں پڑھ پڑھ کر میرے ذہن پر بیٹھ سی گئیں تھیں مجھے لگنے لگا کہ یہ سب حقیقت ہوگی لیکن دل مانتا نہیں تھا انسسٹ کہانیاں پڑھ پڑھ کر میری گرمی بڑھ رہی تھی میں اب انجانے میں اپنی سگی بہن نصرت کے جسم کو تاڑنے لگا تھا
پہلے پہل تو اچھا نہیں لگا ضمیر نے بھی برا بھلا کہا لیکن مسلسل کہانیاں پڑھنے سے اور شہوت بڑھنے سے اب برا نہیں لگنے لگا تھا دوسری طرف میں بھی خیال رکھتا کہ کوئی دیکھ نا لے بہت نازک معاملہ تھا باجی نصرت کا جسم کافی چوڑا اور قد اچھا خاصہ لمبا تھا جس سے باجی نصرت پوری گھوڑی لگتی اوپر سے باجی نصرت کا انگ انگ جوانی سے بھرپور تھا جس سے باجی کے موٹے تھن ابھرے ہوئے آگے کو ہر وقت تن کر کھڑے رہتے نیچے چپٹا پیٹ اور چوڑی ابھری ہوئی باہر کو نکلی گانڈ بہت دلکش لگتی تھی باجی نصرت کے موٹے پٹ کسی سلوار میں باہر کو نکلے نظر آتے تھے باجی نصرت کی عادت تھی گھر میں وہ دوپٹہ کم ہی لیتی تھی اوپر سے ٹائیٹ کپڑے بھی ڈالتی تھی جس سے باجی نصرت کا انگ انگ واضع نظر آتا تھا باجی نصرت بالوں کی گت بنا کر اکثر پراندہ ڈالے رکھتی تھی جو باجی نصرت کی کمان کی طرح تنی ہوئی پتلی کمر سے ہوتا ہوا نیچے گانڈ کی لکیر پر پڑا رہتا باجی جب چلتی تو باجی کی ابھری باہر کو نکلی گانڈ جب اتھل پتھل کرتی تو باجی کا پراندہ بھی باجی کی گانڈ کی خوب چمیاں لیتا باجی نصرت کا جسم ہلکا سا بھرا ہوا تھا جس سے کسے لباس میں باجی نصرت کا انگ انگ قیامت ڈھاتا تھا باجی نصرت کے ناک میں کوکا تو باجی کے حسن پر قیامت ڈھاتا تھا میں جلد ہی باجی نصرت کے شباب کا دیوانہ ہوگیا لیکن میں کر کچھ نہیں سکتا تھا میرا بڑا دل کرتا کے باجی کے ساتھ کچھ کروں لیکن میں ڈرتا بھی بہت تھا باجی سے کیوں کہ وہ میری بہن تھی اگر وہ مجھے اپنے ساتھ کچھ ایسا ویسا کرتے پکڑ لیتی تو مجھے جان سے کی مار دیتی اس لیے میں نے اس کا حل یہی سوچا کہ میں انسیسٹ کہانیوں والی کتاب گھر کے آیا اور اپنے کمرے میں چھپا رکھی تھی میں جب موقع ملتا باجی کے جسم کو جی بھر کر دیکھتا اور کہانی پڑھتا ہوا باجی کو اپنے تصور میں لا کر خوب مٹھ لگاتا اس سے بہت مزہ آتا اور میری تسکین ہو جاتی جس سے میں مطمئن تھا کہ چلو اتنا ہی کافی ہے میں باجی کو چھپ کے ہی دیکھتا تھا باجی جب پاس ہوتی تو میں ظاہر نا کرتا کہ میری نظر میں کیا ہے اس لیے باجی کو پتا نہیں چل پایا کافی دن میں بھی مزے میں تھا انہیں دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ سب کچھ بدل گیا مجھے چونکہ کبوتروں کی بازی دیکھنے کا بھی شوق تھا اس دن کبوتری کی بازی تھی اور چاچے جیدی نے لگانی تھی اس لیے مجھے گھر میں ہی دیکھنے کا موقع مل گیا میں اس دن کالج سے جلدی نکلا کالج شہر میں تھااور شہر گاؤں کے پاس ہی تھا آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہم بس پر کالج جاتے تھے میں کالج سے واپس آیا تو مجھے چاچا جیدی راستے میں ملا مجھ سے مل کر وہ بولا آ بھتیجے توں وی آگیا میں بولا ہاں چاچا آگیا ہاں وہ بولا چل آ بازی لگن والی ہے میں اپنے گھر جانے کی بجائے سیدھا چاچے جیدی کے گھر گیا ہم چھت پر آگئے
جیدی نے آسمان کی طرف دیکھا تو آسمان ابھی صاف تھا اس نے موبائل لگایا کسی کو تو آگے سے اسے کسی نے بتایا کہ ابھی کچھ وقت ہے جیدی مجھ سے بھتیجے توں جا گھر ہلے کجھ ٹائم ہے کھا پی لئے فر جدو لگن لگی میں بلا لواں گا میں بولا اچھا جیدی اور ہمارے گھر کی چھت ملتی تھی جس سے میں نے سوچا کہ جو گھوم کر جانا ہے یہیں سے چلتے ہیں گھر مارچ کا مہینہ تھا اتنی زیادہ گرمی نہیں تھی میں نے جیدی کی چھت سے گھر کا جنگلا پھلانگا اور اپنی چھت پر آگیا میں آج جلدی آیا تھا اس لیے سوچنے لگا باجی کو کیا بہانہ لگانا ہے پھر سوچا کہ سچ ہی بتا دوں گا اتنا تو باجی کچھ نہیں کہتی یہ سوچ کر میں سیڑھیاں اتر کر برامدے میں آیا ہمارا گھر تھوڑا پرانی طرز کا تھا ابو نے بنا کر دیا اس کے بعد کچھ نہیں بنایا تین کمرے تھے آگے برآمدہ تھا سیڑھیاں اوپر سے برآمدے میں اترتی تھی ساتھ ہی کچن تھی جس سے ایک اور کمرہ بن جاتا تھا سیڑھیوں والی جگہ پر جو آگے سے کھلا تھا وہاں گھر کا فالتو سامان پڑا ہوتا ایک کمرہ دونوں بہنوں کا ایک مجھے ملا ہوا تھا ایک امی کا کمرہ تھا باقی دہیاتی مکانوں کی طرح آگے کافی صحن تھا پھر ایک طرف بیٹھک اور ساتھ واشروم تھا میں اندر آیا تو کافی خاموشی تھی باجی نصرت اور امی تو گھر ہوتی تھی لیکن باجی سعدیہ سکول ہوتی تھی لگتا آج وہ بھی نہیں تھی میں چلتا ہوا کمرے میں پہنچا اپنا بیگ رکھا جوتے اتارے میں نے سوچا دیکھو تو سہی میں اپنے کمرے سے نکلا تینوں کمرے ایک سیدھ میں تھے میرے کمرے کی کھڑکی نہیں تھی درمیان والا کمرہ دونوں بہنوں کا تھا جس کی پرانی طرز کی کھڑی تھی جس کی باریاں کہیں کہیں سے ٹوٹی ہوئی تھی اور اندر نظر آتا تھا میں کھڑکی کے پاس پہنچا تو مجھے اندر ہلچل سی سنائی دی ساتھ ہی چارپائی کی آواز بھی آئی اور ساتھ ہی ایک لمبی سی سسکی سسسسسسسسییییی سنائی دی میں باری کے پاس تک سا گیا مجھے کچھ سجھائی دیا تو میں نے وہیں کھڑے ہوکر باری میں جھانکا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی میرا گلہ خشک ہو گیا مجھے ایسا لگا میرے اندر جان ہی نہیں اندر میری بڑی بہن نصرت چارپائی پر ساجو کے ساتھ لیٹی تھی باجی نے پھولوں والا گلابی سا لباس ڈال رکھا تھا ساجو باجی نصرت کو ساتھ چپکا تھا ساجو نے قمیض اتار رکھا تھا اور باجی نصرت کے ہونٹ دبا کر چوس رہا تھا باجی نصرت بھی ساجو کا بھرپور ساتھ دیتی جواب میں ساجو کے ہونٹوں کو چوستی ہوئی ہانپ رہی تھی میں یہ منظر دیکھ کر ہکا بکا بت بنا کھڑا تھا میں تو اپنی بہن کو بہت شریف سمجھتا تھا یہ کیا نکلی اور ساجو جس کو میں بھائی سمجھتا تھا وہ تو میری بہن کا یار نکلا یہ سب دیکھ کر میری سوچوں میں وہ سب دوڑ رہا تھا کہ کیسے میری بہن ساجو سے بے تکلف رہتی تھی ان کے بیچ یہ رشتہ تھا کب سے تھا میں نہیں جانتا یہ سوچتے ہوئے میری نظر نیچے گئی تو باجی نصرت کا قمیض اوپر کو ہٹا ہوا تے اور باجی نصرت کا گورا پیٹ ننگا مجھے نظر آیا
میں اپنی بہن کا گورا ننگا پیٹ دیکھ کر مچل کر سب کچھ بھول گیا باجی نصرت کے پیٹ کی گہری موری کو دیکھ کر میں پگھل گیا میرے لن نے تیزی سے انگڑائی لی تو میں بھی مچل گیا پہلے تو مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن باجی نصرت کا ننگا پیٹ دیکھ کر میں بھی پگھل گیا باجی کے تیز تیز سانسیں لینے سے پیٹ بھی اوپر نیچے ہوکر بہت ہی مزے دار منظر بنا رہا تھا میری نظر گھوم کر نیچے کی طرف گئی تو میں کانپ گیا نیچے میری بہن نصرت کی شلوار کے اندر ساجو کے ہاتھ کی انگلیاں گھسی تھیں اور تیزی سے باجی کی شلوار میں کچھ مسل رہی تھیں جس سے باجی نصرت کی سسکاریاں نکل کر ساجو کے منہ میں دب رہی تھیں میں یہ منظر دیکھ کر سمجھ گیا کہ ساجو میری بہن کی پھدی مسل رہا ہے اور باجی مزے سے مچل رہی ہے میں ابھی سہی طریقے سے اس منظر کو دیکھ بھی نہیں پایا تھا کہ باجی نے کرلا کر جھٹکے مارتی ہوئی سسکنے لگی باجی ساتھ ہی اپنی گانڈ اوپر نیچے کرتی اٹھا کر نیچے مارتی ہوئی سسکنے لگی جس کو دیکھ کر میں چونک گیا باجی ایک منٹ تک یونہی جھٹکے مارتی پھر رک کر سسکنے لگی ساجو بھی رک گیا باجی کچھ دیر ہانپتی رہی پھر ساجو کے ہونٹوں کو چھوڑ کر سانس بحال کیا ساجو کا ہاتھ باجی نصرت کی شلوار کے اندر ہی تھا ابھی تک دو منٹ تک دونوں نے کوئی چل نہیں کی ساجو نے باجی نصرت کی شلوار کے اندر سے ہاتھ نکالا اور اپنی ایک انگلی کو مسلتا ہوا باجی نصرت کے ننگے پیٹ پر مسلتا ہوا باجی نصرت کی دھنی کی طرف لے کر آیا اور دھنی میں گھمائی شلوار سے دھنی تک باجی نصرت کے گورے پیٹ پر پانی کی لکیر سی بن گئی جسے دیکھ کر میں مچل گیا میں اتنا تو جانتا تھا کہ لڑکی بھی پانی چھوڑتی ہے آج اپنی سگی بہن کا پانی دیکھ میں مچل گیا باجی جھٹکے کھانے سے پانی چھوڑا تھا وہ کچھ ساجو کے ہاتھ پر بھی لگا تھا ساجو باجی کے قمیض سے ہاتھ صاف کرکے بولا کڑی یاوئیے توں تے سواد لئے لیا مینوں تے دے چا اور قمیض پکڑ دونوں ہاتھو سے اوپر کرکے باجی نصرت کے سینے کو ننگا کر دیا باجی نے کمر اٹھا کر قمیض اتارنے میں مدد کی جس سے باجی نصرت کے سکن کلر برا میں قید موٹے تنے ہوئے گول ممے باہر نکل آئے جنہیں دیکھ کر میں مچل گیا مجھے باجی کے سب سے زیادہ یہی ممے پسند تھے جنہیں دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آیا باجی کے مموں کی گہری لکیر سے لگ رہا تھا کہ ممے کافی موٹے ہیں قمیض اتر کر گلے میں آ چکی تھی جس سے باجی سسکی مار کر بولی سسسی ساجو توں تے مینوں کھا گیا ہیں اور ہلکی سی ہنسی ہنس دی باجی کی بے تکلفی اسی طرح برقرار تھی جس طرح وہ پہلے تھی میں سمجھ گیا کہ باجی اور ساجو کی جاتی کافی پرانی ہے تبھی اتنی بے تکلفی ہے ساجو ہنس کر کر بولا تے توں وی تے مینوں روز نچوڑدی رہندی ہیں میں چونک گیا کہ روز کا مطلب باجی اور ساجو یہ کام روز کرتے ہیں امی کہاں ہوتی ہے کہیں امی بھی تو اس میں شامل نہیں
میں نے سوچا کہ امی تو اس وقت ڈیرے کی طرف جاتی ہے کھیتوں کو دیکھنے ویسے بھی ایک بھینس بھی رکھی ہوئی تھی ڈیرے پر جس کو چارہ وغیرہ ساجو لوگ ہی ڈالتے تھے ہمیں صبح شام دودھ مل جاتا تھا مجھے اب سمجھ آ رہی تھی کہ یہ سب خدمتیں کیوں ہوتی تھیں ساجو باجی نصرت کا یار جو تھا اس لیے میں ہکا بکا تھا نصرت بولی میں تے کوئی نہیں تینوں آکھدی توں آپ ہی آ جاندا ایں ساجو ہنس کر بولا اچھا جی وت میں اگاں نا آساں گیا نصرت ہنس دی اور بولی اچھا جی بڑی جلدی غصہ ہو جاندا ایں ساجو ہنس دیا اور بولا ہلا توں تے ٹھڈا ہو لیا مینوں وی کر ہنڑ اور باجی نصرت کی برا کو نیچے کھینچ کر باجی نصرت کے ممے ننگے کردئیے میں اپنی سگی بہن نصرت کے ننگے گورے مموں کے گلابی نپلز دیکھ کر مچل گیا پہلی اپنی بہن نصرت کے گورے گلابی نپلز دیکھ کر میرے تو پسینے چھوٹ گئے کھڑکی میں لگے سریوں ہو میں پکڑ کر خود کو قابو کیا تو باجی بولی ساجو کل تے کیتا ہئی توں رجدا ہی نہوں ساجو ہنس کر بولا سوہنیے تیرے ایڈے سوہنے جسم دے وچ وڑیاں رہن کانڑ دل کردا باجی ہنس دی اور بولی ہائے صدقے جاواں ساجو تیریاں اے گلاں پی تے تیتھوں دور نہیں ہونڑ دیندیاں باجی تو بالکل گشتی کی طرح ری ایکٹ کر رہی تھی ساجو جھکا اور باجی نصرت کے مموں کو دبا کر نپلز چوسنے لگا باجی سسک کر ساجو کا سر دبانے لگی میں یہ دیکھ کر مچل گیا باجی بھی سسکتی ہوئی اپنے نپلز چسوا کر مزے لے رہی تھی میرا لن تن کر میری پینٹ پھاڑ رہا تھا میں نے زپ کھول کر لن کھینچ لیا اور مسلنے لگی اپنی بہن کو ساجو کے ساتھ مزے کرتا دیکھ کر لن مسلنے کا مزہ ہی اور تھا ساجو اوپر ہوا اور بولا ہلا ہن مینوں تے ٹھڈا کر نصرت ساجو کو چھیڑ کر بولی ساجو آج رہن دے روز تے ماردا ایں پھدی میری تیرا لن بہوں وڈا اے مار دیندا اے ساجو بولا تے روز اپنی فرمائش تے لیندی ہیں آج میری وی من لئے باجی نصرت ہنس دی اور بولی ساجو کی کھا کے آیا ہیں آج ایڈی آگ چڑھی ہوئی ساجو ہنس کر بولا سوہنیے تیرے نیڑے آکے کسے شئے نوں کھانا دی لوڑ نہیں رہندی تیری جوانی دا سیک ہی آگ کا دیندا یہ کہ کر ساجو نے باجی کے نپلز دبا کر مسل دئیے جس سے باجی نصرت کرلا کر تڑپ سی گئی ساجو ہنس دیا باجی سسک کر مسکرا کر بولی ساجو لگدا ایویں توں جان نہیں چھڈنی چل تیرا چوپا مار دیندی آں میں یہ سن کر تڑپ گیا باجی چوپا بھی مارتی ہے ویسے جتنا میں جانتا ہوں باجی کے کسی طرح سے بھی ایسی نہیں لگ رہی تھی ساجو کے نیچے پڑی یہ کوئی اور لڑکی تھی میری بہن نصرت نہیں تھی۔ گھر میں میرے سامنے باجی نے آج تک بھول کر بھی کوئی ایسا لفظ نہیں بولا جا پر شرمانا پڑے یا جو لڑکی کو زیب نا دیتا ہوا پر باجی کا انداز تو پورا گشتی جیسا تھا
سچ پی جب جوانی کہ آگ بھڑکتی ہے تو بڑی بڑی شریف لڑکیاں یار کے پاس جا کر گشتیاں بن جاتی ہیں میں لن کو مسل رہا تھا کہ باجی نصرت اٹھی اور اپنا قمیض اور برا اتار کر اوپر سے فل ننگی ہوگئی باجی نصرت کی گوری کمر میری طرف تھی کمان کی طرح نکلی کمر قیامت ڈھا رہی تھی باجی کی ابھری گانڈ شلوار میں بھی دل پر چھریاں چلا رہی تھی باجی نصرت کی کسی شلوار نے باجی کے دونوں چتڑ واضح کر رکھے تھے اور درمیان سے گانڈ کی لکیر صاف نظر آرہی تھی جو چڈوں سے گیلی تھی باجی نصرت کی پراندے والی گت گوری کمر سے ہوتی ہوئی باجی کی ابھری گانڈ پر پڑی قیامت لگ رہی تھی میں تو باجی کے مست جسم کو دیکھ کر بے حال تھا ساجو لیٹ چکا تھا باجی اٹھ کر اس کی ٹانگوں کے اوپر آئی اور ہاتھ آگے کرکے ساجو کا نالا کھولنے لگی میں اپنی بہن نصرت کے گورے لوگوں کو ساجو کا نالا کھولتا کر سسک گیا اور سوچنے لگا کہ کاش کبھی میرا بھی نالہ اس طرح کھولے باجی نے بڑے ماہرانہ انداز میں نالا کھولا کر شلوار کھینچ کر اندر ہاتھ ڈالا اور ساجو کا کالا پھن باہر کھینچ لیا میں ساجو کا لن دیکھ کر ہکا بکا تھا باجی کے گورے ہاتھوں میں چمکتا کالا لن کالے ناگ کی طرح پھنکارنے لگا تھا ساجو کا رنگ سانولا تھا جس کی وجہ لن کالا تھا جو باجی کے گورے ہاتھ میں جب رہا تھا ساجو کا لن پورا کہنہ جتنا لمبا اور موٹا تھا میں ہکا بکا تھا کہ باجی یہ لن پورا کے کس طرح لیتی ہے میں سوچ ہی رہا تھا کہ باجی نصرت آگے کو جھکی اور دونوں ہاتھوں میں ساجو کا لن دبا کر مسلتی ہوئی بولی افففف سسسسییی میرا شہزادہہہہ اور منہ نیچے کرکے ساجو نے لن کے ٹوپے پر ہونٹ رکھ کر دبا کر کس کر چما لیا اور پچ کی آواز سے بولی میں صدقے جاواں اپنے شہزادے تے یہ کہ کر باجی نے اپنے مموں کو آگے کیا اور لن کا ٹوپہ اپنے نپلز پر مسلتے ہوئی لن کو اپنے مموں میں دبا کر لن کو چھپا کر مموں کی لکیر میں مسل دیا جس سے باجی اور ساجو کی سسکی نکل گئی نصرت کے جھکنے سے گانڈ باہر کو نکل آئی تھی باجی نے اوپر ہوکر لن کا ٹوپہ اپنے ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس کیا جس سے ساجو سسک گیا باجی نصرت نے مستی سے چوپا مارتے ہوئے اپنا منہ لن پر دبا کر آدھے سے زیادہ لن منہ میں دبا کر تیزی سے منہ اوپر نیچے کرتی ساجو کے لن کے دبا کر چوپے لگانے لگی جس سے ساجو اور نصرت دونوں مزے سے سسکنے لگے باجی نصرت کے تین چار زبردست چوپوں سے ساجو کا لن تھوک سے گیلا ہوگیا جس سے باجی نے منہ اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے تھوک لن پر مسل دیا جس سے ساجو کراہ گیا باجی جھک کر لن ہونٹوں میں دبا کر کس کر ایک منٹ تک لگاتار چوپے مارتی رہی جس سے باجی نصرت کا سانس پھول گیا اور باجی تیزے سے اوپر ہوکر کرلا گئی باجی کے منہ سے بھی تھوک بہنے لگا اور باجی دونوں ہاتھوں سے لن کو مسل کر فل گیلا کردیا باجی کے انداز سے لگ رہا تھا کہ باجی فل ٹرین ہے اس کام میں باجی اوپر ہوئی
اور کالو کی ٹانگوں سے شلوار کھینچ دی کالو سمجھ گیا اور ہنس کر بولا گشتیے میں جانڑدا ہاس توں مینوں تنگ کر رہی ہیں باجی نشلیے انداز میں ساجو کو دیکھ کر ہنستی ہوئی بولی ساجو تینوں پتا تے جس دن تیرا لن میری پھدی اچ نا جاوے مینوں سکون نہیں اندا وت توں کیویں اندازہ لا رہیا ہائیں کہ میرا دل کوئی نہیں پھدی مروان تے ساجو ہنس کر پھرتی سے اوپر اٹھا اور اسی پھرتی سے نصرت نیچے چارپائی پر لیٹ کر اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی شلوار گانڈ سے اتار دی باجی نصرت کی گوری گانڈ ننگی ہوئی تو ساجو اتنے میں باجی نصرت کی ٹانگوں میں آچکا تھا ساجو نے باجی نصرت کی شلوار پکڑی اور اوپر باجی نصرت کے پیروں تک کھینچ کر رک کر باجی نصرت کی شلوار کو مروڑا دے کر دوہرا کر شلوار کے پائنچے باجی نصرت کے پیروں میں پھنسا کر باجی نصرت کے پیر دبا کر باجی شلوار باجی نصرت کی گردن میں دبا کر اس طرح پھنسائی کہ باجی نصرت کے پاؤں شلوار سے بند کر گردن کے ساتھ اٹک گئے جس سے باجی نصرت فل دوہری ہوگئی اور باجی نصرت کی موٹے چتڑوں والی گانڈ فل کھل کر سامنے آگئی میری نظر اپنی بہن کی گانڈ پر پڑی تو میری سگی بہن نصرت کی پھدی کھل کر میری آنکھوں کے سامنے آگئی جسے دیکھ کر میری تو حالت غیر ہوگئی میرا جسم کانپنے لگا میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اپنی بہن کی پھدی کا نظارہ اتنی جلد کروں گا میرا جسم کانپ رہا تھا میری نظر اپنی بہن کی پھدی پر تھی باجی کی پھدی کا دہانہ کھل رہا تھا باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ ایک دوسرے سے جڑے تھے ساجو کے لن کی رگڑ نے باجی نصرت کی پھدی کھول کر رکھ دی تھی باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑ سے موٹے اور ہلکے سے براؤن ہو رہے تھے جبکہ باجی کی پھدی کا دانہ ابھر کر صاف نظر آنے لگا تھا باجی کی گلابی پھدی کا دہانہ پانی چھوڑ رہا تھا ساجو اگے ہوئے اور اپنا لن باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھا اور باجی کے اوپر جھک کر گانڈ اٹھا کر کس کر دھکا مارا جس سے ساجو کا کہنی جتنا لن باجی نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا پورا جڑ تک اتر گیا ساتھ ہی باجی نصرت کی چیخ نکلی اور باجی کرلا کر بولی اوئے ہال ہوئے امممممااااں میں مر گئی ساجججوووووو اڈاااا کے رکھ دیندا ہیں ہائے ہائے ہائے اماااااں ساجو لن پورا یک لخت جڑ تک اتار کر رک گیا باجی کراہیں بھرتی ہوئی کانپ رہی تھی ساجو کا کہنی جتنا لن پورا اتر کر نصرت کی پھدی چیر کر رکھ دیتا گا باجی آہیں بھرتی کانپ رہی تھی ساجو ایک لمحے کےلیے رکا اور پھر لن کھینچ کر آہستہ آہستہ لن نصرت کی پھدی کے اندر باہر کرتا باجی کو چودنے لگا ساجو کی سپیڈ بالکل آہستہ تھی باجی سسکتی ہوئی کراہنے لگی اور آہیں بھرتی کرلا رہی تھی میں بھی اپنی بہن کی پھدی میں لن اندر باہر ہوتا دیکھ کر مچل رہا تھا باجی کی پھدی کے موٹے ہونٹ ��اجو کے لن کو دبوچ کر مسل رہے تھے ساجو باجی کے اوپر جھک کر ہونٹ دبا کر چوسے اور اپنی سپیڈ تیز کرتا ہوا گانڈ اٹھا اٹھا کر پوری شدت سے دھکے مارتا ہوا لن کھینچ کھینچ کر نصرت کی پھدی کے آر پار کرنے لگا
جس سے باجی نصرت کی بکاٹیاں نکل کر کمرے میں پھیلنے لگی ساجو کا کس کر دھکے مارتا ہوا پوری شدت سے لن نصرت کی پھدی میں آر پار کرتا نصرت کو چود رہا تھا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی بکا رہی تھی ساجو رکے بغیر اپنی سپیڈ تیز کرتا ہوا پوری شدت سے کھینچ کھینچ کر پورے زور سے دھکے مارتا ہوا باجی نصرت کی پھدی کو مدلھولنے لگا ساجو کا کہنی جتنا لن پورا نکل کر باجی نصرت کی پھدی چیر کر پوری شدت سے پھدی چیر کر تیزی سے اندر باہر ہونے لگا ساجو اپنا فل زور لگا کر دھکے مارتا ہوا نصرت کی پھدی کو پوری شدت سے پیلنے لگا جس سے چارپائی بھی ہلتی ہوئی اب آوازیں دینے لگی ساجو کے لن کی چوڑی اب باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑ کر مسلنے لگی سے باجی نصرت بے اختیار تڑپی اور زور زور سے بکاٹ مارتی حال ایک کرنے لگی باجی کا جسم کانپنے اور باجی ارڑا کر حال حال کرتی اوئے ہالیوئے امااااااں اوئے ہالیوئے امااااااں میں مر گئی اوئے ہالیوئے امااااااں کرتی ہوئی مسلسل حال حال کرنے لگی ساجو نصرت کی حال حال کی پرواہ کیے بغیر پوری شدت سے لن نصرت کی پھدی کے آرپار کرتا ہوا کراہنے لگا ایک سے دو منٹ کے زبردست دھکوں نے نصرت اور ساجو دونوں کا کام تمام کردیا ساجو کراہ کر کرلاتا ہوا دھکا مار کر کہنہ جتنا لن پورا جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتار کر کرلا کر نصرت کے اوپر ڈھے کر جھٹکے مارتا باجی نصرت کی پھدی میں فارغ ہونے لگا ساتھ ہی نصرت بھی کرلا کر ہینگتی ہوئی آہیں بھرتی جھٹکے مارتی فارغ ہونے لگی نصرت نے زور لگا کر گردن میں اٹکی شلوار سے پیر نکال لیے اور اپنے پاؤں نیچے ساجو کی گانڈ کے گرد ولیٹ کر گانڈ اپنی طرف دبوچ کر ساجو جو باہوں میں بھر کر ہانپتی ہوئی کراہتی ساجو کو اپنے ساتھ باہوں اور پاؤں میں دبوچ کر ساجو کے ہونٹوں کو چوستی ہوئی ساجو کا لن پھدی میں دبوچ کر نچوڑنے لگی ساجو باجی نصرت کے ہونٹ دبا کر چوستا جھٹکے مارتا باجی نصرت کی پھدی میں لن دبا کر فارغ ہورہا تھا ساجو کے ٹٹے جھٹکے مارتے منی میری بہن نصرت کی پھدی کو بھر رہے تھے دونوں عاشق معشوق ایک دوسرے کو دبوچ کر چوستے ہوئے کچھ دیر میں نڈھال پڑے تھے اس منظر کشی میں مجھے بھی پتا نہیں چلا میرا کام بھی ہو چکا تھا دیوار پر میری منی کا نشان نظر آ رہا تھا میں ہانپ سا گیا ساجو ہانپ کر بولا نصرت بہوں حال حال کردی ایں نصرت بولی کی کراں تیرا لن تے پھدی چیر کے ہاں نوں ا لگدا اے حال حال ناں کراں تے کی کراں ساجو بولا ہولی کرن دتا کر تیری حال حال باہر کسے سن لئی تے مارے جاساں گئے نصرت بولی کجھ نہیں ہوندا میری حال حال کمرے توں باہر میں جاندی اے گھر اچ کوئی وی نہیں ہوندا باہر کسے نوں نہیں پتا لگدا ساجو بولا ہولی کرن دتا کر نصرت بولی ساجو ہولی کرن نال سواد نہیں اندا تیرے کئے مرد دا پورا زور ازاماون تے مزہ آندا اے تینوں پتا میرے اندر کیڈی آگ اے تیرا لن جدوں دل تے سٹ ماردا سکون جاندا ساجو بولا تینوں تے آکھیا اے تیری کسے ہورنال وی یاتی کراواں نصرت ہنس کر ساجو کو چھیڑ مار کر بولی ناں وے میں ہور کسے نال نہیں کرنا جو وی کرنا توں ہی کرنا
میرے نال میں تے تیرے کولو ہی پھدی مروانی ساجو بولا کیوں نصرت بولی بس بندہ بندہ یار بناوئیے تے بندہ چگلی جاندا بدنامی وی ہوندی مینوں عزت بڑی پیاری ہے میرے تے توں ہی بڑا ہیں ساجو بولا وت تیرا دل بھتیندا تے ہے نہیں روز میرے کولو پھدی مروندی ہیں نصرت بولی بس تیرے لن کولو اسے تو تے سٹاں مرویندی آں کہ دن لنگ جاوے نہیں تے اے میرے قابو میں اندی اے تے میرا من نہیں کردا کہ میں کسے ہور کول جاواں بس تیرے نال ہی رہنا ساجو ہنس کر بولا ہلا اے دس گولیاں لئے رہی ہیں حمل روکنے آلیاں تو نصرت بولی ساجو بڑے دن ہو گئے ہینڑ توں میرے اندر انج ہی فارغ ہو رہیا ایں آگے آر میں حاملہ ہو گئی نا تے تک لویں ساجو نصرت کے سینے سے سر اٹھا کر نصرت کو دیکھ کر ہنس کر تیرا اپنا دل کردا کے تیرے اندر فارغ ہوواں نہیں تے میں تے باہر فارغ ہو لواں گولیاں وی نہیوں کھاندی تے مینوں ساتھ وی استعمال نہیں کرنا دیندی نصرت بولی باہر فارغ ہونے دا سواد نہیں اندا دل کردا تیرا پانی اندر لواں بولا نصرت میں تینوں ہوڑدا ہاں بھلا توں آپ ہی نہوں لیندی میں تے تینوں لیا دیندا گولیاں نصرت یہ سن کر ہنس دی اور بولی چنگا نہیں ساجو بولا نصرت چار وار تے ہو گئیاں ہینڑ توں حاملہ ہوجاندی ہیں تیرا حمل صاف کرنے آلی ڈاکٹر مینوں ہر وار شرمندہ کردی کہ کیوں حاملہ کردا ایں پروٹیکشن استعمال کیتی کر میں کی دساں کہ میری سوانی آپ نہیں استعمال کرن دیندی نصرت زور سے ہنسی اور بولی تے دس دیویں اس وقت بے شک ساجو بولا اس وار میں تینوں لئے ہی نہیں جانا صفائی کروانے آپے جمسیں گئی نصرت ہنس کر بولی کوئی گل نہیں میں جم لیساں گئی جے کسے پچھیا تے اکھساں ساجو دا اے ساجو ہنس دیا اور بولا کیوں انج کردی ایں نصرت ہنس کر بولی ویسے پتا نہیں انج قسمت اچ بچہ پیدا کرنا ہے کہ نہیں انج ہی میں تیرے کولو حاملہ ہوکے سدھر لاہ لیندی آں ساجو ہنس کر بولا وت اس وار نا ضائع کروائیے اس وار بچہ جم لئے نصرت ہنس کر بولی سچی میرا دل وی کردا تے ہے پر ڈردی وی ہاں ساجو بولا کس تو ڈردی ہیں نصرت بولی بس لوگوں دا ڈر نا ہوندا ساجو آج تیرے اچو 4 واری جہڑی حاملہ ہوئی ہاں نا اے چار بچے پیدا کردی ساجو ہنس دیا نصرت بولی ساجو تیری گل سہی اے اس وار پراں جم ہی چھڈاں کی ہوسی گیا ساجو بولا کیوں مروانا ہئی نصرت ہنس دی اور بولی بڑی جلدی پھر گیا ہیں اپنی گل توں ساجو بولا نصرت لوگاں تو لوکانا اوکھا ہوجانا نصرت بولی میں لوکا لیساں توں فکر نا کر توں بس ہک وار ہور پھدی مار کے مینوں ٹھنڈا کر میں یہ سن کر ہکا بکا کھڑا تھا میری بہن نصرت اس حد تک پہنچ چکی تھی مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا ویسے بھی میری گرمی اتر چکی تھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ باجی نصرت کی بکاٹ سے میں چونکا میری بہن نصرت کی دوسری چدائی شروع ہو چکی تھی ساجو کا کس کر دھکے مارتا نصرت کو چودنے لگا اؤر نصرت کراہتی ہوئی حال حال کرتی جا رہی تھی مجھ سے کھڑا نا ہوا گیا میں واپس مڑا لن اندر ڈالا اور اپنے کمرے میں آکر سرپکڑ کر بیٹھ گیا جس بہن کو شریف اور نیک سمجھتا تھا وہ تو یک نکلی دو منٹ تک باجی کی چدائی کی آوازیں آتی رہیں پھر ساجو اور باجی فارغ ہوکر چپ ہوگئے مجھے بھی پتا تھا کہ اب ان کی بس ہو گئی ہے اس لیے میں نہیں چاہتا تھا
کہ اب یہ نکلیں تو مجھے دیکھ کر شرمائیں میں جوتا ڈالا اور بیگ اٹھا کر سیڑھیوں کے راستے نکل گیا میرا سر چکرا رہا تھا مجھے نصرت سے یہ امید نہیں تھی مجھے غصہ بھی تھا غصہ اس لیے تھا کہ وہ کیسے بے باکی سے ساجو سے چدوا رہی تھی اسے کچھ تو لحاظ کرنا چاہئیے تھا خاموشی سے بی چدوا سکتی تھی میں دس منٹ تک بازار گھومتا رہا پھر مجھے جیدی ملا وہ بولا آجا بازی لگنے والی ہے پر میری بازی تو بن چکی تھی مجھے اب باشی سے کوئی سروکار نہیں رہا تھا میں گھر کی طرف آیا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ دیر بعد باجی نصرت نے دروازہ کھولا مجھے دیکھ کر باجی کا رنگ ہی اڑ گیا اس کا ایک رنگ آنے اور جانے لگا میں سمجھ گیا کہ ساجو ابھی تک اندر ہے پہلے بھی ساجو ہمارے گھر آتا تھا پر اپنے ابے کے ساتھ یوں اکیلے میں نصرت اپنے ساتھ ساجو کو دیکھ کر میری موجودگی سے گھبرا گئی میں سب کچھ دیکھ چکا تھا اس لیے میں نے باجی کے بدلتے رنگ کا کوئی نوٹس نہیں کیا اور نارمل ہی رہا تاکہ باجی کو شک نا پڑے باجی بولی دیمی خیر ہے آج جلدی آگیا ایں میں بولا ہاں آج دو ٹیچر نہیں آئے سی تے فری سی باجی نے یہ بات اونچی آواز میں کی تھی کہ اندر ساجو سن لے جو اس نے سن بھی کی اور وہ سمجھ گیا کہ میں آگیا ہوں وہ ابھی تک غالباََ ننگا تھا اس لیے وہ کپڑے پہن کر چھپ گیا میں اپنی بہن کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے بھی وہیں کھڑے ہوکر ان کو سنبھلنے کا وقت دیا ساجو جب چھپ گیا تو باجی نے مجھے اندر آنے کا کہا باجی اس وقت چادر میں تھی میری نظر بھی جھکی تھی میں جان بوجھ کر نہیں دیکھ رہا تھا میں اسوقت ہی باجی کو غورتا تھا جب باجی اپنے دھیان میں ہو میں سیدھا اپنے کمرے میں جانے لگا تو میری نظر کھڑکی پر پڑی جہاں میری منی سم رہی تھی اب اس کا نشان باقی تھا میں اندر کمرے میں داخل ہوگیا بیگ رکھ کر میں نے جوتے اتارے اور دروازہ بند کرنے آیا تو باجی برآمدے میں کھڑی کھڑکی پر گری اس منی کو دیکھ رہی تھی باجی کا رنگ اڑا تھا میں نے باجی کو غورتا دیکھا تو میں بھی سمجھ گیا کہ باجی ضرور اندازہ لگا رہی ہے کہ یہ کیا ہے یہ سوچ کر میں نے بغیر کوئی تاثر دیے دروازہ بند کیا اور کپڑے بدلے باجی کو اپنی منی دیکھتا پا کر میرے لوں لوں کھڑے ہوئے میرے لن نے پھر انگڑائی لی پر میں نے خود کو روک لیا میں نکلا اور واشروم میں جا کر نہانے لگا باجی کو شک تھا میرے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ باجی نے کچھ نوٹس کیا ہے پر باجی کو شک پڑ چکا تھا کہ کوئی ہمیں آ کر دیکھتا رہا ہے کیوں میں جب واشروم میں تھا تو باجی اور ساجو دیوار پر لگی اس منی کا بغور جائزہ لے رہے تھے کہ یہ کیا ہے باجی کو مجھ پر شک تھا
پر اس نے ساجو سے یہ بات نہیں کی کیونکہ باجی کو پتا تھا کہ میری چاچے جیدی سے دوستی ہے اور اکثر میں گھر سے اسکے گھر اتر جاتا اور کبھی کبھار وہاں سے اپنے گھر بھی جاتا تھا باجی کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ میں نے دیکھ لیا ہے ساجو کے ساتھ اپنی بہن کو اسلیے اس نے ساجو کو جانے کا کہ دیا ساجو چلا گیا میں نکلا تو باجی نے کھانے کا پوچھا باجی کا چہرہ اترا تھا اور باجی بجھی ہوئی سی لگ رہی تھی شاید باجی کو اب غلٹ فیل ہو رہا تھا کہ کوئی آیا تھا اور اسے سجو سے چدواتا دیکھ لیا کیونکہ یہ منی کسی مرد کی ہی تھی جس کا نشان ابھی تک تھا اس کا شک مجھ پر تھا جبکہ میں نے اپنے آپ کو یوں نارمل رکھا کہ مجھے کچھ علم نہیں میں باجی کے ساتھ نارمل رہا باجی کو لگا کہ آنے والا میں نہیں تھا میں کھانا کھا کر چھت کی طرف جانے لگا تو باجی نے پوچھے کدے جاؤں ہیں میں بولا چاچے جیدی دی آج بازی ہے او ویکھو ہاں یہ سن کر باجی کا رنگ فک ہوگیا اور باجی سمجھ گئی کہ جیدی یا اس کے بیٹے محسن نے انہیں دیکھ لیا ہے اور انہیں دیکھتے وہ خود بھی مٹھ لگاتا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ فارغ ہوا باجی کا رنگ اڑتا دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ باجی اندازہ لگا رہی ہے کہ جیدی یا محسن آیا ہوگا لیکن حقیقت میں جانتا تھا اس لیے میں مطمئن ہوگیا کہ جیدی یا محسن کو تو پتا ہی نہیں اس لیے بات جب باہر نہیں نکلے گی تو کسی کو پتا نہیں چلے گا یوں باجی مطمئن ہو جائے گی میں باجی جو پریشان چھوڑ کر اوپر چڑھتا ہوا جیدی کی طرف آگیا جہاں دونوں باپ بیٹا بازی کی تیاری کر رہے تھے میں دیوار کراس کرکے جیدی کی چھت پر اتر گیا اور واپس مڑ کر دیکھا تو باجی دروازہ بند کرتی ہوئی آڑے رنگ سے ہمیں دیکھ رہی تھی میں باجی کو اگنور کرکے جیدی کے ساتھ کبوتروں میں بزی ہوگیا کچھ دیر تک میں بزی رہا پھر مجھے گھر سے کچھ لینا تھا میں گھر کی طرف آیا تو سیڑھیوں والا دروازہ بند تھا دروازہ تھوڑا پرانا تھا اور درمیان سے ہاتھ ڈال کر کندی جھولی جا سکتی تھی میں نے ہنڈی کھول لی اور آہستہ سے نیچے اتر آیا باجی نصرت کے کمرے سے پھر آوازیں آ رہی تھیں میں نے سوچا کہ باجی ابھی تک ساجو سے چدوا رہی ہے بڑی آگ ہے باجی میں میں آگے جا کر کھڑکی میں جھانکا تو آگے کا منظر دیکھ کر میں حیران ہوا ساجو تو جا چکا تھا شاید پر اس بار ساجو کا باپ اور چاچا سرو میری بہن نصرت کو گھوڑی بنا کر نصرت کو چود رہا تھا سرو کا لمبا کہنی جتنا لن باجی کی پھدی میں تیزی سے اندر باہر ہورہا تھا سرو نے باجی نے گت دبا کر مروڑ کر کھینچ رکھی تھی جس سے باجی درمیان سے دوہری ہوکر گانڈ ہوا میں اٹھا رکھی تھی پیچھے سے سرو کس کس کر دھکے مارتا باجی نصرت کو پوری شدت سے چود رہا تھا باجی کی پھدی کا دہانہ مسلسل چدائی سے لال ہو رہا گا باجی کرسکتی ہئی تڑپ رہی تھی سرو آگے جھکتے ہوئی باجی نصرت کو چومتا ہوا چود رہا تھا کہ دو چار دھکے مار کر باجی نصرت کا جسم کانپتا ہوا جھٹکے مارنے لگا ساتھ ہی سرو بھی باجی کی پھدی میں لن جڑ تک اتار کر فارغ ہونے لگا باجی آہیں برتی مزے سے سرو کے ہونٹ چومتی فارغ ہو رہی تھی باجی کا جسم جھٹکے کھا رہا تھا جبکہ سرو کے ٹٹے اچھل اچھل کر منی باجی کے اندر پھینک رہے تھے میں یہ سب دیکھ کر ہکا بکا تھا کہ جس بہن کو بہت شریف سمجھتا تھا وہ تو پوری گشتی نکلی باجی نصرت اور سرو فارغ ہوکر کھڑے ہوگے لن ابھی تک باجی کی پھدی میں تھا دونوں ایک دوسرے کو چومنے لگے مجھے حیرانی کے ساتھ خوشی بھی تھی حیرانی اس لیے کہ باجی ایسی لگتی تو نہیں تھی خوشی اس لیے کہ باجی کے ساتھ اب کوئی چکر چلا کر مزے لیے جا سکتے تھے میں یہ سوچتا ہوا واپس پلٹا اور دروازے کو بند کرنا بھول کر واپس چلا گیا
---------
---ختم شد---
8 notes
·
View notes
کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے
مسافر لوٹ کر اب اپنے گھر شاید نہ آئے
کسے معلوم اہل ہجر پر ایسے بھی دن آئیں
قیامت سر سے گزرے اور خبر شاید نہ آئے
.....
اردو کے ممتاز شاعر افتخار عارف کا یوم پیدائش
Mar 21, 1943
——
3 notes
·
View notes
شاعر مزدور، احسان دانش
احسان دانش لاہور سے کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور ہم اپنے دوست سراج منیر (مرحوم) کے ساتھ ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت کے ایک کمرے میں ان کی آمد کے منتظر تھے۔ دراصل ہمیں ہندوستانی سامعین کے لیے نشر ہونے والے ایک پروگرام کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا۔ ویسے بھی دانش صاحب سے ملاقات کا شرف ہمارے لیے سرمایہ حیات سے کم نہ تھا، جس کا ہمیں عرصہ دراز سے بڑی شدت کے ساتھ انتظار تھا، وہ ان بڑے لوگوں میں سے تھے جو منہ میں سونے کا چمچہ لیے پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ جنھوں نے اپنا جہان اپنی محنت و مشقت کے بل پر خود آباد کیا تھا۔ حسب وعدہ صبح وقت مقررہ پر ٹھیک دس بجے احسان دانش نے ہمارے کمرے میں قدم رکھا تو ہمارے احساسات اور جذبات بیان سے باہر تھے۔ جی چاہتا تھا کہ وقت کا کیمرہ اس تاریخ ساز منظر کو اپنے اندر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے رکھ لے کیوں کہ ایسے مواقعے زندگی میں بار بار میسر نہیں آتے۔
وہ سادگی اور عظمت کا ایک دل نشین پیکر تھے۔ ہم نے انھیں بچپن سے پڑھا بھی تھا اور ان کے بارے میں بہت کچھ سنا بھی تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے، جن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام بے حد سخت اور کٹھن تھے، جب انھیں جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ کبھی مزدوری کی تو کبھی کسی چھاپے خانے میں بطور انک مین کام کیا۔ کبھی باورچی گیری کی تو کبھی چپڑاسی گیری، کبھی راج مزدور کی حیثیت سے کام کیا تو کبھی چوکیداری کی۔ وہ مالی بھی رہے اور قالین بننے والے بھی۔ ایک زمانے میں انھوں نے کتابوں کی ایک دکان پر بطور مددگاربھی خدمات انجام دیں اور زندگی کے آخری حصے میں کتب فروشی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ اس کج کلاہ نے سب کچھ کیا مگر ضمیر فروشی سے تادم آخر گریز کیا۔
ان کا اصل نام قاضی احسان الحق تھا، مگر علمی دنیا میں ان کی شہرت احسان دانش کے نام سے ہوئی۔ وہ قاضی احسان علی دانش کے فرزند تھے جن کا کل سرمایہ حیات زرعی زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا، جو خاندان کی گزر بسر کے لیے ناکافی تھا۔ ان کا آبائی وطن باغت، ضلع میرٹھ تھا لیکن جائے پیدائش قصبہ کاندھلہ ضلع مظفر نگر تھی۔ گفتگو کے دوران ان کی جنم بھومی کا تذکرہ چھیڑا تو احسان دانش یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ حسن اتفاق سے ہماری جائے پیدائش بھی ضلع مظفر نگر کا ہی ایک قصبہ ہے جس کا نام بگھرہ ہے۔ کاندھلہ اور تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یوپی) کے وہ مشہور تاریخی قصبے ہیں جو مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی جیسے علمائے کرام کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ احسان دانش کی ابتدائی پرورش تو قصبہ باغت ہی میں ان کے نانا جان کے زیر سایہ ہوئی لیکن نانا کی وفات کے بعد ان کے والد انھیں اپنے ساتھ لے کر کاندھلہ میں آکر مقیم ہو گئے۔ احسان دانش کو پڑھنے لکھنے کا شوق بچپن سے ہی جنون کی حد تک تھا لیکن خاندانی غربت کی وجہ سے وہ چوتھی جماعت سے آگے اپنی پڑھائی جاری نہ رکھ سکے۔
اسی غربت نے انھیں لڑکپن میں ہی محنت مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا تاآنکہ انھوں نے لاہور کا رخ کیا اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہاں بھی انھیں جان توڑ محنت کرنا پڑی مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ مطالعے کا شوق اور شاعری کا چسکا انھیں بچپن ہی سے تھا جس میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا، اس زمانے میں بعض شاعر اپنا کلام پمفلٹ کی صورت میں خود ہی چھپوا کر گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر پڑھتے ہوئے فروخت کیا کرتے تھے۔ حضرت بوم میرٹھی جیسے بے مثل شاعر کو بھی اپنا پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً یہی طریقہ اختیار کرنا پڑا تھا۔ پھر جب احسان دانش کو پنجاب یونیورسٹی کے ایک ٹھیکیدار کے یہاں کام کرنے والے ایک راج مستری کے مددگار کی جاب مل گئی تو انھوں نے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد جو وقت انھیں میسر آتا اسے وہ لائبریری میں صرف کر دیا کرتے تھے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
آخرکار وہ دن بھی آیا جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو کے پیپرز کے ممتحن بنے اور جب وہ چیف ایگزامنر کی حیثیت سے اپنے معاوضے کا چیک لینے کے لیے یونیورسٹی پہنچے تو ان کے پرانے ساتھی مزدور انھیں پہچان گئے اور ان کی اس عظیم الشان کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ احسان دانش نے ثابت کر دیا کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ یہ کہاوت بڑی مشہور ہے کہ ’’خوش نصیبی انسان کے دروازے پر کبھی نہ کبھی دستک ضرور دیتی ہے۔‘‘ احسان دانش کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انھیں لاہور کی مشہور شملہ پہاڑی کی چوکیداری کی ملازمت میسر آئی۔ اس ملازمت نے انھیں آرام سے پڑھنے لکھنے کی فراغت مہیا کر دی جس کے نتیجے میں ان کی شاعری ادبی وسائل و جرائد میں شایع ہو کر عوام و خواص میں مقبول ہونا شروع ہو گئی اور پھر وہ مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے جس نے ان کی شہرت میں روز بہ روز اضافہ کر دیا۔
ایک نعتیہ مشاعرے میں ان کی ملاقات گورنر ہاؤس کے ہیڈ مالی سے ہو گئی جس نے ان کی شاعری سے متاثر ہو کر انھیں گورنر ہاؤس میں مالی کی ملازمت دلوائی جہاں کچھ عرصے کام کرنے کے بعد احسان دانش نے یہ ملازمت چھوڑ دی اور محکمہ ریلوے میں چپراسی لگ گئے پھر انھوں نے اس نوکری کو بھی خیرباد کہہ دیا اور ایک بک اسٹال پر کام کرنے لگے۔ روزی روٹی کے چکر نے شاعر مزدور احسان دانش کو سرمایہ داروں اور ان کی ذہنیت سے بدظن کر دیا۔ یہ ان کی زندگی کا انتہائی نازک موڑ تھا جس کے نتیجے میں وہ بعض دوسرے لوگوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام سے متنفر ہو کر مارکسزم کا رخ بھی اختیار کر سکتے تھے مگر ان کے دل و دماغ پر لگی ہوئی مذہب کی چھاپ اتنی گہری تھی کہ انھوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ تاہم وہ مزدور اور اس کی عظمت کے ترانے لکھتے رہے، گاتے رہے اور ’’شاعر مزدور‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نام نہاد شاعر مزدور نہیں بلکہ حقیقی شاعر مزدور کہلانے کے مستحق ہیں، کیوں کہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ مزدوری پر ہی محیط ہے۔
وہ محض شاعر ہی نہیں بلکہ ایک وسیع المطالعہ دانشور اور اسکالر بھی تھے، جنھوں نے اردو لسانیات اور لغات کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جو ’’حضرِ عروض‘‘، تذکیر و تانیث، لغت الاصلاح، اردو مترادفات اور دستور اردو جیسی لافانی کتابوں کی شکل میں ہمیشہ یاد رکھی جائیںگی۔ انھوں نے بے شمار نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی کی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان کی خودنوشت ’’جہان دانش‘‘ بھی ان کا بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اور بہت سی کتابیں بھی ہیں جن کی تعداد پچاس سے بھی زیادہ ہے، ان کی غیر مطبوعہ تحریریں اس کے علاوہ ہیں۔ اردو زبان اور ادب کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں نشان امتیازاور ستارہ امتیاز کے ایوارڈز بھی دیے گئے۔
شکیل فاروقی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
کوئی نہیں جانتا کہ ہم پیدائش سے کیا حاصل کرتے ہیں۔ ہم صرف امیدیں، وہم اور خواب جیتتے ہیں۔ ہمیں آخر میں موت کا انتظار کرنا چاہیے کہ ہم نے کیا کھونا ہے۔
Nobody knows what we gain from birth. We only win hopes, illusions and dreams. We should wait for death at the end to see what we have lost.
John Dormison
5 notes
·
View notes