پرویز الٰہی نے فوج مخالف تہلکہ مچانے والوں کو قوم کا دشمن قرار دے دیا
پرویز الٰہی نے فوج مخالف تہلکہ مچانے والوں کو قوم کا دشمن قرار دے دیا
وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی، جیو نیوز/فائل
لاہور: پاک فوج کی سینئر قیادت کے بارے میں عمران خان کے حالیہ ہتک آمیز ریمارکس سے خود کو دور کرتے ہوئے، پی ٹی آئی کے ایک اہم اتحادی، وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے بدھ کے روز کہا کہ فوج مخالف فتنہ انگیزی میں ملوث افراد “قوم کے دشمن ہیں۔ اور مذہب”۔
جامعہ اشرفیہ میں ختم نبوت و استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پرویز الٰہی نے کہا کہ…
بهر هر یاری که جان دادم به پاس دوستی دشمنیها کرد با من در لباس دوستی 💔 جان فدا کردیم و یاران قدر ما نشناختند کور بادا دیدهٔ حقناشناس دوستی ☹️ #رهی_معیری #خوشنویسی_با_خودکار #ساعد_علیزاده_نایینی #خوشنویسی #خوشخطی #آموزش_خوشنویسی #رهی #یار #دلبر #دشمن #دوست (at Isfahan Province) https://www.instagram.com/p/Chjpm5YMeEP/?igshid=NGJjMDIxMWI=
دہشتگرد ملک اور قوم کے دشمن ہیں ان کو کچلنا ہوگا، بشری رند
دہشتگرد ملک اور قوم کے دشمن ہیں ان کو کچلنا ہوگا، بشری رند
بشری رند نے کہا ہے کہ دہشتگرد ملک اور قوم کے دشمن ہیں ان کو کچلنا ہوگا۔
اپنے ایک بیان میں پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات بلوچستان بشری رند نے ہرنائی کے قریب مزدورں کے کیمپ پر مسلح افراد کے حملے کی شدید مذمت کی جبکہ شہید ہونے والے مزدوروں کے لواحقین سے گہرے رنج و دکھ کا اظہار بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امن میں خلل ڈالنے کے لیے دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
پارلیمانی…
آسمان پر تھوک کر اپنا منہ گندا کرنے والے اب اپنے ناکام اور فوج دشمن ایجنڈے سے یوم دفاع کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات
آسمان پر تھوک کر اپنا منہ گندا کرنے والے اب اپنے ناکام اور فوج دشمن ایجنڈے سے یوم دفاع کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات
ا سلام آبا د(نمائندہ عکس)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ آسمان پر تھوک کر اپنا منہ گندا کرنے والے اب اپنے ناکام اور فوج دشمن ایجنڈے سے یوم دفاع کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں۔ منگل کو اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ جوان اپنی قیادت پر فخر کرتے ہیں، ہنستے وہ اس پر ہیں جس نے خود اپنی تذلیل کا بندوبست کیا ہوا ہے اور اپنے مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دیتا ہے۔
(54/54) “I wish I could see it again. Just one more time. I wouldn’t need long. I’d spend a day in Tehran. I’d visit Persepolis, to see the ruins. I’d go to Nahavand, to see my people. To meet their children. And the children of their children. And then I’d go to his tomb. He was buried in his garden. And to stand there one more time, where he tended his trees. Where he sowed his seeds. Seven verses a day. I’d say them quietly in my head, I wouldn’t want to disturb the peace. But something happens, I can’t help it. I feel the heat. I feel the pressure. It’s like a sword pierces my body and I have to let it out: 𝑹𝒂𝒌𝒉𝒔𝒉 𝒓𝒐𝒂𝒓𝒆𝒅 𝒃𝒆𝒏𝒆𝒂𝒕𝒉 𝑹𝒐𝒔𝒕𝒂𝒎! The thunder of hooves, the spark of swords, the clash of axes, the single arrow spinning through the air. Who are these Persians? Rumi, Saadi, Hafez, Khayyam, Ferdowsi. Not even a lion! Not even a lion could stand against them! Our kings. Our queens. Our castles. Our battles. Our banquets. Our songs and celebrations. Our culture. Our wisdom. Our choices. Our story. And our words. All of our words. Words of mothers, words of fathers, words that teach, words that fly, words that cut, words that heal, words laughed, words sung, words wept, words prayed, words whispered in a moonlit garden, words of sin, words kissed, words sighed, words spoken from one knee. 𝘔𝘦𝘩𝘳. Words forgotten. Words remembered again. Words written on a page. Words etched on the face of a tomb. 𝘑𝘢𝘢𝘯. 𝘒𝘩𝘦𝘳𝘢𝘥. A castle of words! That no wind or rain will destroy! Who we were. Who we were! But also, who we wanted to be. We begin in darkness. A siren screams. A knight appears. A knight with the heart of a lion. A knight with a voice to make, the hardened hearts of warriors quake. A knight who rode out to face the enemy alone, and she roared. She roared! She roared at the enemy lines! Here! Here is your champion! Her wisdom, her soul, her voice, her faith, her power, her heart, her passion, her sin, her choice, her life, her fight, her fire, her fury, her justice! And her hair. Hair like a waterfall. Hair like silk. Hair like night. Hair worthy of a crown. 𝘈𝘻𝘢𝘥𝘪. All of Iran, in a single poem.”
آرزو دارم بار دیگر آن را ببینم. برای یکبار هم که شده. کوته زمانی شاید. یک روز هم در تهران بمانم. سپس به تختجمشید بروم، ویرانههای پرشُکوهش را دیدار کنم. آنگاه سری به نهاوند بروم، با سر بروم، برای دیدن زادگاهم. دیدن مردمانش. دیدن فرزندان و فرزندانِ فرزندانشان. سپس به آرامگاهاش خواهم رفت. در باغاش که خاک پاک اوست. یک بار دیگر آنجا بایستم که او درختاناش را میپروراند. زمینی که دانههایش را در آن میکاشت. هفت بیت شعر میانگین هر روزش را میسرود. سرودههایش را به آرامی در دل و جانم زمزمه کنم. آرامش آنجا را به هم نخواهم زد. بیگمان از درونم احساسی میجوشد، جلویش را نتوانم گرفت. گرمایش را، فشارش را احساس میکنم. شمشیری تنم را میشکافد، فریادم را فرو میخورم: از این سو خُروشی بر آورد رَخش / وزآن سوی اسب یل تاجبخش! پژواک سُم اسبها، درخشش شمشیرها، چکاچاک تبرها، و چرخش تکتیری در آسمان بلند. کیانند اینان، ایرانیان؟ مولانا، سعدی، حافظ، خیام، فردوسی. دل شیر در جنگشان اندکیست! شاهانمان. شهبانوانمان. کاخهامان. نبردهامان. بزمهامان. سرودها و جشنهامان. پهلوانانمان. فرهنگمان. خردمان. گُزینههامان. داستانمان. و واژگانمان. همهی واژگانمان. واژگان مادران، واژگان پدران، واژگانی که میآموزند، واژگانی که پرواز میکنند، واژگانی که میبُرند، واژگانی که بهبودی میبخشند، واژگان خندان، واژگان سروده شده، واژگان زاری، واژگان نیایش، واژگان نجوا شده در باغ مهتابی، واژگان گناه، واژگان بوسیده شده، واژگان آوخ، واژگان گفته شده بر یک زانو. مهر. واژگان فراموش شده. واژگان یادآوری شده. واژگان نوشته شده بر برگ. واژگان حک شده بر آرامگاه. جان. خرد. کاخی از واژگان! که از باد و باران نیابد گزند! که بودهایم. که بودهایم! و چه میخواستیم باشیم. در تاریکی آغاز میکنیم. بانگ آژیری برمیخیزد. سواری پدیدار میشود. پهلوانی با دل شیر. با خُروشی که دلهای استوار جنگیان را میلرزاند. پهلوانی که به تنها تن خویش به نبرد دشمن میرود. و میخُروشد. میخُروشد! میخُروشد بر صف دشمنان! اینجاست، اینجاست پهلوان شما! خِرد او، جان او، آوای او، ایمان او، نیروی او، دل او، شور او، گُناه او، گُزینهی او، زندگی او، زمان او، نبرد او، آتش او، خشم او. داد او! و گیسوان او. گیسوانی چون آبشار. گیسوانی ابریشمین، گیسوانی چون شب. گیسوانی سزاوار تاج. آزادی. همهی ایران در شعری یگانه
میں ایک جاب ہولڈر لڑکی ہوں الحمدللہ گریڈ 18 کی ملازم ہوں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں۔
اور بدقسمتی سے دو بچوں کی ماں اور خلع یافتہ ہوں ۔
عورت ہمیشہ جذباتی ہوتی ہے جذبات میں آ کر فیصلہ کر لیتی ہے جو کہ نہیں کرنا چاہیے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہیے۔
37 میری عمر ہے 28 سال کی عمر میں میری شادی ہوئی تھی میری شادی اپنی فیملی میں ہوئی تھی میرے ہسبینڈ بھی ایک گورنمنٹ جاب ہولڈر تھے ۔
ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں وہ جاب کرتے تھے گریڈ 15 میں۔ میری پہلی اولاد بیٹا تھا بیٹے کی پیدائش تک ہم جوائنٹ فیملی میں رہے اور اچھا وقت گزرا اب میں ویسے جھوٹ کیوں بولوں کے جوائنٹ فیملی میں مجھے کوئی مسلہ نہیں تھا یا کبھی نہیں ہوا بہت اچھے تھے وہ مگر مجھے جوائنٹ فیملی میں رہنے کا دل نہیں کرتا تھا
میں نے اپنے ہسبینڈ سے کہا ہم اپنا گھر بناتے ہیں اور الگ ہو جاتے ہیں ہم دونوں کی سیلری اتنی تو ہے کہ ہم ایک سال میں اپنا گھر بنا ہی لیں گے اور گاڑی بیچنی پڑے تو بیچ کر پہلے گھر بناتے ہیں پھر گاڑی لے لیں گے وہ اس بات پر تیار ہو گے
میرے پاس جو پیسے تھے میں نے پلاٹ لے لیا اور ایسے ہی ہم نے ایک سال کے اندر دونوں نے مل کر اپنا گھر بنا لیا۔
میری سیلری میرے ہسبینڈ سے ذیادہ تھی ۔گھر بن گیا ہم الگ ہو گے۔الگ ہونے کے بعد گھر میں چھوٹے موٹے مسلے تو ہوتے ہیں ہر گھر میں ہوتے ہیں مگر سچ بولوں تو مجھے اپنی نوکری پر بڑا غرور تھا اور میں اپنی نوکری کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھی تھی جو کہ میری لائف کی سب سے بڑی بیوقوفی تھی جو آج مجھے سمجھ آ رہی ہے
پھر میری بیٹی کی پیدائش ہوئی ۔اور یہاں ایک بات یاد رکھنا عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہوتی ہے مرد اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنی ایک عورت عورت کو پہنچاتی ہے۔
گھر جو ہم نے بنانا تھا اسمیں ذیادہ پیسے میرے لگے تھے اور وہی غرور وتکبر گھر میں کوئی بھی بات ہوتی تو میں بات بات پر یہی طعنہ دے دیتی کہ گھر میں میرے پیسے ذیادہ ہیں تمہارا کیا ہے ؟
بس پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہی میری کزن جسکا آنا جانا ذیادہ تھا اسنے مجھے ورعلانہ شروع کر دیا کہ تم اس سے ذیادہ سیلری لیتی ہو وہ کم لیتا ہے ایسے ہی کہانیاں اسنے شروع کر دیں میرے دل میں انکے لئے نفرت پیدا کرتی رہی اس قدر اسنے زہر گھولا کہ میں اپنے بچوں تک کو بھول گئی یہ بھی بھول گئی کہ میرے تو دو بچے بھی ہیں ۔
لڑائی جھگڑے بڑھتے گے ہم نے گاڑی لی تھی اسمیں بھی میرے پیسے ذیادہ تھے ۔بدقسمتی میری کہ میں نے اپنے خاوند کو ایک دن کہہ دیا کہ یا تو آپ مجھے گاڑی کے پیسے واپس کریں یا پھر آج کے بعد آپ گاڑی استعمال نہیں کرینگے۔
یہ بات میرے لئے تو معمولی تھی مگر انکے لئے تو نہیں ہوئی ہو گی کیونکہ میرے اندر زہر ہی اتنے گھول دیا گیا تھا ۔انہوں نے گاڑی بیچ دی اور میرے پیسے مجھے دے دیئے میرے جو خاوند تھے انکے بڑے بھائی کینیڈا میں ہوتے ہیں ۔وہ گھر آئے تین ماں رہے اور واپسی جاتے انہوں نے گاڑی اپنی بھائی کو دے دی
وہ کافی مہنگی گاڑی تھی مجھ سے نہ برداشت ہوئی تو میں نے ایک دن مطالبہ کر دیا کہ گھر میں میرے جو پیسے لگے ہیں مجھے واپس کرو ( اور یہاں پر ایک اٹل حقیقت) وہ یہ کہ یہ سب کچھ میں اس لئے واپس لے رہی تھی کہ میں اپنی اس کزن کی باتوں میں آ کر خلع کا فیصلہ کر چکی تھی اللہ اسکو بھی ہدایت دے مگر جو ایسے کسی کا گھر برباد کرتا ہے خدا اسے بھی کبھی خوش رہنے نہیں دیتا خوش وہ بھی آج نہیں
انہوں نے وہ گاڑی بیچی اور مجھے میرے پیسے واپس کر دیئے باقی جو پیسے بچے تھے انہوں نے نوکری چھوڑ دی اور ان پیسوں سے اپنا بزنس شروع کر دیا ۔ ایک ہوٹل اوپن کیا تھا آج انکے پاس اپنے ذاتی تین ہوٹل ہیں اور میں غرور وتکبر میں ڈھوبی ہوئی عورت نفسیاتی مریض بن چکی ہوں ۔
جب وہ پیسے مجھے مل گے میں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا انہوں نے اور میرے گھر والوں نے مجھے تب بہت سمجھایا مگر میری عقل پر پردہ پڑ چکا تھا نہیں سمجھی ۔کیونکہ میری جو کزن ہے اب یہاں اگر مزید سچ لکھوں تو مجھ سے ہونے والی غلطیاں مجھے خود ایک عورت ذات کی توہیں لگتی ہیں ۔
بہرحال میں اپنی کزن کی باتوں میں آ گئ اسکا جو دیور تھا اسکی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھی اسکی ایک بیٹی بھی تھی اور وہ آرمی میں میجر تھا میں بھی ذیادہ کی لالچ میں اور بڑے عہدوں کی لالچ میں اسکی باتوں میں آ گئی اور طلاق لے لی ۔
اور میری زندگی کی دوسری سب سے بڑی غلطی طلاق مجھے انہوں نے ایک شرط رکھ کر دی تھی کہ میں بچے تمہیں نہیں دوں گا میں نے اس شرط کو قبول کیا اور ��لاق لے لی ۔
عدت پوری ہونے کے بعد میری کزن نے اپنے دیور کے ساتھ شادی کروا دی چار ماہ وہاں رہی
نوکری بھی کرتی پیسے وہ سارے لے لیتے گھر انکا بہت بڑا تھا.
مگر کوئی سکون نہیں ہر وقت ٹارچر ہی کرتے اپنے بچوں کو چھوڑ کر اسکی بچی کو سنبھالتی صبح سکول جاتی تو بچی کو ساتھ لے کر جاتی ۔انکے گھر میں بڑی بڑی گاڑیاں ڈرائیور سب کچھ مگر میں رکشے پر آتی جاتی ۔
اور وہ میری کزن جسکی میں نے ہر بات مانی وہاں میرے ساتھ اسکا رویہ ایسے ہو گیا تھا جیسے میں کوئی اسکی دشمن ہوں ۔ وقت گزرتا گیا میں جس نوکری کو اپنا سہارا سمجھتی تھی 11 ماہ وہاں رہی اپنی سیلری سے مجھے دس ہزار مہینے کا ملتا تھا کہ یہی تمہارا جیب خرچ ہے ۔ 11 ماہ کے بعد پتہ چلا کہ اسنے اسلام آباد شادی کر رکھی ہے پہلے سے ہی
وہاں میں نے بہت نبھانے کی کوشش کی اور یہ تعیہ کر لیا تھا کہ اب کچھ بھی ہو یہاں سے نہیں جانا مگر وہ بار بار کہتا جاؤ میری طرف سے تم آذاد ہو بار بار ٹارچر کرتا کہ کسی طرح میں طلاق کا مطالبہ کروں
باپ تو ماں پاب ہوتے ہیں ایک دن ابو نے مجھے کہا کہ کوئی بات نہیں تم واپس آ جاو گھر وہاں ایسے اذیت بھری زندگی نہ گزارو وہاں سے بھی طلاق ہو گئی واپس آ گئی امی ابو کے پاس ۔ابھی دو ماہ پہلے میرے ابو کی وفات ہو گئی وہی میرا سہارا تھے بھائی چار میں سب شادی شدہ انکی اپنی زندگی ہے اپنے بچے ۔ اب میری حالت یہ ہے سیلری تو میں لیتی ہوں وہ جاب جس پر مجھے بڑا غرور تھا
وہ مجھے کوئی سہارا نظر نہیں آتی پیسے تو آتے ہیں لگاؤں کہاں ؟ آج میں نے یہ تحریر لکھی بہت دکھی تھی آج امی کے اسرار پر مجھے میرے بچوں سے ملوایا گیا میں نے انکو گاڑیاں اور کچھ کھولنے لے کر دئے انکے باپ نے ابھی کچھ دیر پہلے اپنے چھوٹے کے ہاتھ واپس لوٹا دئے ۔
اور میرے بچے اپنی دوسری ماں کے ساتھ خوش ہیں ۔ اب میری ایک ہی زندگی کی خواہش ہے جو میں کوشش بھی کر رہی ہوں اگر وہ مجھے بچے ہی دے دیں تو میں جو دن بدن نفسیاتی مریض بنتی جا رہی ہوں شاہد میں ٹھیک ہو جاؤں مگر لگتا نہیں کہ مجھے وہ دیں گے آپ لوگوں سے گزارش ہے دعا کریں کے دے دیں
جو غلطیاں میں نے کی اس قابل تو نہیں مگر اللہ کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ۔
میری آپ تمام بہنوں سے گزارش ہے جو جاب ہولڈر ہیں چائے وہ پرائیوٹ سیکٹر میں ہیں یا گورنمنٹ سیلری خاوند سے زیادہ ہے یا کم کبھی جاب کو اپنا غرور وتکبر مت بنانا پیسہ تو ہے جاب ہے مگر پیسہ انسان کا سہارا نہیں بنتا آپ پیسوں سے اور نوکریوں سے خوشیاں نہیں خرید سکتے۔ میری چھوٹی بہن ڈاکٹر ہے گورنمنٹ جاب ہولڈر ہے اسکے ہسبینڈ ایک پرائیویٹ سیکٹر میں جاب کرتے ہیں میں جب ان دونوں کو سب کچھ مل جل کر بناتے دیکھتی ہوں تو مجھے اپنی ذندگی سے اور نفرت ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔
میں نے کیوں کیا اپنے ساتھ ایسا ؟کیوں ہوا میرے ساتھ ایسا ؟ عموماً پوسٹ دیکھنے کو ملتی ہیں مرد یہ ہے وہ ہے کوئی شک نہیں ہوتے ہیں مرد بھی ایسے مگر عورتیں بھی بہت ذیادہ ایسی ہوتی ہیں جو غرور وتکبر میں اپنا خود برباد کر دیتی ہیں پھر پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے ۔
اور میری بہنوں کبھی بھی کسی عورت کی بات میں آ کر اپنا گھر برباد مت کرنا عورت ہی عورت کی دشمن ہے یہ کبھی مت بھولنا۔ مجھے اتنی ٹھوکریں کھا کر سمجھ آئی کہ بیشک آپکے پاس جاب ہو بہت بڑی نوکری ہو بہت بڑی انکم ہو مگر ایک مرد کے بغیر عورت نامکمل ہے اور ایک مرد عورت کے بغیر نامکمل ہے ۔ یہی فیملی ہوتی ہے میاں بیوی بچے اسکے علاؤہ کوئی چیز آپکو کبھی خوشی نہیں دے سکتی اور یہ معاشرہ ایسا ہے یہاں ایک طلاق یافتہ عورت کتنی ہی پاک صاف کیوں نہ ہو اسکو ہر کوئی غلط نظر سے ہی دیکھتا ہے ۔
اپنے ہوں یا غیر ہر کوئی غلط ہی سمجھتا ہے ۔
اللہ ہر کسی کی بہن بیٹی کے نصیب اچھے کرے غرور وتکبر سے اللہ ہر ایک کو بچائے ۔ میرے لئے دعا کرنا اللہ کوئی بہتری والا معاملہ کرے ورنہ جس قدر میں نفسیاتی مریض بنتی جا رہی ہوں میرے پاس یہ نوکری بھی نہیں رہے گی ۔
میری اس تحریر کا مقصد صرف اتنا ہے جو غلطیاں غرور وتکبر میں مجھ سے ہوئی ہیں وہ آپ نہ کریں۔
اور یہ کوئی کہانی نہیں ایک ایک بات سچ پر مبنی ہے
ایک بہت ہی قریبی سہیلی کی یہ تلخ حقیقت کہانی ہے اس میں سب کیلئے سبق ہے
میرے سیاسی حریف ہیں لیکن کوئی دشمن نہیں ہے:عمرعبداللہ
عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار جمعہ کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں کیا۔ انہوں نے یہ ٹویٹ بی جے پی جموں وکشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ کے ایک انٹرویو کے دوران ان کی تعریفیں کرنے کے رد عمل میں کیا۔
#Munsifurdu #Omer_Abdullah #Jammu_Kashmir
سری نگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ کا ماننا ہے کہ ان کے سیاسی حریف ضرور ہیں لیکن ان کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہاں کہا گیا ہے کہ سیاسی طور اختلاف کرنے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کی ذاتی طور نفرت کرنی ہے۔
موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار جمعے کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں کیا۔ انہوں نے یہ ٹویٹ بی جے پی جموں وکشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ کے ایک…
In memory of martyrs of APS Peshawar attack 2014. In dedication of martyred children of Gaza 2023
May their families find peace, may they live in our hearts forever. May the world they deserved is granted to their loved ones and their people
........
9 years ago on December 16, a school in Peshawar was attacked with nearly 150 innocents killed and nearly a hundred were injured. Many students at school were straight up shot down. We will never forget this. Our hearts refuse to forget. The families of those children still mourn their little angels that were taken away too soon.
How do you expect us to forget about what's happening now? How can you assume you can just wipe it under the rug when we are still here, watching and seeing what you try to hide, what you try to ignore.
The world knows, and we will not stop supporting Palestine.
لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
أستغفر الله وأتوب إليه؛ مما يكره قولاً وفعلاً، وباطناً وظاهراً
بسم الله الذي لا يضر مع اسمه شر في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم
حسبي الله لا إله إلا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم
اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي
اللَّهُمَّ أحفظني مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي…