Tumgik
muhammad-rehman · 8 days
Text
0 notes
muhammad-rehman · 8 days
Text
0 notes
muhammad-rehman · 9 days
Text
Hath Ke Nakhun kattnay ka Sunnat Tarika #sunnat #shortsfeed #shortsvideo...
Right way to cut nail
0 notes
muhammad-rehman · 9 days
Text
There are some reasons when people talk behind us
0 notes
muhammad-rehman · 10 days
Text
غرور اور تکبر نے کیا سے کیا بنا دیا۔۔۔۔۔شیطان کی اصل حقیقت
0 notes
muhammad-rehman · 10 days
Text
0 notes
muhammad-rehman · 11 days
Text
Shetan was proud that he is made of fire...so he refused to bow down his head for "Adam" A.S......this arrogance ruined him..
0 notes
muhammad-rehman · 11 days
Text
0 notes
muhammad-rehman · 12 days
Text
People arround us tends to.be arrogants and rudely behave with us....these are toxic people and w should avoid such type of people arround us. Just stay away and be safe.
0 notes
muhammad-rehman · 13 days
Text
Hasid shakhs ko pehchannay ka tarika #shortsfeed #shortsvideo #viralshor...
Hasid shakhs ko pehchannay ka tarika #hasad #jealous #jealousy #jealousyjealousy #for #foryou #foryoupage #foru
0 notes
muhammad-rehman · 14 days
Text
Newton ke wo Qawaneen jo wo likhna bhool gya tha😝😝#for #foryou #foryoupa...
Newton ke wo Qawaneen jo wo.likhna bhool gya tha😝😝
#for #foryou #foryoupage #foru #viral #viralvideo #viraltiktok #newton #lawsofattraction #funny #funnyvideos #funnyvideo
0 notes
muhammad-rehman · 14 days
Text
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی
ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔
پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟
چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔
غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔
غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا..
عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟
وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں
غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔
پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔
گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔
مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔
کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،
اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔
اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔۔
حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے
"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے
اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں،
کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،
میں تو دعائیں مانگتا ہوں
اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔
میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا
اے اللہ میں جانور تھا،
بےزبان تھا
16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے
تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"
یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں)غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کی  تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا۔۔
0 notes
muhammad-rehman · 14 days
Text
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دریا کے کنارے ایک درخت پر ایک بندر رہتا تھا۔ بندر تنہا تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست یا خاندان نہیں تھا لیکن وہ خوش اور مطمئن تھا۔ درخت نے اسے کھانے کے لیے کافی میٹھا جامن کا پھل دیا۔ اسے دھوپ سے سایہ بھی دیا اور بارش سے پناہ بھی۔ایک دن ایک مگرمچھ دریا میں تیر رہا تھا۔ وہ بندر کے درخت کے نیچے آرام کرنے کے لیے کنارے پر چڑھ گیا۔
'ہیلو،' بندر کو کہا جاتا ہے، ایک دوستانہ سلوک کرنے والا جانور۔ہیلو۔" مگرمچھ نے حیران ہو کر جواب دیا۔ 'کیا تم جانتے ہو کہ مجھے کھانا کہاں سے مل سکتا ہے؟' اس نے پوچھا. 'میں نے سارا دن کچھ نہیں کھایا اور مجھے بھوک لگی ہے۔'
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مگرمچھ بندر کو کھا جانا چاہے گا، لیکن یہ ایک بہت ہی شفیق اور شریف مگرمچھ تھا اور یہ خیال اس کے ذہن میں کبھی نہیں آیا۔
'میرے درخت پر بہت سے پھل ہیں۔ کیا آپ کچھ کھانا پسند کریں گے؟' بندر نے کہا، جو خود بہت مہربان تھا۔اس نے جامن کا کچھ پھل مگرمچھ کی طرف پھینک دیا۔ مگرمچھ اتنا بھوکا تھا کہ اس نے تمام جامن کھا لیا حالانکہ مگرمچھ عام طور پر پھل نہیں کھاتے۔ اسے میٹھا میٹھا پھل بہت پسند تھا اور گلابی گودا نے اس کی زبان کو جامنی کر دیا۔
جب مگرمچھ نے جتنا چاہا کھا لیا، توبندر نے کہا، 'جب بھی زیادہ پھل چاہو واپس آجاؤ۔'جلد ہی مگرمچھ ہر روز بندر کے پاس آتا تھا۔ دونوں جانور اچھے دوست بن گئے۔ وہ باتیں کرتے، ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے اور بہت سے میٹھے جام ایک ساتھ کھاتے۔
ایک دن مگرمچھ نے بندر کو اپنی بیوی اور خاندان کے بارے میں بتایا۔
بندر نے کہا، 'آج واپسی پر اپنی بیوی کے لیے کچھ پھل لے آؤ'۔
مگرمچھ کی بیوی کو جام بہت پسند آیا۔ اس نے پہلے کبھی اتنی میٹھی چیز نہیں کھائی تھی لیکن وہ اپنے شوہر کی طرح مہربان اور شریف نہیں تھی۔اس نے اپنے شوہر سے کہا، 'تصور کیجیے کہ بندر جب یہ جام ہر روز کھائے گا تو اس کا ذائقہ کتنا میٹھا ہوگا'۔
مہربان مگرمچھ نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بندر کو نہیں کھا سکتا۔
'وہ میرا سب سے اچھا دوست ہے،' اس نے کہا۔
مگرمچھ کی لالچی بیوی نہیں سنتی۔ اپنے شوہر کو وہ کرنے کے لیے جو وہ چاہتی تھی، اس نے بیمار ہونے کا بہانہ کیا۔'میں مر رہا ہوں اور صرف ایک پیارے بندر کا دل ہی مجھے ٹھیک کر سکتا ہے!' اس نے اپنے شوہر کو بلایا۔ 'اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو تم اپنے دوست بندر کو پکڑو گے اور مجھے اس کا دل کھانے دو گے۔'
بیچارے مگرمچھ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ وہ اپنے دوست کو کھانا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ اپنی بیوی کو مرنے نہیں دے سکتا تھا۔
آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ اسے کیا کرنا ہے اور اگلی بار جب وہ بندر کے پاس گیا تو اس نے اسے اپنی بیوی سے ملنے کو کہا کیونکہ اس نے ذاتی طور پر جامن کے خوبصورت پھل کا شکریہ ادا کیا۔ کرنا چاہتا تھا
بندر خوش تھا لیکن اس نے کہا کہ وہ نہیں جا سکتا کیونکہ وہ تیرنا نہیں جانتا تھا۔'اس کی فکر نہ کرو،' مگرمچھ نے کہا۔ 'میں تمہیں اپنی پیٹھ پر لے جاؤں گا۔'
بندر راضی ہوا اور مگرمچھ کی پیٹھ پر چھلانگ لگا دی۔
چنانچہ دونوں دوست گہری چوڑی دریا میں چلے گئے۔
جب وہ کنارے اور جامن کے درخت سے بہت دور پہنچے تو مگرمچھ نے کہا مجھے بہت افسوس ہے لیکن میری بیوی بہت بیمار ہے اور کہتی ہے کہ بندر کے دل کا علاج ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ مجھے آپ کو مارنا پڑے گا، حالانکہ میں ہماری بات چیت سے محروم رہوں گا۔'بندر نے جلدی سے سوچا اور کہا پیارے دوست مجھے تمہاری بیوی کی بیماری کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس کی مدد کر سکتا ہوں لیکن میں نے اپنا دل جامن کے درخت میں چھوڑ دیا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم واپس جا سکتے ہیں تاکہ میں اسے حاصل کر سکوں؟'
مگرمچھ نے بندر کی بات مان لی۔ وہ مڑا اور تیزی سے تیر کر جامن کے درخت کی طرف گیا۔ بندر اپنی پیٹھ سے چھلانگ لگا کر اپنے درخت کی حفاظت پر چڑھ گیا۔
'میں نے سوچا کہ تم میرے دوست ہو،' اس نے پکارا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم اپنے دل کو اپنے اندر رکھتے ہیں؟ میں پھر کبھی آپ پر بھروسہ نہیں کروں گا اور نہ ہی آپ کو اپنے درخت کا پھل دوں گا۔ جا اور واپس نہ آنا۔'مگرمچھ کو بہت بے وقوف محسوس ہوا۔ اس نے ایک دوست اور اچھے میٹھے پھل کی فراہمی کھو دی تھی۔ بندر نے خود کو بچا لیا کیونکہ اس نے جلدی سے سوچا۔ اس دن سے اس نے پھر کبھی مگرمچھوں پر بھروسہ نہیں کیا۔
0 notes
muhammad-rehman · 14 days
Video
youtube
NAKAAM LOGON KI KIA PEHCHAN HOTI HAY | How to Identify a Person who is n...
0 notes
muhammad-rehman · 24 days
Text
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی
ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔
پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟
چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔
غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔
غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا..
عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟
وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں
غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔
پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔
گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔
مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔
کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،
اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔
اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔۔
حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے
"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے
اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں،
کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،
میں تو دعائیں مانگتا ہوں
اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔
میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا
اے اللہ میں جانور تھا،
بےزبان تھا
16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے
تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"
یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں)غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کی  تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا۔۔
0 notes
muhammad-rehman · 24 days
Text
عرب کے لوگ قافلوں کو اور مسافروں کو لٌوٹنے میں بہت مشہور تھے۔ اُن کا یہ وطیرہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے کسی جنگل یا باغ کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ جاتے، اور راہ گزرتے لوگوں کو لٌوٹتے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے..
پرانے وقتوں کی بات ہے عورتوں، مردوں، بزرگوں اور بچوں پر مشتمل ایک قافلہ عرب کے کسی ایسے ہی علاقے سے گزر رہا تھا، جہاں اہل علاقہ ڈاکوؤں کے روپ میں پہلے سے اُن کی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی یہ قافلے کے لوگ اُن کے قریب پہنچے اُنہوں نے اِن پر حملہ کر دیا اور تمام سامان کو لٌوٹنے کے بعد جاتے جاتے قافلے والوں کی طرف سے مزاحمت کرنے کی پاداش میں اُن کے دو نہتے لوگوں کو قتل کر دیا اور تلواریں لہراتے فتح کا جشن مناتے فرار ہوگئے۔..
غریب قافلے کے لوگ اپنے پیاروں کی موت کا دُکھ مناتے روتے پیٹتے اپنے قافلہ سالار کے نقشِ قدم پر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن کسی نے اُن کی داد رسی نہ کی اور نہ ہی اُن کے حق میں کسی نے آواز اُٹھائی۔
کچھ دِنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ قافلہ رات گزارنے کے لیے ایک صحرا میں ٹھہرا۔ قافلے کی عورتیں کھانا پکانے کا سامان کرنے لگیں، اور مرد حضرات آگ جلانے کیلئے اِردگرد سے لکڑیوں کا بندوبست کرنے لگے۔ رات کا وقت تھا اور آگ کی روشنی دور سے بڑی آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی..
کچھ راہ بھٹکے ہوئے بھوکے گھڑ سواروں نے آگ جلتی دیکھی تو اُس طرف آ نکلے، اب اِسےقسمت کہیے یا قدرت کا کھیل کہ یہ گھڑ سوار وہی ڈاکو تھے جنہوں نے اِس قافلے کو پہلے لُوٹا تھا اور پھر اُن کے دو افراد کو قتل کر دیا تھا۔
یہ سبھی نقاب پوش ڈاکو قافلہ سالار کے پاس گئے اور بولے کہ "ہم راہ بھٹک گئے ہیں، اور بہت بھوکے بھی ہیں، اگر کچھ کھانے کو مل جائے اور کچھ دیر آرام کرنے کیلئے مناسب جگہ مل جائے تو بہت نوازش ہوگی۔۔۔!"
سالارِ قافلہ نے فوراً اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ ..!"جلدی جلدی مہمانوں کی خاطر تواضع کی جائے اور اِس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ مہمان اللہ کی رحمت سے آتے ہیں۔"
جب یہ ڈاکو اچھی طرح سے کھانا کھا چکے اور اپنی تھکاوٹ بھی دور کر چکے تو جاتے جاتے ایک ڈاکو سالارِ قافلہ سے بولا، "یقیناً اگر ہمارے چہروں پر نقاب نہ ہوتے اور آپ ہمیں پہچان لیتے تو کبھی ہماری اتنی خاطر مدارت نہ کرتے، کیونکہ آپ جانتے نہیں ہو کہ ہم کون ہیں؟؟"
سالارِ قافلہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "برخودار! بے شک تم لوگوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ رکھا ہے اور رات کا اندھیرا بھی ہے۔ لیکن میں تمہارے نقابوں کے اندر چھپے ہوئے چہروں کو بھلا کیسے بھٌلا سکتا ہوں؟ تم سب وہی لوگ ہو جنہوں نے پہلے ہمیں لُوٹا تھا اور پھر ہمارے دو افراد کو قتل کیا تھا جن میں سے ایک میرا اپنا سگا بھائی تھا۔۔!"
سالارِ قافلہ کی بات سن کر وہ ڈاکو چونک گئے اور بولے "تو پھر سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ نے ہمارے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کیا۔۔؟"
سالارِ قافلہ بولا، "یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ اُس دِن ہم لوگ آپ کے مہمان تھے، جو آپ سے ہو سکا آپ  نے ہمارے ساتھ کیا، لیکن آج آپ لوگ ہمارے مہمان ہو، جو ہم سے ہو سکا وہ ہم  نے کیا، اللّہ تو سب دیکھ رہا ہے وہی اِس کا اجر دے گا۔۔۔!"
بھائیو اور بہنو ! "دین کو اختیار کرنا اور اسلام کی بڑی بڑی باتیں کرنا بہت آسان ہے، لیکن اپنے کردار کے نمونے سے دنیا کو زیر کرنا اور راہِ راست پر لانا ایک مشکل امر ضرور ہے لیکن یہی اصل دین ہے اور یہی حقیقی انسانیت ہے۔“
عربی ناول سے ماخوذ
0 notes
muhammad-rehman · 24 days
Text
جی آٹھ 9 ماہ پہلے کی بات ہے
میں نے نیا نیا موبائیل خریدا تھا نوکیا کا کوئی سادہ موبائیل تھا
غلطی سے ایک دن  رونگ نمبر پے کال لگ گئ اور وہ اتفاق سے لڑکی کا نمبر تھا
آہستہ آہستہ بات بڑھنے لگی میں نے کافی دفعہ ملنے کی ضد کی اس نے کہا ملنا تو مشکل ہے پر ہم ایک دوسرے کو دیکھ ضرورو لیں گے میں نے بھی حامی بھر لی
میں سارا دن تیاری کرتا رہا ملنے کی خوشی بھی بہت تھی اور ڈر بھی لگتا تھا
میں نے ایک دوست کو کہا میرے ساتھ چلو دوست تھا آخر مان ہی گیا
ہم لوگ اسی دوست کی بائیک پر چل پڑے
مجھے اس وقت بائیک چلانی نہیں آتی تھی
. بائیک میرا دوست چلا رہا تھا.
اور میں پیچھے بیٹھ گیا
اور ہم نکل پڑے میں نے لڑکی کو کال ملائی اس نے کہا 3 نمبر گلی 12 نمبر مکان
میں چھت سے آپ کو دیکھ لوں گی آپ مجھے دیکھ لینا
میں خیر خریت اور ہنسی خوشی اسے دیکھ کر واپس آگیا
شام کو میں نے اسے کال کی اور کہا آپ ماشاءاللہ بہت پیاری ہیں میں کیسا لگا آپ کو؟
اس نے کہا آپ بھی بہت پیارے ہیں لیکن آپ کے پیچھے بیٹھا لنگور کون تھا جو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا. مصلی کہیں کا. 😑😒😢
اس دن کے بعد ۔۔۔میں نے رابطہ نہیں کیا
💥💔😂😂😂
0 notes