Tumgik
#معیشت
urduchronicle · 3 months
Text
معیشت کا حل اور نواز شریف؟
موجودہ سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ کچھ بھی پیشگوئی کرنا ممکن نہیں ہے، سیاسی رُت تیزی سے بدل رہی ہے ۔بعض سیاسی پنڈتوں کے بقول  میاں نواز شریف سادہ اکثریت سےانتخابات میں کامیاب ہوجائیں گے ۔جبکہ فیصل واؤڈا کہتے ہیںکہ ن لیگ کی الیکشن میں 80 سے بھی کم نشستیں ہوں گی۔صرف یہی نہیں فیصل واؤڈا کے بقول وہ ایوان صدر میں آصف زرداری کی تصویر لگتی دیکھ رہے ہیں ۔یہ تو ممکن ہوسکتا ہے کہ جوڑتوڑ کرکے زرداری صاحب کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 1 year
Text
کیا چین کی معیشت امریکہ کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے؟ | کاروبار اور معیشت
منجانب: لاگت کی گنتی شی جن پنگ نے امریکہ پر چین کے عروج کو روکنے کا الزام لگایا کیونکہ ملک نے دہائیوں میں سب سے کم ترقی کا ہدف مقرر کیا ہے۔ چونکہ Xi Jinping چین کے صدر کے طور پر اپنی تیسری مدت کے لیے، مالیاتی اور ٹیک ریگولیشن میں بڑی تبدیلیوں کے ساتھ، وہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان سخت مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ شی نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکہ کو اپنے ملک کی ترقی کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
تین ماہ میں معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا، اسد عمر
تین ماہ میں معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا، اسد عمر
مکوآنہ ( نمائندہ عکس ) تین ماہ میں معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا، ہمارے پاس پوری ٹیم ہے جو اس انڈسٹری کو دوبارہ سے کھڑا کر سکتی ہے، سابق وزیر خزانہ اسد عمر۔ تفصیلات کے مطابق فیصل آبادمیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ تین ماہ میں معیشت کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 8 ماہ میں جو مہنگائی دیکھی پاکستان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لئے امن و امان کا یقینی ہونا ایک بنیادی تقاضہ ہے، وزیرِاعظم
پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لئے امن و امان کا یقینی ہونا ایک بنیادی تقاضہ ہے، وزیرِاعظم
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لئے امن وامان کا یقینی ہونا ایک بنیادی تقاضہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت امن و امان سے متعلق لاہور میں اہم اجلاس کا انعقاد ہوا جس میں وزیر اعظم کو ملک میں امن و امان کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں صوبہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بھی زیرِ غور آئی، وزیراعظم نے ملک بھر…
View On WordPress
0 notes
Text
قربانی کی معیشت اور اس کے معاشی پہلو
سلمان احمد شیخ کچھ لوگوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ قربانی وسائل کا ضیاع ہے اور اس کے برعکس اگر غریبوں کی مدد کی جاۓ تو وہ وسائل کا اچھا استعمال ہے۔ اس تحریر میں صرف معاشی نقطہ نظر سے قربانی کی معیشت اور اس کے معاشی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے صرف چیدہ چیدہ دس نکات لکھے گۓ ہیں جب کہ اس کے کئی اور معاشی پہلو بھی ہیں۔ 1- قربانی کا گوشت یا تو خود کھایا جاتا ہے, رشتہ داروں کو…
View On WordPress
0 notes
forgottengenius · 3 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی م��د سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
safdarrizvi · 3 months
Text
اب کے بیگم مری میکے سے جو واپس آئیں
ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں
میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا ہے
تن کے بولیں کہ مجھے آپ نے سمجھا کیا ہے
ذہن نے میرے بنائی ہے اک ایسی سکیم
دنگ ہوں سن کے جسے علم معیشت کے حکیم
آپ بازار سے انڈے تو ذرا دوڑ کے لائیں
تاکہ ہم جلد سے جلد آج ہی مرغی کو بٹھائیں
تین ہفتوں میں نکل آئیں گے چوزے سارے
تو سہی آپ کو پیار آئے وہ پیارے پیارے
چھ مہینے میں جواں ہو کے وہی مرغ بچے
نسل پھیلاتے چلے جائیں گے دھیرے دھیرے
دیکھ لیجے گا بہ تائید خدائے دانا
پولٹری بنے گا مرا مرغی خانہ
پولٹری فارم میں انڈوں کی تجارت ہوگی
دور عسرت اسی مرغی کی بدولت ہوگی
میں وہ عورت ہوں کہ حکمت مری مردوں کو چرائے
انہیں پیسوں سے خریدوں گی میں کچھ بھینسیں اور گائے
ڈیری فارم بنے گا وہ ترقی ہوگی
جوئے شیر آپ ہی انگنائی میں بہتی ہوگی
عقل کی بات بتاتی ہوں اچنبھا کیا ہے
دودھ سے آپ کو نہلاؤں گی سمجھا کیا ہے
بچے ترسیں گے نہ مکھن کے لئے گھی کے لئے
آپ دفتر میں نہ سر ماریں گے دفتر کے لئے
میرے خوابوں کے تصدق میں بشرط تعمیل
چند ہی سال میں ہو جائے گی دنیا تبدیل
سحر تدبیر کا تقدیر پہ چل جائے گا
جھونپڑا آپ کا کوٹھی میں بدل جائے گا
الغرض ہوتی رہی بات یہی تا سر شام
نو بجے رات کو سونے کا جو آیا ہنگام
سو گئیں رکھ کے حفاظت سے اسے زیر پلنگ
خواب میں آتی رہی نشۂ دولت کی ترنگ
سن رہی تھی کوئی بلی بھی ہماری باتیں
پیاری بیگم کی وہ دلچسپ وہ پیاری باتیں
رات آدھی بھی نہیں گزری تھی کہ اک شور مچا
چیخ مرغی کی سنی نیند سے میں چونک پڑا
آنکھ ملتا ہوا اٹھا تو یہ نقشہ پایا
اس بچاری کو صحنچی میں تڑپتا پایا
دانت بلی نے گڑائے تھے جو گردن کے قریب
مر گئی چند ہی لمحوں میں پھڑک کر وہ غریب
صبح کے وقت غرض گھر کا یہ نقشہ دیکھا
چہرہ بیگم کا کسی سوچ میں لٹکا دیکھا
روٹی بچوں نے جو مانگی تو دو ہتھڑ مارا
اسے گھونسہ اسے چانٹا اسے تھپڑ مارا
2 notes · View notes
risingpakistan · 3 months
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
Tumblr media
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔ 
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
Tumblr media
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔ 
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
pakistantime · 5 months
Text
آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں
Tumblr media
اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں اس بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔ 
Tumblr media
پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آف��ز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ اورتاجر تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔
مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔ 
ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔
 انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
emergingpakistan · 8 months
Text
آرمی چیف کی توجہ کے لیے
Tumblr media
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا اپنی تقریروں میں اسلامی حوالے دینا بہت اچھا لگتا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان کا صدر ہو، وزیراعظم ہو، جرنیل ہوں، وزیر، مشیر، گورنر، وزرائے اعلی، ممبران پارلیمنٹ یا اعلی عہدوں پر فائز سرکاری افسران، ان سب کیلئے لازم ہونا چاہئے کہ اُن کا اسلام سے متعلق علم عام پاکستانیوں سے زیادہ ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے فیصلے، ہمارے قوانین ، ہماری پالیسیاں سب اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ ہماری موجودہ صورتحال بہت خراب ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم تو ہو گیا، اسلامی آئین بھی دے دیا گیا، بار بار اسلام کا نام بھی لیا گیا لیکن ہمارے قوانین، ہماری پالیسیاں دیکھیں، ہمارا ماحول، ہمارا میڈیا، ہماری معیشت، ہماری پارلیمنٹ، ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش آج تک نہیں ہوئی، جس کے نتیجے میں ہم ایک Confused قوم بن چکے ہیں۔ نام اسلام کا لیتے ہیں جبکہ نقالی مغربی کلچر کی کر رہے ہیں۔ ہمارے آئین کی تو منشاء ہے کہ پارلیمنٹ کے مسلمان ممبران باعمل مسلمان ہوں، اسلامی تعلیمات کے بارے میں کافی علم رکھتے ہوں اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہ جانے جاتے ہوں۔
یہ بھی تمام ممبران کیلئے لازم ہے کہ وہ پاکستان کے اسلامی نظریے کا دفاع کرتے ہوں۔ حقیقت میں کیسے کیسے لوگ پارلیمنٹ میں آتے ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آئین کی اسلامی شقوں کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن کوئی بولتا نہیں۔ ہمارے کئی اراکینِ پارلیمنٹ پاکستان کے اسلامی نظریےکی مخالفت کرتے ہیں، کئی سیکولر پاکستان کی بات کرتے ہیں لیکن آئین کی منشاء کے خلاف جانے کے باوجود اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس ماحول میں ایک حافظ قرآن جنرل کا آرمی چیف بننا اور اُن کی طرف سے اپنی ہر تقریر میں اسلامی تعلیمات کا بڑے فخر سے حوالہ دینا بہت خوش آئند ہے، جس کی ہم سب کو حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ میری آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گزارش ہے کہ وہ پاک فوج میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کیلئے اقدامات کریں۔ اس سلسلے میں، میں سابق نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کی مثال دوں گا جنہوں نے اپنے تین سالہ دور میں پاکستان نیوی میں ایسا انقلاب برپا کیا جو نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ 
Tumblr media
ایڈمرل عباسی کی ہدایت پر پاک بحریہ اور بحریہ فائونڈیشن کے تحت چلنے والے تمام اسکولوں میں قرآن حکیم کو فہم کے ساتھ لازمی طور پر پڑھایا جا نے لگا، جس کیلئے پرانے اساتذہ کی تربیت کی گئی اور نئے استاد بھی بھرتی کئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ بحریہ کے رہائشی علاقوں میں قرآن سینٹرز کھولے گئے جہاں بچوں، بڑوں اور بوڑھوں، سب کو قرآن حکیم کی فہم کے ساتھ تعلیم ، اسلامی اقدار کے فروغ اور مغرب کی ذہنی غلامی سے چھٹکارے پر زور اور تربیت دینے کے اقدامات کیے گئے۔ اسلامی لباس اور اسلامی شعائر کو اپنانے پر زور دیا گیا اور طلبہ کو بالخصوص علامہ اقبال کے فکری انقلاب سے روشناس کروانے کیلئے بھی کام کیا گیا۔ پاک بحریہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ Religious Motivation Officers بھرتی کئے گئے۔ اِن افسران نے بہترین دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور نیول اکیڈمی کے تربیت یافتہ ہیں۔ اِن Religious Motivation Officers کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ نیول افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کریں۔ 
اِن افسران کو نیوی کے جہازوں میں بھی افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت کیلئے بھیجا گیا۔ اِن افسران کی یہ بھی ذمہ داری لگائی گئی کہ خطبہ جمعہ دیں اور دورِ حاضر کے ایشوز پر دسترس رکھتے ہوئے عوام کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی کریں۔ سابق نیول چیف کے دور میں بحریہ کے تحت چلنے والی تمام مساجد کی بہترین انداز میں تزین و آرائش بھی کی گئی جبکہ خطیبوں اور ائمہ مساجد کی تعداد ماضی کے مقابلے میں دگنا کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نیول اکیڈمی کے کیڈٹس کیلئے عربی زبان کی تعلیم کو لازم کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے، اُن کیلئے خصوصاً پڑھاتے وقت اعضائے ستر کو چھپا کر رکھنے، جبکہ مردوں کو نگاہوں کی حفاظت کرنے اور شائستگی اپنانے کی بھی ہدایات جاری کی گئیں۔ پروموشن کیلئے پاک بحریہ کے افسر��ن کے کردار کو اہمیت دی جانے لگی یعنی اگر کوئی افسر چاہے کتنا ہی قابل اور لائق کیوں نہ ہو اگر باکردار نہ ہو تو اُسے ترقی نہیں دی جاتی۔ امید ہے کہ موجودہ نیول چیف کے دور میں بھی یہ پالیسیاں پاکستان نیوی میں جاری و ساری رہیں گی۔ میں ماضی میں اپنے کالمز کے ذریعے یہ گزارش پاک فوج اور ائیرفورس کی اعلیٰ قیادت سے بھی کر چکا ہوں کہ پاکستان نیوی کی طرح اُنہیں بھی یہ اقدامات اپنی اپنی فورس میں کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں آرمی چیف سے امید اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ وہ خود اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو کسی عام فرد سے بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
urduchronicle · 4 months
Text
پاکستان کو گورننس بہتر بنانے، انسداد بدعنوانی کے ادارے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف
اانٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ پاکستان کو گورننس  بہتر کرنے اور کرپشن کے خلاف کام کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے  کے اعلامیہ میں کہا گیا  ہے کہ معاشی ترقی کیلئے پاکستان غریب طبقے کے تحفظ کو یقینی بنائے۔رواں مالی سال کے آخر تک مہنگائی چوبیس فیصد سے کم ہوکر اٹھارہ فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔صوبائی اخراجات، محصولات بڑھانے اور غیر اہم  اخراجات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 1 year
Text
سری لنکا سال کے آخر تک ترقی کی طرف لوٹ سکتا ہے، صدر کا کہنا ہے کہ | کاروبار اور معیشت کی خبریں۔
صدر رانیل وکرما سنگھے نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ملک 2026 تک دیوالیہ پن سے نکل جائے۔ توقع ہے کہ سری لنکا کی معیشت اس سال کے آخر سے دوبارہ ترقی کرے گی اور حکومت ملک چاہتی ہے۔ دیوالیہ پن سے باہر نکلیں 2026 تک، صدر رانیل وکرما سنگھے نے پارلیمنٹ کو بتایا ہے۔ 22 ملین افراد پر مشتمل بحر ہند کا جزیرہ اپنی مشکلات سے دوچار ہے۔ بدترین معاشی بحران 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے، جس نے…
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
معیشت کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
معیشت کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
اسلام آباد(نمائندہ عکس)وفاقی وزیرخزانہ اور سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ملک میں ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت ہے، پاکستان کو بھی معیشت کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا،اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے بہت سے ملکوں نے ٹیکس ریٹ میں اضافہ کیا، ہمارے پاس بھی ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریٹ بڑھانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، وزیرخزانہ نے کہا کہ میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
سی پیک پاکستان کی معیشت کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا، مفتاح اسماعیل
سی پیک پاکستان کی معیشت کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا، مفتاح اسماعیل
مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سی پیک پاکستان کی معیشت اور دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے پاکستان میں چین کی ناظم الامور پینگ چُن ژو کی ملاقات ہوئی جس میں وزیر خزانہ نے پاکستان اور چین کے درمیان گہری دوستی اور برادرانہ تعلقات کو اجاگر کیا۔ وزیر خزانہ نے چینی ناظم الامور کا گرمجوشی سے خیرمقدم کیا اور پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 2 days
Text
کسان کا بیڑہ غرق مگر کسے فکر؟
0 notes
urduintl · 3 days
Text
0 notes