آج شام وہ ملنے آیا تھا۔ صحن میں سوکھی کیاری کے کنارے کتنے ہی پہر کھڑا رہا۔ میں نے اندر بلایا تو بولا کہ اب اندر نہیں آیا کرے گا۔ میری آنکھوں کے نیچے پڑے گہرے ہَلکوں کے بارے میں پوچھا پھر خود ہی جواب دینے سے منع کر دیا۔ مجھے بارہا بتایا کہ وہ مجھے مکمل طور پر بھول چکا ہے۔
کوئی بات کرنے لگتا پر پھر سر جھٹک کر خود ہی رد کردیتا تھا۔ برسوں کی عادت کہ بھانپ اڑاتی چائے لبوں سے لگا لیا کرتا تھا، آج ٹھنڈی چائے ہاتھ میں رہی اور وہ تار پر ڈالا میرا دوپٹا تکتا رہا۔ بہار اپنے جوبن پر تھی پر وہ میرے اجڑے باغ میں اُس ڈھلتی شام جانے کیا کچھ تلاش کرتا رہا۔
جاتے جاتے ٹھنڈی چائے ایک سانس میں حلق میں اتاری، پھر میری تار تک آیا، دوپٹے پر لگی چٹخی اتاری اور جیب میں ڈال لی۔ پھر مسکرا کر کہنے لگا کہ اب تو برستی بارش میں بھی میں تمھیں سوچنا بھول جاتا ہوں۔
جاتے جاتے پلٹ کر میرے کچے، بے رنگ گھر کو یاسیت سے دیکھتا رہا۔ پلکیں گیلی ہونے لگیں تو خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔
ایک شخص تھا جو مجھے چھوڑتا نہیں تھا، ایک شخص ہے کہ جس سے میں چھوٹ نہیں پاتی۔
- س ی ط
14 notes
·
View notes
سالوں سے بند پڑی گھڑی کی سوئیاں رات کے اُس پہر اچانک چلنے لگتی ہیں جس پہر مجھ پر تمہارا فراق نازل کیا گیا جب رُکتی ہیں تو میرے سر کے سینکڑوں بال سفید ہو کر گِر چکے ہوتے ہیں اور دیوار پر لگا کلینڈر دس سال آگے کی تاریخ بتا رہا ہوتا ہے.
The hands of the clock, stopped for years, suddenly start moving at the hour of the night when your separation was revealed to me. When they stop, hundreds of hairs on my head have turned white and fallen out, and the calendar on the wall is the date of ten years ahead. is telling.
Comrade LٙKhu Lassi
7 notes
·
View notes
ایک ھی سمت ھر اک خواب چلا جاتا ھے
یاد ھے یا کوئی نقشِ کفِ پا ھے مجھ میں؟
مجلسِ شام ِ غریباں ھے بپا چار پہر ۔۔۔۔ !!
مستقل بس یہی ماحولِ عزا ھے مجھ میں
عرفان ستار
5 notes
·
View notes
گھر کا معاملہ
قسط 02
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ میں امی کے اتنا قریب تھا میں نہیں گئے لگا لیا اور اسکے جسم کو چھونے لگا امی بھی جانتی تھیں کہ میں کافی عرصے سے ان پر نظر رکھے ہوئے ہوں ڈانس کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کے جسم کو جسم سے رگڑ رہے تھے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس بارے میں زیادہ بے فکر ہو رہے تھے میں نے امی کو اپنے قریب کر لیا امی نے بھی اپنے ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ دیئے ہم ایک کونے میں آگئے جہاں سے ابو ہمیں نہیں دیکھ سکتے تھے اور اگر وہ دیکھ بھی لیتے تو کسی کو فکر تھی میں نے کہا ، امی آپ بہت سیکسی لگ رہی ہیں ۔ امی بولیں ، شکریہ کا شف تمہاری تعریف اچھی کئی مجھے۔ میں نے کہا ، امی آپ مجھےکسی بھی لباس میں اچھی لگتی ہیں ۔ امی بولیں کسی بھی لباس میں؟ میں نے کہا، اچھا امی آپ مجھے برتھ ڈے پر کیا گفٹ دے رہی ہیں؟ امی بولیں، تجھے کیا چاہیئے ؟ میں نے کہا آپ بولیں ۔
اور امی کو اپنی طرف کھینچ لیا امی کے سڈول محے میرے سینے پر دینے لگے امی بولیں ، بول نا کیا چاہئے؟ میں نے کہا، نہیں آپ نے گفٹ دینا ہے آپ بتائیں ۔ امی بولیں ، مجھے پتا ہے تجھے کیا چاہئے ۔ میں نے کہا، کیا ؟ امی نے کچھ نہیں کہا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے امی کے ہونٹ بہت رسیلے تھے پھر انہوں نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی ہماری زبانیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں اور میرے ہاتھ امی کی گانڈ پر پہنچ گئے میں انکی بڑی سے گانڈ دونوں ہاتھوں میں لی اور دبانے لگا انکے ممے میرے سینے سے دبے ہوئے تھے اور مجھے موں کے سخت تپل محسوس ہو رہے تھے کافی دیر ہم کسی کرتے رہے، ہماری سانسیں تیز ہوگئی تھی قریب 10 منٹ تک ہم کس کرتے رہے پھر امی نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے دور کیئے لیکن ہم ڈانس کرتے رہے میرے ہاتھ امی کی کمر اور گانڈ پر گھوم رہے تھے اور امی کے ہاتھ بھی ایسے ہی کام کر رہے تھے اپنی ٹیبل پر واپس آنے سے پہلے ہم نے ایک بار پھر ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دیئے اور اسی دوسرے سے لپٹ گئے اسی وقت ابو کا فون آیا
میرے موبائل پر انہوں نے ہمیں واپس بلایا ہم واپس ٹیبل پر آگئے تو ابو بولے، سائر ومیرا خیال ہے اب ریسٹورنٹ چلنا چاہئے ورنہ میں اپنی فلائٹ سے لیٹ ہو جاؤں گا ۔ ہم جلدی سے ریسٹورنٹ گئے اور کھانا کھایا جب گھر پہنچے و رات آدھی گزر چکی تھی ابو نے اپنا سامان پیک کیا اور تیار ہو گئے امی نے بھی کپڑے بدلے اور جیز اور ٹی شرٹ پہن لی ابو کو ایئر پورٹ چھوڑنے کے لیبیا ہو نے پوچھا تم کہاں جارہی ہو؟ امی بولین ، آپکو ایئر پورٹ چھوڑنے ۔ ابو بولے نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے میں ٹیکسی کے لیئے فون کر دیا ہے بہت دیر ہو گئی ہے ۔ امی بولیں لیکن ۔۔ ابو بولے ٹھیک ہے سائرہ، کاشف کو وقت دو ، اوکے کا شف بیٹا انجوائے کرو اپنی برتھ ڈے۔ ابو چلے گئے جیسے ہی ابو گھر سے نکلے میں نے امی کو پیچھے سے گلے لگا لیا امی اس ٹائٹ لباس میں بہت سیکسی دکھ رہی تھیں میں انکی گردن چومنے لگا اور انکے مموں پر ہاتھ لے جا کر کہا، اب میں اٹھارہ سال کا ہو گیا ہوں امی اور میں اپنا کنوار پن آپکو چود کر ختم کرنا چاہتا ہوں ۔ امی بولیں ، میں کیوں ، کوئی اپنی عمر کی لڑکی دیکھونا۔
میں نے کہا نہیں امی آپ بہت گرم ہیں جب بھی آپ ابو سے یا اپنے کسی دوست سے چدواتی ہیں تو میں خیالوں میں خود کو انکی جگہ رکھ کر محسوس کرتا ہوں میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں امی ۔ امی بولیں ، اوہ بیا فکر مت کر آج رات میں تیرے سارے خواب بیچ کر دوں گی آج میں اپنے بیٹے کومر درنا دوں گی اپنے سارے خزانے تجھے سونپ دوں گی ۔ امی نے اپنا پہر میری طرف کیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو ہونٹ چومنے لگے امی کے ہونٹ بہت رسیلے تھے
جاری ہے...
3 notes
·
View notes
اختر شیرانی کی ایک شاہکار نظم - اے عشق کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے
دُور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ہم پریم پُجاری ہیں، تُو پریم کنہیّا ہے
تُو پریم کنہیّا ہے، یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے، تُو اِس کا کھویّا ہے
کچھ فکر نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
بے رحم زمانے کو، اب چھوڑ رہے ہیں ہم
بے درد عزیزوں سے، منہ موڑ رہے ہیں ہم
جو آس کہ تھی وہ بھی، اب توڑ رہے ہیں ہم
بس تاب نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ جبر کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے
ارمانوں کا قاتل ہے، امّیدوں کا رہزن ہے
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آپس میں چھل اور دھوکے، سنسار کی ریتیں ہیں
اس پاپ کی نگری میں، اجڑی ہوئی پریتیں ہیں
یاں نیائے کی ہاریں ہیں، انیائے کی جیتیں ہیں
سکھ چین نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک مذبحِ جذبات و افکار ہے یہ دنیا
اک مسکنِ اشرار و آزار ہے یہ دنیا
اک مقتلِ احرار و ابرار ہے یہ دنیا
دور اس سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ درد بھری دنیا، بستی ہے گناہوں کی
دل چاک اُمیدوں کی، سفّاک نگاہوں کی
ظلموں کی جفاؤں کی، آہوں کی کراہوں کی
ہیں غم سے حزیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آنکھوں میں سمائی ہے، اک خواب نما دنیا
تاروں کی طرح روشن، مہتاب نما دنیا
جنّت کی طرح رنگیں، شاداب نما دنیا
للہ وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
وہ تیر ہو ساگر کی، رُت چھائی ہو پھاگن کی
پھولوں سے مہکتی ہوِ پُروائی گھنے بَن کی
یا آٹھ پہر جس میں، جھڑ بدلی ہو ساون کی
جی بس میں نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
قدرت ہو حمایت پر، ہمدرد ہو قسمت بھی
سلمٰی بھی ہو پہلو میں، سلمٰی کی محبّت بھی
ہر شے سے فراغت ہو، اور تیری عنایت بھی
اے طفلِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اے عشق ہمیں لے چل، اک نور کی وادی میں
اک خواب کی دنیا میں، اک طُور کی وادی میں
حوروں کے خیالاتِ مسرور کی وادی میں
تا خلدِ بریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
مغرب کی ہواؤں سے، آواز سی آتی ہے
اور ہم کو سمندر کے، اُس پار بلاتی ہے
شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے
چل اس کے قریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی فضا جس تک، غم کی نہ رسائی ہو
دنیا کی ہوا جس میں، صدیوں سے نہ آئی ہو
اے عشق جہاں تُو ہو، اور تیری خدائی ہو
اے عشق وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی جگہ جس میں، انسان نہ بستے ہوں
یہ مکر و جفا پیشہ، حیوان نہ بستے ہوں
انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں
تو خوف نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
برسات کی متوالی، گھنگھور گھٹاؤں میں
کہسار کے دامن کی، مستانہ ہواؤں میں
یا چاندنی راتوں کی شفّاف فضاؤں میں
اے زہرہ جبیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ان چاند ستاروں کے، بکھرے ہوئے شہروں میں
ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں
ٹھہری ہوئی نہروں میں، سوئی ہوئی لہروں میں
اے خضرِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی بہشت آگیں وادی میں پہنچ جائیں
جس میں کبھی دنیا کے، غم دل کو نہ تڑپائیں
اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں
لے چل تُو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
...............................
7 notes
·
View notes
عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
چشم ساقی سے پیو یا لب ساغر سے پیو
بے خودی آٹھوں پہر ہو یہ ضروری تو نہیں
نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ سکتی ہے
ان کی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں
شیخ کرتا تو ہے مسجد میں خدا کو سجدے
اس کے سجدوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں
سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں
مے کشی کے لیے خاموش بھری محفل میں
صرف خیام کا گھر ہو یہ ضروری تو نہیں
3 notes
·
View notes
مجلس ِ شام ِ غریباں ہے بپا چار پہر
مستقل بس یہی ماحول ِعزا ہے مجھ میں
مجھ میں جنّت بھی مِری، اور جہنّم بھی مِرا
جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں
0 notes
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
محمد حسن عسکری روزانہ انتظار حسین کی ملاقات کے لیے آتے تھے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں:
طے شدہ وقت پر سہ پہر کو آنا، تھوڑی دیر بیٹھنا؛ پھر کہنا: اٹھو ٹہلنے چلتے ہیں۔
بس ایک سہ پہر ناغہ ہوئی؛ اس ناغے کی اطلاع دینے خود آئے۔ وقت مقررہ پر آئے؛ چار منٹ بیٹھے، پھر کہا کہ آج ملاقات نہیں ہو سکتی؛ میں بس بتانے آیا ہوں۔ اصل میں صبح سویرے والد کا انتقال ہو گیا؛ تدفین تو ہو گئی ہے مگر تعزیت کرنے والے آ رہے ہیں، اس لیے مجھے گھر پر رہنا چاہیے!
بس کھڑے کھڑے آئے اور واپس ہو لیے!!
(چراغوں کا دھواں)
What will be the forms in the dust that have fallen!
Muhammad Hasan Askari used to come every day to meet Intizar Hussain. Intezaar Hussain writes:
Come in the afternoon at the scheduled time, sit for a while; then say: Get up and walk.
It was only one afternoon; he himself came to report it. The time came; sat for four minutes, then said there could be no meeting today; In fact, my father passed away early in the morning; the burial has been done, but the mourners are coming, so I should stay at home!
Just stood up and came back!!
(Smoke of lamps)
0 notes
1000 سے زائد ایل پی جی سلنڈروں سے لدے ٹرک میں آگ بھڑک اٹھی ویڈیو وائرل
(ویب ڈیسک)بھارت میں چلتے ٹرک میں خوفناک واقع پیش آیا ،1000 سے زائد ایل پی جی سلنڈر دھماکے سے پھٹ گئے جس کی ویڈیو منظرعام پر آگئی۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست اترپردیش کے شہر لکھنؤ گونڈا ہائی وے پر جمعے کی سہ پہر گیس سلنڈروں سے لدے ٹرک میں آگ لگنے سے سلنڈر دھماکے سے پھٹ گئے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے صارف نے لکھا کہ گونڈہ میں 1000 سے زیادہ ایل پی جی سلنڈروں سے…
View On WordPress
0 notes
اردو زبان کی مٹھاس سبھی زبانوں کے شائقین کو اپنی کشش سے متاثر کرتی ہے : اے ڈی ایم پورنیہ
پورنیہ: محکمہ کابینہ سیکر ٹریٹ اردو ڈائریکٹوریٹ حکومت بہار کی جانب سے ضلع انتظامیہ پورینہ اور ضلع اردو زبان سیل پورنیہ کی کاوشوں سے آج بتاریخ28/ نومبر 2023 کو آرٹ گلیری پورنیہ میں یک روزہ فروغ اردو سیمنار اور مشاعرے کا انعقاد کیاگیا۔ پروگرام کاآغاز اے ڈی ایم پورنیہ محترم جناب کے ڈی پر وجیل کے بدست شمع افروزی کے ذریعے عمل میں آیا ۔ اس محفل میں پورنیہ ضلع کے اہل علم و دانش اور اردو مترجمین اور ضلع کے اندر مختلف اسکولوں میں برسر روزگار اردو اساتذہ نےبڑی تعداد میں شرکت کی ۔
نظامت کی ذمہ داری جناب صدام صاحب اردو مترجم بائسی نے بحسن و خوبی انجام دی۔
افتتاحی کلمات میں اے ڈی ایم صاحب نے حاضرین کا شکر یہ ادا کیا اور فرمایا کہ اردو زبان کی مٹھاس سبھی زبانوں کے شائقین کو اپنی کشش سے متاثر کرتی ہے ۔ عالی جناب پروگرام میں مہمان خصوص کے طور پر شرکت فرما رہے تھے ۔ ان کے علاوہ ضلع تعلیم افسر پورنیہ بھی اس محفل میں شریک ہوئے ۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں حکومت کی جانب سے اردو اساتذہ کی بڑی تعداد میں بحالی کا ذکر کیا اور حکومت کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے نو مقرر اردو اساتذہ کو تعلیمی میدان میں کمر کسنے کی ہدایت دی۔ پروگرام کی روح رواں ضلع اردو زبان سیل پورنیہ کی انچارج افسر محترمہ ڈیزی رانی صاحبہ نے تمام مند و بین کا شکریہ ادا کیا اور سامعین سے اردو کے تئیں مزید بیداری کا ثبوت دینے کی اپیل کی ۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ خود بھی اردو سے بے حد محبت کرتی ہیں اور بی پارڈ ڈ پٹنہ کی تربیت کے دوران انہوں اپنے لیے اردو زبان کا انتخاب کیا تھا ۔
پروگرام کی اگلی اہم کڑی کے طور پر سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں پورنیہ کالج کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محمد مجاهد حسین، ڈی ایس کالج کٹیہار کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر انور حسین ایرج نیز ارریہ کالج ارریہ کے صدر شعبہ ڈاکٹر تنزیل اطہر نے اپنے گراں قدر مقالات پیش کیے۔
مشاعرے کے آغاز سے قبل اردو طلبہ و طالبات کے لیے علمی مباحثے کا انعقاد عمل میں آیاجس میں ضلع پورنیہ کے مختلف اداروں کے طلبہ نے اردو زبان و ادب پر اپنی طالب علمانہ مباحثے سے محفل میں جان پھونک دی ۔
دن کے دوسرے پہر میں مشاعرے کا آغاز ہوا جس کی صدارت کی ذمہ داری پورنیہ یونیورسٹی ، صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر محمد صادق حسین نے انجام دی ۔ مشاعرے میں ضلع پورنیہ کے نامور شعرا کو مدعو کیا گیا جن میں نمائندہ شعرا عمر فاروق کا شف محمد ناظم ، محمد دانش اقبال، رضوان فردوسی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ پروگرام کا اختتام علمی مباحثے میں کامیاب طلبہ و طالبات کے درمیان اسناد کی تقسیم سے ہوا۔
1 note
·
View note
سموگ کی صورتحال خطرناک، لاہور سمیت 10 اضلاع میں جمعہ اور ہفتہ کو تعلیمی ادارے بند، بازار سہ پہر تین بجے کھلیں گے
لاہور سمیت وسطی پنجاب میں سموگ کی شرح میں خطرناک حد تک اضافے کے بعد ایک بار پھر سمارٹ لاک ڈاؤن اور جمعہ کو تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
فیصلوں کاا اعلان کرتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا کہ لاہور سمیت پنجاب کے 10اضلاع میں جمعہ اور ہفتہ کو تعلیمی ادارے بند رہیں گے،جمعہ اور ہفتہ کو مارکیٹیں سہ پہر 3 بجے کھلیں گی۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا کہ اتوار کو…
View On WordPress
0 notes
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad
Date : 28 October 2023
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی اَورنگ آ باد
علاقائی خبریں
تاریخ : ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۲۳ ء
وقت : صبح ۹.۰۰ سے ۹.۱۰ بجے
سب سےپہلے خاص خبروں کی سر خیاں ...
٭ وزیر اعظم آج سر کاری خد مات میں بھر تی کیے گئے 51؍ ہزار نئے امید واروں کو تقرراتی خطو ط تقسیم کریں گے
٭ 3؍ ہزار آنگن واڑی مدد گار وں کی تر قی کی کارروائی جلد مکمل کی جائے گی ‘ خواتین و اطفال کی تر قی کا
مرکزی وزیر اسمر تی ایرانی کا تیقن
٭ میری ماٹی میرا دیش مہم کا ریاستی سطح پر اختتام ‘ امرت کلش دِلّی روانہ
٭ سابق مرکزی وزیر مملکت ببن رائو ڈھاکنے چل بسے ‘ آج آخری رسو مات
اور
٭ پیرا ایشیائی کھیلوں میں بھارت 100؍ تمغے جیت کر بنائی سنچری ‘خواتین کے ایشیائی ہاکی چیمپئن شپ میں بھی فتح کا آغاز
اب خبریں تفصیل سے...
ٌٌ وزیر اعظم نریندر مودی آج دو پہر ایک بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سر کاری ملازمت میں نئے شامل کیے گئے 51؍ ہزار امید واروں کو تقرراتی خطو ط تقسیم کریں گے ۔ ملک بھر میں 37؍ مقامات پر یہ روزگار میلہ منعقد کیا جا رہا ہے ۔ یہ نئے ملازمین ‘ ریلوے ‘ ڈاک ‘ داخلہ ‘ محصول ‘ اعلیٰ تعلیم ‘ اسکو لی تعلیم ‘ صحت اور خاندانی بہبود کی وزارتوں سمیت دیگر محکمہ جات میں رجوع ہوں گے ۔
***** ***** *****
ریاست کے 3؍ ہزار آنگن واڑی خد مت گاروں کے عہدوں میں تر قی کی کارروائی جلد مکمل کی جائے گی ۔ بہبود و اطفال کی مرکزی وز یر اسمرتی ایرنی نے یہ تیقن دیا ۔ وزیر موصوفہ کل ممبئی میں وزیر اعظم ماتر وندنا اسکیم کی بیداری سے متعلق پروگرام سے خطاب کر رہی تھیں ۔
اِس موقعے پر وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے ‘ بہود و اطفال کی ریاستی وزیر ادیتی تٹ کرے سمیت دیگر معزز شخصیات موجود تھیں ۔ ایریانی نے بتا یا کہ آنگن واڑی خاد مائوں کو مو بائل فون کی خریدی کے لیے 12؍ ہزار 800؍ روپئے دیے جائیں گے ۔ ساتھ ہی اُن کے تحفظ کی خاطر مرکزی حکو مت وزیر اعظم جیون جیو تی بیمہ اسکیم کی قسطیں بھی ادا کرے گی ۔ وزیر موصوفہ نے مزید بتا یا کہ شہری علاقوں میں ملازمت پیشہ خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے 1000؍ پالنا گھروں کے قیام کی خاطر جلد حکم نا مہ جاری کیا جائے گا ۔ انہوں نے بتا یا کہ ریاستی حکو مت کے نِر بھیہ فنڈ سے متعلق مرکزی حکو مت ہر طرح کا تعا ون کرے گی ۔
***** ***** *****
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا ہے کہ میری ما ٹی میرا دیش مہم ملک کے شہیدوں کی قر بانی کو سلام کا موقع دینے والا پروگرام ہے ۔ ریاستی حکو مت کی سطح پر منعق��ہ اِس پروگرام کا اختتام کل ممبئی کے اگست کرانتی میدان پر عمل میں آ یا ۔ اِس موقعے پر وزیر اعلیٰ بول رہے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ صرف بنیادی سہولیات اور بڑے پرو جیکٹس اہمیت نہیں رکھتے بلکہ وطن سے محبت اور ثقا فت کے تعلق سے احترام بھی اُتنی ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ ریاست کے تمام اضلاع سے آئے امرت کلشوں کی پو جا وزیر اعلیٰ کی موجود گی میں کی گئی ۔ یہ تمام کلش خصو صی ٹرین کےذریعے دِلّی کے لیے روانہ کیے گئے ۔
***** ***** *****
ملک کا سب سے پہلا بڑا ہیروں کا مرکز نئی ممبئی میں قائم کیا جا رہاہے ۔ صنعت و حرفت کے ریاستی وزیر اُدئے سامنت نے کل ایوت محل میں یہ اطلاع دی ۔ وزیر موصوف ایک صحافتی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ انہوں نے بتا یا کہ غیر ملکی سر مایہ کاری حاصل کر نے میں مہا راشٹر پہلے مقام پر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اوّل مقام بر قرار رکھنے کے نقطہ نظر سے کوششیںکی جا رہی ہیں ۔
***** ***** *****
انتخابی فہرسوں میں نظر ثانی کا ایک خصو صی مہم حال ہی میں شروع کی گئی ہے ۔یہ مہم ریاست میں آئندہ 9؍ دسمبر تک جاری رہے گی ۔ سماج کے پسماندہ طبقات کے شہر یان کے نام انتخابی فہرست میں درج کرنے کےلیے خصوصی کیمپ کا انعقاد کیا جائے گا ۔ آئندہ 18؍ اور 19؍ نومبر کو کالج کے طلباء ‘ خواتین اور معذور افراد جبکہ آئندہ 2؍ اور 3؍ دسمبر کو خواجہ سرائوں ‘ جسم فروش عورتوں اور خانہ بدوش قبائل کے شہر یان کے ناموں کے اندراج کے لیے کیمپ لگائے جائیں گے ۔
دیہی تر قی اور پنچایت راج محکموں کے تعا ون سے یکم تا 7؍ نومبر کے دوران ریاست بھر میں خصو صی گرام سبھا کا انعقاد کر کے انتخابی فہرسوں کو پڑ ھا جائے گا ۔
***** ***** *****
سابق مرکزی وزیر مملکت ببن رائو ڈھاکنے کے جسد خاکی کی آج دو پہر احمد نگر ضلعے کے پاتھرڈی تعلقے کے پا گوری پیپل گائوں میں آخری رسو مات ادا کی جائے گی ۔ نمو نیا کے مرض سے متاثر ڈھا کنے کا گزشتہ 3؍ ہفتوں سے احمد نگر کے ایک خانگی اسپتال میں علاج کیا جا رہا تھا ۔ گزشتہ جمعرات کی شب میں حرکت قلب بند ہونے سے اُن کا انتقال ہو گیا ۔ وہ 87؍ برس کے تھے ۔
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے ’ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے ڈھاکنے کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔سر کاری اعزاز کےساتھ اُن کی آخری رسومات کی ادائیگی کی ہدایت دی گئی ہے ۔
***** ***** *****
مراٹھا ریزر ویشن کی خاطر تحریک چلانے والے منوج جرانگے پاٹل کے دوسرے مرحلے کی بھوک ہڑ تال کا آج چو تھا دن ہے ۔ جرانگے پاٹل کی بھوک ہڑ تال کی حمایت میں جالنہ ضلعے کے دیہاتوں میں زنجیری بھوک ہڑ تال کی جا رہی ہے ۔ گھن سائونگی تعلقے کے 45؍ قصبے اِس زنجیری ہڑ تال کا حصہ ہیں ۔ اِس کے ساتھ سیاسی رہنمائوں کے گائوں میں آنے پر پا بندی کے بورڈ دیہاتوں میں لگائےگئے ہیں ۔
***** ***** *****
مراٹھا سماج کو مراٹھا-کُنبی یا کُنبی - مراٹھا ذات صداقت نامے دینے کی خاطر طریقہ کار طئے کرنے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی مدت میں آئندہ 24؍ دسمبر تک کا اضا فہ کر دیا گیا ہے ۔ عام انتظام کے محکمے کے سیکریٹری سمنت بھانگے نے یہ اطلاع دی ۔
اِسی بیچ اِس کمیٹی نے کل دھا را شیو ضلعے کاجائزہ لیا ۔ اِس موقعے پر ضلع انتظامیہ کی جانب سے کمیٹی کو معلو مات دی گئی ۔ خبر ہے کہ کئی شہر یان نے بھی کمیٹی سے ملا قات کی ہے۔ شہر یان کی جانب سے کمیٹی کے روبرو 52؍ کُنبی- مراٹھا ‘ مراٹھا-کُنبی ہونے کے صداقت نامے پیش کیے گئے ۔
***** ***** *****
ناندیڑ کے رکن پارلیمان پر تاپ رائو چکھلیکر کی 2؍ گاڑیوں میں گزشتہ جمعرات کی شب توڑ پھوڑ کی گئی ۔ چکھلیکر گزشتہ جمعرات کو قندھار تعلقے کے امبلگائوں میں سابق ضلع پریشد رکن منو ہر تیلنگ سے ملا قات کرنے گئے تھے ۔ سیاسی رہنمائوں کے گائوں میں داخلے سے نا راض مراٹھا نوجوانوں نے رکن پارلیمان کی 2؍ گاڑیوں کو نقصان پہنچا یا ۔ اِس کے بعد چکھلیکر پولس کی گاڑیوں میں ناندیڑ کے لیے روانہ ہو ئے ۔ انہوں نے کہا کہ مراٹھا ریزر ویشن کے لیے حکو مت کوئی حل ضرور نکا لے گی ۔ انہوں نے مراٹھا برا دری کو صبر سے کام لینے کی اپیل کی ۔
***** ***** *****
آئندہ تہواروں کے موقعے پر کھانے ‘ پینے کی اشیاء میں ملا وٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے فوڈ اینڈ ڈرگ محکمے نے کھا نے پینے کی چیزوں کے
معائنے کی خصوصی مہم شروع کی ہے ۔ آئندہ جو دسمبر تک جاری رہے گی ۔ فوڈ اینڈ ڈرگ محکمے کے ریاستی وزیر دھرم رائو با با آترام نے انتباہ دیا ہے کہ خوردنی اشیاء کی پیدا وار کرنے والوں کی جانب سے اگر اِس سے متعلق دفعات کی خلاف ورزی کی گئی تو سخت کارروائی کی جائے گی ۔
***** ***** *****
پیرا ایشیائی کھیلوں میں اب تک بھارت نے 100؍ تمغے جیت کر پچھلی مرتبہ کے 72؍ تمغوں کے ریکارڈ کو توڑ دیا ہے ۔ دلیپ گاونت نے آج صبح مردوں کی 400؍ میٹردوڑ میں سونے کا تمغہ جیتا۔ کل صبح تیر اندازی کے کمپائونڈ مقابلے میں شیتل دیوی نے سونے کا تمغہ جیتا ۔ دونوں ہاتھ سے معذور شیتل دیوی دنیا کی پہلی تیر انداز ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے شیتل دیوی سمیت فتح یاب ہونے والے دیگر تمام کھلاڑیوں کو مبارکباد دی ہے ۔
***** ***** *****
مردوں کے بیڈ منٹن ڈبلز میں نتیش کمار اور ترن کی جوڑی نے جبکہ ذاتی گروپ کے 3؍ مقابلوں میں سہاس تیراج ‘ پر مود بھگت اور تُھلا سِمتھی نے سونے کے تمغے جیتے ۔ اِسی طرح 1500؍ میٹرT-38؍ دوڑ مقابلے میں رمن شر ما نے ڈسک تھرو میں دیویندر کمار نے جبکہ گو لا پھینکنے کے مقابلے میں منو نے سونے کے تمغے اپنے نام کیے ۔ بھارت نے اب تک 26؍ طلائی ‘ 29؍ چاندی اور 45؍ کانسے کے تمغے جیتے ہیں
***** ***** *****
یک روزہ عالمی کپ کر کٹ مقابلوں میں کل جنو بی افریقہ نے پا کستان کو ایک وکٹ سے شکست دے دی ۔ چنئی میں کھیلے گئے اِس میچ میں پہلے بلّے بازی کر تے ہوئے پاکستان کی ٹیم نے تمام وکٹوں کے نقصان پر 47؍ اوورس میں 270؍ رن بنائے ۔ جوابی کھیل کے دوران جنوبی افریقہ کی ٹیم نے 16؍ گیندیں رکھتے ہوئے ہدف کو حاصل کر لیا ۔ اِس ٹور نا منٹ میں آج دھرم شالہ میں نیو زی لینڈ کے خلاف آسٹریلیا او ر کو لکا تہ میں بنگلہ دیش بنام نیدر لینڈ مقابلہ ہو گا ۔
***** ***** *****
خواتین کے ایشیائی ہاکی مقابلے میں کل بھارت نے تھالی لینڈ کو پہلے مقابلےف میں 7 - 1 ؍ سے شکست دی ۔ یہ میچ رانچی میں کھیلا گیا ۔ اِس مقابلے میں سنگیتا کماری نے 3؍ گول کیے ۔ اِسی طرح مو نیکا ’ سلیمہ ٹیٹے ‘ دیپیکا اور لال دیسمسہ نے ایک ایک گول داغے
***** ***** *****
گووا میں جاری 37؍ ویں قو می کھیل مقابلوں میں شر کت کر نے والی مہاراشٹر کی خواتین ہا کی ٹیم میں چھتر پتی سمبھا جی نگر کے کھیل اِدارے کے 3؍ کھلاڑیوں کا انتخاب عمل میں آ یا ہے ۔ کا جل آٹپاڈیکر ‘ نر جلہ شندے اور شالینی ساکرے اُن کے نام ہیں ۔
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک بارپھر ...
٭ وزیر اعظم آج سر کاری خد مات میں بھر تی کیے گئے 51؍ ہزار نئے امید واروں کو تقرراتی خطو ط تقسیم کریں گے
٭ 3؍ ہزار آنگن واڑی مدد گار وں کی تر قی کی کارروائی جلد مکمل کی جائے گی ‘ خواتین و اطفال کی تر قی کا
مرکزی وزیر اسمر تی ایرانی کا تیقن
٭ میری ماٹی میرا دیش مہم کا ریاستی سطح پر اختتام ‘ امرت کلش دِلّی روانہ
٭ سابق مرکزی وزیر مملکت ببن رائو ڈھاکنے چل بسے ‘ آج آخری رسو مات اور
٭ پیرا ایشیائی کھیلوں میں بھارت 100؍ تمغے جیتنے کے قریب خواتین کے ایشیائی ہاکی چیمپئن شپ میں بھی فتح کا آغاز
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل آکاشوانی سماچار اورنگ آباد
Aurangabad AIR News پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
ایک حساس انسان کی زندگی کافی مشکل ہوتی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ گھنٹوں سوچتا ہے گھنٹوں روتا ہے راستے پر جاتے ہوۓ جب خود سے غریب کو دیکھتا ہے تو رات کے آخری پہر تک اس کے بارے میں سوچتا ہے انٹرنٹ پر سامنے اگر کوئی اداسی کی ویڈیو آجاۓ تو بھری محفل میں رو دیتا ہے کوئی تھوڑا سا پیار دیتا ہے تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہی انسان میری زندگی میں آیا ہے تو اوقات سے زیادہ پیار ہم بدلے میں دے دیتے ہیں تو وه سمجھ��ا ہے کہ یہ تو میرے پیار کا محتاج ہے اگے سے وہ پل پل تھڑپاتا ہے اور ہم اس پہلے والے پیار کو دیکھنے کی امید میں تھڑپتے ہیں دن کو ہزار باتیں ہم سن کر خاموش رہتے ہیں اور اپنے اندر دفن کرتے ہیں جو ہمیں اندر ہی اندر سے کھاتی ہیں رات کو جب بستر پر جاتے ہیں تو ہزاروں آنسوں باہر انے کے لئے تیار ہوتی ہے دل کرتا ہے بندہ چیخ چیخ کر یہ سب جو غبار ہوتا ہے وہ نکالے لیكن نہیں کرسکتا بس یہی روز کے درد جب اندر دفن ہوتے ہوتے دل بھر جائے تو بندہ یا تو زندہ لاش بن جاتا ہے اور یا خودکشی کو اپنا دوست مان لیتا ہے اور اس کا ہاتھ تھام کر چلا جاتا ہے ۔۔
The life of a sensitive person is very difficult. He thinks for hours over small things. He cries for hours on the way. When he sees the poor from himself, he thinks about him until the end of the night. In front of the internet if someone is sad. When the video comes, he cries in a crowded gathering. If someone gives a little love, they think that this person has come into my life. So, we give more love than we deserve in return, he thinks that he is in need of my love. From the front, he beats every moment and we keep clinging in the hope of seeing that previous love. A thousand words a day we listen and keep silent and bury inside ourselves that eats us from inside. At night when we go to bed. Thousands of tears are ready to come out. The heart wants to scream and blow out all the dust but I can't. That's the only thing that is daily pain. When the heart is filled with tears, the person becomes a living corpse. Yes, or does suicide accept as his friend and walks away holding his hand.
Ahmed's betrayal
9 notes
·
View notes
ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی، پھر بھی ہے یہ سفر اجنبی اجنبی
راہ بھی اجنبی، موڑ بھی اجنبی، جائیں گے ہم کدھر اجنبی اجنبی
زندگی ہو گئی ہے سلگتا سفر، دور تک آ رہا ہے دھواں سا نظر
جانے کس موڑ پر کھو گئی ہر خوشی، دے کے دردِ جگر اجنبی اجنبی
ہم نے چن چن کے تنکے بنایا تھا جو، آشیاں حسرتوں سے سجایا تھا جو
ہے چمن میں وہی آشیاں آج بھی، لگ رہا ہے مگر اجنبی اجنبی
کس کو معلوم تھا دن یہ بھی آئیں گے، موسموں کی طرح دل بدل جائیں گے
دن ہوا اجنبی، رات بھی اجنبی، ہر گھڑی، ہر پہر اجنبی اجنبی
4 notes
·
View notes
دیہاتی لڑکی ۔۔۔۔۔۔!!!
قسط نمبر 2
میں نے زینت کو اپنی باہوں میں لے لیا تھا وہ کچھ زیادہ گھبراگئی تھی میں نے اسے تسلی دی کہ اب تم ٹیشن فری ہو جہاں اور کوئی نہیں آئے گا وہ خود کو بری باہوں سے چھڑانا چاہ رہی تھی شاید پہلی بار کسی غیر مرد کی باہوں میں میری آئی تھی میں نے اس کی آنکھوں پر کسنگ کر کے اسے بولا کہ آؤ جوس بناتے ہیں وہ کانپ رہی تھی میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے کچن کی طرف لے آیا۔ میں نے جو سر نکال کر اس کا جگ زینت کو دیا کہ اسے دھو لو میں نے جوس بنایا دو پہر کو میں نے خود اوون میں بریانی گرم کر کے اس کو اپنے ساتھ بیٹھا کر کھلا یا مختلف انداز میں عام سی گفتگو کے دوران اس کی باڈی کو ٹچ کرتا رہا۔ شام تک میرے ساتھ ٹچ ہو کے بیٹھ جانا میرا اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر باتیں کرتے رہنا اس کے لئے عام سی بات بن چکی تھی میں ان دوان سلے سوٹ کے ساتھ ایک ریڈی میٹ سوٹ بھی لایا تھا اور 32 کی بریزر بھی شام کو میں نے زینت کو سوٹ بریزر دئے کے بولا کہ نہا کر ان کو پہن لو باہر چلتے ہیں جب زینت وہ سوٹ پہن کر باہر نکلی تو کسی طور بھی ایک دیہاتی لڑکی نہیں لگ رہی تھی اس کے بال بھی کافی لمبے تھے ڈارک بلیو کلر کے جسم پر فٹ سوٹ میں اب وہ کالج گرل لگ رہی تھی میں نے اسے بال کھلے چھوڑنے کا کہا اب وہ میری ہر بات بلا جھجک مانتی جا رہی تھی میں نے زینت کو الماری سے ایک بڑی چادر نکال کے اسے لیٹنے کا کہا اور گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بٹھا دیا وہ پہلے مارکیٹ سے اسے اچھے شوز لیکر پہنے کا کہا اور پھر ایک پبلک پارک کا رخ کیا۔ زینت ہر چیز کو حیرت سے دیکھ رہی تھی اور اسے پہلی بار یہ ہلہ گلہ اور روشنیاں اچھی لگ رہی تھی وہاں سے میں اسے اچھے سے ہوٹل میں لے گیا اور کھانا کھانے کے بعد 12 بجے رات کو ہم گھر آگئے میں اے سی کی کی کولنگ تیز کر کے اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا باتیں کرتے کرتے میں نے اسے اپنے ساتھ لٹا لیا تھا اور اب وہ اسے عجیب محسوس نہیں کر رہی تھی کو لنگ زیادہ ہونے سے اسے سردی لگنے لگی تھی اور اس نے کمبل اپنے اوپر ڈال لیا تھا میں نے ایک ٹانگ زینت پر رکھ لی تھی !
وراب ایک ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑے اس کے لپسنچوس رہا تھا اور ایک ہاتھ سے اس کے بوبز پر مسل رہا تھا اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھی لیکن وہ منع نہیں کر رہی تھی میں نے ہاتھ اس کی قمیض کے اندر ڈال لیا اب اس نے ایک بار میرے ہاتھ کو پکڑ کر باہر نکالنا چاہا لیکن میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے نیچےدبالیا بو بز کے نپل مسلنے سے اس کی سسکیاں نکلنے لگیں میں نے اس دوران اپنی پینٹ گھٹنوں تک اتار لی تھی اور اسے محسوس نہیں ھوا تھا پھر میں نے اس کی شلوار اتار رہا تھا تو پہلی بار بولی صاحب نہیں خرو میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا مجھے بہت پیاری لگتی ہو میں اس کی قمیض کے اوپر سے اس کے بوبز چوس رہا تھا میں نے اس کی شلوار بھی گھٹنوں تک اتار لی تھی یہ سب کمبل کے اندر ہو رہا تھا میں سائیڈ سے اٹھ خراس کر اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹ چوسنے لگا تھا وہ میں نے اس کی شلوار بھی گھٹنوں تک اتار لی تھی یہ سب کمبل کے اندر ہو رہا تھا میں سائیڈ سے اٹھ خراس کر اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹ چوسنے لگا تھا وہ اب فل مزے میں آچکی تھی اور آنکھیں بند کر کے تے سانس کے ساتھ اپنی کمر کو بل دے رہی تھی میں نے اسکی شلوار اور اپنی پینٹ ٹانگوں سے الگ کر لی تھی میں نے اب اپنی انڈویئر اتاری اور اپنے لن کو آزاد کر لیا ابھی تک نہ تو میں نے اس کو ننگادیکھا تھا اور نہ اس نے میں نے اس کی ٹانگیں کھلی کر لی لن کی کیپ پر تھوک لگایا اور اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیکر اس کے ہونٹ چوستے ہوئے اپنے نچلے دھڑ کو اس کی ٹانگوں کے بیچ کھسکا کر لن کو اس کی بلی کی طرف لانے لگا جب لن نے زینت کی بلی کے ہونٹوں کو دبایا تو زینت نے آنکھیں کھولی اس اب معلوم ہو چکا تھا کہ وہ نیچے سے مکمل ننگی اور میرے لن کے ٹارگٹ میں آچکی ہے وہ کچھ کہنا چاہار ہی تھی. زینت کے ہونٹوں سے نکلنے والی کوئی بات آئی ی ی ی ی و شش و ششش وشششش میں بدل گئی زینت کی بلی کے ہونٹوں پر مکے میں نے اپنے لن کو زینت کی بلی میں اتار دیا تھا لن چار انچ اندر جا چکا تھا وہ ہپس کو مڑوڑ رہی تھی میں اس کے ہونٹو کو چوستے ہوئے آرام سے لن کو ہلانے لگا تھا بلی کی اندرونی دیوار میرے لن کو پکڑ کر کھسک رہی تھی جس کا مطلب تھا کہ وہ زیادہ استعمال شدہ نہیں تھی لن چھ انچ تک زینت نے آسانی سے قبول کر لیا تھا لیکن جب میں جھٹکے سے لن کو مزید آگے کرنے کی کوشش کرتا تو زینت مجھے سائیڈوں سے پکڑ لیتی تھی دس منٹ تک اس طرح جھٹکے مارنے کے بعد میں نے کمبل کو اپنے اوپر سے ہٹا لیا تھا زینت نے اپنی ٹانگیں میری باڑ کے مطابق کھول رکھی تھی میں نے زینت کی قمیض اوپر گلے تک کر دی تھی
اور بریزر کی ہک کھول کر اس کے بشیر باہر نکال لئے تھے جن کو میں منہ بھر بھر کے چوس رہا تھا میں زینت کے اوپر لیٹا اپنے جھٹکے تیز کرتا اور لن کو مزید آگے دھکیلتا جارہا تھا بو بز چوسنے سے وہ مزے کی وادیوں میں چلی گئی تھی اور اپنی باہیں میرے گرد لپیٹ لی تھی مجھے لگ رہا تھا کہ اس طرح کا مزہ اسے پہلے نہیں ملا تھا زینت بھی میری طرح سادہ دیہاتی ماحول میں پلی تھی اب وہ اپنے نچلے دھڑ کو جو کیت دے کر میرے جھٹکے کی ساتھی بن رہی تھی کچھ دیر بعد زینت نے و ششششششش کی لمبی صدا کے ساتھ پانی چھوڑ دیا تھا اور تین جھٹکے ساتھ و مارنے اور اے اے اے کی مدھم سی آواز کے ساتھ جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا میں چند منٹ آرام سے زینت کے اوپر لیٹا رہا اور پھر آہستہ سے لن کو نکال کر اٹھ بیٹھا اس نے شاید یہ سمجھ کر کہ کام پورا ہو گیا اپنے پیروں سے کمبل کھینچنے کی کوشش کی لیکن میں نے کمبل دور پھینک دیا زینت کا کلر تھوڑا سانولا ضرور تھا لیکن اس کی جلد کشش والی تھی میں نے اس کی قمیض گلے سے نکال لی تھی اور اور بریزر کو بھی کاندھوں سے نکال لیا تھا اب میں اس کے ننگے جسٹ پر ہاتھ
پھیرنے کے ساتھ اس کا نظارہ کر رہا تھا زینت کی بوبز گول اور لچکدار تھے اور اس کے نپلز کار نگ لائٹ براؤن تھا زینت بمشکل 16 سال کی لگ رہی تھی جبکہ میری عمر 33 سال تھی اس کی باڈی بھی میری باڈی کے مقابلے میں آدھی تھی میں ایک بار پھر اس کے ٹانگوں کے بیچ آگیا تو اس نے آنکھیں کھول کر بس کرو۔۔۔ بولا لیکن میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور لن کی ٹوپی ببلی کے ہونٹوں پر برش کی طرح چلانے لگا اور پھر اندر ڈالتا گیا اس وقت اس کی بلی اندر سے خاصی گیلی ہو چکی تھی میں آہستہ آہستہ اندر جاتے لن کو دیکھ رہا تھا لن سات انچ سے آگے جانے لگا تو اس نے وشششش کے ساتھ اپنا ہاتھ میرے پیٹ پر رکھ دیا زینت کے پاؤں میرے ہاتھوں میں تھے جس سے میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائی ہوئی تھی اور میں آرام آرام سے اندر باہر ہوتے لن کو دیکھ رہا تھا میں جھٹکوں کی تیزی کے ساتھ زینت کے اوپر لیٹتا چلا گیا اپ اپنے سینے کا وزن میں نے زینت پر ڈال لیا اور نچلے دھڑ کو فری کر کے جھٹکے مارتا رہا زینت کا جسم نارمل مگر ٹائٹ تھا بہت دیر بعد میں جھٹکوں میں تیزی آنے لگی
اور پھر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا چند منٹ بعد میں نے اپنی منی زینت کے پیٹ چھوڑ دی اور اسی وقت اس کا پانی بھی دوسری بار نکل گیا کچھ دیر بعد میں نے لن کو باہر نکالا نکالا اور اپنے ساتھ زینت کو چپکاتے ہوئے کمبل اوڑھ لیا گھٹڑی پر 3:10 بج رہے تھے صبح آنکھ کھلے تو زینت باتھ روم جا چکی تھی 9:20 بج رہے تھے اور سیلنٹ پر لگا مو بائل ویبریشن کرنے لگا نعمت کی کال آرہی تھی کچھ مزید پیسوں کی ضرورت تھی اسے میں نے کچھ دیر میں ہسپتال آنے کا کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔ نعمت کی کال کے بعد میں نے کمبل چہرے پر ڈال لیا کمبل سے وہی خاص قسم کی میٹھی خوشبو آ رہی تھی جو زینت کے جسم سے آتی تھی اور دل کرتا ہے کہ اس کے جسم سے لگ کے پڑار ہوں اور کوئی کام نہ ہو میں نے اپنے ننگے جسم پر چادر لپیٹی اور دوسرے کمرے کے واش روم چلا گیا میں واپس آکر دیکھا تو زینت کے کپڑے ابھی تک بیڈ پر پڑے تھے اور وہ باتھ روم سے باہر نہیں آئی تھی کل شام کو زینت کے نہانے اور نیا سوٹ پہننے کے بعد گو اس کار نگ کافی نکھر چکا تھا اور وہ دن والی
سادہ کھلے کپڑوں اور پتر اندے میں جکڑے بالوں والی زینت نہیں رہی تھی لیکن اب بھی کچھ دیہی رنگ اس میں جھلک رہے تھے رات کے سیکس کا مزہ میرے حواس پر چھایا ہوا تھا اور خاص کر زینت کے ڈسچارج ہونے کے وقت کے ہیں اٹھا کر خود ہی تین جھٹکے کے ساتھ اے اے اے کی۔ مدھم آوازیں کے سین ذہن میں آتے ہی میرا لن سانپ کی طرح میری رانوں میں بل کھانے لگا تھا میں نے باتھ روم کے دروازے کو دیکھا تو اس سے روشنی کی ایک باریک لکیر کھنچی ہوئی تھی۔۔۔۔ مطلب زینت نے دروازہ لاک نہیں کیا تھا میں اٹھ کر باتھ روم کی طرف چلنے لگا تو میرا لن میرے آگے جھول گیا دیہات کی سادہ لڑکی کا ٹیسٹ اسے بھا چکا تھا اور باتھ روم کے دروازے کے پاس پہنچا تو بالصفا کریم کی خوشبو نے میرا استقبال کیا ویٹ کریم کی ڈبیہ باتھ روم میں موجود ہوتی تھی اور میری بیگم گلاب کے پھول والی ویٹ ہی استعمال کرتی تھی رات کو جب میں زینت کے پاؤں پکڑ کر اس کی ٹانگیں اٹھائے اس کی ببلی میں لن کو آرام سے اندر باہر کر رہا تھا تو میں نے دیکھا زینت کی ببلی پر ہلکے ہلکے بال موجود تھے
میں نے دروازہ کھول دیا زینت نے پانی کی بالٹی بھری ہوئی تھی اور گے اسے اپنے سر پر پانی ڈالنے والی تھی کہ مجھے اچانک دیکھ کر گھبراگئی اور شرم سے اس نے اپنا سر گھٹنوں پر ٹکا کر آنکھوں کو بازو سے چھپا لیا تھا میں نے اسے اٹھا لیا اور گلے لگا کر اسکو کسنگ کرنے لگا تھا زینت تھوڑی کھسکنے لگی تھی لیکن میں نے اسے ہیں سے پکڑ رکھا تھا اس کے ہیں میں قدرے کپکپاہٹ تھی اور اس نے سر جھکایا ہوا تھا زینت کے لمبے بال ہپس کے اوپر کے حصے تک کھلے ہوئے تھے وہ مدھم آواز میں بولی نہیں کر و صاحب ۔۔۔۔ میں نے اس کا چہرہ اوپر اٹھالیا تھا اور اسکی آنکھوں پر کسنگ کرتے ہوئے بولا کہ زینت مجھے صاحب نہیں بولا کرو مجھے یار بولا کر واب آپ کی اور میری دوستی ہو گئی ہے اب وہ ہلکی سی مسکرائی تھی میں نے اس کے ہپس پر تھپکی دی اور بوبز پر جھک گیا میں ان کو دونوں ہاتھوں سے مسلتے ہوئے باری باران کے نپل پی رہا تھا چھپ چھپ کی آواز کے ساتھ میں منہ بھر کے بوبز پی رہا تھا اور اس نے اب میرے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی شروع کر دی
تھی اور کبھی کبھی میرے چہرے پر پیار سے ہاتھ لگائی اس نے اپنا سینہ کمان کی طرح آگے کو کھینچا ہوا تھا اور سسکیوں کے ساتھ لمبے سانس لے رہی تھی میں نے زینت کو باہوں میں اٹھا لیا تھا اس نے اپنا ایک بازو میری گردن کے گرد لپیٹ لیا تھا بیڈ کی طرف آتے ہوئے اپنی ہاتھوں میں اٹھائی زینت کے ہپس کو میں نے پکڑا ہوا تھا اور مسلسل بوبز چوس رہا تھا اب تک میرا لن ٹائٹ ہو کر اوپر کو اٹھ گیا تھا میں نے کمبل اور بیڈ پر پڑے زینت کے کپڑوں اور اپنی پینٹ شرٹ کو نیچے کارپٹ پر پھینک دیا تھا میں نے زینت کو بیڈ پر لٹا دیا تھا اور جیسے ہی اس کی ٹانگوں کے بیچ بیٹھا زینت نے اپنے پاؤں اٹھا کر میرے کاندھوں پر رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے پاؤں میرے کاندھوں سے نیچے سینے کے اوپری حصے تک پہنچے تھے میں نے زینت کی بہلی پر نگا ڈالی رات والے ہلکے بالوں پر جھاڑو پھر چکا تھا
اور ببلی صاف ہو چکی تھی میں ایک بار پھر زینت آنکھوں سے کسنگ کرتا گالوں پس گردن بو بز اور پیٹ سے ہوتا ہوا اس کی رانوں پر کسنگ کرتا اٹھ بیٹھا تھا میں نے لن کو پکڑ کر ڈنڈے کی طرح زینت کی کی
ببلی پر مارا تو اس نے لمبی سی و تھوک لگایا اور بلی کے ہونٹوں میں برش کی طرح چلاتے اوپر کو پھسلا لیتا تھا اب زینت تڑپ رہی تھی اور کمر کو بل دے رہی تھی وہ اب آنکھیں بند کرنے کے بجائے مجھے معصومیت سے دیکھ رہی تھی میں نے چند سیکنڈ اس کی نگاہوں رکھ سے نگاہیں ملائے رکھی زینت نے مسکراتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ رکہ دیئے تھے میں نے ایک ہاتھ سے اس کے ہپس کو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے بوبز کو پکڑ کر لن کو زینت کی وادی میں جھٹکے سے اتار دیا اس نے وشش کے ساتھ کمر کو تھوڑا اٹھایا اور میں نے جھٹکے مارنا شروع کر دیئے میں جھٹکے مارتا آہستہ آہستہ زینت پر لیٹتا چلا گیا زینت نے اپنی ٹانگیں سکیڑ لی تھی اب میرا ارادہ تھا کہ پورے لن کو اس سادہ اور میٹھی وادی کی سیر کراؤں گا رات کو زینت سات انچ تک اندر لے چکی تھی اب صرف تقریباً اڑھائی انچ کی مشکل باقی تھی میں نے جھٹکے روک کر زینت کے ہونٹوں کو چوسنے لگا اور لن پر دباؤ شششش کر دی میں نے لن کی ٹولی پر بڑھا دیا لن اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا اور زینت کا چہرہ درد کی شدت سے سرخ ہو چکا تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
4 notes
·
View notes
میڈیا کی ڈولی بھی لٹک رہی ہے
بٹگرام میں لٹکتی ڈولی سے تو بچوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے لیکن کیا میڈیا کے سینیئر اور جونیئر تجزیہ کاروں کو کچھ خبر ہے کہ میڈیا کی اپنی ڈولی بھی لٹک رہی ہے؟ ہے کوئی صاحب خان جیسا رضاکار جو اس ڈولی کو سیدھا کرے؟ بٹگرام میں بچے صبح سے ڈولی میں پھنسے ہوئے تھے۔ شام اترنے لگی تو سورج کے ساتھ دل بھی ڈوبتا محسوس ہوا۔ پریشانی کے عالم میں ٹی وی آن کیا تو وجود میں سیسہ اتر گیا۔ نیوز کاسٹر چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ ’ناظرین، دیکھیے یہ ہم ہیں اور ہم نے سب سے پہلے قوم کو خبر دی تھی کہ یہاں بچے پھنس چکے ہیں۔‘ ایک ہی سانس میں، چیختے چلاتے کوئی نصف درجن بار ’سب سے پہلے‘ کا یہ پہاڑا ختم ہوا تو نیا سلسلہ شروع ہو گیا: ’ناظرین، یہ ایکسکلوزیو مناظر صرف ہم آپ تک پہنچا رہے ہیں!‘ ( اور مناظر وہ تھے جو چار گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر دیکھے جا چکے تھے اور وہ ان میڈیا والوں نے نہیں بلکہ مقامی لوگوں نے اپنے موبائل فون سے بنائے تھے)۔ اس کے بعد سینیئر تجزیہ کاروں کی مدد سے قوم کی رہنمائی کا فریضہ شروع ہو گیا۔ (یاد رہے کہ پاکستان میں فی الحال جونئیر تجزیہ کاروں کی پیدائش پر پابندی ہے)۔
سوال ہوا، ’بتائیے گا وہاں کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے؟‘ اور اس سوال کا جواب وہ صاحب دے رہے تھے جو مبلغ ایک گھنٹہ پہلے اسلام آباد میں ٹریل فائیو پر واک کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بٹگرام کی تازہ ترین صورت حال کے نام پر وہ سارا رواں تبصرہ فرما دیا جو سوشل میڈیا پر دستیاب تھا۔ خبر پڑھنے اور سوال کرنے کا انداز بیاں اور لہجہ ایسا تھا جیسے شوق اور سرمستی میں آدمی یوں جوش میں آ جائے کہ سرشاری میں خود پر قابو نہ پا سکے۔ یہ گویا ایک دہری اذیت تھی، وحشت کے عام میں ٹی وی بند کرنا پڑا۔ ہمارے میڈیا کو کون بتائے گا کہ سوگواری کے عالم میں خبر پہنچانے کا اسلوب جدا ہوتا ہے۔ آپ کسی میلے ٹھیلے کی خبر پڑھ رہے ہیں تو شوخی اور چیخ پکار شاید گوارا کر لی جائے لیکن سوگوار لمحے متانت مانگتے ہیں، سنجیدگی، ٹھہراؤ اور وقار۔ جہاں سنجیدگی اور گداز اختیار کرنا چاہیے یہ وہاں بھی اٹکھیلیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں پرسہ دینا ہو وہاں یہ ’می رقصم‘ ہو جاتے ہیں۔ کوئی تو ہو جو انہیں سمجھائے کہ ہر وقت اور ہر مقام ڈگڈگی بجانے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ میڈیا کو سوچنا ہو گا کہ کیا سوگواری کے لمحات کے صحافتی آداب نہیں ہوتے؟ ایک پہر کے لیے ہی سہی؟
’آزادیِ صحافت‘ کے کچھ مناظر، جو میرے مشاہدے میں ہیں، درد کی صورت وجود میں گڑے ہیں۔ کوئٹہ میں بلاسٹ ہوا، ہمارے وکیل دوست ٹکڑوں کی صورت بکھر گئے، چینل پر خبر چل رہی تھی اور ہم لہو رو رہے تھے، مگر اگلے ہی لمحے شوخی بھری کمرشل بریک چل پڑی: ہم سا حسین ہونا چاہتے ہو؟ لودھراں میں ایک معصوم بچے کا ریپ کے بعد قتل ہوا۔ لاشہ گھر میں رکھا تھا اور لائیو کوریج ہو رہی تھی۔ نیوز کاسٹر نے رپورٹر سے کہا، ’کیا آپ ہماری مقتول کی والدہ سے بات کروا سکتے ہیں؟‘ رپورٹر نے مائیک غم کی ماری ماں کے سامنے کر دیا۔ بیٹے کے لاشے کے پاس بیٹھی ماں سے نیوز اینکر نے سوال پوچھا، ’آپ اس وقت کیا محسوس کر رہی ہیں؟‘ سیلاب کا ایک منظر ہے۔ اگست کے دن ہیں۔ ایک بوڑھا سیلاب کے پانی میں سے چلتا ہوا آ رہا ہے۔ اس کے سر پر ایک بڑی سی ٹوکری ہے۔ ٹوکری میں دو سہمے ہوئے معصوم سے بچے اور ایک مرغی ہے۔ مائک اس کے منہ میں گھسیڑ پر ایک اینکر نے سوال پوچھا، ’کیا آپ ہمیں قومی ترانہ سنا سکتے ہیں؟‘
دکھوں کا مارا وہ بوڑھا بے بسی اور حیرت سے اینکر کو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ سکندر نامی ایک شخص نے بلیو ایریا میں اپنے ہی اہل خانہ کو یرغمال بنایا تو چینلوں پر اس کی لائیو کوریج شروع ہو گئی۔ اس کوریج کے دوران ایک وقت آیا سکندر صاحب رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں میں جا گھسے۔ نیوز کاسٹر نے شدت جذبات سے اعلان فرمایا: ’ناظرین یہ لائیو مناظر صرف آپ ہماری سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔‘ سکندر صاحب رفع حاجت کر کے واپس آ گئے مگر نیوز کاسٹر نے کتنی ہی دیر قوم کی رہنمائی جاری رکھی کہ ’ناظرین، یہ ہے وہ خصوصی منظر جو آپ صرف اور صرف ہماری سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔‘ یہ اپنے مشاہدے میں سے چند صحافتی نگینے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھے۔ آپ اپنے مشاہدات کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ حسیات میں پیوست کانٹوں کی پوری ایک مالا بن سکتی ہے۔ میڈیا کی ڈولی لٹک رہی ہے۔ اسے ریسکیو کرنے کون آئے گا؟
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes