Tumgik
#مولانا الطاف حسین حالی
Text
مولانا الطاف حسین حالی
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھرائے بیٹا خدا کا تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں مزاروں پہ دن رات نذریں چڑہائیں شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
وہ اشعار جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوا اور دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو گیا۔
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
(مصطفیٰ خان شیفتہ)
گلہ کیسا حسینوں سے بھلا نازک ادائی کا
خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے
(سرور عالم راز سرور)
داورِ محشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
(ایم ڈی تاثیر)
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
(مصطفیٰ زیدی)
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
(مرزا غالب)
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
(میاں داد خان سیاح)
غم و غصہ، رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
(حیدر علی آتش)
مریضِ عشق پہ رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
(نا معلوم)
آخرگِل اپنی صرفِ میکدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
(مرزا جواں بخت جہاں دار)
بہت جی خوش ہواحالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
(مولانا الطاف حسین حالی)
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
(داغ دہلوی)
نہ گورِسکندر نہ ہے قبرِ دارا،
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
(حیدر علی آتش)
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
(چراغ حسن حسرت)
جذبِ عشق سلامت ہے تو ان شاءاللہ
کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے
(انشاللہ خان انشاء)
قریب ہے یارو روزِمحشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستین کا
(امیر مینائی)
پھول تو دو دن بہارِجاں فزاں دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
(شیخ ابراھیم زوق)
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
(مرزا غالب)
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھ ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں
(داغ دہلوی)
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
(مرزا غالب)
چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
(فدوی لاہوری)
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسکو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
(میر طاہر علی رضوی)
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
(پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی)
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
(علامہ اقبال)
جلال پادشاہی ہو کہ جمھوری تماشا ہو
جدا ھو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
(علامہ اقبال)
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
(شعیب بن عزیز)
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
(پروین شاکر)
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے‘ انجام گلستاں کیا ہو گا
(شوق بہرائچی)
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
(مرزا غالب)
11 notes · View notes
bazmeurdu · 4 years
Text
مولانا حالیؔ : ایک ہمہ جہت شخصیت
شعر و ادب سے شغف رکھنا یا شاعری میں نام پیدا کرنا کسی طبقے یا ذات سے مخصوص نہیں۔ اسی طرح کسی ہمہ جہت شخصیت کو عرصہ ہنر میں داخل ہونے یا بحیثیت نثر نگار مختلف اصناف نثر میں ��مالات دکھانے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس ہنر کی بدولت آدمی کا اعتبار بڑھتا ہے اور وہ عصری تقاضوں سے بہرہ ور ہونے کے نتیجے میں تعمیری سوچ اور لفظ کی قوت کا ادراک رکھنے کا ثبوت اس طرح فراہم کرتا ہے کہ وہ بحیثیت شاعر‘ نقاد‘ سوانح نگار یا مصلح معاشرتی ضرورت بن کر ابھرتا ہے۔ وہ پاکیزہ جذبوں اور خوابوں کو مروجہ اصناف میں بے کم و کاست اپنے عہد سے عہد مستقبل کے قاری تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ کے زمانے کا مسلمان بے یقینی کی اذیت میں مبتلا ہو چکا تھا‘ اس کرۂ ارض پر جسے جنوبی ایشیا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ مسلمان کی مثال ایک نو گرفتار پرندے کی سی تھی جو سات سمندر پار سے آئے سفید فام شکاری کے ہاتھوں زیردام آیا‘ یہ پرندہ اسیر قفس ہوا۔
غالبؔ نے اپنے شاگرد عزیز مولانا حالیؔ کو مشورہ دیا کہ شعر نہیں کہو گے تو خود پر ظلم کروں گے۔ یہ مشورہ حالیؔ کی شخصیت اور فن میں ایسا نکھار پیدا کرنے کا سبب بنا کہ ''مدوجزر اسلام‘‘ کی تخلیق میں تاریخی شواہد کے ساتھ سادگی اور پرکاری کا معجزہ دلوں کو تسخیر کرنے لگا‘ بظاہر مسدس حالیؔ جیسا کارنامہ سرسید کی فرمائش پر انجام پایا اور سرسید نے اپنی بخشش کا جواز ڈھونڈ لیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالیؔ کے دل میں ایک ایسا گھائو تھا جو مسدس کی تخلیق میں کام آیا۔ مسدس حالیؔ کی اشاعت سے اشاعتی اداروں نے لاکھوں کمایا مگر مولانا حالی نے قناعت پسندی کو شعار زندگی بنا کر یہ ثابت کیا کہ ضروریات زندگی سے زیادہ اعلیٰ مقصد زندگی کو عزیز رکھنا چاہیے۔ مولانا میں قناعت کے ساتھ عجز و انکسار کا جذبہ ان کی شخصیت کی دلکشی میں نمایاں اضافہ کرنے کا موجب ٹھہرا‘ ان کی خاکساری دوسرے ہم عصر اہل قلم کو سربلند کرنے میں صرف ہو گئی۔
حالیؔ کو بحیثیت نقاد اپنی اصلاح پسندی اور معتبر حوالوں کے باعث اردو زبان و ادب میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ تنقیدی سرمائے میں اب تک جتنا اضافہ ہو اس کا نقطہ آغاز مولانا حالیؔ کے مقدمے کی صورت میں ہمیشہ ہمارے سامنے رہے گا۔ حالیؔ انگریزی زبان سیکھنے میں اپنے ہم عصر یا بعد میں آنے والے اہل قلم سے پیچھے رہے لیکن لاہور میں قیام کے دوران میں انہوں نے تراجم سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور بالواسطہ انگریزی ادب سے روشناس ہوئے۔ ان کی وضع داری کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ ان کی تحریر کتابت کے لیے بھیجی گئی جس میں منبر کی بجائے حالیؔ نے ممبر (Member) لکھا ہوا تھا۔ کاتب قدرے پریشان ہوا اور صحیح لفظ‘ م۔ن۔ب۔ر کتابت کی۔ مولانا سے ایک مجلس میں ملاقات ہوئی‘ کاتب نے رازدارانہ انداز میں اپنی یہ بات ان کے گوش گزار کی‘ مولانا حالیؔ نے کاتب کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے اور کاتب کا شکریہ ادا کیا۔ وہ کاتب جب اور جہاں ملتا مولانا حالیؔ دوستوں کو بتاتے کہ یہ میرے محسن ہیں‘ انہوں نے مجھے میری غلطی پر نا صرف آگاہ کیا بلکہ اسے درست بھی کیا۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ''حیات جاوید‘ یادگار غالب‘ حیات سعدی اور مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے جو شہرت پائی اس سے کہیں زیادہ ''مسدس حالی‘‘ ان کی شہرت کا سبب قرار پائی‘ ان کی غزلیں اور نظمیں بھی بلند پایہ ا��ر آفاقی سچائیوں کی مظہر ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ شعر و ادب تو انسانی زندگی کا ایک ایسا سرچشمہ ہے جو انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے انسان کی چند بنیادی ضرورتوں کی اسی طرح سیرابی کرتا ہے جس طرح علوم نافعہ اور فنون مفیدہ اجتماع کے چند عملی شعبہ ہائے زندگی کو سیراب و شاداب کرتے ہیں‘ ادب تخیل کی بیکار جولانی کا نام نہیں بلکہ اس کا صحیح عمل انسانی شخصیت کی تکمیل اور انسانی اجتماع کی خدمت ہے۔ اس اعتبار سے مولانا حالیؔ نے برصغیر پاک وہند کے مسلم معاشرے کے افراد کی خدمت کی ہے۔ 
وہ نہایت مخلص‘ پروقار اور دیدہ بیدار صاحب قلم تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد مسلمانوں کی مضمحل قوت کا علاج کرنا تھا وہ ایک کامیاب چارہ گر ثابت ہوئے۔ مسلمانوں کے لیے بیداری کا سامان حالیؔ نے کیا اور بعد میں شاعر مشرق نے اس پیغام بیداری کو عام کیا۔ مولانا حالیؔ کی بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا اور یہ جاننا کہ معیاری معتبر اور اعلیٰ پائے کے ادب میں تاثیر کا وصف خلوص اور صداقت کی بدولت پیدا ہوتا ہے یقینا مولانا حالیؔ کے ہاں خلوص اور صداقت بدرجہ اتم موجود ہے یہ تمام عناصر ادب پر اثر انداز ہوتے ہیں اور جدید رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا حالی کی تخلیقات جدید رجحانات اور نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ صحت مند ادبی روایات کی بازیافت کا وسیلہ بھی ثابت ہوئیں۔ موجودہ عہد میں دینی مابعد الطبیعیات کا سب سے زیادہ متحرک اور فعال ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی بنیاد پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ 
کسی قوم کی تہذیب‘ تہذیبی اقدار اور روایات ادبی سرمائے کی صورت میں محفوظ رہتی ہیں‘ آج بھی سرسید‘ غالبؔ‘ شبلی اور محمد حسین آزادؔ وہ ارکان خمسہ ہیں جن کے بغیر اردو ادب کا مطالعہ ادھورا اور ناقص کہلائے گا‘ ان میں مولانا حالیؔ کی نثر اور نظم کی بدولت مستقبل کا ادب پروان چڑھا اور جدید دور میں حالیؔ اپنی فکر اور زبان دونوں اعتبار سے صالح تہذیبی اقدار کے تحفظ اور تسلسل کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ وہ اپنی قوت متخیلہ یا قوت مدرکہ کے علاوہ قوت ممیزہ کی بدولت اپنے فن اور مقصدیت میں حسین امتزاج کو برقرار اور اپنی تخلیق کو قاری کے معیار فکرونظر سے ہم آہنگ رکھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی اصلاح شعر کی تحریک سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے اہمیت نہ دینا اور ان کی بات کو مذاق میں اڑا دینا اپنے اندر کے خلا کا اقرار کرنا ہے۔
حسن عسکری کاظمی
2 notes · View notes
urduclassic · 5 years
Text
اردو کے سو مشہور اشعار
ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہماری قومی زبان اردو نے میر تقی میر، غالب، اقبال، داغ، فیض ، فراز اور جون ایسے مایہ ناز شاعر پیدا کیے ہیں جن کے افکار سے ساری دنیا متاثر ہے۔ شاعری کے عالمی دن پر آپ کے ذوق کو مہمیز کرنے کے لیے یہاں پر اردو کے وہ ایک سو مشہور ترین اشعار دیے جا رہے ہیں جو بہت مشہور اور زبان زد عام ہوئے، اور لوگوں نے بے حد پسند کیے۔
 لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری علامہ اقبال
 بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں مرزا غالب
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد مولانا محمد علی جوہر
 نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے میر تقی میر
 خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ علامہ اقبال
 دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو کلیم عاجز
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو میاں داد خان سیاح
 رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ابراہیم ذوق
 کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی مرزا غالب
 خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے امیر مینائی
 چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے فدوی عظیم آبادی
 پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر علامہ اقبال
 تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر علامہ اقبال
 مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے برق لکھنوی
 فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب بس ہو چکی نماز، مصلّہ اٹھایئے حیدر علی آتش
 آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا حیدر علی آتش
 مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے حیدر علی آتش
 امید وصل نے دھوکے دیے ہیں اس قدر حسرت کہ اس کافر کی ’ہاں‘ بھی اب ’نہیں‘ معلوم ہوتی ہے چراغ حسن حسرت
 داور حشر میرا نامہء اعمال نہ دیکھ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں محمد دین تاثیر
 اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں فراق گورکھپوری
 ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی عزیز الحسن مجذوب
 وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی مہاراج بہادر برق
 چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے یگانہ چنگیزی
 دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا عزیز لکھنوی
 اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا عزیز لکھنوی
 دینا وہ اس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام منہ پھیر کر اُدھر کو، اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ نظام رام پوری
 یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے اکبر الہٰ آبادی
 بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا اکبر الہٰ آبادی
 آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل گمنام
 اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا علامہ اقبال
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جایئے بندہ پرور جایئے، اچھا، خفا ہو جایئے حسرت موہانی
 تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا مضطر خیر آبادی
 دیکھ آؤ مریض فرقت کو رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے حسن بریلوی
 خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں اکبر الہٰ آبادی
 دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے شاد عظیم آبادی
 ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو راست گوئی میں ہے رسوائی بہت الطاف حسین حالی
 سب لوگ جدھر وہ ہیں، ادھر دیکھ رہے ہیں ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں داغ دہلوی
 دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا داغ دہلوی
 گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں امیر مینائی
 فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے مصطفیٰ خان شیفتہ
 ذرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے جسے بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے علامہ اقبال
 ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لایئے مصطفیٰ خان شیفتہ
 وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے مصطفیٰ خان شیفتہ
 لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو میر انیس
 شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے مومن خان مومن
 الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا مومن خان مومن
 اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا محمد رضا برق
 کوچہء عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے وزیر علی صبا
 دم و در اپنے پاس کہاں چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں مرزا غالب
 گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی مرزا غالب
جانتا ہوں ثواب طاعتِ و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی مرزا غالب
 غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے مرزا غالب
 بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا مرزا غالب
 اسی لیے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر خواجہ وزیر
 زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایماں بہہ گیا محمد ابراہیم ذوق
 ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی اکبر الہٰ آبادی
 فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کیا کرے محمد رفیع سودا
 یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری علامہ اقبال
 تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات علامہ اقبال
 یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے شاد عظیم آبادی
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو مخدوم محی الدین
اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے میر تقی میر
 اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات اقبال
 آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک مرزاغالب
 اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا فیض احمد فیض
 دائم آباد رہے گی دنیا ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا ناصر کاظمی
 نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیئے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے محسن بھوپالی
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر پھر ملیں گے اگر خدا لایا میر تقی میر
 شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے میر تقی میر
 بہت کچھ ہے کرو میر بس کہ اللہ بس اور باقی ہوس میر تقی میر
 بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں مادھو رام جوہر
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں بہادر شاہ ظفر
 بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے میر تقی میر
 ہم فقیروں سے بے ادائی کیا آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا میر تقی میر
 سخت کافر تھا جس نے پہلے میر مذہبِ عشق اختیار کیا میر تقی میر
 نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے علامہ اقبال
 کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیئے حضور ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا ساغر صدیقی
 زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا علامہ اقبال
 دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن رات کٹتی نظر نہیں آتی سید محمد اثر
 تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا میر تقی میر
 میرے سنگ مزار پر فرہاد رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد میر تقی میر
 ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا قائم چاند پوری
 زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ساغر صدیقی
 ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا نظیر اکبر آبادی
 پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے نظیر اکبر آبادی
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں اکبر الہٰ آبادی
 کہوں کس سے قصہ درد و غم، کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر، ترا حال اکبرِ نوحہ گر تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے اکبر الہٰ آبادی
 نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی اکبر الہٰ آبادی
مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں امیر مینائی
 اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا الفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے ماہر القادری
 کہہ تو دیا، الفت میں ہم جان کے دھوکہ کھائیں گے حضرت ناصح! خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟ ماہر القادری
 اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہء دل فگار بن کر مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہء نو بہار بن کر
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر ساغر صدیقی
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں ساغر صدیقی
 محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم کچھ گفتگو تو کھل کے کریں گے خدا کے ساتھ عبدالحمید عدم
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے حفیظ میرٹھی
 صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی گستاخ رام پوری
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ اے شبِ ہجر تیرا کالا منہ
بات پوری بھی منہ سے نکل�� نہیں آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ مومن خان مومن
 سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے احمد فراز
 مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے افتخار عارف
اے خدا جو کہیں نہیں موجود کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں جون ایلیا
 بس یہی قیمتی شے تھی سو ضروری سمجھا جلتے گھر سے تیری تصویر اٹھا کر لے آئے  ریحان اعظمی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
52 notes · View notes
touseefturnal-blog · 5 years
Text
Tumblr media
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
لامتناہی کارکردگی کا جائزہ
میر،غالب وسودا کے بعد ،بہت سے سودائی اردو کی ترقی و فروغ کے لیے اٹھے ۔۔سرسید تحریک نے مولانا حالی کی صورت نیچرل شاعر دیا تو خود سرسید نے انشا پردازی کی بنا ڈالی ۔۔انجمن حمایت الاسلام لاہور نے اقبال جیسے گوہرِ نایاب سے اردو کا دامن بھر دیا ۔۔دارالمصنفین نے سید سلیمان ندوی و شبلی جیسے تروتازہ گلاب پیش کیے۔۔شبلی کی عرق ریزی سے لکھی گئی تحقیق ۔۔الفاروق و الغزالی اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ۔۔ترقی پسند تحریک گو کہ اشتراکیت کا آرگن رہا ۔۔نعرہ بازی کے سوا اور کچھ نہیں ۔۔پر یہ بات لائق ستائش کہ اس نے اردو کے دامن کو گلہائے رنگارنگ سے بھر دیا ۔۔۔فیض،مخدوم ،اختر الایمان ،سردار جعفری ،مجاز وغیرہم ۔۔مجاز سے متعلق کہا جاتا کہ ،،اردو میں ایک کیٹس پیدا ہوا تھا جسے ترقی پسند بھیڑیے اٹھا لے گئے ،،حلقہ ارباب ذوق نے بھی اردو زبان کی ترویج وترقی میں نمایاں رول ادا کیا ۔۔اور ڈاکٹر سجاد، باقر رضوی، انتظار حسین سے نامور قلمکار دیے۔
ان تمام تنظیموں نے زمینی سطح پر کام کیا ۔۔پرنٹ میڈیا سے ۔۔ریڈیو ۔۔پھر ٹیلیویژن جیسے ذرائع ابلاغ کو اپنایا ۔۔زمانے نے کروٹ بدلی۔۔بیسویں صدی کی سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ شکل اکیسویں صدی میں کمپیوٹر کی شکل معرض وجود میں آئی ۔۔ٹیلی فون سے موبائل پھر ٹچ اسکرین نے انقلاب برپا کر دیا ۔۔۔یہ برقی دنیا میں اہم قدم تھا ۔۔اسے اردو ادب کے فروغ کے لیے برتا جانے لگا ۔۔واٹس اپپ و فیس بک پر مختلف گروپس متحرک ہوگئے ۔۔مگر ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے وہ نمایاں کام انجام دیے کہ برقی دنیا مدتوں اس کا ثانی پیش نہیں کرسکتی ۔
توصیف ترنل۔۔ایک نام ہی نہیں انجمن ۔۔۔جس نے برصغیر سے دور ہانگ کانگ میں رہ کر اس ادارے کی بنیاد ڈالی ۔۔۔بانی و چیئرمین ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ۔۔انتھک محنت جس کا اصول ،نامساعد حالات میں بھی ثابت قدم ۔۔۔اپنے ادارے کے اراکین کے ہمقدم ۔۔یقیں محکم ،عمل پیہم کی جیتی جاگتی تصویر ۔۔بس ایک ہی دھن اردو زبان و ادب کا فروغ ۔
یوں تو برقی دنیا کے بہت سے گروپس اردو ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں مگر ان میں وہ بات کہاں !!۔۔جو ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری میں ہے ۔اس ادارے کی انفرادیت روز اول سے یہی رہی ہے کہ اس کی تمام تر پروگرام برائے تنقید ہوئے ہیں ۔۔!!جس نے منفرد 207 پروگراموں کا ہمالہ کھڑا کر دیا ہے ۔اسی پر بس نہیں بلکہ ہر پروگرام اچھوتے موضوع کو سمیٹے ہوئے ۔لاثانی ولافانی۔۔گلہائے رنگارنگ سے سجے،جن کی مہک آج بھی ان کے ذہنوں میں تازہ ہے جو ابتدا سے اس ادارے سے جڑے ہیں ۔ان کی کامیابی کے پس پشت سالار کاروں ،ادارے کے بانی و چیئرمین عزت مآب توصیف ترنل صاحب کی انتھک محنت ،ناممکن کو ممکن کردکھانے کی صلاحیت اور ان کے زرخیز ذہن کی اپچ شامل رہی ہے ۔۔ٹیم ورک نے شراب دوآتشہ کا کام کیا ہے ۔
یہ توصیف ترنل صاحب کی خوش قسمتی رہی ہے کہ ہمیشہ انہیں ایسے نئے اراکین ملے جنھوں نے ان ممبران کا خلا پورا کیا جو اپنی ذاتی مصروفیت کی بنا پر یا کسی اور وجہ سے ادارے سے علحیدگی اختیار کی ۔مگر یہ چمن یوں ہی آباد و سرسبز وشاداب رہا گرچہ کئی بلبلیں اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ گئیں !۔۔غنچے ٹوٹتے گئے اور نئے شگوفے پھوٹتے رہے ۔۔کیاری کیاری ،روش روش،پتہ پتہ ،بوٹا بوٹا موسم بہار کا سماں پیش کرتے رہے ۔
عصر حاضر کے بہت سے معروف قلمکار اس ادارے کی خون جگر سے آبیاری کرتے رہے ۔۔اسلم بنارسی صاحب ،افتخار راغب ،لالی صاحبہ ،علیم طاہر ،مختار تلہری۔۔ایک طویل فہرست ہے ۔کہاں تک نام گنوائیں جائیں ۔!! ادارے کے فعال رکن معروف شاعر علی مزمل مرحوم کی یادوں کے انمٹ نقوش ذہنوں پر ثبت ہے ۔
ادارے نے اردو ادب کی ہر صنف سخن میں برائے تنقید پروگرام پیش کیے۔۔یہ بھی ایک ریکارڈ ہے ۔۔کیا نثر ،کیا نظم ۔۔مزید برآں موضوعات کی بوقلمونی!!۔۔عصر حاضر کے سلگتے موضوعات ،،امن یا جنگ ،، ،،کرپشن ،،۔۔۔،،مہنگائی ،،۔۔ذرائع ابلاغ سے متعلق ،،صحافت کا گرتا معیار ،،جیسے برنگ ٹاپکس ۔ ۔۔کسی کی مخالفت کی پروا کیے بغیر پیش کئے ۔۔۔وہ بھی کامیابی و کامرانی کے بلندیوں کو چھوتے ، مقبولیت کے جھنڈے گاڑتے ، سنگ میل قائم کرتے جانب منزل رواں دواں ،یہ گنگناتے ہوئے ،
آنکھوں نے میری میل کا پتھر نہیں دیکھا
کس کس پروگرام کا ذکر کیا جائے !۔۔کس کس کی انفرادیت کے گن گنوائے جائیں !!--کس کس کی کامیابی کے گیت گائے جائیں !!!-یہاں ،،موسم بہار ،، کی رنگینی بھی ہے تو ،، عید ملن،، کی دلکشی بھی تو ،،حمد ونعت،، کی روشنی بھی ۔۔۔مائیکرو فکشن کا اختصار جس نے سمندر کو کوزے میں بند کیا تو افسانوی ادب نے معاشرتی و سماجی پہلوؤں کو اجاگر کیا ۔۔،،خود نمائی،، نے چہروں کے نقاب الٹ دیے۔۔تو وہیں ،،طنزومزاح ،،کی چاشنی نے لبوں پر تبسّم بکھیر دیا ۔۔اردو کی مقبول اصناف میں لکھاریوں نے قلم کے جوہر دکھائے ۔۔سہل ممتنع ،،۔۔ذو ردیفین،،۔۔صنعت مبالغہ ،،۔غرض ہر صنف سخن پر پروگرام مرتب کیے گئے ۔جنہوں نے جہاں داد وتحسین کو بٹورا وہیں تنقید کے کڑے مراحل سے گزرے ۔۔ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا یہی وتیرہ رہا ہے کہ وہ ،،نام نہیں کام دیکھتا ہے ،،۔۔تخلیق دیکھتا ہے تخلیق کار نہیں ۔۔۔۔تنقید کی کسوٹی کندن کی سی آب وتاب عطا کرتی ہے ۔ٹیم دی بیسٹ میں نامور تنقید نگار ۔۔شفاعت فہیم ،مسعود حساس ،غلام مصطفیٰ داعم،ذوالفقار نقوی ،ڈاکٹر عدیل ارشد خان موجود ہیں جو بے لاگ وبےباک تنقید کر تنقید کا حق ادا کرتے ہیں ۔
ادارے کی فعالیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پروگرام کے خاتمہ کے ساتھ بعض اوقات فی الفور اس کی رپورٹ تیار کی جاتی ہے ۔۔جو مختلف ویب سائٹس میں پبلش ہوتی ہے ۔۔ادارے کی ذاتی ویب سائٹ بھی موجود ہے ۔ادارے کی لاٹیو رپورٹ فیس بک پر ٹیلی کاسٹ کی جاتی ہے ۔۔جس میں ادارے کے روحِ رواں توصیف ترنل نمایاں رول ادا کرتے ہیں ۔
پروگرام کی رپورٹس احمد منیب ،نفیس احمد ،ڈاکٹر ارشاد خان وغیرہم تیار کرتے ہیں جو ایک سند کا درجہ رکھتی ہے ۔ادارے کی انفرادیت کا یہ عالم کہ اول پروگرام سے لےکر 207 ویں پروگرام تک ۔۔تمام ریکارڈ محفوظ ہے ۔۔گوگل پر کسی بھی پروگرام کو سرچ کرکے دیکھا جاسکتا ہے ۔۔ادارے کی انتظامیہ میں شامل اراکین کو جو عہدے تفویض کیے گئے ہیں وہ اسے بحس و خوبی ادا کرتے ہیں ۔۔ادارے کے پروگرام کے لیے ہفتہ کی شام مختص ہے ۔۔آرگنائزر پروگرام مرتب کر کرتے ہیں جو دقت طلب عمل ہے ۔۔نظامت کے لیے لاثانی ٹیم موجود ہے جس میں برقی دنیا کے شہرۂ آفاق ناظم ۔۔گل نسرین ،صبیحہ صدف،سیما گوہر ،اسلم بنارسی ،احمر جان،علیم طاہر نے بے مثال نظامت کر اپنے فن کا لوہا منوایا ہے ۔۔جن کی برجستگی و برمحل اشعار پیوستگی۔۔نیز لب و لہجے کی وارفتگی محفل میں چار چاند لگادیتی ہے ۔
برقی دنیا میں ماشاءاللہ ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ۔۔اب کسی تعارف کو محتاج نہیں رہا ۔۔بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ،،اب نام ہی کافی ہے ،،ادارے کے ڈیزائنر صابر جاذب ، پر جاذب بینر تیار کر ادارے کو وقار بلند کیے ہوئے ہیں ۔۔سیکرٹری احمد منیب کی انتھک محنت نے ادارے کو اعلیٰ مقام عطا کیا ہے ۔
ادارے نے جہاں منفرد پروگرام پیش کئے ہیں ان کا تابناک پہلو یہ بھی ہے کہ تخلیق کاروں سے ۔۔کچھ نیا ، انوکھا ، سب سے الگ ،تعمیری ادب تخلیق کروایا ۔۔یہی دھن ادارے کے بانی کی سدا سے رہی ہے ، جس کی صدا پر ادارے کے قلمکاروں نے سدا لبیک کہا ۔۔۔ترقی پسندوں نے جدید ادب تخلیق تو کیا ۔۔جدیدیت کے رجحان میں گل وبلبل، جام ومینا سے اجتناب تو کیا ۔۔مگر ایک مخصوص فکر کے آلو کار بن گئے ۔۔جس کا سب سے تاریک پہلو ،،مذہب بے زاری ،،ابھر کر سامنے آیا ۔۔۔۔ادب کے نام پر پروپیگنڈہ ادب تو کہیں پراگندگی ابھر آئی ۔۔منٹو ،عصمت و مابعد واجدہ تبسّم نے ۔علی الترتیب کھول دو ،لحاف و اترن کو جنم دیا ۔۔سماج کی کریہہ شکل کو ۔۔ من وعن پیش کیا ۔ ۔۔جبکہ ارادہ نے تعمیری ادب کے ساتھ ساتھ مذہب کو بھی جوڑ رکھا تو سیاست کو تو آداب معاشرت کو ،۔۔کہ ۔۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اور
۔۔۔۔مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
کے مصداق پروگرام کی ابتدا ہی حمد و نعت سے کی جاتی ہے ۔
ایک اور نمایاں خصوصیت ،جو ریسرچ اسکالرس کے لیے کسی نعت غیر متوقع سے کم نہیں کہ عصر حاضر کے نامور قلمکار ایک پرچم تلے صف بستہ ہیں جن کے تخلیقی مواد و کسی مخصوص موضوع کی تلاش میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں ۔گوگل پر سرچ کرکے متعلقہ مواد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔برقی دنیا میں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ہر اول دستہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔۔ادارے کے بانی وچیئرمن نے چیلنج کر انعام کا اعلان کیا ہے کہ ادارہ سے بہتر کارکردگی برقی دنیا میں اردو کے فروغ کے لیے کسی نے پیش کی ہو تو بتائیں ۔!!
ادارے نے سب سے پہلے ایوارڈ کا سلسلہ جاری کیا ہے ۔۔ہر بہترین تخلیق پر اب تک بے شمار ایوارڈ دیے جاچکے ہیں ۔۔یہ ایوارڈز کلاسیکی ادباء وشعرا سے موسوم ہیں ۔۔مولانا الطاف حیسن حالی ،جگر مرادآبادی ،مشتاق احمد یوسفی وغیرہم سے منسوب ایک لامتناہی سلسلہ ۔۔۔ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ایک ادارہ نہیں ۔۔۔دبستان ہے جس میں گلہائے رنگارنگ اپنی دلکشی سے قارئین کو مسحور کیے ہوئے ہیں اور ان کی مہک دلوں کو سرشار و بے خود کیے ہوئے ۔کیف و سرور ،سوزوگداز ،قدیم و جدید کا امتزاج ،آئیں نو۔و طرزِ کہن،سے سجا سجا یہ چمن ،اس کی ہر تخلیق میں بانکپن ،آہو و غزال سے بھرا پڑا مرغزار ختن ،جھلملاتے ستاروں کی انجمن ،کہکشاں سے آراستہ گگن ،۔۔۔یہی ہے ۔۔یہی ہے ،جس سے تن اردو میں جان پڑگئی ۔۔مہتاب کی وہ کرن۔۔ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ۔
ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
1 note · View note
columnspk · 2 years
Text
 انسانیت کی خدمت کا عظیم مشن
 انسانیت کی خدمت کا عظیم مشن
انیسویں صدی کے انقلابی شاعر اور شہرہ آفاق کتاب مد وجذر اسلام کے خالق مولانا الطاف حسین حالی قرآن کریم کی سورہ بقرہ کے حوالے سے تخلیق انسانی کے مقاصد کی منظوم انداز میں تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتاب ہدایت کا پہلا سبق یہ ہے کہ جن و انس اور چرند پرند سمیت تمام جانداروں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ تمام انسان اللہ تعالیٰ کے کنبے کے افراد ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو ان کی مخلوق…
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years
Text
علامہ اقبال پر دعوعی نبوت کا الزام لگتے لگتے رہ گیا
علامہ اقبال پر دعوعی نبوت کا الزام لگتے لگتے رہ گیا
شاعر مشرق علامہ اقبال مزاح جانتے تھے ۔ ان کے مزاح کو بھی تاریخی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے تاریخی مشاعرے کا ذکر ہے جس میں ملک کے تقریباً سارے نامور شعرائے کرام نے شرکت کی تھی۔ مشاعرے کے شرکاءمیں سے مولانا الطاف حسین حالی تو بہت بوڑھے ہو چکے تھے اور ان کے برعکس علامہ اقبال کا شمار نوجوان شعراءمیں ہوتا تھا۔ مشاعرہ شروع ہوا اور جب مولانا حالی کی باری آئی تو انہوں نے ایک کاغذ جس پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Tumblr media
Maulana Altaf Hussain Hali, the famous Urdu📜 poet 📝and author 📰of the Masnavi🗞️ Mad-e-Jazr-e-Islam, passed away☠️ in Safar,Thirteen hundred and thirty three Hijri 1️⃣3️⃣3️⃣3️⃣🏨/ December,ninteen hundred and fourteen Anno Domini1️⃣9️⃣1️⃣4️⃣🅰️D. صفر،تیرہ سو تینتیس ہجری 1️⃣3️⃣3️⃣3️⃣ ھ/ دسمبر انیس سو چودہ عیسوی1️⃣9️⃣1️⃣4️⃣ء میں اُردو📜 کے مشہور شاعر 📰اور مثنوی🗞️ مدّ و جزر اسلام کے مصنف📝 مولانا الطاف حسین حالی فوت☠️ ہوئے۔ #ALLAH #Muhammad(PBUH) #DailyStatuses #IslamicHistoryEvents #IslamicInfo #Instagram #Whatsapp #Twitter #Facebook #Tumbler #Okru #Ameba #IMO #Telegram #MSKGB #Pakistan #Punjab #Bahawalpur #Khan #Gopang #Baloch #Urdu #halli #altafhussain #Safar #1333 hijri #december #1914 AD #Death #masnawi (at India) https://www.instagram.com/p/CUADFVqojdo/?utm_medium=tumblr
0 notes
seekergkfan · 4 years
Photo
Tumblr media
اردو ادب کا پہلا تنقید نگار کون ہے؟ اردو ادب کا پہلا تنقید نگار کون ہے؟ A). قلیم الدین احمد B). مولانا الطاف حسین حالی C). احمد ندیم قاسمی D). مولانا محمد حسین آزاد
0 notes
Text
Altaf Hussain Hali (الطاف حسین حالی) - مسدسِ حالی
اسی     طرح    یاں    اہلِ    ہمت    ہیں    جتنے
کمر      بستہ      ہیں     کام     پر     اپنے     اپنے جہاں  کی  ہے  سب  دھوم دھام انکے دم سے
فقیر    اور    غنی   سب   طفیل   ہیں   ان   کے بغیر   ان   کے   بے   سازو  ساماں  تھی  مجلس
نہ    ہوتے    اگر    یہ    تو   ویراں   تھی   مجلس
***
زمیں   سب   خدا   کی   ہے  گلزار  انہیں  سے
زمانہ     کا     ہے     گرم    بازار    انہیں    سے ملے    ہیں    سعادت   کے   آثار   انہیں   سے
کھلے    ہیں    خدائی    کے    اسرار   انہیں   سے انہیں   پر   ہے   کچھ   فخر   ہے   گر   کسی   کو            انہیں   سے   ہے   گر   ہے   شرف   آدمی   کو
***
انہیں    سے   ہے   آباد   ہر   ملک   و   دولت
انہیں   سے   ہے   سر   سبز   ہر   قوم  و  ملت انہیں   پر   ہے   موقوف   قوموں   کی   عزت
انہیں  کی  ہے  سب  ربع  مسکوں  میں برکت دم   ان   کا   ہے   دنیا   میں   رحمت   خدا   کی
انہیں     کو    ہے    پھبتی    خلافت    خدا    کی
***
انہیں     کا     اجالا     ہے     ہر     رہگزر     میں            انہیں   کی   ہے   یہ   روشنی  دشت  و  در  میں انہیں   کا   ظہورا   ہے   سب  خشک  و  تر  میں
انہیں   کے   کرشمے  ہیں  سب  بحر  و  بر  میں انہیں    سے    یہ    رتبہ    تھا   آدم   نے   پایا
کہ    سر    اس    سے    روحانیوں   نے   جھکایا
***
ہر  اک  ملک  میں  خیر  و برکت ہے ان سے
ہر  اک  قوم  کی  شان  و  شوکت  ہے ان سے نجابت  ہے  ان  سے  شرافت  ہے  ان  سے
شرف ان سے فخر ان سے عزت ہے ان سے جفا    کش    بنو    گر    ہو    عزت   کے   خواں
کہ   عزت   کا   ہے   بھید   ذلت   میں   پنہاں
***
مشقت     کی     ذلت     جنہوں     نے    اٹھائی
جہاں     میں     ملی     ان     کو     آخر    برائی کسی    نے   بغیر   اس   کے   ہر   گز   نہ   پائی
فضیلت        نہ        عزت       نہ       فرمانروائی نہاں    اس   گلستاں   میں   جتنے   بڑھے   ہیں
ہمیشہ     وہ     نیچے    سے    اوپر    چڑھے    ہیں
***
حکومت     ملی     ان     کو     صفار     تھے     جو         امامت      کو     پہنچے     وہ     قصار     تھے     جو وہ    قطبِ    زماں    ٹھہرے    عطار   تھے   جو
بنے       مرجعِ       خلق       نجار       تھے      جو اولو      الفضل     یاں     اٹھے     سراج     کتنے
ابو     الوقت     یاں     گزرے     حلاج     کتنے
***
نہ    بو    نصر    تھا   نوع   میں   ہم   سے   بالا
نہ     تھا     بو    علی    کچھ    جہاں    سے    نرالا طبعیت    کو    بچپن    سے    محنت   میں   ڈالا
ہوئے      اس      لیے     صاحبِ     قدر     والا اگر     فکرِ     کسبِ     ہنر     تم    کو    بھی    ہو            تمہیں     پھر     ابو     نصر    اور    بو    علی    ہو
***
بڑا     ظلم     اپنے     پہ     تم    نے    کیا    ہے
کہ   عزت   کی   یاں   جس  ستوں  پر  بنا  ہے ترقی      کی      منزل      کا     جو     رہنما     ہے          تنزل      کی      کشتی      کا     جو     ناخدا     ہے قوی   پشت   تھیں   جس   سے  پشتیں  تمہاری
ہوئی    دست    بردار   قوم   اس   سے   ساری
***
ہنر    ہے    نہ    تم   میں   فضیلت   ہے   باقی
نہ   علم   و   ادب   ہے   نہ   حکمت   ہے  باقی نہ    منطق    ہے    باقی   نہ   ہتئپ   ہے   باقی
اگر        ہے       تو       کچھ       قابلیت       باقی اندھیرا   نہ   چھا   جائے   اس   گھر   میں  دیکھو            پھر     اکسا    دو    اس    ٹمٹا    تے    دیے    کو
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
1- اردو زبان کےتقریبا 54009 الفاظ ہیں۔
ط
2- ریختہ کا لفظ اردو زبان کے لئے بادشاہ اکبر اعظم کےعہد میں استعمال ہوا۔
3- ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے۔
4- افسانہ ہمارے ہاں انگریزی زبان کےادب سے آیا ہے۔
5- کہہ مکرنی اردو نثر میں سب سے قدیم صنف ہے۔
6- ترقی پسند تحریک کےحوالے سے افسانوی کے پہلے مجموعے کا نام انگارے ہے۔
7- اردو ڈرامے کاآغاز لکھنؤ سے انیسویں صدی میں ہوا۔
8- جدید اردو نظم کا آغاز انجمن پنجاب لاہور سے ہوا۔
9- علامہ اقبال کا سب سے پہلا شعری مجموعہ اسرارخودی ہے۔
10- علامہ راشدالخیری کو طبقہ نسواں کا محسن قرار دیا گیا۔
11- جس شاعری میں نقطہ نہ آئے اسے بے نقط شاعری کہتے ہیں۔
12- فارسی ایران کی زبان ہے۔
13- مغلوں کے زمانے میں عربی اور فارسی سرکاری زبانیں تھیں۔
14- اردو کو 1832 میں برصغیر میں سرکاری زبان کا درجہ ملا۔
15- اردو کی پہلی منظوم کتاب کدم راو پدم راو ہے۔
16- مولانا حالی نے ""مسدس حالی"" سر سید کےکہنے پر لکھی۔
17- الطاف حسین حالی مرزا غالب کے شاگرد ہے۔
18- مخزن رسالہ شیخ عبدالقادر نے اپریل 1901ء میں شائع کیا۔
19- اردو کا پہلا سفر نامہ عجائبات فرہنگ یوسف خان کمبل پوس ہے۔
20- اسماعیل میرٹھی بچوں کے شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔
21- دارالمصفین اعظم گڑھ کے بانی مولانا شبلی نعمانی تھے۔
22- فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔
23- علامہ اقبال کی پہلی نثری کتاب ""علم الاقتصاد ""اقتصادیات کے موضوع پر ہے۔
24- فیض احمد فیض واحد پاکستانی شاعر ہیں جہنیں روسی ایوارڈ لنین پرائز ملا۔
25- پاکستان کا قومی ترانہ حفیظ جالندھری کی کتاب چراغ سحر میں ہے۔
26- شکوہ جواب شکوہ علامہ اقبال کی کتاب بانگ دار میں ہے۔
27- مسدسِ حالی کا دوسرا نام مدوجزر اسلام ہے۔
28- زمیندار اخبار مولانا ظفر علی خان نےجاری کیا۔
29- اردوکا ہمدرد اور انگریزی کا ""کا مریڈ""مولانا محمد علی جوہر نےجاری کیا۔
30- اردو کا پہلا ڈرامہ اندر سبھا امانت لکھنوی کا ہے۔
31- آغاحشر کاشمیری کو اردو ڈرامے کا شیکسپیر کہاجاتا ہے۔
32- غزل کا پہلا شعر مطلع اور آخری شعر مقطع کہلاتا ہے۔
33- علامہ اقبال کے خطوط ""اقبال نامہ""" کےنام سے شائع ہوئے۔
34- قراۃالعین حیدر اردو کے افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی تھی۔
35- تہزیب الاخلاق رسالہ سر سید احمد خاں نے 1871ً میں شائع کیا۔
36- اردو کا پہلا اخبار ""جام جہاں"" کلکتہ سے 1822ء میں شائع ہوا۔
37- اردوکی نظم ""آدمی نامہ"" نظیر آکبر آبادی کی ہے۔
38- بابائے اردو، مولوی عبدالحق کو کہا جاتا ہے۔
39- اردو غزل کا باقاعدہ آغاز ولی دکنی نے کیا تھا۔
40- غزل کے لغوی معنی ہے، عورتوں سے باتیں کرنا۔
41- اکیلے شعر کو فرد کہاجاتا ہے۔
42- شعر کےآخر میں تکرار لفظی کو ردیف کہتے ہیں۔
43- پیام مشرق علامہ اقبال کی فارسی کتاب ہے جس کا دیپاچہ اردو میں ہے۔
44- ایم اے او کالج علی گڑھ 1920 میں یونیورسٹی کا درجہ ملا۔
45- اردو کی پہلی خاتون ناول نگار رشیدہ النساء بیگم ہیں۔
46- ترقی پسد تحریک کے پہلے صدر منشی پریم چند ہیں۔
47- اردو کےپہلے ناول نگار ڈپٹی نزیر احمد ہیں۔
48- چوھدری فضل الحق نےاپنی کتاب ""زندگی"" گورکھپوری جیل میں لکھی۔
49- علامہ اقبال کی پہلی نظم ہمالہ ہے۔
50- اردو ہندی تنازعہ 1967ء کو بنارس سے شروع ہوا۔
51- ریختہ کے لفظی معنی ایجاد کرنا ہے۔
52- رابندر ناتھ ٹیگور پہلے ایشائی ہیں جن کو 1913ء میں نوبل انعام ملا۔
53- یادوں کی بارات جوش میلح آبادی کی آپ بیتی ہے۔
54- آواز دوست کے مصنف مختار مسعود ہیں۔
55- جہان دانش احسان دانش کی آپ بیتی ہے۔
56- اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کے مصنف ڈاکٹر سلیم اختر ہیں۔
57- اپنا گریبان چاک ڈاکٹر جاوید اقبال کی آپ بیتی ہے۔
58- کاغزی گھاٹ خالدہ حسین کا ناول ہے۔
59- آب حیات کے مصنف مولانا محمد حسین آزاد ہیں۔
60- راجہ گدھ ناول بانو قدسیہ کا ہے۔
61- اردو شعر اء کا پہلا تزکرہ نکات الشعراء میر تقی میر ہے۔
62- اردو کی پہلی تنقیدی کتاب مقدمہ شعروشاعری مولاناحالی نے لکھی۔
63- یاد گار غالب اور حیات جاوید کے مصنف مولاناحالی ہیں۔
64- سحرالبیان کےخالق میر حسن ہیں۔
65- ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں ابن انشاء کا سفر نامہ ہے۔
66- تزکرہ اور غبار خاطر مولانا ابوالکلام کی تصانیف ہیں۔
67- رسالہ اسباب بغاوت ہند کے مصنف سرسید احمد خان ہیں۔
68- بلھے شاہ کا اصل نام سید عبدللہ ہے۔
69- اردو کےپہلے مورخ کا نام رام بابو سکسینہ ہے۔
70- اردو کی پہلی گرائمر انشاءاللہ خان نے لکھی۔
71- خطوط نگاری کے بانی رجب علی بیگ ہیں۔
72- اردو کی طویل ترین نظم مہا بھارت ہے۔
73- آزاد نظم کے بانی ن-م راشد ہیں۔
74- سید احرار لقب حسرت موہانی کو ملا۔
75- حفیظ جالندھری کوشاعر اسلام کہا جاتا ہیے۔
76- پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ ہے۔
77- اہل لاہور کو زندہ دلان لاہور کا لقب سر سید احمد خان نے دیا۔
78- علامہ اقبال اپنے آپ کو مولانا روم کاشاگرد کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
79- سنسکرت اور فارسی ایشیاء براعظم کی زبانیں ہیں۔
80- سنسکرت برصغیر میں مختلف وقتوں میں دو مرتبہ درباری زبان بنی۔
81- اردو آج دو رسم الخطوط میں لکھی جاتی تھی۔
82- برج بھاشا بین الصوبائی لہجہ تھا۔
83- پنجابی ،دکنی، سندھی، اور برج بھاشا کا اصل مخرج ہراکرت تھا۔
84- جب سندھ کو اسلامی لشکر نے فتح کیا اس میں عربی اور فارسی زبان بولنے والے لوگ شامل تھے۔
85- اردو کی پہلی تحریک حضرت گیسو دراز قرار دیا جاتا ہے۔
86- سب سے پہلےغزل گو شاعر
ولی دکنی ہے۔
87- قران مجید کا اردو میں پہلا لفظی ترجمہ شاہ رفیع الدین نے کیا ( 1786ء)۔
89- سر سید نے خطبات احمدیہ انگلستان میں کتاب لکھی تھی۔
90- روسو کی اس آواز کو رومانوی تحریک کا مطلع کہا جاتا ہے۔ انسان آزاد پیدا ہو مگر جہان دیکھو وہ پایہ زنجیر ہے۔
91- دس کتابیں یہ مرکب عددی ہے۔
92- فعل اور مصدر میں باہمی فرق فعل میں ہمیشہ زمانہ پایا جاتا ہے مصدر میں نہیں۔
93- مہر نیمروز غالب کی تصنیف ہے۔
94- شاہنامہ اسلام حفیظ جالندھری کی تصنیف ہے۔
95- مصحفی کے آٹھ دیوان ہے۔
96- دہلی مرحوم حالی کا مرثیہ ہے۔
97- جدید اردو بثر سب سے پہلے سرسید نے لکھی۔
98- زندہ رود کے مصنف جاویداقبال ہیں۔
99- اردو میں مثنوی نگاری فارسی کے توسط سے زیر اثر آئی۔
100- قصیدے کے پانچ اجزائے ہیں نشیب، گریز، مدح، عرض مطلب، مدعا۔
8 notes · View notes
bazmeurdu · 6 years
Text
مومن خاں مومن کی انفرادیت
مومن خاں مومن (1800-1852ئ) بھی مرزا غالب کی طرح اپنی انفرادیت لیے ہوئے تھے۔ سنجیدہ معاملہ بندی اور تغزل ان کی غزلوں کا مخصوص جوہر ہے۔ ان کی نازک خیالی ان کے شطرنج کے نقشوں کی طرح وقت نظر اور پیچیدگی کی حامل ہوتی ہے تغزل کے محدود دائرے ہی کے اندر یہ میناکاری کے نقش بٹھاتے ہیں جس کا مقصد محض پیچ کھولنا ہوتا ہے نہ کہ پیچ کھولنے کے بعد حصول انبساط۔ اسی تعقید کے باعث اکثر جگہ بیچ کی کڑیاں چھوڑ جاتے ہیں۔ رعایت لفظی کے بھی بے حد دلدا دہ تھے لیکن اس صنعت کو محض اسی کی خاطر کم استعمال کرتے ہیں مقصود معنی کی خوبیوں کو بڑھانا ہوتا ہے۔ 
الطاف حسین حالی کا خیال ہے کہ نزاکت وخیال کے معاملے میں غالب سے بھی سبقت لے گئے ہیں معاملہ ہندی میں جرأت کے متبع معلوم ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بہ قول مولانا عبدالسلام ندوی ’’اس میں بھی دلی کی شان کو قائم رکھا اور نہایت شانت اور تہذیب کے ساتھ عشق و ہوس کے جذبات ادا کیے۔‘‘ مومن بھی غالب کی طرح ہمیشہ روش عام سے علیحدہ رہتے تھے ان کی مشکل پسند اور جدت طراز طبیعت کسی شعبے میں بھی تقلید کرنا عار سمجھتی تھی۔ عقائد میں حسن عقیدت اور جوش مذہب بہت ہے اور یہ ان کے ماحول اور تربیت کا نتیجہ ہے۔ اکثر جگہ دوسروں پر مذہبی نوک جھونک بھی کر جاتے تھے۔ 
مومن سے پہلے جس قدر شعرا گزرے ہیں بہ لحاظ ندرت، قصیدے میں بہ استثنائے سودا ان کا کوئی ہم سر نہیں اگرچہ ذوق کا پایہ پختگی اور صفائی میں کہیں برتر ہے تاہم زور اور ندرت ادا میں مومن کا جواب نہیں ان کی تشبیب عموما ًنادر اور پر لطف ہوتی ہے۔ تشبیب کو بھی مومن اس کے حقیقی معنوں میں پیش کرتے ہیں یعنی اس میں بھی تغزل کی شان نظر آتی ہے۔ مثنویاں ان کی زیادہ تر عاشقانہ ہیں اور ان میں آپ بیتی پائی جاتی ہے اور اکثر جگہ بہ قول امداد امام اثر کوچہ گردی کی بو آتی ہے۔ البتہ زبان کی سلاست اور جدید تراکیب کی لطافت مزہ دیتی ہے۔
محمد اقبال
2 notes · View notes
urduclassic · 5 years
Text
ہماری قومی زبان اردو
Tumblr media
دنیا میں قومیں جن چیزوں سے پہچانی جاتی ہیں ان میں سے ایک قومی زبان ہے۔ اسے صحیح مقام دیے بغیر قومی یگانگت پیدا نہیں ہو سکتی ۔ اس کے بغیر قوم کے دلوں سے احساسِ کمتری دور نہیں ہو سکتا اور نہ ہی خود اعتمادی پیدا ہو سکتی ہے۔ قومی زبان کے بغیر نہ تو ملک و قوم ترقی کر سکتے ہیں اور نہ ہی متحد و مستحکم رہ سکتے ہیں۔ قومی زبان کسی بھی قوم کی امنگوں کی آئینہ دار اور ہر میدان میں اس کی ترجمان ہوتی ہے۔ ہر شخص قومی زبان کے ذریعے اپنی آواز بیک وقت پوری قوم تک پہنچا سکتا ہے۔
جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے، یہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی قومی زبان ہے۔ اردو زبان کی تخلیق کے بارے میں ماہرینِ لسانیات نے مختلف آرا پیش کی ہے۔ بیشتر ماہرین کہتے ہیں کہ لفظ اردو ترکی زبان سے نکلا ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں۔ اسے لشکری زبان بھی کہا گیا ہے۔ ترکی زبان میں فوج یا لشکر کو ’’اردو‘‘ یا ’’اوردو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کا استعمال شاہ جہان کے دور سے شروع ہوا جب دہلی کے پاس چھاونی کو اردو معلیٰ کے نام سے منسوب کیا گیا اور اسی طرح اس علاقے میں بولی جانے والی زبان بھی اردوئے معلیٰ کہلائی جانے لگی ، جو کہ بعد میں صرف اردو کہلائی جانے لگی۔ یہی زبان آج وطنِ عزیز میں بولی جاتی ہے۔ 
اردو زبان کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا بھی گیا، جن میں ہندی، دہلوی، ریختہ، دکنی اور ہندستانی قابلِ ذکر ہیں۔ اس زبان کو ایک مخصوص گروہ کی جانب سے درباری زبان کے لقب سے بھی پکارا گیا۔ اس کے نفاذ کو ہمیشہ التوا میں ڈالا گیا۔ لیکن در حقیقت اردو وہ زبان ہے جس کا تعلق ہمیشہ سے عوام سے رہا ہے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اردو زبان نے دوسری زبانوں اور علوم کو اپنے اندر سمونے میں تشنگی دکھائی۔ یہ اپنی وسیع القلبی کی بدولت مختلف زبانوں اور الفاظ کو اپنے اندر سمیٹ رہی ہے۔ 
یہاں یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ قرآن پاک میں جن الفاظ کا استعمال ہوا ہے، ان میں سے تقریباً ڈیڑھ ہزار ایسے الفاظ ہیں جو اردو زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے پانچ سو الفاظ ایسے ہیں جو پاکستان کی دوسری علاقائی زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اردو کم مایہ زبان نہیں ہے بلکہ وہ زبان ہے جس نے غالب، میر اور اقبالؒ جیسے مایہ ناز اور قد آور شاعر پیدا کیے۔ وہ زبان جس نے سر سید احمد خان، مولانا محمد حسین آزاد، ابوالکلام آزاد اور شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی جیسے نثر نگار پیدا کیے۔ 
اردو زبان کی ترقی و ترجیح میں صوفیائے کرامؒ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان کی بدولت اس زبان نے ہندوستان بھر میں عروج حاصل کیا۔ تبلیغ کے لیے آنے والے صوفیاکرامؒ غیر ملکی ہونے کے باوجود مقامی زبان میں تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ان کا عمدہ اخلاق و کردار دیکھ کر لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور اسی زبان کی بدولت ہندوستان کی ایک کثیر آبادی مشرف بہ اسلام ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو کو بطور قومی زبان لاگو کیا گیا۔ 1956ء کے آئین میں اردو اور بنگالی دونوں قومی زبانیں قرار پائیں۔ 1962ء کے آئین میں بھی اردو کو قومی زبان تسلیم کیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے تحت بھی سرکاری اور قومی زبان اردو ہی کو تسلیم کیا گیا۔ اس وقت ہمارا معاشرہ دو رنگی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ 
ملک میں دو قسم کے نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ انگریزی تعلیم حاکم پیدا کرتی ہے اور اردو محکوم۔ اس سے نقصان یہ ہو رہا ہے کہ معاشرہ اپنی بہتر صلاحیتوں سے محروم ہو کر اسی راستے پر چل رہا ہے جس پر انگریز ڈال گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی ماحول میں پرورش پانے والے افراد قطعاً اس حق میں نہیں کہ اردو کو نافذ کیا جائے۔ اردو کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ تعلیم و تدریس کا وسیلہ بنایا جائے۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی مثال دیکھ لیجئے وہاں وہی زبان ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج ہوتی ہے جسے وہاں کے عوام کی اکثریت بولتی اور سمجھتی ہو۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس کو فروغ دینا حکومت سمیت ہر پاکستانی کا قومی فریضہ ہے کیوں کہ اردو دنیا بھر میں ہماری پہچان ہے۔
زینب آغا
37 notes · View notes
humlog786-blog · 5 years
Text
قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر کا جھگڑا
Tumblr media
فکشن میں قرۃ العین حیدر جتنی مقبول و ممتاز ہیں شعر و ادب میں پروین شاکر بھی اتنی ہی مقبول ہیں۔ زندگی نے وفا نہ کی ورنہ بہت ممکن تھا کہ وہ کئی اور شاہ کار اردو ادب کو دے جاتیں۔ 1978ء کے اواخر میں وہ ہندوستان گئی تھیں۔ واپس آ کر انھوں نے اپنے سفر کی یاد گار کے طور کئی نظمیں لکھیں جن میں تین نظمیں بطور خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ تاج محل۔فراق گورکھپوری۔اور قرۃ العین حیدر پر لکھی ہوئی وہ نظمیں ’’سیپ‘‘ کراچی۔شمارہ 38 (اکتوبر نومبر 1978) میں شائع ہوئی تھیں ۔ ’’سیپ کا یہ شمارہ جب قرۃ العین حیدر صاحبہ تک پہنچا تو انھوں نے اپنے اوپر لکھی گئی نظم کے رد عمل کے طور پر مدیر ’’سیپ‘‘ نسیم درانی اور پروین شاکر کے نام الگ الگ دو خطوط ارسال کئے۔ پروین شاکر کے نام خط یوں تھا: ممبئی۔۔۔3؍ جنوری 1979 محترمہ پروین شاکر صاحبہ سیپ میں آپ کی نظم دیکھی جس میں آپ نے اپنی شاعری اور تخیل کے جوہر دکھائے ہیں۔ میں آپ سے بہت خلوص اور اپنائیت سے ملی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا آپ نے میرے متعلق اس قدر لچر الفاظ کس طرح اور کیوں استعمال کیے اور آپ کو میں کس طور پر ایسی FIGURE OF THE TRAGEDY & FRUSTATION نظر آئی یا اس قسم کی SICK نظمیں لکھ کر آپ اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔آپ شاید بھولتی ہیں اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔میں چھ ۶ تاریخ کو تین ماہ کے لیے دلی جا رہی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ مندرجہ ذیل پتے پر مجھے لکھیں گی کہ آپ نے یہ نظم کیا سوچ کر لکھی یا آپ کی واقعی اتنی SICK ذہنیت ہے کہ آپ میری شخصیت کو اس طرح مسخ کر کے پیش کریں۔نہ میری آپ سے پرانی دوستی ہے نہ آپ میری ہم عمر ہیں۔ آپ نے دو تین بار کی سرسری ملاقات کے بعد میرے طرز زندگی پر جو قطعی میرا اپنا انتخاب اور میرا معاملہ ہے فیصلے صادر کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ یا آپ بمبئی آ کر بوکھلا گئی تھیں - OR YOU MUST BE RIGHT OUT OF YOUR MIND قرۃ العین حیدر دوسرا خط مدیر ’’سیپ‘‘ نسیم درانی کے نام یوں تھا : جناب مدیرسیپ نسیم درانی صاحب تسلیم! آپ کے رسالے میں پروین شاکر صاحبہ کی نظم دیکھ کر افسوس ہوا اور تعجب بھی۔ادیبوں کی شخصیت کو بلاوجہ اور بلا جواز Unprovoked مسخ کر کے پیش کرنا یا ان پر کیچڑ اچھالنا ہمارے اردو رسالوں کا وتیرہ (کذا) بن گیا ہے اور یہ وبا عام ہو چکی ہے۔اس قسم کی Viciousness کی وجہ کیا ہے۔یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔امید ہے آپ مجھے بتائیں گے۔والسلام پتہ دیا تھا : معرفت مسٹر ایم آئی قدوائی، وائس چانسلر ہاؤس، جامعہ ملیہ اسلامیہ پی۔او جامعہ نگر۔اوکھلا۔نئی دہلی۔25 قرۃالعین حیدر کا خط پا کر پروین شاکر حیران ہوئیں کہ خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی ہوئی نظم کا یہ الٹا اثر ہوا۔انھوں نے تمام تر احترام ملحوظ رکھتے ہوئے قرۃ العین حیدر کو جواب دیا اور اس کی ایک نقل مدیر سیپ نسیم درانی کو بھی بھیج دی۔نسیم درانی نے مدیرانہ ذمہ داری اور مدیرانہ تہذیب کے پیش نظر وہ خطوط اس وقت شائع نہیں کیے مگر سیپ کی ایک خاص اشاعت شمارہ 75 میں دونوں قلم کار خواتین کے خطوط شائع کرتے ہوئے یہ نوٹ لگایا : ’’ادارے نے اپنی مدیرانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ان خطوط کو اس وقت اس لیے شائع نہیں کیا کہ اردو کی سب سے عظیم نثرنگار اور ایک حساس شاعرہ کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش ایک مستقل نزاع کی صورت نہ اختیار کر لے۔‘‘ اب جب کہ نہ پروین شاکر ہی سلامت ہیں نہ قرۃالعین حیدر، یہ خطوط ان کے مزاج کو سمجھنے کی دستاویز ہو کر رہ گئے ہیں۔پروین شاکر کا خط پڑھنے سے پہلے آیئے اک نظر اس نظم پر ڈال لیں جس کا قرۃالعین حیدر نے منفی تاثر قبول کیا :نظم کا عنوان ہے۔ قرۃالعین حیدر جیون زہر کو متھ پر امرت نکالنے والی موہنی بھرا پیالہ ہاتھوں میں لیے پیاسی بیٹھی ہے وقت کا راہو گھونٹ پہ گھونٹ بھرے جاتا ہے دیوی بے بس دیکھ رہی ہے پیاس سے بے کل۔۔۔۔۔۔اور چپ ہے ایسی پیاس کہ جیسے اس کے ساتوں جنم کی جیبھ پہ کانٹے گڑے رہے ہوں ساگر اس کا جنم بھون اور جل کو اس سے بیر ریت پہ چلتے چلتے اب تو جلنے لگے ہیں پیر ریت بھی ایسی جس کی چمک سے آنکھیں جھلس گئی ہیں آب زر سے نام لکھے جانے کی تمنا پوری ہوئی پر پیاسی آتما سونا کیسے پی لے اک سنسار کو روشنی بانٹنے والا سورج اپنے برج کی تاریکی کو کس ناخن سے چھیلے شام آتے آتے کالی دیوار پھر اونچی ہو جاتی ہے (سیپ شمارہ 38 اکتوبر، نومبر 1978ء) اس نظم کے رد عمل کے طور پر 3جنوری 1979ء کو جو خط قرۃالعین حیدر نے پروین شاکر کو لکھا تھا اس کا جواب 18 فروری 1979ء کو پروین شاکر نے دے دیا تھا۔چونکہ انھیں خط مدیر سیپ نسیم درانی کی معرفت ملا تھا، انھوں نے اس خط کی ایک نقل مدیر سیپ کو بھی بھیجی تھی۔ پروین شاکر کا یہ خط بجائے خود ان کی خوش سخنی و خو ش کرداری کا غماز بھی ہے : عینی آپا۔آداب معذرت خواہ ہوں کہ میری کوئی تحریر آپ کی دل آزاری کا سبب بنی۔یقین کیجئے میرا ہر گز یہ منشا نہیں تھا۔نہ نظم میں نے آپ کو خو ش کرنے کے لیے لکھی نہ ناراض کرنے کے لیے۔یوں جان لیں کہ یہ ایک تاثراتی قسم کی چیز تھی۔آپ بہت بڑی ادیب ہیں، ہم نے تو آپ کی تحریروں سے لکھنا سیکھا۔آپ مجھ سے خلوص اور اپنائیت سے ملیں، بڑا کرم کیا۔یقیناً یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔مگر میری سمجھ میں نہیں آتا میں نے اس نظم میں کسی قسم کا لچر لفظ کہاں استعمال کیا ہے (کیوں اور کس طرح کا سوال تو بعد میں اٹھتا ہے) آپ تو مجھے بہت پیاری، بہت گہری خاتون لگی تھیں Frustratedاور Sick- Figures لوگ ایسے تو نہیں ہوتے۔ہاں جہاں تک Tragedyکا تعلق ہے تو اپنا یہ تاثر میں Ownکرتی ہوں۔دکھ کس کی زندگی میں نہیں ہوتے، فرق یہ ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ ظرف لوگ اسے جھیلنا جانتے ہیں، آنسو کو موتی بنا دیتے ہیں، ہماری طرح اسے رزقِ خاک نہیں ہونے دیتے، لیکن آپ اگر اس بات سے انکاری ہیں تو چلئے یہی سہی۔آپ خوش رہیں، آپ کے عقیدت مندوں کی اس کے سوا دعا ہے بھی کیا ؟ نہیں عینی آپا، جسارت کر رہی ہوں مگر غلط فہمی ہی ہو گی آگر آپ یہ سمجھیں کہ اس قسم کی نظمیں لکھ کر میں اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہوں۔شہرت تو محبت کی طرح روح کی اپنی کمائی ہوتی ہے، کسی نام کی زکوٰۃ نہیں (مولانا الطاف حسین حالی اور جیمس باسویل کبھی میرے آئیڈیل نہیں رہے !) آپ کا کہنا درست ہے کہ ’’اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں ‘‘۔مجھ سمیت کوئی ذی نفس جس کی پہچان حرف ہے، آپ کے قلم کی طاقت سے بے خبر نہیں، بسم اللہ۔ چونکہ آپ نے سوال اٹھا یا ہے اور جواب نہ دینا گستاخی ہو گی لہذا یہ وضاحت مجھ پر لازم ہو گئی ہے کہ میں نے نظم کسی خاص محرک کے تحت نہیں لکھی۔ہندوستان سے واپسی کے بعد جب ذہن سے سفر کی گرد اتری تو سونے کے کچھ ذرات میری سوچ کی انگلیوں پر لگے رہ گئے۔تاج محل، گنگاسے، اے جگ کے رنگ ریز (امیر خسرو) بوئے یا سمین باقیست۔قرۃالعین حیدر اور سلمٰی کرشن۔یہ میری وہ نظمیں ہیں جو اس سفر کا عطیہ ہیں۔رہی میری ذہنیت کے Sickہونے کی بات تو اس کا فیصلہ تو کوئی سائیکاٹرسٹ ہی کر سکتا ہے لیکن اگر آپ حرف کی حرمت پر یقین رکھتی ہیں تو میری بات مان لیجئے کہ ان تمام نظموں میں آپ سمیت کسی شخصیت یا عمارت کو مسخ کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی ہے۔ اب بات آتی ہے میرے اور آپ کے تعلقات کی۔۔۔۔۔۔۔ تو عینی آپا آپ سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ نظم دوبارہ پڑھیں، کہیں بھی نئی یا پرانی کسی دوستی کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔ہم عمر ہونے میں تو تاریخی اور طبعی عوامل بھی حائل ہیں ! وہ ملاقاتیں یقیناً سرسری ہی تھیں اور آپ کے طرز زندگی پر جو قطعی طور پر آپ کا اپنا انتخاب اور اپنا معاملہ ہے طویل اور گہری ملاقاتوں کا اعزاز حاصل کرنے والے بھی فیصلہ صادر کرنے کا حق نہیں رکھتے ! Out of Mind ہونے کے متعلق فیصلہ میں پہلے ہی ایک تیسرے شخص کے ہاتھ میں دے چکی ہوں البتہ ایک بات واضح کرتی چلوں کہ بمبئی اتنا بڑا شہر بہر حال نہیں ہے کہ کراچی کا کوئی رہنے والا وہاں جا کر بوکھلا جائے۔خدا میرے پاکستان کو سلامت رکھے، کبھی فرصت ملے تو ذرا علی سردار جعفری صاحب سے پوچھئے گا کہ آپ کے شہر کے بارے میں میرے تاثرات کیا ہیں نظم کی ناپسند ید گی پر شرمندہ ہوں اور در گز ر کی خواستگار ! میں ذاتی خطوط کی نقلیں مدیران جرائد کو دینے کی قائل نہیں ہوں مگر چونکہ آپ نے لکھا ہے کہ اس خط کی نقل مدیر ’’سیپ ‘‘ کو بھیجی جا رہی ہے لہذا میں نے بھی مجبوراً یہی قدم اٹھایا ہے لیکن اتنا اطمینان رکھیں کہ آپ کی رضامندی کے بغیر یہ خط کہیں شائع نہیں ہو گا۔ کہئیے کیا حکم ہے ؟ ہاں یاد آیا۔یہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں کہ ’’کار جہاں دراز ہے ‘‘ کی رائلٹی یہاں پاکستان میں آپ کے کس رشتہ دار کو دی جائے ؟ امید ہے مزاج بخیر ہوں گے نیازمند پروین شاکر ’’برائے سیپ‘‘ پتہ نہیں پروین شاکر کا یہ خط پڑھ کر قرۃالعین حیدر پر کیا گزری تھی۔ Read the full article
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
کراچی سے الیکشن لڑنے والے 6 پارٹی لیڈر دوسرے حلقوں میں ووٹ ڈالیں گے
شہباز شریف لاہور، عمران خان اسلام آباد اور بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ میں ووٹ ڈالیں گے۔ فوٹو فائل
کراچی: عام انتخابات 2018 کے لیے کراچی سے الیکشن لڑنے والے 6 جماعتوں کے سربراہان اپنے حلقے کے ووٹر نہ ہونے کی وجہ سے کسی اور حلقے میں حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
عام انتخابات میں کراچی کے حلقہ این اے 249 سے الیکشن لڑنے والے مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہباز شریف این اے 130 اور پی پی 159 کے لیے گورنمنٹ جونیئر بوائز ماڈل بوائز ہائی اسکول ماڈل ٹائون لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے، اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے ماڈل بوائز اسکول ڈھوک جیلانی اسلام آباد جانا ہوگا جہاں وہ این اے 53 کے لیے ووٹ ڈالیں گے، وہ کراچی کے حلقہ این اے 243 کے بھی امیدوار ہیں۔
این اے 246 کے امیدوار چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ووٹ کا اندراج گورنمنٹ پرائمری اسکول نمبر 3 نئوں دیرو لاڑکانہ میں ہے اور وہ این اے 200 اور پی ایس 10 کے لیے ووٹ کاسٹ کریں گے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کراچی وسطی کی نشست این اے 255 کے امیدوار ہیں مگر ان کے ووٹ کا اندراج این اے 254 اور پی ایس 126 میں ہے جہاں وہ گورنمنٹ مولانا الطاف حسین حالی اسکول میں حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال این اے 243 اور پی ایس 102 کے لیے ایس ایم پبلک اسکول بلاک 13 گلشن اقبال میں ووٹ ڈالیں گے جبکہ وہ خود این اے 253، پی ایس 124 اور پی ایس 127 کے امیدوار ہیں۔ این اے 253 کے امیدوار اور سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری کو حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے این اے 245 اور پی ایس 106 میں گورنمنٹ بوائز اسکول کلائٹون روڈ کے پولنگ اسٹیشن جانا ہوگا۔
اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید کے ووٹ کا اندراج این اے 20 اور پی کے 48 میں ہے اور انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول بابوزئی ضلع مردان جانا پڑے گا لیکن وہ کراچی کی دو نشستوں این اے 238 اور این اے 250 کے امیدوار ہیں۔
معروف گلوکار جواد نے کراچی کے حلقہ این اے 246 سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور ان کا ووٹ این اے 135 اور پی پی 161 میں سٹی گرامر اسکول، راوی کیمپس جوہر ٹائون کے پولنگ اسٹیشن میں ہے۔ کراچی سے ہی پی ایس پی کی این اے 247 کی امیدوار فوزیہ قصوری کا ووٹ بھی گورنمنٹ پرائمری اسکول سیاں دا کٹھ ضلع ایپٹ آباد میں ہے اور یہ این اے 16 اور پی کے 38 کا پولنگ اسٹیشن ہے۔
مہاجرقومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد کے ووٹ کا اندراج این اے 240 اور پی ایس 94 کے گورنمنٹ بوائز اسکول لانڈھی کے پولنگ اسٹیشن میں درج ہے اور وہ اسی قومی اسمبلی کے حلقے کے امیدوار بھی ہیں اس کے علاوہ انھوں نے این اے 254 سے بھی کاغذات نامزدگی کرارکھے ہیں۔ این اے 245 اور این اے 247 کے امیدوار ڈاکٹر فاروق ستارکا ووٹ اپنے پہلے حلقے کے نیشنل اسکول پی آئی بی میں درج ہے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما اور این اے 243 کی امیدوار شہلا رضا، این کیو ایم کے رہنما اور این اے 239 کے امیدوار سہیل منصور خواجہ، تحریک انصاف کے رہنما اور این اے 249 کے امیدوار فیصل واڈا، ڈپٹی میئر و پی ایس پی کے رہنما اور این اے 254 کے امیدوار ڈاکٹرارشد وہرہ، تحریک انصاف کے رہنما اور این اے 245 کے امیدوار عامر لیاقت اور ایم ایم اے کے ٹکٹ پر این اے 247 سے الیکشن لڑنے والے محمد حسین محنتی کا ووٹ بھی دوسرے حلقوں میں ہے البتہ پی ایس پی کے رہنما ڈاکٹرصغیر اور تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی کا ووٹ اپنے ہی حلقوں میں ہے۔
  (function(d, s, id){ var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) {return;} js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "http://connect.facebook.net/en_US/sdk.js#xfbml=1&version=v2.3&appId=770767426360150"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk')); (function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "http://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v2.7"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post کراچی سے الیکشن لڑنے والے 6 پارٹی لیڈر دوسرے حلقوں میں ووٹ ڈالیں گے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2LGFFfE via Daily Khabrain
0 notes
katarinadreams92 · 6 years
Text
کراچی سے الیکشن لڑنے والے 6 پارٹی لیڈر دوسرے حلقوں میں ووٹ ڈالیں گے
شہباز شریف لاہور، عمران خان اسلام آباد اور بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ میں ووٹ ڈالیں گے۔ فوٹو فائل
کراچی: عام انتخابات 2018 کے لیے کراچی سے الیکشن لڑنے والے 6 جماعتوں کے سربراہان اپنے حلقے کے ووٹر نہ ہونے کی وجہ سے کسی اور حلقے میں حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
عام انتخابات میں کراچی کے حلقہ این اے 249 سے الیکشن لڑنے والے مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہباز شریف این اے 130 اور پی پی 159 کے لیے گورنمنٹ جونیئر بوائز ماڈل بوائز ہائی اسکول ماڈل ٹائون لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے، اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے ماڈل بوائز اسکول ڈھوک جیلانی اسلام آباد جانا ہوگا جہاں وہ این اے 53 کے لیے ووٹ ڈالیں گے، وہ کراچی کے حلقہ این اے 243 کے بھی امیدوار ہیں۔
این اے 246 کے امیدوار چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ووٹ کا اندراج گورنمنٹ پرائمری اسکول نمبر 3 نئوں دیرو لاڑکانہ میں ہے اور وہ این اے 200 اور پی ایس 10 کے لیے ووٹ کاسٹ کریں گے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کراچی وسطی کی نشست این اے 255 کے امیدوار ہیں مگر ان کے ووٹ کا اندراج این اے 254 اور پی ایس 126 میں ہے جہاں وہ گورنمنٹ مولانا الطاف حسین حالی اسکول میں حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال این اے 243 اور پی ایس 102 کے لیے ایس ایم پبلک اسکول بلاک 13 گلشن اقبال میں ووٹ ڈالیں گے جبکہ وہ خود این اے 253، پی ایس 124 اور پی ایس 127 کے امیدوار ہیں۔ این اے 253 کے امیدوار اور سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری کو حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے این اے 245 اور پی ایس 106 میں گورنمنٹ بوائز اسکول کلائٹون روڈ کے پولنگ اسٹیشن جانا ہوگا۔
اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید کے ووٹ کا اندراج این اے 20 اور پی کے 48 میں ہے اور انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول بابوزئی ضلع مردان جانا پڑے گا لیکن وہ کراچی کی دو نشستوں این اے 238 اور این اے 250 کے امیدوار ہیں۔
معروف گلوکار جواد نے کراچی کے حلقہ این اے 246 سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور ان کا ووٹ این اے 135 اور پی پی 161 میں سٹی گرامر اسکول، راوی کیمپس جوہر ٹائون کے پولنگ اسٹیشن میں ہے۔ کراچی سے ہی پی ایس پی کی این اے 247 کی امیدوار فوزیہ قصوری کا ووٹ بھی گورنمنٹ پرائمری اسکول سیاں دا کٹھ ضلع ایپٹ آباد میں ہے اور یہ این اے 16 اور پی کے 38 کا پولنگ اسٹیشن ہے۔
مہاجرقومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد کے ووٹ کا اندراج این اے 240 اور پی ایس 94 کے گورنمنٹ بوائز اسکول لانڈھی کے پولنگ اسٹیشن میں درج ہے اور وہ اسی قومی اسمبلی کے حلقے کے امیدوار بھی ہیں اس کے علاوہ انھوں نے این اے 254 سے بھی کاغذات نامزدگی کرارکھے ہیں۔ این اے 245 اور این اے 247 کے امیدوار ڈاکٹر فاروق ستارکا ووٹ اپنے پہلے حلقے کے نیشنل اسکول پی آئی بی میں درج ہے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما اور این اے 243 کی امیدوار شہلا رضا، این کیو ایم کے رہنما اور این اے 239 کے امیدوار سہیل منصور خواجہ، تحریک انصاف کے رہنما اور این اے 249 کے امیدوار فیصل واڈا، ڈپٹی میئر و پی ایس پی کے رہنما اور این اے 254 کے امیدوار ڈاکٹرارشد وہرہ، تحریک انصاف کے رہنما اور این اے 245 کے امیدوار عامر لیاقت اور ایم ایم اے کے ٹکٹ پر این اے 247 سے الیکشن لڑنے والے محمد حسین محنتی کا ووٹ بھی دوسرے حلقوں میں ہے البتہ پی ایس پی کے رہنما ڈاکٹرصغیر اور تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی کا ووٹ اپنے ہی حلقوں میں ہے۔
  (function(d, s, id){ var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) {return;} js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "http://connect.facebook.net/en_US/sdk.js#xfbml=1&version=v2.3&appId=770767426360150"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk')); (function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "http://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v2.7"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post کراچی سے الیکشن لڑنے والے 6 پارٹی لیڈر دوسرے حلقوں میں ووٹ ڈالیں گے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2LGFFfE via Hindi Khabrain
0 notes