Tumgik
#قوم کے سامنے
akksofficial · 2 years
Text
آخر توشہ خانہ کا پچھلے 20سال کا ریکارڈ کب قوم کے سامنے رکھا جائے گا؟ اسد عمر
آخر توشہ خانہ کا پچھلے 20سال کا ریکارڈ کب قوم کے سامنے رکھا جائے گا؟ اسد عمر
اسلام آباد(نمائندہ عکس)پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے کہا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان دستاویزی ثبوت کے ساتھ جواب پیش کرینگے، ہفتہ کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اسد عمر نے لکھا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان دستاویزی ثبوت کے ساتھ جواب پیش کردینگے، جس کے بعد سب کو نظر آجائے گا کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا،پی ٹی آئی رہنما نے سوال کیا کہ آخر توشہ خانہ کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ��وا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی ��ائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
risingpakistan · 4 months
Text
کیسے اور کس کو ووٹ دینے کا وقت ہے
Tumblr media
پاکستان کے عام انتخابات جن کے بارے میں بہت ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بالا آخر پولنگ کا وقت آہی پہنچا ہے۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے تو انتخابی مہم اختتام پذیر ہوچکی ہو گی۔ اب ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے ساری انتخابی مہم کے بعد کس کو ووٹ دینا ہے۔ اسی طرح انتخابی امیدواروں نے پولنگ ڈے کی تیاری کرنی ہے، ووٹر کو پولنگ اسٹیشن لانے کے انتظامات کرنے ہیں۔ پولنگ ایجنٹ مقرر کرنے ہیں۔ پولنگ کیمپ لگانے ہیں۔ پولنگ ڈے پر کام کرنے والے پارٹی کارکنوں اور انتخابی عملے کو کھانا پہنچانا ہے، سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج اکٹھے کرنے کے لیے اپنے سیل بنانے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز نے الیکشن سیل قائم کر دیے ہیں۔ لوگوں کو چھٹی دے دی گئی ہے تا کہ وہ آرام سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ جن دوستوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ انتخابات نہیں ہوںگے، ان کی شرط ہارنے کا دن قریب آگیا ہے۔ جن دوستوں نے انتخاب ہونے کی شرط لگائی ہوئی تھی ان کے شرط جیتنے کا دن آگیا ہے۔ پاکستان کے انتخابی معرکوں کے نتائج عوام کے لیے خاص دلچسپی کاباعث ہوںگے۔ ایک تجسس تو تحریک انصاف کے آزاد امیدواران کے بارے میں رہے گا کہ ان میں سے کتنے جیتے اور کتنے ہارتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی تجسس ہے کہ جن وکلا کو ٹکٹ دیے گئے تھے، کیا وہ جیت جائیں گے؟ وکلا کو ٹکٹ دینے کی حکمت عملی کتنی کامیاب اور کتنی ناکام رہی ہے۔
بہت دوستوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا یہ وکلا سیٹ نکال لیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ وکلا تو تحریک انصاف کی بہت محفوظ سیٹوں سے کھڑے ہیں، یہ وہ سیٹیں ہیں جو تحریک انصاف گزشتہ دو انتخابات سے جیت رہی ہے۔ وہاں تو وکلا کا کچھ چانس ہے۔ لیکن باقی حلقوں میں مجھے ان کی کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں لگتے۔ مجھے لگتا ہے کہ وکلا کی اکثریت ہار جائے گی۔ سیاسی لوگوں کے جیتنے کا زیادہ چانس لگ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ووٹر کو پاکستان کے نازک حا لات کا اندازہ ہونا چاہیے۔ انھیں پاکستان کے معاشی بحران کا اندازہ ہونا چاہیے۔ پاکستان اس وقت کسی بھی تقسیم اور محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ووٹر کو محاذ آرائی بڑھانے نہیں بلکہ محاذ آرائی ختم کرنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہو گا۔ پاکستان کے ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنا ہو گی کہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں کوئی بحران پیدا نہ ہو بلکہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا ہونی چاہیے۔ اس کو اپنے ووٹ کا استعمال کسی فرد یا جماعت کے حق میں نہیں بلکہ پاکستان کے حق میں استعمال کرنا چاہیے ووٹر کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کسی بھی قسم کا بحران پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بیانیے کے تحت ووٹ دینے کا وقت نہیں۔
Tumblr media
یہ پاکستان کو آنے والی مشکلات سے بچانے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ ذاتی پسند سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی قوم نے اس نازک وقت پر اپنے ووٹ کا درست فیصلہ نہ کیا تو خطرناک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کے معاشی چیلنجز بہت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اس لیے کمزور حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کسی بھی قسم کی مخلوط حکومت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں کسی بھی قسم کا سیاسی عدم استحکام برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے پاکستان کے ووٹر کو ایک مستحکم حکومت کے لیے ووٹ دینا ہو گا۔ انھیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ان کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں مزید تقسیم پیدا نہ ہو۔ بلکہ ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قیام ہو۔ پاکستان اب مزید کسی سیاسی چوں چوں کے مربہ حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ووٹر ز کو کسی ایک جماعت کو پاکستان کی باگ دوڑ دینا ہو گی۔ کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت دینا ہو گی۔ تا کہ وہ بحرانوں سے نبٹنے کے لیے کسی کی محتاج نہ ہو۔
پاکستان اسٹبلشمنٹ اور سیاست کی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے، مل کر چلنے کا ہے۔ میں مقتدر حلقوں کے سیاسی کردار کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ لیکن آج وہ حقیقت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے ان سے لڑائی لڑیں یا پہلے پاکستان کے معاشی مسائل حل کر لیں۔ ایک طرف پاکستان کے معاشی ، معاشرتی اور عوامی مسائل ہیں، دہشت گردی ہے۔ دوسری طرف اسٹبلشمنٹ ہے۔ کیا یہ وقت اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کا ہے یا یہ وقت ملک کے مسائل حل کرنے کا ہے۔ ایک دفعہ ہم نے معاشی مسائل حل کر لیے، لوگوں کے مسائل حل کر لیے پھر اسٹبلشمنٹ سے بھی لڑائی ہو سکتی۔ آپ کہیں گے کہ میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو جائز قرار دینے کی راہ تلاش کر رہا ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کسی بحرانی کیفیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے۔ باقی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے حق میں نہیں ہیں لیکن سب نے ہی ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس لیے نہ تو کسی کا ماضی صاف ہے، اس لیے کسی ایک کو کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ 
پاکستان کے ووٹر پر بہت بھاری ذمے د اری ہے۔ کل کو وہ کسی اور کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر ووٹ دینا ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے ووٹ نہیں دے سکتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تو بس ووٹ دے دیا ہے۔ پاکستان میں تقسیم اور سیاسی بحران پاکستان کے دشمنوں کی خواہش ہے، دشمن بحران چاہتا ہے، دشمن انتشار چاہتا ہے، دشمن لڑائی چاہتا ہے۔ لڑائی ختم کرنے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ یہ کسی فرد کی محبت میں نہیں پاکستان کی محبت میں ووٹ دینے کا وقت ہے، لڑنے والوں کو نہیں صلح کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کام کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ سب کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے کسی کو پہلی باری نہیں دینی ہے۔ سب نے باریاں لے لی ہیں ان کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ووٹ دینے کا وقت ہے۔ مناظروں کے تحت نہیں موازنوں کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کارکردگی کے تقابلی جائزہ کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔
مزمل سہروردی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
discoverislam · 5 months
Text
وسعت رزق
Tumblr media
اس دور میں معاشرے کا تقریباً ہر فرد ہی رزق کی تنگی سے پریشان ہے اور اس کی ساری تگ و دو حصول رزق کے لیے رہ گئی ہے۔ ہم سب رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جدوجہد، محنت اور کوشش پر انحصار کر لیتے ہیں۔ لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت اور برکت کے چند اسباب تحریر کیے جارہے ہیں تاکہ ہمیں وسعت رزق کے لیے اسلام کے راہ نما اصولوں سے آگاہی مل سکے۔ اگر ہم دنیاوی جدوجہد کے ساتھ، اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں، تو ﷲ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ، جو ہر شخص کی خواہش ہے۔
استغفار و توبہ  ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: ’’پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک! وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘ (سورۂ نوح) مفسرین لکھتے ہیں کہ سورۂ نوح کی ان آیات اور سورۂ ہود کی آیات میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے کثرت سے ﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، ﷲ تعالیٰ اس کو ہر غم سے نجات دیں گے، ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔‘‘ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند حاکم)
Tumblr media
تقوی  ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (ہر مشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سورۂ الطلاق)
ﷲ تعالی پر کامل توکل  توکل (بھروسا) کے معنی امام غزالیؒ نے یوں لکھے ہیں: ’’توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔‘‘ (احیاء العلوم) ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ پر بھروسا رکھے، وہ اس کو کافی ہے۔‘‘ (سورۂ الطلاق) رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ’’اگر تم ﷲ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسا کرو جیسا کہ اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ) یاد رکھیں! حصولِ رزق کے لیے کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کو بھی حصول رزق کے لیے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔
عبادت  اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم دن رات مسجد میں بیٹھے رہیں اور حصول رزق کے لیے کوئی کوشش نہ کریں بلکہ ﷲ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے زندگی گزاریں۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر، میں تیرے سینے کو تونگری سے بھر دوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد)
حج اور عمرے  رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’پے در پے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک! یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر (یعنی غریبی اور گناہوں) کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔‘‘ ( ترمذی، نسائی)
صلۂ رحمی  رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہے، اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری) صلۂ رحمی سے رزق میں وسعت اور کشادگی ہوتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق حدیث کی تقریباً ہر مشہور و معروف کتاب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات موجود ہیں۔
انفاق فی سبیل ﷲ  ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور تم لوگ (ﷲ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘ (سورۂ سبا) احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ ﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ملے گا۔ دنیا میں بدلہ مختلف شکلوں میں ملے گا، جس میں ایک شکل رزق کی کشادگی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کی اولاد! تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘ (مسلم) عزیز بھائیو! جس طرح حصولِ رزق کے لیے ہم اپنی ملازمت، کاروبار اور تعلیم و تعلم میں جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، جان و مال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی روشنی میں ذکر کیے گئے اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں تو ﷲ تبارک و تعالیٰ ہماری روزی میں وسعت اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ۔
ﷲ تعالیٰ ہمیں اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی  
0 notes
winyourlife · 5 months
Text
مثبت سوچ کا کامیابی میں کردار
Tumblr media
معاشرہ انفرادی اور اجتماعی رویوں سے تشکیل پاتا ہے، مثبت رویے اور سوچ ہی اچھی، بہترین اور مثالی زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ منفی سوچ اندھیرے کی مانند معاشرے کی ترقی کی راہیں محدود و مسدود کر دیتی ہے۔ جبکہ مثبت سوچ روشنی کے دیئے جلا کر کامیابی کے سفر کو آسان بنا دیتی ہے۔ مثبت سوچ مثبت زندگی کی ترجمان ہوتی ہے، یہ ہم میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت پیدا کرتی ہے۔ دکھ، تکلیفیں، رنج و الم کس کی زندگی میں نہیں ہوتے لیکن ان سب کیفیات میں کیسے اور کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا ہے یہ ہمارا مثبت رویہ ہی ہمیں سکھاتا ہے۔ کامیابی اور مثبت سوچ کا گہرا تعلق ہے، جب بھی ہم اچھا سوچتے ہیں، ہمارا ذہن اسے قبول کرنے لگتا ہے۔ موڈ اچھا اور خوشگوار ہو تو ہم کسی بھی کام یا ذمے داری کو خوشدلی سے نبھانے کےلیے ہر ممکن کوشش یا جتن کرتے ہیں اور جب کوئی کام ہمت اور حوصلے کے ساتھ مثبت انداز میں کیا جائے تو کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ہمارا ذہن ہماری جیت کو پہلے ہی قبول کرچکا ہوتا ہے اور اس جیت کے حصول کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا ہے۔ 
اس کی مثال ایک گھریلو خاتون کی لے لیجئے کہ وہ پوری ذمے داری سے گھر کا کام سرانجام دیتی ہے، حتیٰ کہ کھانا پکاتے وقت بھی مثبت سوچ اور خیالات کھانا بنانے کے عمل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ بددلی سے پکائی گئی ہنڈیا کا بدذائقہ ہونا بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح سے بچے جب امتحانات کے لیے دل لگا کر پڑھائی کرتے ہیں تو رزلٹ میں بھی وہ چیز دکھائی دیتی ہے۔ مثبت سوچ کی تابانی فرد واحد کو ہی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرتی بلکہ پورے معاشرے کو ترقی یافتہ بنا دیتی ہے۔ جب کسی بھی قوم میں مثبت رویے پرورش پاتے ہیں تو پھر اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت کامیابی حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی۔ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتی جب تک کہ وہ خود کوشش اور محنت نہ کرے۔ محنت، کوشش اور مستقل مزاجی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، گویا یہ لازم و ملزوم ہیں۔ محنت، کوشش اور مستقل مزاجی ہمیشہ مثبت سوچ رکھنے والے افراد کا خاصہ ہوتی ہے، جن میں آگے بڑھنے کی لگن ہوتی ہے تو انھیں راستے میں آنے والے تمام تر مصائب معمولی دکھائی دیتے ہیں۔ 
Tumblr media
وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ روشنی کی ایک ہلکی سی لکیر بھی گھٹا ٹوپ اندھیرے کو مٹانے کے لیے کافی ہے۔ جبکہ ایک ناامید شخص، جو یقیناً منفی سوچ کا حامل ہوتا ہے، اس کےلیے ذرا سی مصیبت ایک پہاڑ کی مانند ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کی سوچ ہمیشہ سے ہی محدود ہوتی ہے۔ وہ کنویں کے مینڈک کی طرح ڈرپوک، سست اور کاہل بن جاتا ہے۔ گویا وہ بند گلی کا مسافر ہوتا ہے جو اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کو سدھارنے کے بجائے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر ہی ڈٹا رہتا ہے۔ نہ صرف وہ خود منفی رویوں کو جنم دیتا ہے بلکہ دیگر لوگوں کی سوچ بھی منفی بنا دیتا ہے۔ منفی سوچ رکھنے والے افراد ہمیشہ حالات کی ستم ظریفی، بری قسمت اور ناکامی کا ہی رونا روتے رہتے ہیں۔ مجال ہے جو کبھی شکر گزاری اور رحم دلی کے جذبات ان کے چہرے اور رویوں سے عیاں ہوں، ہر وقت مردم بیزار اور منہ بسورے ہی رہتے ہیں۔ ایسے افراد بہت بڑے نقاد ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ نکتہ چینی کرتے اور لوگوں کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ 
کوئی بھی شخص اچھا کام کر لیتا ہے تو بجائے یہ کہ وہ اس کی حوصلہ افزائی کریں، یہ لوگ تنقید برائے تنقید کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ لوگوں کی زندگیوں کو مایوسی سے بھر دیتے ہیں۔ اگرچہ مثبت سوچ کا مطلب ہر مرتبہ جیتنا نہیں ہوتا، بلکہ تمام تر بشری کمزوریوں کو مدنظر رکھنا بھی ہوتا ہے کہ اگر کبھی کہیں اونچ نیچ ہو گئی، شکست ہو گئی یا توقع کے برخلاف نتائج سامنے آگئے تو اسپورٹس مین اسپرٹ پیدا کی جائے اور ناکامی کو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔ مثبت سوچ اپنے آپ سے محبت کرنا سکھاتی ہے اور اپنے آپ سے محبت کرنے والا انسان مخلوق خدا سے بھی محبت کرتا اور دلی طور پر مطمئن بھی ہوتا ہے۔ مثبت سوچ رکھنے والے افراد خوش رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں۔ خدا پر کامل ایمان، خودشناسی اور اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ نہ صرف انھیں خوداعتماد بناتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک قابل تقلید مثال بنا دیتا ہے دنیا کو آج ایسے ہی پُرامید لوگوں کی ضرورت ہے۔ 
راضیہ سید  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpress · 6 months
Text
کیا پاکستان ہائبرڈ وار کے دور میں داخل ہو چکا ہے؟
Tumblr media
ہائبرڈ نفسیاتی جنگ میں عوام نہیں سمجھ سکتی کہ ملک کا دشمن کون ہے اور دوست کون؟ اس وقت پاکستان کے عوام ہائبرڈ وار لیول کے مدار میں داخل ہو چکے ہیں۔ زمینی حقائق کے مطابق عوام مختلف بیانیے میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ اپنے گھر میں تقسیم، اپنے محلے میں تقسیم، شہر میں تقسیم، ملک کی پارلیمنٹ میں تقسیم، اداروں میں تقسیم، عدلیہ میں تقسیم، ہر جگہ تقسیم۔ یہی ہمارے دشمن کا بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔ قوم کو چاہیے کہ اس انتشار، خلفشار اور تقسیم سے بچیں اور عدلیہ، ریاست کے وسیع تر مفاد میں اپنے فیصلوں میں توازن پیدا کریں۔ سانحہ نو مئی کے شرپسندوں کو عبرت ناک سزا دینے کے لیے عدلیہ، حکومت اور عسکری ادارے کے ساتھ کھڑی ہونی چاہیے۔ حملہ آوروں اور سہولت کاروں پر دہشت گردی کے مقدمات چلانے اور ان کو آئندہ دنوں میں گرفتار کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ جناح ہاؤس اور عسکری تنصیبات پر حملے میں ملوث افراد کی شناخت ہو چکی ہے۔ تصاویر جاری اور 2800 سے زائد گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں اور نادرا کے تعاون سے ان کی مکمل شناخت ملنے کے بعد اخبارات میں ان ’قومی مجرموں‘ کی تصاویر شائع ہو چکی ہیں۔
نو مئی کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ 52 کی دفعہ 59 اور 60 کے تحت مقدمہ درج کروایا جا سکتا ہے اور ان دفعات کے تحت سزائے موت یا کم از کم عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ آرمی ایکٹ 1952 کی کلاز 59 جو 76 صفحات پر مشتمل ہے، سول جرائم سے متعلق ہے۔ عسکری املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں 3500 افراد کے مقدمات آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کا امکان ہے۔ القادر ٹرسٹ کے لیے پنجاب حکومت، ٹرسٹ ایکٹ کے تحت عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو تبدیل کر کے قانون کے مطابق ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کے لیے قانونی ماہرین سے رائے حاصل کر رہی ہے  کیونکہ طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے جلاؤ گھیراؤ اور عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کے لیے نئی روایت کی داغ بیل ڈال کر ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ سیاسی کشمکش نے ملک کو ایک مدت سے جس انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کا دائرہ جس طرح کلیدی ریاستی اداروں تک وسیع ہو گیا ہے، اس کی وجہ سے حالات کی سنگینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
Tumblr media
آئین کی بالادستی کو یقینی بنا کر معاملات کو درست کرنے میں عدلیہ کا ادارہ مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن آج اس کے اندر بھی اختلافات و تقسیم اور جانبداری واضح ہے، جس نے اس کے منصوبوں کو سخت متنازع بنا دیا ہے۔ اس کی روشن مثال عمران خان کی گرفتاری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے اس گرفتاری کو قانونی طور پر جائز قرار دیے جانے کے فیصلہ اور اس پر ملک بھر میں تشدد اور احتجاج کے بعد 11 مئی کو چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے عمران خان کی فوری رہائی اور 12 مئی کو اس معاملے کی ازسرِ نو سماعت کے حکم کی شکل میں ہوا۔ حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ میں ہونے والی اس تمام کارروائی اور اس کے فیصلے کی تفصیل نے آئین و قانون کی باریکیوں کو بخوبی سمجھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کیونکہ جو ملزم ریمانڈ پر ہو تو ریمانڈ کے خاتمے تک اس کوعبوری ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔
قومی سطح پر یہ امید کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے مسلح افواج کے شہدا کی یادگاروں اور جی ایچ کیو سمیت قومی اور عسکری اہمیت کے متعدد مقامات، جناح ہاؤس جو کورکمانڈر کی رہائش گاہ تھی اور سرکاری املاک کو جس طرح تخریب کاری کا نشانہ بنایا ہے، عدالتِ عظمیٰ اس کا نوٹس لے گی۔ لیکن چیف جسٹس آف پاکستان نے ان واقعات پر عمران خان سے محض ندامت کی اپیل کی، جو ان کی طرف سے عملاً مسترد کر دی گئی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق 12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے خلاف دس مقدمات میں غیرمعمولی ریلیف دیا گیا۔ توشہ خانہ جیسا اہم فوجداری مقدمہ جس میں عمران خان پر فردِ جرم عائد ہو رہی تھی، آٹھ جون ��ک حکم امتناع کے علاوہ ��ئندہ کسی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم صادر ہوا۔ حالانکہ قانونِ فوجداری کے مطابق فردِ جرم عائد ہونے پر حکمِ امتناعی جاری نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان نے رہائی کے بعد نہایت غیر ذمے داری کے ساتھ قومی احتساب بیورو کی جانب سے اپنی گرفتاری کا الزام آرمی چیف پر عائد کیا۔ اپنے حامیوں کی تخریب کاری کی مذمت اور اس سے باز رہنے کی ہدایت کے بجائے انہوں نے عملاً اس کی یوں حوصلہ افزائی کی کہ اگر ان کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ایسا ہی ردِعمل دوبارہ سامنے آئے گا۔ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اور ملک کی سلامتی، قانون کی حقیقی بالادستی کے لیے مقتدر حلقوں میں آئین و قانون کے مطابق حل نکالنے کے لیے روڈ میپ تیار کیا جا رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے حالیہ طرزِ عمل اور مس کنڈکٹ کے دائرہ کار کا بھی جائزہ لیتے ہوئے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے حالیہ ایکٹ کے مطابق اہم فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جب عمران خان کو ایک شب کے لیے عدالتِ عظمیٰ کا مہمان بنانے کا فیصلہ ہوا تو ان کے لیے آرام دہ قیام کی خاطر ایوانِ صدر سپریم کورٹ سے ملحق ہونے کے باعث عمران خان کی اولین ترجیح تھی۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت انہیں دوبارہ گرفتار نہیں کر سکے گی اور ایوانِ صدر ایک محفوظ مقام رہے گا، لیکن سپریم کورٹ نے ان کو پولیس لائن کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کی اجازت دی کیونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قریب ہے لیکن ایوانِ صدر سے 20 مہمانوں کا کھانا گیسٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا اور ایوانِ صدر نے ان کی میزبانی کی۔ سپریم کورٹ کے خلاف حکومتی اتحاد نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے ریڈ زون میں دھرنے کا اعلان بھی کیا، تاہم ایک روزہ احتجاج کے بعد اسے ملتوی کر دیا گیا۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا، پاکستان کی تاریخ میں شاید اس سے سیاہ دن نہ آئے، لیکن آرمی چیف کے ضبط اور برداشت نے قوم کو خانہ جنگی کے عذاب سے بچا لیا۔
کنور دلشاد  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
shiningpakistan · 7 months
Text
پی ٹی آئی کے سرپرائز کی صورت میں
Tumblr media
عمران خان کیلئے بہتر ہوتا کہ اپنی زیرعتاب سیاسی جماعت کے مستقبل کو بچانے اور آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے الیکشن لڑنے کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے تحریک انصاف کے اُن سیاستدانوں پر اعتبار کرتے جو فوج مخالف بیانیہ کا کبھی حصہ نہیں رہے۔ لیکن خان صاحب نے ایک طرف تو اپنی جماعت کی سیاست ایسے وکلاء کے حوالے کر دی ہے جو ایک نئی لڑائی لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں اب بھی اُن رہنمائوں کی اکثریت ہے جو انڈرگرائونڈ ہیں اور جنہیں پولیس اور ایجنسیاں گرفتاری کیلئے تلاش کر رہی ہیں۔ اپنی اور اپنی جماعت کی مقبولیت کے زعم میں خان صاحب نے فوج سے ہی ڈائریکٹ ٹکر لے لی اور پھر اُس کے بعد جو ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف تتربتر ہو گئی۔ اس کے کوئی دو ڈھائی سو سابق ممبرانِ اسمبلی اور رہنما پارٹی چھوڑ گئے، نئی سیاسی جماعتیں بن گئی۔ عمران خان سمیت کئی رہنما گرفتار ہو گئے اور کئی انڈر گرائونڈ چلے گئے۔ انتخابات کی تاریخ دے دی گئی لیکن تحریک انصاف کیلئے گھیرا تنگ ہی ہے اور آثار جو نظر آ رہے اُن کے مطابق یہ گھیرا تنگ ہی رہے گا۔ 
تحریک انصاف کو اب بھی یقین ہے کہ اگر بلے کے نشان پر اس کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو چاہے عمران خان جیل میں ہوں یا نااہل بھی کر دیئے جائیں تو انتخابات وہی جیتیں گے۔ حال ہی میں میری گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض ( جو اپوزیشن لیڈر بننے سے پہلے ہی ن لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کر چکے تھے) سے بات ہوئی۔ راجہ ریاض کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے قریب ہیں اور یہی وجہ تھی کہ اُن کی طرف سے موجودہ نگراں وزیراعظم کا نام بھی سامنے آیا اور پی ڈی ایم حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف نےاسے فوراً قبول بھی کر لیا۔ چند ہفتے قبل راجہ ریاض نے وسط فروری میں الیکشن ہونے کی پیشنگوئی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ انتخابات کے دوران عمران خان جیل میں ہی ہوں گے اور بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان بھی نہیں ہو گا۔ اب جب میری راجہ ریاض صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ صورتحال کچھ تبدیل ہو گئی ہے۔ 
Tumblr media
اُن کا کہنا تھا کہ بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر ہو گا لیکن تحریک انصاف کے جو لوگ الیکشن لڑیں گے اُن کی بڑی اکثریت میں نئے چہرے ہوں گے یعنی اُن کے پاس الیکشن لڑنے کا تجربہ نہیں ہو گا، اُن کے پاس الیکشن مہم کیلئے وقت بھی کم ہو گا جبکہ ماضی کے برعکس تحریک انصاف کو الیکشن کیلئے فنڈنگ کی بھی کمی ہو گی۔ راجہ ریاض کے مطابق ان وجوہات کے باعث تحریک انصاف بہت کم سیٹیں جیتے گی۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے بارے میں ایسی ہی حکمت عملی دیکھنے کو ملے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے مطابق بیلٹ پیپر پر اگر بلے کا نشان ہوتا ہے تو تمام تر مشکلات کے باوجود تحریک انصاف الیکشن جیت جائے گی اگر واقعی ایسا ہی ہوتا ہے اور تحریک انصاف انتخابات میں سرپرائز دے دیتی ہے تو کیا پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ سوچا ہے کہ ایسے سرپرائز کے بعد پھر کیا ہو گا۔ خصوصاً ایسی صورتحال میں جب کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ 
جن کو تحریک انصاف کی جیت کا یقین ہے وہ اس نکتہ کے متعلق سوچ بچار ضرور کریں کیوں کہ انتخابات کے بعد پاکستان کسی نئی کھینچا تانی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور 9 مئی کے بعد اگر تحریک انصاف کے اندر کوئی اب بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اپنی مقبولیت کے باعث وہ کوئی نئی لڑائی لڑ کر جیت سکتا ہے تو ایسا مجھے ممکن نظر نہیں آتا اور نہ ہی پاکستان کی قوم بشمول تحریک انصاف کے ووٹرز کی بڑی اکثریت اپنی ہی فوج کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ جولائی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاک فوج کی بحیثیت ادارہ مقبولیت 88 فیصد تھی۔ یہ وہی سروے ہے جس میں عمران خان کو سیاستدانوں میں سب سے زیادہ مقبول دکھایا گیا تھا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 7 months
Text
مودی کے 25 مسلمان متر کون ہیں؟ الیکشن میں کیا کردار ادا کریں گے؟
نفیس انصاری، ایک اسکول کے مسلمان پرنسپل ہیں، انہیں اس سال حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے “مودی متر” یا ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دوست کے طور پر فہرست میں شامل کیا ہے۔ وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے رہائشی نفیس انصاری دوستوں کے گھر شادیوں اور چائے کے سیشن جیسے پروگراموں میں پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے سامنے پارٹی کی تشہیر کرتے ہیں۔ وہ اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ کس طرح بی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduu · 7 months
Text
پیٹرن کو اگر غور سے اسٹڈی کریں تو تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب دہشتگردی کے واقعات بڑھ جائیں، تو سمجھ جائیں پاکستان عن قریب کسی بڑے آپریشن یا جنگ میں جانے والا ہے
ان معاملات کی پلاننگ کئی سال پہلے شروع ہوچکی تھی
عمران خان کی حکومت میں، پی ڈی ایم جماعتوں پر کریک ڈاؤن جاری تھا۔ کرپشن کیسز میں پکڑ دھکڑ جاری تھی۔ ان سے سیاسی اسپیس باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ چھین لی گئی تھی۔ انھیں بتایا جاتا تھا کہ عمران خان، جنرل فیض کے ساتھ مل کر اگلے دس سال کی پلاننگ کرچکا ہے
تحریک چلانے کے لیے پیپلز پارٹی اور ن لیگ تیار نہیں تھے تو فضل الرحمن کو ٹاسک دیا گیا کہ ان جماعتوں کو اکسائے۔
ن لیگ تو کافی حد تک تیار تھی البتہ پیپلز پارٹی زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی۔ انھیں پش کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سرکردہ لوگوں پر کریک ڈاؤن شروع ہوگیا
بالآخر،
پی ڈی ایم جماعتیں عمران خان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد سے رجیم چینج پلان کے لیے تیار ہوگئیں
اسٹیبلشمنٹ نے یہ جال کیسے بنا اور ان کی لانگ ٹرم پلاننگ کیا تھی؟
جیسا کہ کہا کہ عمران خان کے دور حکومت میں، پی ڈی ایم سے ہر طرح کی اسپیس چھینی گئی اور انھیں مستقبل سے ڈرایا گیا
انھیں بھرپور پریشر میں لاکر، دو آپشنز دئیے گئے
1- یوں ہی اقتدار سے باہر بیٹھے، مار کھاتے رہو
2- ہمارا ساتھ دو، عمران خان کو نکالو اور اقتدار میں آجاؤ
لیکن،
اقتدار میں آکر، کسی بھی قسم کی چوں چرا کی قطعی اجازت نہیں ہوگی
ظاہر ہے، پی ڈی ایم نے آپشن 2 کا انتخاب کیا جو قدرتی بات تھی
اپنے دور حکومت میں، تحریک انصاف، پی ڈی ایم پر جاری کریک ڈاؤن کے حوالے سے یہ سمجھتی رہی کہ ریاست نیک نیتی سے کرپشن کے خلاف اقدامات کررہی ہے۔ اسی حماقت میں تحریک انصاف باجوہ کو قوم کا باپ قرار دیتی رہی۔ ان جانے میں اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرتی رہی
تحریک انصاف کو اس بات کا بالکل بھی سیاسی شعور نہیں تھا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ میاں صاحب یا زرداری کی کرپشن نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا مکروہ کھیل ہے
جب کہ اسٹیبلشمنٹ، اپنا لانگ ٹرم کھیل کھیل رہی تھی
پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے مکمل سرنڈر کردیا اور رجیم چینج میں بھرپور رول ادا کیا۔ ن لیگ نے اگلے سیٹ اپ میں کلیدی رول کے عوض لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ لی جو اسے ریاستی سرپرستی میں دی جارہی ہے
کسی نے یہ سوچا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے بدلے، ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کو کیا دے کر آئی ہے؟
ن لیگی دانشور اور ان کے ہمدرد اس احمقانہ تھیوری پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں کہ،
پاکستان تباہ ہوگیا تھا۔ معیشت کا برا حال تھا۔ جرنیلوں کے ہاتھ سے معاملات نکلتے جارہے تھے لہذا اسٹیبلشمنٹ میاں صاحب کے پاؤں پڑی اور کہا کہ ہم عمران خان پراجیکٹ کو رول بیک کررہے ہیں لہذا آپ ہمیں معاف کریں واپس آکر پاکستان "سنبھالیں"
لفظ سنبھالیں بہت اہم ہے
خیر،
اس بدمزہ لطیفے پر تو ہنسی بھی نہیں آتی
میں آپ کو دلیل سے بتاتا ہوں کہ اس لطیفہ نما تھیوری کی اصل اوقات کیا ہے
جیسا کہ اس تھیوری کا سینٹرل نکتہ یہ ہے کہ میاں صاحب، آپ پاکستان کو سنبھالیں
تو آئیے، کچھ زمینی حقائق دیکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ، میاں صاحب کو پاکستان سنبھالنے واسطے تھمانے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے:
- ن لیگ کی حکومت نے، نادرا میں سویلین کی جگہ حاضر سروس افسر لگانے کی راہ ہموار کی
- ن لیگ کی حکومت نے قانون پاس کیا کہ ملک بھر میں سرکاری تعیناتیوں کے لیے ایجنسیوں کی کلئیرنس درکار ہوگی
- ن لیگ کی حکومت میں، قانون پاس کیا گیا کہ کسی کو بھی بناء وارنٹ کے گرفتار کیا جاسکتا ہے
- قانون پاس کرکے، نگراں حکومت کو آئین میں مخصوص کیے ڈومین سے بڑھ کر اختیارات تھما دئیے گئے (سب جانتے ہیں کہ نگراں حکومت کون لگاتا ہے)
- ان کی حکومت کے دوران، پنجاب میں سال بھر سے زیادہ ہوا، صوبائی نگراں حکومت لگی ہوئی ہے جن کی ناک کے نیچے استحکام پارٹی یعنی ق لیگ پارٹ 2 بنائی گئی تاکہ دس بارہ سیٹیں جیت کر، اگلے جمہوری سیٹ اپ کو "اوقات" میں رکھنے کے لیے بلیک میل کیا جاسکے۔ جمہوریت کے گلے پر یہ چھری ن لیگ نے اپنے ہاتھوں سے پھیری ہے
- میاں صاحب کو پاکستان واپسی پر "عام معافی" کے اعلانات کرنے پڑے۔ وہ ابھی تک عام انتخابات کے حوالے سے مکمل خاموش ہیں
- آہستہ آہستہ ہر ادارے میں حاضر سروس افسران بیٹھتے چلے جارہے ہیں اور میاں صاحبان اور ان کے ہمدردوں کی چوں بھی نہیں نکل رہی
یہ ہے "میاں صاحب واپس آئیں اور پاکستان سنبھالیں" کی اصل اوقات
پاکستان کون سنبھال رہا ہے اور روز بروز سنبھالتا چلا جارہا ہے، سب آپ کے سامنے ہے
اصل نکتے پر واپس آتے ہیں،
تو پی ڈی ایم کو اسپیس دینے لیے سب سے بڑی شرط ہی یہی تھی کہ آپ نے اقتدار انجوائے کرنا ہے، پر معاملات کے حوالے سے چوں بھی نہیں کرنی
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم جماعتیں، خاص کر ن لیگ چوں بھی نہیں کررہی
کہیں کہیں آپ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی سمیت چھوٹی جماعتوں جیسے متحدہ وغیرہ کو چوں کرتے دیکھیں گے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف اگلے سیٹ اپ میں، زیادہ سے زیادہ شئیر کے لیے بارگین کرنا ہے، اور بس۔۔۔۔۔۔۔
سویلین بالادستی کا وہ حشر کیا گیا ہے، کہ اب اسے سالوں کے لیے بھول جائیں
میں اس تمام صورتحال میں، تحریک انصاف کو بھی بری الزمہ نہیں سمجھتا۔ اپنے وقت میں انھوں نے بھی بھیانک غلطیاں کرتے ہوئے اس بلا کو قوت پہنچائی تھی
اب سوال یہ ہے کہ یہ سارا چکر چلا کر، تمام سیاسی قوتوں کو کھڈے لائن لگا کر، اسٹیبلشمنٹ کیا کرنا چاہتی ہے؟
اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ دکھاوے کے لیے جمہوری حکومت بن جائے، ایک کٹھ پُتلی وزیراعظم (جس کے لیے نواز شریف کو تیار کیا جارہا ہے) آکر بیٹھ جائے، اور پیچھے یہ اپنا گریٹ گیم کھیلتے رہیں
یہ گریٹ گیم کیا ہے؟
اس کے خدو خال ابھی پوری طرح واضح نہیں۔
لیکن،
ان کی تاریخ دیکھتے ہوئے، اور ماضی کے پیٹرن کو فالو کرتے ہوئے، میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان امریکی جنگ میں کودنے کے لیے ایک بار پھر پر تول رہا ہے
اس کھیل کے نتیجے میں جو آگ لگے گی، اسے بجھانے کی زمہ داری سول حکومت پر ڈالی جائے گی۔ جو کالک اس قوم کے حصے میں آئے گی، اس سے سول حکومت کا منہ کالا کیا جائے گا
بالکل ویسے ہی جیسے 2008 سے 2018 تک ہونے والے ڈرون حملوں کا گند پیپلز پارٹی اور ن لیگ پر ڈالا جاتا رہا
جیسا کہ پوسٹ کے شروع میں کہا کہ دہشتگردی کے سلسلے پوری توانائی سے شروع ہوچکے۔ مغربی بارڈر گرم ہونے لگا ہے۔ افغان حکومت کو سبق سکھانے کے لیے، 17 لاکھ مہاجرین کو پاکستان چھوڑنے کے لیے محض چند دنوں کی ڈیڈ لائن دی گئی
لہذا، جھاڑ پونچھ کر وہی پرانی گریٹ گیم نکالی گئی ہے جو ہم ستر کی دہائی سے کھیلتے آرہے ہیں
عمران خان کے ہوتے اس گریٹ گیم میں جانا بہت مشکل تھا۔ وہ کھلم کھلا اینٹی وار ہے۔ پی ڈی ایم کے ہوتے یہ خاص مشکل نہیں، خاص کر جب انھیں واضح طور پر شٹ اپ کال دے کر چپ کروا دیا گیا ہو
لہذا مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان جلد افغان حکومت یعنی تال بان کے ساتھ وار میں جانے والا ہے
ایک دلچسپ امر کا ذکر کرتا چلوں
آپ 2019 سے 2021 تک دیکھ لیجیے۔ آپ کو بھارت کی ٹاپ لیڈرشپ پاکستان کے خلاف کھلم کھلا بیانات دیتی نظر آئے گی
مودی کا بیان کے گھر میں گھس کر ماریں گے
ان کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے بیانات جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے خلاف پے درپے بیانات مل جائیں گے
پھر 2022 اور اس کے بعد ایسا اچانک کیا ہوا کہ بھارتی لیڈرشپ پاکستان کو اب سیریس تھریٹ ہی نہیں سمجھتی
مودی کا کچھ ہی عرصے پہلے دیا بیان کہ پاکستان اب ہمارا فوکس نہیں۔ وہ خود ہی اپنی موت آپ مر رہا ہے
آپ کو کیا لگتا ہے کہ یکایک بھارت کے رویے میں ایسا بدلاؤ کیوں؟
کیا ہمارے ایف سولہ طیارے چرمرا گئے؟ یا ہمارے میزائلوں کو پھپوند لگ گئی؟ یا ایٹم بم کا تیل نکل گیا؟
میرے پاس اس بڑی تبدیلی کا کوئی واضح جواب نہیں لیکن ایک تھیوری سمجھ میں آتی ہے۔ یہ صحیح ہے یا غلط، اس کا جواب وقت دے گا
تھیوری یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک ساتھ مشرقی اور مغربی بارڈر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ اگر یہ افغانستان والی بارڈر پر وار میں جارہے ہیں، تو انھیں مشرقی بارڈر ٹھنڈا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان کے سب سے طویل بارڈرز ہی یہ دونوں ہیں
مجھے لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے، اندر کھاتے بھارت کو تسلی کروادی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کا اب ارادہ نہیں رکھتے۔ ہم آپ کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نواز شریف کو بھی واپس لارہے ہیں۔
پاکستان اب شاید غیر اعلانیہ طور پر، بھارت کو خطے کا چوکیدار یا بڑا بھائی بھی تسلیم کرلے گا۔ دکھاوے واسطے مشرقی بارڈرز پر ہلکی پھلکی پھلجڑیاں شاید چل جائیں لیکن اب ہم بھارت کے لیے بڑا خطرہ نہ بننے کی یقین دہانی کروا چکے ہیں
آپ نے حالیہ کچھ عرصے میں، پاکستان میں موجود کشمیر اور خالصتان تحریک کی اہم لیڈرشپ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنتے دیکھا ہوگا۔ ساتھ نواز شریف نے اپنے جلسے میں بھی بھارت سے دوستی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے
یہ سب اسی پلان کا حصہ ہے
تاکہ،
پورے فوکس کے ساتھ، مغربی بارڈر پر وہی پرانا کھیل کھیلا جاسکے جس میں ایک طرف خون اور دوسری طرف ڈالرز ہوتے ہیں
پاکستان کے پاس اس بلا سے نبٹنے کا اب یہی آپشن بچا ہے کہ سیاسی جماعتیں، خواہ آپس میں جس قدر لڑیں مریں پر وہ سب مل کر، کسی بھی پرائی جنگ میں حصہ بننے سے انکار کردیں ورنہ بہت سے معصوموں کا (خاص کر پختونوں کا) پھر سے خون بہے گا
نواز شریف کٹھ پُتلی بن کر وزیراعظم نصب ہونے سے انکار کردے۔ تمام جماعتیں جمہوری و سیاسی طریقے سے الیکشنز میں حصہ لیں
کیا سیاسی جماعتیں اس میچیوریٹی کا مظاہرہ کرپائیں گی؟
شاید نہیں۔۔۔۔۔۔!!!!
.
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
عمران سمیت سب رہنماؤں کے لئے دلی دُعا
Tumblr media
پہلے تو میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں۔ اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ میں اُردو کے سب سے بڑے اخبار میں اپنے دل کی باتیں کر سکوں۔ دنیا بھر میں لاکھوں پڑھنے والے پاکستان کے کونے کونے میں میرے الفاظ کے مطالعے کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالتے ہیں۔ کیا میں ان کے علم میں کوئی اضافہ کرتا ہوں۔ سات دہائیوں سے مجھے خدائے بزرگ برتر نے حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھنے ان کے ساتھ سفر کرنے کی سہولتیں دی ہیں۔ میں نے ان کی حاشیہ برداری کی ہے یا ان کے سامنے کلمۂ حق کہا ہے۔ تاریخ میرے کان میں کہہ رہی ہے۔ آج 14 مئی ہے۔ اگر اس سر زمین میں آئین کی پاسداری ہو رہی ہوتی۔ عدالتِ عظمیٰ کے قوانین کو حکمران تسلیم کر رہے ہوتے تو آج پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا دن تھا۔ انتخابات ٹالنے کے لئےانتخابات کروانے والوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کہا گیا کہ 14 مئی کو سیکورٹی نہیں دے سکتے کیونکہ فورسز سرحدوں پر مصروف ہیں۔ مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ فورسز 14 مئی کو پنجاب میں موجود ہیں۔ الیکشن کے انعقاد کے مثبت اقدام کے لئے نہیں۔ بلکہ الیکشن پر اصرار کرنے والوں کی تادیب کے لئے۔ 9 مئی کو انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے یوم سیاہ قرار دیا ہے۔ 70 سال سے اوپر کے میرے ہم عصروں نے کتنے سیاہ دن دیکھے ہیں۔
16 دسمبر 1971 سب کیلئے یوم سیاہ۔ پھر کسی کیلئے 4 اپریل 1979۔ کسی کیلئے 17 اگست 1988۔ کسی کیلئے 12 اکتوبر 1999۔ کسی کیلئے 26 اگست 2006۔ کسی کیلئے 27 دسمبر2007۔ جن سر زمینوں میں آئین کو بار بار سرد خانے میں ڈالا جائے۔ جہاں آمروں کے منہ سے نکلے الفاظ ہی قانون ہوں۔ جہاں اپنے اپنے علاقوں میں سرداروں۔ جاگیرداروں۔ مافیا چیفوں کا راج ہو۔ وہاں مختلف خاندانوں کے لئے مختلف دن سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آج اتوار ہے۔ میں نادم ہوں کہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کو ایسے ایسے بھیانک مناظر دیکھنا پڑ رہے ہیں جو وہ تاریخ کے اوراق میں چنگیز۔ ہلاکوخان اور دوسرے سفاک جابروں کے دَور میں پڑھتے رہے ہیں۔ میں تو اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔ مگر جن کے حکم پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ خبر نہیں کہ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کے سامنے سر بلند کر کے کھڑے ہوتے ہیں یا سر جھکا کے۔ عورتوں کو بال پکڑ کر گھسیٹا جارہا ہے۔ بزرگوں کو ڈنڈا ڈولی کیا جارہا ہے۔ ہانکا لگا کر شکار کیا جارہا ہے۔ ایمبولینسوں کو جلایا جا رہا ہے ۔ سرکاری عمارتوں میں گھس کر آگ لگائی جارہی ہے۔ 
Tumblr media
بہت ہی حساس رہائش گاہیں اور ہیڈ کوارٹرز کسی محافظ کے بغیر چھوڑے جارہے ہیں۔ ہجوم ان میں بلاک روک ٹوک داخل ہو رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پولیس حکومت کے سیاسی مخالفین کی رہائش گاہوں میں گھس کر بلوائیوں کی طرح شکست وریخت کر رہی ہے۔ قوم ۔ میڈیا تقسیم ہو چکے ہیں۔ من حیث القوم۔ اس افراتفری کو نہیں دیکھا جارہا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے۔ حکومت وقت جو معیشت کے سامنے بازی ہار چکی ہے۔ جو افراط زر کے آگے ناکہ نہیں لگا سکی۔ جو اپنے قائد اعظم کی تصویر والی کرنسی کو کافروں کی تصویروں والی کرنسی کے سامنے عاجز ہونے سے نہیں روک سکی۔ وہ ملک کے استحکام کے لئے کوئی تدبیر نہیں کر سکی۔ جس کے وزراء کو ایسے ہنگامی حالات میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے بیٹھنے۔ عدلیہ کو بے نقط سنانے اور اپنے سیاسی مخالف کو فتنہ ۔غیر ضروری عنصر۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر قیامتیں برپا ہیں۔ تاریخ کے شرمناک مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ ملک کو مزید جلائو گھیرائو۔ نوجوانوں کی ہلاکتوں سے بچانے کے لئے سب سے بڑی عدالت کو اسی قیدی کو روبرو بلانا پڑتا ہے۔ 
جس کی گرفتاری پر ادارے۔ حکمراں بہت مطمئن تھے۔ قاضی القضاۃ کو کہنا پڑا کہ آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس ایک جملے کے بہت معانی ہیں۔ بہت سے اداروں اور بہت سے لوگوں کے لئے اس ایک جملے میں بہت اشارے اور بہت انتباہ بھی ہیں۔ آگے کیا ہونا ہے۔ ستارے تو بہت خوفناک پیشنگوئیاں کررہے ہیں۔ میں تو اللہ تعالیٰ سے اس شخصیت کے لئے دعائیں مانگوں گا کہ جس کو سامنے لا کر احتجاج کرنے والوں سے اپیل کروانا پڑی کہ وہ پُر امن رہیں۔ املاک کو تباہ نہ کریں۔ میں پورے خشوع و خضوع سے قادرمطلق سے التجا کر رہا ہوں کہ اگر ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ملک میں امن۔ استحکام نہ صدر مملکت کے ہاتھ میں ہے۔ نہ وزیر اعظم کے۔ نہ کسی وزیر اعلیٰ کے بلکہ ایک اپوزیشن لیڈر کے بس میں ہے۔ جس کے خلاف ایک سو سے کہیں زیادہ مقدمات مختلف شہروں۔ مختلف تعزیرات کے تحت دائر کر دیے گئے ہیں۔ تو ہم اپنے پروردگار اپنے معبود۔ اپنے قدیر۔ کبیر سے گڑ گڑا کر درخواست کریں کہ اے سارے جہانوں کے مالک۔ عمران خان کو تدبر۔ بصیرت اور وژن عطا کر کہ وہ قوم کو استحکام کی منزل کی طرف لے جائے۔ اسے اس ادراک کی تقویت دے کہ وہ مستقبل کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کر سکے۔ 
اس عظیم مملکت میں معیشت کے سنبھلنے میں اپنی سیاسی طاقت سے کام لے سکے۔ اس وقت اس خطّے میں بڑی سازشیں ہو رہی ہیں۔ منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی بھی کوششیں ہیں کہ پاکستانی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہیں۔ صوبوں کے درمیان کشمکش رہے۔ سوشل میڈیا پر ان سازشوں کے مظاہر بھی درج ہو رہے ہیں۔ لسانی۔ نسلی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جارہی ہے تو ہم اس الرحمن الرحیم سے التماس کریں کہ اب جب اس ایک شخص کی آواز پر نوجوان جگہ جگہ شہر شہرسڑکوں پر نکل آتے ہیں تو اس کے ذہن کو ایسی تقویت دے ۔ ایسی روشنی دے کہ وہ اس عظیم مملکت کے بانی اور بر صغیر کے بے مثال رہبر قائد اعظم کے افکار پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے نوجوانوں کو تیار کرے۔ ملک میں صرف احتجاج کے لئے اپیل نہ کرے۔ بلکہ آئندہ دس پندرہ برس کا ایک لائحہ عمل دے۔ اس ایک سال میں خواب بہت بکھر چکے۔ آرزوئیں خاک ہو چکیں۔ معیشت ریزہ ریزہ ہو چکی۔ اقوام عالم میں پاکستان بے وقعت ہو چکا ہے۔ اے الملک۔ اے الرافع۔ اے الغنی۔ اے الوارث۔ الباقی۔ یہ 22 کروڑ تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمارے منصفوں کو۔ سالاروں کو۔ حکمرانوں کو یہ ہدایت دے کہ وہ صرف ایسی راہ پر چلیں۔ جس پر تیری نعمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان راہوں کو چھوڑ دیں۔ جس پر تیرا غضب اترتا ہے۔ ہمارے سب رہنمائوں بالخصوص عمران خان کو یہ استطاعت دے کہ وہ صرف ملک کے لئے سوچیں۔ اسے بحرانوں سے نکالیں۔ آمین۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
احتساب کے معاملات قوم کے سامنے ہیں، شاہد خاقان
احتساب کے معاملات قوم کے سامنے ہیں، شاہد خاقان
اسلام آ باد (نمائندہ عکس ) مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ احتساب کے معاملات قوم کے سامنے ہیں، سابقہ چیئرمین صاحب بھاگتے پھر رہے ہیں، اب احتساب ان کا بھی ہو گا، آئی او نے گواہ کا بیان بدلا ،عوام کو عمران خان کی کرپشن کا پتا لگے گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عمران خان نے 8 سال میں ایک دستاویز بھی پیش نہیں کی، پی ٹی آئی میں بیرون ممالک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 4 months
Text
فلاحی، فاشسٹ، ہائبرڈ اور چھچھوری ریاست کا فرق
Tumblr media
فلاحی ریاست کا مطلب ہے وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد ہر طبقے کو نسل و رنگ و علاقے و عقیدے و جنس کی تمیز کے بغیر بنیادی حقوق اور مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ وہ اپنی انفرادی و ��جتماعی اہلیت کے مطابق بلا جبر و خوف و خطر مادی و ذہنی ترقی کر سکے۔ فلاحی ریاست کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد پہلے سے مراعات یافتہ طبقات اپنے سے کمزوروں کے بنیادی حقوق اور مساوی مواقع فراہم کرنے والے راستے پامال کرتے ہوئے محض اپنے تحفظ اور فلاح پر دھیان دیں اور نہ صرف اپنا حال بلکہ اپنی نسلوں کا سیاسی، سماجی و معاشی مستقبل ریاستی و سائل و مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے محفوظ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ایک گروہ، ادارہ یا تنظیم اندھی قوم پرستی کا جھنڈا بلند کر کے اقلیتی گروہوں، نسلوں اور تنظیموں کو اکثریت کے بوجھ تلے دبا کے اس اکثریت کو بھی اپنا نظریاتی، معاشی و سماجی غلام بنانے کے باوجود یہ تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو کہ ہم سب سے برتر مخلوق ہیں لہذا ہمیں کم تروں پر آسمانوں کی جانب سے حاکم مقرر کیا گیا ہے۔ وقت کی امامت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جہاں ہم کھڑے ہوں گے لائن وہیں سے شروع ہو گی۔ ہمارا حکم ہی قانون ہے۔ جو نہ مانے وہ غدار ہے۔
فاشسٹ ریاست کے قیام کے لیے جو لیڈر شپ درکار ہے اسے مکمل سفاکی کے ساتھ سماج کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے فطین دماغوں کی ضرورت ہے جو تاریخ اور جغرافیے کی سچائیوں اور سماجی حقائق کو جھوٹ کے سنہری قالب میں ڈھال کے بطور سچ بیچ سکیں۔ فاشسٹ ریاست قائم رکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے ضروری ڈسپلن، یکسوئی اور نظریے سے غیر مشروط وفادار کارکنوں و فدائین کی ضرورت ہوتی ہے جو اس مشن کو مقدس مشن کی طرح پورا کر سکیں اور اپنی انفرادی زندگیوں کو اجتماعی ہدف کے حصول کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست محض فاشسٹ بننے کے شوق سے یا موقع پرستوں کے ہاتھوں تشکیل نہیں پا سکتی۔ اس کے لیے مسلسل مستعد رہنے کے ساتھ ساتھ انتھک محنت اور لومڑ و گرگٹ کی صفات سے مالامال مرکزی و زیلی قیادت درکار ہے۔ دلال ریاست وہ کہلاتی ہے جو اپنے جغرافیے اور افرادی قوت و صلاحیت کو بطور جنس دیکھے اور انا و غیرت و ثابت قدمی و اصول پسندی جیسی فضول اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے رویے میں اتنی لچک دار اور اس رویے کی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ میں اتنی ماہر ہو کہ ہر کوئی اسے اپنی ضرورت سمجھ کے خریدنا یا حسبِ ضرورت دہاڑی، ماہانہ، سالانہ کرائے پر لینا یا کسی خاص اسائنمنٹ کا کنٹریکٹ کر کے استعمال کرنا چاہے۔
Tumblr media
لیفٹ رائٹ کے سب ممالک اور بین الاقوامی ادارے اور اتحاد دلال ریاست کو اپنے کام کی شے سمجھیں اور وہ اپنے متمول گاہکوں کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت بھی خوش اسلوبی سے پوری کرنے کی کوشش کرے اور اس کے عوض اپنے تحفظ کی ضمانت، داد و تحسین اور ’ویل‘ سے جھولی بھرتی رہے۔ خود بھی ہر طرح کے حالات میں خوش اور مست رہے اور گاہکوں کو بھی خوش رکھے۔ ہائبرڈ ریاست دراصل ریاست کے روپ میں ایک ایسی لیبارٹری ہوتی ہے جہاں ہر طرح کے سیاسی ، سماجی، معاشی و سٹرٹیجک تجربات کی سہولت میسر ہو۔ یہ تجربات جانوروں پر ہوں یا انسانوں پر۔ اس سے ریاست کے پروپرائٹرز کو کوئی مطلب نہیں۔ بس انھیں اس لیبارٹری سے اتنی آمدن ہونی چاہیے کہ خرچہ پانی چلتا رہے۔ صرف اتنی پابندی ہوتی ہے کہ کوئی ایسا خطرناک تجربہ نہ کر لے کہ لیب ہی بھک سے اڑ جائے۔ باقی سب جائز اور مباح ہے۔ ایک چھچوری ریاست بھی ہوتی ہے۔ جو تھوڑی سی فاشسٹ زرا سی جمہوری، قدرے دلال صفت، کچھ کچھ نرم خو، غیرت و حمیت کو خاطر میں لانے والی چھٹانک بھر صفات کا ملغوبہ ہوتی ہے۔ 
تن و توش ایک بالغ ریاست جتنا ہی ہوتا ہے۔ مگر حرکتیں بچگانہ ہوتی ہیں۔ مثلاً چلتے چلتے اڑنگا لگا دینا، اچھے خاصے رواں میچ کے دوران کھیلتے کھیلتے وکٹیں اکھاڑ کے بھاگ جانا، راہ چلتے سے بلاوجہ یا کسی معمولی وجہ کے سبب بھڑ جانا، چھوٹے سے واقعہ کو واویلا مچا کے غیر معمولی دکھانے کوشش کرنا اور کسی غیر معمولی واقعہ کو بالکل عام سا سمجھ کے نظر انداز کر دینا، کسی طاقت ور کا غصہ کسی کمزور پر نکال دینا۔ لاغر کو ایویں ای ٹھڈا مار دینا اور پہلوان کو تھپڑ ٹکا کے معافی مانگ لینا۔ اچانک سے یا بے وقت بڑھکیں مارنے لگنا اور جوابی بڑھک سن کر چپ ہو جانا یا یہ کہہ کے پنڈ چھڑانے کی کوشش کرنا کہ ’پائی جان میں تے مذاق کر رہیا سی۔ تسی تے سدھے ہی ہو گئے ہو۔‘ جب کسی فرد، نسل ، قومیت ، گروہ یا ادارے کو مدد اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہو تو اس سے بیگانہ ہو جانا اور جب ضرورت نہ ہو تو مہربان ہونے کی اداکاری کرنا۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی بدمعاشی کا شوق رکھنا مگر تگڑا سامنے آ جائے تو اس سے نپٹنے کے لیے اپنے بچوں یا شاگردوں کو آگے کر دینا یا آس پاس کے معززین کو بیچ میں ڈال کے معاملہ رفع دفع کروا لینا۔
اپنے ہی بچوں کا کھانا چرا لینا اور گالیاں کھانے کے بعد بچا کچھا واپس کر دینا۔ سو جوتے کھانا ہیں یا سو پیاز اسی شش و پنج میں مبتلا رہنا۔ اکثر عالمِ جذب میں اپنے ہی سر پر اپنا ہی ڈنڈہ بجا دینا اور گومڑ پڑنے کی صورت میں تیرے میرے سے پوچھتے پھرنا کہ میرے سر پے ڈنڈہ کس نے مارا۔ جہاں دلیل سے مسئلہ حل ہو سکتا ہو وہاں سوٹا گھما دینا اور جہاں سوٹے کی ضرورت ہو وہاں تاویلات کو ڈھال بنا لینا۔ ان سب کے باوجود اپنے تئیں خود کو ذہین ترین اور چالاک سمجھتے رہنا۔چھچھوری ریاست خود بھی نہیں جانتی کہ اگلے لمحے اس سے کیا سرزد ہونے والا ہے۔ چنانچہ ایسی ریاست پر نہ رعایا کو اعتبار ہوتا ہے اور نہ گلوبل ولیج سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہو جاتی ہے جو مادے کی ہوتی ہے۔ یعنی سائنسی تعریف کے اعتبار سے مادہ اس عنصر کو کہتے ہیں جو بس جگہ گھیرتا ہو اور وزن رکھتا ہو۔ ہم ان مندرجہ بالا ریاستوں میں سے کس طرح کی ریاست کے مکین ہیں۔ یہ آپ جانیں اور آپ کو ہنکانے اور چلانے والے یا پھر الیکٹڈ و سلیکٹڈ جانیں۔ میرے جیسا ہومیو پیتھک آدمی کیا جانے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
forgottengenius · 1 year
Text
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
Tumblr media
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے آخری چند برس بظاہر ایک خاموشی، بدگمانی، فرسٹریشن، مایوسی اور ناقدری کے احساس کے آئینہ دار ہیں اور یہ احساس کچھ ایساغلط، بے جا یا فرضی بھی نہیں لیکن جو لوگ اُن کے قریب یا اُن سے رابطے میں رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کبھی ربِ کریم کی رحمت سے مایوس اور اُس کے بندوں کی محبت سے محروم نہیں ہوئے۔ دراصل اُن کا کام ہی اتنا بڑا، غیر معمولی اور شاندار تھا کہ اُس نے دنیا بھر کے حاکم سیاسی طبقوں اور اپنے تکبر میں ڈوبے ہوئے ہمسایہ ملک کے جارحانہ عزائم کو ایک ایسا شدید اور غیر متوقع جھٹکا دیا کہ تب سے اب تک ہر دو قوتیں غصے اور انتقام کی آگ میں جل تو رہی ہیں لیکن پاکستان کو حربی قوت کے زور پر اپنے قابو یا رعب میں رکھنا اب اُن کے لیے ممکن نہیں رہا، سو اَب سرمایہ بنیاد معیشتیں جہاں ہمیں معاشی طور پر کمزور اور اپنا تابعدار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں بھارت یہ کام سازش، بد امنی اور تخریبی کارروائیوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان بھی شائد بہت سے دیگر ہنرمند اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل پاکستانی تارکینِ وطن کی طرح ایک بظاہر کامیاب آسودہ اورمتمول زندگی گزار کر وہیں کہیں کسی مغربی سرزمین میں آسودہ خاک ہو جاتے مگر دو باتوں (و یقینا تقدیر کا مدعا بھی تھیں) نے ایسا نہیں ہونے دیا، ایک تو اُن کی وہ طبیعت، افتاد و طبع اور اپنے اختیار کردہ ملک پاکستان اس کی حفاظت اور ترقی سے محبت تھی اور دوسری 1974 میں بھارت کی طرف سے کیے گئے وہ ایٹمی دھماکے جن کے متوقع اثرات کی سنگینی نے ہالینڈ کی کسی سائنس لیبارٹری میں کام کرتی ہوئی ایک خوبصورت اور محبِ وطن رُوح کو بے چین کر دیا جسے دنیا ایک عام سے سائنس کے طالب علم کے طور پر جانتی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے بنیادی طور پر ایک نیوکلیئر سائنس دان نہ ہونے کے باوجود بھی اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے خود رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ ہم جوابی طور پر اور اپنی مدافعت اور حفاظت کے لیے کس طرح سے ایسی جوہری قابلیت حاصل کرسکتے ہیں۔ 
Tumblr media
اب یہاں داد بھٹو مرحوم کے لیے بھی بنتی ہے کہ انھوں نے نہ صرف اس معاملے کی سنگینی، جواب کی ضرورت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیت اور خلوص کو سمجھا بلکہ عملی طور پر اس مشن کے آغاز کے لیے نہ صرف ڈاکٹر صاحب کو وہاں سے بلوایا بلکہ انھیں اور ان کی ٹیم کو ایسے وسائل بھی مستقل طور پر مہیا کیے جن کی فراہمی اُن حالات میں ناممکن حد تک مشکل تھی اور پھر ڈاکٹر صاحب ہی کے بیان کے مطابق جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحق خان نے بھی نہ صرف اس پالیسی کو جاری رکھا بلکہ ہر طرح کے دباؤ کو سہتے ہوئے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹری کے کام کو اوّلین ترجیح دی۔ اب 28 مئی 1998 کے جوابی دھماکوں کے فیصلے اور عمل کے درمیان کیا کچھ ہُوا اس کی تفصیل میں جائے بغیر اور بھارت کے فطری ردعمل کی کیفیات اور تفصیلات میں اُلجھے بغیر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے فوراً بعد ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے دھماکے کے کریڈٹ کے ضمن میں سیاستدانوں کے رویے پر ناراضی کا اظہار سامنے آیا اور دوسری طرف بڑی عالمی قوتوں کی طرف سے حیرت اور بے یقینی کے فوری تاثر کے بعد اس کی مخالفت میں بیانات آنے شروع ہو گئے۔
9/11 کے پس منظر اور ڈاکٹر صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان دونوں باتوں نے ایک نیا اور بے حد تکلیف دہ رُخ اختیار کر لیا جس کے نتیجے میں جنرل مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر صاحب کو امریکا کے بے حد اصرار کے باوجود اس کے حوالے تو نہیں کیا گیا مگر طرح طرح کے الزامات، معافی ناموں اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے انھیں کئی برس ایک طرح کی نظر بندی میں رہنا پڑا جو یقیناً ایک ایسے شخص کے لیے جو محسنِ پاکستان بھی کہلاتا ہو اور جس نے اپنی ساری زندگی اپنی قوم کو محفوظ اور باوقار رکھنے میں صَر ف کر دی ہو ایک بہت تکلیف دہ صورتِ حال تھی۔ ذاتی طور پر مجھے اُن سے ملنے اور اُن سے بات چیت کرنے کے مواقعے دونوں طرح کے حالات میں حاصل رہے ہیں کہ میری اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات ایٹمی دھماکے سے کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی اور پھر یہ سلسلہ وقفوں سے ہی سہی مگر کبھی منقطع نہیں ہوا کہ وہ سائنس دان تو بڑے تھے ہی شعر و ادب سے بھی اُن کی واقفیت نہ صرف بہت گہری اور عمدہ تھی بلکہ عام میل جول میں وہ بے حد دلچسپ، خوش دل، خوش مذاق اور Down to Earth انسان تھے اور پھر آخر ی عمر میں انھوں نے کالم نگاری کے ذریعے اپنے مطالعے ، مشاہدے ، تجزیے ، ادبی ذوق اور اپنی فہم کا جو مرقعّ ہمارے سامنے پیش کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے وہ بہت سادہ، سچے، مخلص اور قدرے جذباتی مزاج کے حامل تھے۔
اب جہاں تک اُن کی سادگی، سچائی اور خلوص کا تعلق ہے وہ تو بیشتر سائنس دانوں کی مشترکہ خوبی رہی ہے مگر زندگی، فنونِ لطیفہ سے محبت اور جذباتیت وہ اوصاف ہیں جو یقیناً اپنی برادری سے انھیں ممیز اور ممتاز کرتے ہیں بلاشبہ وہ کچھ عمائدینِ سلطنت اور اُن کے حواریوں سے نالاں تھے مگر اُن میں سے بھی کسی کی نیکی توجہ یا اچھے کام کی تحسین میں وہ بخل سے کام نہیں لیتے تھے انھیں احسان فراموشی سے چِڑ تھی چنانچہ اس حوالے سے وہ بعض اوقات بہت سخت باتیں بھی کر جاتے تھے لیکن جہاں تک پاکستانی عوام اور عام انسانی ضمیر کا تعلق ہے۔ اُس کے لیے میں نے کبھی اُن کے منہ سے کوئی شکایتی لفظ نہیں سُنا۔ چند برس قبل ایک محفل میں اُن کے کچھ احباب نے بتایا کہ وہ آج کل ایک عوامی اسپتال کے قیام کے لیے بھی بہت محنت اور سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں کہ خیر کے کاموں کے لیے وہ ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مجھ سے اپنے اس اسپتال کے لیے اُسی طرح کا ایک ترانہ نما گیت لکھنے کی فرمائش کی جسے میں اس سے قبل ’’الخدمت ‘‘ اور ’’اخوت‘‘ کے لیے لکھ چکا تھا مجھے خوشی ہے کہ مجھے اس کی تعمیل کا موقع ملا اور مزید خوشی اس بات کی ہے کہ انھوں نے اسے پسند بھی کیا۔
اُن کی نماز جنازہ اور تدفین کے مناظر اور خبریں دیکھنے اور حکومتِ وقت کی طرف سے اُنہیں قومی اعزاز اور احترام کے ساتھ دفنانے کے اعلانات ��ننے اور ان پر عمل کی مختلف صورتیں دیکھنے اور عوام کا جوش و خروش اور ہر طرح کے میڈیا پر اُن کے لیے دعاؤں اور کلماتِ خیر کا ہجوم دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اُن کی رُوح پر سے اُس ناقدری اور احسان فراموشی کے گِلوں کا بوجھ اُتر گیا ہو گا جسے انھیں اپنی عمر کے آخری برسوں میں اُٹھانا پڑا اور بلاشبہ عوام کی یہ محبت اُن تمام سرکاری اعزازت پر بھاری ہے جو انھیں بار بار ملے کہ یہ محبت مستقل اور پائیدار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد گہری اور مضبوط بھی ہے اور مجھ سمیت وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جنھیں اُن سے ملنے، باتیں کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
امجد اسلام امجد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 5 months
Text
انتخابات کے بعد رولا ہی رولا
Tumblr media
8 فروری کے انتخابات سے امید تو یہ تھی کہ سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف ایک اہم قدم ہو گا لیکن معاملہ تو کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ رائے عام سننے میں مل رہی ہے کہ جن حالات میں اور جس انداز میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں اُس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور اگر سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے تو اُس سے معاشی عدم استحکام بھی بڑھے گا۔ اس وقت ہمارے سامنے انتخابات کے حوالے سے دو صورتیں نظر آ رہی ہیں۔ اگر انتخابات صاف شفاف انداز میں کروائے جاتے ہیں تو ممکنہ طور پر 9 مئی والے اقتدار میں آ جائیں گے اور اگر انتخابات موجودہ انداز میں ’’آزادانہ‘‘ کروائے جاتے ہیں تو شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ انجینئرڈ انتخابات ہوں گے، جس میں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا جائے گا ۔ 9 مئی والے کون ہیں؟ اُنہوں نے کس پر حملہ کیا تھا؟ وہ کیسا اور کس کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے؟ وہ کس ادارے کو اپریل 2022 سے، جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، اپنے نشانہ پر رکھے ہوئے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سب کو معلوم ہیں۔ 
تحریک انصاف کےچیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ اُن کی جماعت کی قیادت کا فیصلہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ کسی سے نہ کوئی انتقام لیں گے نہ ہی کسی ادارے سے لڑائی لڑیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کا بھی یہی فیصلہ ہو لیکن تحریک انصاف کے انتخابات جیتنے کی صورت میں فوری طور پر پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کیا ٹرینڈ چلائے گا؟ کس کس کو نشانے پر رکھے گا؟ نئی حکومت سے کیا مطالبے کرے گا؟ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کیا تحریک انصاف اور عمران خان کو اُن کا فوج اور فوج کی قیادت سے متعلق ماضی کا ایک ایک بیان اور الزام یاد نہیں دلائیں گے؟ اس سب کے ملک کے سیاسی و معاشی حالات پر کیا اثرات ہوں گے۔ اگر عمران خان واقعی بدل گئے ہوں اور تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی اداروں سے نفرت ختم بھی ہو گئی ہو تو دوسری طرف جن پر 9 مئی کے حملے ہوئے کیا وہ 9 مئی کو بھلا دیں گے؟
Tumblr media
کیا وہ فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں اور جن کو وہ منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ کہتے ہیں، اُن سب کو گلے لگا لیں گے؟ یہ وہ معاملہ ہے جس پربہت پہلے سوچ بچار ہونی چاہیے تھی، 9 مئی میں ملوث افراد اور باقی تحریک انصاف کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچی جانی چاہیے تھی، معافی تلافی کے رستے نکالنے چاہیے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور اب جن حالات کا ہمیں سامنا ہے وہ بھی ایسے ہیں کہ انتخابات کے بعد کیا ہو گا یہ سوچ کر پاکستان کے بارے میں فکر ہوتی ہے۔ جس ’’آزاد‘‘ انداز میں اس وقت انتخابات کروائے جا رہے ہیں اُس پر پہلے ہی سوال اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید ملک کی تاریخ کے یہ سب سے بڑے انجینئرڈ الیکشن ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابات کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، قوم کے پچاس ارب روپے ضائع کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے، سیدھا سیدھا جسے وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں اُس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں۔ 
تحریک انصاف کے مطابق اُن کے 90 فیصد رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کا بلے کا نشان رہے گا یا نہیں اس پر بھی ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 8 فروری تک تحریک انصاف کو الیکشن میں اور کون کون سی مشکلات کا سامنا ہو گا اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو بھی ہو، تحریک انصاف جتنی بھی مقبول ہو، اُسے انتخابات نہیں جیتنے دیا جائیگا۔ اب ایسے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ اور دوسری جماعتیں ممکنہ طور پر حکومت بنائیں گی لیکن ایسی حکومت جو اتنے متنازع انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئے گی توکیا وہ ملک میں سیاسی استحکام کا موجب بن سکے گی؟ آگے تو رولا ہی رولا نظر آرہا ہے۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
discoverislam · 6 months
Text
دور ابتلاء میں صبر و یقین کی اہمیت
Tumblr media
قرآن کریم نے اہل ایمان کی ہدایت کے لیے تاریخ انسانی سے کچھ واقعات منتخب کر کے پیش کیے ہیں، یہ واقعات زیادہ تر گذرے ہوئے انبیائے کرامؑ اور ان کی قوموں کے ہیں۔ واقعات کا یہ انتخاب چوں کہ اس رب کا ہے جو سب بڑا باخبر اور ہر چیز پر قادر ہے اس لیے ان واقعات میں جہاں عبرت و نصیحت کا ایک جہاں آباد ہے، وہیں زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات اور چیلنجز کے لیے بہترین راہ نمائی اور ہدایات بھی موجود ہیں۔ اس تحریر میں ہم زیادہ واقعات سے تعرض نہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی تاریخ کا صرف ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جو امت مسلمہ کے موجودہ حالات سے بہت ملتا جلتا ہے۔ ساتھ ہی بنی اسرائیل کے ہادی و راہبر ﷲ کے عظیم پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کا ایک مختصر سا خطاب بھی نقل کریں گے، جو آپؑ نے اس موقع سے ارشاد فرمایا تھا، جس میں ہمارے لیے بھی موجودہ حالات میں بہترین راہ نمائی موجود ہے۔ بنی اسرائیل کے جدامجد حضرت یعقوبؑ کا اصلی وطن کنعان نام کی ایک بستی تھی، جو فلسطین کے شہر بیت المقدس سے چند میل کے فاصلے پر واقع تھی، بھائیوں کی بدخواہی اور شرارت نے حضرت یعقوبؑ کے چہیتے فرزند حضرت یوسفؑ کو ان سے جدا کر کے مصر میں پہنچا دیا۔
ﷲ کا کرنا ایسا کہ حضرت یوسفؑ مصر میں کسی عام شخص کے گھر پہنچنے کے بہ جائے عزیز مصر (مصر کے وزیر خزانہ) کے گھر پہنچ گئے، وہاں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر حضرت یوسفؑ کی عفت و پاکیزگی، امانت و دیانت ، علم و آگہی اور فہم فراست کی دھاگ بیٹھ گئی۔ اسی دور میں مصر میں ایک لمبی قحط سالی اور سخت قسم کے غذائی بحران کے آثار ظاہر ہوئے، تو حضرت یوسفؑ نے خوراک اور زرعی انتظام و انصرام کی باگ ڈور شاہ مصر سے درخواست کر کے اپنے ہاتھوں میں لے لی، اور اپنی بہترین منصوبہ بندی اور اچھے نظم و نسق کی ذریعے اس بحران پر قابو پانے میں کام یاب ہو گئے۔ حضر�� یوسفؑ کے اعلی اخلاق کی دھاگ دلوں پر تو پہلے ہی بیٹھ چکی تھی، اب اس بہترین حکمت عملی کے ذریعہ جو عظیم احسان انہوں نے اہل مصر پر کیا اس کے آگے ان کی گردن بھی جھک گئی اور انہوں نے ملک کی زمام اقتدار حضرت یوسفؑ کے حوالے کر دی۔
Tumblr media
اس موقع سے حضرت یوسفؑ نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوبؑ اور ان کے پورے خاندان کو کنعان سے بلا کر مصر میں بسا دیا، حضرت یوسفؑ کی عزت و حرمت کی وجہ سے مصر میں بنی اسرائیل کو بھی احترام و اکرام ملا اور عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے، مگر حضرت کے بعد رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کی عزت میں فرق آتا گیا، اور چند نسلوں کے بعد وہ اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری بنا دیے گئے اور خدمت و جفاکشی اور بے گاری کے کام جو سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں سے لیے جاتے ہیں وہی بنی اسرائیل سے بھی لیے جانے لگے۔ اِدھر فرعون مصر کو بعض کاہنوں نے یہ پیشین گوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تمہاری یہ عظیم سلطنت برباد ہو جائے گی۔ یہ سننا تھا کہ فرعون نے حکم جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل میں پید اہونے والے ہر لڑکے کو قتل کر دیا جائے، چناں چہ اس پر عمل شروع ہو گیا اور بنی اسرائیل پر ایک ناگہانی قیامت ٹوٹ پڑی، انہی حالات میں ﷲ تعالی نے حضرت موسیؑ کو پیدا فرمایا اور اسباب ایسے پیدا کر دیے کہ حضرت موسیؑ کی پرورش بہ جائے بنی اسرائیل کے خود فرعون کے محل میں ہوئی اور وہ فرعون کے جلادوں سے ہر طرح محفوظ رہے۔
ایک عرصہ کے بعد یہی حضرت موسیؑ، فرعون، اس کی قوم اور بنی اسرائیل طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، ﷲ کے حکم سے حضرت موسیؑ نے فرعون کو معجزات دکھائے اور اس کے سامنے دو مطالبات رکھے، ایک یہ کہ ﷲ پر ایمان لائے اور اپنے رب ہونے کا دعوی ترک کر کے، اور دوسرے بنی اسرائیل کو آزاد کر دے تاکہ حضرت موسیؑ ان کو مصر سے نکال کر ان کے اصلی وطن کنعان میں لے کر جا کر بسائیں۔ فرعون آسانی سے ان مطالبات کو تسلیم کرنے والا کب تھا۔ اس نے موسیؑ کو مات دینے کے لیے جادوگروں کو بلا کر حضرت موسیؑ سے مقابلہ کرایا، جادوگروں نے فاتحانہ انداز میں اپنے جادو کے جوہر دکھائے اور سمجھے کہ ان کا جادو سر چڑھ کر بولے گا، مگر ﷲ کے حکم سے موسیؑ کے عصا نے اژدھا بن کر جب ان کے جادو کو نگلنا شروع کیا تو سارا جادو ملیا میٹ ہو گیا، جادوگروں کو سمجھ میں آگیا کہ موسیؑ کے پاس جادو سے مارواء کوئی طاقت ہے، اور وہ فوراً موسیؑ کے رب پر ایمان لاکر بے اختیار اس کے حضور میں سجدہ ریز ہو گئے۔
اس مقابلے میں حق نے تاریخی فتح پائی اور فرعون کو سخت خفت اٹھانی پڑی، اس نے محسوس کیا کہ اگر موسیؑ کی مقبولیت اسی طرح بڑھتی رہی، تو آگے چل کر اس کی حکومت کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ موسیؑ سے کچھ کہنے کی جرأت تو تھی نہیں، اس لیے بنی اسرائیل کو بچوں کے قتل کی دھمکی دے ڈالی اور ان پر عبادت گاہوں میں نماز کی ادائیگی پر پابندی بھی عاید کر دی گئی۔ جو کچھ اوپر لکھا گیا وہ درحقیقت تمہید تھی، مقصد بنی اسرائیل کے وہ حالات پیش کرنے ہیں جو اس دھمکی کے بعد پیش آئے، واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل اس دھمکی سے سخت گھبرائے اور پریشان ہوئے، اس سراسیمگی میں بعض لوگوں نے تو حضرت موسیؑ سے یہ بھی کہہ دیا، مفہوم: ’’موسی ساری پریشانیاں تمہاری وجہ سے ہیں۔ تمہاری پیدائش کے موقع پر بھی ہم اس ناقابل برداشت عذاب سے گذرے اور آج پھر اسی مصیبت کا پھر سامنا ہے۔‘‘ (اعراف) بنی اسرائیل مصر میں ایک چھوٹی سے اقلیت کی شکل میں زندگی گذار رہے تھے، حکومت و اقتدار سے دور تھے۔
فرعون کے لوگوں نے انہیں ہر طرح سے بے بس اور کم زور بنا رکھا تھا، ان پر جو بھی ستم کرنا چاہتے تھے، طاقت کے بل بوتے پر آسانی سے کرسکتے تھے اور کر رہے تھے، بنی اسرائیل فرعون کے قلمرو میں ناعزت و سکون سے رہ سکتے تھے نا کہیں بھاگ سکتے تھے، اور فرعون کی مستحکم اور مضبوط حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ حکومت جلد یا بہ دیر ختم ہونے والی ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل کی پریشانی بالکل بجا تھی، ان مایوس کن اور سخت پریشانی کے حالات میں ﷲ کے پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کیا اور فرمایا حضرت موسیؑ نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: ’’ﷲ سے مدد مانگو اور صبر سے کام لو، یقین رکھو! زمین ﷲ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور آخری انجام پرہیز گاروں ہی کے حق میں ہوتا ہے۔‘‘ ان مشکلات و آزمائش اور خوف و ہراس کے ماحول میں جو فرعون کے قتل اولاد کے اعلان کے بعد پیدا ہُوا تھا حضرت موسیؑ نے اپنے اس مختصر مگر جامع خطاب میں بنی اسرائیل کی تسلی کے لیے چار باتیں ارشاد فرمائیں، جو قدرے وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہیں:
٭ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ ﷲ سے مدد مانگو، حالات کہیں بھی پیدا ہوں اور کسی کے ذریعہ بھی پیدا ہوں ان کے پس پردہ ﷲ کی مشیت اور ارادہ کام کر رہا ہوتا ہے، اس کے ارادے اور مشیت کے بغیر کوئی پتہ بھی شاخ سے ٹوٹ کر زمین پر نہیں گرتا، لہٰذا جب سارے فیصلے اسی قادر مطلق کے حکم سے ہوتے ہیں، تو عقل و دانائی کی بات یہی ہے کہ اسی کے در کو کھٹکھٹایا جائے، اسی کی چوکھٹ پر پیشانی رگڑی جائے۔ اسی سے اپنی ناتوانی، بے بسی اور عاجزی کا اظہار کیا جائے، اور بار بار رجوع کر کے اس کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر مشکل حالات میں ﷲ سے مدد مانگنے اور اس سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے، اور ﷲ کے مقرب و نیک بندوں کے کئی واقعات نقل کر کے بتایا ہے کہ جب انہوں نے مشکل حالات میں ﷲ کو پکارا تو ﷲ نے کس طرح ان کی پکار سنی، اور کیسے اس کی رحمت نے ان کی فریاد رسی کی۔ ٭ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ صبر و ہمت سے کام لو، صبر اور ہمت ایک بڑی مضبوط ڈھال ہے، اس کے ذریعہ مشکل حالات میں اپنے وجود اور اپنے فکر و عقیدے پر باقی رہنا آسان ہوتا ہے، صبر یہ ہے کہ آدمی آزمائشوں کے دیکھ کر نہ گھبرائے نہ حواس باختہ ہو، بلکہ اپنے اعصاب پر قابو رکھے۔
مشکلات کو جھیلنے کے لیے اپنے ذہن کو تیار کرے، اور ناگواریوں کو ﷲ کے لیے گوارا کرتا رہے، اور صبر میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی فکر و عقیدے اور اپنے دین پر ثابت قدم رہے، خوف یا لالچ کی وجہ سے اس سے دست بردار نہ ہو جائے۔ جو بھی اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ اس کے مولی کی مشیت اور ارادے سے ہوتا ہے، اور جو بھی اس سچائی کو تسلیم کرتا ہے دین کی خاطر اور ﷲ کی رضا کے لیے جو بھی قربانی دی جائے، جو بھی نقصان اٹھانا پڑے، جو بھی قیمت چکانی پڑے، جو بھی غم جھیلنے پڑیں، اس پر ﷲ کی طرف سے اجر ملتا ہے، درجے بلند ہوتے ہیں اور گناہوں کی معافی ہوتی ہے، اس کے لیے ہر حال کو ﷲ کا ایک فیصلہ سمجھ کر گوارا کر لینا، اور ہر کٹھن گھڑی سے دین و ایمان کی سلامتی کے ساتھ اپنے کو نکال لینا آسان ہو جاتا ہے۔ ٭ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ یہ زمین ﷲ کی ہے، وہی جسے چاہتا ہے اس کا مالک اور حاکم بناتا ہے اور جسے چاہتا ہے حکومت اقتدار سے بے دخل کرتا ہے، وہ اگر کسی کو بے دخل کرنا چاہے تو مضبوط حکومتیں تار عنکبوت کی طرح بکھر جاتی ہیں، اور کل کے سرکش فرماں رواؤں کا شاہانہ جلال و طمطراق دیکھتے ہی دیکھتے سامان عبرت اور داستان پارینہ بن کر رہ جاتا ہے، یہ ایک ایسی سچائی ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے۔
اس دل کو امید و عزم سے لبریز کرتی ہے، اور ظالموں کے سامنے سینہ سپر ہونے، اور ظالم کی مرضی کے خلاف اپنے موقف پر اڑ جانے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے، اس حقیقت کے اظہار کے ذریعہ حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کو یہ پیغام دیا کہ فرعون جس کی بادشاہت کے کھونٹے بڑی مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں، تم یہ بات دل سے نکال دو کہ وہ سدا اسی طرح باقی رہے گی، اور ہمیشہ تمہارے اوپر اس کا اختیار چلتا ہی رہے گا، زمین ﷲ کی ہے جب تک ﷲ کو فرعون کا رہنا منظور ہے وہ رہے گا، اور جس دن ﷲ کو کچھ اور منظور ہو گا تو یہ مضبوط بادشاہت اسی دن تہس نہس ہو جائے گی۔ غزوہ خندق کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے پیشین گوئی کی تھی کہ روم و ایران کی سلطنتیں میری امت کے قبضے میں آجائیں گی، تو منافقین اور کفار نے بڑا مذاق بنایا تھا کہ کھانے کو ہے نہیں، بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں، اور خوف کا عالم یہ ہے کہ رات دن ایک کر کے دشمنوں سے بچاؤ کے لیے خندق کھود رہے ہیں، حالات تو یہ ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں کہ قیصر و کسری کی سلطنتوں کے مالک بنیں گے۔
اس موقع پر ﷲ تعالی نے آیت کریمہ نازل فرمائی، جس میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ ﷲ تعالی کی قدرت میں سب کچھ ہے، وہ جس طرح کائنات عالم میں دن کے اجالے کو تاریکی شب کی چادر سے ڈھانپ دیتا ہے، اور رات کی سیاہی کی جڑ سے صبح کی پو پھوڑ دیتا ہے، اسی طرح وہ انسانی دنیا میں حکومت و اقتدار میں بھی تبدیلیاں لا سکتا ہے، جب وہ کسی کو اقتدار دینا چاہے گا تو کوئی روک نہیں سکے گا، اور جب اقتدار کی کرسی اتارنا چاہے گا تو آدمی کی ہر تدبیر الٹی ہی پڑتی چلی جائے گی۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور چند ہی سالوں کے بعد ﷲ تعالیٰ نے بے کس و بے سہارا مسلمانوں کو قیصر و کسری کی سلطنت کا مالک بنا دیا، ﷲ تعالی نے فرمایا، مفہوم: ’’کہو اے ﷲ! اے اقتدار کے مالک! تُو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اورجس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کر دیتا ہے۔ تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے، تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ اور تو ہی بے جان چیز میں جان دار کو برآمد کر لیتا ہے اور جان دار میں سے بے جان چیز نکال لاتا ہے، اورجس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔،،
ایک مومن اگر ظالم کی قوت و اقتدار پر نظر کرنے کے بہ جائے ﷲ کی قدرت اور اس کی کے ذریعہ لوگوں میں اچھے برے اور عروج و زوال کے دن ادلتے بدلتے رہنے کی سنت پر غور کرے اور اس پر یقین رکھے تو اس کے دل میں ظالم اور اس کے زوال کے بارے میں نہ تو کبھی مایوسی ہو گی اور نہ ہی وہ اس کے آگے خود سپردگی اور اپنے فک�� و عقیدے سے برأت کے اظہار پر آمادہ ہو گا، بلکہ اس کے برعکس اس کے دل میں اپنے ایمان و عقیدے کے طاقتور دفاع کی روح پیدا ہو گی۔ ٭ چوتھی بات جس کی طرف حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کو متوجہ کیا، وہ تقوی اور پرہیزگاری ہے، جو لوگ اپنی خوشی و غمی، امن و خوف، پسند و ناپسند ہر حال میں ﷲ سے ڈر تے ہیں، خوش گواری و ناگواری، اور نف�� و نقصان ہر حال میں ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو بجا لاتے ہیں نیک انجام ہمیشہ انہی کا مقدر بنتا ہے۔ اس اچھے انجام کو آدمی کبھی دنیا میں بھی دیکھ لیتا ہے کہ ﷲ تعالیٰ اسے ظالموں کے ظلم سے نجات عطا فرما کر امن و اطمینان کی زندگی عطا کرتا ہے، جیسے فرعون کو ہلاک کر کے بنی اسرائیل کو اور کفار مکہ کے زور کو توڑ کر اہل ایمان کو ﷲ تعالیٰ نے امن و اطمینان سے نوازا تھا، اور اگر ﷲ کی کسی مصلحت کی وجہ سے دنیا میں یہ نیک انجام سامنے نہ بھی آئے تو آخرت میں تو یقینی ہے، اور ایک مومن کے لیے آخرت کی کام یابی سے بڑھ کر اور کوئی کام یابی نہیں ہے۔
غور کیا جائے تو معلوم ہو گا آج مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی زندگی بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا مظلومیت اور بے بسی سے بہت ملتی جلتی ہے، حالات جس رخ پر تیزی سے دوڑ رہے ہیں وہ ظاہر بینوں کو مایوسی کی طرف دھکیلتا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم حضرت موسیؑ کے اس موثر وعظ سے تسلی حاصل کریں، اور حضرت نے اپنی قوم کو جن چار باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ہم بھی اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، چناں چہ ہم صبر و ہمت سے کام لیں، ﷲ سے مدد مانگیں، اس پر بھروسا رکھیں اور اس سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔ جو ﷲ دن کو رات اور رات کودن میں بدلنے قادر ہے وہی خدا شر کے موجودہ حالات و واقعات سے خیر بھی پیدا کر سکتا ہے، اور سنگ دل ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر امن و امان، صلح و آشتی اخوت و بھائی چارہ اور باہمی محبت کا ماحول کو قائم کر سکتا ہے، جس میں آدمی عافیت کی زندگی جی سکے اور آزادی کے ساتھ اپنے رب کے احکام پر عمل پیرا ہوسکے۔ یہ چار باتیں ایسی ہیں جوہر شخص انفرادی طور پر بھی بہ آسانی انجام دے سکتا ہے، اس کو زندگی میں لانے کے لیے کسی لمبے چوڑے پروگرام اور وسائل کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔ ﷲ تعالیٰ امت کو امن ایمان اور سلامتی اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین
مفتی محمد اجمل قاسمی  
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
بغاوت یا انقلاب
Tumblr media
سپریم کورٹ میں تقسیم گہری اور نمایاں ہو گئی ہے۔ اس پر بہت سے لوگ پریشان ہیں اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ دیکھیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کیا حال ہے؟ تاہم میری نظر میں اس تقسیم میں سپریم کورٹ کے لئے، انصاف کے نظام کے لئے اور پاکستان کے لئے بہت بہتری ہو گی۔ دوسروں کو چھوڑیں اب سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن لینے کے اختیار پر سوال اُٹھا دیے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ بھی ہوا کہ چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار اور منطق پر بھی سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی اعتراض اٹھا دیا۔ ایک روز قبل تو سپریم کورٹ کے دو جج حضرات نے اس بات پر بھی سوال کیا کہ کس اصول کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے کیس لگائے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ موجودہ نظام شفاف نہیں جس میں کسی کیس کو سماعت کے لئے منتخب کر لیا جاتا ہے اور کسی کو برسوں گزرنے کے باوجود سنا ہی نہیں جاتا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس کے سٹاف افسر کی طرف سے موصول ہونے والی چٹ پر دی گئی ہدایت پر مقدمات مختلف بینچوں کے سامنے لگاتے ہیں۔ یہ سن اور دیکھ کر اچھا لگا کہ سپریم کورٹ کے اندر سے ججوں نے آڈیو سکینڈل کی زد میں آنے والے جج صاحب سمیت دو ججوں کا نوے دن میں الیکشن کروانے کے لئے چیف جسٹس کا سوموٹو کیس سننے کے لئے بنائے گئے نو رُکنی بنچ میں شامل ہونے پر اعتراض اُٹھایا جس کے نتیجے میں وہ بینچ ہی ٹوٹ گیا۔ 
Tumblr media
سپریم کورٹ کو انصاف کے نظام کی بہتری اور اپنی Repute کے لئے اصلاحات اور شفافیت کی بہتر ضرورت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو بنچ بنانے اور سوموٹو نوٹس لینے کے اپنے اختیار کو ختم کر کے سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کی ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو یہ فیصلے کرے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ چیف جسٹس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ سمیت دو سینئر ترین ججوں کو نہ ہی اہم بنچوں میں شامل کیا جاتا ہے نہ ہی اُنہیں اہم نوعیت کے کیس سننے کے لئے دیے جاتے ہیں۔ بظاہر کیس لگانے کا اختیار اگرچہ رجسٹرار سپریم کورٹ کا ہے لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ زیادہ تر اہم مقدمات کو چیف جسٹس کے حکم پر ہی اُن کی مرضی کے ججوں کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان معاملات کی درستی سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں ہونی چاہئے۔ ایسا نہیں کہ یہ خرابی اب پیدا ہوئی ہے۔ یہ نظام کی خرابی ہے جو پہلے سے چل رہی ہے اور جسے درست کرنے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔ کسی نے ہمیشہ کے لئے کسی عہدے پر نہیں بیٹھے رہنا۔ چیف جسٹس بھی آتے ہیں اور ریٹائر ہو جاتے ہیں۔
اُس چیف جسٹس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جو اپنے اختیارات جن کا غلط استعمال ہوتا رہا، ختم کر کے کیسوں کو مختلف ججوں کے سامنے فکس کرنے، عدالتی بنچ بنانے، سوموٹو نوٹس لینے کے لئے ایک ایسا نظام وضح کرے گا جو شفافیت پر مبنی ہو، انصاف کے نظام میں بہتری کی کوشش ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے نظام پر نظر ثانی کرے تاکہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے ججوں کا معیار جان پہچان اور تعلقات کی بجائے میرٹ ، اعلیٰ کردار اور انصاف پسندی پر ہو۔کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ایک چپراسی کی تعیناتی کے لئے اخباروں میں اشتہار جاری ہوتا ہے، مقابلے کے لئے ایک پالیسی اپنائی جاتی ہے لیکن ہائی کورٹوں کے جج جو بعد میں سپریم کورٹ میں جانے کے اہل بن جاتے ہیں اُن کی تعیناتی کے لئے نہ کوئی اشتہار، نہ کوئی مقابلہ، نہ کوئی ٹیسٹ اور نہ ہی کوئی انٹرویو۔ ان تعیناتیوں کی بنیاد چند افراد کی پسند و ناپسند پر ہوتی ہے۔ 
اس نظام کو بدلا جائے۔ اسی طرح ملک کی موجودہ معاشی بدحالی کے تناظر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف جسٹس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی مراعات، پروٹوکول اور ریٹائرڈ ججوں کی دس سے پندرہ لاکھ روپے ماہانہ پنشن جیسے معاملات پر نظر ثانی کریں۔ ایک ملک جو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے وہ اپنے ججوں اور اعلیٰ عدلیہ سے توقع رکھتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی مراعات، پروٹوکول اور پنشن میں کمی کریں گے بلکہ دوسرے سرکاری اداروں اور محکموں کے افسروں اور حکمراں طبقے کی قوم کے پیسے پر عیاشیوں پر قدغن لگائیں گے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes