Tumgik
#غیر وابستہ نمائندوں
akksofficial · 2 years
Text
ہم جمہوریت کو مکمل طور پر فروغ دے رہے ہیں، چینی صدر
ہم جمہوریت کو مکمل طور پر فروغ دے رہے ہیں، چینی صدر
بیجنگ (عکس آن لائن) کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی نے بیجنگ میں سی پی سی سے غیر وابستہ نمائندوں کے ایک فورم کا انعقاد کیا۔جس میں سی پی سی کی 20 ویں قومی کانگریس کی مسودہ رپورٹ کے حوالے سے جمہوری جماعتوں کی مرکزی کمیٹیوں، آل چائنا فیڈریشن آف انڈسٹریز اینڈ کامرس کے سربراہان اور نان پارٹی شخصیات کی رائے اور تجاویز پیش کی گئیں۔جمعرات کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق تمام نمائندوں کے بیانات کو غور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
airnews-arngbad · 1 year
Text
آکاشوانی اورنگ آباد‘ علاقائی اُردو خبریں-بتاریخ: 19 دسمبر 2022‘ وقت: صبح 09:00-09:10
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ریاستی اسمبلی کے سرمائی اجلاس کا آج سے ناگپور میں آغاز؛ وزیرِ اعلیٰ کی روایتی چائے پارٹی کا حزبِ اختلاف کی جانب سے مقاطعہ۔
٭ وزیرِ اعلیٰ اور مجلس وزراء کو بھی لوک آیُکت کے دائرۂ کار میں لانے کا ریاستی کابینہ کا فیصلہ۔
٭ ریاست میں گرام پنچایتوں کے انتخابات کیلئے 80 فیصد سے زائد رائے دہی؛ کل ووٹوں کی گنتی۔
٭ میزائل سے لیس جنگی جہاز مورمُو گائو ہندوستانی بحریہ میں شامل۔
٭ بنگلہ دیش کے خلاف پہلے کرکٹ ٹیسٹ میچ میں بھارت کی188 رَنوں سے فتح۔ 
اور۔۔٭ ارجنٹینا فیفا عالمی کپ فٹبال کا نیا چمپئن۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاستی قانون ساز اسمبلی کے سرمائی اجلاس کا آج سے ناگپور میں آغاز ہورہا ہے۔ اس اجلاس میں 23 بل اور 5 حکمنامے منظوری کیلئے پیش ہوں گے۔ اسی دوران اسمبلی اجلاس سے قبل کی شام حکومت کی جانب سے دی گئی روایتی چائے پارٹی کے بعد وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے اور نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے اخباری کانفرنس سے خطاب کیا۔ وزیرِ اعلیٰ نے بتایا کہ مالی بدعنوانی کی انسداد کیلئے نئے لوک آیُکت قانون کو ریاستی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ علاوہ ازیں کسانوں سے متعلق بڑے فیصلے بھی ریاستی حکومت نے کیے ہیں اور ودربھ اور مراٹھواڑہ کیلئے ہر ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔ انھوں نے ترغیب دی کہ مہاراشٹر- کرناٹک سرحدی تنازعے پر سیاست نہ کی جائے۔ کسانوں سے متعلق حکومتی فیصلوں کی تفصیلات دیتے ہوئے ایکناتھ شندے نے کہا کہ موجودہ حکومت نے غیر موسمی بارش اور سیلاب کے نقصانات کے معاوضے کے طور پر اب تک کے سب سے زیادہ فنڈز منظور کیے ہیں او راس کیلئے 7 ہزار 400 کروڑ روپئے جاری کیے گئے، جس میں سے 4 ہزار 800 کروڑ روپئے تقسیم بھی کیے جاچکے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ سانگلی ضلع کے جت تعلقے کی بہبود کیلئے اقدامات کو بھی ریاستی کابینہ میں منظور کیا گیا اور اس کیلئے دو ہزار کروڑ روپئے خرچ کیے جائیں گے۔ اس اسکیم کے تحت کرناٹک کی سرحد سے ملحق جت تعلقے کے 48 گائووں میں پینے اور کاشت کاری کیلئے آبرسانی کی جائیگی۔
نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے اس موقع پر صحیفہ نگاروں کو بتایا کہ اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں ہی مالی بدعنوانیوں کی انسداد کیلئے لوک آیُکت کی نامزدگی کا بل پیش کیا جائیگا اور وزیرِ اعلیٰ کو بھی لوک آیُکت کے دائرۂ کار میں شامل کرنے کی پہل حکومت کررہی ہے۔ انسدادِ رشوت ستانی ایکٹ کو بھی اس قانون میں شامل کرکے مجلس ِ وزراء کو بھی اس قانون کے تحت لایا جائیگا۔ پھڑنویس نے کہا کہ ریاست میں شفافیت لانے کی سمت یہ ایک بڑا قدم ہے۔ انھوں نے کہا کہ سرحدی علاقو ں میں دوسری ریاست میں جانے کے تعلق سے جو بیانات دئیے جارہے ہیں اس کے پیچھے کونسی سیاسی جماعت کے افراد ہیں اس کی اطلاع خفیہ اداروں کے ذریعے ہم تک پہنچ چکی ہیں اور معقول موقع پر یہ معلومات ظاہر کی جائیں گی۔
***** ***** *****
دوسری جانب اسمبلی اجلاس سے قبل حکومت کی جانب سے دی جانے والی روایتی چائے پارٹی کا حزب ِ اختلاف کی جانب سے بائیکاٹ کیا گیا۔ بعد ازاں ناگپور میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے قائد ِ حزبِ اختلاف اجیت پوار نے کہا کہ ریاستی مفادات کیلئے کام کرنے میں یہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے اور دورانِ اجلاس ترقی کے مسئلے پر اس حکومت کو گھیرا جائیگا۔ انھوں نے کہا کہ اس حکومت کو برسرِ اقتدار آئے 6 ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن حکومت سے جو اُمیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ 
اجیت پوار نے کہا کہ سرحدی تنازعہ کا کوئی حل نظر نہیں آرہا، کئی صنعتیں اور پروجیکٹ ریاست سے باہر جارہے ہیں۔ لاکھوں نوجوان بے روزگار ہوچکے ہیں اور اسی طرح کے کئی مسائل ریاست کو درپیش ہیں۔ ان موضوعات کو اسمبلی کے آج سے شروع ہونے والے اجلاس میں اُٹھایا جائیگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ عظیم رہنمائوں کے خلاف دئیے جانے والے تضحیک آمیز بیانات پر معافی مانگنے کیلئے بھی یہ حکومت تیار نہیں ہے۔
***** ***** *****
ریاست کی 7 ہزار 751 گرام پنچایتوں کے انتخابات کیلئے کل معمولی وارداتوں کو چھوڑ کر پُرامن رائے دہی عمل میں آئی۔ ریاست بھر میں رائے دہی کا تناسب تقریباً 80 فیصد رہا۔ اس چنائو میں گرام پنچایتوں کے ساتھ ساتھ سرپنچوں کا بھی راست انتخاب عمل میں آئے گا۔ کل ان ووٹوں کی گنتی عمل میں آئیگی۔ اورنگ آباد ضلع میں 208 گرام پنچایتوں کیلئے 86 اعشاریہ پانچ پانچ فیصد رائے دہی ہوئی۔ 
***** ***** *****
رڈار سے مخفی رہنے والا میزائل بردار جنگی جہاز ’’مورمُگائو‘‘ کو وزیرِ دفاع راجناتھ سنگھ کے ہاتھوں کل ہندوستانی بحریے میں شامل کرلیا گیا۔ میک اِن انڈیا کے تحت ممبئی کے ماجگائوں بندرگاہ میں یہ جنگی جہاز تیار کیا گیا ہے۔ ملک ہی میں تیار کردہ ہندوستانی بحریے کا یہ دوسرا جہاز ہے۔ اس موقع پر حفاظتی دستے کے سربراہ انیل چوہان‘ بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ہری کمار اور ماجگائوں بندرگاہ کے سربراہ ومینیجنگ ڈائریکٹر وائس ایڈمرل نارائن پرساد بھی موجود تھے۔
***** ***** *****
وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنا بھی لازمی ہے۔ محکمۂ جنگلات کے کام کی ستائش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے دوران محکمے کی ماحولیات کے تحفظ کیلئے کیا گیا کام گرانقدر ہے۔ کل ناگپور میں محکمۂ جنگلات کی ایک عمارت کا افتتاح اور بہترین کارکردگی پرمحکمے کے افسران و ملازمین کو اعزازات کی تقسیم کے ایک پروگرام سے وہ خطاب کررہے تھے۔
***** ***** *****
کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے مطالبہ کیا ہے کہ مہاراشٹر پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے طریقۂ کار میں تبدیلی کرکے اس کے نفاذ کو 2023 کی بجائے 2025 سے نافذ کیا جائے۔ کل ناگپور میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس فیصلے سے لاکھوں طلبہ کا نقصان ہوگا اور طلبہ کے مفادات کے پیشِ نظر نئے طریقۂ کار کو 2 برسوں کیلئے مؤخر کیا جائے۔
***** ***** *****
بیلگائوں میں آج مہاراشٹر ایکی کرن سمیتی کا اجلاس ہورہا ہے۔ تاہم اس اجلاس میں اچل کرنجی کے رکنِ پارلیمان اور ریاستی حکومت کی نامزد کردہ ماہرین کی کمیٹی کے سربراہ دھیریہ شیل مانے شرکت نہیں کرسکیں گے۔ اُن پر بیلگائوں کے ضلع مجسٹریٹ نتیش پاٹل نے بیلگائو ںمیں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔ 
***** ***** *****
اورنگ آباد کے رابطہ وزیر سندیپان بھومرے نے تیقن دیا ہے کہ اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن کی جانب سے تاجروں پر عائد کردہ اسٹیبلشمنٹ ٹیکس معطل کرنے سے متعلق حکومت مثبت کردار ادا کرے گی۔کل ضلع ویاپاری سنگھ کے ایک نمائندہ وفد نے بھومرے سے ملاقات کرکے تاجروں کی مشکلات سے وزیرِ موصوف کو آگاہ کیا۔ اس موقع پر بھومرے نے تیقن دیا کہ اسٹیبلشمنٹ ٹیکس کو معطل کرنے پر غور کیا جائیگا۔
***** ***** *****
بنگلہ دیش کے خلاف جاری ٹیسٹ سیریز کے پہلے کرکٹ ٹیسٹ میچ میں بھارت نے کل 188 رنوں سے فتح حاصل کرکے 2 میچوں کی اس سیریز میں ایک صفرکی ناقابلِ شکست سبقت حاصل کرلی ہے۔ جیت کیلئے دئیے گئے 513 رن کے ہدف کے تعاقب میں بنگلہ دیش کی پوری ٹیم 324 رَن بناسکی۔ کلدیپ یادو کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔
***** ***** *****
فیفا عالمی کپ فٹبال ٹورنامنٹ ارجنٹینا نے جیت لیا ہے۔ کل شب قطر میں کھیلے گئے ٹورنامنٹ کے انتہائی سنسنی خیز اور دلچسپ فائنل میچ کا فیصلہ پینالٹی شوٹ آئوٹ پر ہوا، جس میں ارجنٹینا نے فرانس کو 2 کے مقابلے میں 4 گول سے شکست دے دی۔ ارجنٹینا نے 36 برس بعد فٹبال چمپئن شپ کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ مقررہ وقت میں 2-2 گول اور ایکسٹرا ٹائم میں 3-3 سے برابری کے بعد اس فائنل میچ کا فیصلہ پینالٹی شوٹ پر ہوا۔ ارجنٹینا کے میسی کو 7 گول کرنے پر گولڈن بال اور 8 گول کرنے والے فرانس کے ایم باپے کو گولڈن بوٹ دیا گیا ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ریاستی اسمبلی کے سرمائی اجلاس کا آج سے ناگپور میں آغاز؛ وزیرِ اعلیٰ کی روایتی چائے پارٹی کا حزبِ اختلاف کی جانب سے مقاطعہ۔
٭ وزیرِ اعلیٰ اور مجلس وزراء کو بھی لوک آیُکت کے دائرۂ کار میں لانے کا ریاستی کابینہ کا فیصلہ۔
٭ ریاست میں گرام پنچایتوں کے انتخابات کیلئے 80 فیصد سے زائد رائے دہی؛ کل ووٹوں کی گنتی۔
٭ میزائل سے لیس جنگی جہاز مورمُگائو ہندوستانی بحریہ میں شامل۔
٭ بنگلہ دیش کے خلاف پہلے کرکٹ ٹیسٹ میچ میں بھارت کی188 رَنوں سے فتح۔ 
اور۔۔٭ ارجنٹینا فیفا عالمی کپ فٹبال کا نیا چمپئن۔
***** ***** *****
0 notes
pakistan-news · 2 years
Text
سیاسی اخلاقیات کا جنازہ
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی ہے۔ عمران خان نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنا کھیل کھیلا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے خواب تعبیر آشنا نہیں ہو سکے اور نہ چاہتے ہوئے بھی عام انتخابات کا میدان سج گیا ہے۔ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے لیکن 2 اپریل 2022 بروز اتوار کی سہ پہر پاکستان کی قومی اسمبلی کے وسیع و عریض ہال میں جو کچھ ہوا، وہ متحدہ اپوزیشن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے اس بات کو بھول جائیں کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین اور قانون کے مطابق ہے یا نہیں، آپ اس بات کو بھی پس پشت ڈال دیں کہ ایک دن پہلے وزارتِ قانون کا قلمدان سنبھالنے والے فواد چوہدری کی گفتگو آئین اور قانون کی عکاس تھی یا نہیں، آپ سردار ایاز صادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کو بھی نظر انداز کر دیں. 
اجلاس کے بعد حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کی میڈیا ٹاک کو بھی ایک طرف رکھ دیں، لیکن پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح تحریک عدم اعتماد کے دوران اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن نے اراکینِ پارلیمنٹ کی خرید و فروخت کر کے پرانی سیاست کو ایک دفعہ پھر زندہ کر دیا۔ چھانگا مانگا کی دم توڑتی سیاست میں نئی زندگی ڈال دی۔ معزز اراکینِ پارلیمنٹ نے اپنی بولی لگوا کر پوری قوم کے سر شرم سے جھکا دیے۔ ایک لحاظ سے یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک اہم لیڈر محترمہ مریم نواز اِس خرید و فروخت سے ایک فاصلے پر نظر آئیں، اور اپنا دامن آلودہ ہونے سے محفوظ رکھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) محترمہ مریم نواز کی قیادت میں آگے بڑھی تو اس کا رنگ ڈھنگ کیسا ہو گا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف، جو اس خطہ کے سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں، نے اس سارے عمل کے دوران خاموشی اختیار کیے رکھی، یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ بھی اس غیرجمہوری طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں، محترمہ بےنظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے مابین طے پانے والے میثاقِ جمہوریت میں بھی اس عمل کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی. لیکن متحدہ اپوزیشن کو اقتدار کے حصول کی اتنی جلدی تھی کہ برسر عام سندھ ہاؤس اور ایک مہنگے ہوٹل میں قومی نمائندوں کی منڈی لگا دی گئی، اور میڈیا پر اس کی خوب تشہیر بھی کی گئی۔ اِس ساری کہانی کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جو ابھی اپنی سیاست کے ابتدائی دنوں میں ہیں، ان کی تربیت میں ان کے والد محترم نے خریدوفروخت کا عنصر شامل کر دیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی ماضی میں اس عمل کے اثراتِ بد بھگت چکی ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری اپنا دامن اس سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ مستقبل میں وہ کیسی سیاست کرینگے، اس سے کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستانی سیاست کے اعلیٰ ترین ایوان میں ہونے والے اس عمل نے پاکستانی معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ وفاداریاں تبدیل کرنے کو گالی خیال کیا جاتا تھا لیکن اب ہر سطح کے منتخب نمائندے اپنی بولی لگوانے میں خوشی محسوس کرینگے۔ اب اس امر کی پیش گوئی کیسے کی جا سکتی ہے کہ کسی یونین کونسل یا میونسپل کمیٹی کا چیئرمین اخلاقی طور پر اسی جماعت یا گروپ سے وابستہ رہے جس کے نام پر اس نے ووٹ حاصل کیے تھے کیونکہ اس کے سامنے تو اراکینِ قومی اسمبلی کی مثال موجود ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے اس عمل کی وجہ سے پاکستانی سیاسی اخلاقیات کی د��وار میں ایک بڑا شگاف پڑ گیا ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے یہ واویلا اب بےمعنی ہے کہ حکومت نے غیر آئینی اقدامات کیے۔ جب ایک طرف سے تمام اخلاقی اور سیاسی اقدار بلڈوز کی جا رہی ہوں تو حکومت کی طرف سے فیئر پلے کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔ عمران خان کے گرد بھی وہی لوگ ہیں جو متحدہ اپوزیشن کا حصہ رہے۔ ان کی سیاسی تربیت بھی اسی جگہ ہوئی جہاں اپوزیشن نے تربیت حاصل کی۔ حکومت بچانے کیلئے عمران خان نے وہ تمام حربے استعمال کیے جو وہ کر سکتے تھے۔ ہم ان سے توقع کر رہے تھے کہ وہ خود کو پاکستان کے دیگر سیاستدانوں کے مقابلے میں مختلف سیاست دان ثابت کریں گے۔ عدم اعتماد کی صورت میں سیاسی وقار کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو عوام کی عدالت میں لے جائیں گے۔ لیکن انہوں نے امریکہ سے آئے ہوئے مراسلے کا بہانہ بنا کر وہ سب کچھ کیا جو دوسری جماعتیں کر رہی تھیں۔ جلسوں میں اپنے مخالفین کیلئے غیرمعیاری زبان استعمال کر کے وہ پہلے ہی اپنی ساکھ کمزور کر چکے تھے۔ البتہ اس شر سے خیر کا پہلو یہ نکلا کہ ہمارے اداروں نے مکمل غیر جانب دار ہونے کا ثبوت دیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو ٹوک انداز میں اس عمل سے لاتعلقی کا اظہار کر کے ادارے کا وقار بڑھایا۔ البتہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے بروز اتوار اپنی عدالت کے تالے کھول دیے، یہ الگ بات کہ اُنہی عدالتوں میں سزائے موت کے قیدی اپیل لگنے کے انتظار میں زندگی کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں، جب ایک بیوہ ماں کے جوان بیٹے کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں، اس وقت عدالتی ایکٹو ازم کیوں سست پڑ جاتا ہے؟ کیا انصاف کا حصول سیاسی اشرافیہ کا حق ہے؟ کیا انصاف کا نظام صرف بڑے لوگوں کیلئے تیار کیا گیا ہے؟ اِس ملک کے 22 کروڑ عوام کے سینے میں یہ بات خنجر کی طرح پیوست ہے کہ ان کے مقدمات لیفٹ اوور ہوتے ہیں جبکہ اشرفیہ کیلئے ضابطے نرم کر دیے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہماری معزز عدالتوں کو عام مقدمات میں بھی اسی طرح کی تیز رفتاری دکھانا ہو گی جیسی سیاسی مقدمات میں نظر آتی ہے۔ ورنہ اس نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہو کر رہ جائے گا جو کسی صورت میں سود مند نہ ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
classyfoxdestiny · 2 years
Text
ٹام کروز 'ٹاپ گن: ماورک' جیسے مشتبہ انسٹاگرام پابندی کے درمیان جوابات چاہتا ہے: 'بالکل پریشان کن' #اہمخبریں
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%b9%d8%a7%d9%85-%da%a9%d8%b1%d9%88%d8%b2-%d9%b9%d8%a7%d9%be-%da%af%d9%86-%d9%85%d8%a7%d9%88%d8%b1%da%a9-%d8%ac%db%8c%d8%b3%db%92-%d9%85%d8%b4%d8%aa%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d9%b9%d8%a7/
ٹام کروز 'ٹاپ گن: ماورک' جیسے مشتبہ انسٹاگرام پابندی کے درمیان جوابات چاہتا ہے: 'بالکل پریشان کن'
Tumblr media
ایک بار ایک تخلیقی ورچوسو جو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (UCLA) میں فن تعمیر کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، جیروم لی بلینک نے جلد ہی اپنی کالنگ کو سب سے زیادہ مطلوب پایا۔ ٹام کروز اس کے ہائی پروفائل تک ایک جیسا نظر آتا ہے۔ انسٹاگرام اکاؤنٹ کو مبینہ طور پر اس کی شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے کے لیے غیر فعال کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کسی ایسے شخص کی “نقلی” کر رہا تھا جو وہ نہیں تھا۔
سوائے اس کے کہ کوئی ایک خیالی کردار ہے، لیفٹیننٹ پیٹ “ماورک” مچل، جس کا کردار اداکار کروز نے “اہم ترین“
33 سالہ لی بلینک نے فاکس نیوز ڈیجیٹل کو بتایا کہ وہ اور ان کی منیجر بیوی – جس سے وہ ایک دن ہالی ووڈ بولیوارڈ پر مشہور “ٹاپ گن” ہنک کی نقالی کرتے ہوئے ملے تھے – انسٹاگرام کے ذریعہ پتھراؤ کیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے ایک ٹن کاروبار سے محروم ہوگئے ہیں۔ پلیٹ فارم سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو چھوڑ رہا ہے، جس کے غیر فعال ہونے کے وقت 30,000 تھے۔
انسٹاگرام – جو میٹا کی ملکیت ہے، جسے پہلے کہا جاتا تھا۔ فیس بک – ابتدائی طور پر پابندی لگا دی سان ڈیاگو میں مقیم LeBlanc نے جون 2021 میں LeBlanc سے پہلے کہا تھا کہ اسے اپنے اکاؤنٹ کو بحال کرنے کے لیے تصدیق اور اپنی غیر معمولی شکل کا ثبوت جمع کرانا ہوگا۔
‘ٹاپ گن: ماورِک’ اسٹار لیوس پل مین نے انکشاف کیا کہ اس نے پرواز کے مناظر فلمانے کے لیے ‘بہت زیادہ پک دیا’: کبھی ‘کیمرہ پر’
Tumblr media
جیروم لی بلینک ٹام کروز کے “ٹاپ گن” کردار، لیفٹیننٹ پیٹ ‘ماورک’ مچل سے غیر معمولی مشابہت رکھتا ہے۔ (بشکریہ جیروم لی بلینک)
لی بلینک نے اس عمل کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے اپنی شناخت کو ثابت کرنے اور دکھانے کے بعد اسے واپس حاصل کیا جس میں میں نے ‘ماورک’ کی تصویر کشی کی ہے اور انہوں نے کہا، ‘اپنی غلطی کے لیے معذرت’ اور انہوں نے اسے واپس کر دیا۔ اس کے کہنے کے بعد پلیٹ فارم نے اپنی ابتدائی غلطی کے لیے معافی مانگ لی۔
Instagram کے قوانین کے مطابق: “کسی کی نقالی کرنے کے لیے اکاؤنٹ بنانا کمیونٹی گائیڈلائنز کے خلاف ہے اور اس کے نتیجے میں آپ کا اکاؤنٹ ہٹا دیا جا سکتا ہے۔”
ٹام کروز ‘واقعی اٹل تھا’ وال کلمر ‘ٹاپ گن: میورِک’ میں نظر آئے
یہ صارفین کو متنبہ بھی کرتا ہے، “حقیقی فرد یا برانڈ ہونے کا بہانہ نہ کریں۔ اس میں شامل ہیں: آواز میں بولنا یا خود کو فرد، برانڈ، یا تنظیم کے طور پر پیش کرنا۔ فرد، برانڈ، یا تنظیم سے آپ کے تعلقات کو غلط انداز میں پیش کرنا۔”
LeBlanc کی مادری زبان فرانسیسی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ Instagram کے تمام اصول و ضوابط کی پابندی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، “دوسری بار ہم نے دو ماہ سے زیادہ دن میں تقریباً چھ بار درخواست دی اور انہوں نے اسے کبھی واپس نہیں کیا، یہاں تک کہ میرا یہ کہنا کہ میں یہ شخص ہوں۔” “میں نے دوبارہ تخلیق بھی کیا — یہ کتنا دلچسپ ہے کہ میں نے اپنے نام سے غیر فعال ہونے کے بعد دو مزید اکاؤنٹس بنائے، جیروم لی بلینک — ماورک کی نقالی، اور اسے فوراً حذف کر دیا گیا۔ تو میں نہیں جانتا کہ یہ کیسے ہے یہ بھی ممکن ہے؟”
Tumblr media
جیروم لی بلینک، بالکل، ٹام کروز کے سب سے زیادہ مطلوب نظر آنے والے، ان کے ہائی پروفائل انسٹاگرام اکاؤنٹ کو انسٹاگرام نے مبینہ طور پر اس کی شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے غیر فعال کر دیا تھا کہ وہ کسی ایسے شخص کی “نقلی” بنا کر کہ وہ نہیں تھا۔ (Getty/Jerome LeBlanc)
انسٹاگرام اور میٹا کے نمائندوں نے فاکس نیوز ڈیجیٹل کی تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ مزید برآں، متعدد وکلاء جو انکوائری سے وابستہ نہیں ہیں، نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا جس میں کچھ نے پابندی کے حوالے سے الجھن کا حوالہ دیا اور دوسروں نے کہا کہ وہ اس صورتحال کے بارے میں اتنا نہیں جانتے کہ وہ اعتماد کے ساتھ اپنی بصیرت فراہم کر سکیں۔
LeBlanc اپنی بیوی کے ساتھ دو چھوٹے بچوں کا اشتراک کرتا ہے – ایک 3 ماہ کا بیٹا اور ایک بیٹی جو ڈھائی سال کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آمدنی میں ہونے والا نقصان “ان مشکل وقتوں میں” تباہ کن رہا ہے اور کہا کہ جب کہ ان کا قانونی مشیر لوزیانا میں مقیم ہے، کیلیفورنیا میں سوشل میڈیا کارپوریشن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے سے ان کی بچت ختم ہو جائے گی – لیکن آپشن باقی ہے۔ ٹیبل کے طور پر انسٹاگرام پابندی “یقینی طور پر اس وقت ایک قانونی معاملہ ہے۔”
‘ٹاپ گن’ میں ٹام کروز کا ونگ مین، انتھونی ایڈورڈز، اسٹار کے ساتھ کام کرنا یاد کرتا ہے: ‘اس کے پاس صرف ایک سوئچ ہے’
“میرا مطلب ہے، انسٹاگرام اور 30,000 سے زیادہ فالوورز کو کھونا، یہ میرا پلیٹ فارم تھا جہاں میں واقعتا صرف ایسے واقعات اور واقعات کے کلپس پوسٹ کر رہا تھا جو میں یہاں سان ڈیاگو میں کروں گا،” LeBlanc نے اپنے بند کاروبار کے بارے میں وضاحت کی۔ “میں نے یو ایس ایس مڈ وے اور میرامار بیس، کنساس سٹی باربی کیو پر پرفارم کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں فلم ‘ٹاپ گن’ کی عکس بندی کی وجہ سے آپ ان تمام مقامات سے واقف ہوں گے۔”
“لہذا میں سمجھتا ہوں کہ میرے سوشل میڈیا پر سان ڈیاگو میں مقیم سامعین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جہاں لوگ یہ سب دیکھ سکتے ہیں اور مجھے میرے پلیٹ فارم سے بک کر سکتے ہیں،” لی بلینک نے مزید کہا۔ “اور اس کو کھونے سے، میں بتا سکتا ہوں، میرے کاروبار کو بہت زیادہ متاثر کیا کیونکہ لوگ ایسے تھے، ‘کیلیفورنیا ٹام کروز کے ساتھ کیا ہوا؟’ اور لوگ دوسرے گروپس یا ‘ٹاپ گن’ کے پرستاروں تک میرے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ تو یقینی طور پر، میرے خیال میں، اس نے مجھے یقینی طور پر بہت سارے کاروبار سے نقصان پہنچایا۔”
Tumblr media
جیروم لی بلینک، بائیں، ایک تقریب میں ٹام کروز کے “ٹاپ گن” کردار، لیفٹیننٹ پیٹ “ماورک،” مچل کی نقالی کر رہے ہیں۔ (بشکریہ جیروم لی بلینک)
اس نے جاری رکھا: “میں نے اپنی آرکیٹیکچرل ڈگری کو UCLA میں ایک طرف رکھ دیا اور میں نے اس ہنر میں پوری رفتار سے کام کیا اور پھر ہم نیچے سان ڈیاگو چلے گئے۔ کہا. “اور پھر میری بیوی، جو مجھ سے ماورک کے طور پر ملی تھی، نے محسوس کیا کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے کہ ہمیں واقعی مزید آگے بڑھانا چاہیے، اس لیے وہ میری مینیجر بن گئی اور وہ تب سے میری مینیجر ہے، اس لیے ہم دونوں اس عمل میں کافی حد تک زخمی ہیں۔”
لی بلینک نے کہا کہ اس نے یہاں تک کہ انسٹاگرام اکاؤنٹس کے ایک جوڑے کو دوبارہ بنایا تاکہ یہ دیکھیں کہ آیا وہ ٹیسٹ پاس کریں گے لیکن کہا کہ انہیں بھی فوری طور پر ہٹا دیا گیا تھا، اور اب لی بلینک کا کہنا ہے کہ انسٹاگرام یا میٹا سے کوئی بھی ان کی متعدد اپیلوں کے حوالے سے ان کے پاس واپس نہیں آیا ہے۔
‘مشن امپاسبل’ نے کورونا وائرس کی وجہ سے 7ویں اور 8ویں قسطیں فلمانے کا منصوبہ بند کر دیا: رپورٹ
اس کے بعد سے وہ TikTok پر چلا گیا، جہاں وہ نصف ملین سے زیادہ پیروکاروں کے ساتھ کھیلتا ہے۔
“میرے کیریئر میں 11 سالوں سے کبھی نہیں، میں یہ کر رہا ہوں جب میں نے اپنے آپ کو ٹام کروز کہا،” انہوں نے یہ سوچتے ہوئے کہا کہ اسی طرح کے دوسرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بغیر کسی پابندی کے کیوں جاری رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
“کیا میں نے ہیش ٹیگ Tom Cruise استعمال کیا ہے؟ ہاں، درست۔ لیکن Maverick ایک کردار ہے۔ میں ایک خیالی کردار کی نقالی کرکے کچھ غلط نہیں کر رہا ہوں،” LeBlanc نے دلیل دی۔ “اور اس لیے میں یہ کہوں گا کہ لوگوں کے ردعمل کے بارے میں جب یہ پتہ چلا کہ میں نے اپنا انسٹاگرام کھو دیا ہے، وہ یقینی طور پر اس کے بارے میں بہت بے عزت اور پریشان تھے۔”
Tumblr media
جیروم لی بلینک نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو ٹام کروز کی “نقلی” کرنے پر غیر فعال کر دیا تھا۔ (بشکریہ جیروم لی بلینک)
درحقیقت، LeBlanc کی Maverick کی نقالی بہت نمایاں ہے، اس نے Fox News Digital کے سامنے دعویٰ کیا کہ پیراماؤنٹ اسٹوڈیوز نے ماضی میں بھی اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے اس سے رابطہ کیا تھا – اس لیے اس کے نظریہ میں کہ کون یا کیا اس کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے، LeBlanc کے اپنے شکوک ہیں۔
“ہماری صورت حال میں، ہم نے کئی بار رابطہ کیا اور ہمارے پاس وکلاء تک پہنچ گئے، کال کرنا، ای میل کرنا، فیس بک اور میٹا، اور ہم نے کبھی پیچھے نہیں سنا۔ تو میں کہوں گا کہ بہت سے دوسرے کردار بھی ہیں،” انہوں نے وضاحت کی۔
ٹام کروز کا ‘مشن: ناممکن’ سیکوئلز کووڈ کی وجہ سے پھر سے تاخیر کا شکار
“کیا میرے کردار کو نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ فلم ملتوی کردی گئی ہے، اور ہوسکتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں اس میں اتنا اچھا ہوں کہ اس سے لوگ پریشان ہوں یا میں آگے جاکر سوچ سکتا ہوں، کیا یہ پیراماؤنٹ ہے، کیا یہ ٹام کروز ہے یا یہ مذہب ہے۔ ؟” اس نے سوال کیا. “لیکن پیراماؤنٹ نے گزشتہ سال میرے ساتھ ممکنہ طور پر کام کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا تھا، اس لیے مجھے شک ہے کہ یہ واقعی اسٹوڈیو ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میرا کردار بہت پسند کیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ توجہ دلاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید اسی لیے مجھے حذف کر دیا گیا ہے۔ – گمراہ نہ کریں کہ اصلی ٹام کروز کہاں ہو سکتا ہے یا نئی ‘ٹاپ گن: ماورک’ کے مناظر یا اس جیسی کوئی چیز۔”
“یہ ہمیشہ میرے ذہن سے گزرتا ہے، میں اس سے کب ملوں گا؟ اور میں خود کو جانتا ہوں، جیسے ہی میں اسے دیکھوں گا، میں شیشے اتار دوں گا اور میں وہی ہوں گا اور بس اس کا ہاتھ ہلا دوں گا۔”
– جیروم لی بلینک، ٹام کروز جیسا نظر آتا ہے، لیفٹیننٹ پیٹ ‘ماورک’ مچل نقالی
دن کے اختتام پر، LeBlanc صرف یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی پسند کے کاموں میں واپس آنا چاہتا ہے – ان لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانا جو محبت کرتے ہیں اور “Top Gun” میں Maverick سے متاثر تھے۔
“جب لوگوں کو کسی مشہور شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے – بعض اوقات وہ کسی خاص فلم کی طرف سے اتنے متوجہ ہوتے ہیں کہ انہوں نے کیا ہے کہ وہ اس کردار سے ملنا چاہتے ہیں” انہوں نے کہا۔ “ٹھیک ہے، یہ وہی ہے جو میں میز پر لانے کے قابل ہوں، اور لوگ بالکل بے وقوف ہیں کیونکہ ‘ٹاپ گن’ کی پرانی یادیں ان لوگوں کی طرف سے بہت بڑی ہیں جو 80 کی دہائی میں اس فلم کے ساتھ پروان چڑھے تھے۔”
Tumblr media
جیروم لی بلینک کا کہنا ہے کہ وہ “ٹاپ گن” میں لیفٹیننٹ پیٹ “ماورک” مچل سے “متاثر” تھے۔ (بشکریہ جیروم لی بلینک)
کینیڈین نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ انسٹاگرام کا اپنے صارفین پر بہت زیادہ کنٹرول ہے اور وہ اکثر بعض انتقام کے پیچھے اس کے استدلال میں بہت مبہم ہوتا ہے۔
“ہاں، بالکل۔ اور آپ جانتے ہیں، کسی بھی اداکار کی طرح، میں جو کچھ بھی کرتا ہوں اسے کرنے کی خوشی تفریح ​​ہے۔ میں مہمانوں کی تفریح ​​کر رہا ہوں اور میں انہیں دیکھ کر، صرف مسکرانے اور کریک اپ کرنے کی توانائی کھاتا ہوں،” لی بلینک نے کہا۔ اس کی آواز میں یاد کے ہر لمحے کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔ “اور میں بہت ذہین ہوں، اس لیے میں لوگوں سے مقابلہ کرتا ہوں – اگر کوئی خاتون مسکرا نہیں رہی ہے، تو میں کہوں گی – ‘اوہ میرے خدا، ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اس محبت بھرے احساس کو واپس لانا ہوگا۔’ تو یہی مایوس کن ہے۔ ایسا ہی ہے، واہ، میں لوگوں کو اچھا وقت دینے کے لیے بہت پیار اور بہت کوشش کر رہا ہوں، جیسے کسی اداکار، کسی بھی مزاح نگار کی طرح۔ تو ہاں، یہ پریشان کن ہے، بالکل انسٹاگرام کے آس پاس ہونے پر میرے پاس کام کی مقدار کے ساتھ، جاری رکھنا ایک چیلنج ہے، لیکن میں اپنا سر اٹھاتا ہوں۔”
‘مشن: ناممکن 8’ کی شوٹنگ کے دوران ٹام کروز کو ہوائی جہاز کے ونگ سے لٹکتے ہوئے دیکھا گیا
لی بلینک نے سان ڈیاگو کامک کان میں ایک سال کا ایک لمحہ بھی یاد کیا جب وہ کروز سے ملاقات سے لے کر “ناممکن مشن“سٹار شائقین کو سلام کرنے کے لیے منتخب نہیں ہوئے۔
اداکار کے قریبی اسٹوڈیو کے اہلکاروں نے لی بلانک سے کہا کہ کروز یہ خیال نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے سب سے بڑے حامی کے ساتھ آمنے سامنے آسکتا ہے جو “دو فٹ لمبا” تھا اور جس کی پہلی زبان فرانسیسی ہے۔
Tumblr media
کینیڈین جیروم لی بلینک تب سے TikTok پر چلا گیا ہے، جہاں وہ “ٹاپ گن” ہیرو ماورک کے طور پر نصف ملین سے زیادہ پیروکاروں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ (بشکریہ جیروم لی بلینک)
“میرا مقام بہت خاص ہے۔ میرا مطلب ہے کہ میرے پاس ایوی ایشن کے لوگ مجھ سے رابطہ کر رہے ہیں، نیوی کے لوگ۔ میرا مطلب ہے کہ میں مسلسل گریجویشن کرتا ہوں،” لی بلانک نے کہا۔ “یہاں تک کہ ٹام کروز کے دوسرے پرستار بھی مجھے کہیں گے، ‘آپ بہت شائستہ ہیں’ اور یہ صرف تازہ دم ہے۔ یہ ایک اچھی تعریف ہے۔”
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
انسٹاگرام پر پابندی کے باوجود، لی بلینک نے کہا کہ وہ اس دن کے لیے ترس رہے ہیں جب وہ کروز سے ملیں گے اور کہا کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ اداکار کو جسمانی طور پر کیسے مخاطب کریں گے۔
“یہ ہمیشہ میرے ذہن میں آتا ہے، میں اس سے کب ملوں گا؟ اور میں خود کو جانتا ہوں، جیسے ہی میں اسے دیکھوں گا، میں شیشے اتار دوں گا اور میں وہی ہوں گا اور صرف اس کا ہاتھ ہلا دوں گا،” لی بلینک نے تصور کیا۔ “میں یہاں اس کے ساتھ رہنے یا اسے ‘جو زیادہ زور سے ہنستا ہے’ یا ‘جس کی مسکراہٹ بہتر ہے’ بنانے کے لیے نہیں ہوں۔
ہمارے تفریحی نیوز لیٹر کے لیے سائن اپ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
“یہ تقریباً ایسا ہی ہے، ‘ارے، ہیٹس آف۔ آپ نے جو بھی اداکاری کی اس کے لیے آپ کا شکریہ کیونکہ اس نے مجھے ایک اچھا کردار دیا جس کے ساتھ مجھے ادا کرنا پڑا اور میں واقعی میں آپ کے کردار سے لطف اندوز ہوا اور ہمارے پاس ایک جیسی مسکراہٹ ہے – تو ایک جیسی دلکشی، شاید ?’ اور یہ وہی ہے جو لوگ پسند کرتے ہیں، اور یہی وہ 1986 سے یاد کرتے ہیں۔
Source link
0 notes
abdullahshaheen65 · 3 years
Text
پی ٹی ایم پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بدکرار عورتوں کو ہتھیار کی طرح استعمال کر رہی ہے۔ گلالئی اسمعیل، ثناء اعتجاز اور ڈاکٹر فوزیہ وغیرہ کو لانچ کرنے بعد منظور کا یہ جملہ پی ٹی ایم میں خاصہ مقبول ہوا تھا کہ " گرانہ وطنہ جینکے بہ دے گٹینہ"۔
تاہم بدکردار عورتوں کی مدد پراپگینڈے کرنے کا یہ طریقہ نیا نہیں ہے۔ منظور کی پشت پناہی کرنے والے اس کو بہت پہلے سے پاکستان کے خلاف آزما رہے ہیں۔
آئیں آج اس پر کچھ بات کرتے ہیں۔
1988ء سے 2000ء کے درمیانی عرصے میں مغربی این جی اوز افواج پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے پاکستان کے دفاعی بجٹ کے بارے میں مسلسل پراپیگینڈا کرتی رہیں۔
اس دور میں شدومد سے یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ پاک فوج 80 فیصد بجٹ کھا جاتی ہے۔
یہ جھوٹ اراکین پارلیمنٹ تک کی زبانوں پر چڑھ گیا اور کسی ایک شخص نے اس کو چیک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
یہ این جی اوز مختلف لڑاکا طیاروں کی قیمتوں کا موازنہ تعلیم اور صحت کے لیے مختص بجٹ کے ساتھ کرتی تھیں اور رائے عامہ کو افواج پاکستان کے خلاف کرتی تھیں۔
اس بحث کو بل کلنٹن نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر اپنی ایک تقریر میں مزید تقویت دی۔ جب اس نے کہا کہ پاکستانی قوم کو مونگ پھلی، جوار اور گندم کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ ایف 16 طیاروں کی۔ یاد رہے کہ ان طیاروں کی پاکستان قیمت ادا کر چکا تھا اور امریکہ طیارے دینے پر آمادہ نہ تھا۔ بل کلنٹن نے یہ تقریر 2000ء میں اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر کی تھی۔
تاہم ان کوششوں کو کوئی خاص عوامی پزیرائی نہ مل سکی۔ 2000ء کے بعد انہوں نے افواج پاکستان کے مورال اور سالمیت کو نشانہ بنانے کے لیے طوائفوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
مغرب میں طوائف ہونا کوئی خاص جرم نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ پورن انڈسٹری کی ترقی کے بعد ان کو سیلیبریٹیز کی حیثیت دی جاتی ہے۔ طوائفوں کے ساتھ ملوث ہونے کو افراد کا ذاتی فعل قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مغرب میں عورت کی عزت لوٹنا بھی بہت زیادہ گھناؤنا جرم نہیں سمجھا جاتا۔
اس کے برعکس پاکستان میں کسی طوائف کا کسی شخص پر محض الزام لگا دینا ہی اس شخص کی ذات، خاندان، قبیلے حتی کہ اس ادارے تک کو متاثر کرتا ہے جہاں وہ کام کر رہا ہے۔
ریاستی معاملات میں طوائفوں کا استعمال تقسیم سے قبل بھی تھا اور برطانیہ ان کو اپنی گرفت مضبوط رکھنے اور مقامی قیادتوں کو عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
اگر آپ پشتون ہیں تو شائد آپ یقین نہ کریں کہ "بڈہ بیرے کا زبیر" بھی اسی چال کا شکار ہونے والا ایک کردار تھا۔
زبیر پشاور کے علاقے بڈہ بیر سے تعلق رکھنے والا ایک غیرت مند پشتون تھا۔ یہ انگریزوں کے خلاف کام کرنے والا ایک غیر سیاسی کردار تھا جس کا کافی بڑا حلقہ اثر تھا۔
جب برطانوی راج اسکی سرگرمیاں روکنے میں ناکام رہی تو اس مضبوط شخص کے خلاف مقامی برطانوی نمائندوں نے ایک سازش تیار کی۔
اس وقت جب زبیر کی عمر 60 کا ہندسہ عبور کر چکی تھی برطانیہ نے کمار گلا نامی ایک طوائف کو زبیر کے خلاف ھائر کیا۔
21 ستمبر 1935ء کو کمار گلا کی شکایت پر زبیر کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ دائر کیا گیا اور 10 جنوری 1936ء کو زبیر کو ڈھائی سال قید اور 15 روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔
بحوالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
FIR No.34, Ellat No.109 Dated 21-9-1935 A.D, Thana Badabera
جبکہ کمار گلا کو نہ صرف 15 روپے انعام سے نوازا گیا بلکہ اس کو تاج برطانیہ کی آفیشل طوائف کی حیثیت بھی دی گئی۔ آپ کو کیا لگتا ہے کمار گلا کو انعام کس چیز کا دیا گیا تھا؟ عزت لٹنے کا زیبر کو خاموش کرنے کا؟
کمار گلا کے اس کیس کو اس وقت خوب اچھالا گیا۔
زیبر کو حاصل تمام تر عوامی حمایت یکلخت ختم ہوگئی اور وہ مکمل طور پر تنہائی میں چلا گیا۔ پشتونوں میں ایک نئے محاورے نے جنم لیا کہ " غم بہ ی دا بڈہ بیرے زیبر کوی "
مغرب کی یہ پریکٹس آج بھی جاری ہے۔
ماضی قریب میں مظفر گڑھ سے تعلق رکھنےو الی ایک تجربہ کار طوائف مختاراں مائی کے زریعے یہ کھیل کھیلا گیا اور پھر اپنے طاقتور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں اسکی بھرپور تشہیر کی گئی۔
مختاراں مائی کو بے پناہ دولت اور شہرت ملی جبکہ پاکستان کو عالمی سطح پر زبردست قسم کی بدنامی۔
اگر مختاراں مائی کی عزت لٹی تھی تو اس کو انعامات کس چیز کے دئیے جا رہے تھے؟ عزت لٹنے کے یا پاکستان کے نامم پر دھبہ لگانے کے؟
درحقیقت مختاراں مائی والے تجربے کے بعد مغرب کے ہاتھ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور افواج پاکستان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا ایک خطرناک ہتھیار ہاتھ آگیا۔
ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ بھی ایسا ہی ایک کیس تھا۔ ڈاکٹری کے معزز پیشے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ مغربی این جی اوز کے ہاتھوں طوائف بننے پر تیار ہوگئیں۔
ڈاکٹر شازیہ کے ذریعے نہ صرف افواج پاکستان کو دھچکا دیا گیا بلکہ بلوچستان میں بغاوت برپا کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔
ڈاکٹر شازیہ کو پاکستان کے حساس ترین مقام ڈیرہ بگٹی بلوچستان میں افواج پاکستان کے خلاف ھائر کیا گیا۔ پاک فوج کے کیپٹن حماد کے خلاف ریپ کا ایک فیک ڈراما تیار کیا گیا۔ ڈاکٹر شازیہ نے وہی کھیل کھیلا جو 1935ء میں کمار گلا نے بڈہ بیرے کے زبیر کے خلاف کھیلا تھا۔
نتیجہ بھی بلکل ویسا ہی رہا۔
اس جعلی ڈرامے کے فوراً بعد پاکستان میں موجود مغربی سپانسرڈ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اس واقعے کو بے پناہ کوریج دی اور خوب اچھالا۔
اس ڈرامے نے افواج پاکستان کی ساکھ کو بالعموم اور بلوچستان میں بلخصوص متاثر کیا، بلوچستان کا امن تباہ کیا اور نواب اکبر بگٹی کی جان بھی لی۔
البتہ سرفراز بگٹی کا دعوی ہے کہ نواب اکبر بگٹی ڈاکٹر شازیہ والے اس کھیل سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اسکا حصہ بھی تھا۔
کیا یہ بات دلچسپ نہیں کہ ڈاکٹر شازیہ اس ڈرامے سے پہلے ہی خواتین کے لیے کام کرنے والی کچھ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ تھیں؟ :)
ڈاکٹر شازیہ کو دنیا بھر کی ہمدردیاں، مغرب کا پاسپورٹ اور بے پناہ انعام و اکرام سے نوازا گیا جس نے اس کو فکر معاش سے آزاد کر دیا۔
کیا یہ انعام و اکرام اس لیے تھا کہ مبینہ طور پر اس کی عزت لٹی تھی؟
یا یہ اس خدمت کی قیمت تھی جس نے پورے بلوچستان میں زلزلہ برپا کر دیا تھا؟
ضلع کرک سے تعلق رکھنے والی عظمی ایوب بھی این جی اوز ہی کی ہی متعارف کردہ طوائف تھی۔ اس نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے خلاف بلکل شازیہ کے انداز میں گینگ ریپ کا ڈراما کیا۔
اس ڈرامے نے پشاور ھائی کورٹ کی توجہ حاصل کی اور میڈیا میں بھی جگہ بنائی۔ لیکن بدقسمتی سے ڈرامے کی ڈائرکشن کافی کمزور رہی۔ تاہم عظمی ایوب سول کالونی میں پشاور ھائی کورٹ کے حکم پر ایک انتہائی مہنگا فلیٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ لیکن عظمی ایوب عالمی پزیرائی حاصل نہ کر سکیں کیونکہ وہ ڈاکٹر شازیہ کی طرح زلزلہ برپا کرنے میں ناکام رہیں۔
غالب گمان ہے کہ 2009ء میں ریلیز ہونے والی سوات کی بدنام زمانہ ویڈیو میں بھی ایسی ہی کسی لڑکی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اس ویڈیو کو پاکستان کی اعلی عدلیہ سمیت کئی تحقیقاتی اداروں نے جعلی قرار دیا۔ بقول ان کے ویڈیو سٹیج کی گئی تھی۔
اس وڈیو کی پاکستانی میڈیا نے بھرپور تشہیر کی تھی۔ ویڈیو کا مقصد پاک فوج پر پاکستانی عوام اور عالمی برادری کا دباؤ بڑھانا تھا تاکہ وہ اپنی ہی سرزمین پر جنگ کر سکیں اور پاک فوج کو سوات کی پیچیدہ وادیوں میں پھنسایا جا سکے۔
ویڈیو اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف پہلا کے پی کے کے پہاوڑوں میں پہلا بڑا آپریشن لانچ کیا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ افواج پاکستان نے ناقابل یقین تیزی سے یہ آپریشن مکمل کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔
شرمین عبید چنائے بھی ایک عالمی طوائف ہی ہے۔ عام طوائف اپنا جسم بیچتی ہے لیکن شرمین عبید جیسی طوائفیں پورے قوم کے وقار اور عزت کا سودا کرتی ہیں۔ شرمین عبید نے غریب پاکستانی عورتوں کو دھوکہ دیا جن کے چہرے تیزاب پھینکے جانے سے بگڑ گئے تھے اور اس وعدے پر انکی ڈاکومینٹری ویڈیوز بنائیں کہ وہ انکا علاج کرے گی۔ ان ویڈیوز کے زریعے اس نے دنیا کے سامنے پاکستانی معاشرے کی منفی تصویر کشی کی اور پاکستان کو خواتین کے لیے ایک غیر محفوظ ملک ثابت کیا۔
غریب عورتوں کو دھوکہ دینے اور پاکستانی معاشرے کے خلاف منفی مواد تیار کرنے پر شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ، عالمی شہرت اور بے پناہ دولت سے نوازا گیا۔
ویڈیوز بنانے والے کئی ماہرین کے نزدیک ان کی ویڈیوز میں سوائے اس کے اور کوئی خوبی نہیں کہ ان میں پاکستان پر تنقید کی گئی ہے۔
نام نہاد ملالہ یوسفزئی (ملالہ "یوسفزئی" نہیں بلکہ "ملاخیل" ہے) اس پیشے سے وابستہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا تیار کردہ سب سے بڑا کردار ہے۔ ضلع شانگلہ شاہ پور سے تعلق رکھنے والی ملالہ کا خاندان لنڈی خاص مینگورہ ضلع سوات میں نوے کی دہائی میں منتقل ہوا۔
ملالہ یوسفزئی کے لالچی باپ ضیاالدین یوسفزئی کو سی آئی اے نے بی بی سی کی مدد سے ھائر کیا۔ بی بی سی کے کاکڑ اور بٹا گرام سے تعلق رکھنے والے احسان داور نے ضیاالدین کو بی بی سی کے لیے "ڈائریز" کے نام پر جعلی اور انجنریڈ خطوط لکھنے کےلیے تیار کیا۔ عائشہ نامی لڑکی کے انکار کے بعد ضیاالدین یوسف زئی نے اس کام کے لیے اپنی بیٹی ملالہ پیش کی۔ ملالہ کے لیے گل مکئی کا قلمی نام تجویز کیا گیا۔
یہ ڈائریاں مبالغے سے بھرپور اور دہشت گردوں ( سی آئی اے ہی کی زرخرید ایجنٹس) کی کامیابیوں پر رننگ کمنٹریاں تھیں۔ انکا مقصد عوام کا مورال ڈاؤن کرنا، پاک فوج کو آپریشن کے لیے مجبور کرنا اور دنیا کو یقین دلانا تھا کہ پاکستانی ریاست اپنے کئی علاقے کھو چکی ہے اور دہشت گرد اسلام آباد کے قریب ہیں۔
گل مکئی کے نام سے لکھے گئے ان جعلی خطوط اور پاکستانی میڈیا نے لال مسجد والے واقعے کے ساتھ ملکر اس ساری صورت حال کو جنم دیا۔ لال مسجد کیس میں سی ڈی اے کے کچھ عناصر نے غیر ملکی اشارے پر اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں اچانک 7 مساجد کو گرانے کا حکم دیا جس کے بعد وہ سارا کھیل شروع ہوا۔
ملالہ کو ھالینڈ نے امن کے ایوارڈ سے نوازا۔ جبکہ پاک فوج کے ہاتھوں شکست کھانے والے دہشت گردوں کو سی آئی اے نے افغانستان کے صوبوں کنڑ اور نورستان میں امریکہ اور نیٹو کی چھتری تلے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ جہاں سے پاکستان میں انکی کاروائیاں آج بھی جاری ہیں۔
پی ٹی ایم نے طوائفوں کی اس فہرست میں مزید اضافہ کیا۔
پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والی گلالئی اسمعیل، بشری گوہر، ثناء اعجاز، آئینہ درخانی، جلیلہ حیدر اور گل بخاری جیسی درجنوں بدکردار عورتیں متعارف کرائیں۔
ان میں سے ہر ایک اپنا انعام لینے کی متمنی ہے۔
ہر ایک کسی نہ کسی مغربی ملک کی شہریت لے چکی ے یا لینے والی ہے۔
پی ٹی ایم نے البتہ ظلم کیا یہ کہ ان بدکردار طوائفوں کو پشتونوں کی " ملی مشرے" قرار دے ڈالا۔
بی بی سی نے مختلف این جی اوز کے ساتھ ملکر پاکستان دشمن ایجنسیوں کے تعاؤن سے پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مسلط کیا۔
این جی اوز دہشت گردی کے لیے زمین ہموار کرتی رہیں تو پاکستانی میڈیا تمام دہشت گردانہ واقعات کو براہ راست نشر کر کے لوگوں کے دلوں میں دہشت پھیلاتا رہا اور یوں ریاست کو غیر مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
جبکہ پاک فوج اپنی ہی سرزمین پر اپنی جانیں دے کر دہشت گردوں کے چنگل سے پاکستانی علاقے چھڑاتی رہیں۔
پاکستانی عوام کا اپنے دفاع پر بھروسہ توڑنے کے لیے پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھے گئے۔
طالبان سے خفیہ روابط رکھنے والے ریمنڈ ڈیوس نے پاکستانی سرزمین پر پاکستانی ایجنسیوں کے دو اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ دیت کے ذریعے اسکی رہائی کا حکم جاری کرنے والی ہماری بے مثل عدلیہ کا خطرناک کردار ارباب خان نامی مجسٹریٹ جیسا ہی تھا جس نے 80 سال قبل بڈہ بیرے کے زبیر کو سزا سنائی تھی
۔
خلاصہ یہ کہ
عوام میں پاک فوج کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے مغرب کو پاکستان کو نیوکلئیر ہتھیاروں سے غیر مسلح کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
اس لیے پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے مغرب نے طوائفوں کے ذریعے پاک فوج کو بدنام کرنے کی کوششیں کیں تاکہ عوام اور افواج میں دوریاں پیدا کی جا سکیں بلکل ویسے ہی جیسے حکومت برطانیہ نے بڈہ بیرے کے زبیر کے ساتھ کیا تھا۔
کیا آپ نوٹ نہیں کر رہے میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود مغربی کٹھ پتلیوں کا سارا زور اسی پر ہے کہ کسی طرح عوام میں افواج کے خلاف نفرت پیدا کی جا سکے۔
آپ یقین کییجیے وہ وقت دور نہیں جب تھک ہار کر عالمی طاقتیں پاکستان کے سامنے دو آپشنز رکھیں گی کہ یا تو خود ہی اپنے ایٹمی اثاثوں سے دست بردار ہوجاؤ یا ہم بذریعہ طاقت تمھاری یہ صلاحیت ختم کرتے ہیں اور اسکا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہو۔
بلکل ایسے ہی آپشنز عراق کے صدام حسین، لیبیا کے معمر قضافی اور شام کے بشارلاسد کے سامنے رکھے گئے تھے۔
پے در پے 10 سالہ جمہوری دور میں پاکستان کو معاشی طور پر اس قدر تباہ کر دیا گیا ہے کہ بل کلنٹن کی طرح کوئی اور امریکہ صدر بھی پاکستانی عوام کو پیغام دے سکتا ہے کہ " تمھیں ایٹمی ہتھیاروں کی نہیں گندم اور مونگ پھلی کی ضرورت ہے " اور اس وقت بہت سے لوگ سر ہلاتے ہوئے کہیں گے کہ " ہاں یہ تو سچ کہہ رہا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں نے ہمیں کیا دیا "
دوسری طرف میرے سادہ دل بٹھکے ہوۓ پختوں اور پشتون بھائی کا استمال دل کھول کر پی ڈی ایم کر رہی ہے
قوم پرستوں کے نام چند موٹی موٹی باتیں ۔۔۔۔۔۔ !
جنگ صرف پشتون علاقوں میں ہی کیوں؟
کیونکہ پشتون علاقے میدان جنگ یعنی افغانستان کے بارڈر پر ہیں۔
افغانستان سے بھیجے جانے والے دہشت گرد پہلے فاٹا اور کے پی کے میں ہی داخل ہوتے ہیں۔
فاٹا میں ہی دہشت گردوں نے اپنے مراکز قائم کیے تھے اور فاٹا کو ہی فتح کیا تھا۔
تب ان کے خلاف جنگ کیا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لڑی جاتی؟؟
----------------------------
دہشت گردوں کی ریہرسل پشتونوں کا حلیہ کیوں بنایا جاتا ہے؟
اصل دہشت گردوں کی ویڈیوز موجود ہیں اور ان کو حقیقی زندگی میں دیکھنے والے لاکھوں لوگ بھی۔
کیا ریہرسل میں جو حلیے بنائے جاتے ہیں وہ اصل دہشت گردوں کے حلیوں سے مختلف ہوتے ہیں؟
یا آپ چاہتے ہیں کہ ان کو تہمبند باندھ کر ہاتھوں میں حقے پکڑائے جائیں؟
------------------------
دہشت گردی کا زیادہ تر شکار پشتون ہوئے ہیں!
تو کرنے والے کون تھے؟
دہشت گردوں کے سارے امیراور جنگجوؤں کی اکثریت پشتون ہی تھی بلکہ مقامی تھی یا پھر پشتونوں کی پناہ میں آئے ہوئے ازبک اور عرب۔ جبکہ کمانڈ کرنے والے افغانستان میں بیٹھے افغانی۔ جو پشتونوں ہی کی ایک نسل ہے۔
اس کے باؤجود فاٹا اور کے پی کے کے بعد سب سے زیادہ حملے پنجاب میں ہوئے ہیں!
-----------------------
پاک فوج نے بارودی سرنگیں بچھائی ہیں وہ ساری صاف کریں!
یہ سرنگیں انہوں نے کب بچھائیں؟
کیا آپریشن سے پہلے؟
تب کیا دہشت گرد سکون سے بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہے؟
یا آپریشن کے بعد؟
آپریشن کے بعد اسکی کیا ضرورت تھی بلکہ آپریشن سے پہلے بھی پاک فوج کو بارودی سرنگیں بچھانے کی کیا ضرورت؟
آج تک نہیں سنا کہ باردوی سرنگ کے دھماکے میں دہشت گرد ہلاک ہوئے البتہ پاک فوج کی ہی شہادتوں کی خبریں آتی ہیں۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ براہ راست حملوں کے بعد پاک فوج کی سب سے زیادہ شہادتیں بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں ہی ہوئیں ہیں۔
جہاں تک صاف کرنی کی بات ہے تو پاک فوج ان کو مسلسل صاف کر رہی ہے لیکن یہ کس نے گن رکھے ہیں کہ کتنی ہیں اور کون یہ بتائیگا کہ " ہاں اب ساری صاف ہوگئی ہیں؟"
---------------------
غائب ہونے والے قبائیلی واپس کریں!
یہی مسنگ پرسنز کا کھیل بلوچستان میں بھی کھیلا گیا کہ غائب ہونے والے بلوچی واپس کریں۔ بعد میں واضح ہوگیا کہ انکی اکثریت یا بی ایل اے کے ہاتھوں ماری گئی ہے یا وہ ان کے ساتھ ملکر گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔
یہ کہاں ثابت ہوا ہے کہ مسنگ پرسنز کتنے ہیں اور پاک فوج ہی کے پاس ہیں؟
-----------------
فوج کی آمد سے پہلے پشتون مغربی سرحد کے محافظ تھے اور امن تھا!
مغربی سرحد سے حملہ کب ہوا تھا جس کو پشتونوں نے روکا ہو؟
امن اس لیے تھا کہ وہاں سے کوئی حملہ نہیں ہوا تھا۔
دہشت گردوں کی شکل میں جیسے ہی پہلا حملہ ہوا، حملہ آوروں نے صرف چند ماہ کے اندر اندر پورے فاٹا کو فتح کر لیا۔
تب کیا پاک فوج پشتونوں کی ذلت اور گردنیں کٹنے کا تماشا دیکھتی رہتی؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وزیرستان کا آپریشن جنرل طارق خان نے کیا تھا جو ٹانک سے تعلق رکھنے والا ایک پشتون ہے۔
--------------------
پنجابیوں نے کے پی کے کو پسماندہ رکھا!
بھلا کیسے؟
پنجاب اور کے پی کے میں ترقی کا جو فرق ہے وہ شائد سینکڑوں سال پرانا ہے اور اسکی بنیادی وجہ پنجاب کی زرخیز زمینیں اور وافر پانی ہے۔ جس سے کے پی کے کا اکثر حصہ محروم ہے۔
قیام پاکستان کے بعد بھی اگر یہ فرق برقرار ہے تو چند سیدھی سادی باتیں سن لیجیے!
پاکستان پر ایوب خان، یحیی خان اور صدر غلام اسحاق خان کی شکل میں پشتون حکمران رہے انہوں نے یہ فرق دور کیوں نہیں کیا؟
ضیاءالحق اور پرویز مشرف بیس سال حاکم رہے جو مہاجر تھے۔
ان کے علاوہ ذولفقار علی بھٹو، بے نظیر اور زرداری حکمران رہے جو کہ سندھی تھے۔
نواز شریف کو اگر آپ پنجابی سمجھتے ہیں تو وہ پچھلے تیس سال سے پنجاب کا حکمران ہے اور اسی نواز شریف کو تمام پشتون قوم پرست "مشران" اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیتے ہیں۔ :)
تب ذمہ دار کون ہے؟
دوسری بات سینکڑوں سال پرانا یہ فرق مٹانے کے لیے پاکستان کر امریکہ اور چین کا سارا بجٹ درکار ہوگا تاکہ پورے پاکستان کو ازسر نو تعمیر کیا جا سکے!
نیز فنڈز کی تقسیم میں آبادی کے حساب سے بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ حصہ کے پی کے کو ملتا ہے اور سب سے کم پنجاب کو۔
لیکن ٹیکس کلیکشن میں سب سے بڑا حصہ پنجاب سے وصول کیا جاتا ہے۔
تقریباً 6 کروڑ پشتون آبادی میں سے صرف ڈھائی کروڑ کے قریب کے پی کے اور فاٹا میں آباد ہے باقی ساڑے تین کروڑ کو پنجاب اور کراچی نے سنبھال رکھا ہے۔
ہم نے کتنے پنجابیوں کو اپنے ہاں بسا رکھا ہے؟
---------------------
نقیب اللہ کے قاتل کو پکڑو!
ضرور پکڑو
اسکا ایک قاتل راؤ انوار نامی مہاجر ہے اور دوسرا امان اللہ مروت نامی پشتون۔
مرکز میں اچکزئی، اسفند یار ولی اور فضل الرحمن کے اتحادی نواز شریف کی حکومت ہے اور سندھ میں انہی تینوں کے اتحادی زرداری کی۔
راؤ انوار زرداری کا خاص بندہ ہے کون نہیں جانتا!
کیوں نہیں پکڑواتے؟
ویسے کبھی حساب کیا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ہر سال کتنے پنجابیوں کا انکاؤنٹر ہوتا ہے؟ ماڈل ٹاؤن میں تو انکی عورتوں کی منہ پر پولیس نے گولیاں ماریں۔ انہوں نے تو کبھی پاکستان کو گالیاں نہیں دیں!
----------------------
پنجاب ہماری بجلی اور گیس کھا جاتا ہے۔
تو کیا ہم ان کا چاول اور آٹا نہیں کھاتے؟
گھی کہاں سے آتا ہے؟
کیا پشاور میں پیا جانے والا زیادہ تر دودھ پنجاب سے نہیں آتا؟
اگر ہم پیسے دیتے ہیں تو پنجابی بھی اس گیس اور بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔
ہاں البتہ فاٹا میں آباد ہماری 60 سے 80 لاکھ آبادی بجلی کے بل سے مستثنی ہے جس کا کفارہ بقیہ پاکستان ادا کرتا ہے۔
کیا وہ ساڑے تین کروڑ پشتون جو بقیہ پاکستان میں آباد اور ان وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں، ویسٹ انڈیز سے آئے ہیں؟
ویسے کی پی کے میں قائم ورسک اور تربیلا ملا کر بمشکل 2000 میگاواٹ بجلی پیدا نہیں کر رہے جبکہ پاکستان میں اس وقت 12000 سے 14000 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔
یہ زائد بجلی کہاں سے آرہی ہے؟
یہ اس تیل سے بن رہی ہے جو خریدنے کے لیے 80 فیصد سے زائد رقم ٹیکس کی شکل میں پنجاب اور سندھ ادا کرتا ہے۔ کیا انہوں نے کبھی گلا کیا؟؟
ویسے پاکستان کی پیداوار کا 60 فیصد گیس اس وقت سندھ پیدا کر رہا ہے البتہ تیل کا بڑا حصہ کے پی کے پیدا کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کی ضرورت 4 لاکھ بیرل ہے جبکہ کے پی کے تقریباً 50 ہزار بیرل پیدا کرتا ہے۔
باقی ساڑھے تین لاکھ بیرل کہاں سے آتا ہے؟
تین لاکھ بیرل پاکستان خریدتا ہے اس ٹیکس سے جس کا 80 فیصد سندھ اور پنجاب ادا کرتے ہیں اور بڑا حصہ پنجاب۔
بجلی کی ایک اور بات بھی سن لیں۔
کیا ہماری یہ بدمعاشی کافی نہیں ہے کہ ہم نے پچھلے چالیس سال سے پنجاب کو خود اسکی سرزمین ( میاںوالی میں ) کالاباغ ڈیم نہیں بنانے دیا۔
اس ڈیم کے نہ بنانے سے پنجاب اور پورے پاکستان کو جتنا نقصان ہورہا ہے وہ پاکستان کے کل قرضے کے قریب قریب ہے۔ کیا انہوں نے گلا کیا؟؟
اور ایک آخری بات۔
اپنی دستکاریوں کے لیے مشہور پنجاب کا صرف ایک ضلع سیالکوٹ محض اپنے ہاتھوں کی محنت سے پورے کے پی کے سے زیادہ کما کر دیتا ہے۔ ان کو کوئی خاص حکومتی سپورٹ بھی حاصل نہیں۔ بلکہ سنا ہے انہوں نے ائر پورٹ تک اپنے لیے خود بنایا ہے۔
کیا ہم پشتونوں کے ہاتھ نہیں ہیں؟ بلکہ ہمارا دعوی ہے کہ ہم پنجابیوں سے زیادہ جفاکش ہیں۔ تو ہم کیوں نہیں کرتے؟
کس نے روکا ہے؟
یا ہمیں کوئی پلیٹ میں رکھ کر پیش کرے؟
-----------------------------------
خدا کے لیے ھوش میں آؤ۔
کبھی اسلام کے نام پر،
کبھی سرخوں سے متاثر ہو کر سوشلزازم کے نام پر،
اور اب حقوق کے نام پر ہر وقت اپنی ہی ریاست کے خلاف جنگ پر آمادہ مت رہو۔
امریکہ خود ہی ڈرون مارتا ہے اور پھر ڈیوا، مشال اور وائس آف امریکہ کے ذریعے تمھیں اکساتا بھی ہے کہ تم پر ڈرون ہوا ہے جسکا ذمہ دار پاکستان ہے، بدلہ لو۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستان کے پشتونوں کے لیے دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک افغانستان ہے جہاں جان کی ضمانت نہ ہو تو افغانی ان کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے؟ اس وقت ان کو "لر و بر" یاد نہیں آتا؟
وہ افغانی تمھیں ان پنجابیوں کے خلاف اکسا رہے ہیں جو تمھارے لیے جانیں دے رہے ہیں!
کچھ تو عقل کرو!
اگر کسی مجب وطن پشتوں یا پختون کی دل ازاری ہوئی ہو تو دل سے معزرت
.
0 notes
pakistantime · 3 years
Text
افغانستان میں امن اور پاکستان کیلئے آپشنز
کئی سالوں کی داخلی لڑائی اور بیرونی فوجی مداخلت کے بعد افغانستان داخلی امن اور سیاسی استحکام کی تلاش میں ہے۔ یہ ایک طرف سوویت یونین/ روس جبکہ دوسری جانب امریکہ اور قدامت پسند مسلم ریاستوں کے مابین پراکسی جنگ کا شکار رہا۔ بعد میں یہ دہشت گرد گروہوں‘ جنہوں نے عالمی سطح پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا‘ کے خاتمے کے نام پر امریکی فوجی حملے کا نشانہ بنا۔ اس طرح کے ملک کو معاشرتی ہم آہنگی، امن اور بڑے پیمانے پر حمایت یافتہ گورننس سسٹم قائم کرنے میں ہمیشہ بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ملک تن تنہا اہم فیصلے نہیں کر سکتا کیونکہ متعدد بیرونی کھلاڑی یا تو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے داخلی کھلاڑیوں میں اپنے سٹیکس بنا لیتے ہیں یا وہ ایسے ملک کو اپنے عالمی اور علاقائی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
افغانستان کی خوش قسمتی ہے کہ عالمی برادری نے اب افغانستان کے داخلی مسائل کے فوجی حل کے بے نتیجہ ہونے کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں امن اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔ 2 دسمبر کو طالبان اور کابل حکومت کے مابین بات چیت میں ایک اہم پیش رفت ہوئی، جب فریقین نے 'وے فارورڈ معاہدے‘ پر دستخط کیے۔ اس معاہدے نے انٹرا افغان بات چیت کا فریم ورک مہیا کر دیا ہے۔ اس دستاویز کی یہ اہمیت ہے کہ طالبان نے افغانستان میں امن کے قیام کیلئے کابل حکومت کو باضابطہ طور پر ایک جائز فریق تسلیم کر لیا ہے۔ طالبان نے ہمیشہ حکومت کی آزاد حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے امریکہ کی کٹھ پتلی قرار دیا۔ اگرچہ طالبان نے رواں سال ستمبر میں کابل حکومت کے ساتھ حالیہ بات چیت کا آغاز کیا تھا، لیکن وہ کابل حکومت کی جوازیت پر سوال اٹھاتے رہے۔ اب انہوں نے کابل حکومت کے ساتھ امن عمل کیلئے بات چیت کو آگے بڑھانے کے فریم ورک پر اتفاق کر لیا ہے۔
تازہ ترین معاہدہ 2020 میں تیسری بڑی پیشرفت ہے۔ پہلی اہم پیشرفت فروری میں ہوئی جب طالبان اور امریکہ نے دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے‘ جس نے فریقین کے مابین تناؤ کو کم کرنے کی راہ ہموار کی اور امریکیوں کے لئے یہ ممکن بنایا کہ اپنی کچھ فوج واپس لے جا سکیں۔ دوسری بڑی پیشرفت ستمبر میں طالبان اور کابل حکومت کے مابین بات چیت کا آغاز تھا۔ ستمبر میں انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے دور کے بعد سے، ان مذاکرات کے حق میں ڈپلومیسی اس بات کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم عمل ہو گئی تھی کہ طالبان اور افغان حکومت افغانستان میں امن اور اقتدار کے اشتراک پر متفق ہو جائیں۔ افغانستان میں مفاہمت کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی، زلمے خلیل زاد نے ستمبر تا نومبر تین بار پاکستان کا دورہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو دوحہ آئے اور انہوں نے 21 نومبر کو طالبان رہنماؤں اور کابل حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ 
سب سے اہم پیشرفت افغانستان اور پاکستان کے مابین سفارتی دورے تھے۔ افغانستان سے پاکستان کے دورے کئے گئے۔ ان میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار کا دورہ شامل ہے، جبکہ افغان پارلیمنٹ کے سپیکر کی سربراہی میں افغان وفد نے بھی دونوں ملکوں کے مابین تجارتی اور معاشی تعلقات بہتر بنانے کیلئے اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی۔ سب سے اہم پاکستانی دورہ وزیر اعظم عمران خان کا تھا۔ انہوں نے افغانستان میں امن مذاکرات کیلئے اپنی حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا اور افغانستان اور پاکستان کے مابین تجارتی اور معاشی تعلقات بڑھانے کی پیشکش کی۔ افغانستان میں سیاسی تصفیے کی خواہش میں تین اہم عوامل کارفرما ہیں۔ پہلا، تھکاوٹ کا عنصر: افغان عوام 1979 سے تنازعات اور جنگوں سے دوچار ہیں جس کے نتیجے میں کئی ہزار افغان جاں بحق اور پچاس لاکھ سے زیادہ مہاجر بن گئے ہیں۔ 
اب بھی، تقریباً 20 لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجروں کی حیثیت سے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ ان شورش زدہ سالوں میں معاشی اور معاشرتی زندگی عملی طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اب، طالبان اور افغان حکومت سے وابستہ افراد میں امن اور منظم زندگی کی بحالی کے لئے احساس پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے تشدد، اموات اور املاک کی تباہی کا سامنا کیا ہے۔ دوسرا، جیت کی کوئی صورتحال نہیں: طالبان اور کابل حکومت کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو پوری طرح شکست نہیں دے سکتے۔ وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا تو جاری رکھ سکتے ہیں‘ لیکن کوئی بھی دوسرے کو خارج کرنے تک افغانستان پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ کسی کو بھی افغانستان میں جنگ جیتنے کی امید نہیں ہے۔ تیسرا، امن کے لئے عالمی تعاون: بڑی طاقتیں اور ہمسایہ ریاستیں افغانستان میں داخلی امن اور استحکام کی خواہاں ہیں۔ امریکہ، روس اور چین چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے۔ پاکستان نے طالبان کو امریکہ سے مذاکرات کرنے کی ترغیب دی جس کے نتیجے میں فروری 2020 میں دونوں کے مابین معاہدہ ہوا۔ 
پاکستان نے بعد میں طالبان اور کابل حکومت کے مابین بات چیت میں آسانی پیدا کرنے میں بھی مدد دی۔ اب، پاکستان چاہتا ہے کہ فریقین افغانستان میں امن اور طاقت کے اشتراک پہ اتفاق کریں۔ پاکستان دونوں فریقوں کی مدد جاری رکھے گا لیکن افغانستان میں امن اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب طالبان اور کابل حکومت ایک دوسرے کو ایڈجسٹ کرنے اور باہمی امن معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ کریں۔ انہیں یقینی بنانا ہو گا کہ معاہدے پر عمل درآمد ہو۔ عالمی برادری ان کی مدد کرنے کیلئے تیار ہے، لیکن امن اور ہم آہنگی پر فریقین ن�� ہی راضی ہونا ہے۔ 24 نومبر کو جنیوا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جہاں امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپی ریاستوں اور جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے کچھ دیگر ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے اگلے چار سالوں میں افغانستان کو چار ارب ڈالر فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ مدد افغان حکومت اور طالبان کے داخلی امن اور اقتدار کے اشتراک پہ راضی ہونے پر ہی مفید ثابت ہو گی۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین حالیہ سفارتی تعامل خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کا پہلا دورہ کابل یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک اپنے معاشی تعلقات کو مستحکم کرنا اور دو طرفہ تجارت کو بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ افغان تجارتی اور کاروباری برادری پاکستان کے ساتھ زیادہ فعال اور جامع تجارتی تعلقات کی خواہاں ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں ایک مسئلہ درپیش ہے۔ اس کے اعلی عہدیداروں کا ایک حصہ‘ خصوصاً افغانستان کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ میں‘ پاکستان کے خلاف سخت تعصب پایا جاتا ہے۔ وہ اکثر افغان سرزمین سے پاکستان مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کیلئے بھارت کی خواہشات کا خیال رکھتے ہیں۔ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی سکیورٹی اپروچ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے سخت سکیورٹی سے سافٹ ڈپلومیسی کی طرف لانا چاہئے۔ ترجیحات میں اس طرح کی تبدیلی پاک افغانستان سرحد پر باڑ لگانے کی تکمیل کے بعد ممکن ہے۔
پاکستان کو افغانستان اور خیبر پختونخوا کے مابین کاروباری، معاشرتی اور خاندانی رابطوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ کاروبار اور تجارت، طبی علاج، تعلیم، تکنیکی تربیت، اور خاندانی تعامل کیلئے پاکستان کا رخ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ ثقافت اور کھیلوں کے شعبے میں تبادلوں سے بھی معاشرتی تعلقات کو تقویت ملے گی۔ پاکستان کو افغانستان میں انسانی فلاح و بہبود کے منصوبوں کیلئے فنڈنگ بھی جاری رکھنی چاہئے۔ معاشرتی سطح پر باہمی رابطوں اور معاشی اور تجارتی تعلقات کو بڑھا کر پاکستان‘ افغانستان میں معاشرتی سطح پر اپنے لئے مضبوط حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ عمل کابل میں طاقتور طبقے کے ایک حصے کے منفی رجحان کو بے اثر کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی  
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
shiningpakistan · 4 years
Text
رابرٹ فسک : ایک نڈر اور بے باک صحافی کی داستان
برطانوی میڈیا پلیٹ فارم ’دی انڈپینڈنٹ‘ کے مشرق وسطیٰ میں معروف نامہ نگار اور اپنے دور کے سب سے مشہور صحافی رابرٹ فسک علالت کے بعد چل بسے۔ ان کی عمر 74 برس تھی۔ فسک حکومتوں کے سرکاری بیانیے پر سوال اٹھانے اور جس چیز سے وہ پردہ اٹھاتے تھے اسے شاندار انداز میں تحریر کرنے کے سبب سے مشہور تھے۔ وہ 1989 میں ’دا ٹائمز‘ کو چھوڑ کر ’دی انڈپینڈنٹ‘ کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور تیزی سے اس کے سب سے زیادہ معروف اور ایسے مصنف بن گئے جن کی ان کے نام کے ساتھ سٹوریز کو سب سے زیادہ سرچ کیا جاتا تھا۔ وہ ڈبلن میں اپنی موت تک ’دی انڈپینڈنٹ‘ کے لیے لکھتے رہے۔ گذشتہ ہفتے تک ’دی انڈپینڈنٹ کے ایڈیٹر رہنے والے اور اب مینیجنگ ایڈیٹر کرسچیئن بروٹن نے کہا: ’نڈر، سمجھوتہ نہ کرنے والے، ثابت قدم اور ہر قیمت پر سچائی اور حقیقت کو سامنے لانے میں انتہائی پرعزم رابرٹ فسک اپنی نسل کے عظیم ترین صحافی تھے۔ انہوں نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ میں جو آگ روشن کی وہ جلتی رہے گی۔‘
فسک نے جو کچھ لکھا اس کا زیادہ تر حصہ متنازع تھا۔ ایسا لگتا ہے انہیں اس بات سے لطف آتا تھا۔ 2003 میں جب امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر حملے کی تیاری کی تو فسک نیو یارک میں اقوام متحدہ کے دفتر میں گئے جہاں انہوں نے دیکھا کہ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے جنگ کے لیے غیر متاثر کن کیس تیار کر رکھا تھا۔ انہوں نے لکھا: ’جب جنرل کولن پاول سلامتی کونسل پہنچے اور نمائندوں کے گال چومے اور اپنے بڑے بازو کے ارگرد پھیلائے تو اس وقت کھیل کا آغاز بہت خوفناک تھا۔ جیک سٹرا ان کے بڑے سے امریکی معانقے کے لیے خاصے موزوں تھے۔‘ فسک کینٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لنکاسٹر یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور فلیٹ سٹریٹ میں واقع اخبار ’سنڈے ایکسپریس‘ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے ’دا ٹائمز‘ کے لیے کام کرنا جاری رکھا جہاں وہ شمالی آئرلینڈ، پرتگال اور مشرق وسطیٰ میں مقیم رہے۔
انہوں نے لبنان کے شہر بیروت میں کئی دہائیاں گزاریں۔ وہ ساحلی علاقے میں شہر کی معروف سڑک پر واقع اپارٹمنٹ میں مقیم رہے۔ انہوں نے ایسے وقت میں جب لبنان میں کام کیا جب قوم خانہ جنگی کا شکار ہو کر منقسم تھی اور بہت سے صحافیوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ فسک نے کئی ایوارڈ حاصل کیے جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور برٹش پریس ایوارڈز شامل ہیں۔ انہوں نے متعدد کتابیں جن میں ’پٹی دا نیشن: لبنان ایٹ وار‘ اور ’دا گریٹ وار فار سویلائزیشن‘ اور ’دا کنکوئسٹ آف دا مڈل ایسٹ‘ سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے ٹرینیٹی کالج سے ڈاکٹریٹ مکمل کی اور کاؤنٹی ڈبلن کے علاقے ڈالکی میں گھر کے مالک تھے۔ انہوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا دو مرتبہ انٹرویو کیا۔ نائن الیون کے حملوں اور ان کے نتیجے میں عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے حملے کے بعد انہوں نے پاکستان افغانستان سرحد کا سفر کیا جہاں ان پر افغان مہاجرین کے ایک گروپ نے حملہ کر دیا جو مغربی طاقتوں کے ہاتھوں اپنے ہم وطنوں کی ہلاکت پر غصے میں تھے۔ انہوں نے اس واقعے کو صفحہ اول پر شائع ہونے والی مشہور رپورٹ بنا دیا جو ان کے زخمی چہرے کی تصویر کے ساتھ مکمل تھی۔
انہوں نے لکھا: ’مجھے احساس ہوا کہ وہ سب افغان مرد اور لڑکے تھے جنہوں نے مجھ پر حملہ کی۔ وہ ایسا کبھی نہ کرتے لیکن ان کا وحشی پن مکمل طور پر دوسروں، ہماری وجہ سے تھا۔ ہم جنہوں نے ان روسیوں کے خلاف ان کی جدوجہد کو مسلح کر دیا تھا اور ان کے درد کو نظرانداز کرکے ان کی خانہ جنگی پر قہقہہ لگایا اور اس کے بعد صرف چند میل کے فاصلے پر ’وار فار سویلائزیشن‘ کے لیے انہیں پھر رقم دی اور اس کے بعد ان کے گھروں پر بمباری کی اور ان کے خاندانوں کو منتشر کر دیا اور انہیں ’اضافی نقصان‘ قرار دیا۔‘ فسک جنہوں نے آئرلینڈ کی شہریت حاصل کر لی تھی ان کی آئرش صدر مائیکل ڈی ہگنز نے بھی تعریف کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں لکھا: ’مجھے رابرٹ فسک کی موت کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا۔ ان کی موت سے صحافت اور مشرق وسطیٰ پر معلوماتی تبصرے کی دنیا بہترین تبصرہ کرنے والے افراد میں سے ایک سے محروم ہو گئی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’صرف آئرلینڈ کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں نسلیں دنیا کے جنگ زدہ علاقوں میں ہونے والے واقعات اور مزید اہم یہ کہ وہ اثرورسوخ جو شائد اس جنگ کا سبب تھے، ان پر ان کے تنقیدی اور معلوماتی نکتہ نظر کے لیے انحصار کرتی تھیں۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو  
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
چین، امریکہ کشیدگی: ڈیڈلائن مکمل ہونے کے بعد چین کے شہر چنگدو میں امریکی قونصل خانے کے عمارت خالی کر دی گئی ایک گھنٹہ قبل،،تصویر کا کیپشنامریکی قونصل خانے کے باہر مقامی لوگوں کا ایک ہجوم لگا ہوا تھا جو عمارت کی تصاویر لے رہے تھے اور سیلفیاں بنا رہے تھے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے کے بعد چین کے شہر چنگدو میں امریکی قونصل خانے کے امریکی سفارتکار عمارت سے نکل گئے ہیں۔چین نے امریکہ کی جانب سے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانہ بند کرنے کے اقدام کا جواب دیتے ہوئے اپنے جنوب مغربی شہر چنگدو میں موجود امریکی قونصل خانے کو بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ سوموار کی ڈیڈلائن سے پہلے، عملے کو عمارت سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا، امریکی قونصل خانے کے باہر لگی تختی اتار لی گئی اور امریکی جھنڈے کو سرنگوں کر دیا گیا۔چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ چینی عملے نے مقررہ مدت کے بعد عمارت میں گھس کر کنٹرول سنبھال لیا۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’قونصل خانہ گذشتہ 35 سال سے مغربی چین، بشمول تبت، کے عوام کے ساتھ ہمارے تعلقات کا مرکز تھا۔‘’ہمیں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے پر مایوسی ہوئی ہے اور ہم اس اہم خطے میں چین میں دوسری جگہوں سے لوگوں تک رسائی جاری رکھیں گے۔‘جیسے ہی امریکی قونصل خانہ بند ہوا، مقامی رہائیشی وہاں جمع ہو گئے، جن میں سے اکثر چینی جھنڈے لہرا رہے تھے اور سیلفیاں لے رہے تھے۔یہ بھی پڑھیے،EPA،تصویر کا کیپشناتوار کو ورکرز نے امریکی قونصل خانے کے نام کی تختی اتارنا شروع کر دی تھیگذشتہ بدھ کو امریکہ نے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم دیا تھا، اور الزام لگایا تھا کہ یہ جاسوسی اور چوری کا گڑھ بن گیا ہے۔یہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے دوران سامنے آنے والی تازہ ترین پیش رفت ہے۔چین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکہ کے لیے ایک ’ضروری ردِ عمل‘ تھا کیونکہ امریکہ نے چین کے ہیوسٹن میں موجود قونصل خانے کو بند کر دیا تھا۔ اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ چین ’انٹیلیکچوئل پراپرٹی چرا‘ رہا تھا۔خیال رہے کہ گذشتہ چند ماہ سے امریکہ اور چین کے درمیان چند اہم مسائل پر تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔چین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے قونصل خانہ بند کرنے کا اقدام ’امریکہ کے نامعقول اقدامات کے سامنے جائز اور ضروری ردِ عمل تھا۔‘امریکہ اور چین کے درمیان حالیہ صورتحال ایسی ہے جو چین ’نہیں دیکھنا چاہتا اور امریکہ پر اس کی تمام ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔‘ہمارے نمائندوں کے مطابق چنگدو میں امریکی قونصل خانہ سنہ 1985 میں قائم ہوا تھا اور یہاں 200 سے زیادہ اہلکار کام کرتے ہیں اور اس کی تبت سے قربت کے باعث اس کی خاصی سٹریٹیجک اہمیت تھی۔،چینی باشندوں پر ’ویزا فراڈ‘ کا الزامامریکہ نے چار ایسے چینی باشندوں پر ویزا فراڈ کا الزام عائد کیا ہے جنھوں نے مبینہ طور پر چینی فوج کا رکن ہونے کے حوالے سے جھوٹ بولا تھا۔ان میں سے تین باشندوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے جبکہ ایف بی آئی چوتھے شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ سان فرانسسکو میں چینی قونصل خانے میں موجود ہیں۔ ایف بی آئی کے اہلکاروں نے امریکہ کے 25 مختلف شہروں میں ایسے افراد کے انٹرویو کیے ہیں جن کی چین کی فوج کے ساتھ ’غیر اعلانیہ وابستگی‘ ہے۔سرکاری وکلا کا کہنا ہے کہ یہ چین کا امریکہ میں سائنسدان بھیجنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ امریکہ کے محکمہ انصاف کے اٹارنی جان سی ڈیمیرز نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کے اراکین نے تحقیق کی غرض سے ویزے حاصل کیے اور چینی فوج کے ساتھ اپنی وابستگی کو چھپایا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ چین کی کمیونسٹ جماعت کے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ ہمارے روشن خیال معاشرے سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور ہمارے تعلیمی اداروں کا استحصال کیا جا سکے۔‘،یہ گرفتاریاں امریکہ کے اس اعلان کے بعد سامنے آئی ہیں جس میں اس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ چینی سائنسدان نے سان فرانسسکو قونصل خانے میں پناہ لے لی ہے۔خیال رہے کہ رواں ہفتے امریکی حکام کی جانب سے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانے بند کیا جا چکا ہے۔جمعرات کو گرفتاریوں کے اعلان سے قبل چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وینگ وینبن نے امریکہ کے الزامات کو ’بدنیتی پر مبنی بہتان‘ قرار دیا اور کہا کہ چین ’اس حوالے سے ردِ عمل دے گا اور اپنے جائز حقوق کی حفاظت کرے گا۔‘امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چین کے ساتھ حالیہ مہینوں میں واضح تناؤ دیکھا گیا ہے جس کی وجوہات میں تجارت، کورونا وائرس کی عالمی وبا کا پھیلاؤ اور نیا ہانگ کانگ سکیورٹی قانون شامل ہیں۔ امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ان افراد پر الزام عائد ہونے کے چند گھنٹوں بعد بیان میں کہا ہے کہ چین کی جانب سے 'نئے ظلم' ہے۔اس حوالے سے کیلی فورنیا میں رچرڈ نکسن صدارتی لائبریری میں سیکریٹری پومپیو نے ’تمام اقوام کے سربراہان‘ سے چین کے خلاف کھڑے ہونے کا کہا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی سے آزادی واپس لینا ’ہمارا اولین مشن ہے۔‘،الزامات کیا ہیں؟جن چار چینی باشندوں پر ویزا فراڈ کا الزام لگایا گیا ہے ان وینگ شن، سونگ شین، ژاؤ کے کے اور تانگ یوان شامل ہیں۔ یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تانگ سین فرانسسکو قونصل خانے میں موجود ہیں۔ ان تمام چینی باشندوں نے مبینہ طور پر پیپلز لبریشن آرمی سے وابستگی کے حوالے سے جھوٹ بولا ہے اور کہا ہے کہ یا تو وہ کبھی آرمی میں بھرتی نہیں ہوئے یا اب اس کے لیے کام نہیں کرتے۔ وینگ ین کو سات جون کو کسٹمز اور سرحدوں کے تحفظ پر معمور ایجنسی کے اہلکار نے لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ محکمہ انصاف کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ اب بھی پی ایل سے وابستہ ہیں اور ملٹری یونیورسٹی لیب میں کام کرتے ہیں حالانکہ سنہ 2016 میں انھوں نے اپنے ویزے پر یہ لکھوایا تھا کو وہ فوج سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔سونگ شین اور یاؤ کے کے کو 18 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ سرکاری وکلا نے الزام عائد کیا ہے کہ سونگ نے دعویٰ کر رکھا تھا کہ وہ نیورولوجسٹ کی حیثیت سے فوج کا حصہ تھے تاہم اب وہ فوج چھوڑ چکے ہیں تاہم حقیقت میں وہ اب بھی چین میں پی ایل اے ایئر فورس کے ہسپتال کے ساتھ وابستہ تھے۔ یاؤ کے کا دعویٰ تھا کہ وہ بھی کبھی ملٹری کا حصہ نہیں رہے تاہم وہ پی ایل اے کی تحقیق کے اعلیٰ ادارے کے رکن تھے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تانگ مبینہ طور پر پی ایل اے ایئرفورس کا حصہ ہیں۔ اس اہلکار نے ان کی ایسی تصاویر دیکھیں جن میں وہ فوجی لباس میں ملبوس تھیں اور ایسے شواہد بھی جن سے مبینہ طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایئرفورس میڈیکل یونیورسٹی کے لیے کام کرتی ہیں۔انھوں نے بھی مبینہ طور پر اپنے ویزا پر یہی لکھا ہے کہ وہ کبھی بھی فوج سے وابستہ نہیں رہیں۔ ،سان فرانسسکو میں چینی قونصلیٹ پر کیا الزامات ہیں؟سان فرانسسکو میں قائم ایک وفاقی عدالت میں سرکاری اہلکاروں کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق چینی سائنسدان جوان تینگ کیلیفورنیا کی یونیورسٹی میں بائیولوجی کی محقق تھیں۔ان دستاویزت کے مطابق گذشتہ ماہ وفاتی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔عدالت میں پیش کی گئی دستاویزت میں کہا گیا کہ بعد میں تحقیقات میں ان کی ایسی تصاویر سامنے آئیں جن وہ فوجی وردی پہنے ہوئے ہیں اور ان کے گھر کی تلاشی سے پتا چلا کہ ان کا تعلق چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے ہے۔ایف بی آئی کے انٹرویو کے بعد تنگ جون کی 20 تاریخ کو چینی قونصل خانے چلی گئیں جہاں ایف بی آئی کو ان تک رسائی ممکن نہیں تھی۔سرکاری وکلاء کا کہا ہے کہ تینگ واحد چینی سائنسدان نہیں ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ چینی فوج کے اس پروگرام کا حصہ ہے جس کے تحت وہ مختلف بہانوں سے چینی سائنسدانوں کو امریکہ بھیجتی ہے۔اس دستاویز میں دو دیگر مقدمات کا حوالہ دیا گیا جن میں چینی سائنسدانوں کو کی��یفورنیہ میں فوج سے اپنے تعلق کے بارے میں جھوٹ بولنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔،EPA،تصویر کا کیپشنچینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی اقدامات کو اشتعال انگیزی قرار دیا ہےچینی قونصلیٹ میں کیا ہو رہا ہے؟ہیوسٹن کے قونصلیٹ کا معاملہ اس وقت اٹھایا گیا جب اس کی عمارت کے دلان میں کئی ڈبوں میں آگ لگی دیکھی گئی۔ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے ان کوڑے دانوں میں کچھ لوگ کاغذت جل رہے ہیں۔ہنگامی عملے کو طلب کیا گیا لیکن ہیوسٹن پولیس کے مطابق انھیں عمارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔امریکی انتظامیہ نے بدھ کے روز چین کو قونصل خانے کی عمارت 72 گھنٹوں میں خالی کرنے کا وقت دیا تھا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ 'وہ یہ بالکل واضح کر رہے ہیں کہ چین کی کیمونسٹ پارٹی کو کیا رویہ رکھنا چاہیے۔ اور جب وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم ایسے اقدامات اٹھائیں گے کہ جن سے امریکی مفادات، امریکی سلامتی، امریکی معیشت اور نوکریوں کا تحفظ کیا جا سکے۔'امریکہ میں چین کے پانچ قونصلیٹ ہیں اور واشنگٹن میں سفارت خانہ ان کے علاوہ ہے۔ چین نے امریکہ کے اس فیصلے کو سیاسی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔،،تصویر کا کیپشنامریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اپنے اتحادیوں پر بھی زور ڈال رہے ہیں کہ وہ چین کے خلاف اقدامات کریںچین اور امریکہ کے درمیان کون سے امور کشیدگی پیدا کر رہے ہیںچین اور امریکہ کے درمیان بہت سے معاملات ایسے ہیں جو کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔ جن میں کچھ سنگین معاملات مندر درجہ ذیل ہیں:کورونا وائرس: امریکہ صدر نے متعدد بار اس وائرس کو چینی وائرس کا نام دیا ہے اور اپنے خفیہ اداروں کی رپورٹ کے برعکس اس بات پر اصرار کیا ہے کہ یہ وائرس چینی کی لیباٹریوں میں بنایا گیا ہے۔ جواباً چینی حکام نے کہا ہے کہ کووڈ 19 امریکہ میں وجود میں آیا لیکن اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہےتجارت: صدر ٹرمپ چین پر ایک عرصے سے غیر منصفانہ تجارتی پالیسی جاری رکھنے اور فکری ملکیت کی چوری کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ تجارت کے شعبے میں سنہ 2018 سے چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی چل رہی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف اقدامات اٹھاتے رہے ہیںہانگ کانگ: چین نے چند ماہ قبل ہانگ کانگ میں جاری مظاہروں کو کچلنے لیے نئے سیکیورٹی قوانین کا نفاذ کیا ہے جس کے بعدامریکہ نے ہانگ کانگ کو حاصل خصوصی تجارتی مراعات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چین نے امریکہ کے ان اقدامات پر اسے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہےجنوبی بحیرہ چین: دونوں ملکوں کے درمیان اس بات پر بھی تنازع ہے کہ چین درتی وسائل سے مالا مال اس سمندر میں اپنے موجودگی میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ اس متنازع سمندری حدود میں چین کی پیش قدمی کو امریکی وزیر خارجہ بدمعاشی اور دھونس قراد دیتا ہے خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
akksofficial · 4 years
Text
پنجے گاڑھنے والے مافیاز کی مزاحمت کے باوجود کرپشن کے خاتمے ،اصلاحات کے مشن کو مکمل کرینگے‘ ہمایوں اختر
Tumblr media
اسلام آباد(عکس آن لائن)پاکستان تحریک انصاف کے سینئر مرکزی رہنما و سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے زیر سایہ ملک میں پنجے گاڑھنے والا مافیا جتنی مرضی مزاحمت کر لے کرپشن کے خاتمے اور اصلاحات کے جاری عمل کو مشن کے طو رمکمل کریں گے ،حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے خواب دیکھنے والے ناکام اور نا مراد رہیں گے ۔ ان خیالات کا اظہارا نہوں نے اپنے دفتر میں ملاقات کےلئے آنے والے پارٹی رہنماﺅں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ہمایوں اختر خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاست کرپشن سے لتھڑے ہوئے نظام سے وابستہ ہے اس لئے اپنے زیر سایہ پروان چڑھنے والے مافیا ز کے ذریعے منفی پراپیگنڈا کیا جارہا جو جلد دم توڑ جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی کرپشن کے خلاف زیر ٹالرنس ہے اور ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ خود اس کےلئے جگ ہنسائی کا باعث بنی ہے ۔ آج لوگ کرپشن اور کرپشن کرنے والوں سے نفرت کرتے ہیں جس کا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت بھی شکار ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مضبوط اعصاب کے مالک ہے ، کرپشن کی پارٹنر جماعتیں اور ان کے حواری منفی پراپیگنڈے سے عمران خان کو زچ نہیں کر سکتے اور انہیں ابھی تک سوائے ناکامی کے کچھ نہیں ملا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہمیشہ تسلیم کیا ہے کہ مشکل معاشی حالات کی وجہ سے عوام پر بوجھ آیا ہے لیکن حکومت کے درست اور بروقت اقدامات کی وجہ سے بتدریج بہتری آرہی ہے ،رواں سال حالات معمول پر آ جائیں گے اور عوام کی مشکلات اور محرومیوں کا ازالہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ غیر ملکی دورے میں بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہان اور نمائندوں سے نتیجہ خیز ملاقاتیں کی ہیں جس کے پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ Read the full article
0 notes
mypakistan · 7 years
Text
کیا وزیرِاعظم مودی کے ہندوتوا نظریے کی مقبولیت ختم ہو رہی ہے؟
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے بی جے پی کو خبردار کیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام کا رویہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آر ایس ایس نے حال ہی میں ایک تین روزہ میٹنگ کا انعقاد کیا تھا جس میں پورے ملک سے سنگھ پریوار کی مختلف تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی تھی۔ پارٹی کے صدر امِت شاہ نے عوامی سطح پر کام کرنے والی ان تنظیموں کے نمائندوں کی رپورٹوں کا بہت گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آر ایس ایس نے پارٹی صدر کو بتایا ہے کہ اقتصادی سست روی، ملازمتیں ختم ہونے، نئے مواقع سمٹنے، بڑے نوٹوں پر پابندی لگانے کا منفی نتیجہ نکلنے اور کسانوں میں بڑھتی ہوئی بےچینی سے عام آدمی کا رویہ حکومت کے بارے میں بدل رہا ہے۔ وہ لوگ جو حکومت کے حامی ہیں اب ان پہلوؤں پر حکومت کی کارکردگی کے بارے میں سوالات کرنے لگے ہیں۔ نوٹوں پر پابندی کے فیصلے کو اس طرح مشتہر کیا گیا تھا جیسے اس قدم سے لاکھوں اور کروڑوں روپے کے کالے دھن حکومت کی گرفت میں آ جائیں گے اور حکومت کے بہت سے حامی یہ سمجھ رہے تھے کہ اس سے انھیں براہ راست فائدہ پہنچے گا مگر اب اس قدم کی ناکامی کے بعد انھیں لگ رہا ہے کہ حکومت نے انھیں دھوکہ دیا ہے۔ مودی حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے تین برس ہو چکے ہیں۔ ان تین برسوں میں ملک کی معیشت مسلسل نیچے گئی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت تین برس میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی۔
آنے والی سہ ماہی میں اس شرح کے بھی نیچے جانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ ملک کی برآمدات گھٹتی جا رہی ہیں۔ صنعتی پیداوار بڑھ نہیں رہی۔ حکومت نئی ملازمتیں نہیں پیدا کر سکی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبے مشکلات میں ہیں۔ زرعی شعبہ بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومت نے بینکوں میں جمع کی جانے والی رقوم پر شرح سود میں زبردست کمی کر دی ہے لیکن بینک سے لیے جانے والے قرضوں کی شرح سود توقع کے برعکس گھٹ نہیں سکی۔ لاکھوں مکان تیار پڑے ہیں اور ان کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ ملک کی کئی بڑی تعمیراتی کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ مودی حکومت نے ان گزرے ہوئے تین برسوں میں نعرے تو بہت دیے، لیکن عملی طور پر کسی بڑی تبدیلی کے لیے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں کیا جسے عام آدمی محسوس کر پاتا۔ مودی اور ان کی جماعت نے گزرے ہوئے برسوں میں اپنی حریف جماعتوں کو کرپٹ، نا اہل اور ملک دشمن تک قرار دیا۔ انھوں نے خود کو عوام کے سامنے ایک ایسے مسیحا کے طورپر پیش کیا جو ملک کے تمام مسائل کو یک لخت حل کر دے گا۔ انھوں نے عوام کی توقعات اتنی بڑھا دیں کہ وہ ان سے سیاسی معجزے کی امیدیں کرنے لگی۔ آئندہ پارلمیانی انتخابات میں اب محض دو برس باقی ہیں۔ مودی اور ان کے ساتھی امت شاہ آئندہ انتخابات کی تیاریوں میں لگ چکے ہیں۔
انڈیا کی سیاست میں ہندوتوا اس وقت اپنے عروج پر ہے اور اس کی وجہ ہے کہ گزرے ہوئے تین برسوں میں حکومت نے آر ایس ایس کے ہندوتوا کے نظریے پر عمل کیا۔ یہ نظریہ حکومت کا رہنما اصول بنتا جا رہا تھا۔ اسے ملک کے کئی حلقوں سے زبردست حمایت بھی مل رہی تھی۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ نفرت اور مذہبی تنگ نظری کی سیاست سے ملکوں کی تقدیریں تباہ ہو سکتی ہیں، سنور نہیں سکتیں ۔عوام کا بھرم رفتہ رفتہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ مودی سیاست کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے اپنے پیروں کے نیچے کی زمین کی حرکت محسوس کر لی ہے۔ حال میں ان کے رویے میں غیر معولی تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ انھوں نے پچھلے دنوں برما کے دورے میں رنگون میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مزار پر پھول چڑھائے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب وہ مغل بادشاہوں کو کو لٹیرے اور ظالم بتاتے تھے۔
جاپان کے وزیر اعظم جب احمدآباد آئے تو وہ انھیں 16 ويں صدی کی مسجد بھی دکھانے لے گئے۔ کشمیر میں جہاں ہر مسئلے کے حل کے لیے صرف طاقت کا استعمال ہو رہا تھا وہاں اب اچانک انسانیت اور مذاکرات کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ کابینہ میں نئے وزرا شامل کیے گئے ہیں اور کئی وزرا کے قلم دانوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے بعد اب کسانوں نے بی جے پی کے اقتدار والی دوسری ریاست راجستھان میں بھی مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں آر ایس ایس سے وابستہ مزدور یونینیں اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی ہیں۔
صنعتی گھرانوں کی ملیکت والا انڈین میڈیا اب بھی اپوزیشن مخالف اور مودی کا حامی ہے لیکن طویل عرصے تک یہ روش وزیر اعظم کی اپنی مقبولیت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مودی کی مقبولیت اب بھی کافی حد تک برقرار ہے لیکن صرف مودی کی مقبولیت آئندہ پارلیمانی انتحاب جیتنے کی ضامن نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی انتہائی مقبولیت کے باوجود بی جے پی 2004 میں شکست فاش سے دو چار ہوئی تھی۔
شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
‎  
0 notes
risingpakistan · 7 years
Text
کیا وزیرِاعظم مودی کے ہندوتوا نظریے کی مقبولیت ختم ہو رہی ہے؟
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے بی جے پی کو خبردار کیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام کا رویہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آر ایس ایس نے حال ہی میں ایک تین روزہ میٹنگ کا انعقاد کیا تھا جس میں پورے ملک سے سنگھ پریوار کی مختلف تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی تھی۔ پارٹی کے صدر امِت شاہ نے عوامی سطح پر کام کرنے والی ان تنظیموں کے نمائندوں کی رپورٹوں کا بہت گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آر ایس ایس نے پارٹی صدر کو بتایا ہے کہ اقتصادی سست روی، ملازمتیں ختم ہونے، نئے مواقع سمٹنے، بڑے نوٹوں پر پابندی لگانے کا منفی نتیجہ نکلنے اور کسانوں میں بڑھتی ہوئی بےچینی سے عام آدمی کا رویہ حکومت کے بارے میں بدل رہا ہے۔ وہ لوگ جو حکومت کے حامی ہیں اب ان پہلوؤں پر حکومت کی کارکردگی کے بارے میں سوالات کرنے لگے ہیں۔ نوٹوں پر پابندی کے فیصلے کو اس طرح مشتہر کیا گیا تھا جیسے اس قدم سے لاکھوں اور کروڑوں روپے کے کالے دھن حکومت کی گرفت میں آ جائیں گے اور حکومت کے بہت سے حامی یہ سمجھ رہے تھے کہ اس سے انھیں براہ راست فائدہ پہنچے گا مگر اب اس قدم کی ناکامی کے بعد انھیں لگ رہا ہے کہ حکومت نے انھیں دھوکہ دیا ہے۔ مودی حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے تین برس ہو چکے ہیں۔ ان تین برسوں میں ملک کی معیشت مسلسل نیچے گئی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت تین برس میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی۔
آنے والی سہ ماہی میں اس شرح کے بھی نیچے جانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ ملک کی برآمدات گھٹتی جا رہی ہیں۔ صنعتی پیداوار بڑھ نہیں رہی۔ حکومت نئی ملازمتیں نہیں پیدا کر سکی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبے مشکلات میں ہیں۔ زرعی شعبہ بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومت نے بینکوں میں جمع کی جانے والی رقوم پر شرح سود میں زبردست کمی کر دی ہے لیکن بینک سے لیے جانے والے قرضوں کی شرح سود توقع کے برعکس گھٹ نہیں سکی۔ لاکھوں مکان تیار پڑے ہیں اور ان کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ ملک کی کئی بڑی تعمیراتی کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ مودی حکومت نے ان گزرے ہوئے تین برسوں میں نعرے تو بہت دیے، لیکن عملی طور پر کسی بڑی تبدیلی کے لیے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں کیا جسے عام آدمی محسوس کر پاتا۔ مودی اور ان کی جماعت نے گزرے ہوئے برسوں میں اپنی حریف جماعتوں کو کرپٹ، نا اہل اور ملک دشمن تک قرار دیا۔ انھوں نے خود کو عوام کے سامنے ایک ایسے مسیحا کے طورپر پیش کیا جو ملک کے تمام مسائل کو یک لخت حل کر دے گا۔ انھوں نے عوام کی توقعات اتنی بڑھا دیں کہ وہ ان سے سیاسی معجزے کی امیدیں کرنے لگی۔ آئندہ پارلمیانی انتخابات میں اب محض دو برس باقی ہیں۔ مودی اور ان کے ساتھی امت شاہ آئندہ انتخابات کی تیاریوں میں لگ چکے ہیں۔
انڈیا کی سیاست میں ہندوتوا اس وقت اپنے عروج پر ہے اور اس کی وجہ ہے کہ گزرے ہوئے تین برسوں میں حکومت نے آر ایس ایس کے ہندوتوا کے نظریے پر عمل کیا۔ یہ نظریہ حکومت کا رہنما اصول بنتا جا رہا تھا۔ اسے ملک کے کئی حلقوں سے زبردست حمایت بھی مل رہی تھی۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ نفرت اور مذہبی تنگ نظری کی سیاست سے ملکوں کی تقدیریں تباہ ہو سکتی ہیں، سنور نہیں سکتیں ۔عوام کا بھرم رفتہ رفتہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ مودی سیاست کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے اپنے پیروں کے نیچے کی زمین کی حرکت محسوس کر لی ہے۔ حال میں ان کے رویے میں غیر معولی تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ انھوں نے پچھلے دنوں برما کے دورے میں رنگون میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مزار پر پھول چڑھائے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب وہ مغل بادشاہوں کو کو لٹیرے اور ظالم بتاتے تھے۔
جاپان کے وزیر اعظم جب احمدآباد آئے تو وہ انھیں 16 ويں صدی کی مسجد بھی دکھانے لے گئے۔ کشمیر میں جہاں ہر مسئلے کے حل کے لیے صرف طاقت کا استعمال ہو رہا تھا وہاں اب اچانک انسانیت اور مذاکرات کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ کابینہ میں نئے وزرا شامل کیے گئے ہیں اور کئی وزرا کے قلم دانوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے بعد اب کسانوں نے بی جے پی کے اقتدار والی دوسری ریاست راجستھان میں بھی مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں آر ایس ایس سے وابستہ مزدور یونینیں اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی ہیں۔
صنعتی گھرانوں کی ملیکت والا انڈین میڈیا اب بھی اپوزیشن مخالف اور مودی کا حامی ہے لیکن طویل عرصے تک یہ روش وزیر اعظم کی اپنی مقبولیت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مودی کی مقبولیت اب بھی کافی حد تک برقرار ہے لیکن صرف مودی کی مقبولیت آئندہ پارلیمانی انتحاب جیتنے کی ضامن نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی انتہائی مقبولیت کے باوجود بی جے پی 2004 میں شکست فاش سے دو چار ہوئی تھی۔
شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
‎  
0 notes
akksofficial · 5 years
Text
ملائیشیا کا فلسطین میں باضابطہ سفارتخانہ کھولنے کا امکان
ملائیشیا کا فلسطین میں باضابطہ سفارتخانہ کھولنے کا امکان
باکو(عکس آن لائن) ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیرمحمد نے کہا ہے کہ ملائیشیا فلسطین میں ایک منظور شدہ سفارت خانہ کھولے گا تاکہ اس سے فلسطینیوں کو آسانی سے امداد فراہم کی جا سکے۔
مہاتیر نے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں 18ویں غیر وابستہ تحریک سربراہ کانفرنس کے موقع پر 120 ممالک کے رہ نماوں اور نمائندوں سے خطاب میں کہا کہ منظور شدہ سفارت خانے کے افتتاح سے ملائیشیا کو فلسطینیوں کو زیادہ آسانی سے مدد…
View On WordPress
0 notes
dani-qrt · 5 years
Text
یاسین ملک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے وادئ کشمیر میں ہڑتال
یاسین ملک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے وادئ کشمیر میں ہڑتال
سری نگر — 
جموں کشمیر لبریشن فرںٹ (جے کے ایل ایف) کے محبوس لیڈر محمد یاسین ملک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے منگل کو وادئ کشمیر میں ایک عام ہڑتال کی گئی۔
ہڑتال کے لیے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد ‘مشترکہ مزاحمتی قیادت’ نے کی تھی۔ اتحاد نے الزام لگایا ہے کہ بھارت کے تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے حراست کے دوران یاسین ملک کے ساتھ ناروا سلوک کیا، جس کے خلاف انہوں نے دِلّی کی تہاڑ جیل میں بھوک ہڑتال شروع کی۔
بھوک ہڑتال کے دوران جب یاسین ملک کی حالت غیر ہو گئی تو انہیں بھارتی دارالحکومت کے رام منوہر لوہیا اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
‘مشترکہ مزاحمتی قیادت’ نے این آئی اے اور ایک اور سرکاری ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ پر کشمیر میں جاری تحریکِ مزاحمت سے وابستہ لیڈروں اور کارکنوں، ان کے اہلِ خانہ، سرکردہ تاجروں، ٹریڈ یونین لیڈروں اور دوسرے سرکردہ افراد کو تنگ کرنے کے لیے طلب کرنے کا الزام لگایا ہے۔
جے کے ایل ایف متنازع کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کا مطالبہ کرنے والی ایک جماعت ہے اور ریاست کے دونوں حصوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم ہے۔ جے کے ایل ایف کو بھارتی حکومت نے گزشتہ ماہ ایک غیر قانونی تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔
53 سالہ یاسین ملک کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے اس سال مارچ میں ریاست کے ایک سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بند کرنے کے بعد سرینگر سے سرمائی دارالحکومت جموں کی کوٹ بلوال جیل منتقل کیا تھا۔ بعد ازاں این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے ٹیرر فنڈنگ کے ایک مبینہ معاملے میں ان کے نام وارنٹ جاری کیا۔ این آئی اے نے انھیں اپنی تحویل میں لینے کے بعد دِلّی کی تہاڑ جیل منتقل کیا۔ این آئی اے ریمانڈ کے دوران یاسین ملک اپنے ساتھ مبینہ طور پر ہتک آمیز سلوک کیے جانے کے خلاف بھوک ہڑتال پر چلے گئے۔
یاسین ملک پر 1990ء میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح تحریک کے آغاز پر اُس وقت کے بھارتی وزیرِ داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کرنے اور سری نگر میں بھارتی فضائیہ کے چار اہل کاروں کو ہلاک کرنے کے الزامات بھی ہیں۔
بھارت کے ایک اور قومی تحقیقاتی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن ( سی بی آئی) نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ سے ان معاملات کو دوبارہ کھولنے کی اجازت طلب کی ہے۔ عدالتِ عالیہ نے اس سلسلے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔
بھارتی کشمیر کی کئی سیاسی جماعتوں نے یاسین ملک کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیشِ نظر اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ریاست کی ایک سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا “میں حکومت بھارت سے یاسین ملک کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتی ہوں تاکہ انھیں مناسب طبی امداد فراہم کی جا سکے۔ خدا نخواستہ اگر ان کے ساتھ کچھ بُرا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ تباہ کُن ہو گا”۔
انہوں نے بھارتی حکومت سے یاسین ملک کی پاکستانی بیوی مشعال حسین ملک اور بیٹی رضیہ سلطانہ کو بھارت آ کر اُن سے ملنے کی اجازت دینے کی بھی اپیل کی۔
مشعال ملک نے اتوار کو لاہور پریس کلب میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی سات سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ کے ہمراہ بھارت جا کر اپنے علیل شوہر سے ملنا چاہتی ہیں۔
انھوں نے یاسین ملک کی بگڑتی ہوئی صحت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے اور کشمیریوں کے ساتھ بھارت کی طرف سے مبینہ طور پر ڈھائے جا رہے مظالم کو پوری قوت کے ساتھ بین الاقوامی برادری کے سامنے اٹھائے۔
اس سے پہلے سری نگر میں ایک نیوز کانفرنس میں بات کرتے ہوئے یاسین ملک کی والدہ اور بہنوں نے الزام لگایا تھا کہ بھارتی حکومت انہیں اُن کی صحت کے بارے میں جان بوجھ کر اندھیرے میں رکھ رہی ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ اُنہیں یاسین ملک کے وکیل نے بتایا ہے کہ بھارتی عہدیدار اسے یہ اطلاع دینے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اُس کا موکل 12 روز سے بھوک ہڑتال پر ہے اور اب اُسے جیل سے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یاسین ملک نے بھوک ہڑتال اُنھیں غیر قانونی طور پر این آئی اے کی تحویل میں دینے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیے جانے کے خلاف شروع کی تھی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اتوار کو اپنے بیان میں یاسین ملک کی حراست کے دوران بگڑی صحت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا تھا کہ ’’یاسین ملک کی شدید علالت کے باوجود اور قانونی حقوق اور اخلاقیات کے برخلاف ان کے اہل خانہ کو، جنھیں بڑی دیر کے بعد مطلع کیا گیا ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی‘‘۔
تاہم ترجمان نے اُمید ظاہر کی کہ یاسین ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے ضروری اقدامات کیے جائیں گے جن میں انہیں معقول طبی امداد فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
بھارتی عہدیداروں نے کہا ہے کہ یاسین ملک کو مناسب طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔ نیز اُن کے ساتھ قانون کے تحت سلوک کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں لگائے جانے والے الزامات اور خدشات بے بنیاد ہیں۔
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2GCaRNe via Urdu News
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
کیوں 'بھارت جوڈو' روح ، 'ذات سے پاک بھارت' وژن ہمارے عمل کو متاثر کرے۔
کیوں 'بھارت جوڈو' روح ، 'ذات سے پاک بھارت' وژن ہمارے عمل کو متاثر کرے۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اکثر اپنے آپ کو ’’ وکاس پرش ‘‘ بنانا پسند کرتے ہیں۔ لیکن وہ RJD کے ساتھ مشترکہ وجوہات بھی بناتا ہے جب اسے سہولت ملے۔ آر جے ڈی بہار میں خاندانی حکمرانی کا ایک لفظ ہے۔ نتیش نے حال ہی میں آر جے ڈی کے تیجسوی یادو کو کریڈٹ دیا کہ وہ ایک آل پارٹیز وفد کے ساتھ آئے جو وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کی ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کے ساتھ ملاقات کرے۔
نتیش کمار نے بہار اور ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائی ہے۔ یہ آر جے ڈی جیسی پارٹیوں کا مطالبہ رہا ہے۔ بہار بی جے پی میں اس خیال نے تیزی سے ایک رضاکار کو ڈھونڈ لیا ہے ، یہاں تک کہ اگر کچھ نے اس طرح کی مشق کرنے کی دانشمندی پر سوال اٹھایا ہے۔ بہار کے وزیر اور بی جے پی لیڈر کے طور پر ، جنک رام ، جو نتیش کی قیادت میں وفد کا حصہ تھے ، نے پی ایم سے ملاقات کی ، نے کہا: “پی ایم مودی جو بھی فیصلہ کریں گے سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔” یہ ایک جذبہ ہے جو بڑے پیمانے پر گونجتا ہے۔
بہار کی ترقی ، دوسری ریاستوں میں گونج کے ساتھ ، سماجی انصاف ، مثبت عمل ، میرٹ ، اور عمر پر مبنی ذات پر مبنی عدم مساوات پر ایک دلچسپ بحث کو جنم دیا ہے۔
ابھی حال ہی میں ، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے ایک بل منظور کیا ہے جس کی وجہ سے ریاستوں کو اپنی متعلقہ او بی سی فہرستوں پر فیصلہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔ 10 اور 11 اگست کو ہونے والی بحث نے ہمیں سیاسی جماعتوں کے سماجی انصاف اور مساوات کے عزم کا مفید حساب فراہم کیا ، بشمول تاریخی نقطہ نظر۔
بی ایس پی کے رتیش پانڈے نے “سروجن سکھے ، سروجن ہٹے” کے نعرے کے ساتھ “جاٹواڈ” سے “سمتمک سماج” کی طرف بڑھنے کی بات کی۔ ٹی ایم سی کے کلیان بنرجی نے آئین کی پیشکش میں درج ہدف کے بارے میں بات کی ، “بھائی چارے کے ، فرد کے وقار کو یقینی بنانے اور قومی وصیت کی وحدت اور سالمیت”
کانگریس کے ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ بل کو پہلے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی غلطی کو ختم کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا کہ “75 فیصد سے زیادہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 50 فیصد کوٹہ کی حد پہلے ہی توڑ دی گئی ہے” ، کیونکہ اس نے ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے بھی بیٹنگ کی۔ ان کے ساتھی ملیکارجن کھرگے نے نجی شعبے میں کوٹے کی درخواست کی۔
بی جے پی کے سشیل مودی نے 27 جون 1961 کو ریاست کے وزرائے اعلیٰ کو ایک پنڈت جواہر لال نہرو کے خط کا حوالہ دیا ، جس میں ان کے حوالے سے کہا گیا ہے: “میں کسی بھی قسم کے ریزرویشن کو ناپسند کرتا ہوں ، خاص طور پر خدمات میں۔ میں کسی بھی ایسی چیز کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کرتا ہوں جو ناکامی اور دوسرے درجے کے معیار کی طرف لے جائے۔ اگر ہم ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کے لیے جاتے ہیں تو ہم روشن اور قابل لوگوں کو دلدل میں ڈالتے ہیں اور دوسرے درجے پر رہتے ہیں۔
سشیل مودی نے 6 ستمبر 1990 کو لوک سبھا میں منڈل رپورٹ پر بحث کا حوالہ دیا ، جب راجیو گاندھی اپوزیشن لیڈر تھے۔ “میرے نزدیک یہ میرے ملک کا ٹوٹنا ہے۔ ہمارے ملک کو ذات اور مذہب پر تقسیم کرنے کی کوشش کون کر رہا ہے؟ کانگریس ایک فرد کی سیاسی سہولت کے لیے قوم کو تقسیم ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔
مرکزی وزیر اور بی جے پی کے سینئر لیڈر بھوپندر یادو نے سماجی انصاف سے متعلق بی جے پی کی (اور اس سے پہلے بی جے ایس کی) قراردادوں پر تاریخی نقطہ نظر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ چاہے 1951 ہو یا 2021 ، ہم اسی نظریات کے پابند ہیں۔
“میں نے اپنی پارٹی کی قراردادیں 1951 ، 1968 ، 1996 سے رکھی ہیں۔ کانگریس قائدین کو 1950 سے 1990 تک اپنی قراردادیں پیش کرنے دیں۔ اس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ کانگریس سماجی انصاف کی تلاش میں کہاں کھڑی تھی ، اور ہم کہاں تھے کہا.
مباحثے کے دوران ، بہت سی جماعتوں نے کوٹے کے لیے 50 فیصد حد بڑھانے کی بات کی جبکہ بہت سی نے ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے لڑائی بھی کی۔
ذات ہندوستان کی ایک غالب حقیقت ہے یہاں تک کہ اگر اس کی شکل 1990 کی دہائی سے نمایاں طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ منڈل کے بعد کے دور میں انٹرمیڈیٹ ذاتیں سیاسی ، معاشی اور سماجی طور پر بااختیار ہو گئیں۔ اس طرح منڈل کے رجحان نے طاقت ور اشرافیہ کی ایک نئی کلاس کو جنم دیا۔
روایتی ہندو سماجی نظام سے وابستہ رسمی درجہ بندی ماضی کی بات بن گئی۔ نئے آرڈر میں ، ذات کے گروہوں کو عمودی درجہ بندی کی بجائے افقی پھیلاؤ کی شکل میں زیادہ ترتیب دیا گیا۔
نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی کی آمد کے ساتھ ، پارٹی کو ذاتوں اور برادریوں کے اندردخش سے حمایت ملی ، بشمول روایتی طور پر پسماندہ اور کناروں پر۔ مثال کے طور پر ، 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران کہا جاتا ہے کہ 44 فیصد او بی سی نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔
ذات پر مبنی مردم شماری کے نئے دھکے کے ساتھ ، کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ ذات کی شناخت غیر متوقع شدت کے ساتھ منظر عام پر آئے گی ، اور ایسے نتائج کے ساتھ جو بہت سے لوگوں کو متاثر نہیں کرتے۔ اونچی ذات کے طبقے ، جو بڑے پیمانے پر بی جے پی کے ساتھ جانے جاتے ہیں ، کو خدشہ ہے کہ یہ ان کے مزید پسماندگی کا باعث بن سکتا ہے۔
ذات پات پر مبنی مردم شماری کے بہت سے ووٹر ، پارٹی لائنوں کو کاٹ کر اچھی طرح ارادہ رکھنے والی آوازیں ہیں۔ کچھ دیگر ، خاص طور پر ذات پر مبنی علاقائی جماعتیں ، اسے انتخابی لحاظ سے متعلقہ بننے کے موقع کے طور پر دیکھتی ہیں۔ دوسری طرف ، بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ کو امید ہے کہ ذات ، “آخر کار ، ہندوتوا کو چیلنج کر سکے گی”۔ یہ “تنازعات کا اسکول” ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ جنگ ​​میں ہے جو ذات پات کے گروہوں اور برادریوں کے ہم آہنگی کے لیے مہم چلاتے ہیں۔
ان مسابقتی ، یہاں تک کہ متضاد ، دعووں اور مفاد��ت کے ساتھ ، اس کے لیے سیاستدان کی ضرورت ہوگی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ سماجی انصاف کو یقینی بنایا جائے اور کوئی بھی اپنے آپ کو چھوڑے ہوئے محسوس نہ کرے ، قومی انضمام اور سماجی ہم آہنگی کا بڑا فریم ورک پریشان نہ ہو۔ چنانچہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ پی ایم مودی کی اپیل – عالمگیر ، ذات پات کے گروہوں اور برادریوں میں – ذات پات گروہوں اور برادریوں کے مابین معاشرتی خلل ڈالنے کی کوشش کرنے والوں کی جانچ کرے گی۔
کیونکہ ، مسابقتی سیاست میں ، ذات پات کا فرقہ وارانہ تفرقہ بازی کا بیانیہ پھینک سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یاد کریں ، جب 1990 کی دہائی میں یوپی میں کرمیوں کے ساتھ پہچانی جانے والی علاقائی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی ، سردار پٹیل کو “سب سے لمبا کرمی لیڈر” کہا جاتا تھا۔ اس طرح کی دوسری کوششیں بھی ہوئی ہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کو دلت لیڈر کہنے کی مثالیں عام ہیں۔ ذات پات کے خطرات حقیقی ہیں۔
ذات پات کے تفرقہ بازی سے نمٹنے کے بہت سے طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ کبوتر ہول قومی شبیہیں کو ذات کی علامت کے طور پر روکنے کی ہر کوشش کا مقابلہ کیا جائے۔
اپنی 28 اگست کی تقریر میں ، مرمت شدہ جلیانوالہ باغ سمارک کمپلیکس کو قوم کے نام وقف کرنے کے بعد ، پی ایم مودی نے کہا کہ میوزیم پر کام جاری ہے جو نو ریاستوں میں مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے آزادی پسندوں کی جدوجہد اور متاثر کن شراکت کو ظاہر کرتا ہے۔ “ہماری تاریخ کی کتابوں میں ان کا حق نہیں ہے۔”
اسی طرح ، چاہے وہ سہیلدیو ہو یا اونتی بائی لودھی ، ہر لیڈر جو قابل احترام ہے ، یہاں تک کہ محدود جغرافیائی پھیلاؤ میں بھی ، اور زیادہ تر لوک داستانوں میں پایا جاتا ہے ، ہندوستانی کہانی میں ان کی بڑی شراکت کے لیے عالمگیر ہونا چاہیے۔
قومی شبیہیں ہمیشہ عالمگیر اپیل رکھتی ہیں ، اور ہونی چاہئیں۔ جیسا کہ مرکزی سماجی انصاف کے وزیر وریندر کمار نے کہا ، او بی سی بل پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران: “چاہے وہ پیریار ہو یا جیوتیبا پھولے یا امبیڈکر یا لوہیا یا دیندیال اپادھیائے ، ان سب نے قطار میں کھڑے آخری آدمی کی خیریت کے بارے میں سوچا۔ “.
گاندھی کہا کرتے تھے: “جب بھی آپ کو شک ہو ، سب سے غریب اور کمزور آدمی کا چہرہ یاد کریں جسے آپ نے دیکھا ہو ، اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا آپ جس قدم پر غور کر رہے ہیں ، اس سے اس کا کوئی فائدہ ہوگا؟”
“قطار میں سب سے غریب آدمی / آخری آدمی” کہاوت کے علاوہ ، اگر کوئی نیو انڈیا کے لیے ایک طلسم کے برابر سوچتا ہے تو ، یہ کچھ اس طرح ہوگا: “جب بھی آپ کو شک ہو ، اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا آپ جس قدم پر غور کر رہے ہیں ‘ بھارت جوڈو اور قوم کو اولیت دیتا ہے۔ یہ ہماری سیاسی جماعتوں کی ہر سماجی اور سیاسی مداخلت کا سنگ بنیاد ہے۔
اس کے علاوہ ، آج کے ہندوستان کو ذات کو غیر متعلقہ بنانے کے طریقوں پر بحث کرنی چاہیے۔ امبیڈکر نے اسے “ذات کا خاتمہ” کہا۔ یہ ایک آئیڈیا ہے جس کا وقت آگیا ہے۔
یہ اچھی طرح سے دستاویزی ہے کہ کس طرح نریندر مودی حکومت نے پسماندہ طبقات بشمول او بی سی سمیت کئی اقسام کے اقدامات کئے ہیں۔ تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں کے منتخب عوامی نمائندوں اور عہدیداروں کو اب ایک قسم کے ہندوستان کے لیے فعال طور پر کام کرنے کا حلف لینا چاہیے ، جو کہ ایک طویل دورانیے کا ہے۔ اگلے پچیس سالوں تک یہ ہماری سیاسی گفتگو کا حصہ بننے دیں۔ 2047 میں ، جب بھارت اپنا 100 واں یوم آزادی منائے گا ، تب ہندوستان بہت زیادہ مساوی اور بہت زیادہ جمہوری ہو گا چاہے اس کے لیے میلوں دور ہی کیوں نہ ہو۔
(مصنف ، جے این یو کے سابق طالب علم ، سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ خیالات ذاتی ہیں۔ تاثرات بھیجے جا سکتے ہیں [email protected])
گہرائی ، معروضی اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ متوازن صحافت ، یہاں کلک کریں آؤٹ لک میگزین کو سبسکرائب کریں۔
. Source link
0 notes
gcn-news · 5 years
Text
قطر میں دو روزہ آل افغانستان کانفرنس،طالبان نے اب تک کا سب سے بڑا اعلان کر ڈالا
دوحا (جی سی این رپورٹ)قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور افغانستان کے نمائندوں کے درمیان منعقد کی گئی 2 روزہ آل افغان کانفرنس میں قیام امن اور 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے منصوبے پر اتفاق ہوگیا۔امریکی خبررساں ادارے ’ اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی نمائندہ برائے امن عمل زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وہ یکم ستمبر تک افغانستان میں قیام امن کے حتمی معاہدے کے لیے پُرامید ہیں جس کے بعد امریکا اور نیٹو کی افواج کو انخلا کی اجازت دی جائے گی۔زلمے خلیل زاد آج قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 2 روزہ آل افغان کانفرنس کے بعد طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے آٹھویں مرحلے کا آغاز کریں گے۔مشترکہ اعلامیے مہں کہا گیا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان میں اسلامی قانونی نظام نافذ ہوگا، اسلامی اقدار کے تحت خواتین کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی اور تمام قومیتوں کے لیے مساوات کو یقینی بنایا جائے گا۔آل افغان کانفرنس میں طالبان، افغان حکومت کے نمائندوں، خواتین اور دیگر نامور شخصیات نے شرکت کی، جس کا مقصد افغان معاشرے میں اتفاق رائے قائم کرنا تھا۔تاہم اس حوالے سے آئندہ مذاکرات کے لیے کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی کہ اسلامی نظام کیسا ہوگا، آئینی اصلاحات کیسے لائی جائیں گی اور طالبان سے وابستہ مقامی جنگجوؤں کا کیا ہوگا۔فریقین کو اسلامی اقدار کے تحت خواتین کے حقوق کی تعریف اور ایک نگراں انتظامیہ کے قیام اور انتخابات کا انعقاد کا وقت سے متعلق بھی بات چیت کرنی ہوگی۔طالبان نے سرکاری اداروں اور عوامی مقامات جیسا کہ ہسپتالوں اور اسکولوں اور ہائیڈرو الیکٹرک ڈیمز پر حملہ نہ کرنے پر بھی اتفاق کیا۔زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ 2 روزہ کانفرنس میں جنگ بندی پر بات چیت کی جائے گی لیکن مشترکہ اعلامیے میں ایسا کچھ شامل نہیں ہے۔تاہم دونوں فریقین نے شہریوں کی حفاظت کے لیے مزید کوششیں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ ضعیف، معذور اور بیمار قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے گا لیکن اس حوالے سے یہ نہیں بتایا کہ قیدیوں میں جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے افراد بھی شامل ہیں یا نہیں۔جرمنی اور قطر کی جانب سے منعقد کی گئی آل افغان کانفرنس میں شرکا نے افغان حکومت کے باقاعدہ نمائندوں کے بجائے عام افغانیوں کے طور پر طالبان کے ساتھ شرکت کی تھی۔امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات تصدیق شدہ انسداد دہشت گردی کی ضمانت جس کے بعد امریکا اور نیٹو کی افواج کا انخلا ہوگا، بین الافغان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے طریقے اور ایک حتمی جنگ بندی سے متعلق معاہدے پر توجہ مرکوز کیے جانے کا امکان ہے۔ Read the full article
0 notes
alltimeoverthinking · 5 years
Text
یاسین ملک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے وادئ کشمیر میں ہڑتال
یاسین ملک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے وادئ کشمیر میں ہڑتال
سری نگر — 
جموں کشمیر لبریشن فرںٹ (جے کے ایل ایف) کے محبوس لیڈر محمد یاسین ملک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے منگل کو وادئ کشمیر میں ایک عام ہڑتال کی گئی۔
ہڑتال کے لیے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد ‘مشترکہ مزاحمتی قیادت’ نے کی تھی۔ اتحاد نے الزام لگایا ہے کہ بھارت کے تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے حراست کے دوران یاسین ملک کے ساتھ ناروا سلوک کیا، جس کے خلاف انہوں نے دِلّی کی تہاڑ جیل میں بھوک ہڑتال شروع کی۔
بھوک ہڑتال کے دوران جب یاسین ملک کی حالت غیر ہو گئی تو انہیں بھارتی دارالحکومت کے رام منوہر لوہیا اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
‘مشترکہ مزاحمتی قیادت’ نے این آئی اے اور ایک اور سرکاری ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ پر کشمیر میں جاری تحریکِ مزاحمت سے وابستہ لیڈروں اور کارکنوں، ان کے اہلِ خانہ، سرکردہ تاجروں، ٹریڈ یونین لیڈروں اور دوسرے سرکردہ افراد کو تنگ کرنے کے لیے طلب کرنے کا الزام لگایا ہے۔
جے کے ایل ایف متنازع کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کا مطالبہ کرنے والی ایک جماعت ہے اور ریاست کے دونوں حصوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم ہے۔ جے کے ایل ایف کو بھارتی حکومت نے گزشتہ ماہ ایک غیر قانونی تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔
53 سالہ یاسین ملک کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے اس سال مارچ میں ریاست کے ایک سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بند کرنے کے بعد سرینگر سے سرمائی دارالحکومت جموں کی کوٹ بلوال جیل منتقل کیا تھا۔ بعد ازاں این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے ٹیرر فنڈنگ کے ایک مبینہ معاملے میں ان کے نام وارنٹ جاری کیا۔ این آئی اے نے انھیں اپنی تحویل میں لینے کے بعد دِلّی کی تہاڑ جیل منتقل کیا۔ این آئی اے ریمانڈ کے دوران یاسین ملک اپنے ساتھ مبینہ طور پر ہتک آمیز سلوک کیے جانے کے خلاف بھوک ہڑتال پر چلے گئے۔
یاسین ملک پر 1990ء میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح تحریک کے آغاز پر اُس وقت کے بھارتی وزیرِ داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کرنے اور سری نگر میں بھارتی فضائیہ کے چار اہل کاروں کو ہلاک کرنے کے الزامات بھی ہیں۔
بھارت کے ایک اور قومی تحقیقاتی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن ( سی بی آئی) نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ سے ان معاملات کو دوبارہ کھولنے کی اجازت طلب کی ہے۔ عدالتِ عالیہ نے اس سلسلے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔
بھارتی کشمیر کی کئی سیاسی جماعتوں نے یاسین ملک کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیشِ نظر اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ریاست کی ایک سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا “میں حکومت بھارت سے یاسین ملک کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتی ہوں تاکہ انھیں مناسب طبی امداد فراہم کی جا سکے۔ خدا نخواستہ اگر ان کے ساتھ کچھ بُرا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ تباہ کُن ہو گا”۔
انہوں نے بھارتی حکومت سے یاسین ملک کی پاکستانی بیوی مشعال حسین ملک اور بیٹی رضیہ سلطانہ کو بھارت آ کر اُن سے ملنے کی اجازت دینے کی بھی اپیل کی۔
مشعال ملک نے اتوار کو لاہور پریس کلب میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی سات سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ کے ہمراہ بھارت جا کر اپنے علیل شوہر سے ملنا چاہتی ہیں۔
انھوں نے یاسین ملک کی بگڑتی ہوئی صحت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے اور کشمیریوں کے ساتھ بھارت کی طرف سے مبینہ طور پر ڈھائے جا رہے مظالم کو پوری قوت کے ساتھ بین الاقوامی برادری کے سامنے اٹھائے۔
اس سے پہلے سری نگر میں ایک نیوز کانفرنس میں بات کرتے ہوئے یاسین ملک کی والدہ اور بہنوں نے الزام لگایا تھا کہ بھارتی حکومت انہیں اُن کی صحت کے بارے میں جان بوجھ کر اندھیرے میں رکھ رہی ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ اُنہیں یاسین ملک کے وکیل نے بتایا ہے کہ بھارتی عہدیدار اسے یہ اطلاع دینے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اُس کا موکل 12 روز سے بھوک ہڑتال پر ہے اور اب اُسے جیل سے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یاسین ملک نے بھوک ہڑتال اُنھیں غیر قانونی طور پر این آئی اے کی تحویل میں دینے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیے جانے کے خلاف شروع کی تھی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اتوار کو اپنے بیان میں یاسین ملک کی حراست کے دوران بگڑی صحت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا تھا کہ ’’یاسین ملک کی شدید علالت کے باوجود اور قانونی حقوق اور اخلاقیات کے برخلاف ان کے اہل خانہ کو، جنھیں بڑی دیر کے بعد مطلع کیا گیا ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی‘‘۔
تاہم ترجمان نے اُمید ظاہر کی کہ یاسین ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے ضروری اقدامات کیے جائیں گے جن میں انہیں معقول طبی امداد فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
بھارتی عہدیداروں نے کہا ہے کہ یاسین ملک کو مناسب طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔ نیز اُن کے ساتھ قانون کے تحت سلوک کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں لگائے جانے والے الزامات اور خدشات بے بنیاد ہیں۔
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2GCaRNe via Daily Khabrain
0 notes