Tumgik
#جوہر
melody10801 · 10 months
Text
جنہیں جینا نہیں اتا وہ نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
جنہیں اتا ہے مرنا وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں
محمد علی جوہر
# اردو شاعری # محمد علی جوہر Muhammad Ali Jouhar #
2 notes · View notes
akksofficial · 2 years
Text
سہیل احمد عزیزی بھارتی فلم میں ادکاری کے جوہر دکھائیں گے
سہیل احمد عزیزی بھارتی فلم میں ادکاری کے جوہر دکھائیں گے
کراچی (نمائندہ عکس) پاکستان کے معروف میزبان اور اداکار سہیل احمد عزیزی نے بھارتی فلموں میں انٹری دے دی۔سہیل احمد عزیزی پنجابی انڈین فلم بابے بھنگڑے پاوندے نے میں سپر اسٹار دلجیت دوسانج اور سرگن مہتا کے ساتھ نظر آئیں گے۔ فلم کی شوٹنگ امریکا میں کی گئی ہے جسے امرجیت سنگھ سارون نے ڈائریکٹ جبکہ دلجیت تھند اور دلجیت دوسانجھ نے پروڈیوس کیا ہے۔فلم کے ٹریلر میں دلجیت اپنے دوستوں کے ساتھ باپ کی موت کے بعد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
aiklahori · 9 months
Text
مجھے نہیں پتہ، یہ تحریر سچی ہے یا فسانہ؛ بس شرط ہے کہ آنکھیں نم نہ ہونے پائیں۔ آپ دوستوں کے ذوق کی نظر:
۔۔۔
میں ان دنوں جوہر شادی ہال کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک نگاہ پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!"
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پیسے نکالے، دو کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا.
بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی.
ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے". اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو۔۔
---
ذریعہ : فیسبک
8 notes · View notes
ekfarooqui · 2 years
Photo
Tumblr media
علامہ اقبال (۱۸۷۷-۱۹۳۸ پاکستان) شہيد محبت نہ کافر نہ غازي محبت کي رسميں نہ ترکي نہ تازي وہ کچھ اور شے ہے ، محبت نہيں ہے سکھاتي ہے جو غزنوي کو ايازي يہ جوہر اگر کار فرما نہيں ہے تو ہيں علم و حکمت فقط شيشہ بازي نہ محتاج سلطاں ، نہ مرعوب سلطاں محبت ہے آزادي و بے نيازي مرا فقر بہتر ہے اسکندري سے يہ آدم گري ہے ، وہ آئينہ سازي #allamaiqbal #allamaiqbalpoetry #علامہ_اقبال #urdupoetry #sadpoetry #urdughazal #poetrylove #lovequotes #lovepoetry #shayari #urduquotes #urdu #urduposts #sukhan #sukhan_taraaziyan #sukhantaraaziyan #hindi #hindiquotes #hindishayari #urdushayari https://www.instagram.com/p/CfWRG8st9sl/?igshid=NGJjMDIxMWI=
2 notes · View notes
hassanriyazzsblog · 2 months
Text
🌹🌹𝗗𝗢𝗡’𝗧 𝗔𝗦𝗞 𝗔𝗡𝗬𝗢𝗡𝗘:
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
8️⃣1️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗗𝗢𝗡’𝗧 𝗔𝗦𝗞 𝗔𝗡𝗬𝗢𝗡𝗘:
𝗜𝘁 𝗶𝘀 𝗿𝗲𝗰𝗼𝗿𝗱𝗲𝗱 𝗶𝗻 𝗮 𝘁𝗿𝗮𝗱𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗼𝗻𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗻𝗼𝘁 𝗮𝘀𝗸 𝗮𝗻𝘆𝘁𝗵𝗶𝗻𝗴 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗮𝗻𝘆𝗼𝗻𝗲 𝗯𝗲𝗰𝗮𝘂𝘀𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝘂𝗽𝗽𝗲𝗿 𝗵𝗮𝗻𝗱 𝗶𝘀 𝗯𝗲𝘁𝘁𝗲𝗿 𝘁𝗵𝗮𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗹𝗼𝘄𝗲𝗿 𝗵𝗮𝗻𝗱.
(Sahih al-Bukhari, Hadith No. 1429)
● 𝗧𝗵𝗶𝘀 𝘁𝗲𝗮𝗰𝗵𝗶𝗻𝗴 𝗽𝗲𝗿𝘁𝗮𝗶𝗻𝘀 𝘁𝗼 𝗮 𝗵𝗶𝗴𝗵𝗲𝗿 𝗵𝘂𝗺𝗮𝗻𝗶𝘁𝘆.
● 𝗜𝘁 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝗲𝘀𝘀𝗲𝗻𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝗵𝗶𝗴𝗵𝗲𝗿 𝗵𝘂𝗺𝗮𝗻𝗶𝘁𝘆 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗺𝗮𝗻 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗯𝗲 𝘀𝗲𝗹𝗳-𝗿𝗲𝗹𝗶𝗮𝗻𝘁 𝗮𝗻𝗱 𝗻𝗼𝘁 𝗮𝘀𝗸 𝗳𝗼𝗿 𝗮𝗻𝘆𝘁𝗵𝗶𝗻𝗴 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿𝘀.
● 𝗔𝘀𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗳𝗼𝗿 𝘁𝗵𝗶𝗻𝗴𝘀 𝗶𝘀 𝗻𝗼𝘁 𝗮 𝘀𝗶𝗺𝗽𝗹𝗲 𝗺𝗮𝘁𝘁𝗲𝗿; 𝗶𝘁 𝗶𝘀 𝗮 𝘀𝗶𝗴𝗻 𝗼𝗳 𝗺𝗼𝗿𝗮𝗹 𝗱𝗲𝗰𝗮𝘆.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗺𝗮𝗻 𝘄𝗵𝗼 𝗮𝘀𝗸𝘀 𝗼𝗳 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿𝘀 𝗶𝘀 𝗮𝘀 𝗶𝗳 𝗵𝗲 𝘄𝗮𝗻𝘁𝘀 𝘁𝗼 𝗹𝗶𝘃𝗲 𝗼𝗻 𝗲𝗮𝘀𝘆 𝘀𝘂𝘀𝘁𝗲𝗻𝗮𝗻𝗰𝗲.
● 𝗦𝘂𝗰𝗵 𝗮 𝗺𝗮𝗻 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝗵𝗮𝘃𝗲 𝘁𝗼 𝗽𝗮𝘆 𝘁𝗵𝗲 𝗽𝗿𝗶𝗰𝗲 𝗳𝗼𝗿 𝗵𝗶𝘀 𝗵𝗮𝗯𝗶𝘁 𝗼𝗳 𝗮𝘀𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿𝘀 𝗳𝗼𝗿 𝗳𝘂𝗹𝗳𝗶𝗹𝗹𝗶𝗻𝗴 𝗵𝗶𝘀 𝗻𝗲𝗲𝗱𝘀.
● 𝗔𝗻𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗶𝘀 𝘄𝗵𝘆 𝗵𝗲 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝗻𝗼𝘁 𝗯𝗲 𝗮𝗯𝗹𝗲 𝘁𝗼 𝗱𝗲𝘃𝗲𝗹𝗼𝗽 𝗵𝗶𝘀 𝗽𝗼𝘁𝗲𝗻𝘁𝗶𝗮𝗹.
● 𝗛𝗶𝘀 𝗵𝗶𝗱𝗱𝗲𝗻 𝗽𝗼𝘄𝗲𝗿𝘀 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝗿𝗲𝗺𝗮𝗶𝗻 𝘀𝘂𝗽𝗽𝗿𝗲𝘀𝘀𝗲𝗱 𝗶𝗻 𝗵𝗶𝗺, 𝗮𝗻𝗱 𝘁𝗵𝗲 𝘀𝗽𝗶𝗿𝗶𝘁 𝗼𝗳 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝗰𝗼𝗼𝗹 𝗱𝗼𝘄𝗻 𝗶𝗻 𝗵𝗶𝗺.
● 𝗛𝗲 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝘀𝘂𝗳𝗳𝗲𝗿 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗮 𝘄𝗲𝗮𝗸𝗻𝗲𝘀𝘀 𝗰𝗮𝗹𝗹𝗲𝗱 𝗲𝗮𝘀𝗲.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗿𝗶𝗴𝗵𝘁 𝘄𝗮𝘆 𝘁𝗼 𝗹𝗶𝘃𝗲 𝗶𝘀 𝘁𝗼 𝘁𝗿𝘂𝘀𝘁 𝗼𝗻𝗲𝘀𝗲𝗹𝗳 𝗮𝗻𝗱 𝗯𝗲 𝗮𝗰𝗰𝘂𝘀𝘁𝗼𝗺𝗲𝗱 𝘁𝗼 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸.
● 𝗢𝗻𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝘁𝗿𝘆 𝘁𝗼 𝘀𝘁𝗮𝗻𝗱 𝗼𝗻 𝗵𝗶𝘀 𝗼𝘄𝗻 𝗳𝗲𝗲𝘁.
● 𝗢𝗻𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗯𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝗴𝗶𝘃𝗲𝗿, 𝗻𝗼𝘁 𝗮 𝗿𝗲𝗰𝗲𝗶𝘃𝗲𝗿.
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 کسی سے کچھ نہ مانگو:
نبی کریم ﷺ کی ایک روایت میں ہے کہ کسی سے کچھ نہ مانگو کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
(صحیح البخاری، حدیث نمبر. 1429)
● اس دَرْس کا تعلق اعلیٰ انسانیت سے ہے۔
● یہ اعلیٰ انسانیت کا جوہر ہے کہ انسان خود پر انحصار کرے اور دوسروں سے کچھ نہ مانگے۔
● چیزیں مانگنا کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ اخلاقی زوال کی علامت ہے۔
● جو آدمی دوسروں سے مانگتا ہے گویا وہ آسان رزق پر زندگی گزارنا چاہتا ہے۔
● ایسے آدمی کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے دوسروں سے مانگنے کی عادت کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔
● اور اسی وجہ سے وہ اپنی صلاحیت کو فروغ دینے کے قابل نہیں رہتا ہے۔
● اس کی پوشیدہ قوتیں اس میں دبی کی دبی رہتی ہیں اور اس میں محنت کرنے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
● وہ ایک کمزوری میں مبتلا ہو جاتا ہے جسے "آسانی" کہا جاتا ہے۔
● جینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ خود پر بھروسہ کیا جائے اور خود محنت کرنے کے عادی بن جائیں۔
● ہر کسی کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔
● ہر کسی کو دینے والا بننا چاہیے لینے والا نہیں۔
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ منبر پر تشریف فرما تھے، اور آپ ﷺ نے صدقے اور دوسروں سے سوال کرنے سے بچنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے،اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے“۔ (صحیح - متفق علیہ)
● رسول اللہﷺ نے صدقے کی فضیلت اور دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی مذمت بیان کی ہے اور یہ بتایا ہےکہ جو شخص بھلائی کے کاموں میں اپنا مال دیتا اور خرچ کرتا ہے وہ اس شخص سے افضل ہے جو لوگوں سے ان کا مال مانگتا ہے۔
🔹 صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت مزید بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے بلندیوں سے نوازتا ہے۔
🔹 اللہ تعالی نے فرمایا: اے ابن آدم ! خرچ کر، تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔
🔹 جب آدمی اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ اس کے لئے صدقہ شمار ہوتا ہے۔
🔹 کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہوں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے نہ ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک فرما۔
🔹 کیا اللہ نے تمہارے لیے ایسى چیزیں نہیں بنائیں کہ تم ان کا صدقہ کرو؟ بے شک ہرسبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، ہر اللہ أکبر کہنا صدقہ ہے، ہر الحمد للہ کہنا صدقہ ہےاور ہر لاالہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے۔
🔹 اگر کسی شخص نے ایک بالشت بھر زمین بھی ظلم سے لے لی، تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔
🔹 جو شخص کھجور برابر حلال کمائی میں سے صدقہ کرے، اور جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صرف مال حلال قبول کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر اس صدقہ کو صدقہ دینے والے کے لیے اسی طرح پروان چڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ یا اس کا ثواب) پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے۔
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
لاہور میں یونیورسٹی کے طالبعلم نے پھندے سے لٹک کر خوکشی کر لی
جوہر ٹائون لاہور  کے علاقے میں ایک نجی یونیورسٹی میں طالبعلم نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی،نوجوان کی خودکشی کی تاحال وجہ معلوم نہ ہوسکی،یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ نے پھندے سے لٹک کر خودکشی کی۔ ریسکیو ذرائع نے بتایا کہ نواب ٹائون کے علاقے میں ایک نجی یونیورسٹی میں طالبعلم نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی،نوجوان کی خودکشی کی وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ واقعہ کی اطلاع ملنے مقامی پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی، پولیس نے خود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ifritz · 4 months
Video
youtube
URDU 1 یہ وہی ہے جو میں نے یاد کیاحصہ 1 پھل کا جوہر
The English version is available here: Video link
https://youtu.be/sBkEbIoUt1k
0 notes
discoverislam · 5 months
Text
دور ابتلاء میں صبر و یقین کی اہمیت
Tumblr media
قرآن کریم نے اہل ایمان کی ہدایت کے لیے تاریخ انسانی سے کچھ واقعات منتخب کر کے پیش کیے ہیں، یہ واقعات زیادہ تر گذرے ہوئے انبیائے کرامؑ اور ان کی قوموں کے ہیں۔ واقعات کا یہ انتخاب چوں کہ اس رب کا ہے جو سب بڑا باخبر اور ہر چیز پر قادر ہے اس لیے ان واقعات میں جہاں عبرت و نصیحت کا ایک جہاں آباد ہے، وہیں زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات اور چیلنجز کے لیے بہترین راہ نمائی اور ہدایات بھی موجود ہیں۔ اس تحریر میں ہم زیادہ واقعات سے تعرض نہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی تاریخ کا صرف ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جو امت مسلمہ کے موجودہ حالات سے بہت ملتا جلتا ہے۔ ساتھ ہی بنی اسرائیل کے ہادی و راہبر ﷲ کے عظیم پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کا ایک مختصر سا خطاب بھی نقل کریں گے، جو آپؑ نے اس موقع سے ارشاد فرمایا تھا، جس میں ہمارے لیے بھی موجودہ حالات میں بہترین راہ نمائی موجود ہے۔ بنی اسرائیل کے جدامجد حضرت یعقوبؑ کا اصلی وطن کنعان نام کی ایک بستی تھی، جو فلسطین کے شہر بیت المقدس سے چند میل کے فاصلے پر واقع تھی، بھائیوں کی بدخواہی اور شرارت نے حضرت یعقوبؑ کے چہیتے فرزند حضرت یوسفؑ کو ان سے جدا کر کے مصر میں پہنچا دیا۔
ﷲ کا کرنا ایسا کہ حضرت یوسفؑ مصر میں کسی عام شخص کے گھر پہنچنے کے بہ جائے عزیز مصر (مصر کے وزیر خزانہ) کے گھر پہنچ گئے، وہاں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر حضرت یوسفؑ کی عفت و پاکیزگی، امانت و دیانت ، علم و آگہی اور فہم فراست کی دھاگ بیٹھ گئی۔ اسی دور میں مصر میں ایک لمبی قحط سالی اور سخت قسم کے غذائی بحران کے آثار ظاہر ہوئے، تو حضرت یوسفؑ نے خوراک اور زرعی انتظام و انصرام کی باگ ڈور شاہ مصر سے درخواست کر کے اپنے ہاتھوں میں لے لی، اور اپنی بہترین منصوبہ بندی اور اچھے نظم و نسق کی ذریعے اس بحران پر قابو پانے میں کام یاب ہو گئے۔ حضرت یوسفؑ کے اعلی اخلاق کی دھاگ دلوں پر تو پہلے ہی بیٹھ چکی تھی، اب اس بہترین حکمت عملی کے ذریعہ جو عظیم احسان انہوں نے اہل مصر پر کیا اس کے آگے ان کی گردن بھی جھک گئی اور انہوں نے ملک کی زمام اقتدار حضرت یوسفؑ کے حوالے کر دی۔
Tumblr media
اس موقع سے حضرت یوسفؑ نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوبؑ اور ان کے پورے خاندان کو کنعان سے بلا کر مصر میں بسا دیا، حضرت یوسفؑ کی عزت و حرمت کی وجہ سے مصر میں بنی اسرائیل کو بھی احترام و اکرام ملا اور عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے، مگر حضرت کے بعد رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کی عزت میں فرق آتا گیا، اور چند نسلوں کے بعد وہ اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری بنا دیے گئے اور خدمت و جفاکشی اور بے گاری کے کام جو سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں سے لیے جاتے ہیں وہی بنی اسرائیل سے بھی لیے جانے لگے۔ اِدھر فرعون مصر کو بعض کاہنوں نے یہ پیشین گوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تمہاری یہ عظیم سلطنت برباد ہو جائے گی۔ یہ سننا تھا کہ فرعون نے حکم جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل میں پید اہونے والے ہر لڑکے کو قتل کر دیا جائے، چناں چہ اس پر عمل شروع ہو گیا اور بنی اسرائیل پر ایک ناگہانی قیامت ٹوٹ پڑی، انہی حالات میں ﷲ تعالی نے حضرت موسیؑ کو پیدا فرمایا اور اسباب ایسے پیدا کر دیے کہ حضرت موسیؑ کی پرورش بہ جائے بنی اسرائیل کے خود فرعون کے محل میں ہوئی اور وہ فرعون کے جلادوں سے ہر طرح محفوظ رہے۔
ایک عرصہ کے بعد یہی حضرت موسیؑ، فرعون، اس کی قوم اور بنی اسرائیل طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، ﷲ کے حکم سے حضرت موسیؑ نے فرعون کو معجزات دکھائے اور اس کے سامنے دو مطالبات رکھے، ایک یہ کہ ﷲ پر ایمان لائے اور اپنے رب ہونے کا دعوی ترک کر کے، اور دوسرے بنی اسرائیل کو آزاد کر دے تاکہ حضرت موسیؑ ان کو مصر سے نکال کر ان کے اصلی وطن کنعان میں لے کر جا کر بسائیں۔ فرعون آسانی سے ان مطالبات کو تسلیم کرنے والا کب تھا۔ اس نے موسیؑ کو مات دینے کے لیے جادوگروں کو بلا کر حضرت موسیؑ سے مقابلہ کرایا، جادوگروں نے فاتحانہ انداز میں اپنے جادو کے جوہر دکھائے اور سمجھے کہ ان کا جادو سر چڑھ کر بولے گا، مگر ﷲ کے حکم سے موسیؑ کے عصا نے اژدھا بن کر جب ان کے جادو کو نگلنا شروع کیا تو سارا جادو ملیا میٹ ہو گیا، جادوگروں کو سمجھ میں آگیا کہ موسیؑ کے پاس جادو سے مارواء کوئی طاقت ہے، اور وہ فوراً موسیؑ کے رب پر ایمان لاکر بے اختیار اس کے حضور میں سجدہ ریز ہو گئے۔
اس مقابلے میں حق نے تاریخی فتح پائی اور فرعون کو سخت خفت اٹھانی پڑی، اس نے محسوس کیا کہ اگر موسیؑ کی مقبولیت اسی طرح بڑھتی رہی، تو آگے چل کر اس کی حکومت کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ موسیؑ سے کچھ کہنے کی جرأت تو تھی نہیں، اس لیے بنی اسرائیل کو بچوں کے قتل کی دھمکی دے ڈالی اور ان پر عبادت گاہوں میں نماز کی ادائیگی پر پابندی بھی عاید کر دی گئی۔ جو کچھ اوپر لکھا گیا وہ درحقیقت تمہید تھی، مقصد بنی اسرائیل کے وہ حالات پیش کرنے ہیں جو اس دھمکی کے بعد پیش آئے، واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل اس دھمکی سے سخت گھبرائے اور پریشان ہوئے، اس سراسیمگی میں بعض لوگوں نے تو حضرت موسیؑ سے یہ بھی کہہ دیا، مفہوم: ’’موسی ساری پریشانیاں تمہاری وجہ سے ہیں۔ تمہاری پیدائش کے موقع پر بھی ہم اس ناقابل برداشت عذاب سے گذرے اور آج پھر اسی مصیبت کا پھر سامنا ہے۔‘‘ (اعراف) بنی اسرائیل مصر میں ایک چھوٹی سے اقلیت کی شکل میں زندگی گذار رہے تھے، حکومت و اقتدار سے دور تھے۔
فرعون کے لوگوں نے انہیں ہر طرح سے بے بس اور کم زور بنا رکھا تھا، ان پر جو بھی ستم کرنا چاہتے تھے، طاقت کے بل بوتے پر آسانی سے کرسکتے تھے اور کر رہے تھے، بنی اسرائیل فرعون کے قلمرو میں ناعزت و سکون سے رہ سکتے تھے نا کہیں بھاگ سکتے تھے، اور فرعون کی مستحکم اور مضبوط حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ حکومت جلد یا بہ دیر ختم ہونے والی ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل کی پریشانی بالکل بجا تھی، ان مایوس کن اور سخت پریشانی کے حالات میں ﷲ کے پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کیا اور فرمایا حضرت موسیؑ نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: ’’ﷲ سے مدد مانگو اور صبر سے کام لو، یقین رکھو! زمین ﷲ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور آخری انجام پرہیز گاروں ہی کے حق میں ہوتا ہے۔‘‘ ان مشکلات و آزمائش اور خوف و ہراس کے ماحول میں جو فرعون کے قتل اولاد کے اعلان کے بعد پیدا ہُوا تھا حضرت موسیؑ نے اپنے اس مختصر مگر جامع خطاب میں بنی اسرائیل کی تسلی کے لیے چار باتیں ارشاد فرمائیں، جو قدرے وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہیں:
٭ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ ﷲ سے مدد مانگو، حالات کہیں بھی پیدا ہوں اور کسی کے ذریعہ بھی پیدا ہوں ان کے پس پردہ ﷲ کی مشیت اور ارادہ کام کر رہا ہوتا ہے، اس کے ارادے اور مشیت کے بغیر کوئی پتہ بھی شاخ سے ٹوٹ کر زمین پر نہیں گرتا، لہٰذا جب سارے فیصلے اسی قادر مطلق کے حکم سے ہوتے ہیں، تو عقل و دانائی کی بات یہی ہے کہ اسی کے در کو کھٹکھٹایا جائے، اسی کی چوکھٹ پر پیشانی رگڑی جائے۔ اسی سے اپنی ناتوانی، بے بسی اور عاجزی کا اظہار کیا ��ائے، اور بار بار رجوع کر کے اس کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر مشکل حالات میں ﷲ سے مدد مانگنے اور اس سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے، اور ﷲ کے مقرب و نیک بندوں کے کئی واقعات نقل کر کے بتایا ہے کہ جب انہوں نے مشکل حالات میں ﷲ کو پکارا تو ﷲ نے کس طرح ان کی پکار سنی، اور کیسے اس کی رحمت نے ان کی فریاد رسی کی۔ ٭ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ صبر و ہمت سے کام لو، صبر اور ہمت ایک بڑی مضبوط ڈھال ہے، اس کے ذریعہ مشکل حالات میں اپنے وجود اور اپنے فکر و عقیدے پر باقی رہنا آسان ہوتا ہے، صبر یہ ہے کہ آدمی آزمائشوں کے دیکھ کر نہ گھبرائے نہ حواس باختہ ہو، بلکہ اپنے اعصاب پر قابو رکھے۔
مشکلات کو جھیلنے کے لیے اپنے ذہن کو تیار کرے، اور ناگواریوں کو ﷲ کے لیے گوارا کرتا رہے، اور صبر میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی فکر و عقیدے اور اپنے دین پر ثابت قدم رہے، خوف یا لالچ کی وجہ سے اس سے دست بردار نہ ہو جائے۔ جو بھی اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ اس کے مولی کی مشیت اور ارادے سے ہوتا ہے، اور جو بھی اس سچائی کو تسلیم کرتا ہے دین کی خاطر اور ﷲ کی رضا کے لیے جو بھی قربانی دی جائے، جو بھی نقصان اٹھانا پڑے، جو بھی قیمت چکانی پڑے، جو بھی غم جھیلنے پڑیں، اس پر ﷲ کی طرف سے اجر ملتا ہے، درجے بلند ہوتے ہیں اور گناہوں کی معافی ہوتی ہے، اس کے لیے ہر حال کو ﷲ کا ایک فیصلہ سمجھ کر گوارا کر لینا، اور ہر کٹھن گھڑی سے دین و ایمان کی سلامتی کے ساتھ اپنے کو نکال لینا آسان ہو جاتا ہے۔ ٭ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ یہ زمین ﷲ کی ہے، وہی جسے چاہتا ہے اس کا مالک اور حاکم بناتا ہے اور جسے چاہتا ہے حکومت اقتدار سے بے دخل کرتا ہے، وہ اگر کسی کو بے دخل کرنا چاہے تو مضبوط حکومتیں تار عنکبوت کی طرح بکھر جاتی ہیں، اور کل کے سرکش فرماں رواؤں کا شاہانہ جلال و طمطراق دیکھتے ہی دیکھتے سامان عبرت اور داستان پارینہ بن کر رہ جاتا ہے، یہ ایک ایسی سچائی ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے۔
اس دل کو امید و عزم سے لبریز کرتی ہے، اور ظالموں کے سامنے سینہ سپر ہونے، اور ظالم کی مرضی کے خلاف اپنے موقف پر اڑ جانے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے، اس حقیقت کے اظہار کے ذریعہ حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کو یہ پیغام دیا کہ فرعون جس کی بادشاہت کے کھونٹے بڑی مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں، تم یہ بات دل سے نکال دو کہ وہ سدا اسی طرح باقی رہے گی، اور ہمیشہ تمہارے اوپر اس کا اختیار چلتا ہی رہے گا، زمین ﷲ کی ہے جب تک ﷲ کو فرعون کا رہنا منظور ہے وہ رہے گا، اور جس دن ﷲ کو کچھ اور منظور ہو گا تو یہ مضبوط بادشاہت اسی دن تہس نہس ہو جائے گی۔ غزوہ خندق کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے پیشین گوئی کی تھی کہ روم و ایران کی سلطنتیں میری امت کے قبضے میں آجائیں گی، تو منافقین اور کفار نے بڑا مذاق بنایا تھا کہ کھانے کو ہے نہیں، بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں، اور خوف کا عالم یہ ہے کہ رات دن ایک کر کے دشمنوں سے بچاؤ کے لیے خندق کھود رہے ہیں، حالات تو یہ ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں کہ قیصر و کسری کی سلطنتوں کے مالک بنیں گے۔
اس موقع پر ﷲ تعالی نے آیت کریمہ نازل فرمائی، جس میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ ﷲ تعالی کی قدرت میں سب کچھ ہے، وہ جس طرح کائنات عالم میں دن کے اجالے کو تاریکی شب کی چادر سے ڈھانپ دیتا ہے، اور رات کی سیاہی کی جڑ سے صبح کی پو پھوڑ دیتا ہے، اسی طرح وہ انسانی دنیا میں حکومت و اقتدار میں بھی تبدیلیاں لا سکتا ہے، جب وہ کسی کو اقتدار دینا چاہے گا تو کوئی روک نہیں سکے گا، اور جب اقتدار کی کرسی اتارنا چاہے گا تو آدمی کی ہر تدبیر الٹی ہی پڑتی چلی جائے گی۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور چند ہی سالوں کے بعد ﷲ تعالیٰ نے بے کس و بے سہارا مسلمانوں کو قیصر و کسری کی سلطنت کا مالک بنا دیا، ﷲ تعالی نے فرمایا، مفہوم: ’’کہو اے ﷲ! اے اقتدار کے مالک! تُو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اورجس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کر دیتا ہے۔ تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے، تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ اور تو ہی بے جان چیز میں جان دار کو برآمد کر لیتا ہے اور جان دار میں سے بے جان چیز نکال لاتا ہے، اورجس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔،،
ایک مومن اگر ظالم کی قوت و اقتدار پر نظر کرنے کے بہ جائے ﷲ کی قدرت اور اس کی کے ذریعہ لوگوں میں اچھے برے اور عروج و زوال کے دن ادلتے بدلتے رہنے کی سنت پر غور کرے اور اس پر یقین رکھے تو اس کے دل میں ظالم اور اس کے زوال کے بارے میں نہ تو کبھی مایوسی ہو گی اور نہ ہی وہ اس کے آگے خود سپردگی اور اپنے فکر و عقیدے سے برأت کے اظہار پر آمادہ ہو گا، بلکہ اس کے برعکس اس کے دل میں اپنے ایمان و عقیدے کے طاقتور دفاع کی روح پیدا ہو گی۔ ٭ چوتھی بات جس کی طرف حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کو متوجہ کیا، وہ تقوی اور پرہیزگاری ہے، جو لوگ اپنی خوشی و غمی، امن و خوف، پسند و ناپسند ہر حال میں ﷲ سے ڈر تے ہیں، خوش گواری و ناگواری، اور نفع و نقصان ہر حال میں ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو بجا لاتے ہیں نیک انجام ہمیشہ انہی کا مقدر بنتا ہے۔ اس اچھے انجام کو آدمی کبھی دنیا میں بھی دیکھ لیتا ہے کہ ﷲ تعالیٰ اسے ظالموں کے ظلم سے نجات عطا فرما کر امن و اطمینان کی زندگی عطا کرتا ہے، جیسے فرعون کو ہلاک کر کے بنی اسرائیل کو اور کفار مکہ کے زور کو توڑ کر اہل ایمان کو ﷲ تعالیٰ نے امن و اطمینان سے نوازا تھا، اور اگر ﷲ کی کسی مصلحت کی وجہ سے دنیا میں یہ نیک انجام سامنے نہ بھی آئے تو آخرت میں تو یقینی ہے، اور ایک مومن کے لیے آخرت کی کام یابی سے بڑھ کر اور کوئی کام یابی نہیں ہے۔
غور کیا جائے تو معلوم ہو گا آج مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی زندگی بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا مظلومیت اور بے بسی سے بہت ملتی جلتی ہے، حالات جس رخ پر تیزی سے دوڑ رہے ہیں وہ ظاہر بینوں کو مایوسی کی طرف دھکیلتا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم حضرت موسیؑ کے اس موثر وعظ سے تسلی حاصل کریں، اور حضرت نے اپنی قوم کو جن چار باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ہم بھی اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، چناں چہ ہم صبر و ہمت سے کام لیں، ﷲ سے مدد مانگیں، اس پر بھروسا رکھیں اور اس سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔ جو ﷲ دن کو رات اور رات کودن میں بدلنے قادر ہے وہی خدا شر کے موجودہ حالات و واقعات سے خیر بھی پیدا کر سکتا ہے، اور سنگ دل ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر امن و امان، صلح و آشتی اخوت و بھائی چارہ اور باہمی محبت کا ماحول کو قائم کر سکتا ہے، جس میں آدمی عافیت کی زندگی جی سکے اور آزادی کے ساتھ اپنے رب کے احکام پر عمل پیرا ہوسکے۔ یہ چار باتیں ایسی ہیں جوہر شخص انفرادی طور پر بھی بہ آسانی انجام دے سکتا ہے، اس کو زندگی میں لانے کے لیے کسی لمبے چوڑے پروگرام اور وسائل کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔ ﷲ تعالیٰ امت کو امن ایمان اور سلامتی اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین
مفتی محمد اجمل قاسمی  
0 notes
urdu-poetry-lover · 6 months
Text
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب
جس دن سے تم روٹھیں، مجھ سے روٹھے روٹھے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وستر سب
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے، زیور ویور سب
آخر کس دن ڈوبوں گا میں فکریں کرتے ہیں
دریا وریا، کشتی وشتی، لنگر ونگر سب
عشق وشق کے سارے نسخے مجھ سے سیکھتے ہیں
ساگر واگر، منظر ونظر، جوہر ووہر سب
تُلسی نے جو لکھا اب کچھ بدلا بدلا ہے
راون واون، لنکا ونکا، بندر وندر سب
چمنِ دکھ کے باسی ہیں، دردِ شہر کے بانی ہیں
یہ محسن وحسن، غالب والب، ساگر واگر سب
راحت اندوری۔
1 note · View note
cnnbbcurdu · 10 months
Text
احمد علی بٹ کو دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں کونسے کردار کی پیشکش ہوئی تھی؟
کراچی: پاکستان شوبز کے مشہور اداکار کامیڈین و میزبان احمد علی بٹ نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں لالی ووڈ کی بلاک بسٹر فلم ’دی لیجنڈ آف دی مولا جٹ‘ میں ایک اہم کردار کی پیشکش ہوئی تھی۔ حال ہی میں احمد علی بٹ ایکسپریس انٹرٹینمنٹ کے پروگرام ’دی ٹاک ٹاک شو‘ میں شریک ہوئے جہاں انہوں نے شوبز سے متعلق کئی موضوعات پر گفتگو کی۔ پنجاب نہیں جاؤں گی میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے احمد علی بٹ نے انکشاف کیا کہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
greatestwarriors · 11 months
Text
شہنشاہ اکبر کی عظیم فتوحات
Tumblr media
مغل بادشاہ شہنشاہ اکبر نے ہمسایہ ریاستوں پر حملے کر کے انہیں اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ فتوحات کے بعد شہنشاہ ا کبر نے اپنی رعایا سے فیاضانہ سلوک کیا۔ گونڈوں کی ملکہ ورگاوتی کو شکست دینے اور اس کے خزانہ پر قبضہ کرنے کے بعد شہنشاہ اکبر نے چتوڑ کی طرف توجہ کی۔ جونہی اکبر اپنی فوجیں لے کر چتوڑ کی طرف روانہ ہوا، چتوڑ کا رانا ادوے سنگھ وہاں سے بھاگ نکلا۔ اس پر جمیل راٹھور نے چتوڑ کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ شہنشاہ اکبر کی تمام توپیں چتوڑ کے قلعہ کو فتح کرنے میں ناکام رہیں۔ ایک دن اکبر نے دیکھا کہ ایک پرشکوہ انسان ان شگافوں کی مرمت کرا رہا ہے جو گولہ باری کی وجہ سے قلعہ میں پیدا ہو گئے تھے۔ اکبر نے شست لگائی، پر شکوہ انسان زمین پر تھا۔ تھوڑی دیر بعد شہر کے بعض حصوں سے آگ کے شعلے اُٹھتے دکھائی دیئے۔ 
راجہ بھگوان داس نے بتایا کہ جوہر کی رسم ادا ہو رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اکبر نے جس شخص کا نشانہ کیا تھا وہ جمیل راٹھور تھا۔ چتوڑ کے لئے راجپوت سپاہیوں نے بہادری سے لڑنا شروع کیا۔ مرد اور عورتیں ایک ہی صف میں حملہ آوروں کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ آٹھ ہزار بہادر راجپوت چتوڑ کی حفاظت میں کام آتے۔ اکبر پر وہی وحشت سوار ہوئی جو کبھی سکندر یونانی کو گھیر لیتی تھی۔ اکبر کے حکم سے چتوڑ میں قتل عام کیا گیا۔ راجپوتوں کی بہادری سے اکبر اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے جمیل اور اس کے نوجوان بیٹے کے بت بنوا کر دہلی میں نصب کرائے۔ اکبر اپنی سلطنت کو ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک پھیلانا چاہتا تھا۔ اب اس نے مغرب کا رخ کیا۔ سمندر اور اس کی سلطنت کے درمیان گجرات حائل تھا۔
Tumblr media
گجرات کی راجد ھانی احمد آباد تھی۔ اب اکبر گجرات کی طرف روانہ ہوا۔ گجرات پر قبضہ کرنے میں اُسے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرتا پڑا۔ اکبر نے پہلی مرتبہ اس سمندر کو دیکھا جو ہندوستان اور یورپ کو ملاتا ہے۔ اس کے ذہن میں مغل بحریہ بنانے کا خیال نہ آیا۔ اکبر سمندر کی موجوں کو گن رہا تھا کہ ابراہیم حسین میرزا نے سرنال میں بغاوت کر دی۔ اس بغاوت کو دبانے اور میرزا کو شکست دینے کے بعد اکبر نے سورت کی بندر گاہ کا محاصرہ کیا۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ سورت کی مدد پرتگیزی کر رہے ہیں تو اس نے پرتگیزوں سے صلح کے لئے بات چیت کی۔ پرتگیزی وائسرائے نے انطونیو کو اکبر سے تصفیہ کے لئے بھیجا۔ سورت نے ہتھیار ڈال دیئے۔ پرتگیزوں سے اکبر نے اپنا تعلق اس طرح قائم کیا۔ وہ پرتگیزوں سے ان کے مذہب اور ان کی معاشرت کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اکبر آگرہ پہنچا۔ گجرات میں بغاوت ہو گئی۔
اکبر پھر گجرات کی طرف روانہ ہوا۔ دوسری مہم میں اکبر نے فوجی قابلیت اور بہادری کا ثبوت دیا۔ ایک ایک دن میں پچاس پچاس میل کا سفر کیا۔ آگرہ سے احمد آباد میں وہ گیارہ دنوں میں پہنچ گیا۔ چھ سو میل ! اکبر کے ہمراہ صرف تین ہزار سپاہی تھے۔ محمد حسین میرزا بیس ہزار سپاہیوں سمیت اکبر کے خلاف اٹھا۔ جونہی اُسے شاہی فوجوں کی آمد کا پتہ چلا تو میرزا چلایا’ ہمارے جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ اکبر چودہ دن پہلے فتح پور سیکری میں تھا۔‘ انہیں اکبر کی آمد کا یقین نہیں تھا۔ اکبر نے ایک شدید حملہ کیا۔ میرزا کی فوج کو شکست ہوئی۔ بنگال میں شہزادہ داؤد نے بغاوت کر دی۔ بہار پر افغان سرداروں کا قبضہ تھا۔ دائود نے اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے اکبر سے لڑنے کی تیاری کر لی۔ اکبر اس وقت گجرات میں تھا۔ 
اس نے بوڑھے جرنیل منعم خاں کو بغاوت فرو کرنے کے لئے بھیجا۔ لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ اب اکبر بنگال کی طرف روانہ ہوا۔ اکبر کی ساری گزشتہ مہموں سے یہ مہم نرالی تھی۔ کیونکہ اس مہم میں گنگا کو ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کرنا تھا۔ شہنشاہ نے اپنی فوج کا ایک حصہ خشکی کے راستے بھیج دیا اور باقی فوج کو ایک بیڑے پر سوار کیا۔ یہ بیڑہ بہت زیادہ شان وشوکت رکھتا تھا۔ بعض کشتیوں کو باغوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ دائود کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ اکبر برسات میں اتنی بڑی مہم کو جاری رکھ سکے گا۔ اکبر نے پٹنہ پر قبضہ کر لیا۔ پٹنہ سے واپسی پر شہنشاہ کے ذہن میں عبادت خانہ بنا نے کا خیال پیدا ہوا۔ جہاں وہ مختلف فرقوں کے مسلمان علماء سے تبادلہ خیال کر سکے۔ چنانچہ اس نے شیخ سلیم چشتی کے مقبرہ کے قریب ایک شاندار عمارت بنوائی…بہار اور بنگال میں پھر بغاوت ہو گئی۔ 
بعض درباریوں نے اکبر کے بھائی مرزا محمد حکیم، حاکم کا بل کو دعوت دی کہ وہ ہندوستان پر حملہ کر کے اکبر کی جگہ خود بادشاہ بن جائے۔ مرزا محمد حکیم کو اکبر نے شکست دی۔ شہنشاہ اکبر نے پھر سے فتوحات کی طرف توجہ کی۔ کشمیر اور سندھ کی فتح کے بعد اس نے اڑیسہ، بلوچستان اور قندھار کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ دکن ابھی باقی تھا۔ شہنشاہ کا خیال تھا کہ دکن کی ریاستیں اس کی فتوحات سے مرعوب ہو کر اس کی قیادت کو مان لیں گی۔ اکبر نے عبدالرحیم خان خانان اور شہزادہ مراد کو احمد نگر فتح کرنے کے لئے بھیجا۔ احمد نگر کی ملکہ چاند بی بی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مغل اُسے شکست نہ دے سکے۔ چاند بی بی اور اکبر میں صلح ہو گئی۔ اب اکبر خود دکن گیا۔ احمد نگر کو فتح کرنے کے بعد اس نے خاندیس کو فتح کرنا چاہا۔ 
ایسر گڑھ کے قلعہ کا محاصر ہ کر لیا گیا لیکن بے سود۔ آخررشوتوں کو کام میں لاکر اکبر نے اس قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ دکن کی مہم پر روانہ ہوتے وقت اکبر نے سلیم کو آگرہ میں انتظام سلطنت کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ سلیم نے بغاوت کے لئے اچھا موقع پایا۔ الہٰ آباد پہنچ کر اس نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ بہت بڑی فوج جمع کرنے کے بعد وہ آگرہ کی طرف بڑھا۔ اکبر دکن سے واپس آچکا تھا۔ اس نے شاہی قاصدوں کو فرمان دے کر سلیم کے ہاں بھیجا۔ اس فرمان کی رو سے شہنشاہ اکبر نے اپنے بیٹے سلیم کو بنگال اور بہار کا گورنر مقرر کیا تھا۔ لیکن سلیم نے ایک نہ سنی۔۔۔آخر کار کسی نہ کسی طرح سلیم کو ترغیب دلا کر آگرہ میں پہنچا دیا۔ اکبر کی والدہ سلیم کا استقبال کرنے کے لئے آگرہ سے کئی میل دور گئی۔ اس کی کوششوں سے باپ بیٹے میں ملاقات ہوئی۔ سلیم نے معافی مانگی۔ اکبر نے اپنا عمامہ سلیم کے سر پر رکھ دیا۔
باری علیگ
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
nooriblogger · 1 year
Text
بائیسویں محفل
Time to read: 11 minutes 8 شوال المکرم، 1444 ہجری(مطابق 29 اپریل، 2023 عیسوی، بروز ہفتہ) بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ اصلی جوہر حاضریخود کو پہچانوبوجھ شیر جب دھاڑتا ہے خفیہ عہد و پیمان پیغام اصلی جوہر میرے پیر و مرشد قبلہ میاں محمد مظہر احسان نقشبندی مجددی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ، “انسان کا اصلی جوہر روح ہے اور روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے اس لئے نہ خالق ہے نہ مخلوق ہے۔ یہ اللہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
آٹے کا تھیلا اور ماہ رمضان
Tumblr media
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ شروع ہے۔ مسلمان روزے رکھ رہے ہیں لیکن کھانے پینے کی اشیاء بہت ہی مہنگی ہو رہی ہیں، معیشت بیٹھ نہیں رہی بلکہ بیٹھ چکی ہے، ملازمتیں اور روزگار نہیں مل رہا، جیبیں خالی ہیں۔ مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ مسلمان تاجر ہیں جو ان روزوں کا اجر اسی دنیا میں وصول کر رہے ہیں۔ روزہ داروں کو تو ثواب جب ملے گا، سو ملے گا لیکن جو لوگ کاروبار کرتے ہیں، انھوں نے ماہ رمضان کو بھی کاروبار بنا دیا ہے اور مال کی صورت ثواب لوٹ رہے ہیں، ایسا ہر سال ہوتا ہے، اس سال تو بہت ہو رہا ہے لیکن حکمرانوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے یہ نام نہاد بڑے لوگ یک نکاتی ایجنڈے متفق ہو جاتے اور اپنی سیاست کو عید کے بعد تک اٹھا رکھتے اور جو فضول خرچی یہ اپنے جلسوں جلوسوں میں کر رہے ہیں، اسی رقم سے وہ روزہ داروں کی پیاس بجھاتے جس سے عوام میں ان کی پذیرائی بھی ہوتی اور وہ ثواب بھی کما لیتے ہیں لیکن ان بڑے لوگوں کو اجر و ثواب سے کیا غرض، ان کا اجر تو صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔ عوام کی حالت ناگفتہ بہہ ہے جس کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
حکومت نے گو کہ رمضان میں کم وسیلہ گھرانوں کے لیے آٹے کے تین تھیلے مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا اور پھر اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق مفت آٹا فراہمی کی یہ اسکیم بدنظمی کا شکار ہے اور عوام کی ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ بھوک مٹانے کے لیے آٹے کے حصول میں کئی مردو زن اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم جن کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے وہ عوام کو آٹے کی فراہمی کو رواں اور سہل بنانے کے لیے پنجاب بھر کے دورے کر رہے ہیں جب کہ ہمارے دوست نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عامر میر بھی اپنی مقدور بھر کوششوں سے اس کار خیر میں حصہ ڈال رہے ہیں لیکن بات بن نہیں پا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت آٹے کی براہ راست فراہمی کے بجائے ان کم وسیلہ گھرانوں کو جو پہلے ہی حکومت کے امدادی پروگرام بینظیر انکم سپورٹ میں رجسٹرڈ ہیں ان کو براہ راست رقم ہی مہیا کر دیتی تو لوگ خود سے ہی آٹے کی خریداری کر لیتے لیکن نہ جانے حکومتوں کے وہ کون سے عقلمند مشیر ہوتے ہیں جو عوام کی سہولت کو بھی زحمت میں بدل کر حکومت کی نیک نیتی کو بدنامی میں بدل دیتے ہیں۔
Tumblr media
آٹے کے دس کلو تھیلے کے حصول کے لیے ٹیلی ویژن پر جو مناظر دیکھے جارہے ہیں، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اس مفت آٹے کو عوام تک پہنچانے کا درست بندوبست نہیں کر پا رہی ہے۔ کوشش یقینا ہو رہی ہے لیکن وہ صلاحیت نہیں دکھائی دے رہی جوایسے کسی انتظام کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ادھر ہمارے عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے اور وہ ان دیکھے معاشی خطرات کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ جنس ذخیرہ کرنے کی جد جہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کراچی میں ایک صاحب حیثیت شخص نے عوام کو سستا فروٹ اور سبزی فراہم کرنے کے لیے اسٹال لگایا جہاں پر ہر چیز دس روپے کلو فراہمی کا بندوبست کیا گیا لیکن ہوا یہ کہ اس سستے انتظام پر عوام نے ہلہ بول دیا اور اس اسٹال سے ہر چیز اٹھا کر لے گئے۔ کوئی کرے تو کیا کرے اور بے صبرے عوام کو کیسے سمجھائے کہ یہ سب کچھ انھی کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن بات وہیں پر آکر ٹھہرتی ہے کہ بے کس اور مجبور عوام اپنے مستقبل سے مایوس ہیں اور یہ مایوسی اب اپنی حدوں کو پار کر چکی ہے اسی لیے اس طرح کے واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔
پاکستان میں معاشی ابتری کی وجہ سے بے یقینی کی کیفیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس معاشی تنگدستی نے عام آدمی کی قوت خرید انتہائی کم کر دی ہے اور اس بار پہلی دفعہ ماہ رمضان میں عوام بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ عموماً رمضان المبارک میں مخیر حضرات بہت زیادہ صدقہ و خیرات کے علاوہ زکوۃ تقسیم کرتے ہیں لیکن چونکہ اب مستحقین کی تعداد میں حیرت ناک طور پر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس لیے یہ زکوۃ بھی کم پڑتی نظر آتی ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ جاری ہے حکومت ابھی بھی متعلقہ محکموں کو فعال کر کے عوام کو مارکیٹ میں روز مرہ زندگی کی ضروری اجناس کی ارزاں نرخوں پرفراہمی کو یقینی بنا سکتی ہے اور آٹے کے ایک مفت تھیلے کے حصول کے لیے جس طرح دربدر ہو کر عوام اپنی جانیں گنوا رہے ہیں ان دلخراش مناظر سے بچا جا سکتا ہے۔ بات صرف نیک نیتی اور انتظامی صلاحیتوں کی ہے میاں شہباز شریف انتظامی صلاحیتوں سے مالامال ہیں لیکن اپنے سیاسی اتحادیوں میں گھر کر اپنی انتظامی صلاحیتوں کے ابھی تک وہ جوہر نہیں دکھا سکے جس کے لیے ان کے شہرت ہے۔ رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرانا اجر و ثواب کا افضل درجہ ہے اور میاں صاحب کواس ثواب سے محروم نہیں ہو نا چاہیے بے کس اور مجبور عوام کی دعائیں لینی چاہئیں۔
اطہر قادر حسن  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
spitonews · 1 year
Text
’’جان وِک‘‘ فلم کے اہم اداکار انتقال کرگئے
سیکریٹری نے بتایا کہ انکی موت قدرتی وجوہات کی بنا پر اچانک ہوئی (فوٹو: ٹوئٹر) معروف ہالی ووڈ ایکشن فلم ’’جان وِک‘‘ میں اداکاری کے جوہر دیکھانے والا ہوٹل کانٹینینٹل میں مینیجر کا کردار ادا کرنے والے لانس ریڈک انتقال کرگئے۔ لانس ریڈک شاندار ایکشن مووی ’جان وک‘ ایکشن تھرلر مووی فرنچائز میں شارون کے کردار سے کافی پذیرائی حاصل ہوئی تھی، انکا انتقال 60 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کے سیکریٹری نے بتایا کہ وہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
صبح سویرے کراچی کے مختلف علاقوں میں ہلکی بارش، خنکی میں اضافہ
علی الصبح کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش، نارتھ کراچی، سرجانی ٹائون، نارتھ ناظم آباد،  ناظم آباد اور فیڈرل بی ایریا میں مختصر دورانیے کی تیز بارش ہوئی۔ گلستان جوہر اور گلشن اقبال کے علاقوں میں بھی ہلکی بارش، گلشن معمار سمیت ملحقہ علاقوں میں بھی بوندا باندی ہوئی۔ کلفٹن ، ڈے ایچ اے کے مختلف حصوں،آئی آئی چندریگر روڈ، ماڑی پور سمیت ملحقہ علاقوں میں بھی ہلکی بارش ہوئی۔ بارش کے بعد سردی کی شدت میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 1 year
Text
لوگ حیران ہو کر کہتے ہیں کرن جوہر آ گیا: پاکستانی بزنس مین
مشہور فلم ساز کرن جوہر  جیسے دکھنے والے نوجوان عثمان خان کہتے ہیں کہ کرن جوہر نے ٹوئٹر پر انہیں دیکھ کے خود ہی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’ری ٹویٹ‘ کیا۔ عثمان خان ایک حافظِ قران اور نعت خواں ہیں۔ وہ کاسمیٹکس کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں: ’راستے میں جاتے ہوئے بھی لوگ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ دیکھو کرن جوہر آ گیا۔‘ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عثمان خان نے  بتایا ’دوست ہمیشہ یہی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes