Tumgik
#وبائی حملے
akksofficial · 1 year
Text
گندم کے کاشتکارکنگی کے کنٹرول کیلئے فصل کا باقاعدگی سے معائنہ کریں ، ترجمان محکمہ زراعت سیالکوٹ
سیالکوٹ (عکس آن لائن)ترجمان محکمہ زراعت سیالکوٹ نے کہا ہے کہ موجودہ موسمی تناظر میں درجہ حرارت بڑھنے کے باعث گندم کی فصل پر کنگی کے حملہ کا امکان موجود ہےاس لیے کاشتکارکنگی کے کنٹرول کیلئے فصل کا باقاعدگی سے معائنہ کریں ۔ ترجمان نے کہا ہے کہ رواں ماہ کے دوران صوبہ پنجاب میں ملتان، بہاولپور،بہاولنگر،رحیم یار خان،ڈی جی خان،لیہ،گڑھ مہاراجہ،راجن پور،سیالکوٹ، منڈی بہاوالدین،خوشاب اور بھکر کے بعض…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
بایولوجیکل وار کیا ہے؟؟
کورونا وائرس کے پھیلائو کے ساتھ متعدد عالمی ماہرین اسے بایولوجیکل وار کا حصہ قراردے چکے ہیں ۔۔
24 فروری کو اسرائیلی پارلیمنٹ کی رکن اور غیشر نامی یہودی سیاسی پارٹی سربراہ خاتون اورلی لیوی نے بھی پارلیمانی خطاب میں اسے بایولوجیکل وار قراردیا ہے ۔۔
بایولوجیکل وار کیا ہے اورکیا ماضی میں اس کی کتنی مثالیں موجود ہیں ؟
بایولوجیکل وار کو’’ مائکروبیل وار‘‘ اور ’’ بیکٹیریل وار‘‘ بھی کہا جاتا ہے لیکن بایولوجیکل وار اس کا جامع نام ہے ۔۔
بیولوجیکل وار میں دشمن کے خلاف جراثیم ،وائرس اورمایکروجنزم کا استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے انسانوں کو نشانہ بنانے کے لئے جانوروں یا فصلوں اورپھل دار درختوں کونشانہ بنایا جاتا ہے ۔۔
بایولوجیکل وار کی طویل تاریخ ہے ۔ ماضی میں حضرت انسان نبیذ،شراب، پانی اوردیگر ماکولات میں زہر ملا کر اپنے دشمن کو تباہ کرنے کا سامان کرتا تھا ۔۔
تاہم جدید تاریخ میں جنگ عظیم اول (1914-1918) کے دور میں بایولوجیکل وار کی اہمیت بڑھ گئی اور طاقتور ممالک کے درمیان اس کے حصول کا مقابلہ شروع ہوگیا ۔۔ جنگ عظیم اول کے دوران پہلی مرتبہ جرمنی نے روس، امریکہ اور اٹلی پر بایولوجیکل حملہ کیا ۔
جرمنی نے بھیڑوں کے ریوڑوں میں سرطان، ہیضہ اور جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے وائرس کے زہریلے انجکشن لگانے کے بعد انہیں مذکورہ ممالک میں بھجوادئے جس کے نتیجے میں وہاں وبائی امراض پھیل گئے اور ہزاروں انسان لقمہ اجل بنے ۔
اس تباہ کن ہتھیار کی تباہی کو مذنظر رکھ کر 1925میں جنیوا میں بایولوجیکل ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے بین الاقوامی معاہدہ ہوا جس میں 29 ممالک نے شرکت کی تاہم امریکہ نے اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے شرکت سے انکار کیا ۔۔
دوسری جنگ عظیم کی شروعات میں جاپان نے خطرناک بایولوجیکل ہتھیار بنائے جس کا تجربہ 1936 میں 3 ہزار قیدیوں پر کیا گیا ۔۔ کینسر اوراس جیسے دیگر موذی وائرس چھوڑکر جاپان نے ان قیدیوں کو اذیت ناک موت ماردیا ۔
کامیاب تجربے کے بعد 1940 میں جاپان نے چین پروائرس زدہ پسو(جوں کی طرح ایک چھوٹا کیڑاہوتا ہے) کے ذریعے حملہ کروایا ۔۔ یہ تجربہ کامیاب ہوا بعد میں اسی وائرس کو تبدیلی کے ساتھ بموں میں ڈال کر چین کے خلاف استعمال کیا ۔
جاپان کی بایولوجیکل کامیابی کو دیکھ کر امریکہ نے اس پر ایٹم بم گرادیا اورجاپان کی بایولوجیکل لیبارٹیوں کا خاتمہ کردیا ۔۔ جبکہ امریکہ نے اپنی بایولوجیکل تخلیق تیز کردی ۔
1943 میں امریکی ریاست میری لینڈ میں بایولوجیکل وار کے ہتھیاروں کی لیبارٹری کا انکشاف ہوا ۔
1952 میں عالمی ماہرین کی ٹیم نے امریکہ پرشمالی کوریا میں بایولوجیکل ہتھیاروں کے استعمال کا دعویٰ کیا ۔
1956 میں سوویت یونین نے بایولوجیکل ہتھیاروں کی صنعت پر کام شروع کرنے کااعلان کیا ۔
1960 میں امریکہ کی جانب سے ویت نام میں بایولوجیکل حملے کا دعویٰ سامنے آگیا ۔
سوویت یونین کی جانب سے بایولوجیکل ہتھیارون پر کام کے خوف سے امریکہ نے 1965 میں بایولوجیکل ہتھیاروں کی مخالفت شروع کردی ۔
1972 میں 103ممالک نے امریکی سرپرستی میں بایولوجیکل ہتھیاروں کی صنعت، ذخیرہ اندوزی اور ڈیولپمنٹ کو ممنوع قراردینے کے معاہدے پر دستخط کردئے ۔اورامریکہ نے دنیا کو باور کرانے کے لئے آرکنساس میں واقع بایولوجیکل ہتھیاروں کی لیبارٹری کو تباہ کرادیا ۔
1989میں امریکی انٹیلی جنس سی آئی اے نے دنیا کے 10 ممالک کے پاس خطرناک ترین بایولوجیکل ہتھیاروں کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا ۔
4 notes · View notes
emergingpakistan · 4 years
Text
طاعون ''کالی موت‘‘ : جس نے دنیا کو کئی مرتبہ اجاڑ کر رکھ دیا
عہدوسطیٰ کی ایک عالمی وباء ''کالی موت‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ خیارکی طاعون (Bubonic Plague) تھا۔ اس کا ذکر یورپ کے حوالے سے آتا ہے اور اس میں حیرانی کی بات نہیں، کیونکہ اس نے چودھویں صدی میں یورپ کی ایک تہائی آبادی کو مار دیا تھا۔ البتہ خیارکی طاعون کا آغاز ایشیا میں ہوا تھا اور اس نے براعظم ایشیا کے بہت سے علاقوں میں بھی تباہی مچائی۔ بدقسمتی سے ایشیا میں اس وباء کو اس طرح دستاویزی شکل نہیں دی گئی جس طرح یورپ میں دی گئی۔ تاہم ایشیائی دستاویزات میں 1330ء اور 1340ء کی دہائی میں اس کے دستاویزی ثبوت ملتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ یہ مرض جہاں پھیلا، اس نے دہشت اور تباہی مچائی۔
ابتدا: بہت سے سکالرز کا خیال ہے کہ خیارکی طاعون شمال مغربی چین سے شروع ہوا، جبکہ بعض جنوب مغربی چین یا مشرقِ وسطیٰ کے گھاس کے میدانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ سلطنت یوان میں 1331ء میں پھیلنے والی ایک وباء نے چین پر منگولوں کی حکمرانی ختم ہونے کے عمل کو تیز کر دیا تھا۔ تین سال بعد اس مرض نے چین کے صوبہ ہوبی (Hebei) میں 90 فیصد آبادی کو مار ڈالا اور اس سے 50 لاکھ اموات ہوئیں۔ 1200ء تک چین کی کل آبادی 12 کروڑ سے زیادہ تھی، لیکن 1393ء میں ہونے والی مردم شماری میں یہ آبادی چھ کروڑ 50 لاکھ رہ گئی تھی۔ ان میں سے کچھ آبادی قحط اور یوان خاندان سے حکمرانی مِنگ خاندان کو منتقل ہونے کے عمل کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کی نذر ہو گئی، تاہم کروڑوں افراد خیارکی طاعون سے ہلاک ہوئے۔
اپنی پیدائش کے علاقے سے ''کالی موت‘‘ شاہراہ ریشم کے تجارتی راستوں پر سفر کرنے والوں کے ساتھ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے تجارتی مراکز تک پہنچی اور پورے ایشیا میں پھیل گئی۔ مصری سکالر المقریزی لکھتا ہے ''تین سو سے زیادہ قبائل گرما اور سرما میں اپنے مویشیوں کو چرانے اور ہجرت کرنے کے دوران یکایک اپنی خیمہ بستیوں میں ختم ہو گئے۔‘‘ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ پورے ایشیا میں جزیرہ نما کوریا تک آبادی کم ہو گئی۔ مصری مصنف الوری، جو خود 1348ء میں طاعون سے مر گیا، لکھتا ہے کہ کالی موت ''تاریک سرزمین‘‘ یا وسطی ایشیا سے برآمد ہوئی۔ وہاں سے یہ چین، ہندوستان، بحیرہ کیسپین اور ازبکوں کی سرزمین میں پھیلی، اس کے بعد یہ فارس اور بحیرہ روم کے علاقوں میں پھیل گئی۔
فارس پر طاعون کا حملہ : چین میں ظاہر ہونے کے چند ماہ بعد طاعون وسطی ایشیا سے ہوتا ہوا فارس پر حملہ آور ہوا۔ شاہراہ ریشم اس کے مہلک بیکٹیریا کی منتقلی کا آسان راستہ تھی۔ 1335ء میں ایلخانی (منگول) حاکم ابو سعید شمال میں اپنے رشتہ دار منگول حاکموں سے لڑتے ہوئے خیارکی طاعون میں مبتلا ہو کر مر گیا۔ اس سے خطے میں منگول حکمرانی کے خاتمے کا آغاز ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق چودھویں صدی کے وسط میں فارس کی 30 فیصد آبادی طاعون سے مر گئی۔ اس خطے کی آبادی میں اضافہ کم رفتار رہا، جس کی ایک وجہ منگول حاکموں کا زوال اور پھر امیر تیمور کے حملے تھے۔ کرغزستان میں جھیل سسق کول کے کناروں کی اثریاتی کھدائی سے ظاہر ہوا کہ نسطوری مسیحی تاجروں کی آبادی 1338ء اور 1339ء میں خیارکی طاعون سے بہت بڑی تباہی کا شکار ہوئی۔ 
سسق کول شاہراہ ریشم کا ایک اہم ��ودام تھا اور بعض اوقات اسے ''کالی موت‘‘ کا شروعاتی مقام بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں مارموت (marmots) کی آبادی یقینا زیادہ ہو گی، جو طاعون کو وبائی صورت دینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ تاہم اس کا امکان زیادہ ہے کہ مزید مشرقی جانب سے اس بیماری کے پسو سسق کول کے ساحلوں تک پہنچے ہوں۔ معاملہ جو بھی ہو، اس چھوٹی سی آبادی میں جہاں ڈیڑھ سو سال سے سالانہ چار افراد مر رہے تھے، صرف دو سالوں میں 100 سے زیادہ افراد مر گئے۔ اگرچہ درست تعداد اور واقعات کے بارے میں معلوم کرنا مشکل ہے لیکن مختلف سرگزشتوں میں وسطی ایشیا کے شہروں جیسا کہ موجودہ کرغزستان کا شہر طلاس، روس کے منگول حاکموں کا دارالحکومت سرائے، ازبکستان کا شہر سمرقند تمام ''کالی موت‘‘ سے متاثر ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آبادی کے ان تمام مراکز کے کم از کم 40 فیصد لوگ مارے گئے ہوں گے جبکہ بعض علاقوں شرح اموات 70 فیصد ہو گی۔
کفا میں طاعون کا پھیلاؤ: 1344ء میں روسی علاقے کے منگول حاکموں نے جینوا والوں سے کریمیا کے بندرگاہی شہر کفا کو دوبارہ چھیننے کا فیصلہ کیا۔ اٹلی کے تاجروں نے اس پر تیرہویں صدی کے اواخر میں قبضہ کر لیا تھا۔ جانی بیگ کی قیادت میں اس کا محاصرہ کر لیا گیا جو 1347ء تک جاری رہا۔ ان منگولوں کو مشرق سے فوجی کمک پہنچی، جس کے ساتھ طاعون بھی آگیا۔ ایک اطالوی قانون دان بتاتا ہے کہ کیا ہوا۔ ''تاتاریوں (منگولوں) کی ساری فوج میں بیماری پھیل گئی اور ہر روز ہزاروں مرنے لگے۔‘‘ وہ کہتا ہے کہ منگول قائدین نے ''لاشوں کو منجنیکوں کے ذریعے شہر کے اندر پھینکنے کا حکم دیا، انہیں امید تھی کہ ان کا تعفن انہیں مار دے گا۔‘‘
حیاتیاتی جنگ کے حوالے سے اس واقعے کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے لیکن اس دور کی دستاویزات میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ کلیسا سے منسلک ایک فرانسیسی لکھتا ہے کہ تارتاری فوج میں اتنی اموات ہوئیں کہ ہر 20 میں سے ایک زندہ بچا۔ اس محاصرے سے بچ کر نکلنے والے لوگوں کے ذریعے یورپ میں طاعون پھیلا۔ مشرقِ وسطیٰ میں طاعون: مغربی مبصرین نے وسطی ایشیا کے مغربی حصے اور مشرق وسطیٰ میں طاعون کے پھیلاؤ پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ ایک تحریر کے مطابق ''ہندوستان میں آبادی کم ہو گئی، تاتاریوں کے علاقے، میسوپوٹامیا، شام اور آرمینیا لاشوں سے بھر گئے، کرد پہاڑوں کی طرف بھاگ نکلے لیکن اس کا انہیں فائدہ نہ ہوا۔‘‘
عظیم سیاح ابنِ بطوطہ لکھتا ہے کہ 1345ء کے نزدیک دمشق میں مرنے والوں کی تعداد دو ہزار تھی۔ 1349ء میں مکہ مکرمہ میں بھی طاعون پھیلا۔ مراکشی تاریخ دان ابن خلدون، جس کے والدین طاعون کی نذر ہوئے، نے وباء کی داستان یوں بیان کی ہے: ''مشرق اور مغرب کی تہذیبیں طاعون سے تباہ ہو گئیں، قومیں برباد اور آبادیاں ختم ہو گئیں۔ اس نے تہذیبوں کے اچھے پہلوؤں کو نگل لیا اور ان کا صفایا کر دیا...انسانوں کی کمی سے تہذیب بھی سکڑ گئی۔ شہر اور عمارتیں ناکارہ ہو گئیں، سڑکوں اور گلیوں کے نشان مٹ گئے، محلے اور محل خالی ہو گئے، بادشاہتیں اور قبیلے کمزور ہو گئے۔ ساری آباد دنیا بدل گئی۔‘‘
ایشیائی طاعون: 1855ء میں خیارکی طاعون کی ''تیسری وباء‘‘ آئی۔ یہ پہلے چین کے صوبے یونان میں پھوٹی۔ 1910ء میں چین میں ایک اور وباء آئی، یہ پچھلی کا تسلسل تھی یا پھر نئی تھی۔ اس نے ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کیا۔ اسی طرح کی وباء 1896ء سے 1898ء تک ہندوستان میں تقریباً تین لاکھ اموات کا سبب بنی۔ ایشیا پر اثرات: ''کالی موت‘‘ کا سب سے اہم اثر ایشیا پر یہ پڑا کہ عظیم منگول سلطنت انحطاط پذیر ہو گئی۔ روس کے منگول حاکموں سے لے کر چین میں یوان بادشاہت تک سب اس سے متاثر ہوئے۔ مشرق وسطیٰ کا ایلخانی منگول حاکم اپنے چھ بیٹوں سمیت مارا گیا۔ 
تحریر : کیلی شی چی پسکی
ترجمہ و تلخیص: وردہ بلوچ
بشکریہ دنیا نیوز
4 notes · View notes
breakpoints · 2 years
Text
عالمی بینک نئے $170b بحرانی فنڈ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون
عالمی بینک نئے $170b بحرانی فنڈ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون
واشنگٹن: بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے پیر کو کہا کہ عالمی بنک 170 بلین ڈالر کا ہنگامی فنڈ بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ غریب ترین ممالک کو متعدد بحرانوں سے دوچار کیا جا سکے۔ “کرائسز ریسپانس لفافہ” کوویڈ 19 وبائی مرض کے دوران شروع ہونے والے کام کو جاری رکھے گا، اور بڑھتی ہوئی افراط زر سے نمٹنے میں ممالک کی مدد کرے گا، جو یوکرین پر روسی حملے کے ساتھ ساتھ قرضوں کی بلند سطح کی وجہ سے پیدا ہونے والے…
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
بھارت کو روسی تیل کی فروخت بائیڈن کی کوششوں کو پیچیدہ بناتی ہے۔ تیل اور گیس کی خبریں۔
بھارت کو روسی تیل کی فروخت بائیڈن کی کوششوں کو پیچیدہ بناتی ہے۔ تیل اور گیس کی خبریں۔
یوکرین پر روسی حملے کے خلاف پوری دنیا کو متحد کرنے کے لیے ریاستہائے متحدہ کے صدر جو بائیڈن کی مہم کو نہ صرف چین جیسے مخالفین بلکہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے جمہوریت بھارت کی طرف سے بھی چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی حکومت کے ایک اہلکار نے جمعہ کے روز کہا کہ ملک روسی تیل کی اپنی درآمدات میں اضافہ کرے گا، جس سے اسے توانائی کی سپلائی کو رعایت پر فروغ ملے گا کیونکہ اس کی معیشت کورونا وائرس وبائی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 2 years
Text
ایوان نے یوکرین کی امداد میں 13.6 بلین ڈالر کے ساتھ حکومتی فنڈنگ ​​کا بل منظور کیا۔ #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%a7%db%8c%d9%88%d8%a7%d9%86-%d9%86%db%92-%db%8c%d9%88%da%a9%d8%b1%db%8c%d9%86-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d9%85%d8%af%d8%a7%d8%af-%d9%85%db%8c%da%ba-13-6-%d8%a8%d9%84%db%8c%d9%86-%da%88%d8%a7%d9%84%d8%b1/
ایوان نے یوکرین کی امداد میں 13.6 بلین ڈالر کے ساتھ حکومتی فنڈنگ ​​کا بل منظور کیا۔
Tumblr media Tumblr media
سی این این –
ایوان نمائندگان نے بدھ کی رات دیر گئے ایک بڑے سرکاری فنڈنگ ​​بل کو منظور کرنے کے لیے ووٹ دیا جس میں 13.6 بلین ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔ یوکرین کے لیے امداد جیسا کہ ملک روس کے مہلک حملے کے خلاف لڑ رہا ہے۔
کانگریس جمعہ کی آخری تاریخ سے پہلے گھڑی کی دوڑ میں مصروف ہے جب حکومتی فنڈنگ ​​ختم ہونے والی ہے، لیکن ایک بند اس کی توقع نہیں ہے، جزوی طور پر کیونکہ بہت سے قانون ساز ملک پر روس کے بلا اشتعال حملے کے دوران یوکرین کی حمایت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بے چین ہیں۔
شٹ ڈاؤن کو روکنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر، ایوان نے بدھ کی رات صوتی ووٹ کے ذریعے حکومتی فنڈنگ ​​کو منگل تک بڑھانے کے لیے ایک اسٹاپ گیپ بل منظور کیا۔
اب سینیٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ وسیع تر اخراجات کے بل کے ساتھ ساتھ قلیل مدتی فنڈنگ ​​کی توسیع کو بھی پاس کرے گا تاکہ کانگریس کے کلرکوں کے پاس بڑے بل کے متن کو صدر جو بائیڈن کے دستخط کے لیے بھیجنے سے پہلے اس پر کارروائی مکمل کرنے کا وقت ہو۔
کیپیٹل ہل پر اومنیبس کے طور پر جانا جاتا حکومتی اخراجات کا بل، مہینوں کی بات چیت کا نتیجہ ہے، لیکن وسیع قانون سازی کا متن، جو کہ 2,741 صفحات پر مشتمل ہے، ایوان قائدین سے چند گھنٹے قبل، بدھ کی صبح تقریباً 1:30 بجے تک جاری نہیں کیا گیا۔ ابتدائی طور پر اسے چیمبر کے ذریعے جام کرنے کی کوشش کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جس سے قانون سازوں کے پاس اس اقدام کا جائزہ لینے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا تھا۔
سخت ٹائم فریم نے پہلے ہی کچھ قانون سازوں کو مایوس کیا تھا – اور پھر ہاؤس ڈیموکریٹس بدھ کی سہ پہر ایک انٹرا پارٹی لڑائی میں الجھ گئے جس سے کوشش کو پٹڑی سے اتارنے کا خطرہ تھا۔
جمہوری رہنماؤں نے ریپبلکنز کی وسیع مخالفت کے بعد پیکیج میں کوویڈ ریلیف کی لاگت کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی، جنہوں نے استدلال کیا تھا کہ مزید ریلیف میں توسیع سے پہلے پہلے سے مختص کوویڈ رقم کا مکمل حساب کتاب ہونا چاہئے۔
لیکن ہاؤس ڈیموکریٹس کی ایک بڑی تعداد نے فنڈز استعمال کرنے کے منصوبے پر بغاوت کی۔ امریکی ریسکیو پلان، نئی قانون سازی میں ایک آف سیٹ کے طور پر پچھلے سال ایک وبائی امدادی بل منظور کیا گیا تھا۔ اس فراہمی سے 30 ریاستوں پر اثر پڑے گا، اور ملک کے متاثرہ حصوں کی نمائندگی کرنے والے ڈیموکریٹس نے دلیل دی کہ اس سے ان کی ریاستوں کو وہ رقم چھیننے سے نقصان پہنچے گا جس کا ان سے پہلے وعدہ کیا گیا تھا۔
بالآخر، دونوں طرف سے پش بیک کا سامنا کرتے ہوئے، ایوان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے اعلان کیا کہ کوویڈ ریلیف کو حکومتی فنڈنگ ​​پیکیج سے چھین لیا جائے گا۔
بند دروازوں کے پیچھے، پیلوسی ڈیموکریٹک ممبران پر ناراض تھیں جنہوں نے کوویڈ ریلیف آفسیٹ پر بغاوت کی تھی – اور میٹنگز انتہائی تناؤ کا شکار تھیں، بشمول وسکونسن کے ریپ. مارک پوکن کے ساتھ، اس معاملے سے واقف ایک ذریعہ نے بتایا۔
ذرائع نے بتایا کہ ممبران نے اس معاہدے سے اندھا پن محسوس کیا جو کاٹ دیا گیا تھا – اور پیلوسی اس بات سے ناراض تھی کہ انہیں کوویڈ کی نئی امدادی رقم نکالنے پر مجبور کیا گیا۔
ہاؤس ڈیموکریٹس نے بعد میں 15.6 بلین ڈالر کا اسٹینڈ اکیلے کوویڈ ریلیف بل متعارف کرایا، لیکن توقع ہے کہ اسے سینیٹ کی جی او پی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس چیمبر میں 60 ووٹ حاصل کرنے میں مشکل وقت پڑے گا۔ فلبسٹر.
اومنی بس یوکرین کے لیے ہنگامی ضمنی فنڈنگ ​​کے علاوہ حکومت کو چلانے کے لیے مالی سال 2022 کے مختص بلوں کی ایک سیریز پر مشتمل ہے۔
یوکرین کے لیے 13.6 بلین ڈالر کی امداد میں سے، رقم انسانی، دفاعی اور اقتصادی امداد کے لیے مختص کی گئی ہے۔ اس بل میں پابندیوں کے نفاذ کی دفعات بھی شامل ہیں۔
ہنگامی امدادی پیکج میں پناہ گزینوں کی مدد کے لیے 4 بلین ڈالر مختص کیے گئے ہیں جو ملک کے اندر فرار ہو چکے ہیں یا بے گھر ہو گئے ہیں اور یوکرین اور دیگر اتحادی ممالک کو دفاعی ساز و سامان کی منتقلی کے لیے صدر کے اختیار کو بڑھا کر 3 بلین ڈالر کر دیا گیا ہے، ہاؤس اپروپریشن کمیٹی کی ایک فیکٹ شیٹ کے مطابق۔
دیگر دفعات کی ایک وسیع رینج کے درمیان، اومنیبس بھی دوبارہ اجازت دے گا۔ خواتین کے خلاف تشدد ایکٹ اور سائبرسیکیوریٹی اقدامات کو نافذ کریں، پیلوسی اور سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے بدھ کو اعلان کیا۔
جب کارروائی کا رخ سینیٹ میں ہوگا تو بل کو تیزی سے پاس کرنے کے لیے بھی چیلنجز ہوں گے۔
کوئی بھی سینیٹر بل کی فوری منظوری کو روک سکتا ہے اور شمر کو تمام 100 سینیٹرز کی رضامندی کی ضرورت ہوگی تاکہ جمعے کی آدھی رات کی آخری تاریخ سے پہلے اس اقدام کی منظوری کے لیے وقت کا معاہدہ حاصل کیا جاسکے۔
ساؤتھ ڈکوٹا کے ریپبلکن سینیٹر مائیک راؤنڈز نے کہا کہ ڈیموکریٹس کے لیے مناسب وقت کے بغیر اس بل کو جلدی سے روکنا غلط ہے۔
انہوں نے CNN کو بتایا کہ “اس کے جتنی بڑی چیز کا ہونا اور پھر لوگوں سے اس پر نظرثانی کا موقع حاصل کیے بغیر ووٹ دینے کی توقع رکھنا محض غیر فعال ہے۔”
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ بل پر نظرثانی کے لیے وقت دینے کے لیے بل کی تیزی سے منظوری کو روکیں گے، یوٹاہ کے ریپبلکن سینیٹر مائیک لی نے اپنے اقدام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “کم از کم، میں اپنی ترمیم پر ووٹ چاہتا ہوں۔” ویکسین کے مینڈیٹ کو ختم کرنے کے لیے.
کینٹکی کے جی او پی سین رینڈ پال نے بھی کہا کہ وہ اس پر غور کرنا چاہتے ہیں۔
اپنی پارٹی کے اندر سخت تقسیم کے مظاہرے میں، ہاؤس ڈیموکریٹس کی ایک بڑی تعداد نے بدھ کے روز اس اعلان سے قبل آفسیٹ تجویز پر غصے اور تشویش کا اظہار کیا کہ کووڈ ریلیف کو پیکیج سے ختم کر دیا جائے گا۔
“یہ معاہدہ بند دروازوں کے پیچھے کاٹا گیا تھا۔ ارکان کو آج صبح پتہ چلا۔ یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے،” مینیسوٹا کی ڈیموکریٹک نمائندہ اینجی کریگ نے CNN کو بتایا جب وہ پیلوسی کے دفتر سے باہر نکل رہی تھیں۔ منیسوٹا ان 30 ریاستوں میں سے ایک تھی جس میں کوویڈ ریلیف فنڈنگ ​​کھونے کا خطرہ تھا۔
“ہماری ریاستوں نے ان ڈالروں کے لیے منصوبہ بندی کی ہے،” انہوں نے CNN کو بتایا، “ہم نے ان ڈالروں کو اپنی ریاستی حکومتوں تک پہنچانے کے لیے دانتوں اور ناخنوں کی طرح جدوجہد کی۔ اور اب ہم آج صبح یہاں بیٹھ کر بات کر رہے ہیں کہ واپس بلایا جانا ہی آپشن ہے۔
ایک بیان میں، میسوری کے ڈیموکریٹک نمائندے کوری بش نے اس منصوبے کے خلاف آواز اٹھائی۔
انہوں نے کہا ، “میں جان بچانے والے وسائل کو واپس چھیننے کی کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتی ہوں جس کی ہمیں اس وبائی بیماری سے پوری طرح اور مساوی طور پر بازیافت کرنے کی ضرورت ہے۔”
واشنگٹن، مشی گن، اوہائیو اور دیگر جیسی ریاستوں کے ڈیموکریٹک قانون ساز ناراض تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ امریکی ریسکیو پلان سے جو رقم مختص کی جا رہی تھی وہ ان کی ریاستوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں ابھی تک موصول ہونا باقی ہے، ایک ڈیموکریٹک معاون نے CNN کو بتایا۔
ڈیموکریٹس کو لکھے گئے ایک خط میں آفسیٹ کی وضاحت کرتے ہوئے، پیلوسی نے لکھا، “انتظامیہ نے امریکن ریسکیو پلان کے پروگراموں سے $8 بلین کی نشاندہی کی جن کی میعاد ختم ہو چکی ہے اور باقی فنڈز دستیاب ہیں۔ ڈیموکریٹس اس بات کو یقینی بنانے کے قابل بھی تھے کہ مقامی لوگوں کو باقی ادائیگیوں میں فنڈنگ ​​میں کوئی کٹوتی نہیں ہوئی۔ ریپبلکن ریاستی کٹوتیوں پر اصرار کرتے رہے، لیکن ہم اس بات کو یقینی بنانے میں کامیاب رہے کہ تمام ریاستوں کو کم از کم 91 فیصد ریاستی فنڈز ملیں جن کی انہیں توقع تھی۔
تاہم، ایک معاون نے وضاحت کی کہ جب کہ کچھ ریاستوں نے امریکی ریسکیو پلان سے کووڈ ریلیف کے لیے ایک ہی وقت میں رقم مختص کر دی، دوسری ریاستوں کو ان کی فنڈنگ ​​دو قسطوں میں ملی، اور وہ فنڈ جو امریکن ریسکیو پلان سے دوبارہ مختص کیا جانا تھا۔ یقین کرو، یہ دوسری قسط ہے؟
مشی گن کی نمائندہ ڈیبی ڈینگل نے کہا کہ اس کی ریاست کو معاہدے کے تحت تقریباً 600 ملین ڈالر کی فنڈنگ ​​سے محروم ہو سکتا ہے۔
“نیویارک اور کیلیفورنیا کو ان کے ڈالر مل گئے،” ڈنگل نے CNN کو بتایا۔ “یہ مناسب نہیں ہے کہ 30 ریاستوں کو ان کے ڈالر نہیں ملے۔”
اس کہانی اور سرخی کو بدھ کو اضافی پیشرفت کے ساتھ اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔
. Source link
0 notes
takbeernews · 2 years
Text
اقوام عالم بے بس ، اومیکرون کا سونامی بپھر گیا
اقوام عالم بے بس ، اومیکرون کا سونامی بپھر گیا
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اقوام عالم کے مختلف ممالک میں عالمی وبائی مرض کورونا کے 7.3 ملین کیس ظاہر ہوئے۔ یہ غیر معمولی تعداد 2019 میں اس مرض کے ابتدائی حملے سے بھی کہیں ز��ادہ ہے۔ دنیا بھر میں کورونا کے دس لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جو کہ گزشتہ دو سال میں یہ تعداد انتہائی خطرناک تصور کی جارہی ہے۔ رواں ماہ 23 تا 29 دسمبر تک عالمی سطح پر کورونا کے حملے 2019 کے حملے سے کہیں زیادہ ہیں، یہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
اقوام عالم بے بس ، اومیکرون کا سونامی بپھر گیا
اقوام عالم بے بس ، اومیکرون کا سونامی بپھر گیا
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اقوام عالم کے مختلف ممالک میں عالمی وبائی مرض کورونا کے 7.3 ملین کیس ظاہر ہوئے۔ یہ غیر معمولی تعداد 2019 میں اس مرض کے ابتدائی حملے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں کورونا کے دس لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جو کہ گزشتہ دو سال میں یہ تعداد انتہائی خطرناک تصور کی جارہی ہے۔ رواں ماہ 23 تا 29 دسمبر تک عالمی سطح پر کورونا کے حملے 2019 کے حملے سے کہیں زیادہ ہیں، یہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 3 years
Text
تارامیراکی فصل کو وبائی جھلسا سے بچانے کے لئے حفاظتی اقدامات کی ہدایت
تارامیراکی فصل کو وبائی جھلسا سے بچانے کے لئے حفاظتی اقدامات کی ہدایت
قصور(عکس آن لائن )محکمہ زراعت نے کاشتکاروں کو تارامیراکی فصل کو وبائی جھلسا سے بچانے کے لئے حفاظتی اقدامات کی ہدایت کی ہے اور کہا کہ کاشتکار بہترپیداوار کے لئے تارامیراکی فصل کو مختلف بیماریوں کے حملے سے بچانے کے لئے محکمہ زراعت کے فیلڈسٹاف یاماہرین زراعت کی مشاورت سے بروقت اقدامات کریں تاکہ انہیں بعدازاں کسی مشکل یاپریشانی کاسامنانہ کرناپڑے ۔ ڈپٹی ڈائریکٹرمحکمہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspost · 3 years
Text
شام کے داعش کے سابق اڈوں کے اندر کوویڈ علاج کرنے کے لئے تبدیل کر دیا گیا | کورونا وائرس وبائی خبر
شام کے داعش کے سابق اڈوں کے اندر کوویڈ علاج کرنے کے لئے تبدیل کر دیا گیا | کورونا وائرس وبائی خبر
شمالی شام – رقعہ سے دور نہیں واقع اسد جھیل کے ساحل پر واقع قصبہ ، تبا میں COVID-19 کے علاج معالجے کے سامنے کا رخ گولیوں کے سوراخوں سے چھلنی ہے۔ 2013 سے 2017 تک ، داعش (آئی ایس آئی ایس) کے جنگجوؤں نے اس سابقہ ​​کھیلوں کے میدان اور کمپلیکس کو بطور تربیت گاہ استعمال کیا ، اور کرد-عرب حملے کے دوران ، جو امریکہ کے زیرقیادت اتحاد کی حمایت حاصل ہے ، انہوں نے 2 x 2 میٹر (6 x) کا استعمال کیا۔ اچانک حملے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 3 years
Text
جوبائیڈن کی فتح کا باقاعدہ اعلان، ریپبلکنز نے شکست تسلیم کر لی
امریکی الیکٹورل کالج نے بالآخر جو بائیڈن کو 2020 کے انتخابات میں فاتح قرار دے دیا جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلسل شکست تسلیم کرنے سے انکار کے باعث 40 دن تک جاری رہنے والے تناؤ کا خاتمہ ہو گیا۔ تمام 538 رائے دہندگان نے 3 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ان کے ووٹروں کی جانب سے انہیں دیئے گئے مینڈیٹ کی پیروی کی، ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کو 306 ووٹ ملے جبکہ ان حریف ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو 232 ووٹ ڈالے گئے۔ 20 جنوری کو صدر منتخب ہونے والے جو بائیڈن اور نائب صدر کمالا حارث کے عہدہ سنبھالنے سے قبل 6 جنوری کو کانگریس کے خصوصی مشترکہ اجلاس میں انتخابی ووٹوں کی سیل اتاری جائے گی۔ جو بائیڈن جنہیں انتخاب کے روز رات کو اپنی قوم کو فاتح کی حیثیت سے خطاب کرنا تھا، نے الیکٹورل کالج میں اپنی فتح کی تصدیق کے چند منٹ بعد ہی تقریر کی اور اپنے حریف پر زور دیا کہ وہ 'جمہوریت پر بے مثال حملے' کو ختم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'امریکا میں سیاستدان اقتدار میں نہیں آتے بالکہ عوام انہیں اقتدار میں لاتی ہے، جمہوریت کی شمع اس قوم میں بہت عرصے پہلے جل چکی تھی اور اب کچھ نہیں ہوسکتا، نہ ہی وبا اور نہ ہی اختیارات کا ناجائز استعمال اس شمع کو بجھا سکتا ہے'۔ مسٹر ٹرمپ نے یہ اعلان کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ اپنے اٹارنی جنرل بل بار کو برطرف کر رہے ہیں جنہوں نے 2020 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر ووٹر فراڈ کے ان کے دعووں کی توثیق نہیں کی تھی۔ صدر نے اپنے آفیشل ٹویٹر پیج پر بل بار کے استعفے کی ایک کاپی پوسٹ کی اور لکھا کہ 'خط کے مطابق کرسمس سے قبل بل بار اپنے اہلخانہ کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لیے روانہ ہو جائیں گے'۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'ڈپٹی اٹارنی جنرل جیف روزن، ایک ممتاز شخصیت، قائم مقام اٹارنی جنرل بن جائیں گے اور انتہائی قابل احترام رچرڈ ڈونوگو ڈپٹی اٹارنی جنرل کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے'۔
ڈونلڈ ٹرمپ جو عام طور پر سیاسی پیشرفتوں پر رد عمل دینے میں کوئی وقت ضائع نہیں کرتے تھے، نے الیکٹورل کالج کے فیصلے پر کوئی رائے پیش نہیں کی۔ جو بائیڈن نے اپنی قوم کو یہ یقین دلاتے ہوئے اس تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کی کہ وہ 'تمام امریکیوں کے لیے صدر' ہوں گے اور انہوں نے 'گرما گرمی کم کرنے' اور ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کے الیکٹورل کالج کے نتائج ڈونلڈ ٹرمپ کی 2016 کی فتح کے برابر تھے۔ انہوں نے کہا 'ان کے اپنے معیار کے مطابق ان نمبروں نے اس وقت ایک واضح فتح کی نمائندگی کی تھی اور میں احترام کے ساتھ تجویز کرتا ہ��ں کہ اب وہ ایسا کریں'۔ جو بائیڈن نے اپنے ریپبلکن حریفوں کو بھی اہم ریاستوں میں ان کے ووٹوں کو کالعدم قرار دینے کی کوشش میں کیے گئے مقدمے واپس لینے پر زور دیا۔
تمام چھ اہم ریاستوں نے ان کو ووٹ دیا جس سے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے 2016 کے برابر ہو گئے۔ جو بائیڈن نے ملک بھر میں دائر درجنوں مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ انتہائی اقدام ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، ایک ایسا اقدام جس نے عوام کی حکمرانی کا احترام کرنے سے انکار کیا، قانون کی حکمرانی کا احترام کرنے سے انکار کیا اور ہمارے آئین کا احترام کرنے سے انکار کیا'۔ انہوں نے کہا کہ 'شکر ہے کہ ایک سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر فوری اس اقدام کو مکمل طور پر مسترد کر دیا، عدالتوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک واضح اشارہ دیا کہ وہ ہماری جمہوریت پر غیر معمولی حملے کا حصہ نہیں بنیں گے'۔ وسکونسن کی سپریم کورٹ نے بھی جو بائیڈن کی ریاست میں کامیابی کو برقرار رکھا جس سے ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکٹورل ووٹ سے ایک گھنٹہ پہلے ہی ایک اور شکست ملی تھی۔
جو بائیڈن نے اپنی تقریر کا اختتام تمام امریکیوں سے اپیل کے ساتھ کیا کہ وہ انتخابی تنازع کو پس پشت چھوڑیں اور اس کورونا وائرس کے خلاف متحد ہو جائیں جو پورے ملک میں جاری ہے۔ یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ وائرس سے پہلے ہی 3 لاکھ امریکی ہلاک ہو چکے ہیں انہوں نے کہا کہ 'وبائی بیماری کی اس تاریک دور میں میرا دل میں آپ سب کا خیال آتا ہے، جہاں آپ تعطیلات اور نئے سال اپنے پیاروں سے دور ہوں گے۔ الیکٹورل ووٹ کا اثر کیپیٹل ہل پر بھی پڑا جہاں ریپبلکن قانون سازوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست تسلیم کرنے سے انکار کرنے کی حمایت کی تھی۔سینیٹ میں ری پبلیکن قانون سازوں کے اس گروپ نے اب جو بائیڈن کی جیت کو عوامی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اس گروہ کی قیادت کرنے والے وپ جون تھون نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'کبھی کبھی وقت آپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے'، تاہم انہوں نے مزید قانونی چارہ جوئی کو مسترد نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ، 'وہ صدر مملکت ہیں۔ لیکن میں ان جائز، قانونی تنازعات پر رعایت نہیں دینا چاہتا جن کا فیصلہ آئندہ دو ہفتوں میں ہو گا'۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
روس کی خریداری پر تنقید کے درمیان، امریکہ سے ہندوستان کی تیل کی درآمدات میں اضافہ
روس کی خریداری پر تنقید کے درمیان، امریکہ سے ہندوستان کی تیل کی درآمدات میں اضافہ
اس سال ریاستہائے متحدہ سے ہندوستان کی تیل کی درآمدات میں 11 فیصد اضافہ ہوگا، حکام نے ہفتے کے روز کہا، کیونکہ توانائی کی شدید کمی کا شکار ملک روس سمیت دنیا بھر کے پروڈیوسروں سے سپلائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دی اضافے گزشتہ ماہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ہندوستانی افراط زر کو فروغ دینے، عوامی مالیات کو بڑھانے اور ترقی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے جب یہ وبائی امراض کی…
View On WordPress
0 notes
informationtv · 4 years
Photo
Tumblr media
راون بن راقیا کے کمینے .. کرونا کے وقت میں خود کو دریافت کرنا تباہی کے دنوں میں ، ہمیں فوری طور پر پتہ نہیں چلتا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے کیا ہورہا ہے ، کیونکہ یہ مکانات تواتر اور رائفل کی آگ سے جنگوں میں کم ہوجانے کے بعد اپنے رازوں سے پھٹتے ہیں ، اور حملہ آور کسی حملے یا وبائی کے خاتمے کے بعد وہاں سے چھپے ہوئے بھی لکھی کتابیں باہر نہیں آتیں جب تک کہ خطرہ ختم ہوجائے۔ .
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
13ویں صدی کے فارسی شاعر سعدی سے ہم آج کیا سیکھ سکتے ہیں؟ زوبین بخردبی بی سی کلچر2 منٹ قبلایرانی تاریخ کے انتہائی پریشان کن ادوار میں سے ایک یعنی 13ویں صدی کے دوران فارسی کے معروف شاعر سعدی نے بغداد میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے آبائی شہر شیراز کو چھوڑ دیا۔ وہاں سے وہ دور دراز کا سفر کرتے رہے اور تین دہائیوں کے بعد اپنے گل و بلبل والے شہر واپس آئے تو ان کا شہر شیراز ترک حکمرانوں کی سفارت کاری کی بدولت اس کشت و خون سے بچا ہوا تھا جو منگولوں نے ایران کے دوسرے شہر میں برپا کر رکھا تھا۔خطے کے نامور شاعر ہونے کے باوجود سعدی نے محسوس کیا کہ انھوں نے اپنی زندگی ابھی تک ضائع کی ہے اور کوئی خاطر خواہ قابل ذکر کام نہیں کیا۔ اس وجہ سے انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی خاموشی کے ساتھ گزارنے کا عہد کر لیا۔ لیکن پھر ایک دوست کے اصرار پر انھوں نے اپنی قسم توڑ دی۔ وہ شیراز میں موسم بہار کا زمانہ تھا اور دونوں دوست باغ بہشت میں سیر کے لیے نکلے تھے۔حیرت انگيز طور پر پھول اور جڑی بوٹیاں جمع کرنے کے بجائے سعدی نے شاعر اور فلسلفی خیام کے انداز میں ان اشیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھيں گے جو تعلیمی بھی ہو اور دلچسپ بھی ہو، اس کا نام گلستاں ہوگا جس کے صفحات ہمیشہ رہیں گے۔انسانیت سوز اور دہشت کے ماحول کے باوجود سعدی پرامید تھےشاعر نے اپنے قول کا پاس رکھا اور وہ درست تھے۔ ان کی دوسری کتاب بوستاں کے ساتھ ان کی تصنیف گلستاں صدیوں سے فارسی ادب کے بہترین فن پاروں میں شمار کی جاتی ہے۔ سعدی نے لکھا:بنی‌آدم اعضای یک پیکرندکه در آفرينش ز یک گوهرندیعنی 'انسان ایک جوہر سے تخلیق ہوا ہے اور وہ ایک ہی جسم کے اعضا ہیں'۔ یہ آج نہ صرف ان کی سب سے زیادہ نقل کی جانے والی نظم ہے بلکہ یہ فارسی زبان بولنے والی دنیا کی سب سے مشہور نظم بھی ہے۔ اس کے آگے وہ کہتے ہیں: چو عضوى به‌درد آورَد روزگاردگر عضوها را نمانَد قرارتو کز محنت دیگران بی‌غمینشاید که نامت نهند آدمییعنی 'اگر کسی عضو کو تکلیف ہو تو باقیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جو دوسروں کی تکلیف پر کوئی رنج و غم محسوس نہیں کرتے انھیں انسان نہیں کہا جاسکتا۔'اگر قرون وسطی کے دوسرے فارسی شاعروں کو ان کی عشق و محبت کی شاعری، قدیم ایران کے ہیروز کی رزمیہ داستانوں، بہادری کے قصوں یا پھر انسانی نفسیات اور اس عظیم کائنات میں ان کے مقام کے ذکر کے لیے یاد کیا جاتا ہے وہیں سعددی کو انگریزی کے مشہور شاعر لارڈ بائرن کی زبان میں ایران کے 'اخلاقی شاعر' کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔ اپنے چاروں طرف انسانیت سوز اور دہشت کے ماحول کے باوجود سعدی کو بنی نوع انسان میں اعتماد تھا اور انھیں ان سے امید تھی۔ اور اس طرح انھوں نے اپنی تمام تر توجہ اخلاقیات اور خیرو شر کی وضاحت کرنے پر صرف کردی اور اپنے قارئین میں مزید عمدہ خصوصیات پیدا کرنے کی بات کہی۔انھوں نے نصیحت کی کہ کسی درویش سے اس کی پریشان حالی اور قحط سالی کی پریشانی میں اس وقت تک یہ نہ پوچھ کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے جب تک کہ آپ اس کے زخم پر مرہم لگانے یا اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔،Alamy،تصویر کا کیپشنسعدی کو ایک دوست کے ساتھ باغ کی سیر کے دوران گلستان کی تصنیف کا خیال آیا تھاسعدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیک بخت وہ ہے جو کھاتا ہے اور دیتا یا بوتا ہے اور بد بخت وہ ہے جو خود بھی نہیں کھاتا ہے نہ دیتا ہے بلکہ جمع کرتا ہے۔سعدی نے جس قدر اچھائی اور بھلائی کی وکالت کی ہے وہ اسی قدر عملی اور حقیقت پسندانہ مفکر بھی تھے۔ جس حالات میں سعدی زندگی گزار رہے تھے وہ 'انتہائی متشدد اور سفاک' دور تھا۔ فارسی ادب کے اسکالر ڈک ڈیوس نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں۔ سعدی نے گلستان میں لکھا 'صلح پیدا کرنے والا جھوٹ ہ مصائب پیدا کرنے والے سچ سے بہتر ہے۔' اسی طرح انھوں نے متنبہ کیا کہ 'کسی کی خیانت کے بارے میں کسی [شہزادہ] کو معلومات نہ دیں جب تک کہ آپ کو یہ یقین نہ ہو کہ وہ آپ کی بات کا یقین کرے گا نہیں آپ صرف اپنی ہی تباہی کہ پیش خیمہ تیار کرو گے۔ جس طرح گلستان اور بوستان میں سعدی کے زمانے کی غیر یقینی صورت حال کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اسی طرح ان میں موجودہ وبائی بیماری کے بارے میں بھی بہت دانشمندی کی باتیں ہیں۔اسی صدی میں اس سے قبل شاعر رومی منگولوں کے حملے سے بچ کر نکلنے میں اس وقت کامیاب ہوئے تھے جب وہ ابھی اپنے بچپن میں ہی تھے۔ اپنے آبائی شہر بلخ سے اپنے کنبے کے ساتھ مغرب کی جانب سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ یہ ایک عقل مندی والا قدم تھا۔ ایک دوسرے صوفی اور شاعر نیشا پور کے عطار اس کے فورا بعد ہی منگولوں کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ سعدی نے مشرقی ایران میں منگول کے قتل عام کے فورا بعد شیراز اسی لیے چھوڑ دیا تھا؟ ڈیوس کا کہنا ہے کہ یہ پتا نہیں کہ سعدی نے اپنا آبائی شہر کیوں چھوڑ دیا۔ 'مختصر جواب یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم '۔سعدی نے اپنے سفر کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اسے پورے طور پر سچ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر گلستان اور بوستان میں سعدی کا دعوی ہے کہ شام میں صلیبیوں نے انھیں اغوا کیا تھا اور انھوں نے کاشغر (موجودہ چین میں) کے علاوہ ہندوستان کا بھی دورہ کیا تھا۔ ڈیوس کا کہنا ہے کہ 'ان کہنا کہ اسے صلیبیوں نے انھیں پکڑ لیا اور کچھ عرصے کے لیے غلام کی حیثیت سے رکھا اس بات کو ان کی اختراع کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ، ڈاکٹر ہوما کٹوزیان کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یہ سعدی نے شام، فلسطین، اور جزیرہ نما عرب جیسے مقامات کا دورہ کیا ہے لیکن خراسان (یعنی مشرقی ایرانی سرزمین)، کاشغر یا ہندوستان کا دورہ نہیں کیا ہے۔ البتہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ سعدی نے یقینا ایران سے باہر کا سفر کیا تھا اور طویل عرصے کے بعد بہت سی چیز کہنے کے لیے واپس آئے۔ ان کے الفاظ بند کوئں کے درویش کے نہیں بلکہ جہاندیدہ آدمی کے ہیں۔سعدی نے گلستان میں خود اشارہ کیا ہے کہ ان کے کچھ قصے حقیقت پر مبنی نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے دوست کو باغ میں سیر کے دوران بتایا تھا ان کی کتاب نہ صرف تعلیم و تدریس کے لیے ہوگی بلکہ تفریح کا بھی سامان ہوگی۔ گویا کہ گلستان اور بوستاں، اگرچہ بنیادی طور پر زندگی کی رہنمائی کے لیے ہیں لیکن بعض اوقات ان میں سفرنامہ اور ایڈونچر کی کہانیاں بھی ہیں۔ ان میں قارئین لٹیروں کے گروہ، قزاق، سمندر کے ملاح، قاتلوں اور خوفناک حکمرانوں کے علاوہ دوسرے کرداروں سے بھی ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی بعض کہانیوں کو لطیفے کے طور پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر خاموشی کے فوائد کے باب میں سعدی نے مقدس صحیفے کے ایک خراب قاری کے بارے میں بیان کیا ہے۔ 'ایک متقی شخص قریب سے گزرا اور [تلاوت کرنے والے] سے پوچھا کہ اس کی ماہانہ تنخواہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: 'کچھ بھی نہیں۔' انہوں نے مزید دریافت کیا: 'تو پھر آپ یہ مشقت کیوں اٹھائی؟' اس نے جواب دیا: 'میں خدا کی خاطر پڑھ رہا ہوں۔' اس پر انھوں نے کہا کہ 'خدا کے لیے نہ پڑھیں۔‘ جیسا کہ ڈیوڈ روزنبام نے 19 ویں صدی میں گلستان کے ایڈورڈ ریہیٹسک کے ترجمے کے تعارف میں لکھا ہے کہ [سعدی] قارئین کو یہ بھلا دیتے ہیں کہ انھین کچھ سکھایا جارہ�� ہے۔ سعدی کے اشعار شہد میں ڈوبی دوائيں ہیں۔'،Alamy،تصویر کا کیپشن1920 میں سعدی کا جو ترجمہ شائع ہوا تھا اس کے لیے یہ سرورق تیار کیا گیا تھااگرچہ سعدی نے گلستاں میں لکھا ہے کہ خاموشی کی قسم کو توڑنے کے بعد یہ ان کی پہلی کتاب تھی جو انھوں نے نتصنیف کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بوستان اس سے ایک سال پہلے کی تصنیف ہے۔ انھیں سعدی نامہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہ شاعری کی کتاب دس ابواب میں تقسیم ہے۔ دوسری طرف گلستان نثر ہے جس میں بیچ بیچ میں اشعار کی چاشنی ہے۔ یہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اور اس میں بھی اسی طرح کے موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ دونوں شیراز کے سلجوقی حکمرانوں کی سرپرستی میں لکھے گئی ہیں۔ شاعر کے نام کی طرح سلطان کا نام بھی سعد تھا جس کی اس میں مدح کی گئی ہے۔ اور بہت صورتوں میں سعدی بادشاہوں اور وزیروں کے لیے مناسب طرز عمل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ لیکن ، گیارہویں صدی کی تصنیف قابوس نامہ کے برخلاف یہ صرف حکمرانوں کی رہنمائی کے لیے نہیں۔ ڈیوس کا کہنا ہے کہ 'گلستان اور بوستاں کا مقصد ہر ایک کے لیے آئینہ ہے۔ وہ فارسی زبان و ادب کی زندگی گزارنے کے متعلق گھریلو پند و نصائح کی قدیم روایت کا حصہ ہے۔بوستاں میں سعدی نے قناعت پسندی، احسان مندی، فیاضی اور عاجزی جیسے مضامین کے بارے میں بیان کیا ہے۔ جبکہ گلستان میں درویشوں کی اخلاقیات، بوڑھاپے کی آزمائشوں، اور قناعت کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے قسم کے عام اقوال زریں شامل ہیں۔ ایک ہی قسم کے موضوعات دونوں میں پائے جاتے ہیں سعدی کے مطابق بھیک مانگنے اور کسی دوسرے کا مقروض بننے سے کہیں زیادہ بہتر تنگی کی زندگی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں خواہشات کے معاملے میں محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ہم خود کو بدتر صورت حال میں لا سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ دوسرے پر الزام دھرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، وہ خاموشی کو سنہرا کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک روحانی دولت مادی دولت سے افضل ہے اور یہ کہ تقدیر آپ کے عہد کو کچل دیتی ہے۔ سعدی کے کچھ خیالات مذہب سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی باتیں سیاسی طور پرہمیشہ درست نہیں۔ لیکن ان کی زیادہ تر باتیں اور ان کے مشورے زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔حکمتیورپ میں شہرت حاصل کرنے والے اولین فارسی شعراء میں سعدی نے فرانس اور دیگر جگہوں پر والٹیئر، ڈیڈرو، گوئٹے، اور وکٹر ہیوگو جیسے روشن خیالی اور رومانوی مصنفین پر واضح اثرات مرتب کیے۔ وکٹر ہیگو نے تو اپنی تصنیف لیس اوریئنٹلز کے تعارف میں گلستان کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ جب کہ والٹیئر نے مذاقا اپنے زرتشتی ہیرو زادگ کی کہانی کے پیش لفظ کو سعدی سے منسوب کیا ہے تاہم ان کی اہم تصانیف میں سعدی کے اثرات سطحی سے کہیں زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر مظفر بہراد نے اپنی کتاب 'لٹریری فارچونز آف سعدی ان فرانس' میں لکھا ہے کہ 'سیرندیپ کا ماڈل بادشاہ ، اس کے وزیر، کامل معاشرہ، سب سعدی سے متاثر ہیں۔' انھوں نے کہا کہ 'والٹئر نے فلسفے کے لیے سعدید سے حقیقی رہنمائی حاصل کی ہے' یہاں تک کہ 'ان کے روایتی دشمن ، ایلی فیروں نے والٹئر پر تنقیدی حملے کے دوران انھیں 'سعدی' کے نام سے بھی مخاطب کیا ہے۔'امریکہ میں سعدی نے رالف والڈو ایمرسن کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ ایمرسن نے شاعر (سعدی) کی شان میں اپنی نظم میں سعدی کو 'انسانی دلوں کا دلدار' کہا ، اور ان کی 'حکیمانہ باتوں' کو آفاقی کہا۔ گلستان کے فرانسس گالڈون کے ترجمے کے تعارف میں ایمرسن نے لکاھ کہ 'اگر چہ ان کی زبان فارسی تھی لیکن وہ ہومر، شیکسپیئر، سروینٹیس، اور مونٹین کی طرح تمام اقوام عالم سے مخاطب ہیں اور وہ ہیمشہ تازہ ہیں۔' شاید اسی وجہ سے ہی نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ایک فارسی قالین ہے جس میں گلستان کی بنی نوع انسان کی وحدت سے متعلق مشہور قول کڑھائی کیا ہوا ہے اور جسے امریکہ کے صدر باراک اوباما نے اپنے 2009 کے ایرانی نئے سال کے پیغام میں نقل کیا ہے۔ مصنف اور سیاسی مبصر ہمان مجد کا کہنا ہے کہ 'ایرانیوں کی شاعری سے محبت کی اس انتظامیہ میں کچھ آگاہی تھی اور ایرانی عوام کے ساتھ احترام سے بات کرنے کا خیال اوباما کا تھا۔ میں تصور کرتا ہوں کہ ان کے لکھنے والوں کی قالین سے واقفیت تھی جہاں سے انھوں نے وہ مواد حاصل کیا۔،Alamy،تصویر کا کیپشن16 ویں صدی میں صوفیانہ افکار و خیالات پر جو کتاب تصنیف کی گئی اس میں سعدی مرکزی اہمیت کے حامل ہیںشکر کرو کہ تم جس گدھے پر سوار ہو وہ تم نہیں جس پر لوگ سوار ہوںگلستاں اور بوستاں نے یقینی طور پر والٹیئر اور ایمرسن کو متاثر کیا لیکن آج ہم ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ دراصل ان میں کافی مقدار میں ایسے پند و نصائح موجود ہیں جو کورونا وائرس وبائی مرض سے متعلق ہیں۔ بوستان میں سعدی اپنے قارئین کو محتاجوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ فراخ دلی کی تلقین کرتے ہیں کہ 'ایسا نہ ہو کہ آپ اجنبیوں کے دروازوں کے سامنے جانے لگیں۔ مگر دان غریب از درت بے نصیبمبادا کہ گردی بدرہا غریب ایک جگہ وہ کہتے ہیں 'اگر آپ نے صحرا میں کنواں نہیں کھودا ہے تو کم سے کم مزار میں چراغ رکھ دیں۔ وہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں اپنی سوچ سے کہیں کم چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک ناقد کہتا ہے کہ وہ بہتر گھر بنا سکتا ہے تو درویش کہتا ہے کہ 'مجھے اونچی چھت کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے جو یہ گھر بنایا ہے وہ ایک رہائش کے لیے کافی ہے اور مرنے پر اسے بھی چھوڑ دینا ہے۔'اسی طرح فارس کے شہنشاہ اردشیر پاپکان کو ان کے معالج نے ان کے خیال 'زیستن برائے خوردن' یعنی کھانے کے لیے جینا ہے پر ڈانٹا کہ اس کے برعکس اس کا نظریہ 'خوردن برائے زیست' ہونا چاہیے۔ سعدی نے ایک پیٹو کی کی حکایت بیان کی جو اپنے وزن کی وجہ سے درخت سے گر پڑا۔ سعدی اپنے سامعین کو یہ بھی مشورہ دیتے ہیں جو کچھ ان کے پاس ہے اس کے لیے انھیں مشکور ہونا چاہیے اور اس کی قدر کرنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں 'صحت کی اہمیت وہ جانتا ہے جو بخار میں اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ رات تمہارے بستر پر آرام سے لیٹے رہنے سے کیونکر لمبی ہو سکتی ہے؟' یا 'شکر ادا کرو اگرچہ گدھے پر سوار نہیں ہیں کیونکہ آپ وہ گدھا نہیں ہیں جس پر آدمی سوار ہوتے ہیں۔'گلستان میں ایک حکایت ایسی بھی ہے جس میں اپنی عقل کے نہ استعمال کرنے اور آنکھیں بند کرکے ان لوگوں کے مشوروں پر عمل کرنے کے خطرات کی عکاسی کی گئی ہے جو اسے دینے کے قابل نہیں ہیں۔ آنکھوں کے عارضے کے علاج کے لیے ایک شخص نعل لگانے والے کے پاس گیا وہ جو دوا گھوڑوں کے کھروں پر استعمال کرتا تھا اس کی آنکھ پر لگا دیا جس کے نتیجے میں وہ شخص اندھا ہو گیا۔ انصاف کے لیے قاضی کے پاس گیا جس نے اس کی فریاد کو مسترد کر دیا۔ جج نے کہا: 'اگر یہ آدمی گدھا نہ ہوتا تو وہ کسی نعل لگانے والے کے پاس نہ جاتا۔' کہیں اس میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو سعدی نے اس کہانی سے لیے جانے والے سبق کو واضح کرتے ہوئے لکھا: 'جو شخص کسی ناتجربہ کار آدمی کو ایک اہم کام سونپتا ہے اور پھر بعد میں اس پر افسوس کرتا ہے عاقلوں کے نزدیک وہ کم عقلی کا شکار ہوتا ہے۔'سعدی کو گلستان اور بوستان تحریر کیے ہوئے بہت سے خزاں کے موسم گزر چکے ہیں لیکن جیسا کہ صدیوں پہلے شیراز واپس آنے کے بعد انھوں نے پیش گوئی کی تھی ان کی حکمت اور دانشمندی سے بھری یہ کتابیں وقت کی آزمائش پر پوری اتری ہیں۔ یہاں ایک شاندار باغ میں ان کا مزار واقع ہے جو کہ مرجع خلائق ہے۔شاعر کے الفاظ میں: 'پانچ دن یا چھ- ایک پھول کی زندگی مختصر ہے۔ یہ باغ بہر حال صدا بہار ہے۔'گُل همین پنج روز و شش باشدوین گلستان همیشه خوش باشد خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
modern-tiles · 4 years
Text
عِفریت کے ساتھ جیناسیکھیں
محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورونا کی وبا کے حوالے سے اب ہمیں ایک بنیادی نکتے میں یکسو اور واضح ہوجانا چاہیے۔یہ وباپاکستان سے آسانی کے ساتھ نہیں جائے گی۔ اس پر قابو پانے کا وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اگلے چند ماہ تک یہ موذی بیماری ہمارے درمیان ہی رہے گی۔ ایسا کوئی شارٹ کٹ یا انتظامی طریقہ نہیں رہا جس سے اسے کنٹرول کیا جا سکے۔ زندگی میں معجزات وارد نہیں ہوتے، معجزے برپا کرنے پڑتے ہیں۔ چین نے ایسا معجزہ کر دکھایا،چند ایک اور استثنائی مثالیں بھی ہیں۔ ہمیں جو کرنا چاہیے تھا ، وہ ہم نہیں کر پائے۔ جو آج کرنا چاہیے، وہ بھی نہیں کر رہے۔ ایسے میں چیزیں زیادہ خراب ، پیچیدہ اور گنجلک بن جاتی ہیں۔ نتیجہ خوفناک قسم کا کنفیوژن ہے، وفاقی، صوبائی حکومتوں سے لے کر افراد تک ، ہر ایک اس کا شکار ہے۔
اس کی ذمہ داری کسی خاص لیڈر یا وفاقی، صوبائی حکومت پر ڈالنے کا فائدہ نہیں۔ غلطیاں حکومت سے یقینا ہوئیں، ابتدا میں زائرین والے معاملے کو بہتر ہینڈل کر لیا جاتا، ممکن ہے اس وقت محدود مدت کے لئے سخت لاک ڈاﺅن کر لیا جاتا تو شائد یہ وبا زیادہ نہ پھیلتی۔ البتہ سخت لاک ڈاﺅن اپنی جگہ جو تباہی مچاتا ، وہ ایک اور المیہ کہانی بن جاتی۔ ایک ٹاک شو میں یہ سوال پوچھا گیا کہ ذمہ دار کون ہے، وفاقی یا صوبائی حکومتیں؟میرا جواب تھا، اصل ذمہ دار پاکستانی عوام ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر عوام یعنی ہم لوگ ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے، وبائی بحران کے طریقے اپناتے، میل ملاقاتیں نہ کرتے، احتیاط کے ساتھ باہر نکلتے تو یقینی بات ہے کہ یہ بحران بڑی حد تک کنٹرول ہوجاتا،کم از کم اس کا شدت والا وقت (Peak Time)گزر چکا ہوتا۔ایسا نہیں کہ میڈیا نے آگہی میں کسر چھوڑی ہو یا حکومت نے مہم نہیں چلائی۔بچے بچے کو معلوم ہے کہ کورونا سے کس طرح بچنا ہے۔اصل بات مگر معلومات پر عمل کرنا ہے ، ہم اس امتحان میں بری طرح ناکام ہوئے۔
اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وبا پھیل چکی ، جلدی جانے والی نہیں تو اب ہمیں عِفریت یا بلا کے ساتھ جینا (Living with monster)سیکھنا ہوگا۔ اس پر کئی ماہرین سے بات کی، تجزیہ نگاردوست اور طبی ماہر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش سے تفصیلی ڈسکس کیا۔چند نتائج اخذ کئے۔ وہ شیئر کرتا ہوں۔
کورونا کے دو طرح کے مریض ہیں۔ کچھ لوگوں میں علامات جلداور شدید انداز کی ظاہر ہوجاتی ہیں،تیز بخار، چھینکیں، کھانسی وغیرہ، جبکہ کچھ میں اس کا شکار ہوجانے کے بعد بھی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، انہیں Asymptomaticکہا جاتا ہے۔ ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ اپنے قریب موجود ہر شخص کو کورونا کا ایسا مریض سمجھیں، جس کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ اسے خود بھی نہیں پتہ ،مگر وہ لاعلمی میں بھی آپ کو کورونا کا مریض بنا سکتا ہے۔ اس لئے چند فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے محتاط رہیں۔ خود کو بھی کورونا کا ایسا مریض تصور کریں، جس کی علامات ظاہر نہیں ہوئی، مگر قریب آنے والے کسی بھی شخص کو یہ بیماری منتقل ہوسکتی ہے۔
ماسک کورونا سے بچاﺅ کا بہت اہم ہتھیار ہے۔ ماسک اور ہاتھوں میں گلوز یا وقفے وقفے سے ہاتھ صابن سے دھونا یا سینی ٹائزر سے صاف کرنا کامیابی کی چابی ہے۔ اچھا ماسک لینے کی کوشش ضرور کریں،N95 ، K95 وغیرہ پہلے ناپید تھے، اب کچھ کوشش سے مل جاتے ہیں۔ یہ نہ ملیں تب بھی جو ماسک مارکیٹ میں دستیاب ہیں، انہیں استعمال کرلیں، حتیٰ کہ گھر کے بنے ہوئے کپڑے کے ماسک بھی کسی نہ کسی حد تک کفایت کر جائیں گے۔ نہ ہونے سے کچھ ہونابہتر ہوتا ہے۔ سینی ٹائزرعام ہیں. مختلف فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے بنا لئے ہیں، کوشش کریں کہ گاڑی ، دفتر میں اپنی میز ، حتیٰ جیب میں بھی رکھیں۔پانی اور صابن سے ہاتھ دھونے کی سہولت موجود نہیں تو وقفے وقفے سے سینی ٹائزر استعمال کرتے رہیں۔
اپنے طرز عمل میں ڈسپلن لے آئیں۔ یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ باہر نکلتے وقت ماسک اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ غیر ضروری خریداری سے گریز کریں۔ جہاں جانا ضروری ہو، وہاں رش نہ ہونے دیں۔ چند لمحے انتظار کر لیں۔ کسی دکان پر بھیڑ ہے تو اس کے چھٹنے کا انتظار کریں یا پھر کسی دوسری دکان سے کام چلا لیں۔ یہ نظم وضبط آپ کو ان شااللہ اس وبا سے محفوظ رکھے گا۔
ایک اہم نکتہ یاد رکھیں کہ ماسک، گلوز اور فاصلہ رکھنے کی احتیاط اس لئے ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی کمزور لمحے میں آپ اس وائرس کا شکار ہو گئے ، تب بھی وائرس لوڈ کم رہے۔ یہ بہت اہم بات ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ جب وائرس لوڈ زیادہ ہو تب حملے میں شدت زیادہ ہوگی اور جسم کے اندر تباہی بھی اسی مناسبت سے ہوگی۔ وائرس لوڈ کم ہو تو ایک طرح سے بیماری آپ کے لئے ویکسین کا کام کرتی ہے۔ آپ شکار ہو کر ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں، مگر علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ ایک بار ہوگئی تو پھر آپ آئندہ کے لئے اس سے محفوظ ہوجائیں گے۔
آج کل قوت مدافعت یعنی امیونٹی Immunityبہتر بنانے کی بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اصل امیونٹی آپ کا اپنا طرز زندگی بہتر کرنااور کھانے کی بری عادتیں چھوڑناہے۔ یہ وہ امیونٹی ہے جو آپ کے ساتھ مستقل رہے گی۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش اس کے لئے ایک دلچسپ مثال دیتے ہیں کہ ستر سی سی موٹر سائیکل پر تین افراد سوار ہیں، آگے دس دس کلو دودھ کے دو ڈبے بھی لٹکا رکھے ہیں۔ ایسے میں موٹرسائیکل کی کارکردگی بہتر بنانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس پر بوجھ کم کیا جائے۔ انسانی جسم کی کارکردگی بہتر بنانے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ جنک فوڈ اور بے وقت کھانے کی بری عادتوں کا بوجھ اس پر سے اتارا جائے۔ نیند پوری نہ ہونے سے جسم متاثر ہوتا ہے، یہ بوجھ بھی ہٹ جائے، ورزش نہ کرنے سے اعضا مضمحل ہیں، یہ بھی ٹھیک کئے جائیں۔ وقت پر سوئیں، سات آٹھ گھنٹے کی بھرپور نیند لیں۔ یاد رکھیں کہ رات دس سے بارہ بجے کے دو گھنٹے افادیت کے اعتبار سے چار گھنٹوں کی نیند کے برابر ہیں۔ رات بھر جاگنے کے بجائے دس گیارہ بجے تک ہر حال سو جائیں، نیند پوری کریں۔کھانا وقت پر کھائیں ۔بازاری کھانے اور غیر صحت مند چیزیں کھانا چھوڑ دیں۔ سادہ ، تازہ خوراک لیں،موسمی پھل ، سلاد وغیرہ کھائیں اور دن میں کم از کم آدھا گھنٹہ تیز چلیں ،سونے سے پہلے دس پندرہ منٹ کی چہل قدمی بھی کریں۔ اس سے آپ کی جسم کی پرفارمنس اور کارکردگی مستقل بنیادوں پر بہتر ہوگی،زندگی بھر ساتھ دے گی۔
وقتی طور پر ملٹی وٹامن کھانے میں کوئی حرج نہیں، اس کا فائدہ ہوگا۔ وٹامن سی اور زنک کھانے سے قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے، وٹامن ڈی مفید ہے۔اپنی شوگر کنٹرول رکھیں۔قہوہ جات سے سانس کے مسائل کم ہوتے ہیں۔ پنڈی صدر کے حکیم شمیم احمد خان چٹکی بھر سونف، پودینہ، ادرک، دار چینی اور تین لونگ گرم پانی کے کپ میں دم کر کے چھان کر پینے کا بتاتے ہیں۔بعض دوسرے ادرک ، دارچینی کا قہوہ بتاتے ہیں۔ایک ماہر غذائیت لہسن کے ٹکڑے کھانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ دودھ میں ہلدی، شہد اور زیتون کا تیل ایک ایک چمچ ملا کر پینے کا بھی کہا جا رہا ہے۔ سنا مکی کے قہوے کی آج کل دھوم مچی ہے، مگر بعض حکما کے خیال میں سنا مکی کو اکیلے استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔حکیم نیاز ڈیال جو نیچرو پیتھی کے اچھے ماہر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سنا مکی بلغم کے اخراج میں معاون ہے، مگر اس کی زیادتی سے معدے کے مسائل پیدا ہوں گے۔ سنا مکی ایک گرام، ادرک کی قاشیں نصف گرام، اور چند گلاب کی پتیوں کو گرم پانی کے کپ میں ڈال کر دس پندرہ منٹ کے لئے ڈھانپ دیں، پھر چھان کر شہد مل کر پی لیں تو فوائد کثیرہ کا باعث ہے، اسی طرح سنا مکی ایک گرام، سات دانے منقیٰ اور گلاب کی چند پتیوں کے ساتھ بھی قہوہ بن سکتا ہے، سنا مکی ، سونٹھ اور دیسی شکر ہم وزن ملا کر سفوف بنا لیں، رات سوتے وقت نصف چمچہ استعمال کریں توبدن کے بادی سے متعلق تمام امراض کا ان شااللہ خاتمہ ہوجائے گا۔
مجھے ذاتی طور پرکورونا کے ابتدائی دنوں میں شدید الرجک کھانسی ہوئی،ان دنوں خوف بہت پھیلا تھا، پریشانی رہی۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ سخت کھانسی رہی۔ہر قسم کا علاج کر کے دیکھ لیا۔پھر ایک دوست حکیم حبیب الرحمن کاظمی نے دوائی بنا کر دی، اس نے کرشمہ کر دکھایا۔ عناب، لسوڑی اور بھئی سے بنائی گئی تھی۔بلغم کا اخراج ہوا اور سانس بحال۔ کھانس کھانس کر بے حال ہوگیا تھا، تین چار دنوں میں الحمدللہ مرض کا خاتمہ ہوگیا۔ ان دیسی چیزوں، ہربل علا ج کی افادیت سے انکار نہیں۔ یہ بات مگر ذہن میں رہے کہ آپ کتنے دن وٹامن سی، زنک کھائیں گے ؟ کتنے دن قہوہ بنا کر پیتے رہیں گے؟ کوئی پتہ نہیں کورونا سے ہمارا آپ کا واسطہ جون میں ہوتا ہے یا اگست میں یا پھر خدانخواستہ نومبر ، دسمبر یا اگلے سال مارچ میں؟ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ موزی کب جائے گا؟ دوبارہ تو نہیں آ جائے گا؟ تبدیل شدہ شکل میں تو حملہ نہیں ہوجائے گا؟اس لئے اپنے اندر صحت مند عادتیں پیدا کریں، مستقل المدت تبدیلی لائیں ، جو کٹھن لمحوں میں آپ کا ساتھ دے جائے۔ ہمیںا پنی تمام تر ذہانت استعمال کر کے اس عِفریت کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ کامیابی اسی میں پوشیدہ ہے۔
0 notes
risingpakistan · 4 years
Text
یہ ہمارے ٹڈی دل
آسمان کی نامہربانیوں اور آسمانی آفتوں سے محفوظ رہنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ قوم ﷲ تبارک تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ اجتماعی استغفار سے شاید اب بربادی کی جگہ کوئی ابر کرم دکھائی دے ۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہم پر کوئی آفت نازل نہ ہوتی ہو ۔ کبھی کہیں سڑک پر کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو کبھی کسی کھلے پھاٹک سے ٹرین معصوم جانوں کو روندتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ ایک طرف قوم اور کورونا کے درمیان جنگ جاری ہے جس میں ابھی تک کورونا کے وار کامیاب ہو رہے ہیں اور ہم اپنی بے صبری کی وجہ سے اس کا شکار بنتے جارہے ہیں ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صرف لاہور میں کورونا کے مریضوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ جب گھر کی گھنٹی بجتی ہے تو ڈر لگتا ہے کہ کون باہر سے آگیا ہے جس سے ان وبائی دنوں میں ملنے پڑے گا، کوشش یہ ہوتی ہے کہ ملاقات سے معذرت ہی کر لی جائے کیونکہ اس وبا سے بچاؤ کا ابھی تک صرف ایک ہی طریقہ سامنے آیا ہے کہ سماجی دوری اختیار کی جائے، ایک دوسرے سے ملنے سے گریز کیا جائے اور آپس میں ملتے جلتے وقت فاصلے کو برقرار رکھا جائے ۔ 
بہر حال قوم کورونا سے مقابلہ کے لیے میدان میں اتر چکی ہے، حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں اور لاک ڈاؤن کھول دیا ہے، علامتی طور پر دو دن کے لیے لاک ڈاؤن برقرار رکھا گیا ہے تا کہ یاد رہے کورونا ابھی موجود ہے۔ میں گزشتہ کئی دنوں سے فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے کی خبریں پڑھ رہا ہوں جس کی وجہ سے کھیتوں پر تباہی اور بربادی ناز ل ہوئی ہے، حد نگاہ تک آباد کھیت برباد ہو گئے ہیں اور ٹڈیاں فصلوں کو کھا گئی ہیں۔ پیش گوئی یہ کی جارہی ہے کہ آنے والے وقت میں اناج کی خوفناک قلت ہو گی کیونکہ اناج پیدا کرنے والے کھیتوں پر ٹڈیوں کی شکل میں جو آفت اچانک نازل ہوئی ہے اور پکی پکائی فصلیں دیکھتے دیکھتے ختم ہو گئی ہیں اور کاشتکار اپنی فصلوں کی بر بادی اور اجڑنے کا منظر بے بسی سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا زرعی ملک جس کی زرخیز زمینوں اور محنتی کاشتکاروں کی وجہ سے ہم ہمیشہ نہ صرف غذائی معاملے میں خود کفیل رہے ہیں بلکہ اپنے ہمسائیہ ملک افغانستان کی ضروریات بھی غذائی اجناس کو اسمگل کر کے پوری کرتے ہیں۔
وہ تو بھلا ہو ہمارے منتظموں کا جو ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر زرعی ملک میں اجناس کی قلت پیدا کرنے میں ماہر ہو چکے ہیں اور کاشتکاروں کی بے بسی کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کی اجناس سستے داموں خرید کرتے ہیں اور پھر اس کو اضافی قرار دے کرغیر ممالک کو بیچ دیتے ہیں اور پھرملک میں غذائی اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اپنی ہاتھوں بھیجی گئی اجناس کو مہنگے داموں واپس خرید لیتے ہیں ۔ اسی بیچنے خریدنے کے چکر میں ان کا پیٹ بھر جاتا ہے اور عوام کا پیٹ ننگا ہو جاتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے ان بااثر لوگوں کو کبھی شرم آئی ہو اور انھوں نے کاشتکاروں پر رحم کیا ہو۔ زراعت ہمیشہ آسمان کی محتاج رہتی ہے، جتنے جتن چاہیں کر لیں زراعت کے تما م اصولوں کی پابندی کریں، خوب محنت کریں لیکن فصل کی زندگی کا ہر لمحہ قدرت کی مہربانی کا محتاج رہتا ہے، یہ کوئی مل نہیں ہوتی کہ ایک طرف سے اسکریپ ڈالیں اور دوسری طرف سے بنا بنایا لوہا نکال لیں یا ایک طرف سے گنا ڈالیں اور تو دوسری طرف سے چینی کی بوری بھر لیں ۔
یہ زراعت ہے جو موسم اور ﷲ تعالی کی مہربانی کے ساتھ قدم بقدم چلتی ہے ۔ ذرا سی نامہربانی ہوئی کہ قدم اکھڑ گئے، کسی کارخانے کو آگ لگے تو انشورنس والے مدد کو آجاتے ہیں مگر فصل کی انشورنس نہیں ہوتی اس کی تباہی صرف اور صرف کاشتکار کو برداشت کرنی پڑتی ہے ۔ حکومت بڑا کمال یہ کرتی ہے کہ مالیہ یا آبیانہ معاف کر دیتی ہے اور اگر شاہ خرچی دکھائے تو مقروض کسانوں کو سود معاف کر دیتی ہے یا بلا سود قرض دینے کا اعلان کرتی ہے لیکن امداد نہیں ، قرض اور جس کے پاس دو وقت کھانے کا نہ ہو وہ بلا سود قرض لینے کی ہمت کیسے کرے۔ زراعت کے شعبے کے ساتھ عجیب سلوک کیا جاتا ہے۔ اسمبلیوں میں اکثریت دیہی علاقوں سے منتخب نمائندوں کی ہوتی ہے مگر وہ ایسی مراعات کے پیچھے دوڑتے ہیں جن کی مدد سے وہ شہری بن سکیں ۔ کوئی کارخانہ لگا سکیں، کسی بڑے شہر میں بنگلہ تعمیر کر سکیں اور بچوں کو اعلیٰ اسکولوں میں داخل کرا سکیں ۔ جن دیہات سے ان کا تعلق ہوتا ہے ان کے لیے وہ صرف مشورے رکھتے ہیں ۔
آسمان کی نا مہربانیوں کی وجہ سے جو آفت ٹڈی دل کی صورت میں نازل ہوئی ہے اور لاکھوں کاشتکاروں کی جو بربادی ہو چکی ہے جو بالکل اجڑ گئے ہیں اور خبروں کے مطابق جو اپنی مدد آپ کے تحت ان ٹڈیوں کو اڑانے کے لیے ڈھول بجا رہے ہیں اور اپنی اجڑی فصلوں کو دیکھ دیکھ کردھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں ، ان کے لیے حکومت کیا کرتی ہے، کچھ بھی نہیں کرے گی ان کے نقصان کے ازالہ کے لیے کسی کے منہ سے کوئی کلمہ خیر بھی نہیں نکلا۔ ہمارے اوپر وہ لوگ مسلط ہیں جو عوام کو کچھ دینے کے موڈ میں کبھی بھی نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف عوام سے ووٹ لینے کے چکر میں ہوتے ہیں ۔ ہمارے اوپر ٹڈی دل طبقہ مسلط ہے جو اپنے ناپاک مفادات کے حصول کے لیے کبھی ایک جگہ بیٹھ کر کھاتا ہے تو کبھی اڑ کر دوسری جگہ پہنچ کر مزید کھانا شروع کر دیتا ہے، اس طبقے نے پاکستان کے وسائل کو چٹ کر لیا ہے اور عوام کو ڈھول بجانے پر لگایا ہو اہے ۔اصل میں ہمارے یہ ٹڈی دل ہیں جن کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور یہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے کبھی ایک شاخ پر اور کبھی دوسری شاخ پر بسیرا کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران ﷲ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی بھی نہیں مانگیں گے، فقیروں کی کمائی لٹ جانے کا کسی کو احساس ہو تو وہ خدا کے حضور حاضری بھی دے۔
عبدالقادر حسن  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes