Tumgik
#ناقابل
apnibaattv · 1 year
Text
تھر کی ناقابل یقین خواتین ڈمپر ڈرائیور
05 مارچ 2023 کو شائع ہوا۔ تھر: تیز چلچلاتی دھوپ کے نیچے ریت کے ٹیلوں سے بندھی ہوئی ایک وسیع زمین وہی ہے جو عام طور پر صحرا کا لفظ سن کر تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے نظارے کی توقع کرتے ہوئے، ہم نے تقریباً چھ گھنٹے اور پینتیس منٹ کے اپنے سفر پر پہلی بار تھرپارکر کا دورہ کیا۔ ہلکی ہلکی بارش کے ساتھ موسم خوشگوار اور ابر آلود رہا۔ جیسے ہی ہم تھر کے قریب پہنچے تو ماحول بہت مختلف لیکن خوشگوار انداز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
میڈیا والوں پر حملے جمہوری معاشرے میں ناقابل قبول ہیں، وزیراعظم
میڈیا والوں پر حملے جمہوری معاشرے میں ناقابل قبول ہیں، وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ میڈیا والوں پر حملے جمہوری معاشرے میں ناقابل قبول ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے جاری کردہ ٹوئٹ پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف نے سینئر صحافی و تجزیہ کار ایاز امیر پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ I strongly condemn the attack on senior journalist/analyst Ayaz Amir. Such attacks on media persons are totally unacceptable in a democratic society. On my…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 2 years
Text
انسداد دہشتگردی عدالت سے پی ٹی آئی رہنماؤں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
انسداد دہشتگردی عدالت سے پی ٹی آئی رہنماؤں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
لاہور کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے لانگ مارچ کے دوران توڑ پھوڑ کے الزام میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں شفقت محمود ،حماد اظہراور ڈاکٹر یاسمین راشد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے۔ پی ٹی آئی کے دیگررہنماؤں ندیم بارا، میاں محمود الرشید اور اعجاز چوہدری سمیت دیگر کے بھی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کئے گئے ہیں۔ پی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
امریکی ریاست ٹیکساس میں خاتون پر عقاب اور سانپ کا بیک وقت حملہ
امریکی ریاست ٹیکساس کی ایک خاتون ایک عقاب اور سانپ کے بیک وقت حملے میں زخمی ہوگئی، جب عقاب اچانک فضا سے سانپ کو نیچے گرادیا۔ 64 سالہ پیگی جونز پچھلے ماہ اپنے گھر کے لان میں گھاس کی کٹائی کر رہی تھی جب اس کے اوپر سے ایک عقاب گذرا، عقاب اپنے پنجے سے گرتے سانپ کو قابو کرنے کی کوشش میں تھا۔ سانپ عقاب کی گرفت سے چھوٹ کر پیگی جونز پر گرا اور اس کے بازو کے گرد لپٹ کر اس کے چہرے پر ڈنک مارنے لگا جبکہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
عمران اور جنرل (ر)باجوہ کی غلطیوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا،حافظ حمداللہ
عمران اور جنرل (ر)باجوہ کی غلطیوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا،حافظ حمداللہ
اسلام آباد (نمائندہ عکس)پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کے ترجمان حافظ حمداللہ نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور سابق سربراہ پاک فوج جنرل ریٹائڑد قمر جاوید باجوہ کی غلطیوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اپنے بیان میں حافظ حمد اللہ نے کہا کہ عمران خان کو حکومت میں لاناجنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی غلطی تھی اور جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینا عمران خان کی غلطی تھی، دونوں کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 1 month
Text
بهابهی اور بهابهی کی امی
پارٹ 03
خالد تھوڑا صبر کر و ........ ابھی مجھے جی بھر کے اس مست لن کو چوسنے دو " سابوال تک بڑا راستہ پڑا ہے ابھی ........ مجھے معلوم ہے کہ تمہارا دل بھی کر رہا ہے کہ تم میرے ممے اور چوت چوسنا چاہتے ہو ..... تمہیں پورا پوار موقع دوں گی لیکن ابھی مجھے اپنا شوق پورا کرنے دو ......... "میں" بھابھی کا حکم کسے ٹال سکتا تھا ۔ میں خاموش ہوگیا اور آنکھیں موند کر دوباره برتھ کو پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ اور بھابھی میرا لن بے حد مست ہو کر چوسے جا رہی تھیں ۔ میں نے بھابھی سے کہا لگتا ہے کہ کچھ ہی دیر میں میں فارغ ہونے والا ہوں پلیز مجھے ایک بار اپنی " چوت پر ہاتھ پھیر لینے دیں ..... میرا بڑا دل کر رہا ہے ... "بھابھی نے میرا لن اپنے منہ سے نکال کر مجھے اپنی مخمور آنکھوں سے دیکھ کر کہا میں اپنی ایک ٹانگ سے شلوار اُتار لیتی ہوں تم بھی اپنا شوق پورا کر لو . ........ " بھابھی نے اپنی گوری ٹانگ سے شلوار کا پائنچا اُتار دیا اور اپنی دونوں مخروتی ٹانگیں پھلا کر سیٹ سے ٹیک لگا لی - اففففففففف میں اس منظر کو لفظوں کی گرفت میں کیسے لاؤں جو منظر میری نظروں کی حیرانیوں کو بھی حیران کر رہا تها . بهابهی کی بھاری گول گانڈ سیٹ کی نکڑ پر ٹکی ہوئی تھی اور اُنہوں نے اپنی دونوں ٹانگیں دائیں اور بائیں پھیلا کر انہیں اتنا کھولا ہوا تھا کی بھابھی کو چھوٹی سے پھولی ہوئی چوت کی لالیوں میں سے اُن کا چھوٹا سا گلابی رنگ کا دانہ صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ میں نے جھک کر بڑی بے صبری کے ساتھ اپنا منہ اُن کی صفا چٹ چوت کے دھڑکتے ہوئے سوراخ پر رکھ دیا۔ میرا لن چوسنے کی وجہ سے بھابھی کی چوت فل گیلی ہو رہی تھی ۔ اُن کی چوت کے خوشبودارپانی کا نمکین ذائقہ پہلی بار میں نے چکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے میرا سارا جسم نشے سے چور ہو گیا ہے ۔ میں اُن کی گانڈ کے کتھئی رنگ کے گول سوراخ کو اپنی زبان کی نوک سے سہلانے لگا ۔ بھابھی کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں خالد مجھے نہیں پتا تھا کہ میرا دیور ان کاموں میں بھی پوری مہارت رکھتا ہے " افففففف تم تو کمال کا مزا دے رہے ہو . میں تو تم کو اناڑی سمجھ رہی تھی بھابهی جی ، ہوں تو میں اناڑی ہی ہوں ، میں نے پہلی بار کسی کی چوت کا نمک " چکھا ہے لیکن میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ بے شمار ننگی فلمیں دیکھ رکھی ہیں ۔ یہ ان دیکھی ہوئی قلموں کا کمال ہے ۔۔۔ لیکن میں آپ کو ایک بات سچ بتاتا رہا ہوں کہ میں نے اتنی پیاری اور خوبصورت چوت ان فلموں میں بھی نہیں دیکھی . آپ کی چوت ، آپ کی گانڈ ، آپ کی ناف اور آپ کے ممے اب میں آپ کے بدن کے
" کس کس انگ کی قصیدہ گوئی کروں ..........
Tumblr media
خالد تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم مجھے ہمیشہ اسے ہی پیار کرتے رہو گے " میں بھی تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں تمہیں اپنی پیاری کزن سے بھی لازمی ملواؤں گی ۔ ہم دونوں مل کے تم سے چدوائیں گی۔۔۔ اور ایک راز کی بات بھی بتاؤں گی لیکن وعدہ کرو کے تم اس کا ذکر کسی سے نہیں کرو گے ۔۔۔ بھابهی میں وعدہ کرتا ہوں آپ میرے پیار میں کبھی بھی کمی محسوس نہیں کریں " گی ....... میں آپ کا دیوانہ ہو گیا ہوں ۔ اور آپ بی کے کہنے میں رہوں گا ........ پکا وعده میں نے بھابھی کی چوت میں پوری زبان ڈال کر کہا - بهابهی مستی سے بے حال ہو رہی تھیں ۔ میں نے بھابی سے پوچھا کیا میں اپنا لن آپ کی مست چوت میں گھسا دوں. "بھابھی نے کہا " نہیں خالد ابھی میری چوت نہ مارو گھر جا کر میں تم سے جی بھر کے چدوانا چاہتی ہوں ابھی اگر تم فارغ ہونے والے ہو تو پلیز میرے منہ میں اپنی ساری منى ذالنا . میں واقعی فارغ ہونے والا تھا کیونکہ اب برداشت کرنا میرےبس سے باہر ہو گیا تھا میں بھابھی کی چوت میں انگلی ڈال کر دوبارہ کھڑا ہو گیا تو بھابھی نے آگے ہو کر میرا لن اپنے منہ میں ڈال لیا اور اسے لولی پاپ سمجھ کر چوسنے لگیں ۔ لذت کی ایک ناقابل بیان کیفیت میرے رگ و پے سرایت کر گئی ۔ میں نے بھابھی کی چوت میں اپنی دو انگلیاں پوری کی پوری گھسا دیں ۔ اور میرے لن نے اُسی وقت بھابھی کے منہ میں زوردار پچکاری ماری جو سیدھی بھابھی کے حلق میں گئی ۔ ٹرین کے جھٹکوں سے میری انگلیاں خود بخود بی بهابهی کی ملائم چوت کے اندر باہر ہو رہی تھیں ۔ اور میرے لن کے پانی سے بھابھی کا منہ بھر گیا تھا.
Tumblr media
جسے انھوں نے نگل لیا۔ میں بے دم ہو کر بھابھی کے پہلو میں بیٹھ گیا اور ان کے ہونٹوں پر لگی ہوئی اپنی منی چاٹنے لگا بھابھی نے بھی میری انگلیوں پر لگا ہوا اپنی چوت کا پانی اپنی زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کیا ۔ ہم دونوں دیور اور بھابھی پسینے میں نہا چکے تھے . بم دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور ہنس دئے .
خالد آج تو مزا ہی آ گیا ہے ........ تمہاری منی بہت لذیز تھی ۔ مجھے منی کی " خوشبو سے پیار ہے۔۔۔۔۔ اب مجھے کولڈ ڈرنک دو تاکہ میں دوبارہ فریش ہو جاؤں میں نے کولڈ ڈرنک کی بوتل سے دو گلاس بھرے ایک بھابھی کو دیا اور دوسرا اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔ بھابهی ایک گھونٹ اپنے گلاس سے لے کر اُسے میرے منہ میں ڈالتیں اور میں اپنے گلاس سے ایک گھونٹ بھر کے اُسے بھابھی کے منہ میں ڈال دیتا ۔ ہم یوں ہی ایک دوسرے سے چہلیں کرتے رہے ۔ اور ہم نے کولڈ ڈرنک کی پوری بوتل ختم کر دى . ریل گاڑی کی رفتار کچھ سست ہوئی تو ہم دونوں نے کپڑے پہن لیے اور میں نے کیبن کی کنڈی کھول دی - استيشن قریب آرہا تها . لیکن ابھی ہمارا سفر جاری تها . اسٹیشن پر ترین نے دس منث رکنا تھا پلیٹ فارم پر بہت ہلچل اور چہل پہل تھی .
قلیوں ، مسافروں ، مردوں ، عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھاری سامان ڈھونے والی ٹرالیوں کی بے ہنگم اور مختلف آوازوں میں طرح طرح کے پکوانوں کی خوشبوں رچی بسی ہوئی تھی ۔ پلیٹ فارم کی فضا جسے رنگا رنگ کے لہجوں اور اونچی نیچی آوازوں کے شور نے اُس جگہ کے ماحول میں زندگی کی گہما گہمی اور رونق کا بھرپور احساس زنده کررکھا تھا ۔ میں اور بھابھی اپنے کپڑوں سے اپنے برہنہ تن ڈھانپ لیے تھے ۔ میں کپڑے پہن کر بھابھی کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ۔ ابھی تک ہم دونوں کے ذہنوں پر کچھ دیر پہلے کی چھائی بوئی خماری نمایاں تھی ۔ ہم دونوں کے جسم رنگین حبابوں جیسے ہلکے پھلکے محسوس ہو رہے تھے .
Tumblr media
مرد اور عورت کے جسم میں جنسی طلب فطری تقاضا ہے جنس کی بھوک پر بھوک پر حاوی ہے ۔ جو راحت اور مسرت جسم کی بھوک مثانے سے ملتی ہے وہ کسی اور بھوک کے اختتام پر حاصل نہیں ہوتی۔ جنس کی اشتہا میں ہی اس کی لذت پوشیدہ ہے ۔ میں انہی خیالوں میں مست تھا کہ مجھے
بھابھی نے انتہائی پیار سے کہا خالد ذرا باہر نکل کراسٹیشن ماسٹر سے کہو کہ ہمارے کوپے کا آے۔ سی کام " نہیں کر رہا ..... گرمی سے ہمارا حشر نشر ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ میں نے کہا جی بهابهی جان میں ابھی جا کر شکایت نوٹ کرواتا ہوں ....... اور کچھ کھانے "پینے کا بھی بندوبست کرتا ہوں .... آپ کو بھی یقیناً بھوک محسوس ہو رہی ہو گی
ہاں خالد تم نے صحیح اندازا لگایا ہے ... ڈسچارج ہونے کے بعد لازمی بھوک لگتی ہے ..... پلیز کچھ بندوبست کرو... تم اپنے لیے ایک کلو دوھ بھی لازمی لیتے آنا . ساہیوال آنے تک میں ایک بار اور تمہاری منی پینا چاہتی ہو ..... سچی بے حد ٹیسٹی منی ہے تمہاری ابھی تک میری زبان پر اُس کا ذائقہ باقی ہے بھابھی نے مسکرا تے ہوئے اپنے پرس سے ہزار روپے کا نوٹ نکال کر مجھے تھما دیا ۔ جسے لے کر میں خوشی خوشی پلیٹ فارم کے رش میں پیٹ پوجا کا انتظام کرنے کے لیے چلا گیا .سب سے پہلے میں نے اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں جا کر اُسے فرسٹ کلاس سلیپر کے ٹکٹ دکھائے اور اپنی شکایت نوٹ کروائی . استیشن ماسر بڑا ہیلپ فل بنده تها ۔ اُس نے بڑی توجہ سے میری ساری بات سنی اور فوراً ہی متعلقہ عملے کے آدمی کو بلا کر ہمارے کوپے کا اے سی بحال کرنے کا حکم دیا . میں نے اسٹیشن ماسٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ایک اچھے سے خوانچہ فروش جس کے پاس بہترین برگر اور فنگر چپس تیار تھے وہ پیک کروائے ۔ دو ڈسپوزایبل مگ ایک ڈسپوزایبل پلیٹ اور ایک شاپر میں اسپیشل دودھ پتی اور اپنے لیے ایک کلو خالص دودھ لیے میں لدا پھدا ترین کی روانگی سے کچھ پہلے اپنے کوپے میں بهابهی کے پاس موجود تها - بهابهی سب چیزیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔ میں
بقایا پیسے واپس کرنے چاہے تو بھابھی نے منع کر دیا کہ یہ میری طرف سے رکھ لو ۔ ٹرین چلنے سے پہلے ہی ریلوے کے ایک کاری گر نے آ کر ہمارے کوپے کا اے سی چالو کر دیا۔
Tumblr media
ترین چلی تو بھابھی نے بڑی نفاست سے مزیدار فنگر چپس پلیٹ میں ڈال کر اور دودھ پتی کا مگ برتھ پر سجا دیا تھا ۔ دودھ کو بھابھی نے شاپر ہی میں رہنے دیا اور دودھ والا شاپر برتھ کے ساتھ لٹکا دیا ۔ ہم دونوں دیور بھابھی چپس ایک دوسرے کے منہ میں ڈالتے اور مگ سے خوش ذائقہ دودھ پتی کا گھونٹ بھرتے ہوئے بے حد خوش تھے ۔ کچھ ہی دیر میں ہم چپس اور برگر چٹ کر گئے ۔ دودھ پتی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے بھابھی خوابیده سے لہجے میں بولیں خالد میں سچ کہتی ہوں .... میں نے اپنی زندگی میں شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بہت مرتبہ ٹرین میں سفر کیا ہے لیکن جو مزا مجھے آج کے سفر میں آ رہا ہے اُس عشر عشیر بھی پہلے کبھی نہیں آیا .... تم بے حد مست ہمسفر ہو میں تمہاری رفاقت میں ساری زندگی کا سفر کروں گی ....... کبھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑون گی ..... پکا وعده .... " مجھے بھی بھابی کی ہمسفری دل سے قبول تھی کیونکہ اُن جیسی خوبصورت بدن ، دل فریب خد وخال رکھنے والی حسینہ اگر ساتھ ہو تو کانٹوں کی راہ گزر پر بھی گلاب کھل جاتے ہیں ۔ رنگ اور خوشبو کا تعلق اصل میں ظاہری حواس سے کم اور تخیل سے زیادہ ہوتا ہے ۔ گلابی رنگ گلابی تو ہے ہی لیکن من پسند دلربا کے گالوں پر جو گلابیاں جھلکتی ہیں ان کا رنگ ہی بقایا پیسے واپس کرنے چاہے تو بھابھی نے منع کر دیا کہ یہ میری طرف سے رکھ لو ۔ ٹرین چلنے سے پہلے ہی ریلوے کے ایک کاری گر نے آ کر ہمارے کوپے کا اے سی چالو کر دیا۔
Tumblr media
ٹرین چلی تو بھابھی نے بڑی نفاست سے مزیدار فنگر چپس پلیٹ میں ڈال کر اور دودھ پتی کا مگ برتھ پر سجا دیا تھا ۔ دودھ کو بھابھی نے شاپر ہی میں رہنے دیا اور دودھ والا شاپر برتھ کے ساتھ لٹکا دیا ۔ ہم دونوں دیور بھابھی چپس ایک دوسرے کے منہ میں ڈالتے اور مگ سے خوش ذائقہ دودھ پتی ک�� گھونٹ بھرتے ہوئے بے حد خوش تھے ۔ کچھ ہی دیر میں ہم چپس اور برگر چٹ کر گئے ۔ دودھ پتی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے بھابھی خوابیدہ سے لہجے میں بولیں خالد میں سچ کہتی ہوں ۔ میں نے اپنی زندگی میں شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بہت مرتبہ ٹرین میں سفر کیا ہے لیکن جو مزا مجھے آج کے سفر میں آ رہا ہے اُس عشر عشیر بھی پہلے کبھی نہیں آیا .... تم بے حد مست ہمسفر ہو میں تمہاری رفاقت میں ساری زندگی کا سفر کروں گی ....... کبھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑون گی .... پکا وعده ... " مجھے بھی بھابی کی ہمسفری دل سے قبول تھی کیونکہ اُن جیسی خوبصورت بدن ، دل فریب خد و خال رکھنے والی حسینہ اگر ساتھ ہو تو کانٹوں کی راہ گزر پر بھی گلاب کھل جاتے ہیں ۔ رنگ اور خوشبو کا تعلق اصل میں ظاہری حواس سے کم اور تخیل سے زیادہ ہوتا ہے ۔ گلابی رنگ گلابی تو ہے ہی لیکن من پسند دلربا کے گالوں پر جو گلابیاں جھلکتی ہیں ان کا رنگ ہی جدا ہوتا ہے ۔ اُن گلابی گالوں کو دیکھ کر آنکھوں کا رنگ بھی گلابی ہو جاتا ہے۔ رات کی سیاہی محبوبہ کی زلفوں میں محسوس ہو تو پهررات رات نہیں کہلاتی وہ محبوبہ کی گال کا دلکش تل بن جاتی ہے .تل بهابهی کے تھا لیکن وہ اُن کی گوری گلابی چوت کے پیڑو پر تھا ۔ جس پر نظر پڑتے ہی آنکھوں میں مستی اور لن میں سنسنا بث پیدا ہو جاتی تھی ۔ سارے بدن کوبجلی کے کرنٹ کا جھٹکا سا لگتا تھا . بر چوت ایسی نہی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
Tumblr media
3 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
محبت کی امامت کریں عہد کی پاسداری کریں اور اپنے خوبصورت لمحات کو مٹھی میں بھر لیں، کیونکہ موت کے بعد محرومی، ناقابل برداشت ہے۔
Lead the love, obey the promise and capture your beautiful moments, because deprivation after death, is unbearable.
16 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
’’ مجھے بھی پتا ہے اور تم بھی جانتے ہو کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم اس واقعہ کی مذمت کرو گے، تحقیقات کا اعلان کرو گے مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کہ یہ قتل تمہاری ناک کے نیچے ہی ہو گا۔ بس مجھے فخر ہے کہ میں نے سچ کے راستے کو نہیں چھوڑا۔‘‘ یہ طاقتور تحریر آج سے کئی سال پہلے جنوری 2009 میں سری لنکا کے ایک صحافی LASANTA WICKRAMATUNGA نے اخبار‘دی سنڈے لیڈر، میں اپنے قتل سے دو دن پہلے تحریر کی۔ بس وہ یہ لکھ کر دفتر سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی یہ تحریر میں نے اکثر صحافیوں کے قتل یا حملوں کے وقت کے لیے محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں اس وقت کے صدر کو جن سے اس کے طالبعلمی کے زمانے سے روابط تھے مخاطب کرتے ہوئے نہ صرف وہ پرانی باتیں یاد دلائیں جن کے لیے ان دونوں نے ساتھ جدوجہد کی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا،’’ میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں البتہ تم آج اس مسند پر بیٹھ کر وہ بھول گئے ہو جس کے خلاف ہم دونوں نے ایک زمانے میں مل کر آواز اٹھائی تھی‘‘۔ 
مجھے ایک بار انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی طرف سے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ صحافیوں کو درپیش خطرات پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ غالباً 2009-10 کی بات ہے وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ بہت سے صحافی ہمارے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی نے نامعلوم مقامات سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کی خبر آئی تو میری طرح بہت سے صحافیوں کے لیے یہ خبر نہ صرف شدید صدمہ کا باعث تھی بلکہ ناقابل یقین تھی۔ واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہےاس کا تو خیر پتا چل ہی جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کو ملک کیوں چھوڑ کر جانا پڑا؟ اس کی تحریر یا خ��الات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا کسی کو اس کے خیالات اور نظریات پر قتل کرنا جائز ہے۔ ہم صحافی تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔
ارشد نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا نہ آخری کیونکہ یہ تو شعبہ ہی خطرات کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی یوں ہے کہ بات ایک قتل پر آکر نہیں رکتی، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا جہاں صحافت خطرات سے خالی نہیں جب کہ انتہائی مشکل ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی کسی پاکستانی صحافی کا قتل ملک سے باہر ہوا ہو۔ ویسے تو پچھلے چند سال سے انسانی حقوق کے کچھ لوگوں کے حوالے سے یا باہر پناہ لینے والے افراد کے حوالے سے خبریں آئیں ان کے نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل یا پراسرار موت کی، مگر ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو اپنے کام کی وجہ سے ملک سے باہر گیا اور شہید کر دیا گیا۔ ہمارا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائی خراب ہے جہاں نہ قاتل پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا۔ 
میں نے اس شہر میں اپنے کئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989 سے لے کر2022 تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل کراچی تا خیبر ہوا مگر تین سے چار کیسوں کے علاوہ نہ کوئی پکڑا گیا نہ ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کے منیر سانگی جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا کی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد اور انصاف نہ ملنے پر پورے کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میری درخواست پر اس نے یہ کام نہیں کیا مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست کے سوا، مگر اسے انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہمارے ایک ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش اس کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔ 
اس کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جواس کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ وہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک مرحوم اور چوہدری نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لاسکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا تھا واپس نہیں آیا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے قریب پیش آیا۔ صبح سویرے اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا اس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کروں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ناظم جوکھیو مارا گیا مگر قاتل با اثر تھے سیاسی سرپرستی میں بچ گئے بیوہ کو انصاف کیا ملتا دبائو میں ایک غریب کہاں تک لڑ سکتا ہے۔
ہر دور حکومت میں ہی صحافی اغوا بھی ہوئے، اٹھائے بھی گئے دھمکیاں بھی ملیںاور گمشدہ ہوئے پھر کچھ قتل بھی ہوئے سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں پھر بھی حکمران اپنی حکومت بچانے کی خاطر یا تو بعض روایتی جملے ادا کرتے ہیں یا خود بھی حصہ دار نکلتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں محترمہ شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی سندھ اسمبلی نے بھی قانون بنایا ہے۔ اب اسلام آباد کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ سندھ کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی فوری اعلان کا منتظر ہے۔ اتنے برسوں میں صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے ، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے   مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
shiningpakistan · 4 hours
Text
معیشت کی بحالی کیلئے آخری موقع
Tumblr media
گزشتہ دنوں میری کراچی اور اسلام آباد میں ملکی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر نے معیشت کی بحالی کیلئے سخت اقدامات کئے جانے کو آخری موقع (Lifeline) قرار دیا۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اب وقت نہیں کہ وہ ان اقدامات کو مزید موخر کرسکے۔ میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستانی معیشت اب اس ڈگر پر آگئی ہے جہاں ہمیں سیاسی سمجھوتوں کے بجائے ملکی مفاد میں سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ممتاز صنعتکاروں اور بزنس مینوں کی ایک ’’گریٹ ڈیبیٹ‘‘ اور اسلام آباد میں ’’لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ‘‘ میں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین، معاشی ماہرین اور میں نے ملکی معیشت پر اہم تجاویز دیں جس میں معیشت کی بہتری کیلئے اسٹیٹ بینک کے 22 فیصد ڈسکائونٹ ریٹ اور حکومتی اخراجات میں کمی، درآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں PIA، واپڈا، ریلویز، ڈسکوز جو 500 ارب روپے سالانہ کا نقصان کر رہے ہیں، کی فوری نجکاری، صنعتی سیکٹر کو مقابلاتی اور سستی توانائی کی فراہمی شامل ہے۔
دوست ممالک بھی اب مالی امداد کے بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں لیکن اس کیلئے ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور سیاسی استحکام اشد ضروری ہے جو موجودہ حالات میں نظر نہیں آرہا۔ بینکوں کی 24 فیصد شرح سود پر کوئی سرمایہ کار نئی صنعت لگانے کو تیار نہیں بلکہ موجودہ صورت حال میں بینکوں کے نجی شعبے کے قرضوں میں 80 فیصد کمی آئی ہے جس سے معاشی گروتھ متاثر ہوئی ہے۔ حکومت کے زیادہ شرح سود پر قرضے لینے کی وجہ سے ہمیں 8500 ارب روپے کے بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی لاکر ہم بجٹ خسارے میں 2500 ارب روپے کی کمی لاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معیشت کی دستاویزی سے ہم 3000 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل کے شعبوں میں 2000 ارب روپے کی ٹیکس کی چوری ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی اور ریونیو یعنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کے نقصانات ہم بھگت چکے ہیں لہٰذا ہمیں روپے کی قدر اور ڈالر ریٹ کو مارکیٹ میکنزم کے حساب سے طلب اور سپلائی کے مطابق رکھنا ہو گا۔ 
Tumblr media
افراط زر یعنی مہنگائی 17.3 فیصد ہو چکی ہے جو مئی 2023 ء میں 38 فیصد کی بلند ترین شرح تک پہنچ چکی تھی اور اسے بتدریج کم کر کے سنگل ڈیجٹ پر لانا ہو گا تاکہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں کمی لائی جاسکے۔ گوکہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں رہتے ہوئے ان اقدامات پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہے تاہم ان سے آئندہ 2 سال میں ملکی معیشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنے توانائی اور ٹیکس کے شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کرنا ہونگی۔ پرانے IPPs معاہدوں کی تجدید ملک میں توانائی کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے مقابلاتی آفر (Bidding) پر کی جائے تاکہ بجلی نہ خریدنے کی صورت میں حکومت کو کیپسٹی سرچارج کی ناقابل برداشت ادائیگی نہ کرنا پڑے جس کے باعث پاکستان کے گردشی قرضے بڑھ کر ریکارڈ 5500 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں ٹیکس نظام میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ زراعت کا شعبہ جس کا معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، بمشکل 1.5 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ ٹریڈر جس کا ملکی جی ڈی پی میں 18 فیصد حصہ ہے، بمشکل ایک فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، یہی حال رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ہے جبکہ صنعتی سیکٹر، جس کا ملکی معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، پر ٹیکسوں کا 65 فیصد بوجھ ہے۔ 
اسی طرح سروس سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 60 فیصد ہے لیکن یہ سیکٹر صرف 28 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے لہٰذا ہمیں ملکی معیشت کے ہر سیکٹر سے اس کے حصے کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنانا ہو گی جس کیلئے حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 9 فیصد ہے جسے بڑھاکر ہمیں خطے کے دیگر ممالک کی طرح 18 فیصد تک لے جانا ہو گا جو آئی ایم ایف کی شرائط میں بھی شامل ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ خطے میں سب سے زیادہ توانائی کے نرخ، بینکوں کے شرح سود اور ٹیکس ریٹ ہیں جو سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ مہنگی بجلی اور گیس کے نرخ کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس غیر مقابلاتی ہورہی ہیں لہٰذا حکومت کو سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ان تینوں رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ پاکستان کے زراعت اور IT سیکٹرز میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جنہیں فروغ دیکر ہم فوری طور پر ایکسپورٹس میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایران اور خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کیساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گا۔ 
مجھے خوشی ہے کہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط پاکستان کو موصول ہو گئی ہے جس نے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کے 3 سال یا زیادہ مدت کے قرض پروگرام کی درخواست کی ہے جس پر مذاکرات کیلئے آئی ایم ایف کا مشن دو ہفتے کے دورے پر پاکستان آئے گا۔ آئی ایم ایف نے پنشن پر ٹیکس کا نفاذ اور پنشن ادائیگی کی مدت میں کمی پر زور دیا ہے۔ اسکے علاوہ حکومت کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کیلئے بھی سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے پاس اب مزید وقت نہیں کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ایڈہاک فیصلے کرے۔ حکومت کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ مذکورہ اصلاحات پر عملدرآمد کرکے ملک کو معاشی خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
'ناقابل تصور'، پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر اقوام متحدہ کے سربراہ کا تبصرہ
‘ناقابل تصور’، پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر اقوام متحدہ کے سربراہ کا تبصرہ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ تصویر: ٹویٹر/ پی ٹی وی نیوز سکھر: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ہفتے کے روز سندھ اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے بے مثال سیلاب سے ہونے والی تباہی کو “ناقابل تصور” قرار دیا۔ انتونیو گوتریس نے وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
ہندوستان میں جو ہوا ناقابل برداشت اور ناقابل معافی جرم ہے، مولانا عبداالکبر چترالی
ہندوستان میں جو ہوا ناقابل برداشت اور ناقابل معافی جرم ہے، مولانا عبداالکبر چترالی
رکن قومی اسمبلی مولانا عبداالکبر چترالی نے کہا ہے کہ ہندوستان میں جو ہوا ناقابل برداشت اور ناقابل معافی جرم ہے۔ مولانا عبداالکبر چترالی نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت ایمان کا حصہ ہے، ڈینمارک میں توہین رسالت پر کارروائی کا مطالبہ کیا تو کہا گیا مغرب ناراض ہو جائے گا، مسلم ممالک اور پاکستان بھر میں احتجاج ہوئے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 19 days
Text
سولر سسٹم لگوانے کے خواہشمند افراد کیلئے بڑی خوشخبری
0 notes
Text
پایان وابستگی با اقتدار خودکار کیان صفا
به گزارش صفا نیوز:  رئیس هیات مدیره گروه صنعتی صفا با یادآوری اینکه خودکار بیک بدلیل تحریم ها از واگذاری قطعات بیک به کارخانه ایران خودداری کرد گفت همان کارخانه ای که می بایست زیر پرچم بیک باشد و با گوشه چشم شود. اکنون ۱۵ میلیون خودکار کیان صفا را در ماه تولید می کنند. بیگ کار کند و با اخم بیک تعطیل محمد رستمی صفا به تشریح دلایل تولید خودکار کیان صفا پرداخت و گفت من از ابتدای فعالیت کاری ام در سنین پایین وارد عرصه فولاد شدم و به جرات میگویم که اگر ۱۰۰۰ لیتر از خون مرا بگیرند ۹۵۰ سی سی آن فولاد است.پایان وابستگی با اقتدار خودکار کیان صفا
Tumblr media
وی با تاکید بر اینکه تمرکز بر فولاد دلیل نمی شود که نسبت به دیگر چالشهای کشورم بی تفاوت باشم گفت مدتها بود که یک خودکار ناقابل به نام بیک از فرانسه به ایران می آمد. در نتیجه کارخانه ای که در ایران ساخته شده بود و در ماه ۵۰۰ هزار خودکار بیک را مونتاژ میکرد خریداری کردم و تولید را استارت زدم. رئیس هیات مدیره گروه صنعتی صفا با اشاره به اینکه ایران عزیزمان همواره از سوی دشمنان مورد تهدید قرار داشته گفت. بدلیل تهدیدهایی که سالها از سوی دشمنان متوجه نظام اسلامی شده بود و در عرصه اقتصادی بیشتر خودنمایی می کرد. در سال ۱۳۸۷ برند بیگ اعلام کرد که دیگر نمی توانیم به ایران قطعات خودکار بیک را بدهیم زیرا تحریم اجازه چنین کاری را نمی داد وی با اشاره به اینکه من نمایندگی کارخانه خودکار بیک در ایران را خریده بودم و آنها موظف بودند. قطعات را به ایران بدهند گفت: به محض آنکه بیک فرانسه از دادن قطعات خودکار به ایران سرباز زد. همان لحظ�� لایسنس بیک را که بسیار ارزشمند بود پس دادم.
محمد رستمی صفا با یادآوری اینکه به بیک فرانسه اعلام کردم به لایسنس بیک نیازی نداریم و دیگر نمیخوام از بیک قطعات بگیریم گفت: همه به من معترض شدند و گفتند لایسنس بیک خیلی ارزش دارد و بهتر است آن را حفظ کنیم، اما من پاسخ دادم تا زمانی که لایسنس بیک دست ما باشد، یعنی زیر سلطه آنها هستیم و نمی توانیم تولید کننده باشیم. وی با اشاره به اینکه بیک فرانسه از این رفتار من متعجب شد گفت نمایندگان بیک فرانسه از من پرسیدند اکنون که بیک را نمی خواهید. بنا دارید چه کار کنید و من همانجا پاسخ دادم یک خودکار تولید ملی راه می اندازیم و واردات را تبدیل به صادرات می کنیم. محمد رستمی صفا با یادآوری اینکه نمایندگان بیک فرانسه به این اظهار نظر و قاطعیت من خندیدند گفت: رفتار تحقیر آمیز بیک فرانسه انگیزه بیشتری به من داد تا خودکار تولید ملی را بسازم و با جدیت تولید خودکار داخلی را در دستور کار قرار دادم
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
لاہور ہائیکورٹ،سی سی پی او لاہور کی معطلی کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر خارج
لاہور ہائیکورٹ،سی سی پی او لاہور کی معطلی کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر خارج
لاہور(کورٹ رپورٹر) لاہور ہائیکورٹ نے سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کی معطلی کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر نمٹا دی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مزمل اختر نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی جانب سے معطلی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی جس دوران عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ کو اختیار ہے کہ وہ معطلی کے معاملے کو دیکھے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ایک وفاقی وزیر کے خلاف قانونی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 5 days
Text
ورجن بہن
ور میری پیاری چھوٹی بہن کی پنکی اور ہمارے جنسی تعلقات کے ساتھ تھا. پنکی اس کے 10 معیار میں تھا اور میں میری انٹرمیڈیٹ کر میں تھا. ہم نے پونے کے مصروف سڑکوں کے باشندوں تھے. میں اس کے ساتھ شروع کرنے کے لئے کسی بھی جنسی تجربہ نہیں تھا اور میں بہت زیادہ جنسی اور عورت جنسی اعضاء اور
سب کچھ کے ساتھ پاگل تھی. یہ میری روایتی خاندان کی وجہ سے مجھے لگتا ہے. ہماری روایتی اور خاندان کو ہمیشہ مجھے اور جنس یا عریانیت سے متعلق کچھ کے بارے میں اپنے جذبات کو کنٹرول کرنے میں ہوشیار تھا. میری ماں اور بہن کو واپس اوپر کے کمرے کے دروازے کو جب وہ باتھ روم میں غسل کر رہے ہیں کو بند کرنے کا استعمال کیا تھا اور یہاں تک کہ وہ کپڑے پہن کر لی نہیں کھولنے. یہ میرے گھر پر صورت حال تھی. اگرچہ میں جنس کے ساتھ پاگل کیا گیا تھا میں درار کے لئے شہر کے چاروں طرف دیکھنے کی کسی اوسط آدمی کی طرح استعمال کیا. میں نے میگزین سے ابینےتریوں کو بے نقاب کرنے کی تصاویر کاٹ اور انہیں میرے بٹوے میں رکھ کرتے تھے.
یہ زنی کے انزال ہوجانے کی شکایت ہے آج رات کے لئے یا شاور میں تھا. ہم نے ایک درمیانے طبقے کے خاندان میں نیلے فلموں کو دیکھنے میں خرچ کرنے کے لئے ایک کمپیوٹر میں میرے گھر پر نہیں تھا جب سے یہ بہت پہلے ہوا تھا کافی پیسے مل نہیں تھے. یہاں تک کہ ان حالات میں میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایک جنسی شے کے طور پر بہن کے بارے میں سوچنا ہوگا. لیکن یہ ایک چمتکار کے طور پر ہوا کے بعد بھی میری چھوٹی بہن پنکی میرے ساتھ مہم جوئی کرنے کی مخالفت نہیں کیا.
ایک دن اس کے دوستوں کے ساتھ میری بہن ہمارے گھر پر ایک رقص کی ریہرسل ہے جو وہ ان کے اسکول میں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے مشق کیا گیا تھا. چونکہ ہمارے گھر میں صرف تین کمروں میں تھے ہماری ہال کی سب سے بڑی تھی تاکہ وہ ہال میں ناچ رہے تھے. اور میں ایک کونے میں فرش پر جھوٹ بول کر ٹی وی دیکھ رہا تھا. میرے والد نے باورچی خانے میں گھر اور میری ماں پر نہیں تھا.
Tumblr media
ان لڑکیوں کو شارٹ سکرٹ اور تنگ ٹی شرٹ جس میں رقص کے لئے ان کے کاسٹیوم بھی پہن رکھے تھے. اصل میں میں نے سکول کی وردی میں یا کپڑے میں سوائے سکرٹ میں میری بہن کبھی نہیں دیکھا ہے. لہذا میں نے اسے ایک نظر دیکھو کیا لیکن اس نے زیادہ توجہ نہیں ہے. جیسا کہ انہوں نے ناچ کر اور میں فرش پر پڑا ہوا تھا یہ ہوا کہ وہ ایک رقص کے قدم جس کے ان کے جسم کے ارد گرد کتائی کے شامل کرنے کی ضرورت ہے. تو یہ ان کا شارٹ سکرٹ کے فلوٹ بنایا اور ان کی رانوں نے انکشاف کیا ہے. میں اس نقطہ نظر کے ساتھ مارا گیا تھا. خوبصورت صاف سڈول رانوں اور ان نوجوان لڑکیوں کی ان کی جاںگھیا کی تنگ بتانے گدی کو دیکھنے کے لئے یہ بہت حیرت انگیز تھا. اب میں ایک جنسی زاویہ میں ان سب کو دیکھ کر شروع کیا لیکن جو زیادہ حیران کن تھا وہ سب لڑکیوں کو اپنی بہن رکن بہترین رانوں تھے کہ باہر گیا تھا.
اور یہ یہ ناممکن ہے اس سے میری منظر پر لینے کے لئے بنایا ہے. پنکی نے 5’4 کے ارد گرد کے وقت اونچائی کی ایک اچھی شخصیت تھے. اس کی رانوں کو ہموار بچھڑوں اور منصفانہ موٹی رانوں خاص طور پر دور ایک پتلی جاںگھیا کی طرف سے احاطہ گدا کے ساتھ بہت اچھی حالت میں تھے. میں کلپنا ان کو چھونے اور ان کی چاٹ اور بھی ان کے مہک کرنا شروع کر دیا. جیسا کہ ان کے جذبات کو بدتر بنا دیا ہے اور اس لمحے سے میری رائے اور نقطہ نظر یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے.
اب میں اس جھول نوجوان تنگ ٹی شرٹ کی طرف سے منعقد سینوں پر تلاش کرنا شروع کر دیا. کچھ کے لئے اس کو دیکھ رہے ہیں جبکہ نئے خیالات میرے دماغ میں چل رہا کرنے کے بعد. میں اس کے اندرونی حصوں جو اس کی عمر کا ایک عام احساس ہے ہیں سونگھ کرنا چاہتے تھے. تو جلدی سے باتھ روم میں چلا گیا اور اس کی پہنا انڈرویر اٹھایا اور ان کی مہک شروع. یہ میرے لئے جنت کی طرح تھا.
Tumblr media
میں نے اس چولی، جاںگھیا اور پیٹیکوٹ جمع ہے جبکہ سو اور مشت زنی کرنے کے لئے سونگھ کرنا شروع کر دیا. یقینا میں نے انہیں کبھی نہیں اٹھایا جب وہ پیریڈ اس پسینے کے ساتھ ملا اس کے اندام نہانی سے سیال کی بو میرے لئے ناقابل فراموش تھا. سب سے اچھی بات تھی ہم خوشبو وہ عمر ہے جس ميں بدبو بہت زیادہ متعلقہ بنایا میں کبھی استعمال نہیں ہے. تو میں صرف مہک میں بہت کچھ کرنا چاہتا تھا کے ساتھ مطمئن نہیں تھا، لیکن میں نے سوچ اور کے لئے اہم واقعہ اور ایک ٹھیک شبھ تہوار کے دن میں نے موقع ملا جیسا کہ میں نے کہا کے بعد ایک ماہ کی طرح میرے دماغ میں سوچ پر رکھا ہم نے درمیان میں سے تھے طبقے کے خاندان تو ہم ایک نیا کیمرہ خریدا جو میرے والد صاحب نے مجھے ایک موجود ہے اور صرف میں ہی اسے استعمال کرنے کا مجاز ہے کیونکہ یہ مہنگی (سمجھا جاتا ہے) تھا کے طور پر خریدا. میرے والد نے ہمیشہ مجھ سے کہا کہ تصویروں کی تعداد پر کنٹرول کے اوائل 2000 ء ہم سٹوڈیو جس میں اضافی رقم کی لاگت آئے گی میں تصاویر کے لئے تیار ہے کیونکہ ان دنوں میں پسند لے. اور میری بہن کو ہمیشہ مجھے اس کی ایک تصویر لینے کے لئے کرنے کی درخواست کیا کرتے تھے. میں ابتدائی طور پر کرنے سے انکار کرتے تھے لیکن کے بعد سے اپنے نقطہ نظر اس کی طرف تبدیل کر دیا میں لینے شروع کر دیا اس سے تصاویر کو زیادہ کثرت سے. تو اس تہوار کے دن پر میری بہن کے نئے سکرٹ پہنے تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ اس کے بہت سے تصاویر لے گیا تھا.
اب میں ایک چارہ کے طور پر اس کے لئے کچھ زیادہ کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا. میرے والد اور ماں کے رشتہ داروں سے ملنے اور تہوار کے دن پر انہیں مبارک دینے کے لئے باہر چلے گئے تو ہم اکیلے تھے. لہذا میں نے پنکی نے کہا کہ وہ اپنے والدین کے کمرے کے اندر آنے کے بعد اسے تھوڑا صاف تھا اور تصاوير اچھا نظر آئے گا. اس نے قبول کر لیا. پھر میں نے اس کے دو جواب گولی مار دی اور اس سے کہا تھا کہ یہ ختم ہو گیا تھا. کہا کہ کہ میں اپنے والدین کے بستر پر گئے اور وہاں بیٹھ گئے
Tumblr media
اب پنکی میرے پاس آیا اور مجھ سے مزید تصاویر لینے کے لئے مجبور شروع. وہ بھیا کی طرح گیا تھا جو اجازت دیتا ہے، دوسری براہ مہربانی چند تصاویر لے، میں نے انہیں اپنے دوستوں کو دکھانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے “وغیرہ میں میرے پاس بیٹھ کر پوچھا، تو اس نے کیا لیکن وہ اصل میں بستر پر پڑا گئے. تو میں نے کہا میں سکھاؤنگی اس کیمرے تا کہ وہ اس کی اپنی تصویر لے سکتے ہیں کہ کس طرح کام وہ ٹھیک کہا اور حوصلہ افزائی کی تھی اور اس کے بعد میں نے اس کے ہاتھوں میں کیمرے دی.
اور وہ تمام اختیارات اور میں نے تقریبا جلا کے ساتھ آہستہ آہستہ دل میرے ہاتھوں کو اپنے پیروں پر رکھا مشاہدہ کیا گیا تھا. اور وہ اس رد عمل کا اظہار نہیں کیا تو میں دکھاوا ہے جیسے اگر میں نے اس سے کچھ گندگی تشریح کر رہا ہوں اور میرے ہاتھ اس سکرٹ کے اندر اس کی رانوں کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں اپ پر رکھا گیا تھا. وہ مصروف تھا کیمرے میں دیکھنے کے اور میری باتوں سے چھین لیا. اس کے علاوہ وہ تھوڑا معصوم اور نادان رویے سے اس طرح محسوس کرنے کے لئے تھا. لیکن اب میں اس کی رانوں پر تقریبا میرے ہاتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور میرے کامپ انگلیاں اچانک اس لڑکی کو چھو لیا. وہ مورخ میں ہلا کر رکھ دیا تھا. اور بھیا نے کہا کہ آپ کیا کر رہے ہیں. آپ مجھ پر وہاں سے چھو کیوں کی کوشش کر رہے ہیں. پھر میں نے کہا کہ اگر آپ نے کیمرے کو جاننا اور اپنے آپ کو زیادہ جواب لے چاہتا ہوں بس چپ رہو. وہ سب سے پہلے یہ اور اس نے کہا اور آخر میں اس نے ٹھیک کہا. یہ اس کی جہالت کا تھا اور وہ جانتی نہیں کیا غلطیوں اور لطف کہ ہاں مراد واحد تھا.
Tumblr media
اب وہ کیمرے کا انعقاد کیا گیا تھا اور میں نے اس کی کمر سے اوپر اس کے سکرٹ ہٹانے کی طرف سے اس کی رانوں پر کھل کر محسوس کرنا شروع کر دیا. وہ شرم محسوس کیا گیا تھا اور مسکرا. پھر میں نے اس جاںگھیا نکالا نیچے اور اس خوبصورت انتخاب بلی ہونٹ محسوس کیا ہے جس میں ہلکے بالوں کی طرف سے احاطہ کرتا ہے. یہ ریشم اور اچانک ہم اپنے گھر میں طاقت کھو کی طرح تھا. چونکہ یہ رات کے 8 بجے کے ارد گرد تھے، ہمارے کمرے سیاہ گئی اور میرے اندر جانور کو پنکی بلی میں نے میرے سر کو دھکا دے دیا.
میں نے اس لڑکی کے ہونٹوں پر میری جیب رکھا اور ان کو اچھی چاٹ لیا تھا. یہ صاف اور نرم تھا. مجھے گہری اور گہری گئے. اب وہ کیمرے کو ایک طرف رکھا اور لمحے سے لطف اندوز شروع کر دیا. میں نہیں جانتا کہ یہ کس طرح ہوتا ہے لیکن جنس ایک قدرتی عمل ہے اور یہ کوئی تربیت نہیں کی ضرورت ہے. وہ میرے سر کا انعقاد کیا گیا تھا اور میرے بال ھیںچ جیسا کہ میں نے اس بلی چاٹ لیا تھا. پھر میں نے اسے نکالا نیچے اس کی ٹانگوں کے انعقاد کی طرف سے اور اسے اس کے ہونٹوں پر بوسہ لينا شروع کر دیا.
وہ وہاں اس کے تمام خالص جنسی اداکاری کی وجہ سے زیادہ کرنے کے لئے بہت خوش تھا. وہ کسی بھی تجربہ نہ I. کرنا نہیں تھا لیکن ہم نے بستر پر ایک گرم نوجوان جوڑے کی طرح تھے. میں نے اسے کچھ دیر کے لئے چوما اور بیک وقت میری انگلیاں اس کی اندام نہانی کے اندر گہرائی میں ڈال دیا. پھر اچانک ہماری فون کی گھنٹی بجی. ہم دونوں کو ہلا کر رکھ رہے تھے. وہ مجھ سے دور چلے گئے.
Tumblr media
جو ایک قدرتی رد عمل تھا اور پھر میں نے فون اٹھایا سنا ہے کہ میرے والد صاحب کہہ رہا ہے کہ، میری ماں (ن) اسے دیر ہو جائے گا اور وہ آدھی رات کے ارد گرد کچھ جس سے مجھے 4 گھنٹے کی ایک کھڑکی کو چھوڑا کی طرف سے گھر تک پہنچ جائے گی. میں تاریک کمرے میں واپس آ گیا اور میری بہن رکن کی تمام کمبل اور بستر کے کونے پر لپیٹ کے بستر پر تھی.
پھر میں نے سوچا تھا کہ میں چیزیں واضح سب سے پہلے کرنا چاہئے کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ میں نے کے بارے میں اگلے چند گھنٹوں میں بڑا کچھ کرنے کی. تو میں اس کے قریب گئے اور اس سے پوچھا. پنکی، آپ کو پسند ہے کیا ہم صرف کیا ہے “انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جی ہاں ایک خوبصورت رومانی آواز میں. میں پھر کہا کہ وہ آرام سے ہو سکتا ہے اگر ہم یہ کرتے ہیں بار بار روزانہ گا؟”؟ انہوں نے کہا جی ہاں اور اس کے بعد میں نے اس سے پوچھا.
وہ واقعی بہت پسند ہے تو ان سے پوچھا کہ اس کے تمام کپڑے کو دور کرنے کے لئے. اس دوران میں گیا اور ہمارے مرکزی دروازے کو بند کر دیا. جیسا کہ میں گھر پر ہمارے اقتدار میں آیا واپس آئے اور تمام نگتا میں روشن پنکی کو بے نقاب روشنی میں کمرے میں روشن کی. وہ بستر کے سامنے ننگا کھڑا کیا گیا تھا اور اس کے سکرٹ جاںگھیا اور چولی اس کے پاؤں پر تھے، جو میں نے محسوس کیا کہ وہ صرف گرا دیا. اس کی چھاتی سیاہ گلابی رنگ میں طویل عرصے سے نپل کے ساتھ باہر تھے.
وہ اپنی بلی پر کم بال تھے تو یہ واضح طور پر دکھائی دیتا تھا میں نے اپنے کپڑے چھین لیا اور آہستہ آہستہ اس کا گدا کو پکڑا اور اس کو اٹھا لیا اور اسے بستر پر جھوٹ بنایا ہے اور اس کے پورے جسم کی تلاش شروع کر دیا ہے. وہ بڑبڑا رہی ہے اور اس عمل کے دوران حوصلہ افزائی کی تھی. میں نے ایک پریمی کی طرح طویل وقت کے لئے اس سے چوما اور ہم نے ان کو اور سامان کو کاٹنے کی طرف سے ہماری زبان کے ساتھ ادا کیا.
Tumblr media
تو میں اس کی گردن کو چوما اور اسے اپنے منہ میں نپل لیا انہیں اچھا اور مشکل چوسا. میں نے اس کے دونوں نپل پر میری جیب میں تیزی سے ادا کیا. پھر اس کی نابی سے چوما اور اس کی بلی چاٹ لیا تھا پھر جو اس کے رس کے ساتھ بھیگ گیا تھا. وہ اسے اس کی زندگی کے پہلے مجھے لگتا ہے کہ اور وہ بھی ان میں سے ایک سے زیادہ تھا رہا تھا. اس وقت میرے ڈک اب کافی مشکل تھا. میں نے اسے میری بڑی مشکل عضو تناسل محسوس کرتے ہیں. یہ ہم دونوں کے لئے پہلی بار تھا تو یہ سب خالص جنسی احساسات تھا. اس نے یہ مشکل منعقد اور خوش، حیرت اور حوصلہ افزائی محسوس کیا. میں نے اسے چوسنا کے لئے کہا تھا، وہ چھی نے کہا، لیکن پھر میں نے مجبور کیا اور اس بات پر قائل کہا کہ کہ کس طرح میں اس کی بلی اور سامان چوسا. پھر وہ قبول کر لیا اور یہ پورے اچھی طرح چوسا. اس نے ایسا نہیں کیا مناسب طریقے سے لیکن یہ درست کرنے میں اٹھایا بہت تیز ہے.
میں لطف اندوز ہو جبکہ وہ اس سے کیا گیا تھا. پھر میں نے میری انگلیوں کو اس کی اندام نہانی میں داخل کیا اور تھوڑی دیر کے لئے تاکہ یہ کافی وسیع ہے اور بڑے سائز کی چیزوں کے استعمال بنانے کے لئے اس کے ساتھ ادا کیا. پھر اس سے پوچھا برداشت کسی بھی درد کی وجہ سے اور کسی بھی صورت میں چللاو اور تو میں اس کے پیر چوڑا نکالا اور مشنری کی حیثیت میں اپنی پوزیشن کا اہتمام کیا اور پھر آہستہ آہستہ اس لڑکی کے ہونٹوں پر میرے ڈک ملوانا. انہوں نے کہا کہ یہ نہیں درد ہو گیا تھا لیکن یہ جنس لگائیں اور اس کے بارے میں مسکرایا. پھر میں نے میری بات کو اندر دھکا شروع کر دیا اور میری چھڑی کے نصف تک اس کے اندر تھا وہ ٹھیک تھا لیکن وہ درد محسوس کیا جب میں نے اس کی اندام نہانی میں اپنی پوری عضو تناسل ڈالا. وہ چللانے کی کے بارے میں تھا لیکن میں نے اس کا منہ مضبوطی سے بند کر دیا.
Tumblr media
وہ بے چین بننے کے طور پر میں اپنی رفتار میں اضافہ کیا گیا تھا. وہ پسینہ آ رہا ہے اور وہ کسی اور دنیا میں طرح تھا جبکہ سالا ترقی کیا گیا تھا. وہ مجھے تنگ انعقاد کیا گیا تھا ہر وقت اور میں نے اس کی تنگ کنواری لڑکی کی تلاش میں مذاق سے لطف اندوز کیا گیا تھا. یہ شروع میں سخت تھا لیکن بعد میں یہ میرے لئے سب ہموار کی تھی. جبکہ میں سہ کرنے کے بارے میں تھا میں نے اس سے اس کے منہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کہا اور اس کے منہ میں سہ کے بوجھ چھڑک. اس نے اسے نگل لیا اور کہا کہ یہ اچھا تھا. اس وقت میری حیرت اس نے مجھ سے پوچھا کہ اسے پھر سے کرنا. پھر ہم نے یہ ہے کہ میرے والدین کے سامنے دن میں 3-4 بار کے لئے کیا. وہ اس دن کے تھکا گیا تھا اور بخار کی طرف سے بھی متاثر ہوئے.
لیکن بعد میں ہم نے کئی سالوں کے لئے جنسی تعلق جاری رکھا. ہم بہت سے فنتاسیوں ٹٹولا جیسا کہ ہم پرانے اضافہ ہوا ہے. میں بھی اس کے مقعد اور بہت کچھ دیگر چیزیں کرنے کے لئے منا لیا. چونکہ ہم نے بہت ابتدائی مرحلے پر ہماری جنسی تعلقات کا آغاز کیا اب ہم تین میں اپنے تعلقات استعمال کر رہے ہیں کچھ اور بہن فنتاسیوں کے گماگمن قسم تاکہ ہم ہ��یشہ حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور ؤب ایک دوسرے کے نہیں. اب وہ شادی کر رہا ہے اور میں نے بھی شادی کر رہا ہوں لیکن اب ہم اب بھی ایک بہت اچھی صحت مند جنسی تعلقات کو برقرار رکھنے کرتے
ہیں
---------ختم شد----------
Tumblr media
2 notes · View notes