Tumgik
#مفہوم اور ذمہ داری
bazmeur · 9 months
Text
مرد کی قوّامیت: مفہوم اور ذمہ داری ۔۔۔ رضی الاسلام ندوی
مرد کی قوّامیت: مفہوم اور ذمہ داری رضی الاسلام ندوی ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل ای پب فائل کنڈل فائل ٹیکسٹ فائل اسلامی نظامِ خاندان پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں یہ اعتراض بہت نمایاں ہے کہ اس میں مرد کا غلبہ پایا جاتا ہے اور عورت کو کم تر حیثیت دی گئی ہے ۔ عورت رشتۂ نکاح میں بندھنے کے بعد ہر طرح سے اپنے شوہر پر منحصر اور اس کی دست نگر بن جاتی ہے ۔ شوہر کو اس پر حاکمانہ…
Tumblr media
View On WordPress
2 notes · View notes
discoverislam · 3 months
Text
فہم و فراست، تدبّر و تفکّر کی فضیلت
Tumblr media
خدائے برتر نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا اور پوری کائنات کو محض اسی کے لیے پیدا فرمایا۔ اسی انسان کے اندر ظلمت و نور، خیر و شر، نیکی اور بدی جیسی ایک دوسرے کی مخالف صفات بھی پیدا فرما دیں، اب اگر انسان چاہے تو ان متضاد صفات کے ذریعے تمام مخلوق سے افضل اور برتر ہو سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو تمام تر پستیوں سے بھی گزر جائے۔ اگر خدا کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتا ہے تو خدا فرماتا ہے، مفہوم: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و سمندر پر چلنے کی اور سفر کی طاقت دی۔‘‘ اسی طرح اگر یہی انسان اپنے اندر قرآن حکیم کی ہدایات اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کا نمونہ پیش کرتا ہے تو پھر قرآن میں خدا نے وعدہ فرمایا، مفہوم: ’’اور تم ہی بلند ہو اگر تم مومن ہو جاؤ۔‘‘ لیکن اگر انسان اپنے آپ کو قرآنی چشمہ ہدایت سے محروم رکھے تو پھر قرآن میں باری تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا، مفہوم: ’’ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘ خداوند کریم کی وہ امانت جس کے اٹھانے سے تمام کائنات عاجز رہی ﷲ جل جلالہ نے اس امانت کو انسان کے سپرد فرمایا، اس امانت کے کچھ تقاضے ہیں اور قرآن کریم انسان سے ان تقاضوں کی تکمیل اور اس کی پیدائش سے لے کر موت تک اس امانت کے بار کو سنبھالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس تمام تر ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے انسان تین قوتوں سے کام لیتا ہے اور انہی تین قوتوں کو علماء اخلاق اور حکمائے اسلام نے تمام اچھے اور برے اخلاق و اعمال کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ ان میں پہلی قوت فکر ہے جسے سوچ اور علم کی طاقت کہہ سکتے ہیں۔ دوسری غصہ کی طاقت۔ اور تیسری خواہشات کی طاقت۔ اب اگر ان تینوں قوتوں کو اعتدال میں رکھا جائے تو انسان کام یاب ہو جاتا ہے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں ناکام رہتا ہے۔ سوچنے کی قوت کو استعمال کرنے اور اسے اعتدال میں رکھنے کے لیے قرآن حکیم کی تعلیمات میں تدبر کا حکم ملتا ہے۔ تدبر کا لفظی معنی غور و فکر کرنا، دور اندیشی اور سوچ سمجھ کر کوئی کام کرنا۔ انسان تدبر سے کام لینے کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہوتا ہے لیکن دو چیزیں تدبر اختیار کرنے سے روکتی ہیں، ایک غصہ دوسرے جلد بازی۔ جس طرح اسلام نے باقی تمام قوتوں کے لیے اعتدال کا حکم دیا ہے اسی طرح غصے کے بارے میں بھی اعتدال اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ یعنی نہ اس کا استعمال بے جا کیا جائے اور نہ ہی بالکل کمی کر دی جائے۔
Tumblr media
اگر غصے کی کیفیت اور اس کی قوت کو بالکل استعمال نہ کیا جائے تو یہ کیفیت بزدلی کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے۔ اور اس کیفیت سے حضور اکرم ﷺ نے بھی پناہ مانگتے ہوئے دعا فرمائی، مفہوم: ’’اے ���! مجھے بزدلی سے بچا۔‘‘ لیکن اگر غصہ کا استعمال ہر جگہ کیا جائے تو پھر ایک انسان اچھے بھلے معاشرہ میں بے چینی پیدا کر دیتا ہے اور اہل معاشرہ کی زندگی سے سکون رخصت ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو یہ کام کرنے سے پہلے خصوصاً غصہ کے وقت میں تدبر یعنی غور و فکر اور سوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔ دوسری چیز جو انسان کو تدبر اختیار کرنے نہیں دیتی وہ جلد بازی ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کاموں کی متانت، اطمینان اور سوچ سمجھ کر انجام دینا ﷲ کی طرف سے ہوتا ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ذمہ داری کو اطمینان سے انجام دینے کی عادت اچھی ہے اس کے برعکس جلد بازی ایک بری عادت ہے اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ 
حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق بردباری اور غور و فکر کے بعد کام کرنا ﷲ کو بہت پسند ہے۔ چناں چہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہنچا، چوں کہ یہ لوگ کافی دور سے آئے تھے اس لیے گرد و غبار میں اٹے پڑے تھے جب یہ لوگ سواریوں سے اترے بغیر نہائے دھوئے، نہ اپنا سامان قرینے سے رکھا نہ سواریوں کو اچھی طرح باندھا، فوراً جلدی سے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے لیکن اس وفد کے سربراہ جن کا نام منذر بن عائذ تھا انہوں نے کسی قسم کی جلد بازی نہ کی بلکہ اطمینان سے اترے سامان کو قرینے سے ر کھا، سواریوں کو دانہ پانی دیا، پھر نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر وقار کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے وفد کے سربراہ منذر بن عائذ کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی تعریف کی اور فرمایا: ’’بے شک! تمہارے اندر دو خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ﷲ کو بہت پسند ہیں۔ ان میں سے ایک صفت بردباری اور دوسری صفت ٹھہر ٹھہر کر غور و فکر کر کے کام کرنے کی ہے۔‘‘ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان ہر کام سوچ و بچار کے بعد تحمل سے کرتا ہے تو وہ شخص اکثر مکمل کام کرتا ہے اور بہت کم نقصان اٹھاتا ہے۔
جب کہ بغیر سوچے سمجھے جلد بازی سے کام کرنے والے ایک عجیب قسم کے ذہنی خلجان کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اکثر نامکمل اور ناقص کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اسلامی احکام کے مطابق مسلمانوں کو تدبر یعنی غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور مومن کی شان بھی یہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’مومن کو ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا۔‘‘ (اس لیے کہ مومن ہر کام غور و فکر اور تدبر سے کرتا ہے) یہ ارشاد آنحضور ﷺ نے اس وقت فرمایا جب کفار کا ایک شاعر ابُوعزہ مسلمانوں کی بہت زیادہ ہجو کیا کرتا تھا۔ کفار اور مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا اور بھڑکاتا رہتا۔ جنگ بدر میں جب یہ شاعر گرفتار ہوا تو حضور ﷺ کے سامنے اپنی تنگ دستی اور اپنے بچوں کا رونا روتا رہا، آپؐ نے ترس کھا کر فدیہ لیے بغیر اسے رہا فرما دیا، اس نے وعدہ کیا کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آئندہ مسلمانوں کے خلاف ایسی حرکات نہیں کرے گا لیکن یہ کم ظرف شخص رہائی پانے کے بعد اپنے قبیلہ میں جا کر دوبارہ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے لگا۔ غزوہ احد میں دوبارہ گرفتار ہو گیا۔ اب پھر وہی مگر مچھ کے آنسو بہانے شروع کر دیے، رحم کی اپیلیں کرنے لگا لیکن حضور ﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اس سے یہ بات بہ خوبی سمجھ میں آگئی کہ ایک عمل کرنے سے اگر کوئی نقصان ہو تو دوسری دفعہ وہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔
ایک مرتبہ ایک شخص جناب رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے کام کو تدبر اور تدبیر سے کیا کرو اگر کام کا انجام اچھا نظر آئے تو اسے کرو اور اگر انجام میں خرابی اور گم راہی نظر آئے تو اسے چھوڑ دو۔‘‘ قرآن حکیم میں ﷲ رب العزت نے جا بہ جا تدبر کی ترغیب دی اور قرآن میں غور و فکر کرنے کی ہدایت فرمائی۔ سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ خدا کے علاوہ کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا۔‘‘ پھر ﷲ تعالیٰ سورۂ محمد میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے یا ان کے دلوں میں قفل لگے ہوئے ہیں۔‘‘ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس میں چند چیزیں قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وہ غور کیوں نہیں کرتے، یہ نہیں فرمایا کہ وہ کیوں نہیں پڑھتے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کے تمام مضامین میں بالکل اختلاف نہیں بہ شرطے کہ گہری نظر سے غور و فکر کے ساتھ قرآن پڑھا جائے۔ اور قرآن کا اچھی طرح سمجھنا تدبر ہی سے ہو سکتا ہے بغیر سوچے سمجھے پڑھنے سے یہ چیز حاصل نہ ہو گی۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب اور مفہوم میں غور کرے۔ تمام علوم کی مہارت رکھنے والے علماء جب قرآن میں تدبر کریں گے تو ہر ایک آیت سے سیکڑوں مسائل کا حل تلاش کر کے امت مسلمہ کے سامنے پیش فرمائیں گے۔ اور عام آدمی اگر قرآن حکیم کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر غور و فکر اور تدبر کرے گا تو اسے ﷲ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو گی۔ البتہ عام آدمی کو غلط فہمی اور مغالطے سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً تفسیر کے ساتھ پڑ ھ لیں۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند اور معتبر تفسیر کا مطالعہ کر لیں اور جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یا شبہ پیدا ہو وہاں اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں بلکہ ماہر علماء سے رجوع کیا جائے۔ اس لیے کہ مومنین کی شان قرآن حکیم میں یہ بیان ہوئی، مفہوم: ’’اور جب ان کو ان کے پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گزر جاتے۔‘‘ یعنی مومن کی شان یہ ہے کہ وہ تدبر اور غور و فکر سے کام لے کر احکام اسلامی کو ادا کرے۔ ﷲ رب العزت ہمیں قرآن حکیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں سوچ بچار، غور و فکر اور تدبر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی  
0 notes
hassanriyazzsblog · 7 months
Text
🌹🌹 *ꓕSՈꓤꓕ ƎHꓕ NꓤՈꓕƎꓤ*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣7️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *RETURN THE TRUST*
*The Quran urges, “O people, pay the trust to the trustees.”*
(Quran 4:58)
*This Quranic command relates to the whole of life.*
One form of trust is that if one has another’s property as a trust, it is obligatory for them to deliver it to its owner.
In the same way, a teacher of a school is also a trustee, and the students are in his trust.
The teacher must understand his responsibility and should not neglect the rights of the students entrusted to him.
In the same way, when a person becomes the ruler of a country, that country has come under his trust and he has become its trustee.
*In such a case, the ruler must fulfill the expectations of the people.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *"امانت داری" :*
*قرآن مجید میں "اللہ سبحانہ وتعالی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے۔"*
(قرآن 4:58)
*اس قرآنی حکم کا تعلق انسان کی پوری زندگی کے معاملات سے ہے۔*
*"امانت داری"* کی ایک شکل یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس دوسروں کی جائیداد، روپیہ پیسہ اور زیورات بطور امانت ہوں، تو اسے *ان کے مالکان تک پہنچانا اس پر واجب ہے۔*
اسی طرح اسکول کا استاد بھی امانت دار ہوتا ہے اور طلبہ اس کی امانت میں ہوتے ہیں۔
اس لیے استاد کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور اس کے سپرد طلبہ کے حقوق میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح، جب کوئی شخص کسی ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان کاحکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) بنتا ہے، تب وہ ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان اس کی امانت میں ہوتے ہیں اور وہ ان کا امانت دار بن جاتا ہے۔
*اس صورت میں حکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) کو اپنے زیر دست لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍂 *امانت داری* 🍂
*دینِ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے* ، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ہو۔ ایسے ہی افعال میں سے ایک *“ امانت داری “* بھی ہے۔
اسلام میں *امانت داری* کی بڑی اہمیت ہے۔ *اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے :" بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو۔"*
🍂 *رسولُ اللہ ﷺ اور امانت داری :*
*رسولُ اللہ ﷺ کی ز ندگی امانت داری کا بہترین نمونہ تھی۔ آپ ﷺ کی ا مانت داری ہی کی وجہ سے کفارِ مکہ بدترین دشمن ہونے کے باوجود آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے۔*
🍂 *قابلِ تعریف افراد :*
*جو لوگ امانت داری کے وصف سے آراستہ ہوتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی بروقت ادائیگی کرتے ہیں وہ لوگوں میں پسندیدہ اور قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔ امانت داری ایمان والوں کی بہترین صفت ہے اور ایک مسلمان کا امانت دار ہونا بہت ضروری ہے۔*
*رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا : جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ [یعنی ایمان کا مل نہیں]*
🍂 *امانت داری کا وسیع مفہوم :*
*آج کل ہم سمجھتے ہیں کہ امانت داری کا تعلق صر ف مال سے ہے اور اگر کسی نے ہمارے پاس کوئی مال رکھوایا تو اس کی حفاظت کرنا اور اسے وقت پر مکمل طور پر واپس کر دینا ہی امانت داری ہے۔ یہ بات دُرست ہے لیکن جس طرح یہ امانت ہے اسی طرح اور بھی بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں۔*
*اللہ پاک اور اس کے بندوں کے وہ حقوق جو ہمارے ذمے ہوں اور ان کی حفاظت و ادائیگی ہم پر لازم ہو انہیں امانت کہتے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کریم اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی امانت داری ہے چنانچہ نماز پڑھنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، زکوٰة دینا ، حج کرنا ، سچ بولنا اور دیگر نیک اعمال ادا کرنا بھی امانت ہے۔ اسی طرح انسان کے اعضاء مثلاً زبان ، آنکھ ، کان ، ہا تھ وغیرہ بھی اللہ پاک کی امانت ہیں اور ان اعضاء کو گناہوں اور فضولیات سے بچانا ان اعضاء کے معاملے میں امانت داری ہے۔ یوں ہی دوسرے کے راز کی حفاظت کرنا ، پوچھنے پر دُرست مشورہ دینا ، مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرنا ، مزدور اور ملازم کا اپنا کام مکمل طور پر پورا کرنا بھی امانت داری میں داخل ہے۔*
🍂 *ہم اور امانت داری :*
*جس طرح آج ہمارے معاشرے میں دیگر کئی اچھائیاں دَم توڑتی دکھائی دیتی ہیں وہیں امانت داری کا بھی فُقدان نظر آتاہے۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ امانت دار اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے افراد کو بعض کم عقل لوگ بے وقوف سمجھنے لگے ہیں۔ گویا معاشرے کی سوچ اس قدر منفی ہوچکی ہے کہ بُرائی کو اچھائی اور اچھائی کو بُرائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر امانت داری کی صفت کو اجاگر کریں اور دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کریں۔*
🍁 *اللہ پاک ہمیں تمام امانتوں کی حفاظت کرنے اور ان کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے ایک امانت دار اور سچا پکا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ، اٰمین۔*🍁
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
تھیٹر کے ڈائریکٹر نے مبالغہ آرائی سے استعفیٰ دیا ، ذہنی بیماری کا حوالہ دیتے ہوئے۔
تھیٹر کے ڈائریکٹر نے مبالغہ آرائی سے استعفیٰ دیا ، ذہنی بیماری کا حوالہ دیتے ہوئے۔
کرسٹوفر ماسیمائن ، جن کا کام بطور منیجنگ ڈائریکٹر۔ پاینیر تھیٹر کمپنی۔ سالٹ لیک سٹی میں اس وقت شکوک و شبہات میں ڈالا گیا جب ایک مقامی ٹیلی ویژن سے وابستہ شخص کو پتہ چلا کہ اس نے اپنے ریزیومے کو جھوٹے دعووں سے مزین کیا ہے ، پیر کو اعلان کیا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائے گا اور کہا کہ وہ طویل عرصے سے ذہنی بیماری سے لڑ رہا ہے۔
نیو یارک ٹائمز نے اپنے کیریئر کے بارے میں ایک مضمون شائع کرنے کے فورا بعد مسمیمین نے اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا ، اور ریزیومے میں ہونے والی تضادات اور غلطیاں جس نے انہیں سالٹ لیک سٹی کی سب سے بڑی پیشہ ور تھیٹر کمپنی پائنیر میں پوزیشن حاصل کرنے میں مدد دی تھی۔
20 اگست 2021 سے میری ہدایت کے تحت پچھلے دو سالوں میں بہت سی اچھی چیزوں کے باوجود ، میں اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں مسائل کو حل کرنے کے لیے پائینیر تھیٹر کمپنی میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دوں گا۔ ایک غلط طریقے سے علاج شدہ ذہنی صحت کی حالت ، “انہوں نے ایک بیان میں کہا۔
ماسیمین ، جنہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی ذہنی بیماری سے لڑا ہے ، اور یہ کہ ان کے بیشتر دوستوں اور ساتھیوں کو ان کی حالت کا علم نہیں تھا ، نیو یارک کے نیشنل یدش تھیٹر فوکسبائن سے پائنیر تھیٹر آئے تھے۔
لوک بائن کی قیادت کرنے کے لیے ماسیمائن ایک غیر معمولی انتخاب تھا ، جو کہ ایک خاص سامعین کے ساتھ ایک چھوٹی سی غیر منفعتی تنظیم ہے۔
2012 میں ، جب وہ ایگزیکٹو بن گیا۔ صدی پرانا تھیٹر جو بڑے پیمانے پر بڑی عمر کے سامعین کے لیے شوز تیار کرتا ہے ، وہ ایک 26 سالہ اطالوی امریکی کیتھولک تھا جو کہ تھیٹر ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے محدود تجربہ رکھتا تھا اور یدش سے بھی کم۔
لیکن جب وہ سات سال بعد چلا گیا ، فوکسبائنز۔ “چھت پر ہلکا پھلکا ،” جوئل گرے کی ہدایت کاری میں ، یہودی ورثہ کے میوزیم کے اندر ، اپنے تھیٹر سے ، اسٹیج 42 پر جا رہا تھا ، جو آف براڈوے کے سب سے بڑے مقامات میں سے ایک ہے۔ شو پہلے ہی میوزیم میں فروخت ہوچکا تھا ، اور تھیٹر کی آمدنی ایک سال میں دوگنا ہوکر تقریبا 5 5 ملین ڈالر ہوگئی تھی۔
“وہ ہوشیار ، سرشار ، حوصلہ افزا ، پیشہ ور تھا اور ہمیشہ اس سے نمٹنے میں خوشی محسوس کرتا تھا ،” رون لاسکو ، ایک پبلکسٹ جس نے فوکسبین میں ماسیمائن کے ساتھ کام کیا۔
بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کی بات ہے ، اگرچہ ، میسیمین نے نئے تھیٹر میں “فڈلر” کی کامیاب منتقلی کا جشن منانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے 2019 کے اوائل میں لوک بائن چھوڑ دیا اور جلد ہی اس کے منیجنگ ڈائریکٹر کی نوکری قبول کرلی۔ پاینیر تھیٹر کمپنی۔.
“کرس کے پاس کامیابی کا ایک ریکارڈ ہے
لیکن وہاں اپنے دور حکومت کے دو سال بعد ، مسیمین پر الزام لگایا گیا کہ اس نے اپنی زندگی کی کہانی کو اپنے تھیٹر کے مشاغل اور سائیڈ جِگس کی انتہائی غلط تصویروں سے مزین کیا۔
عوامی ریکارڈ اور تجاویز سے کام کرنا ، سالٹ لیک سٹی کا فاکس الحاق KSTU-TV۔ اس سال کے شروع میں رپورٹ کیا گیا۔ کہ ماسیمین کے پاس نیو یارک یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری نہیں تھی ، جیسا کہ اس نے اپنے ریزیومے میں کہا تھا۔ اسٹیشن نے کہا کہ ان کے دعووں نے مقبول ویڈیو گیمز اور کچھ بڑی اشتہاری مہمات کی ترقی میں مدد کی ہے۔
اور ، اگرچہ انہوں نے کہا کہ انہیں ایک قومی فنون وکالت کا ایوارڈ ملا ہے – اور تمغہ پہنے ہوئے اپنی ایک تصویر جاری کی ہے۔
ٹیلی ویژن سٹیشن کے رپورٹر ایڈم ہربٹس نے کہا کہ ان کے ذرائع میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے ماسیمین کا ریزومی دیکھا تھا اور اسے “ناقابل یقین” پایا۔
“اور ، آپ جانتے ہیں ،” انہوں نے مزید کہا ، “ناقابل یقین کبھی مثبت مفہوم رکھتا ہے اور کبھی منفی مفہوم۔ اس صورت میں یہ لفظی طور پر قابل اعتماد نہیں ہے۔
ماسیمین ، جس کے نمائندوں نے کچھ الزامات کی تردید کی تھی کہ اس نے اپنے کارناموں کو غلط انداز میں پیش کیا تھا ، نے پیر کی رات تسلیم کیا کہ اس کے ریزیومے میں “غلطیاں” ��ھیں۔
انہوں نے بیان میں کہا ، “مقامی اور قومی نیوز آؤٹ لیٹس نے اس سال رپورٹ کیا ہے کہ میں نے پی ٹی سی کے عہدے کو قبول کرنے سے پہلے اور یہاں اپنے دورے کے دوران ، پریس ریلیز اور انٹرویوز میں اپنے کام کی تاریخ کو غلط طریقے سے پیش کیا۔” “رپورٹنگ میں سچائی کی کافی مقدار ہے ، اختلافات کو برداشت کرتے ہوئے۔ قطع نظر ، میں اپنے ریزیومے میں غلطیوں کی ذمہ داری لیتا ہوں لیکن اپنے پورے کیریئر میں اپنے کام کی مصنوعات کے ساتھ کھڑا ہوں۔
جیسا کہ یہ پتہ چلتا ہے ، میسیمین کی زینت ٹی وی اسٹیشن کی رپورٹ سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ، اس دعوے کو شامل کرنے کے لئے کہ وہ اٹلی میں پیدا ہوا تھا اور ایک بار کل وقتی ملازم تھا ڈراماسٹس گلڈ۔.
استعفی دینے سے پہلے ، یوٹاہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کمیونیکیشن ، کرس نیلسن نے تسلیم کیا تھا کہ ماسیمائن کے ریزیومے پر کچھ “غلط معلومات” پائی گئی ہیں اور ان کی پوزیشن کو “زیر نظر” رکھا گیا ہے۔
پہلے کے ریمارکس میں ، اس کی بیوی ، میگی ماسیمین نے کہا تھا کہ اس کا شوہر۔ خاندانی طبی چھٹی پر تھا اور انٹرویو کے لیے دستیاب نہیں تھا۔ ماسیمائن کے ترجمان مائیکل ڈیوور نے کہا تھا کہ کچھ اختلافات ان کے کلائنٹ کے اشتہاری مہم پر کام جیسے غلط فہمیوں کی وجہ سے ہو سکتے ہیں ، جہاں وہ ایک ذیلی کنٹریکٹر کے ذریعے کام کرتا تھا۔
میگی ماسیمین نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ اس کے شوہر نے لوگوں کو بڑھا چڑھا کر یا گمراہ کیا ہے ، لیکن اس نے براہ راست اس کی ذہنی حالت پر بات نہیں کی اور کہا کہ وہ کچھ تضادات کو دور نہیں کر سکتی۔
کئی ہفتوں پہلے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کہانی کا ہمارا پہلو نہیں بتایا گیا۔ “میں واقعتا چاہتا ہوں کہ میں مزید کچھ کہوں۔”
NYU میں ، ماسیمین نے 2007 میں ڈرامائی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ، یونیورسٹی کے ترجمان نے کہا ، تین سال کے مطالعے کے بعد۔ میگی ماسیمین نے کہا کہ اس کے شوہر نے سوچا کہ اس نے ماسٹر اور بیچلر دونوں کی ڈگری حاصل کی ہے ، یہاں تک کہ KSTU نے اطلاع دی کہ اس نے ایسا نہیں کیا۔ “وہ سب کی طرح حیران تھا ،” اس نے کہا۔
پروفیشنل نیٹ ورکنگ سائٹ لنکڈ ان پر ماسیمائن کا پروفائل رپورٹ کرتا ہے کہ اپنے کالج کے سالوں کے دوران انہوں نے ڈرامہ نگاروں کی خدمت کرنے والی تنظیم ڈرامہسٹس گلڈ کے لیے 18 ماہ سے زائد عرصے تک “پبلیکیشنز منیجر اور تخلیقی امور کوآرڈینیٹر” کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
تاہم ، گلڈ کے ڈائریکٹر ایجوکیشن ٹری اسٹرٹن نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ماسیمین نے وہاں صرف چار ماہ بطور تنخواہ انٹرن گزارے۔ انہوں نے ایک ای میل میں لکھا ، “ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ مسٹر مسیمین نے گلڈ کے ساتھ کوئی تنخواہ دار عہدے پر فائز تھے یا انٹرن کے علاوہ کوئی اور عنوان تھا۔”
ماسیمین نے 2011 میں نیو یارک کے ایک چھوٹے سے بدمعاش فلائی کے عملے میں شامل ہونے سے پہلے تھیٹر کی تنظیموں کے ساتھ متعدد کردار ادا کیے۔ اگلے سال اسے فوکس بائن نے نوکری پر رکھا اور 2016 میں اسے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر ترقی دی گئی۔
یدش تھیٹر میں ، براڈ وے کے مشہور پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ، ہال پرنس کے خطوط تیار کیے گئے ، جو کہ ماسیمائن کے دفتر میں لٹکے ہوئے تھے۔ اس نے اپنے سرپرستوں میں ایک پروڈیوسر اور آٹھ بار ٹونی ایوارڈ جیتنے والے مینی ایزن برگ کو شمار کیا ، اور مین ہٹن کے تھیٹر ماحولیاتی نظام کی صفوں میں آگے بڑھنے کے لیے تیار دکھائی دیا۔
بروس کوہن ، ایک ریٹائرڈ پبلشر جس نے فولکس بین کے ساتھ اپنے ڈرامہ ڈیسک نامزد آپریٹا “دی گولڈن برائیڈ” کی تشہیر کے لیے کام کیا ، نے کہا کہ ماسیمین “ایک بہت ہی پیارا آدمی” تھا جو کہ مہارت سے آرٹسٹ ایگوس پر چڑھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
بیک لی ، جنہوں نے ماسیمین کے زیادہ تر دور کے دوران لوک بائن کے پبلشر کے طور پر خدمات انجام دیں ، نے انہیں ایک مہتواکانکشی محنت کش کے طور پر بیان کیا۔
لی نے کہا ، “اس نے کمپنی کا پروفائل بڑھانے کے لیے بہت بڑا کام کیا ، اور کبھی کبھی مبالغہ آرائی کا شکار ہو جاتا تھا ، جو میں نے سیکھا ہے عام طور پر امپریسریوس اور شو مین کا ایک آلہ ہے۔ اگر میں نے کچھ بھی سوچا کہ وہ ڈیوڈ میرک کا اکیسویں صدی کا ورژن ہے ، خوشی سے اپنے شوز کو عوام اور پریس کے سامنے دھچکا لگا رہا ہے۔
یقینی طور پر مسیمین کے 2018 پروفائل کے ساتھ مسائل تھے جو ڈیلی بیسٹ میں زیر عنوان تھے۔کرسٹوفر ماسیمائن سے ملیں ، ‘اچھا گائے’ جو قومی یدش تھیٹر چلا رہا ہے۔. ”
میسیمین کے ساتھ ایک انٹرویو پر مبنی اس ٹکڑے نے بتایا کہ وہ اٹلی سے شیر خوار کے طور پر امریکہ آیا تھا اور براڈ وے پر بچپن میں “بیوٹی اینڈ دی بیسٹ” اور “لیس مسیریبلز” جیسے شوز میں نظر آیا تھا۔ لیکن وہ نیو جرسی میں پیدا ہوا تھا اور براڈوے لیگ کے ڈیٹا بیس کے مطابق اسے کسی بھی شو میں پرفارم کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے ، جسے بڑے پیمانے پر مستند سمجھا جاتا ہے۔
میگی ماسیمین نے کہا کہ اس کا شوہر اٹلی میں پیدا نہیں ہوا تھا اور اس نے ڈیلی بیسٹ سے اصلاح کی درخواست کی تھی ، یہ تنازعہ جس پر ویب سائٹ نے حال ہی میں مسئلہ اٹھایا تھا۔
ڈیلی بیسٹ کے ترجمان نے کہا ، “ہمارے ادارتی عملے کے پاس مسٹر ماسیمین کی جانب سے اپنے پروفائل میں اصلاح کی درخواست کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔”
فوکسبین کی قیادت کرنے میں ان کی کامیابی کے باوجود ، جن حالات کے تحت ماسیمین نے تھیٹر چھوڑا وہ واضح نہیں ہیں ، اور اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ تھیٹر کے سابق پبلشر بیک لی نے کہا کہ انہیں تھیٹر کے عہدیداروں نے بتایا کہ ماسیمائن کو اجازت کے بغیر غیر متعلقہ پروڈکشن میں تھیٹر فنڈز لگانے کے بعد چھوڑنے کو کہا گیا۔
لی نے کہا ، “اسے موقع دیا گیا کہ وہ اپنے رویے کو تسلیم کرے ، اور مزید واقعات کے بغیر وہاں سے چلا جائے۔”
تنازعہ کے بارے میں جاننے والا دوسرا شخص اس بات پر متفق ہے کہ ماسیمین ایک سرمایہ کاری کے معاملے کے بعد چلی گئی تھی۔
لیکن میگی ماسیمین نے اس بات سے انکار کیا کہ اس طرح کی کوئی پریشانی ہے ، اور نوٹ کیا کہ اس کے شوہر کو فروری 2019 میں اسٹیج 42 پر “فڈلر” کے افتتاح میں شرکت کے لیے واپس مدعو کیا گیا تھا۔
یوٹاہ میں ، ماسیمائن کو تقریبا 15 5 ملین ڈالر کے آپریٹنگ بجٹ کے ساتھ تھیٹر چلانے کے لیے 152،000 ڈالر کی تنخواہ پر رکھا گیا تھا۔ اسکول نے ایک سرچ فرم ، مینجمنٹ کنسلٹنٹس برائے آرٹس ، امیدواروں کی سفارش کے لیے تقریبا 36 36،000 ڈالر ادا کیے تھے۔
آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس میں ڈرامہ ڈیپارٹمنٹ کے چیئر اور یونیورسٹی ریذیڈنٹ تھیٹر ایسوسی ایشن کے سابق صدر برینٹ پوپ نے کہا ، “یہ ریزوم اتنا غیر معمولی تھا کہ اس نے شاید لوگوں کو نشہ کیا۔” “اس نے شاید ان کے وژن کو دھندلا دیا۔”
میگی ماسیمائن نے کہا کہ اس کے شوہر نے ایزن برگ کے ساتھ اپنے تعلقات کے ذریعے یوٹاہ کی نوکری کے بارے میں سنا ہے ، جو پروڈیوسر ہیں جو کہ یدش تھیٹر کے بااثر حمایتی رہے ہیں۔ ایزن برگ کی بیٹی ، کیرن ، جو براڈوے کے ایک سابقہ ​​اسٹیج منیجر ہیں ، نے 2012 سے پائنیر تھیٹر کے فنکارانہ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
کیرن ایزن برگ نے ایک ای میل میں لکھا ، “سرچ کمیٹی ایک منیجنگ ڈائریکٹر کی تلاش میں تھی جو اس تھیٹر کو بڑھانے میں مدد دے اور میری نئی میوزیکل تیار کرنے کی خواہش کی حمایت کرے۔”
یوٹاہ میں ، ماسیمین نے اپنی کامیابیوں کو فروغ دینا جاری رکھا۔ دو سال پہلے ، اس کی فراہم کردہ معلومات کا استعمال کرتے ہوئے ، اس کے نئے تھیٹر نے ایک نیوز ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا کہ اسے نیشنل پرفارمنگ آرٹس ایکشن ایسوسی ایشن نے “سال کا انسان دوست” قرار دیا ہے اور اسے واشنگٹن میں ایک استقبالیہ میں اعزاز دیا جائے گا۔
واشنگٹن میں قائم وکالت گروپ ایسوسی ایشن آف پرفارمنگ آرٹس پروفیشنلز کی ترجمان جینی تھامس نے کہا کہ نہ تو وہ اور نہ ہی کئی دوسرے ساتھی جو کہ اسی طرح کے غیر منافع بخش اداروں کے لیے کام کرتے ہیں نے نیشنل پرفارمنگ آرٹس ایکشن ایسوسی ایشن کے بارے میں نہیں سنا ہے۔
اس نام سے کسی بھی تنظیم کی ویب سائٹ نہیں ہے اور نہ ہی خبر رساں اداروں نے ان کا ذکر کیا ہے جنہوں نے تھیٹر سے خبریں جاری کی ہیں۔
لیکن ماسیمین نے جنوری 2020 میں واشنگٹن کا سفر کیا ، مبینہ طور پر ایوارڈ لینے کے لیے ، اور بعد میں یونیورسٹی کو اپنے اخراجات کے لیے تقریبا $ 800 ڈالر کا بل دیا۔ اس سفر میں ان کی ایک تصویر ، جو کہ وائٹ ہاؤس میں لی گئی تھی اور میڈل پہنے ہوئے تھی ، فرضی نیشنل پرفارمنگ آرٹس ایکشن ایسوسی ایشن کو دی گئی تھی اور دو ماہ بعد ایک ویب سائٹ پر اپنی ماں کے ساتھ ماسیمین کے تعلقات کے بارے میں ایک مضمون کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔
ٹکڑے کے مصنف نے کہا کہ تصویر ، کیپشن اور کریڈٹ کی معلومات مسیمین نے فراہم کی ہیں۔
جوزف برجر نے رپورٹنگ میں تعاون کیا۔
Source link
0 notes
risingpakistan · 4 years
Text
نون لیگ کا فکری انتشار
نوازشریف صاحب اور مریم نوازصاحبہ نے اپنا مقدمہ اس شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کسی ابہام کا شائبہ باقی نہیں۔ اس کے باوصف، نون لیگ کا انتشارِ فکر ہے کہ ابھی باقی ہے۔ یہ دیوانگی ہے یا فرزانگی؟ انہیں کچھ سمجھ نہیں آیا یا جان کر انجان بن رہے ہیں؟ 22 اکتوبر کا روزنامہ ''دنیا‘‘ میرے سامنے رکھا ہے۔ اس کے مطابق ''لیگی ترجمان مریم اورنگزیب کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ قابلِ مذمت ہے‘ میں آرمی چیف سے درخواست کرتی ہوں کہ اس انکوائری میں مریم نواز کے کمرے پر حملے کی بھی تحقیقات کی جائیں‘‘۔ میں یہ بیان پڑھ کر سناٹے میں آگیا۔ اگر نون لیگ نے نوازشریف کے بیانیے کا یہی مفہوم سمجھا ہے تو پھر صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ حیرت ابھی باقی تھی کہ 23 اکتوبر کے اخبارات میں شاہد خاقان عباسی صاحب کے خیالات نظر نواز ہوئے۔ انہوں نے مریم اورنگزیب سے بالکل مختلف بات کہی۔ فرمایا ''ہوٹل [کا دروازہ] توڑنے کی تحقیقات آرمی چیف کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ 
آرمی ایکٹ کے تحت، آرمی چیف صرف اپنے افسران کی تفتیش کر سکتے ہیں۔‘‘ عباسی صاحب نے مزید کہا ''شواہد موجود ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے کا حکم دیا‘‘۔ انہوں نے کراچی واقعے کی تمام ذمہ داری ایک وفاقی وزیر پر ڈالی۔ دوسری طرف مریم نواز صاحبہ اپنے موقف میں پوری طرح واضح ہیں۔ 23 اکتوبر کوانہوں نے لاہور میں احتجاج کرنے والے بلوچ طلبا کے ساتھ ملاقات کی۔ اس موقع پرانہوں نے کراچی کے واقعہ کے حوالے سے کہا ''جمہوریت میں اس کا نوٹس حکومت اور عدلیہ کو لینا چاہیے، کسی اور کو نہیں‘ جمہوریت میں حکومت اور عدلیہ کے علاوہ کسی اور سے اپیل بھی نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ کیا یہ بات مزید شرح کی محتاج ہے؟ ہماری سیاسی جماعتیں مدت سے اقتدار کی سیاست (Power Politics) کرتی آئی ہیں۔ کوئی بڑا آدرش، بیانیہ، نصب العین ان کے پیشِ نظر نہیں رہا۔ نظریاتی سیاست تو اکیسویں صدی میں دم توڑ چکی۔ 
طرزِ کہن کی خوگر جماعتوں کے لیے، یہ آسان نہیں کہ وہ پاور پالیٹکس سے یکدم بیانیے کی سیاست میں داخل ہو جائیں۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ نوازشریف صاحب نے ماضی میں جس طرح پارٹی کو نظر انداز کیا اور اس کی تنظیم اور تربیت سے صرفِ نظر کیا، یہ انتشارِ فکر اسی کا شاخسانہ ہے۔ نوازشریف صاحب نے ایک فیصلہ کیا۔ انہوں نے اقتدار کے بجائے بیانیے کی سیاست کا علم اٹھایا۔ اس تبدیلی سے پہلے لازم تھا کہ پارٹی کے لوگوں کو اِس کے لیے تیار کیا جا تا۔ انہیں بتایا جاتا کہ ان کی سیاست کا ہدف اب کون ہے اور یہ ایک انتخابی معرکہ نہیں، اس سے کہیں سخت ہے۔ اس میں جاں کا زیاں بھی ہو سکتا ہے۔ انہیں بتانا چاہیے تھا کہ ''ہر راہ جو اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے‘‘۔ یہ کام نہیں کیا گیا۔ پھر شہبازشریف صاحب کی تمام ترسیاست یہی پاور پالیٹکس تھی۔ ان کی حکمتِ عملی کی ناکامی کے بعد، نون لیگ کے پاس ایک ہی راستہ باقی تھا: مزاحمت۔ 
میرے نزدیک تو پہلے ہی دن سے یہی راستہ تھا لیکن شہباز شریف صاحب نے اپنی مہارت کو آزمانا چاہا۔ یہ ممکن تھا کہ اس دوران میں نون لیگ کومزاحمت کیلئے بھی تیار کیا جاتا کہ نوازشریف اپنا بیانیہ پیش کر چکے تھے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مریم اورنگزیب کی درخواست کا سن کر اندازہ ہو رہا ہے کہ نون لیگ کو اپنے ہدف کے بارے میں یکسو ہونے کی کتنی ضرورت ہے۔ نون لیگ کا چیلنج صرف یہ نہیں کہ اس جماعت کے رہنما اور کارکن اپنی منزل اور اس کے راستے کی مشکلات سے باخبر ہوں۔ اس کا چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ عوامی سطح پر ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرے جو نوازشریف کے بیانیے کے بارے میں پھیلائی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پہ یہ پروپیگنڈا کہ یہ بیانیہ اداروں کو ہدف بنانا چاہتا ہے۔ عوام میں آگاہی کی ایک مہم چلانا چاہیے کہ یہ ایک مثبت بیانیہ ہے، منفی نہیں۔ یہ آئین کی بالا دستی اور وفاقی اکائیوں کو جمع کرنے کا بیانیہ ہے۔ 
یہ اداروں کے احترام کا بیانیہ ہے۔ اداروں کا احترام اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب آئین کی طے کردہ حدود کا احترام ہوتا ہے۔ افراد جب انحراف کرتے ہیں تو ادارے کی سلامتی کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ ان کے خلاف اقدام کیا جائے۔ اس سے اداروں کا احترام قائم ہوتا ہے، ختم نہیں۔ ہر ادارے میں احتساب کا ایک نظام ہوتا ہے۔ فوج اپنے منحرفین کا کورٹ مارشل کرتی اور انہیں موت کی سزا بھی سناتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ افراد کے لیے پورے ادارے کی ساکھ کو برباد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح سیاسی جماعت ہے۔ اگر کوئی سیاسی رہنما کسی جرم میں ملوث ہے تو سیاسی جماعت کے وقار کیلئے لازم ہے کہ وہ اس سے اپنی صفوں کو پاک کر دے۔ سیاسی جماعتیں اگر ایسا نہیں کرتیں توقوم کی نظر میں اپنی ساکھ کھو بیٹھتی ہیں۔ کوئی سیاسی یا غیرسیاسی ادارہ جب خود احتسابی نہیں کرتا یا ریاست کا نظامِ عدل اس بارے میں غیر حساس ہو جاتا ہے تو پھر نظام باقی نہیں رہ سکتا۔ 
یہی نوازشریف کا بیانیہ ہے اور لازم ہے کہ اس کا ابلاغِ عام ہو تاکہ اس پروپیگنڈے کا سدِباب ہوتا جواس بیانیہ کا ہدف کسی ادارے کو قرار دیتا ہے۔ یہ کام ظاہر ہے نون لیگ کو کرنا ہے۔ اس کی میڈیا ٹیم کو اس کیلئے حکمتِ عملی بنانی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ہتھیار دلیل، مکالمہ اور ابلاغ ہی ہوتے ہیں۔ یوں بھی بیانیوں کی لڑائی تیر و تفنگ اور بندوق سے نہیں لڑی جاتی۔ اس لڑائی کا ہدف زمین یا جسم نہیں، ذہن ہوتے ہیں۔ نون لیگ کو دیکھنا ہے کہ اس نے جس معرکے کا آغاز کیا ہے، اس کو لڑنے کے لیے، اس کے پاس کون سے ہتھیار ہیں؟ نون لیگ یہ معرکہ اسی وقت لڑ سکتی ہے جب اس کی قیادت انتشارِ فکر سے پاک ہو۔ اسے معلوم ہو کہ اس وقت پاور پالیٹکس اُس کا ثانوی مقصد ہے۔ اگر وہ بیانیے کی جنگ ہارتی ہے تو پاور پالیٹکس سے بھی باہر ہو جائے گی۔ عوام کو اس کیلئے قائل کرنے سے پہلے لازم ہے کہ قیادت خود اس پراگندگیٔ فکر سے نجات پائے۔ اسے یہ معلوم ہو کہ یہ اپیلوں اور درخواستوں کا وقت نہیں۔
سیاسی جماعتیں مذہبی فرقہ (cult) نہیں ہوتیں کہ ان کی قیادت پر بالغیب ایمان لایا جایا اور ان کے کہے کو ہر حال میں سچ مانا جائے۔ عوام میں اپنی جگہ بنانے کے لیے انہیں اپنا مقدمہ ثابت کرنا پڑتا ہے۔ انہیں دلیل سے مدد لینا پڑتی ہے۔ انہیں سوالات کے جواب دینا پڑتے ہیں۔ ہونا بھی یہی چاہیے۔ یہی چیز جمہوریت کو انسانوں کا واحد انتخاب بناتی ہے۔ نون لیگ کو اب ابلاغِ عام کرنا ہے کہ ریاست بالائے ریاست کیا ہوتی ہے؟ یہ ایک بڑا معرکہ ہے۔ بڑے معرکے، بڑی تیاری کے متقاضی ہوتے ہیں۔ نوازشریف صاحب نے صحیح کہا تھا کہ یہ بزدل لوگوں کا کام نہیں۔ انہیں اب بتانا چاہیے کہ یہ کند ذہن لوگوں کا کام بھی نہیں۔ جو نصب العین کی سیاست اوراقتدار کی سیاست کا فرق نہیں جانتے، ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اقتدار ہر سیاسی جدوجہد کے اہداف میں شامل ہوتا ہے۔ اس سے مفر نہیں؛ تاہم اصل اور ثانوی مقصد کا فرق ضرور سامنے رہنا چاہیے۔ نون لیگ اگر نوازشریف کے بیانیے پرفکری یکسوئی کے ساتھ کھڑی رہتی ہے تو تاریخ میں اس کا وہی مقام ہو گا جوآل انڈیا مسلم لیگ کا تھا۔ مدت کے بعد کسی نے مرض کی درست تشخیص کی ہے۔ نون لیگ کو سمجھنا ہو گا کہ اس کا علاج بھی صبر آزما ہے۔ ہمیں علامت نہیں، بیماری کو ختم کرنا ہے۔
خورشید ندیم  
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
رہبر معظم سے ہفتہ مزدور کی مناسبت سے 7 اداروں کا تصویری رابطہ :: Leader.ir رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز بدھ ) ہفتہ مزدور اور کام کی مناسبت سے پیداوار سے منسلک ملک کے مختلف حصوں کے 7 اداروں کے ساتھ تین گھنٹوں تک تصویری رابطہ میں مزدور اور کارکن کی اہمیت اور صحیح و سالم اقتصاد کے رشد و نمو اور پیداوار کی کمی اور کیفی بہتری میں  مالک و مزدور کی باہمی ذمہ داریوں نیز رواں برس میں پیدوار میں پیشرفت و فروغ کے نعرے اور مختلف شعبوں میں اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے پر خصوصی توجہ مبذول کرنے کی ضرورت پر زوردیا اور اس سلسلے میں حکام کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کیا۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہفتہ مزدور کی مناسبت سے تمام زحمتکش مزدوروں کو مبارکباد پیش کی اور پیدوار کے فروغ کے سلسلے میں پیش کی جانے والی رپورٹوں کو شیریں ،خوب اور حوصلہ افزا قراردیا اور ان رپورٹوں کو عام کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مزدوروں کی مشکلات کو برطرف اور دور کرنا ایک اہم مسئلہ ہے اور اس مسئلہ پر خصوصی توجہ مبذول کرنی کی ضرورت ہے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے پہلے حصہ میں مزدوروں کو در پیش مسائل کی طرف اشارہ کیا  اور اسلامی نظریہ کے حوالے سے کام کے مفہوم کو " عمومی کام" اور " اقتصادی کام" میں تقسیم  کرتے ہوئے فرمایا: کام کی تمام اقسام در حقیقت عمومی کام میں شامل ہوتی ہیں۔ قرآن کریم اور روایات میں بھی عمل صالح اور کام کوپایہ تکمیل اور  سرانجام تک پہنچانے پر تاکید کی گئي ہے البتہ ہمارے ملک کی مشکلات میں ایک مشکل ادھورے رہ جانے والے کام ہیں۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عمومی کام کے بارے میں اسلام کی تشویق اور ترغیب کو " مفت خوری " اور مفت طلبی " کے مد مقابل نقطہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلام  نے اقتصادی معنی میں بھی کام پر تاکید کی ہے جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) مزدور کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کام کو ذمہ داری  اور درست طریقہ کے ساتھ انجام دینے والے کو اللہ تعالی دوست رکھتا ہے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اقتصادی اور معاشی  ہدف کو ثروت کی پیداوار اور عوام میں اس کی منصفانہ تقسیم قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک میں ثروت کی پیداوار اورصحیح و سالم اقتصاد تک پہنچنے کے لئے کارکن اور مزدور بنیادی اور اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ماہر اور خلاق کار کن اور مزدور کو کام کی کیفیت میں اضافہ کا موجب قراردیتے ہوئے فرمایا: کاروباری اداروں اور ان کے مالکین کو مزدوروں کے علم و دانش اور مہارت میں اضافہ کرنا چاہیے اور کاروباری اداروں کو ان کے حقوق میں بھی اضافہ کرنا چاہیے اور مزدور کو بھی کسی غفلت کے بغیر اور احساس ذمہ داری کے ساتھ  کام کرنا چاہیے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مالک اور کار کن دونوں کو ملکی اقتصاد کی پیشرفت کے دو اصلی ستون قراردیا اور کارکنوں کے نظریہ کو قوانین میں لحاظ نہ کرنے کے سلسلے میں بعض شکایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان قوانین کو حتمی طور پر منصفانہ  نظریہ کے ساتھ مرتب اور منظم کرنا چاہیے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کارکنوں کے حقوق پر اہتمام منجملہ " حقوق کی منظم اور بر وقت ادائیگي ، کام اور شغل کی حفاظت ، بیمہ، تعلیم، فلاحی اور طبی خدمات " پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ دنیا  اور ٹیکنالوجی میں سرعت کے ساتھ انقلاب اور تبدیلی  کے پیش نظر تعلیم پر مسلسل توجہ اور گذشتہ تجربات سے پیداوارکے سلسلے میں استفادہ اقتصادی اداروں اور کارکنوں کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے اقتصاد میں رونق اور پیدوار کی کیفیت میں اضافہ ہوگا ۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ دو صدیوں ميں دنیا کے سیاسی حالات پر محنت کشوں کے اثرات ، انقلاب اسلامی کی کامیابی میں ملکی محنت کشوں  کے کردار ، دفاع مقدس اور دیگر مختلف اور گوناگوں واقعات میں محنت کشوں کے کردار کو بہت ہی ممتاز قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں محنت کشوں کا قریبی تعاون رہا ہے اور ان محتن کشوں کا انقلاب اسلامی کے ساتھ گہرا اور دائمی رابطہ ہے اور ان کے اس گہرے رابطہ کی وجہ سے ان کی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں تینوں قوا کے حکام کے دوش بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیداوار میں پیشرفت اور سال کے نعرے کی طرف اشارہ کیا اور سال کے اختتام تک اس نعرے پر عمل در آمد کی فرصت کو کافی قراردیتے ہوئے اس سلسلے میں چند نکات پیش کئے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملکی معیشت اور اقتصاد میں پیداوار کو انسانی بدن کے دفاعی اور سلامتی سسٹم کی طرح قراردیتے ہوئے فرمایا: جس طرح بدن کے دفاعی سسٹم کا نقش  وائرسوں کے حملے کے مقابلے میں بہت ہی اہم ہوتا ہے اسی طرح پیداوار اگر رشد اور  مناسب سمت میں گامزن ہو تو وہ ملکی اقتصاد کو طبیعی اور غیر طبیعی وائرسوں کے حملوں سے محفوظ رکھ  سکتی ہے اور دشمن کی پابندیوں ، تیل کی قیمتوں میں کمی اور دیگر مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیداوار کو قومی اور قوی اقتصاد کی تشکیل میں اہم عنصر قراردیتے ہوئے فرمایا: پیداوار ، معاشی  اور اقتصاد قوت کے علاوہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔پیداوار میں فروغ اور پیشرفت کے ذریعہ قوم میں خود اعتمادی ، عزت اور خوشحالی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس سے  معاشرے میں فلاح و بہبود کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ قومی ناخالص پیداوار ، برآمدات میں اضافہ اور دوسرے ممالک میں ملکی اجناس اور اشیاء کی برآمدات کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ پیداوار کو ملکی پسماندگی کو دور کرنے میں ناکافی قراردیا اور پیداوار میں توسیع و پیشرفت پر تاکید کرتے ہوئے پیداوار میں پشرفت کے سلسلے میں چند اہم نکات بیان کئے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیداوار میں ترقی اور پیشرفت کے سلسلے میں عوام کی اقتصاد میں مشارکت اور عوام کی مختلف توانائیوں اور ظرفیتوں سے بھر پور استفادہ کرنے پر زوردیتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں تینوں قوا کی ذمہ داریاں بہت ہی اہم ہیں اگر ان ذمہ داریوں عمل نہ ہو تو پیداوار میں پیشرفت اور فروغ ممکن نہیں ہوگا۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیداوار اور پیداوار میں مشغول اداروں کی حمایت کو حکام کی اصلی ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: پیداوار کی حمایت کا مطلب صرف مبلغ کی فراہمی نہیں بلکہ پیداوار اور سرمایہ کاری کے سلسلے میں جتنی بھی رکاوٹیں ہوں انھیں دور اور برطرف کرنا چاہیے ۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض رکاوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: کرپشن کا مقابلہ، اجناس اور اشیاء کی اسمگلنگ کی روک تھام، مشکل پیدا کرنے والے قوانین کی اصلاح ، مالکیت معنوی کے حقوق کی رعایت ، ضروری جگہوں پر ٹیکس کی چھوٹ اور بڑے مالداروں پر ٹیکس عائد کرنے کے موارد اہم امور میں شامل ہیں جن کے بارے میں تینوں قوا کے حکام کو اہتمام کرنا چاہیے ۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کورونا وائرس کے معاملے ميں طبی ضروریات منجملہ ماسک کی پیداوار کے سلسلے میں ملک کی تمام ظرفیتوں  کے میدان میں آنے کو پیداوار کی حمایت کا واضح نمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: مختصر مدت میں ماسک کی پیداوار ملک کی ضروریات سے زیادہ  ہوگئی کیونکہ ماسک کی پیداوار کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے  تمام رکاوٹیں ختم کردی گئي تھیں اور ماسک کی پیداوار کے سلسلے میں مختلف اداروں کے لئے راستے کھول دیئے گئے تھے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کار وبار کے شعبہ میں فلاح و بہبود کو پیداوارکی پیشرفت کے سلسلے میں اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: وزارت خزانہ کے ماہرین کے جائزے کے مطابق اگر اجازت ناموں کے صدور کا واحد  مرکز قائم کیا جائے اور اقتصادی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے تجارتی عدالتیں قائم کی جائيں تو ان دو اقدامات کے ذریعہ ملک میں کار بار کا معیار چالیس سے پچاس درجہ تک بلند ہوجائےگا۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے درآمدات پر پابندی کے معاملے کو پیداوار کی پیشرفت میں مؤثر قراردیتے ہوئے فرمایا: ہم درآمدات کے خلاف نہیں ہیں البتہ ہم اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ جو چیز ملک کے اندر موجود ہے یا ملک میں پیدا کی جاسکتی ہے اسے باہر سے درآمد نہ کیا جائے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض اوقات بعض حکومتی ادارے ایسی غیر ضروری چیزوں کو درآمد کرنے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ ملک میں تیار کی جانے والی گاڑیوں  کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے لئے غیر ملکی گاڑیوں کو ملک میں وارد کیا  جائے حالانکہ ملکی گاڑیوں کی کیفیت کو مختلف طریقوں سے بہتر کیا جاسکتا ہے دوسرے ممالک سے خریدی جانے والی گاڑیوں سے ملکی گاڑیوں کی کیفیت بہتر نہیں ہوسکتی بلکہ اس سے ملکی سطح پر گاڑیوں کی  پیدوار کو نقصان پہنچے گا۔ خبرکا ذریعہ : لیڈر ایران
0 notes
arshadumerkhan · 4 years
Photo
Tumblr media
عموماً ہمارے معاشرے میں (دین کے محدود تصور کی طرح)امانت کا مفہوم بھی مالی امانت کے ساتھ خاص سمجھ لیا جاتا ہے ۔ عموماً اس کا دائرہ کار صرف ودیعت کے طور پر رکھے جانے والے مال کی حفاظت کرنے اور اسے لوٹا دینے تک محدودکرلیا گیاہے۔عربی زبان میں”امانت”کے معنی کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ اور اعتماد کرنے کے آتے ہیں۔(المعجم الوسیط) شریعت کی نظرمیں امانت ایک وسیع المفہوم لفظ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔امانت کہتے ہیں” ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا ادا کرنا اور اپنی ذمہ داری کو ٹھیک طرح سے نبھانا” نکلتا ہے۔قرآن کریم اوراحادیثِ مبارکہ کے ذخیرہ میں میں امانت کے لفظ کا اطلاق بہت سارے معانی اور ذمہ داریوں پر کیا گیا ہے۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع جب حضوراکرم ؐ عثمان بن طلحہ شیبی سے بیت اللہ کی کنجی لے کر اندر داخل ہوئے اور نماز پڑھ کر باہر آئے تو آپ ؐکی زبان مبارک پر یہ آیت جاری تھی”إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا”(النساء :58)۔جس میں اماتیں ان کے حقداروں تک پہنچانے کا حکم دیاگیا۔جس کے مطابق آپ ؐنے کعبۃ اللہ کی کنجی عثمان بن طلحہ کے حوالہ کردی۔(معارف القرآن) اس آیت میں”کنجی”پر امانت کا اطلاق کیا گیا جبکہ کنجی کو ئی اہم مال نہیں بلکہ یہ خانہء کعبہ کی خدمت کی علامت ہے جس کا تعلق مال سے نہیں بلکہ عہد ے سے ہے ۔ اسے امانت سے تعبیر کرکے “عہدہ اور منصب”کو امانت قرار دیا گیا۔ نیز اس آیت میں الأَمَانَاتِ جمع کا صیغہ استعمال کر کے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ امانت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔جن کی ادائیگی ہر صاحب ِ ایمان پر لازم ہے۔ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے بے وفائی نہ کرو اور نہ جان بوجھ کر اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہونا ۔(سورہ انفال ۔آسان ترجمہ قرآن) یہ آیت غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر نازل ہوئی جب حضرت ابو لبابہ ابن المنذر رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل و عیال کے تحفظ کی غرض سے نبی کریم ؐ کے راز کو ظاہر کر دیا تھا ۔( اگرچہ بعد میں آپ کو سخت ندامت ہوئی ،پھراللہ رب العزت کی طرف سے معافی کا پروانہ بھی عطا ہوا) اس آیت میں رازفاش کرنے کو امانت میں خیانت قرار دیا گیا ۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی امانت کا اطلاق متعدد چیزوں پر ہوا ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور اکرمؐ مجلس میں کچھ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آکر پوچھا، قیامت کب آئے گی؟ آپ ؐنے فرمایا:جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔اعرابی نے پوچھا : امانت کا ضیاع کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:جب معامل https://www.instagram.com/p/CCFxlivgxhM/?igshid=10h5t5i8fsfki
0 notes
dailyshahbaz · 4 years
Photo
Tumblr media
سلیم راز کا ’’یقین‘‘ محترم سلیم راز پشتو ادب کے وہ واحد کل وقتی شاعر، ادیب، نقاد اور دانشور ہیں جنہوں نے تحریر اور تقریر کے ذریعے معاشرے میں ترقی پسندی، جمہوریت پسندی اور روشن خیالی پھیلانے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو زبان پر مکمل عبور رکھنے کے باعث وقتاً فوقتاً اخبارات، رسائل، سیمنارز اور مشاعروں میں بھی ملک میں جمہوریت، امن و انصاف، ترقی پسندی اور سیکولرازم کا کھل کر پرچار اور دفاع کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ وقت میں وہ انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے مرکزی صدر بھی ہیں جو اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ سلیم راز اپنے نظریے اور سوچ کے ساتھ ایک مخلص اور وفادار لکھاری ہیں۔ اب تک پشتو اور اردو میں ان کی نظم و نثر پر مبنی بے شمار کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں تاہم گزشتہ دنوں ان کے مضامین اور مقالات پر مشتمل اردو زبان میں شائع ہونے والی کتاب’’یقین‘‘میں جو مواد ہے اورکتاب میں جن مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین اور تحقیقی مقالے ہیں ان میں ہمارے تمام مقامی، ملکی اور عالمی سطح کے مسائل کا نہ صرف احاطہ کیا گیا ہے بلکہ ان کے حل کیلئے مختلف مگر قابل غور تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ موجودہ ملکی اور بین الاقوامی صورت حال کے تناظر میں ان مضامین اور مقالات کی اہمیت، ضرورت اور افادیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ آج ہمارا معاشرہ جن گونا گوں مسائل کا شکار ہے، ملک میں موجودہ مذہبی انتہاپسندی، دہشت گردی، شدت پسندی، تفرقہ بازی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور غیرجمہوری طرز عمل اور رویوں نے جس قدر ہمیں جکڑ رکھا ہے اس کی وجوہات جانے بغیر ہم آگے کا سفر طے نہیں کرسکتے۔ ہمارا معاشرہ کیوں کر اس نہج پر آپہنچا ہے، اس کے اصل اسباب و علل کیا ہیں اور اب اس کا علاج کیسے ممکن ہے اور پھر اس کی تشخیص اور علاج میں ہمارے اہل قلم حضرات کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اور ان کی ادبی اور علمی ذمہ داری کیا بنتی ہے، ان تمام سوالات کا تسلی بخش جواب سلیم راز نے اپنی کتاب’’یقین‘‘ میں پیش کیا ہے۔ میرے خیال میں اگر کوئی صاحب فکر روشن خیال لکھاری اور اہل ذوق افراد صرف سلیم راز کی مذکورہ کتاب’’یقین‘‘ کی موضوعات کی فہرست پر بھی ایک نظر ڈال لیں تو ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ سلیم راز کی کتاب محض ایک ادبی کتاب نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنے کا ایک مکمل لائحہ عمل اور سیاسی اور نظریاتی طور پر ایک نئے نظام خیال کی عکاسی اور ترجمانی ہے بشرطیکہ پڑھنے والا تنگ نظر، انتہاپسند اور ایک مخصوص دائرے کا قیدی یا اپنے ہی خیال کا قیدی نہ ہو۔ عالمگیریت کے بڑھتے ہوئے سائے میں ہمارے لکھاریوں اور حکمرانوں کو کس سمت چلنا ہوگا، عالم گیریت کے سیاسی، اقتصادی، نظریاتی اور تہذیبی فوائد اور نقصانات کیا ہیں، اسی نظام میں رہتے ہوئے ہم اپنی زندگی اور معاشرے کو کس طرح محفوظ کر سکتے ہیں اور زندگی سے کیسے محظوظ ہو سکتے ہیں، جمہوری عمل میں ایک ادیب کا کیا کردار بنتا ہے، تمام زبانوں کے ادب اور ثقافت کی ترقی اور ترویج کے لیے جمہوری کلچر اور روشن خیالی کتنی ضروری ہے، ادب اور جمہوریت کا آپس میں کیا رشتہ ہے، عالم گیریت میں دنیا کی قومی زبانوں کو کیا خطرات لاحق ہیں اور ان خطرات سے کیسے نمٹاجائے،معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں ادیبوں کے کیا فرائض بنتے ہیں،اردو زبان کا دیگر زبانوں سے کیا رشتہ اور اس رشتے کو کیسے مضبوط کیا جا سکتا ہے، ادب اور امن ایک دوسرے کے لیے کس قدر ضروری ہے، پشتو ادب میں ترقی پسند رجحانات کب سے در آئے ہیں، پختون لکھاریوں کا ترقی پسند سوچ اور ترقی پسند تحریک کے ساتھ وابستگی کیسی رہی اور اس جانب ان کا رویہ اور انداز کیسا ہے؟ خصوصاً سیکولرازم کیاہے اور ہمارے ہاں اس نام یا اصطلاح کوایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بعض سیاست دانوں، لکھاریوں، دانش وروں اور درباری مورخین نے بدنام کرنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا ہے، سیاسی، ادبی اور علمی اخلاق کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ سلیم راز کی کتاب میں’’سیکولرازم کیا ہے؟‘‘غور وفکر اور سفید عینکوں سے پڑھیں،کیوں کہ اگر انہوں نے اپنے اپنے نظریے کے رنگ کی عینکیں لگائی ہوں تو پھر تو انہیں سیکولرازم بھی اسی رنگ میں نظرآئے گا جس رنگ کی عینکیں انہوں نے لگا رکھی ہوں گی۔ اپنے اس مقالے کے آخر میں صاحب کتاب لکھتے ہیں کہ’’آج جب ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں، سائنس نے گلوب کی تاریک کونوںکو روشن کر دیا ہے، خلانوردی اور خلائی تسخیر نے فرسودہ عقیدوں کو شکست دے دی ہے اور ایٹم کے بعد کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے انسانی عظمت کے واضح ثبوت پیش کردیے ہیں اور یہ سب کچھ سیکولر فکر اور رویے کے طفیل ہوا ہے، لہٰذا علم دشمنی کا رویہ ترک کرکے الفاظ و اصطلاحات کو ان کے اپنے اصل معنی، مفہوم اور تاریخی پس منظر میں سمجھنا اور استعمال کرنا چاہیے۔‘‘ سلیم راز نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کیوں کہ ہمارے ہاں ترقی پسندی، روشن خیالی، لبرل اور سیکولر الفاظ اور اصطلاحات کا جو حشرکیا جا رہا ہے اور ان الفاظ کو جس طریقے سے اپنے اصل مفاہیم اور مقاصد سے دور رکھ کر اپنی مرضی کے جو لیبل چسپاں کیے جارہے ہیں تو اسے الفاظ کے ساتھ ہونے والے ظلم کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ لبرل یا سیکولر ازم کسی عقیدے کا نام نہیں بلکہ ایک رویے اور مزاج کا نام ہے۔ بہرحال سلیم راز جو ہمارے بزرگ بھی ہیں، راہنماء بھی اور ساتھ ایک پیار اور شفقت کرنے والی شخصیت بھی ہیں اور ذاتی طور پر انہیں میں جتنا قریب سے جانتا ہوں، ان کی سوچ اور فکر اور پھر اس سے ان کی کمٹمنٹ سے جس قدر میں واقف ہوں شاید اتنی واقفیت کسی اور کو حاصل نہ ہو۔ پیرانہ سالی کے باوجود بھی وہ ترقی پسند تحریک اور اس سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے ہمہ وقت چاق و چوبند رہتے ہیں۔ اگر سچ کہا جائے تو سلیم راز وہ واحد لکھاری ہیں جنہوں نے ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند فکر و فلسفہ کی ترویج کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر رکھا ہے۔ وہ اگر چاہتے تو بعض کالم نگاروں، ادیبوں اور دانش وروں کی طرح آج کروڑوں کے مالک ہوتے مگر وہ ترقی پسند سوچ، تحریک اور نظریے سے بے وفائی اور غداری کو ایمان فروشی گردانتے ہیں۔ سلیم راز کی تحریروں سے جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور پڑھنے والا جو تاثر لیتا ہے وہ ہے ان کا یقین، انہیں ایمان کی حد تک اس بات کا یقین ہے کہ وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں، جو کچھ سوچ رہے ہیں اور جس معاشرے کا خواب وہ دیکھ رہے ہیں، ایک نہ ایک دن وہ حقیقت کا روپ دھارے گا۔ وہ ان بعض فیشن پرست ترقی پسندوں میں سے نہیں ہیں جن کا ظاہر ایک اور باطن دوسرا ہوتاہے۔ اس حوالے سے سلیم راز کی کمٹمنٹ بہت واضح ہے۔ ان کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں اور ہرقسم کے حالات میں بھی وہ بڑے جرات مندانہ آواز اور انداز میں اپنے نظریے کا نہ صرف دفاع کرتے ہیں بلکہ اپنے نظریے پر فخر بھی کرتے ہیں۔ سلیم راز کی سب سے بڑی انفرادیت اور خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے کھرے کھوٹے کے فرق کو اچھی طرح سمجھا اور محسوس کیا ہے۔ وہ اپنے احساسات کی مدد سے ماضی کے خزانے سے نایاب موتیوں کو چنتے ہیں اور یہی چیز ان کی تحریروں اور تخلیقات کی جان ہے۔ سلیم راز کا تنقیدی رویہ اور انسان دوست نظریہ ہر لحاظ سے اور ہر صنف ادب میں ان کی شخصیت کا مکمل ترجمان اور ان کی علمی اور ادبی حیثیت اور وقار کا حامل رہاہے جس کی وجہ سے ان کے ہر تخلیقی اور تنقیدی فن پارے میں ایک دل لبھانے والا توازن اور علمی سنجیدگی پائی جاتی ہے اور اگر کسی کو میری بات کا اعتبار نہیں تو آزمائش شرط ہے۔ ایک بار ان کی یہ نئی اردو کتاب ’’یقین‘‘ پڑھ کر دیکھ لیں۔
0 notes
emergingpakistan · 7 years
Text
شدت پسندی چاہے مذہبی ہو یا سیکولر نامنظور
فتنہ کا ایسا زما نہ آ گیا کہ آپ اسلام کی بات کریں تو ایک طبقہ جسے لبرل شدت پسند یا سیکولر شدت پسند کہا جا سکتا ہے وہ آپ کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جاتا ہے۔ آپ کی کہی بات کی اپنی مرضی کی تعویلیں نکالتا ہے اور جھوٹ اور اپنی من پسند باتیں گڑھ کر حقائق کو بگاڑ کر اصل بات کو ایسا رنگ دیتا ہے کہ بات کرنے والا خود سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ گالی دینا، بُرا بھلا کہنا، گھٹیا الزامات لگانا سب ایک طریقہ سے ایک مہم کے ذریعے کیا جاتا ہے تاکہ اسلام کی بات کرنے والا بھاگ کھڑا ہو اور دوسرے بھی اس سے سبق سیکھیں۔ میں ایک گناہ گار آدمی ہوں لیکن اس امید سے کہ میرا رب مجھے معاف کر دے، مجھ میں بھی کبھی کبھی میرے دین کا جوش اٹھتا ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ معاشرہ میں بڑھتے غیر اسلامی اقتدار کو ��وکنے میں اپنا کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتا رہوں۔ 
گزشتہ ہفتہ کے دوران مجھے اطلاع ملی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک اسکول میں ایک کنسرٹ منعقد کیا جا رہا ہے جس میں دوسرے گانوں کے ساتھ ساتھ ایک انگریزی گانا ـــ’’Imagine‘‘ بھی گایا جائے گا جوملحدانہ افکار کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نے بغیر اسکول کا نام لکھے سوشل میڈیا میں صرف ایک ٹوئٹ کیا کہ ایک کنسرٹ میں یہ گانا گایا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ متعلقہ حکومت اور اسکول تک بات پہنچ جائے اور بروقت درستگی ہو سکے۔ الحمد اللہ ایسا ہی ہوا۔ متعلقہ اسکول نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ متنازع گانا کنسرٹ میں نہیں گایا جائے گا۔ اسکول کی طرف سے یہ فیصلہ بہت ہی خوش آئند تھا جسے پاکستان کے مذہبی حلقوں سمیت بہت سوں نے سراہا۔ یہاں تک کہ عالمی شہرت کے حامل پاکستان کے اہم ترین اسلامی اسکالر محترم مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی اپنے ٹوئٹ کے ذریعے اسکول کے ساتھ ساتھ اس ناچیز کو بھی شاباش دی۔ 
جیسے ہی یہ مسئلہ سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا اور اسکول نے بھی فیصلہ کر لیا کہ متنازع گانا نہیں گایا جائے گا تو لبرل اور سیکولر شدت پسندوں کے ایک گروہ نے مجھ پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ انہیں تکلیف اس بات پر تھی کہ پہلے تو میں نے اس مسئلہ کو اجاگر کیوں کیا اور دوسرا کہ متنازع گانا اسکول کے کنسرٹ میں کیوں نہ گایا جائے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی تاویلے دیں اور مقصد صرف یہ تھا کہ مجھ پر لعن طعن کی جائے۔ چند سیکولر شدت پسند وں نے تو مجھ پر پاکستان میں طالبانائزیشن کو بڑھاوا دینے کا الزام لگا دیا۔ ایک سیکولر نے بھی مجھے کوسہ اور افسوس کا اظہار کیا کہ بچے گانا نہیں گا سکیں گے۔ حالانکہ بچوں نے گانے تو گائے، کنسرٹ بھی ہوا لیکن وہ گانا نہیں گایا گیا جو ملحدانہ افکار کی عکاسی کرتا تھا۔
ان شدت پسندوں کو اگر غصہ مجھ پر تھا تو وہ اسکول سے بھی خوش نہ تھے کہ اسکول انتظامیہ نے متنازع گانا کیوں نہ گایا۔ جب یہاں اُن کی دال نہ گلی تو برطانیہ کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں ہفتہ کے روز میرے خلاف خبر چھپوا دی۔ اُس خبر میں مجھ سے ایسی باتیں منسوب کی گئی جو نہ میں نے کہیں اور نہ لکھیں۔ میرے حوالے سے اسکول کا نام اور پرنسپل کے خلاف بھی بات کی گئی حالانکہ نہ تو میں نے کسی اسکول کا نام لیا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ اُس اسکول کا پرنسپل کون ہے۔ میں نے اس پر ٹیلی گراف اخبار سے احتجاج کیا جس پر اتوار کے روز انہوں نے اپنی خبر کی اس حد تک درست کر دی کہ جو باتیں مجھ سے غلط منسوب کی گئیں انہیں خبر میں سے ہٹا دیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی گراف کے متعلقہ رپورٹر نے بھی اپنے ٹوئٹ کے ذریعے اس درستگی کا اعلان کر دیا۔ ابتدا میں توسیکولر اور لبرل شدت پسندوں نے سوشل میڈیا پر ایسی مہم چلائی کہ بہت سے لوگوں کو اصل حقیقت کا علم ہی نہ تھا۔ جیسے جیسے سچ سامنے آنے لگا تو عام طبقہ کے ساتھ ساتھ اسلامی اسکارلز اور جماعتوں نے بھی اس مسئلہ پر اپنا ردعمل دینا شروع کر دیا اور باقاعدہ سوشل میڈیا پر مہم چلائی جس میں اسکول کو مبارکبادیں دی گئیں اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کو ان شاء اللہ ایک اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے گا۔ اگرچہ سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ یہاں یہ بات کرتے ہیں کہ جس کی جو مرضی وہ بچوں کو اسکولوں میں پڑھائے لیکن اس بات کی پاکستان کا آئین اجازت نہیں دیتا۔ 
آئین پاکستان کی شق 31 کے مطابق یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور نظریاتی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں جن کی مدد سے وہ قرآن اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ اسی شق کے مطابق ریاست پاکستان کے مسلمانوں کے لیے قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازم قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولتیں بہم پہنچانے کا اہتمام کرے گی۔ آئین کو بنے چوالیس سال گزر گئے لیکن ہم نے اب تک آئین کی اسلامی روح کے مطابق پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں کوئی خاص کام نہیں کیا۔ اسلامی شقیں آئین میں موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ دو تین سال کی کوشش کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک قانون متفقہ طور پر پاس کر لیا ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت کے تمام اسکولوں میں بچوں کے لیے قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھانا لازم ہو گا۔ گزشتہ جمعہ کے روز سینیٹ میں اس بل کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا لیکن عمومی طور پر میڈیا نے اس خبرکو نظر انداز کیا یا اہمیت نہیں دی۔ قومی اسمبلی پہلے ہی اس بل کو منظور کر چکی گویا اب یہ قانون بن گیا جو صدر پاکستان کے دستخط کے بعد وفاقی حکومت کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں لاگو ہو گا۔
خیبر پختون خوا حکومت اس کے نفاذ کا پہلے ہی اعلان کر چکی ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ نظام پورے ملک کے اسکولوں میں جلد از جلد نافذ ہو جائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے بچے جب خود قرآن پاک سمجھ کر پڑھیں گے تو ایک ایسا معاشرہ جنم لے گا جو صحیح معنوں میں اسلامی ہو گا، جہاں سب کے لیے انصاف ہو گا، فرقہ واریت، نفرت اور عدم برداشت کا خاتمہ ہو گا۔ عورتو ں، اقلیتوں، غریب کے حقوق کی پاسداری ہو گی۔ سب سے اہم بات یہ کہ جب ہم اپنے بچوں کو قرآن سے جوڑیں گے تو ہر قسم کی شدت پسندی چاہے وہ مذہبی شدت پسندی ہو یا سیکولر ہر ایک کا خاتمہ ہو گا۔ اس منزل کے لیے ہم سب کو اپنا پنا کردار ادا کرنا ہے۔
انصار عباسی  
2 notes · View notes
humlog786-blog · 5 years
Text
جدید شاعری میں علامت نگاری - ڈاکٹر رؤف خیر
Tumblr media
علامت نگاری کسی بھی زبان کومالامال کرنے کابہترین ذریعہ ہے ۔جب ایک فنکار یہ دیکھتا ہے کہ لفظ اپنی حس کھوتاجارہا ہے تو اسے ایسی توانائی عطا کرتا ہے کہ وہ گھسا پٹا لفظ ایک خوبصورت پیکر اختیار کرلیتا ہے ۔ لفظ اپنی عمومیت کھوکر جب خصوصیت اختیار کرلے تو ایک خوشگوار علامت بن جاتا ہے ۔ جیسے شمع ، پروانہ، قفس، آشیانہ اپنے عمومی معنوں میں الگ مفاہیم رکھتے ہیں ، لیکن جب یہی لفظ مخصوص رنگ میں استعمال کئے جانے لگے تو علامت کہلائے۔ اس طرح فنکار علامتوں کی تخلیق کے ذریعہ اپنی ہی زبان میں تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتا رہتا ہے اور وہ نوبت آنے سے رہ جاتی ہے جو اقبال اور غالب کو زبان ہی کا دامن چھوڑنے پرمجبورہوگئی۔ محاورہ، تشبیہ، استعارہ اور تلمیح وغیرہ کی زیادہ ارفع و اعلیٰ صورت، علامت ہے ۔ محاورہ تو لفظ کا وہ کثیر استعمال ہے جہاں لفظ اپنی پہچان تک کھودیتا ہے ۔ اور صرف مجازی معنوں میں زندہ رہتا ہے مثلاً راہ میں آنکھیںبچھانا، پانی بھرنا، ہاتھوں کے طوطے اڑجانا وغیرہ ، یہاں تو لفظ وہ پردۂ زنگاری ہے جس میں سے کوئی اور ہی معشوق بولتا ہے ۔ تشبیہہ میں دو چیزیوں کا پایاجانا ضروری ہے اور چونکہ تشبیہہ ممکنات کا نام ہے ، اس لئے دونوں چیزوں میں معروضی مطابقت کا پایاجانا ضروری ہے ۔مثلاً احمد شیر کی طرح ہے ۔ یہاں احمدبھی ہے اور شیر بھی اور دونوں کی واقعاتی خصوصیات بھی۔ استعارہ البتہ تشبیہہ کی بہ نسبت قدرے بلیغ ہواکرتا ہے، جیسے احمد شیرہے ، اس استعارہ میں احمد کے لفظ کو اس مفہوم میں استعمال کیاجارہا ہے جو اس کا ذاتی نہیں بھی ہے اور ہے بھی ۔ اور چونکہ استعارہ ابہام کی بہترین مثال ہوتا ہے اور تشبیہہ اور تلمیح کی بہ نسبت زیادہ بہتر خصوصیات کا حامل ہونے کی وجہ سے علامت کا زینہ اول بھی قرار دیاجاسکتا ہے۔ تلمیح وہ مخصوص علامت ہے جو اساطیری بنیادوں کی محتاج ہے اور یہ اساطیری علامتیں اپنے آپ ہی میں سارے مفاہیم رکھتی ہیں اور جومتعین ہوتے ہیں اور ایک ایک تلمیح بجائے خود اک پورا واقعہ یا حکایت ہوتی ہے ۔ اس میں شک نہیں تلمیح اجمال کی بہترین مثال ہونے کی وجہ سے شعر میں بڑا لطف دیتی ہے کیونکہ شعر اجمالی خصوصیات کا بہترین نمائندہ ہوتا ہے ۔ بہر حال علامت اپنے اکہرے پن میں زندہ نہیں رہتی، بلکہ اس کے پچھلے وہ سارے عوامل کام کرتے ہیں جومحاورہ، تشبیہہ استعارہ اورتلمیح کی جان ہیں۔ اب رہا علامت کے استعمال کا سوال ۔ دنیا کا کوئی فن ہو جب بھونڈے پن کے ساتھ اس کا مظاہرہ ہوگا تو وہ فن اپنی کوئی گونج پیدا نہ کرسکے گا ۔ الٹا ہدف ملامت بنے گا ۔ اور چونکہ شعر فنی رچاؤ سے عبارت ہے اس لئے بھونڈا پن تو الگ لفظ کی اعرابی غلطی تک کو برداشت نہیں ��رسکتا ۔ جب محمد علوی کیچڑمیں لت پت ، بھینس کے کالے تھوں میں دودھ کا ایک قطرہ بھی رہنے نہ دینے کی بات کرتے ہیں اور وہ بھی بعنوان شہوت ۔ یا پھر افتخار جالب جب یہ کہتے یہں کہ سرخ گوشت کی لمبی نوک جانے کہاں تک جاتی ہے تو اس میں اور امیر مینائی کے یہ کہنے میں کہ دوبوسے لوں گا جان من اک اس طرف اک اس طرف۔ میں فرق ہی کیا رہ جاتا ہے ۔ دونوں ایک ہی سطح فکر پر آجاتے ہیں ۔ اس سے بہتر تو وہ قدیم شاعر ہے جس کے کلام میں زندگی بھر کی قنوطیت رہی یعنی فانی کہتے ہیں۔ گرا کے قطرۂ شبنم گلوں کے دامن پر تجلیات کے دریابہا دئے ہم نے اس قطرۂ شبنم کونطفہ دے کر شعر کا حظ اٹھائیے یا پھر ظفر اقبال کے یہ دو شعر۔ چمکا ہے تیری خاک میں میرے لہو کا رنگ یعنے مرے کئے کی سزا ہے ترے لئے تلوار ایسے اس کے بدن میں اتار دی جیسے کہ آدمی نہیں وہ نیام ہے کوئی ظفر اقبال نے کس خوش اسلوبی سے اسی مفہوم کو ادا کیاہے ۔ بہر حال میرا منشا ۔یہ نہیں کہ میں اصلاح قوم کا ذمہ اپنے سر لوں ۔ جہاں تجربہ بولتا ہے وہاں اس پر اخلاقی پابندی بے معنی ہے۔لیکن فنی پابندی تو ضروری ہے ، جو ذوق سلیم کا خاصہ ہے ۔ شعر فنی رچاؤ سے الگ کب ہے؟ ریل آتی ہے ، ریل جاتی ہے اور ریل مضطر گئی جوانی انتظار اب کہاں کی بس کا ہے (مضطرمجاز) میں کچھ تو فرق ہوگا ہی ، دراصل علامت نگاری تہذیب فن کی متقاضی ہے اور کوئی علامتVULGARہو تو ادب میں اس کے لئے گنجائش نکلنا مشکل ہے ۔ شہوت، نفرت ،غصہ، محبت جیسی جبلتوں کا اظہار جہاں راست(DIRECT) اور بھونڈے پن سے ہوگا، وہ کھلے گا اور جہاں ان کی تہذیب ہوگی وہ اچھا فن کہلائے گا۔ علامت مبہم ہوتی ہے لیکن بے معنی نہیں ، اور یہی ابہام علامت کے وسیلے سے اجمال کی جملہ خصوصیت لئے ہوئے ہو تو لطف دے جاتا ہے ۔ندافاضلی کے اس شعر سورج کو چونچ میں لئے مرغا کھڑا رہا کھڑکی کے پردے کھینچ دئیے رات ہوگئی پرکافی لے دے کی گئی۔ گاؤں اور شہر کی زندگی کے تفاوت کی ساری عکاسی اس شعر میں موجود ہے ۔ اور اس چابک دستی اور فنی رچاؤ کے ساتھ ساری روایتیں دھری کی رہ گئیں۔ بعض وقت کسی مخصوص لفظ کو علامت کے طور پر استعما ل کرنے کے بجائے عام الفاظ ہی میں اک تصویر کھینچ دی جاتی ہے جو علامت کا کام کرتی ہے ۔ مثلاً بانی کا یہ شعر آ ملاؤں تجھے اک شخص سے آئینے میں جس کا سر شاہ کا اور ہاتھ سوالی کا ہے یا پھر بانی ہی کا اک اور شعر میں ایک بے برگ وبارمنظر کمر برہنہ، میں سنسناہٹ تمام یخ پوش، اپنی آواز کا کفن ہوں محاذ سے لوٹتا ہوا نصف تن سپاہی، میں اپنا ٹوٹا ہوا عقیدہ ، اب آپ اپنے لئے وطن ہوں ہر علامت مکمل اور مفرد معنوںمیں کبھی استعمال نہیں ہوتی۔ ایک ہی لفظ کہیں ایک علامت کے لئے اور کہیں دوسری ہی علامت کے لئے استعمال کیاجاتا ہے ۔ مثلاً سناؤں کیسے کہ سورج کی زد میں ہیں سب لوگ جو حال رات کو پرچھائیوں کے گھر کا ہوا (شہر یار) سورج کے ساتھ سو رہوں کپڑے اتار کے مطلب یہی ہے دھوپ کے پیلے پیام کا (ظفر اقبال) ہوا طلوع وہ سورج مرے ہی اندر سے جلا گیا ہے جو میلی رفاقتوں کے بدن (زبیر رضوی) اے ساعت اول کے ضیا ساز فرشتے سورج کی سواری کے نکلنے کی خبر دے (بانی) آنکھ بھی وا ہوئی ، سورج بھی سفر سے آیا ذرۂ زرد نہ صحرائے ہنر سے آیا (ظفر اقبال) مٹھاس چوس لی سورج نے کتنے چہروں کی شناخت ہوتی ہے مشکل سے اب کے لوگوں کی (علیم صبا نویدی) سورج کا ایک مفرد لفظ بے شمار چہرے لئے ہوئے ہے ۔ سورج کی علامت اتنی توانا اور تکثیری قوتیں لئے ہوئے ہے کہ اس کا ہمہ معنی ہونا واجب ہے ۔ اور یہ استعمال مختلف احساسات کا ترجمان ہے ۔ گویا ایک ہی علامت مختلف احساسات کے لئے مختلف انداز میں مختلف روپ اختیار کرجاتی ہے ۔ جس طرح بعض مخصوص علامتیں کسی خاص زبان یاملک میں ایک مفہوم رکھتی ہیں ، لیکن دوسری زبان اور ملک میں انتہائی جداگانہ بلکہ متصادمعنی بھی رکھتی ہیں۔ مثلاً مخدوم محی الدین نے کڑیل شباب کے لئے سمندروں کے جھاگ سے بنی ہوئی جوانیاں ، کہا تھا جب کہ عربی میں جھاگ (غساء) انتہائی کمزور ی کی علامت ہے ۔شیر، چیتا ،بھیڑیا ،اور گلاب کی علامتیں دانتے کیTHE DIVINE COMEDYمیں جن معنوں میں استعمال ہوئی ہیں، وہی اپنی جگہ مکمل ہیں لیکن یہ کلیہ نہیں بن سکتاکہ سارے ادبمیں ان ہی مفاہیم میں وہ استعمال ہوتی رہیں ۔ علامت کی خوبی یہی ہے کہ وہ نئے نئے مفاہیم کا دائرہ بنتی ہے ، ورنہ زبان کا ارتقا کوئی معنی نہ رکھتا۔ علامت کی تفہیم اسی وقت ممکن ہے جب اس کی ترسیل ہو۔ ترسیل کی ناکامی کی وجہ سے علامت اپنا مفہوم کھودیتی ہے حالانکہ اس میں مفہوم پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس مفہوم کی پردہ دری کی ذمہ داری صرف قاری کے سر رکھنا زیادتی ہے ، کیونکہ قاری کے صاحب ذوق ہونے کی گارنٹی اس وقت تک مشکو ک ہے جب تک کہ علامت ترسیل کی حدود میں نہیں آتی۔ اسی لئے علامتوں کے استعمال میں فنی رچاؤ کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے ۔ ورنہ اچھی خاصی علامت چیستان ہوکے رہ جاتی ہے۔ بنگالی زبان کی بھوکی پیڑی، گجراتی زبان کارے گروپ اور تلگو زبان کے ڈگمبری کوی ابہام اور فنی رچاؤ بغیر جب زبان و ادب کا استعمال غیر فنی پیکری علامتوں کے ذریعے کرنے لگے تو ناکام ہوگئے ۔ نرالا، بچن، قاضی نذر الاسلام، ٹیگور، غالب اور اقبال آج بھی زندہ ہیں۔ انیس کی شاعری کی تمام تر فضا، مصنوعی اور غیر فطریUNNATURALہونے کے باوجود اپنے علامتی قدوقامت میں کسی سے کم نہیں ۔ علامت کے استعمال میں افراط و تفریط سے گریز کرنا ضروری ہے ۔ اس سے نہ صرف علامت کی توقیر باقی رہتی ہے بلکہ خود ادب کا اقتصا بھی یہی ہے ۔ علامت کا جاو بے جا استعمال اس کے حسن کو نہ صرف بگاڑتا ہے بلکہ اسے باہر بھی کردیتا ہے ۔ جیسے قفس ، شمع، پروانہ، آشیانہ قبیل کی تمام علامتیں جدید ادب میں قطعاً بار پانے کے قابل نہیں رہیں ، بلکہ جدید شاعری پر تہمت کا حکم رکھتی ہیں ۔ ترقی پسندوں نے دارورسن ، محنت، سرمایہ،محبت، اندھیرے اجالے وغیرہ علامتوں کو اتنا گھسا کہ اب یہ علامتیں اپنا آب و روغن کھوچکی ہیں۔ اسی طرح جدید شاعروں نے تنہائی کے ساتھ وہ رویہ اختیار کیا کہ یہ علامت اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی ۔ علامت کا اک خاص حد تک استعمال بشرط تکثیریت فن کی حدوں میں رہتا ہے ، لیکن جہاں علامت بنجر ہوجاتی ہے اسے ادب سیباہر کردینا پڑتا ہے ۔ یا خود بخود وہ ادب باہر ہوجاتی ہے، جیسے فصیل، شب، سحر، آرزو، پھانسی کی علامتیں اب بے چہرہ ہوگئی ہیں ۔ بعض علامتیں مخصوص حالات کی پیداوار ہونے کی وجہ سے ان حالات کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں ۔مثلاً شراب، جام اور مینا وغیرہ کی علامتوں کا استعمال متشرع علمائے وقت سے چہل کے طور پر شروع ہوا ۔ پھر اس میں تصوف کی شراب خانہ ساز کو انڈیلا گیا اور غالب کو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر ، کہنا پڑا اور ریاض خیرآباد تک آتے آتے ان علامتوں کا سارا نشہ ٹوٹ گیا۔ اسی طرح جدوجہد آزادی اور حصول آزادی کے دور کی علامتیں ترقی پسند ادب کی دین ہیں، جن کی تان یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر پر آکر ٹوٹ گئی۔ کسی بھی علامت کاREPETATIONنہ صرف یہ کہ اس علامت کوبے وقار کردیتا ہے بلکہ اس علامت کو باربار استعمال کرنے والے شعر کی تخلیفی صلاحیتوں پر بھی حرف لاتا ہے جیسا کہ خورشید احمد جامی کے ساتھ ہوا کہ انہوں نے زخم، فصیل ، مہتاب، شام، سحر، شب ، اندھیرے ، اجالے، فصل، پھانسی، اور دردوغیرہ علامتوں کو اپنی شاعری میں اس کثرت سے استعمال کیا کہ رخسار سحر کی شاعری اس REPETATIONکا شکارہوگئی ، لیکن برگ آوارہ اور یاد کی خوشبو میں یہ تکرار باقی نہیں رہی۔ احمد ہمیش نے کہا تھا کہ جب کوئی لفظ ایک بار استعمال کیاجاتا ہے وہ مرجاتا ہے بر خلاف اس کے کسی دوسرے ادیب نے کہا تھا کہ میں جب کوئی لفظ استعمال کرتا ہوں وہاں سے اس کی زندگی شروع ہوتی ہے۔ یہ دونوں خیالات اپنی اپنی جگہ صحیح بھی ہیں اور غلط بھی ۔ احمد ہمیش نے جس تناظرمیں لفظ کے مرجانے کی بات کی وہ دراصل زندگی کی علامت ہے ۔ وہ ہل من مزید اور تخلیقی قوتوںکی زرخیزی کی دعوت دیتے ہیں ۔ ایک مرتبہ استعمال کئے ہوئے کسی ایک علامت یا لفظ کے سحر میں گم ہوکر اس کے ٹوٹنے کی اذیت برداشت کرنے سے بہتر ہے کہ اس سے پہلے ہی کوئی اور لفظ جنم دے لیں۔ احمد ہمیش کا خیال غلط اس لئے ہے کہ جب کسی لفظ یا علامت کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے تو علامت و ہ شاخ تر ہوجاتی ہے جس پر نئے پھول پھل آتے ہیں۔ اس لئے اس علامت کی حیات وموت کا انحصار اس کی اپنی نمو پر ہوتا ہے ۔دوسرے ادیب کا خیال اس لئے صحیح ہے کہ ایک علامت جب وجود میں آجاتی ہے تو پھر دائرہ در دائرہ جدولی انداز میں جینے لگتی ہے ۔اور غلط اس لئے ہے کہ کل من علیہا فان۔ آخر کار جب اس کی ساری زر خیزی خصوصیات ختم ہوجاتی ہیں تو معاشیات کا اصول یہاں بھی لاگو ہوہی جاتا ہے اور وہ علامت از کار رفتہ ہوکر اپنی افادیت UTILITY کھودیتی ہے اور پھر شاعر کو لمبس کی طرح نئے خطہ، معنی کی تلاش میں نکلتا اور پیر تسمہ پا سے بچ بچ کر حیات گزارتا ہے اور جو ایسا نہیں کرتا وہ خود مرجاتا ہے ۔ علامتیں کئی طرح کی ہوتی ہیں، مذہبی علامتیں جیسے اس طرح پھانسیوں نے پکارا ہمیں کہ ہم جیسے کوئی رسول تھے اہل کتاب تھے (خورشید احمد جامی) مہاجرین سے انصار خوش نہیں ہوتے توپھر کہاں کی یہ ہجرت برا ہے بھارت کیا (رؤف خیر) عمیق حنفی کی پوری صلصلۃالجرس شاہد ہے ہوا کہتی رہی آؤ مگر میں خشک چھاگل اپنے دانتوں میں دبائے پیاس کی برہم سپہ سے لڑ رہا تھا، میں کہاں جاتا مجھے سورج کے رتھ سے آتشیں تیروں کا آنا اور چھاگل سے ہمک کر آب کا گرنا کسی بچے کا رونا اور پانی مانگنا بھولا نہیں تھا، میں کہاں جاتا (ہوا کہتی رہی آؤ، وزیر آغا) اور نہیں مجھے نہ کھاؤ تم ابھی نہ کھا سکوگے تم یہ سانپ دیکھتے ہو کیا تمہارے جسم و جاں میں کھارہا ہے بل تمام دن تمام رات وہ سانپ جس سے پہلی مرتبہ بہشت میں ملے تھے ہم کبھی یہ اپنے زہر ہی میں جل کے خاک ہوگیا کبھی یہ اپنے آپ کو نگل کے پاک ہوگیا کبھی یہ اپ نے ہی آپ ہی میں سو گیا (صداؤں کی آبنائے کے آر پار ، ن۔م۔ راشد) اساطیری، تلمیحاتی اور دیومالائی علامتیں جہاں غیر ضروری اکتا دینے والی تشریحات سے شعر کوبچالیتی ہیں، وہیں شعر کے حسن کو بڑھا بھی دیتی ہیں۔ وہ اب کے آئے تو سچ ان کے ساتھ تھا لیکن عجیب طرح کا بے درد سچ تھا کہتے تھے تمہارا جھوٹ ہے ننگا یہی تو اک سچ ہے وہ ہم سے صدیوں پرانا چراغ چھین گئے نئے چراغ پرانے چراغ کے بدلے وہ کاش اب کے بھی ایسا فریب دے جاتے (نئے لوگ۔ عزیز قیسی) یا پھر یہ اشعار کبھی تو ساری تھکانوں کا یوں صلہ مل جائے ہرن کی کھوج میں نکلوں شکنتلا مل جائے (نجیب رامش) اپنی ہی آرزوؤں کا مارا ہوا ہوںمیں خود اپنے ہاتھیوں ہی کی روندی سپاہ ہوں (بشر نواز) کتنا آباد تھا ویرانہ دل ہر کھدائی میں حویلی نکلی (مضطر مجاز) جدید شاعری میں علامتوں کے لئے رنگوں اور پرندوں کا استعمال بھی بڑے اچھے انداز میں کیا گیا ہے۔ کیا سر شام نہ لوٹوں گا نشیمن کی طرف کیا اندھیرا ہو تو جگنوبھی بھٹک جاتا ہے (شاذ تمکنت) اس جسم سبز کے سورج کو روشن کرو ہجر کی لمبی رات کی تاریکی بڑھنے لگی (شہر یار) شانتی کی دوکانیں کھولی ہیں فاختائیں کہاں کی بھولی ہیں کیسی چپ سادھ لی ہے کووں نے جیسے بس کوئلیں ہی بولی ہیں (محمد علوی) آنکھوں میں شوروشر ہے بدن کے بسنت کا میں و�� ہوں جس نے حسن کو دیکھا ہی زرد ہے اٹھے اباس نواح سے کس طرح موج سبز بہتا ہوا یہ خاک کا دریا ہی زرد ہے (ظفر اقبال) ریاضی کی علامتیں بھی ادب میں بار پاسکتی ہیں، مگر سلیقہ ، اظہار شرط ہے، ورنہ کہاں ریاضی اور کہاں ادب۔ لیکن من موہن تلخ نے اپنی ایک نظم میں ریاضی کی علامتوں کا بڑا اچھا استعمال کیاہے ۔ خود کو میں سب سے بڑا مانتا ہوں مجھے جمع مجھ میں کرو ، ضرب دو مجھ کو مجھ سے تو دیکھو میں کتنا بڑا ہوں مگر میں تو ڈر کے گلی میں کھڑا ہوں مجھے لگ رہا ہے میں ذاتوں کی تفریق و تقسیم کا ہوں وہ حاصل کہ جو عمر کی طرح بڑھتے ہوئے گھٹ رہاہے تعلق کا میں فارمولا ہوں شائد(کلوز اپ من موہن تلخ) پاکستان کی ایک شاعرہ عذرا ساگر نے اعراب کو علامتی پیکر دے کر بڑی پیاری نظم کہی ہے ،میں زیر ہوں تو تو زبر۔ فلسفیانہ اور نفسیاتی علامتیںتو بے شمار ہیں کہ یہ میدان زیادہ وسیع ہے ۔ میں یہاں دواک مثالیں دے کر اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ میں حرف اثبات کا ہوں قاتل نفی کا اظہار ہوں سزا دے نہیں ہے اب کچھ بھی مثل دیوار میں آر ہوں پار ہوں سزا دے بانی میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا تو مگر کونسا بادل ہے برسنے والا ساقی فاروقی اس تند سیاہی کے پگھلنے کی خبر دے دے پہلی اذاں ، رات کے ڈھلنے کی خبر دے بانی ان تھکے ہارے پرندوں کا خیال آتا ہے جو کسی بام پہ ناچار اتر پڑتے ہیں شاذ تمکنت بہر حال علامت کی خصوصیت یہی ہے کہ اس کی تمام خصوصیت کا احاطہ ناممکن ہے۔ یہ تو وہ ریگ نم ہے کہ جہاں کھودئے میٹھے پانی کا چشمہ نکل آتا ہے ۔   ماخوذ از کتاب: خطِ خیر۔ از: رؤف خیر Read the full article
0 notes
urdubbcus-blog · 5 years
Photo
Tumblr media
یہ آپ کا حق ہے! ہمارے ہاں کوئی بھی تقریب ہو، دکھاوے اور نمائش سے خالی نہیں ہوتی اور جب بات ہو شادی کی تو پھر خوب اہتمام اور شان دار انتظام تو جیسے ہماری انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ’’دیکھو انتظام بہترین ہونا چاہیے، کوئی کمی نہ رہ جائے، ناک نہ کٹوا دینا، ان سے بڑھ کر کرنا ہے‘‘ اور اسی قسم کے دوسرے جملے اور باتیں سننے کو ملتی ہیں، لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ان معاملات پر گفتگو سے دانستہ گریز کیا جاتا ہے جن کا تعلق نہ صرف نئے جوڑے کی ازدواجی زندگی سے ہوتا ہے بلکہ ان کا براہ راست اثر اُس خاندان اور آنے والی نسلوں پر بھی پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شادی صرف ایک رسم اور فریضہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کا مرد اور عورت کی انفرادی زندگیوں اور ان کے خاندانوں سے گہرا تعلق ہے۔ اس کے تحت مرد و عورت ذمہ داری کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ شادی کی صورت میں انہیں ایک دوسرے پر کچھ حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی فریق یہ حقوق ادا نہ کرے اور اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرے تو دوسرے کو حق حاصل ہے کہ وہ اس معاہدے کو ختم کر دے۔ نان نفقہ کی ادائی بھی ایک ایسا فریضہ ہے جس میں شوہر کی جانب سے اگر غفلت برتی جائے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہے وہ اس بنیاد پر شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے۔ واضح رہے کہ نکاح اور نان و نفقہ کے حوالے سے جہاں اللہ اور اس کے رسول کے بتائے گئے احکامات اور اسلامی قوانین کو اولیت اور اہمیت دی جاتی ہے، وہیں سماجی اور عائلی زندگی کو بھی پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں دو گھرانوں کے درمیان ایسے معاملات طے کیے جاسکتے ہیں۔ نان و نفقہ کی اصطلاح میں اس کی بنیادی شرائط کے ساتھ مرد کی مالی حیثیت کے مطابق لڑکی کی جائز خواہشات اور ضروریات کے لیے کوئی معاہدہ فریقین کی رضامندی اور اتفاق کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں عدالتوں میں زیادہ تر کیس نان و نفقہ اور مالی ضروریات سے متعلق ہوتے ہیں۔ شادی شدہ خواتین کی اکثریت یہی شکایت لے کر آتی ہے کہ شوہر انہیں ان کے ذاتی اخراجات کے لیے مخصوص رقم یا جیب خرچ نہیں دیتے۔ اس کی وجوہ کچھ بھی ہوں، بہرحال یہ عورت کا حق ہے جو بعض صورتوں میں رشتہ اور تعلق پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ نان و نفقہ کے متعلق ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس سے مراد صرف روٹی، کپڑا اور رہائش ہی نہیں ہے بلکہ یہ بیوی کی ضرورت اور استعمال کی ہر چیز کا نام ہے۔ عدالت جب کسی عورت کی شکایت پر اس کے شوہر سے اس بابت پوچھتی ہے تو اکثر یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم نے رہنے کو گھر دیا ہوا ہے، کھانا پینا اور کپڑے بنوا کر دیتے ہیں۔ یہ بات یکسر نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ دو وقت کا کھانا، اوڑھنے پہننے کی ضروریات اور رہائش تو بنیادی چیزیں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ضروریات جو ہر دور کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں وہ رقم سے پوری ہوتی ہیں اور مرد اپنی مالی حیثیت کے مطابق اسے پوری کرنے کا پابند ہے۔ دینِ اسلام کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے عورت اور کنبے کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے۔ عورت اپنے والدین کے گھر ہو تو اس کا کفیل باپ ہے۔ باپ نہ ہو تو بھائی ہے۔ شادی کے بعد شوہر کے گھر آجائے تو یہاں اس کے تمام اخراجات اور ضروریات کو پورا کرنا اسی کی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اگر شوہر نان و نفقہ کے نام پر کھانے پینے، تن ڈھانپنے اور رہائش کی ضروریات پوری کر رہا ہے تو گویا یہ اس کا احسان ہے اور اس کے بدلے میں عورت ہر طرح سے اس کی تابع دار اور ممنون رہے۔ ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں بلکہ اکثر تعلیم یافتہ مرد بھی ڈھٹائی اور بے شرمی سے کہہ دیتے ہیں کہ اگر گزارہ نہیں ہوتا تو اپنے ماں باپ یا بھائیوں سے مانگو، میں نے روٹی، کپڑا اور رہائش دے رکھی ہے، یہی کافی ہے۔ شادی سے پہلے مرد اور عورت ایک دوسرے کی مالی اور سماجی حیثیت سے واقف ہوتے ہیں۔ شوہر کی اسی حیثیت کے مطابق کوئی عورت اپنے سماجی مرتبے کا تعین کرتی ہے اور جب وہ استعداد اور اہلیت رکھنے کے باوجود ماہانہ خرچ یا مخصوص ضروریات پوری کرنے سے ہاتھ کھینچتا ہے تو اس کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان گفتگو اور بات چیت سے اگر یہ معاملہ حل نہ ہو تو اکثر معاملہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج بھی مرد اپنی بیویوں سے بہت زیادہ قربانی، ایثار اور گھر کے ہر کام انجام دینے کی توقع رکھتے ہیں، لیکن مالی حیثیت کے مطابق اکثریت اب بھی عورتوں کے نان و نفقہ کو محدود کردیتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عورت اپنے شوہر کے دکھ سکھ میں اس کا ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ اس کے مالی وسائل اور بساط کے مطابق ہی اپنی ضروریات اور خواہشات کا اظہار کرے اور اس پر بوجھ نہ ڈالے۔ ایک اچھا جیون ساتھی وہی ہوتا ہے جو اپنے گھر کے سکون، خوشیوں کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہو اور مشکل وقت میں اپنے پارٹنر کے ساتھ کھڑا ہو۔ تاہم مردوں کو بھی حق تلفی، نامناسب سلوک اور تکلیف دہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے اور بہ رضا و رغبت نان و نفقہ اور اس سے متعلق طے شدہ باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ سماجی نقطۂ نگاہ سے اس مسئلے یا ایسے جھگڑوں سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ جس وقت شادی کے دیگر معاملات طے ہو رہے ہوں اسی وقت یہ بھی طے کر لیا جائے کہ شوہر کی جانب سے ہر ماہ کتنی رقم بیوی کو جیب خرچ کی مد میں ادا کی جاے گی۔ رقم کا تعین مرد کی مالی حیثیت اور آمدن کے مطابق کیا جائے تاکہ وہ سہولت سے ہر ماہ یہ رقم ادا کر سکے۔ اسی موقع پر لڑکی کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اپنے شوہر کی مالی حالت دیکھ کر ضروریات اور خواہشات کا اظہار کرے گی۔ شادی سے پہلے اس حوالے سے بات چیت اور اتفاقِ رائے کو تحریر کی شکل میں محفوظ کر لینا بھی اچھی بات ہے جس سے اس معاملے پر مستقبل میں کسی جھگڑے کا امکان کم سے کم ہو گا۔ عام طور پر تو بنیادی مالی ضروریات پوری کرنے میں شوہر غفلت نہیں برتتے، مگر اس پر بعض مختلف صورتیں اثر انداز ہوسکتی ہیں جن کی وجہ سے میاں بیوی کے تعلقات  کشیدہ ہو سکتے ہیں اور یہ آئے روز کے جھگڑے کا سبب بن سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر شادی کے بعد لڑکے کے ماں باپ یا بہنوں کی جانب سے کسی وجہ سے دباؤ اور گھریلو نااتفاقیوں کے بعد یہ کہنا کہ کیا ضرورت ہے بیوی پر پیسا لٹانے کی اور اس طرح مرد کو اپنی بیوی کی ضروریات پر رقم خرچ کرنے سے روکنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے زور زبردستی کے علاوہ جذباتی دباؤ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ ماں یا بہنوں کی جانب سے مسلسل طعنے اور بیوی کا ساتھ دینے پر جذباتی طور پر بیٹے یا بھائی کو دباؤ میں لینے کی کوشش کام یاب بھی ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں ایک جوڑے کی ازدواجی زندگی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس طرف سے کوتاہی نہیں برتنا چاہیے اور باہمی رضامندی سے ایسے معاملات طے کر لینا ہی بہتر ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ سب سے بہتر مال وہ ہے جو تم میں سے کوئی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد کے لیے بیوی، بچوں کی کفالت اور ان کی ذمہ داریاں پوری کرنا نہ صرف دنیاوی اعتبار سے ضروری ہے بلکہ مذہب بھی اسے بہترین عمل بتاتا ہے اور اس پر زور دیتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکی اس بندھن کے وقت اپنے فرائض، ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے حقوق سے بھی آگاہ ہو۔ وہ نان و نفقہ اور شوہر پر اپنے حقوق سے متعلق دین کی تعلیمات، سماجی ضابطوں اور قوانین کی سمجھ بوجھ رکھتی ہو تو نہ صرف اس کا مستقبل زیادہ محفوظ ہو گا بلکہ یہ خوب صورت تعلق خوش گوار اور بہت مضبوط ثابت ہو سکتا ہے۔ The post یہ آپ کا حق ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
latestnewsvideos · 5 years
Photo
Tumblr media
مسلمان حکم راں کے اوصاف  نیک اور عادل حکم راں اپنے ملک کو عدل اور انصاف سے بھر دیتا ہے۔ وہی حکم ران عدل و انصاف قائم کرسکتا ہے جو خود عادل ہو، نیک ہو، اس کے دل میں اﷲ کا ڈر ہو۔ عادل حکم ران کی اﷲ کے ہاں بہت قدر و منزلت ہے اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ عادل حکم ران قیامت کے دن اﷲ کے سائے میں ہوگا، جس دن کسی کو سایہ نہیں ملے گا۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: سات قسم کے افراد قیامت کے دن اﷲ کے عرش کے سائے میں ہو�� گے۔ ان میں سے ایک امام عادل ہے جو قیامت کے دن اﷲ کے دائیں جانب نور کے منبر پر ہوں گے، جو کہ اپنی حکومت اور گھر میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ اگر حکم ران نیکی اور تقوی کے مطابق حکومت کرتا اور عدل قائم رکھتا ہے تو اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: امام ڈھال ہے جس کی آڑ میں قتال کیا جاتا ہے اور دفاع ہوتا ہے، اگر وہ تقوی اور عدل سے حکومت کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے اور اگر اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا تو اس کے لیے عذاب ہے۔ نیک حکم ران قوموں اور ملکوں کے لیے خیر اور برکت کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اﷲ قوموں، ملکوں اور خطوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتے ہیں۔ جیسا کہ رسول ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: امام عادل کی کوئی دعا ردّ نہیں ہوتی، اس لیے کہ اﷲ کے ہاں اس کی قدر و منزلت اور عزت ہوتی ہے۔ اسلام میں حکم رانی کا منصب جاہ و حشمت اور حصول منفعت کا باعث نہیں، بل کہ کانٹوں کی سیج اور بھاری ذمے داری ہے۔ اسلام نے حکم ران پر کچھ ذمے داریاں عاید کی ہیں، جنہیں پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوتا ہے اس کے ذمے رعایا کے حقوق ہیں جو اس نے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اسلام نے مسلمان حکم ران پر جو ذمے داریاں عاید کی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ مسلمان حکم ران کی پہلی ذمے داری حق اور عدل کا قیام ہے۔ لوگوں کے تنازعات اور معاملات انصاف کے ساتھ نمٹانا، اﷲ کی شریعت کو نافذ کرنا اور شرعی احکام کے مطابق حدود کا نفاذ کرنا۔ رسول ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: اﷲ حاکم یا قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے، جب حکم ران ظلم کرتا ہے تو اﷲ اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیتا اور پھر اﷲ اس کے معاملات سے بَری ہوجاتا ہے۔ ابوذر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں میں نے ایک دن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ مجھے کیوں کسی سرکاری کام پر نہیں لگاتے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوذر تم ایک کم زور آدمی ہو اور یہ عہدے قیامت کے دن حسرت و ندامت کا سبب ہوں گے، سوائے اس کے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور جو ذمے داریاں اس ڈالی گئی تھیں وہ اس نے ادا کردیں۔ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا وہ سرکاری عہدوں سے بچا کرتے تھے۔ امام شافعیؒ نے مامون کے کہنے کے باوجود قاضی کا عہدہ نہیں لیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے بھی منصور کی حکومت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے اکابر ہیں۔ عوف بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے عہدے کا آغاز ملامت، پھر ندامت، تیسرا درجہ قیامت کے دن عذاب کا ہے۔ الّا یہ کہ عدل کیا جائے۔ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: اﷲ جس شخص کو بندوں پر حکم ران مقرر فرما دے، چاہے لوگ کم ہوں یا زیادہ قیامت کے دن اس سے پوچھا جائے گا کہ ان میں اﷲ کے احکام نافذ کیے یا نہیں ؟ یہاں تک کہ گھر والوں کے بارے میں بھی (یہی) سوال کیا جائے گا۔ انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: اﷲ ہر اس آدمی سے جسے کسی کا نگہبان و حکم ران مقرر کیا گیا یہ سوال کرے گا کہ اپنے ماتحتوں کا تحفظ کیا یا نہیں ؟ یہاں تک کہ آدمی سے اس کے گھر کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔ ابوامامہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں جو بھی آدمی دس یا ان سے زیادہ آدمیوں کا امیر بنتا ہے قیامت کے دن اسے اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن میں باندھا گیا ہوگا یا اس کی نیکی اسے چھڑالے گی یا اس کا گناہ اس کو باندھ دے گا۔ ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ظالم حکم ران کو ہوگا۔ مسلمان حکم ران کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس کے اور عوام کے درمیان رکاوٹیں اور پردے حائل نہ ہوں بل کہ حکم ران کے دروازے ہر وقت عوام کے لیے کھلے رہیں۔ عمرو بن مرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے جو بھی امام، حکم ران ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے دروازے بند رکھتا ہے اﷲ اس کے لیے آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہے۔ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ جس کو مسلمانوں کے امور کا نگہبان بنا دے اور وہ ان کی ضروریات و شکایات سننے کے بہ جائے درمیان میں رکاوٹیں کھڑی کردے، اﷲ اس کے لیے رکاوٹیں پیدا کر دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے اﷲ جس کو مسلمانوں کا حاکم بنائے پھر وہ مظلوموں اور مساکین کے لیے اپنے دروازے بند کردے اﷲ اس کے لیے اپنی رحمت کے دروازے بند کردیتا ہے ۔ ہمارے لیے رسول اﷲ ﷺ کی ذات گرامی اسوۂ حسنہ ہے۔ آپؐ اﷲ کے رسول تھے اور حکم راں بھی تھے۔ آپؐ خود عوام کے حالات کا جائزہ لیتے، مریضوں کی عیادت کرتے، جنازوں میں جاتے اور عام لوگوں کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ ایک عورت نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا، مجھے آپ سے کچھ کام ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کسی بھی گلی کے ایک طرف بیٹھ جاؤ میں بات کرلیتا ہوں۔ اس نے ایسا ہی کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی بات سنی جو اس کی ضرورت تھی وہ پوری کی۔ مسلمان حکم ران کی تیسری ذمے داری عوام کے فائدے کے امور سرانجام دینا، ان سے نرمی و شفقت کرنا، ان کی غلطیوں سے درگزر کرنا، اور جو جس قسم کے فیصلے کا مستحق ہے عدل کے ساتھ وہ فیصلہ کرنا ہے۔ یہ بات اس حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر شخص ذمے دار اور اپنی ذمے داری کے لیے جواب دہ ہے۔ امام اپنے عوام کے لیے، آدمی اپنے گھر کے لیے اور نوکر مالک کے مال کے لیے جواب دہ ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے: اے اﷲ جو شخص میری امت میں سے کسی معاملے کا نگہبان بنے اور وہ امت پر سختی کرے تُو بھی اس پر سختی کر اور جو حکم ران نرمی کرے اے اﷲ تُو بھی اس کے ساتھ نرمی کر۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: جو بھی شخص مسلمانوں کا حکم ران بنتا ہے ان کے لیے کوشش نہیں کرتا، خیر خواہی نہیں کرتا، وہ جنّت کی خوش بُو نہیں پائے گا حالاں کہ وہ خوش بُو سو سال کی مسافت تک آتی ہے۔ مسلمان حکم ران کی پانچویں ذمے داری مسلمانوں کے مال کا تحفظ اور عمالِ حکومت کا محاسبہ کرنا ہے۔ اس ذمے داری کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے، جس میں عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا کہ تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے اور اس سے اس کی ذمے داری کے بارے میں سوال ہوگا۔ امام ذمے دار ہے اس سے عوام کے بارے میں پوچھا جائے گا، آدمی اپنے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس کے لیے جواب دہ ہے۔ عورت اپنے گھر میں ذمے دار ہے اور اس کے لیے جواب دہ ہے۔ ہر شخص ذمے دار ہے اور ذمے داری کے لیے جواب دہ ہے۔ مسلمان حکم ران کی ساتویں ذمے داری ملک کی حفاظت، دیار اسلام کا دفاع، مال و جان کا تحفظ اور امت کو خطرات سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کرنا ہے۔ انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم  سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ والے رات کے وقت کسی آواز کو سن کر گھبرا گئے اور آواز کی سمت چل پڑے تو آگے سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لارہے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پہلے جاکر آواز کا سبب معلوم کرچکے تھے۔ آپؐ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر تھے اور گلے میں تلوار لٹک رہی تھی۔ نبی کریم ﷺ دنیا کے سب سے بہادر انسان تھے اور اپنی رعایا کا خیال رکھتے تھے۔ لوگ سوئے ہوتے تو آپؐ ان کی حفاظت و نگہبانی کیا کرتے تھے۔ دعا ہے کہ اﷲ ہمارے حکم رانوں کو بھی ان اوصاف سے متصف فرما دے۔ آمین ثم آمین The post مسلمان حکم راں کے اوصاف  appeared first on ایکسپریس اردو. Source link
0 notes
discoverislam · 3 years
Text
چھٹیاں کیسے گزاریں؟
جس طرح دنیا بھر میں موسمی تعطیلات ہوتی ہیں اسی طرح ہمارے ملک میں بھی موسم ِگرما میں لمبی تعطیلات اور موسم ِسرما میں مختصر چھٹیاں ہوتی ہیں جن میں طلبا وقتی طور پر سکول‘ کالج اور یونیورسٹی جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے کورونا کی لہرکی وجہ سے بھی طلبا کے وقت کا ایک بڑا حصہ تعلیمی اداروں سے دور گزر رہا ہے۔ چھٹیوں کے اوقات کو طلبا اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ضائع کر بیٹھتی ہے اور بہت سے نوجوان یہ بات جاننے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہمیں چھٹیوں کو کس انداز میں گزارنا چاہیے۔ اگر تعطیلات کو اچھے انداز میں گزار لیا جائے تو انسان اس دوران بہت سے ایسے مفید کام کر سکتا ہے جن کو وہ عام ایام میں کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ تعطیلات کو بہترین انداز میں گزارنے کے لیے وقت کی درست تقسیم ضروری ہے اور اس تقسیم کی وجہ سے بہت سے مفید اُمور کو انجام دیا جا سکتا ہے جن میں سے چند اہم درج ذیل ہے:
1۔ بچوں کی تربیت کا اہتمام: پیشہ ورانہ اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو مناسب وقت دینے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بچوں کے معمولات سے بے خبر رہتے ہیں۔ بچوں کی ترجیحات اور مشاغل کو سمجھنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے والدین اور بچوں کے اوقات آپس میں مربوط نہیں ہو پاتے لیکن چھٹیوں میں اس چیز کا اہتمام کرناممکن ہو جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ گفت و شنید کو بڑھانے کی وجہ سے والدین بچوں کے فکری اور عملی ر جحانات سے واقف ہو سکتے ہیں اور بچوں کی سرگرمیوں کا صحیح طریقے سے ادراک ہو سکتا ہے ۔ اولاد کے بارے میں باخبر ہونے کی وجہ سے والدین بچوں کی احسن انداز میں تربیت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور کسی جگہ کوئی منفی رویہ یا رجحان سامنے آ رہا ہو یا بچہ منفی مشاغل اور دلچسپیوں کی طرف مائل ہو تو والدین اچھے طریقے سے اس کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ والدین اور بچوں کے درمیان ابلاغی فاصلے کا ہونا ہے۔ بہت سے بچے اپنی ذہنی اور فکری الجھنوں کے حوالے سے والدین کے سامنے اپنا مدعا رکھنے سے ہچکچاتے ہیں اور کئی مرتبہ والدین کے سامنے اپنے دل کی بات نہ رکھ پانے کی وجہ سے منفی راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ تعطیلات کا ایک بہترین مصرف یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے معمولات سے بہترین انداز میں آگاہی حاصل کر کے ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔
2۔ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکرِ الٰہی کا اہتمام: قرآن مجید کو ویسے تو ہر روز ہی بکثرت پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے اس لیے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کی سب سے بڑی دستاویز ہے‘ لیکن فرصت کے ایام قرآن مجید سے تعلق استوار کرنے کے لیے بہترین موقع ہوتے ہیں۔ ان ایام میں بچوں اور نوجوانوں کو ناظرہ اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ترجمے اور اس کے مفہوم کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا جا سکے۔ نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ فارغ وقت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر میں منہمک رہنا یقینا دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹنے کا سبب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کو عقل مند قرار دیا ہے جو زمین وآسمان کی تخلیق پر غوروفکر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بکثرت ذکر کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 190‘ 191 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں یقینا نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔
وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں اللہ کا کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غوروفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب نہیں پیدا کیا تو نے یہ (سب کچھ) بیکار ‘ تو پاک ہے (ہر عیب سے) پس بچا ہمیں آگ کے عذاب سے‘‘۔ 
3۔ کتب بینی: تعطیلات کا ایک اہم مصرف مطالعے کو وسعت دینا بھی ہے۔ کامیاب طلبا فقط نصابی کتب پر انحصار نہیں کرتے بلکہ دیگر کتب کا مطالعہ کر کے اپنے علم اور مطالعے میں وسعت پیدا کرتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کتب بینی سے دور ہو چکی ہے اور سنی سنائی غیر مصدقہ معلومات پر بکثرت انحصار کیا جاتا ہے جبکہ اصل مصادر کی طرف مراجعت کا رجحان دن بدن کم ہو جا رہا ہے۔ گرمیوں کی تعطیلات میں چار سے پانچ اہم کتب کا مطالعہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ چونکہ سردیوں کی تعطیلات قدرے مختصر ہوتی ہیں اس لیے ان میں کسی ایک اہم مذہبی‘ سیاسی ‘ تاریخی یا سائنسی کتاب کا مطالعہ کرنا یقینا طلبا کے مطالعے میں وسعت کا سبب بن سکتا ہے۔
4۔ ورزش کا اہتمام: مسلسل تعلیم کے بوجھ کی وجہ کئی مرتبہ محنتی طالب علم اپنی جسمانی نشوونما اور صحت سے بھی غافل ہو جاتا ہے۔ تعطیلات میں انسان کو فراغت میسر آ جاتی ہیں اور طالب علم اپنی جسمانی صحت پر توجہ دے کر اپنے آپ کو ایک بہتر اور طاقتور انسان میں تبدیل کر سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ مفید سماجی کارکن کے طور پر معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ 
5۔ اہل ِعلم کی صحبت کو اختیار کرنا: تعلیمی سرگرمیوں کے دوران مختلف فنون کے ماہرین کی صحبت کو اختیار کرنا انسان کے لیے کافی مشکل ہو جاتا ہے لیکن تعطیلات میں مختلف علوم کے ماہرین تک رسائی حاصل کرنا ‘ ان کی صحبت میں وقت کو گزارنا‘ ان کے لیکچرز کو سننا اوران کی فکری اور علمی گفتگو سے مفید معلومات کو اخذ کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؛ چنانچہ مستقبل میں علمی ترقی کا ذوق رکھنے وال�� طلبا فارغ وقت کو ضائع کرنے کی بجائے اپنے وقت کا ایک حصہ اہلِ علم ودانش کی صحبت میں گزار کر فکری اور ذہنی نشوونما کے مراحل کو طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ بہت سے طلبا میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر ہونے والی ان اہم تقریبات میں ذوق اور شوق سے شرکت نہیں کرتے جن میں ممتاز ماہرین تعلیم بطور لیکچرار تشریف لاتے ہیں‘ یوں وہ فکر و دانش کے بہت سے موتیوں کو چننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ طلبا کو یونیورسٹیز کی ایسی تمام تقریبات میں دل جمعی سے شرکت کرنی چاہیے اور تعطیلات میں وقت کا ایک حصہ اہل علم کی صحبت میں گزارنے کیلئے وقف کرنا چاہیے۔
6۔ والدین کی خدمت اور رشتہ داروں سے ملاقات: والدین انسان کے بہت بڑے محسن ہیں اور وہ اس کی ترقی کے لیے اپنے وسائل اوروقت کا بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ انسان خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے وہ اپنے والدین کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ تاہم انسان کو حسنِ نیت کے ساتھ والدین کی خدمت کے لیے اپنے وقت ‘ صلاحیتوں اور توانائیوں کو صرف کرنا چاہیے ۔ تعطیلات کے ایام اس اعتبار سے انسان کے لیے ایک بہترین موقع ثابت ہوتے ہیں کہ وہ گھریلو اُمور میں والدین کے بوجھ کو کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح تعطیلات میں انسان کو بہت سے اعزا و اقارب کے ساتھ میل ملاقات کرنے اور ان کی دعائیں لینے کا موقع بھی میسر آ جاتا ہے۔ اگر وہ اپنے رشتہ داروں اور اعزا واقارب کے ساتھ جا کر ملتا ہے تو لازماً ان کے دلوں میں اس کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسانوں کے مابین روابط تعلقات کی پختگی کا اہم ذریعہ ہیں۔ عصرِ حاضر میں انسان مصروفیات کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے کٹ کے رہ گئے ہیں۔ انسان کو اپنے وقت کو صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے اعزا واقارب سے ضرور ملنا چاہیے اور صلہ رحمی کے تحت ان کے حالات سے باخبر رہنا چاہیے۔ اگر وہ کسی چیز کے طلب گار ہوں یا ضرورت مند ‘ تو ان کی ضروریات کو پورا کر کے نیک تمناؤں اور دعاؤں کو حاصل کرنا چاہیے۔ یہ نیک تمنائیں اور دعائیں انسان کی آنے و الی زندگی میں استحکام اور ترقی کا سبب بن جاتی ہیں۔
7۔ غریبوں ‘ محتاجوں اور کمزوروں کی مدد: انسان پر سماج کے حوالے سے بہت سی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سے ایک اہم ذمہ داری غریبوں‘ محتاجوں کے کام آنا ہے۔ تعلیمی مشغولیات کے دوران کئی مرتبہ انسان اس اہم ذمہ داری کو نبھانے سے قاصر رہتا ہے لیکن تعطیلات کے ایام میں خصوصیت سے کچھ وقت غریبوں ‘ مسکینوں اور یتامیٰ کی مدد کے لیے ضرورت نکالنا چاہیے ۔ اگر انسان غربیوں‘ یتامیٰ اور مساکین کی مدد کے لیے کمر بستہ ہو جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا ہو؛ چنانچہ نوجوانوں کو مفید کاموں کی انجام دہی کے لیے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ اگر مندرجہ بالا امور کو حسبِ استطاعت انجام دے دیا جائے تو یقینا تعطیلات بامقصد طریقے سے گزر سکتی ہیں اور انسان تعطیلات سے بہت کچھ حاصل کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری اولادوں اور قوم کے نوجوانوں کو بہترین انداز میں زندگی گزارنے کی توفیق دے تاکہ وہ معاشرے میں ایک مفید کارکن کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے سکیں۔
علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
0 notes
hassanriyazzsblog · 1 year
Text
🌹🌹 *ꓕSՈꓤꓕ ƎHꓕ NꓤՈꓕƎꓤ*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣7️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *RETURN THE TRUST*
*The Quran urges, “O people, pay the trust to the trustees.”*
(Quran 4:58)
*This Quranic command relates to the whole of life.*
One form of trust is that if one has another’s property as a trust, it is obligatory for them to deliver it to its owner.
In the same way, a teacher of a school is also a trustee, and the students are in his trust.
The teacher must understand his responsibility and should not neglect the rights of the students entrusted to him.
In the same way, when a person becomes the ruler of a country, that country has come under his trust and he has become its trustee.
*In such a case, the ruler must fulfill the expectations of the people.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *"امانت داری" :*
*قرآن مجید میں "اللہ سبحانہ وتعالی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے۔"*
(قرآن 4:58)
*اس قرآنی حکم کا تعلق انسان کی پوری زندگی کے معاملات سے ہے۔*
*"امانت داری"* کی ایک شکل یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس دوسروں کی جائیداد، روپیہ پیسہ اور زیورات بطور امانت ہوں، تو اسے *ان کے مالکان تک پہنچانا اس پر واجب ہے۔*
اسی طرح اسکول کا استاد بھی امانت دار ہوتا ہے اور طلبہ اس کی امانت میں ہوتے ہیں۔
اس لیے استاد کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور اس کے سپرد طلبہ کے حقوق میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح، جب کوئی شخص کسی ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان کاحکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) بنتا ہے، تب وہ ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان اس کی امانت میں ہوتے ہیں اور وہ ان کا امانت دار بن جاتا ہے۔
*اس صورت میں حکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) کو اپنے زیر دست لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍂 *امانت داری* 🍂
*دینِ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے* ، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ہو۔ ایسے ہی افعال میں سے ایک *“ امانت داری “* بھی ہے۔
اسلام میں *امانت داری* کی بڑی اہمیت ہے۔ *اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے :" بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو۔"*
🍂 *رسولُ اللہ ﷺ اور امانت داری :*
*رسولُ اللہ ﷺ کی ز ندگی امانت داری کا بہترین نمونہ تھی۔ آپ ﷺ کی ا مانت داری ہی کی وجہ سے کفارِ مکہ بدترین دشمن ہونے کے باوجود آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے۔*
🍂 *قابلِ تعریف افراد :*
*جو لوگ امانت داری کے وصف سے آراستہ ہوتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی بروقت ادائیگی کرتے ہیں وہ لوگوں میں پسندیدہ اور قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔ امانت داری ایمان والوں کی بہترین صفت ہے اور ایک مسلمان کا امانت دار ہونا بہت ضروری ہے۔*
*رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا : جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ [یعنی ایمان کا مل نہیں]*
🍂 *امانت داری کا وسیع مفہوم :*
*آج کل ہم سمجھتے ہیں کہ امانت داری کا تعلق صر ف مال سے ہے اور اگر کسی نے ہمارے پاس کوئی مال رکھوایا تو اس کی حفاظت کرنا اور اسے وقت پر مکمل طور پر واپس کر دینا ہی امانت داری ہے۔ یہ بات دُرست ہے لیکن جس طرح یہ امانت ہے اسی طرح اور بھی بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں۔*
*اللہ پاک اور اس کے بندوں کے وہ حقوق جو ہمارے ذمے ہوں اور ان کی حفاظت و ادائیگی ہم پر لازم ہو انہیں امانت کہتے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کریم اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی امانت داری ہے چنانچہ نماز پڑھنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، زکوٰة دینا ، حج کرنا ، سچ بولنا اور دیگر نیک اعمال ادا کرنا بھی امانت ہے۔ اسی طرح انسان کے اعضاء مثلاً زبان ، آنکھ ، کان ، ہا تھ وغیرہ بھی اللہ پاک کی امانت ہیں اور ان اعضاء کو گناہوں اور فضولیات سے بچانا ان اعضاء کے معاملے میں امانت داری ہے۔ یوں ہی دوسرے کے راز کی حفاظت کرنا ، پوچھنے پر دُرست مشورہ دینا ، مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرنا ، مزدور اور ملازم کا اپنا کام مکمل طور پر پورا کرنا بھی امانت داری میں داخل ہے۔*
🍂 *ہم اور امانت داری :*
*جس طرح آج ہمارے معاشرے میں دیگر کئی اچھائیاں دَم توڑتی دکھائی دیتی ہیں وہیں امانت داری کا بھی فُقدان نظر آتاہے۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ امانت دار اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے افراد کو بعض کم عقل لوگ بے وقوف سمجھنے لگے ہیں۔ گویا معاشرے کی س��چ اس قدر منفی ہوچکی ہے کہ بُرائی کو اچھائی اور اچھائی کو بُرائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر امانت داری کی صفت کو اجاگر کریں اور دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کریں۔*
🍁 *اللہ پاک ہمیں تمام امانتوں کی حفاظت کرنے اور ان کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے ایک امانت دار اور سچا پکا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ، اٰمین۔*🍁
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
mypakistan · 11 years
Text
Importance of your vote
  قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ غلط یا جھوٹی گواہی سے بچو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ووٹ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں ووٹ ہے ہی کیا… بیلٹ پیپر پر لگنے والی ایک مہر۔ لیکن یہ مہر ہی حکمرانوں کا تعین کرتی ہے، عام لوگوں کو قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن، وزیر اور وزیراعظم بناتی ہے، اور یہ لوگ پھر قوم کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔
...
چنانچہ شہادت سچی ہوگی تو حکمران بھی سچے ہوں گے۔ شہادت جھوٹی ہوگی تو حکمران بھی جھوٹے ہوں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی گواہی آپ کی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کا باعث بھی بن سکتی ہے اور انہیں خراب کرنے کا سبب بھی۔
(شاہنواز فاروقی)
Importance of your vote
0 notes
risingpakistan · 11 years
Text
Importance of your vote
  قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ غلط یا جھوٹی گواہی سے بچو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ووٹ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں ووٹ ہے ہی کیا… بیلٹ پیپر پر لگنے والی ایک مہر۔ لیکن یہ مہر ہی حکمرانوں کا تعین کرتی ہے، عام لوگوں کو قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن، وزیر اور وزیراعظم بناتی ہے، اور یہ لوگ پھر قوم کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔
...
چنانچہ شہادت سچی ہوگی تو حکمران بھی سچے ہوں گے۔ شہادت جھوٹی ہوگی تو حکمران بھی جھوٹے ہوں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی گواہی آپ کی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کا باعث بھی بن سکتی ہے اور انہیں خراب کرنے کا سبب بھی۔
(شاہنواز فاروقی)
Importance of your vote
0 notes