Tumgik
#قومی ٹیم
akksofficial · 2 years
Text
ہم بھارت سے اس وقت بہتر ہیں، شاداب خان
ہم بھارت سے اس وقت بہتر ہیں، شاداب خان
میلبرن (نمائندہ عکس) قومی ٹیم کے آل رائونڈر شاداب خان نے کہاہے کہ ہم بھارت سے اس وقت بہتر ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان ٹیم کے نائب کپتان شاداب خان نے کہاکہ پاکستان اوربھارت کے درمیان میچ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، بطور ٹیم ہم اچھا کھیل رہے ہیں اور اس وقت ہم بھارت سے بہتر ہیں۔
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
مکی آرتھر، گرانٹ بریڈ برن اور اینڈریو پٹک اپنے عہدوں سے مستعفی
مکی آرتھر، گرانٹ بریڈ برن اور اینڈریو پٹک اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔ مکی آرتھر، گرانٹ بریڈ برن اور اینڈریو پٹک جنہیں نومبر 2023 میں اپنے رول میں تبدیلی کے بعد لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں فرائض سونپے گئے تھے انہوں نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اپریل 2023 میں مکی آرتھر کو پاکستان مینز کرکٹ ٹیم کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا جبکہ گرانٹ بریڈ برن کو گزشتہ سال کے شروع میں پاکستان کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
قومی ہاکی ٹیم کے منیجر مستعفیٰ
قومی ہاکی ٹیم کے منیجر مستعفیٰ
پاکستان ہاکی ٹیم کے منیجر خواجہ جنید اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں جس پر ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری آصف باجوہ کا کہنا ہے کہ خواجہ جنید نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ وہ منیجر کی ذمہ داری نہیں نبھا سکتے۔ تفصیلات کےمطابق آصف باجوہ نے کہا کہ 12 کھلاڑیوں کو ایشیا کپ میں کھلانے کے معاملے اور انکوائری کمیٹی سے ان کا تعلق نہیں۔ لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سیکرٹری پی ایچ ایف آصف باجوہ نے بتایا کہ خواجہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 2 years
Text
قومی ٹیم کے سلیکشن مسائل سابق کرکٹرز کو کھٹکنے لگے
قومی ٹیم کے سلیکشن مسائل سابق کرکٹرز کو کھٹکنے لگے
لاہور: ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے دوران قومی ٹیم کے سلیکشن مسائل پر سابق کرکٹرز نے محمد وسیم کو نشانے پر رکھ لیا۔ راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ویسٹ انڈیز سے سیریز کے دوران بیٹنگ میں حارث سہیل کی کمی محسوس ہوئی،مڈل آرڈر بیٹر تکنیکی طور پر مضبوط اور مختلف پچز و کنڈیشنز میں پرفارم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کویکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شاہد آفریدی نے کہا کہ محمد حارث کو پلیئنگ الیون میں شامل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 9 months
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
Tumblr media
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔ 
Tumblr media
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
urduintl · 30 days
Text
0 notes
risingpakistan · 5 months
Text
سیاست میں گر رہنا ہے تو جئے جنرل کہنا ہے
Tumblr media
سیاست میں آدھا کام سیاستدان کی عام آدمی سے رابطے کی صلاحیت اور محنت کرتی ہے اور باق کام اس پر لگی چھاپ سے ہو جاتا ہے۔ یعنی سیاستدان دائیں بازو کا ہے کہ بائیں کا، دبنگ ہے کہ موقع پرست، وعدہ نبھانے والا ہے یا وعدہ فراموش عوامی طاقت پر کامل یقین رکھتا ہے یا چور دروازے کو بھی مباح سمجھتا ہے۔ وقت آنے پر وفاداروں کے ساتھ کھڑا رہتا ہے یا ترغیب و تحریص و دباؤ کے سبب ان کی بلی چڑھانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اپنی بات پر اڑ جاتا ہے یا حالات و ذاتی و بقائی فائدہ دیکھ کے رنگ بدل لیتا ہے۔ سیدھی بات کرتا ہے یا خود کو ہر بار درست ثابت کرنے کے لیے ہٹ دھرمی کی جلیبی بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔ سچائی کچھ بھی ہو مگر چھاپ اکثر سچائی کو دبا لیتی ہے۔ مثلاً جماعتِ اسلامی لاکھ کہتی رہے کہ اس کے ارکان دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ منظم، ایمان دار، متقی و پرہیز گار ہیں۔ مگر جب جماعت کے سیاسی کردار کی بات ہوتی ہے تو عموماً یہ سننے کو ملتا ہے کہ ارے چھوڑیے صاحب وہ تو ہر اہم دوراہے پر عسکری اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ثابت ہوئی ہے۔
جمعیت علما اسلام کے فضل الرحمان کے والدِ محترم مفتی محمود کی سیاست بے شک اصولی رہی ہو گی۔ خود فضل الرحمان نے بھی اپنی جوانی میں مارشل لا مخالف ایم آر ڈی جیسی جمہوریت پسند تحریکوں کا ساتھ دیا ہو گا۔ مگر آج مولانا کی تصویر یوں ہے کہ وہ عملی سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ اعصابی تناؤ سے دور ہیں۔ اسی لیے ��یک وقت پانچ گیندیں ہوا میں اچھال سکتے ہیں اور کبھی گرنے نہیں دیتے۔ لفافہ دیکھ کے خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ کسی بھی فائدہ مند سودے بازی میں اپنے قریبی عزیز و اقارب کو بھی برابر کا حصہ دار بناتے ہیں۔ شکار اور شکاری کے ساتھ بیک وقت دوڑنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں اور بوقت ضرورت وضع داری و سہولت برقرار رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے بھی کام آ جاتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی جب تک نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) تھی تب تک بائیں بازو کی ایک سرکردہ قوم پرست جماعت کہلاتی تھی۔ مگر جدید اے این پی ایک ایسی خاندانی جاگیر ہے جو عملیت پسند سیاست پر یقین رکھتی ہے۔
Tumblr media
اس میں اگر کوئی نظریاتی مخلوق پائی جاتی ہے تو وہ اس کے پرانے سیاسی کارکن ہی ہیں۔ اگر پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت نہیں تو دشمنی بھی نہیں۔ پہلے وہ قومیتی مفاد کی حامی تھی۔ اب ’وسیع تر قومی مفاد‘ کی حامی ہے۔ خان عبدل ولی خان کی زندگی تک اس کی جڑیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے خاصے بڑے رقبے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اب اس کے زیادہ تر اثرات ولی باغ سے پشاور تک ہیں۔ گویا یہ اپنی ہی عظمتِ رفتہ کی نشانی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف جب عوامی سطح پر متعارف کروائی گئی تو اسے عسکری اسٹیبلشمنٹ کی تازہ فخریہ پیش کش اور ملکی مسائل کے حل اور سیاسی گند کی صفائی کرنے والا الہ دین ٹائپ چراغ بتایا گیا مگر پونے چار برس کے اقتدار میں ہی یہ فخریہ پیش کش ایسا کمبل بن گئی جس سے اسٹیبلشمنٹ تو جان چھڑانا چاہ رہی ہے لیکن کمبل جان نہیں چھوڑ رہا۔ حالانکہ نو مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کی کمبل کٹائی بھی لگاتار جاری ہے۔ الہ دین اندر ہے اور چراغ باہر اور وہ بھی بجھا بجھا سا۔ فی الحال اس پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی چھاپ ہے۔ 
مگر پاکستان میں وقت اور چھاپ بدلتے دیر کہاں لگتی ہے۔ مثلاً جب پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو وہ سرمایہ داری و جاگیر داری کے خلاف ’اینٹی اسسٹیٹس کو‘ جماعت کا رنگ لیے ابھری۔ اسی سانچے میں پارٹی ورکرز کو بھی ڈھالا گیا۔ یہ جماعت پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ مگر مشرف کے این آر او کو قبول کرنے کے بعد ایک نئی چھاپ چپکنی شروع ہو گئی کہ وہ والی پیپلز پارٹی عوامی امنگوں کی ترجمان تھی۔ یہ والی پیپلز پارٹی نہ بائیں کی رہی نہ دائیں بازو کی بلکہ دھنئے کا شربت پی ہوئی ایک ہومیوپیتھک جماعت ہے۔ اس کی قیادت ذاتی ’سٹیٹس کو‘ کا تحفظ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ علامتی طور پر ملک گیر مگر عملاً صوبائی ہے۔ جب تشکیل پائی تھی تو ڈرائنگ روم کی سیاست کو سڑک پر کھینچ لائی تھی۔ پچپن برس بعد وہ سیاست کو دوبارہ ڈرائنگ روم میں لے گئی ہے اور عام آدمی جو پہلے لیڈر کے بنگلے میں پاؤں پسارے بیٹھا رہتا تھا اب گیٹ کے باہر بٹھایا جاتا ہے۔ جو قربانیوں کا پارٹی سرمایہ تھا وہ بھی دو ہزار آٹھ تک کھلا کرا لیا گیا۔ اب عوام کو کچھ نیا دینے کو نہیں بچا۔
مسلم لیگ نواز آغاز سے ہی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے۔ اس کے اکثریتی شیئرز ایک ہی خاندان کے پاس ہیں۔ ابتدا میں یہ بھی اصلی مسلم لیگ کی ایک دور پار کی فرنچائز تھی مگر اس نے دیگر لیگی دھڑوں کے برعکس رفتہ رفتہ پنجاب کی حد تک عام آدمی کو متوجہ کر کے ایک مقبول جماعت بننے میں کامیابی حاصل کی۔ شروع میں اس پر ضیا نوازی کا سٹیکر لگا ہوا تھا اور اسے پیپلز پارٹی کو ’وختہ‘ ڈالنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ مگر تیسری بار اقتدار سے محرومی کے بعد اس کی قیادت نے کچھ عرصے کے لیے چی گویرا اور منڈیلا بننے کی کوشش کی۔ لیکن اب دوبارہ اس مصرعے کی قائل ہو گئی ہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔ سیاست میں گر رہنا ہے تو جئے جنرل کہنا ہے۔ پاکستان میں پچھلے چالیس برس میں کئی مد و جزر آئے مگر کوئی طوفان بھی نونی خاندان کا اندرونی اتحاد نہ توڑ سکا۔ پارٹی سٹرکچر بہت سادہ اور نظامِ شمسی کے اصول پر استوار ہے۔ ایک سورج اور اس کے گرد گھومتے گوجرانوالہ کے مریخ، سرگودھا کے عطارد، سیالکوٹ کے پلوٹو، گجرات کے نیپچون، فیصل آباد کے زحل اور لاہور کے زہرہ وغیر وغیرہ۔
بلوچستان میں جو سیاستدان اور جماعتیں آج بھی وفاق پرست ہیں۔ ان کا کردار سٹیپنی کا رہا ہے۔ جب اور جہاں جس گاڑی کے لیے ضرورت پڑی بارعائیت دستیاب ہو گئے۔ ایم کیو ایم کا بھی کچھ ایسا ہی احوال ہے۔ مندرجہ بالا تمام جماعتیں دراصل سیاسی قبائل ہیں۔ جب تک یہ قبائل خود کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ایک ایسی سیاسی جماعت کے جسم میں نہیں ڈھالتے جس میں نیا خون مسلسل بننا اور گردش میں رہنا چاہیے تب تک یہ طرح طرح کی متعدی بیماریوں کا شکار رہیں گے اور اسٹیبلشمنٹ ان کی اسی دلجمعی سے عیادت و علاج کرتی رہے گی۔ ایسے میں الیکشن سوائے ایک لاحاصل ورزش کے کچھ نہیں۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
apnabannu · 8 months
Text
پاک بھارت ٹاکرا؛ پاکستانی ہندو برادری کی مندر میں قومی ٹیم کی فتح کیلئے دعائیں
http://dlvr.it/SvWs3d
0 notes
Text
قومی ٹیم لنکن سرزمین پر سب سے زیادہ ٹیسٹ سیریز جیتن�� والی ٹیم بھی بن گئی
پاکستان نے سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں کامیابی کے ساتھ ہی اور اعزاز حاصل کرلیا۔ کولمبو کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں سری لنکا اننگز اور 222 رنز سے شکست دے کر سیریز 0-2 سے اپنے نام کرتے ہوئے سب سے زیادہ ٹیسٹ سیریز جیتنے والی ٹیم بھی بن گئی۔ گال میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان نے میزبان ٹیم کو 4 وکٹوں سے شکست دی تھی، اس فتح کے ساتھ ہی پاکستان نے سری لنکا میں پانچویں ٹیسٹ سیریز جیت کر ریکارڈ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cnnbbcurdu · 10 months
Text
ورلڈکپ؛ عمر اکمل کی ٹیم میں شمولیت کے حوالے سے آفریدی کا بیان سامنے آگیا
انہیں فٹنس پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے، سابق کپتان (فوٹو: ایکسپریس ویب) قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور چیف سلیکٹر شاہد آفریدی کا کہنا ہے کہ بھارت میں شیڈول ورلڈکپ 2023 میں مجھے عمر اکمل کی جگہ نہیں نظر آتی۔ مقامی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق کپتان شاہد آفریدی نے مڈل آرڈر بیٹر عمر اکمل سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا کہ وہ میرے پسندیدہ کھلاڑیوں میں رہا ہے لیکن اُس نے اپنی فٹنس پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
پاکستان جونیئر لیگ کی بدولت اچھے کھلاڑی مستقبل میں قومی ٹیم کو دستیاب ہوں گے'رمیز راجہ
پاکستان جونیئر لیگ کی بدولت اچھے کھلاڑی مستقبل میں قومی ٹیم کو دستیاب ہوں گے’رمیز راجہ
لاہور (نمائندہ عکس) پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے کہا ہے کہ پاکستان جونیئر لیگ کی بدولت اچھے کھلاڑی مستقبل میں قومی ٹیم کو دستیاب ہوں گے،کرکٹ کے حوالے سے پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے۔انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ آئیڈیل تو یہی ہے کہ پی ایس ایل کی ایمرجنگ کیٹیگری میں پی جے ایل کے کھلاڑی منتخب ہوں۔انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل میں انہیں موقع نہیں بھی دیا جاتا تو ان کے پاس کئی ایک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 4 months
Text
فٹنس مسائل کے شکار نسیم شاہ، شاداب خان، حسنین اور احسان اللہ انٹرنیشنل ٹی 20 لیگ کھیلنے کے خواہاں
قومی کرکٹ ٹیم کے ارکان مسلسل انجری کا شکار ہیں اور ٹیم انٹرنیشنل میچز میں مسلسل شکست کھا رہی ہے لیکن انجری اور انٹرنیشنل میچز میں شکست کے باوجود کھلاڑیوں کو لیگز کھیلنے کی فکر ستارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق فٹنس مسائل سے دوچار نسیم شاہ ، شاداب خان ، محمد حسنین اور احسان اللہ نے بھی لیگز کھیلنے کے لیے بورڈ کو درخواستیں دی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ بورڈ مینجنٹ نے ان چاروں کھلاڑیوں کی این او سی کے لیے دی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mctrendz · 11 months
Link
جناح ہاؤس حملہ، قومی وویمن فٹبال ٹیم کی گول کیپر شمائلہ ستار لاہور سے گرفتار - https://mctrendz.com/?p=10187 - جناح ہاؤس ...
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
قومی ہاکی ٹیم کے غیر ملکی ہیڈ کوچ تاحال پاکستانی ویزے سے محروم
قومی ہاکی ٹیم کے غیر ملکی ہیڈ کوچ تاحال پاکستانی ویزے سے محروم
قومی ہاکی ٹیم کے غیر ملکی ہیڈ کوچ سیگفرائیڈ ایکمین  تاحال پاکستانی ویزے سے محروم ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے قومی ہاکی ٹیم کے ہیڈ کوچ سیگفرائیڈ ایکمین   کو تاحال  پاکستانی ویزہ نہیں مل سکا ہے۔ قومی ٹیم  کے ہیڈ کوچ نے پاکستانی ویزہ حاصل کرنے کے  لیے تمام کاغذات جمع کروادئیے ہیں تاہم نیدرلینڈز میں موجود پاکستانی ایمبیسی سے تاحال کلیئرنس نہ مل سکی۔ سیگفرائیڈ ایکمین کا کہنا ہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 4 months
Text
سابق معروف کرکٹر خالد لطیف بھی انتخابی میدان میں آگئے - ایکسپریس اردو
خالد لطیف ملیر سے سندھ اسمبلی کے امیدوار ہوں گے۔فوٹو: اسکرین گریب   کراچی: قومی کرکٹ ٹیم کے سابق اوپنر اور جارح مزاج بلے باز خالد لطیف بھی 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں کراچی سے سندھ اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑیں گے اور ان کے لیے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے ٹکٹ جاری کردیا ہے۔ ٹی ایل پی نے کراچی سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں اور اقلیتوں کے لیے  مخصوص نشستوں پر اپنے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 5 months
Text
معاملہ صرف معیشت کا نہیں ہے
Tumblr media
1992 کے امریکی صدارتی مقابلے کے دوران بل کلنٹن کی انتخابی ٹیم نے ’یہ معیشت ہے، بےوقوف!‘ کا جملہ تخلیق کیا تاکہ اس بات پر زور دیا جا سکے کہ کسی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرنے میں رائے دہندگان کے لیے معیشت اہم مسئلہ ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ ایک جمہوری نظام کے اندر ہوا تھا، جہاں سیاسی مخالفین کی طرف سے مختلف دیگر امور سمیت متبادل معاشی ترجیحات کا بھی بھرپور مقابلہ کیا گیا۔ حال ہی میں پاکستانی سیاست کی کشمکش میں یہاں کی معیشت بھی مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ معیشت کی بحالی کو بہت سے ماہرین اور پالیسی ساز قومی سلامتی سمیت ملک کی تمام خرابیوں کے علاج کے طور پر دیکھتے ہیں۔ طاقت کے روایتی مراکز، جو سیاسی حیثیت کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں اور ساتھ ہی ٹیکنوکریٹ حکومت کے حامی، ’معیشت کا چارٹر،‘ ’قومی سلامتی کی پالیسی،‘ ’خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)‘ اور ’جیو اکنامکس‘ جیسے ڈھانچوں کو اپنا کر معاشی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں تبدیلی لانے کے لیے عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بظاہر افراتفری والے جمہوری عمل کے متبادل کے طور پر فروغ دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا مقصد اہم معاشی فیصلوں کو مبینہ طور پر ’گندے‘ سیاسی مباحثے اور عوامی جانچ پڑتال کے دائرے سے باہر رکھنا ہے۔
معیشت بلاشبہ اہم ہے، لیکن نہ صرف یہ کسی قوم کی صحت کا واحد تعین کنندہ نہیں، بلکہ یہ مختلف جہتوں پر بھی منحصر ہے جو معاشی معیارات سے بالاتر ہو کر معاشرے کی زندگی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ معاشی اشاریوں پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش، خاص طور پر جب اسے سیاسی گفتگو سے الگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ان عوامل کے پیچیدہ تجزیے کو مبہم بنا دیتی ہے، جو اجتماعی طور پر لوگوں کی فلاح و بہبود اور قوموں کی تقدیر بناتے ہیں۔ سب سے پہلے، سماجی ہم آہنگی اور سب کی شمولیت ایک قوم کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک معاشرے کی طاقت نہ صرف اس کی معاشی خوشحالی بلکہ اس میں بھی ہے کہ وہ اپنے شہریوں میں کمیونٹی اور وابستگی کے احساس کو کس طرح پروان چڑھاتا ہے۔ کسی قوم کی فلاح و بہبود کا اندازہ سماجی اعتماد کی سطح، باہمی تعلقات کے معیار اور اس کے اداروں کی شمولیت سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف معیشت پر توجہ مرکوز کرنے کا نتیجہ ایک منقسم معاشرے کی صورت میں نکل سکتا ہے، جہاں عدم مساوات بڑھتی اور سماجی تعلقات کمزور ہوتے ہیں۔
Tumblr media
مزید برآں، اظہار رائے کی آزادی، اجتماع اور تنقیدی فکر کی پرورش نہ صرف سماجی اور سیاسی ترقی کے اہم اجزا ہیں بلکہ ایک متحرک معیشت کا لازمی جزو بھی ہیں۔ خیالات کا آزادانہ تبادلہ متنوع برادریوں کو پروان چڑھاتا، تخلیقی صلاحیتوں اور جدت طرازی کے لیے موزوں ماحول کو فروغ دیتا ہے۔ اس تناظر میں، جوزف شمپیٹر کا ’تخلیقی تباہی‘ کا تصور خاص طور پر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ جمہوری عمل سیاسی میدان سے باہر تک پھیلا ہوا ہے، جس سے مروجہ خیالات اور طریقوں کے مقابلے کی اجازت ملتی ہے۔ وہ مضبوط تجارتی منصوبوں اور قائم شدہ اداروں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہ دائمی چیلنج صنعتوں اور وسیع تر معیشت کے اندر موجود اداروں کو مسلسل کارکردگی بڑھانے پر مجبور کرتا ہے۔ جدت طرازی اور ترقی موجودہ ڈھانچوں کے خاتمے اور نئے اور زیادہ متعلقہ ڈھانچوں کے ابھرنے سے ہوتی ہے جو معاشرے کی معاصر ضروریات کو بہتر طریقے سے پورا کرتے ہیں۔ ایک جمہوری نظام میں، لامتناہی مسابقت نئے خیالات اور ڈھانچے کے ابھرنے کے لیے محرک کے طور پر کام کرتی ہے اور اس کے لحاظ سے وسائل کو ان کے سب سے موثر استعمال کے لیے مختص کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
اس متحرک ماحول سے نہ صرف متنوع امنگوں کے لیے راہیں کھلتی ہیں بلکہ بہترین قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ پالیسی سازوں کو ملک کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ ترقی کی پیمائش کے لیے معاشی اعداد و شمار پر حد سے زیادہ انحصار کتنا دھوکہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان پائیدار جامع ترقی کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی استحکام کا فقدان ہے، جسے صرف ایک صحت مند جمہوریت ہی یقینی بنا سکتی ہے۔ پالیسی سازوں کو ملک کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ ترقی کی پیمائش کے لیے معاشی اعدادوشمار پر حد سے زیادہ انحصار کتنا دھوکہ ثابت ہو سکتا ہے۔ 1960 کی دہائی میں ترقی کی دہائی ختم ہو گئی کیونکہ آمریت کا دور سیاسی امنگوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔ نمائندہ حکومت کے لیے عوام کی خواہش کو دبانے کی کوشش ملک کے مشرقی نصف حصے میں عسکریت پسندی میں اضافے کا سبب بنی۔ بالآخر اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ یہ نہ صرف پاکستان کی تاریخ کے سب سے تکلیف دہ باب میں سے ایک تھا بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ معیشت کے نام نہاد سنہری دور کی ترقی کے فوائد اگر مضبوط جمہوری بنیادوں پر نہ ہوں تو آسانی سے الٹ سکتے ہیں۔
آج پاکستان جنوبی ایشیا کے ’مردِ بیمار‘ کے طور پر کھڑا ہے، جو حکمرانی اور فلاح و بہبود کے تقریباً ہر معاملے میں اپنے علاقائی ساتھیوں سے پیچھے ہے۔ حکومتی اداروں میں عوامی مینڈیٹ کا فقدان ہے اور اس وجہ سے ضروری اصلاحات کرنے کا اعتماد نہیں ہے۔ پالیسی سازوں کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹ چکی ہے جو ملک کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ ایک غلط خیال ہے کہ الٹ کام کر کے معیشت پر توجہ دے کر متعدد بحران حل کیے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ماہر معاشیات ثاقب شیرانی نے حال ہی میں کہا تھا: ’نہیں، یہ صرف معیشت ہی نہیں ہے، احمق! پاکستان کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے اور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی طور پر معاشی اشاریوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے گورننس ماڈل کو آئینی جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور ہر پاکستانی کی نمائندگی کو یقینی بنانا ہو گا۔ پھر اس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ ہم معیشت ٹھیک کر لیں گے۔
جاوید حسن
(بشکریہ عرب نیوز) - جاوید حسن انویسٹمنٹ بینکر ہیں جو لندن، ہانگ کانگ اور کراچی میں کام کر چکے ہیں۔  
1 note · View note