Tumgik
#برٹش
globalknock · 2 years
Text
Shreya Dhanwanthary کی نیا فوٹو شوٹ برٹش بکنی میں جس نے پورے میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے
Shreya Dhanwanthary کی نیا فوٹو شوٹ برٹش بکنی میں جس نے پورے میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے
.An Indian actress, Shreya Dhanwanthary works in the Hindi and Telugu film industry and appeared in many films and web series. She is mainly known for the role as Zoya played in the Indian web series named The Family Man which was streamed on Amazon Prime Video in 2019. Apart from this, she has done various projects for which she got recognized. However, here are some more things you probably did…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 4 days
Text
برٹش پاکستانی ڈاکٹر ایاز اصغر کیلئے لائف اچیومنٹ ایوارڈ کا اعزاز
0 notes
urduchronicle · 4 months
Text
برطانیہ گھانا کے لوٹے گئے 'شاہی زیورات' بطور قرض واپس کرے گا
برطانیہ گھانا کے کچھ “شاہی زیورات” کو اشانتی بادشاہ کے دربار سے لوٹنے کے 150 سال بعد وطن واپس بھیج رہا ہے۔ یہ زیورات گھانا کی ملکیت میں نہیں دیئے جا رہے بلکہ طویل مدت کے لیے بطور قرض بھجوائے جا رہے ہیں۔ وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم ( وی اینڈ اے) 17 اشیا قرض دے رہا ہے اور 15 برٹش میوزیم سے ہیں۔ گھانا کے چیف مذاکرات کار نے کہا کہ وہ نسلوں کے غصے کے بعد “ثقافتی تعاون کے ایک نئے احساس” کی امید رکھتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
winyourlife · 7 months
Text
دل کے مرض کی نشان دہی کرنے والی پانچ علامات
Tumblr media
دل ہمارے جسم کا ایک اہم عضو ہے جو ہمیں زندہ رکھنے کے لیے دیگر تمام اعضاء اور بافتوں تک آکسیجن اور اجزاء پہنچاتا ہے لیکن اگر اس اہم پٹھے کے ساتھ کچھ مسئلہ ہو تو اس کی تشخیص میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی سینئر کارڈیک نرس سِنڈی جوڈر کے مطابق عموماً علامت تب ظاہر ہوتی ہے جب کچھ گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ اس لیے قلبی مرض کی علامات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ قلبی مرض کے متعلق کچھ ایسی علامات ہوتی ہیں جن کی نشان دہی آسان ہوتی ہے (جیسا کہ سینے میں درد) لیکن بعض علامات مبہم ہوتی ہیں اور ان کی نشان دہی مشکل ہوتی ہے۔ ماہرین کی جانب سے کچھ علامات ایسی بتائی گئیں ہیں جن کی نشان دہی مبہم ہوتی ہے۔
غیر معمولی تھکن کا احساس پال مال میڈیکل کے جنرل فزیشن ڈاکٹر عادل خان کے مطابق کسی کو غیر معمولی تھکان کے احساس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، اگر کوئی بہت کام کر رہا ہے یا نیند نہیں لے پا رہا تو تھکن کا احساس عام سی بات ہے لیکن غیر معمولی تھکن محسوس ہونے کا معائنہ کرایا جانا چاہیے۔
Tumblr media
غیر معمولی سوجن اس مسئلے میں ٹخنوں اور پیٹ کے حصے میں سوجن آجاتی ہے۔
چکر آنا اگر کسی کو ایک دم چکر آنے لگیں تو یہ خطرے کا علامات ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عادل خان کے مطابق اگر چکر کے آنے یا دیگر علامات مسائل کھڑے کرنے لگیں تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
سانس کا پھولنا اگر کسی شخص کو روزمرہ کی سرگرمیوں میں سانس پھولنے کی شکایت ہو تو بہتر ہے کہ وہ ڈاکٹر سے رابطہ کرے۔
غیر معمولی طور پر پسینے کا آنا سِنڈی جوڈر کے مطابق شدید ورزش کیے بغیر ہی گرمی لگنا اور زیادہ پسینے کا آنا نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
کھٹملوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے؟
Tumblr media
کہا جا رہا ہے کہ پیرس اور دیگر فرانسیسی شہروں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے کیونکہ حالیہ ہفتوں میں بظاہر بیڈ بگز یا بستر میں پلنے والے کیڑے یا کھٹملوں کے کاٹنے سے انفیکشن میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب ہیں۔ چلیے ان کے متعلق کچھ بنیادی حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کھٹمل کیسے نظر آتے ہیں؟ کھٹمل چھوٹے ہوتے ہیں، بالغ کھٹملوں کی لمبائی تقریباً 5 ملی میٹر تک ہوتی ہے (چاول کے دانے سے بھی کم) اور یہ بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ ان کی چھ ٹانگیں ہیں اور یہ گہرے پیلے، سرخ یا بھورے رنگ کے ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کھٹملوں کی دنیا بھر میں تقریبا�� 90 انواع ہیں، حالانکہ عام بیڈ بگ (cimex lectularius) نے اپنے آپ کو انسانی ماحول کے لیے بہترین طریقے سے ڈھال لیا ہے۔ ’بیڈ بگ‘ لفظ شاید تھوڑا سا گمراہ کن بھی ہو سکتا ہے کیونکہ کھٹمل گدوں کے ساتھ ساتھ، لباس، فرنیچر، بستر کے فریموں، یا ڈھیلے وال پیپر کے پیچھے بھی مل سکتے ہیں۔
کس طرح پتہ چلے گا کہ بستر میں کھٹمل ہیں؟ سب سے پہلے تو ان کے کاٹنے سے ہی پتہ چل جائے گا اور یہ سب سے اہم بھی ہے اور جس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس جگہ پر عموماً خارش ہوتی ہے۔ ان کے کاٹنے کے نشان اکثر ایک لائن میں ہوتے ہیں یا پھر ایک جگہ گروپ کی شکل میں۔ سفید جلد پر کاٹے عام طور پر سرخ نظر آتے ہیں، جبکہ سیاہ یا بھوری جلد پر وہ جامنی اور دیکھنا مشکل ہو سکتے ہیں۔ دوسری چیزیں جن کا خیال رکھنا ہے وہ ہیں بستر پر خون کے دھبے، یعنی کہ کھٹمل کچلا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ بستر یا فرنیچر پر چھوٹے بھورے دھبے، جو ان کا پاخانہ ہو سکتا ہے۔ برٹش پیسٹ کنٹرول ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والی نٹالی بنگے کہتی ہیں کہ سفر کے دوران کیڑوں کی جانچ کرنا بہت ضروری ہے اور یہ کہ ’پرہیز ہمیشہ علاج سے بہتر ہوتا ہے۔‘ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کسی ایسے علاقے میں ہیں جہاں تھوڑی سی وبا پھیلی ہوئی ہے، تو سب سے بہتر کام یہ ہے کہ آپ اپنی تمام اشیا کو چیک کریں - ہو سکتا ہے کہ وہ سوٹ کیس میں سفر کر رہے ہوں۔‘ ’کسی بھی سامان کو چیک کریں جو آپ نے کمرے میں رکھا ہے کیونکہ ہم اکثر اپنے سوٹ کیس یا بیگ بستر پر رکھتے ہیں۔‘
Tumblr media
آپ کھٹمل کے کاٹنے کا علاج کیسے کرتے ہیں؟ اگرچہ یہ اکثر تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی کھٹمل کا کاٹنا عام طور پر خطرناک نہیں ہوتا۔ اس جگہ پر بہت خارش ہو سکتی ہے، یا پھر کچھ پُر درد سوجن، لیکن وہ عام طور پر تقریباً ایک ہفتے میں خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ یا پھر ان کا علاج کے لیے کچھ بنیادی اقدامات کیے جا سکتا ہیں۔ جیسا کہ: اس جگہ پر کوئی ٹھنڈی چیز لگانا، جیسے گیلا کپڑا متاثرہ جگہ کو صاف رکھنا اور بار بار زور زور سے خارش سے پرہیز کریں اگر آپ کو کھٹملوں کے کاٹنے کے بعد بہت زیادہ خارش ہو تو اینٹی ہسٹامائنز مدد کر سکتی ہیں، جبکہ ہائیڈروکارٹیزون جیسی ہلکی سٹیرائیڈ کریم مفید ہو سکتی ہے۔ ایک شدید الرجک رد عمل، جسے anaphylaxis کہا جاتا ہے، ممکن ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اگر فارماسسٹ سے علاج کروانے کے بعد کاٹنے کی جگہ پر درد، سوجن یا خارش جاری رہے، یا کاٹنے کے ارد گرد درد یا سوجن پھیل جائے تو ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا احوال بتائیں۔
کھٹملوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے؟ یہ مشکل ہوسکتا ہے لیکن کچھ ایسے اقدامات ہیں جو ان سے بچا سکتے ہیں، جیسا کہ: آلودہ بستروں اور کپڑوں کو گرم پانی میں دھونا اور کم از کم 30 منٹ تک انھیں خشک ہونے دینا کپڑے یا بستر کی چادر کو پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر تین یا چار دن کے لیے فریزر میں رکھنا گھر کو باقاعدگی سے صاف کرنا۔ کھٹمل صاف اور گندی دونوں جگہوں پر پائے جاتے ہیں، لیکن باقاعدگی سے صفائی ان کی نشاندہی کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ دوسرے اقدامات میں بستروں کے ارد گرد بہت زیادہ اشیا جمع کرنے سے گریز کرنا، یا سیکنڈ ہینڈ فرنیچر کی گھر کے اندر لے جانے سے پہلے جانچ کرنا بھی شامل ہے۔ بی سی پی اے سے تعلق رکھنے والی محترمہ بنگے کہتی ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ آپ گھر میں کھٹملوں کی موجودگی پر شرمندہ نہ ہوں اور کسی ماہر پیسٹ کنٹرولر کو بلائیں کریں، اور انھیں ’عوامی صحت کے خلاف کیڑوں‘ کے طور پر بیان کریں، اگرچہ ایسا بنیادی طور پر زیادہ نفسیاتی وجوہات کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ بیماری کو منتقل کرتے ہیں لیکن جب وہ آپ کے گھر میں پائے جاتے ہیں تو اس کا ایک نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔‘ ’وہ ہمارے خون پر پلتے ہیں، وہ ہمیں بس پسند کرتے ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری اضافہ کیسے؟
Tumblr media
پاکستان کو اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا ہے اس کی بڑی وجہ ملکی خزانے میں ڈالرز کی قلت ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے ڈالر کی ا سمگلنگ کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ اور بینکوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔ تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جن لوگوں نے معاشی غیر یقینی کی وجہ سے ڈالر خرید کر اپنے پاس جمع کئے ہوئے ہیں انہیں یہ ڈالر بینکوں میں جمع کروانے پر راغب کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں حکومت کو شہریوں سے اپیل کرنی چاہئے کہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے جو شہری ڈالر اپنے پاس رکھنے کی بجائے بینکوں میں جمع کروائیں گے انہیں اور ان کے سرمائے کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ یقین دہانی بھی کروائی جائے کہ جب بھی انہیں اپنے جمع کروائے گئے ڈالرز کی ضرورت ہو گی وہ انہیں فراہم کئے جائیں گے۔ برٹش پاؤنڈز، یورو، سعودی ریال اور اماراتی درہم سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے حوالے سے بھی پالیسی متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ اس طرح قومی خزانے یا زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری نمایاں اضافہ ہو جائے گا اور پاکستان کو غیر ملکی مالیاتی اداروں اور درآمدات کے حوالے سے ادائیگیوں میں درپیش مالیاتی دباؤ سے نجات مل جائے گی۔
اس سلسلے میں بینکوں کی جانب سے شہریوں کو غیر ملکی کرنسی میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے نرم شرائط پر ترجیحی سروسز فراہم کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں حکومت کو فوری پالیسی بنا کر اس کا اعلان کرنا چاہئے کہ آئندہ دس دن یا ایک مہینے کے اندر اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے شہریوں سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی کہ ان کے پاس یہ ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی کب اور کہاں سے آئی ہے بلکہ انہیں مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یہ پالیسی بھی بنائی جا سکتی ہے کہ کوئی شہری کتنی مالیت کی غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھ سکتا ہے تاکہ مقررہ مالیت سے زیادہ غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں کم از کم پانچ ہزار ڈالرز یا اس کے مساوی غیر ملکی کرنسی کی حد مقرر کی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی شہری اپنی فوری ضرورت کیلئے اتنا فارن ایکسچینج اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس سے تسلسل کے ساتھ بیرون ملک سفر کرنے والے ایکسپورٹرز، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے والدین یا علاج کے لئے بیرون ملک جانے والے شہریوں کے اہلخانہ کو اپنی فوری ضرورت کے پیش نظر درکار غیر ملکی کرنسی مقررہ حد کے مطابق اپنے پاس رکھنے کا قانونی استحقاق حاصل ہو جائے گا اور حکومت کے پاس جمع زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی کوئی بڑا دباؤ نہیں پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس اقدام سے فاریکس مارکیٹ میں جاری سٹے بازی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں آنے والے غیر معمولی اتار چڑھاؤ کا بھی تدارک کیا جا سکے گا۔
Tumblr media
اس طرح نہ عالمی سطح پر پاکستان کی مالیاتی ساکھ میں بہتری آئے گی، شہریوں کےبھی حکومت پراعتماد میں اضافہ ہو گا اور وہ بوقت ضرورت باآسانی بینکوں سے ڈالرز یا دیگر غیر ملکی کرنسی حاصل کر سکیں گے۔ یہ اقدام ملک میں مالیاتی نظم ونسق کو بہتر بنانے میں بھی معاون ہو گا اور لوگوں کو غیر ملکی کرنسی کیش میں بیرون ملک لیجانے یا بھیجنے سے نجات مل جائے گی اور وہ بینکنگ چینل کے ذریعے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک بھجوا سکیں گے۔ اگر ملک کے مفاد میں وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو اس ایک اقدام سے ہی ملک کے بہت سے مسائل میں بہتری آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آنے سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہو گی جس سے پاکستان کو بیرون ملک سے خام مال اور دیگر اشیائے ضرورت درآمد کرنے پر کم زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف ملک میں جاری مہنگائی کی بلند شرح کو نیچے لایا جا سکتا ہے بلکہ پاکستانی ایکسپورٹرز کو بھی برآمدات میں اضافے کے لئے سازگار ماحول میسر آئے گا اور وہ اپنی مصنوعات کی قیمت کم کرکے عالمی منڈی سے زیادہ برآمدی آرڈرز حاصل کر سکیں گے۔ علاوہ ازیں ڈالر کی قدر میں کمی سے پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی جس سے عام آدمی کو ریلیف میسر آئے گا اور انڈسٹری کی پیداواری لاگت میں بھی کمی آئے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو مارک اپ کی شرح کو بھی سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے سنجید ہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ 24 فیصد کی بلند ترین شرح سود کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک میں انڈسٹری نہیں چلائی جا سکتی ہے بلکہ ایسے حالات میں دنیا کے بڑے سے بڑے ادارے بھی دیوالیہ ہو جاتے ہیں جس سے جہاں عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے وہیں معاشی سرگرمیوں کو بھی بحال ہونے میں لمبا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ مارک اپ کی شرح کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے روڈ میپ کا اعلان کیا جائے تاکہ انڈسٹری کا اعتماد بحال ہو اور پاکستان سے جاری سرمائے کے انخلا کو روک کر مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری پر راغب کیا جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارک اپ میں اضافے کو عمومی طور پر افراط زر میں کمی کے لئے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ مارک اپ میں اضافے کی پالیسی نے ملک کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduclassic · 1 year
Text
ارے بھئی یہ اپنے ضیا صاحب
Tumblr media
یہ معلومات اب غیر متعلقہ سی لگتی ہیں کہ ضیا محی الدین کے والد خادم محی الدین چونکہ خود ایک ماہرِ ریاضیات، موسیقی کے پا رکھی، گیت کار و ڈرامہ نگار تھے لہذا صاحبزادے پر اس ماحول و صحبت کا اثر ہونا لازمی تھا یا جب انگریزوں نے پنجاب کو ہندوستان کا اناج گھر بنانے کے لیے یہاں نہری نظام کا جال بچھایا اور ساندل بار اور نیلی بار کے دوآبے میں زمینیں آباد کرنے کی ترغیبات دیں تو رہتک و حصار کے لوگ بھی یہاں آن بسے اور اس نئی نئی زرخیزی کے مرکز لائل پور میں ضیا محی الدین کا بھی جنم ہوا۔ یہ جنم انیس سو انتیس میں ہوا کہ تیس، اکتیس، بتیس، تینتییس میں۔ یہ بھی غیر متعلقہ ہے۔ اہم یہ ہے کہ ان کا جنم ہوا۔ وہ زمانہ برصغیر میں آئیڈیل ازم، امنگ اور اٹھان کا دور تھا۔ اس ماحول میں اقبال اور جوش تو بن چکے تھے۔ راشد، فیض، علی سردار، کیفی، میرا جی، منٹو، کرشن چندر، بیدی، بلراج ساہنی ، نور جہاں، بیگم اختر وغیرہ وغیرہ زیرِ تعمیر تھے۔ ترقی پسند تحریک اور انقلابیت جوان تھی۔ تھیٹر کے ہیرو بادشاہ اور شہزادے کے منصب سے اتر کے عام آدمی کے عام سے خوابوں کے ڈھابے پر بیٹھنے لگے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی نوٹنکئیت بھی روپ بدل رہی تھی۔
آغا حشر اور رفیع پیر بھی وقت کے ساتھ ساتھ ڈھل رہے تھے۔ زیڈ اے بخاری جیسے لوگ پڑھنت کے لیے تازہ لہجہ بن رہے تھے۔ بمبئی اور لاہور کا پارسی تھیٹر سیلولائیڈ میں مدغم ہو رہا تھا اور قدیم ہندوستانی ڈراما جدیدیت کی کوکھ سے دوسرا جنم لینے کے لیے مچل رہا تھا۔ زیادہ موثر تخلیقی و فنی اظہار کے لیے ریڈیو کی شکل میں ایک نیا اور کہیں موثر میڈیم پیدا ہوتے ہی دوڑنے لگا تھا۔ اس ایک ڈبے نے آرٹ کے اظہار کو ایک نیا اور وسیع میدان عطا کر دیا اور پھر یہ میدان چند ہی برس میں بھانت بھانت کی تازہ آوازوں اور لہجوں سے بھر گیا۔ غرض کسی بھی نو عمر لڑکے یا لڑکی کے لیے فائن آرٹ اور پرفارمنگ آرٹ کا حصہ بننے کی فضا پہلے سے کہیں سازگار تھی۔ ضیا محی الدین بھی اسی تخلیقی خوشے کا ایک دانہ تھا جسے اپنا آپ ابھی منوانا تھا۔ ان کے ساتھ کے کچھ لوگ تخلیقی جنم لیتے ہی مر گئے۔ کچھ نے فائن و پرفارمنگ آرٹ کی انگلی پکڑتے پکڑتے فنی لڑکپن تو گزار لیا اور پھر دیدہ و نادیدہ مجبوریوں کے جھکڑ میں کہیں گم ہو گئے۔ جو سخت جان نکلے انھوں نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے خود کو منوا لیا۔ ان میں ضیا محی الدین بھی تھے۔
Tumblr media
وہ شاید لڑکپن میں ہی تاڑ گئے تھے کہ انھوں نے آرٹ کی جس طرز سے خود کو بیاہنے کا فیصلہ کیا ہے اس کی پرداخت و آب داری کے لیے مغرب کا رخ کرنا ہی پڑے گا۔ لہذا انھوں نے مزید سوچنے میں وقت گنوانے کے بجائے ایک نادیدہ دنیا میں زقند بھر لی۔ فیصلہ پر خطر تھا۔ گمنام اور نام چین ہونے کا امکان آدھوں آدھ تھا۔ گویا ایک متوسطی لڑکے کے لیے ہر طرح سے جوا تھا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ چیلنج قبول نہ کرو تو کامیابی چھوڑ ناکامی تک ہاتھ نہیں آتی۔ ضیا دونوں طرح کے انجام کے لیے ذہنی طور پر آمادہ تھے۔ اور پھر انھیں وہی کچھ مل گیا جو چاہتے تھے۔ اچھا اسٹی�� ، اچھے استاد ، اچھے ساتھی ، اچھی روشنی ، اچھے سامع و ناظر اور سب سے بڑھ کے برموقع مواقع۔ اور اس سب نے ہمیں وہ ضیا محی الدین گوندھ کے دیا جو آج تک تھا اور کل تک ہے۔ اور اس ہونے کے پیچھے انگلستان میں سینتالیس برس کے قیام کے دوران شیکسپیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے، نسل پرست انگلش تھیٹر کی دنیا میں اپنی جگہ بنا کے کسی کو خاطر میں نہ لانے والے گوروں سے خود کو منوانے اور اس منواہٹ کے بل بوتے پر برٹش ٹی وی اور امریکن فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانے اور پھر اس تجربے کو ثوابِ جاریہ میں بدلنے کے لیے پاکستان واپسی اور اب سے پچپن برس پہلے رئیلٹی شوز کے ماڈل سے مقامی ٹی وی کو متعارف کروانے اور روایتی اسٹیج کو جدید سوچ اور تکنیک کا انجکشن لگانے اور پھر اس پورے تام جھام کو آگے بڑھانے کے لیے نئے آرٹسٹوں کی دریافت، اس خام مال کی تربیت اور انھیں شوبز کے کل کا جزو بنانے سمیت اور کیا کیا ہے جو ضیا محی الدین کے دائرہِ عمل سے باہر رہ گیا ہو۔
زندگی کی آخری تہائی کو ضیا صاحب نے صنعتِ پڑھنت، فنِ داستان گوئی کی آبیاری اور نئے ٹیلنٹ کی کاشت کاری میں گذار دیا۔ میری بالمشافہ یادیں ستمبر دو ہزار بارہ سے دسمبر دو ہزار پندرہ تک کی ہیں۔ جب علی الصبح نو بج کے پندرہ منٹ پر ایک کار نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کے دروازے سے اندر داخل ہوتی تھی اور پورچ میں جا لگتی تھی۔ ایک خوش لباس جوان بوڑھا اس میں سے نمودار ہوتا اور ٹک ٹک کرتا تیر کی طرح کمرے کے دروازے کے پیچھے غائب ہو جاتا۔ اوروں کا دن چوبیس گھنٹے کا تھا۔ اس خوش لباس کا دن اڑتالیس گھنٹے کا تھا۔ ضیا صاحب کی کلاس دوپہر دو تا تین بجے ہوا کرتی تھی۔ شاگردوں کو حکم تھا کہ ایک بج کے پچپن منٹ تک اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔ ٹھیک دو بجے ایک ہرکارہ گنتی کے لیے آتا۔ پانچ منٹ بعد ضیا صاحب کمرے میں داخل ہوتے اور پھر اس کمرے کی کائنات ان کے اشارے پر ہوتی۔ تین برس اس کلاس میں بیٹھنے کا فائدہ بس اتنا ہوا کہ جس زبان ، تلفظ اور ادائی پر میں گزشتہ چار عشروں سے بزعمِ خود اتراتا تھا۔سارے کس بل نکل گئے۔
معلوم یہ ہوا کہ میری کم ازکم پچاس فیصد اردو اور بولنے کا انداز غلط ہے۔ ضیا صاحب نہ ہوتے تو باقی زندگی بھی اعتمادِ جہل کے سہارے خوشی خوشی گذار لیتا۔ مگر ضیا صاحب نے مجھ سے یہ فخرِ جہل چھین کے تار تار کر دیا۔ ( تھینک یو ضیا صاحب )۔ یہ بھی رواج تھا کہ فائنل ایئر کی آخری پرفارمنس کے ہدائیت کار ضیا محی الدین ہی ہوں گے۔ اس پلِ صراط سے گذر کے مجھے اندازہ ہوا کہ ڈائریکٹر اچھا ہو تو پتھر سے بھی اداکاری نکلوا سکتا ہے ( سامنے کی مثال ہے میری ) جب فائنل پرفارمنس ہو گئی تو ضیا صاحب نے پہلی اور آخری بار کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا ’’ تم تو لکھتے بھی ہو۔ اپنے اس تجربے کے بارے میں بھی کچھ لکھو ‘‘۔ ان کے حکم پر میں نے ایک الوداعی مضمون لکھا۔ میں نے کیا لکھا قلم نے آبِ دل میں ڈبو کے خود ہی لکھ کے تھما دیا۔ اس کی پہلی سطر یہ تھی۔ ’’ جب ناپا کے تین سالہ تھیٹر ڈپلوما کورس میں داخلہ لیا تو میری عمر پچاس برس تھی۔ آج میں سینتالیس برس کی عمر میں ناپا چھوڑ رہا ہوں ‘‘۔ ضیا صاحب نے کمرے میں بلایا۔ دراز سے اپنی کتاب ’’ تھیٹرکس ‘‘ ( تھیٹریات ) نکالی اور دستخط کر کے مجھے دے دی۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
غیر اعلانیہ ایمرجنسی - Roznama Sahara اردو
بی بی سی(برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ) کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے بزن بول دیا ہے۔ ہر چند کہ اب تک محکمہ کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان نہیںجاری کیاگیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ یہ کارروائی کن معاملات میں کی جارہی ہے۔لیکن خبریں ہیںکہ محکمہ انکم ٹیکس کے افسران وہاں اکائونٹس بک چیک کر رہے ہیں۔بی بی سی کے دونوں شہروںمیں واقع دفاتر کو اندر سے بند کرکے کارکنوں کا فون اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
غیر اعلانیہ ایمرجنسی - Roznama Sahara اردو
بی بی سی(برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ) کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے بزن بول دیا ہے۔ ہر چند کہ اب تک محکمہ کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان نہیںجاری کیاگیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ یہ کارروائی کن معاملات میں کی جارہی ہے۔لیکن خبریں ہیںکہ محکمہ انکم ٹیکس کے افسران وہاں اکائونٹس بک چیک کر رہے ہیں۔بی بی سی کے دونوں شہروںمیں واقع دفاتر کو اندر سے بند کرکے کارکنوں کا فون اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
غیر اعلانیہ ایمرجنسی - Roznama Sahara اردو
بی بی سی(برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ) کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے بزن بول دیا ہے۔ ہر چند کہ اب تک محکمہ کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان نہیںجاری کیاگیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ یہ کارروائی کن معاملات میں کی جارہی ہے۔لیکن خبریں ہیںکہ محکمہ انکم ٹیکس کے افسران وہاں اکائونٹس بک چیک کر رہے ہیں۔بی بی سی کے دونوں شہروںمیں واقع دفاتر کو اندر سے بند کرکے کارکنوں کا فون اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 1 year
Text
غیر اعلانیہ ایمرجنسی - Roznama Sahara اردو
بی بی سی(برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ) کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے بزن بول دیا ہے۔ ہر چند کہ اب تک محکمہ کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان نہیںجاری کیاگیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ یہ کارروائی کن معاملات میں کی جارہی ہے۔لیکن خبریں ہیںکہ محکمہ انکم ٹیکس کے افسران وہاں اکائونٹس بک چیک کر رہے ہیں۔بی بی سی کے دونوں شہروںمیں واقع دفاتر کو اندر سے بند کرکے کارکنوں کا فون اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 14 days
Text
جادوئی مشروم ڈپریشن کے لیے مفید قرار
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
کینیڈا کے سکھ شکرگزار لیکن بھارت پر ٹروڈو کے الزامات کے بعد کمیونٹی پر خوف کے بھی سائے
کینیڈا کی سکھ کمیونٹی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی شکر گزار ہے کہ انہوں نے سکھ کمیونٹی کو لاحق خوف پر آواز اٹھائی اور نئی دہلی کی طرف سے شدید ردعمل کے خطرے کے باوجود ہندوستان کے خلاف کھڑے ہوئےْ ہندوستانی حکومت نے کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کو جون میں برٹش کولمبیا (بی سی) میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا،بھارت اسے ایک دہشت گرد سمجھتا ہے کیونکہ اس نے ایک آزاد سکھ ریاست خالصتان کی وکالت کی تھی۔ بھارت نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
spitonews · 1 year
Text
مصالحوں سے بنی سب سے بڑی تصویر کا گینیز ورلڈ ریکارڈ
(تصویر: انٹرنیٹ) برٹش کولمبیا: کینیڈا کے ایک فنکار نے مصالحوں سے 908.39 مربع فِٹ بڑی تتلی کی تصویر بنا کر گینیز ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔ کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے شہر سرے سے تعلق رکھنے والی پریتی وجے نے ہلدی، پیپریکا اور لونگ کا استعمال کرتے ہوئے ایک تصویر بنائی جس کے متعلق گینیز ورلڈ ریکارڈز نے تصدیق کی کہ یہ مصالحوں سے بنائی گئی دنیا کی سب سے بڑی تصویر ہے۔ سابق سافٹ ویئر انجینئر پریتی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 1 year
Text
سر کے بل کھڑے ہونے والا معمر ترین شخص
سر کے بل کھڑے ہونے والا معمر ترین شخص
(تصویر: انٹرنیٹ) برٹش کولمبیا: کینیڈا کے 82 سالہ شخص نے سر کے بل کھڑے ہوکر کرتب دِکھانے والے معمر ترین شخص کا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرلیا۔ کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا سے تعلق رکھنے والے بروس آئیوز 15 سال کی عمر سے جمناسٹکس کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی سالگرہ کے موقع پر سر کے بل کھڑے ہونے کی روایت کا آغاز 20 سال قبل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ 60 کی دہائی میں تھے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زندگی اور انکے بے باک فیصلوں پر ایک نظر
Tumblr media
لاہور سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان کے ایک معروف خاندان سے ہے۔ 26؍ اکتوبر 2023ء کو ان کی عمر 64؍ برس ہو جائے گی۔ وہ قلات کے وزیر اعظم قاضی جلال الدین کے پوتے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی اور قابل بھروسہ ساتھیوں میں سے ایک قاضی عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں۔ 1940 اور 1947 کے درمیان تحریک پاکستان کے دوران انہوں نے ہزاروں میل کا سفر کرنے والے قاضی عیسیٰ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ 1951 سے 1953 تک قاضی عیسیٰ برازیل میں پاکستان کے سفیر رہے جبکہ 1950، 1954 اور 1974 میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رکن رہے۔ قاضی عیسیٰ 1933 میں اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ گئے تھے اور لندن کے معروف ادارے مڈل ٹیمپل سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ یہ ادارہ انگلینڈ اور ویلز میں بیرسٹرز کی چار پیشہ ورانہ ایسوسی ایشنز میں سے ایک ہے۔
Tumblr media
برٹش انڈیا واپسی پر انہوں نے 1938 میں بمبئی میں قانون کی پریکٹس شروع کی، جہاں ان کی پہلی ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے ہوئی۔ قاضی عیسیٰ نے مسلم لیگ کے صوبہ سرحد اور بلوچستان چیپٹرز کی قیادت کی۔ اب آتے ہیں ان کے صاحبزادے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف : 5 ستمبر 2014 سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 9 سال، 9 ماہ اور 17 دن سپریم کورٹ آف پاکستان میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ بحیثیت جج، انہیں چند بے باک اور تاریخی فیصلے تح��یر کرنے کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ مثلاً، 6 فروری 2019 کے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھا جس میں انہوں نے ملک کے سیاسی نظام میں خفیہ ایجنسیوں کی "غیر آئینی مداخلت" کا ذکر کیا تھا۔ 
ان کے حکم میں لکھا تھا کہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو نشریات اور اشاعت، نشریاتی اداروں / پبلشرز کے انتظام اور اخبارات کی تقسیم میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ آئین مسلح افواج سے تعلق رکھنے والوں کو ہر طرح کی سیاسی سرگرمی میں ملوث ہونے سے روکتا ہے اور اس عمل میں کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت بھی شامل ہے۔ حکومت پاکستان کو وزارت دفاع کے توسط سے اور آرمی، بحریہ اور فضائیہ کے متعلقہ سربراہان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی کمان کے تحت ایسے فوجیوں کے خلاف کارروائی شروع کریں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
صابر شاہ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes