Tumgik
#ایلس
urduchronicle · 10 months
Text
کرکٹ ورلڈ کپ 2023،آسٹریلیا کے اسکواڈ کا اعلان، مارنس لبھوشین باہر، نئے کھلاڑی شامل
کرکٹ آسٹریلیا نے  بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کیلئے 18 رکنی اسکواڈ کا اعلان کر دیا ہے،آسٹریلیا کے ابتدائی اسکواڈ میں پیٹ کمنز کپتان، سین ایبٹ، ایشٹن آگر، ایلکس کیری، نیتھن ایلس، کیمرون گرین، ایرن ہارڈی، جوش ہیزلووڈ، ٹریوس ہیڈ، جوش انگلس، مچل سٹارک، گلین میکس ول، مچل مارش، تنویر سانگھا، اسٹیو اسمتھ،مارکس اسٹوئنس، ڈیوڈ وارنراور ایڈم زمپا شامل ہیں۔ Presenting your 18-player squad for the 2023 ODI…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 1 year
Text
ہندوستان اور عالمی تاریخ میں 25 فروری کے اہم واقعات۔
1586 ۔ اکبر کے دربار کے نو رتنوں میں سے ایک اور اپنی چالاکی اور حاضر جوابی کے لئے مشہور راجا بیربل، یوسف زئی قبیلے کے ساتھ جنگ میں مارے گئے ۔1760 ۔ انگریز گورنر جنرل رابرٹ کلائیو ہندوستان سے برطانیہ واپس لوٹ گئے ۔ بعد میں 1765 میں دوبارہ ہندوستان آئے ۔1788۔پٹس ریگولیٹری ایکٹ نافذ کیا گیا۔1894۔ روحانی لیڈر مہیر بابا کی پنے میں پیدائش ہوئی۔1914 ۔ انگریز ایکٹر اور ‘ایلس ان ونڈر لینڈ’ کے پروڈیوسر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 1 year
Text
ہندوستان اور عالمی تاریخ میں 25 فروری کے اہم واقعات۔
1586 ۔ اکبر کے دربار کے نو رتنوں میں سے ایک اور اپنی چالاکی اور حاضر جوابی کے لئے مشہور راجا بیربل، یوسف زئی قبیلے کے ساتھ جنگ میں مارے گئے ۔1760 ۔ انگریز گورنر جنرل رابرٹ کلائیو ہندوستان سے برطانیہ واپس لوٹ گئے ۔ بعد میں 1765 میں دوبارہ ہندوستان آئے ۔1788۔پٹس ریگولیٹری ایکٹ نافذ کیا گیا۔1894۔ روحانی لیڈر مہیر بابا کی پنے میں پیدائش ہوئی۔1914 ۔ انگریز ایکٹر اور ‘ایلس ان ونڈر لینڈ’ کے پروڈیوسر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
ہندوستان اور عالمی تاریخ میں 25 فروری کے اہم واقعات۔
1586 ۔ اکبر کے دربار کے نو رتنوں میں سے ایک اور اپنی چالاکی اور حاضر جوابی کے لئے مشہور راجا بیربل، یوسف زئی قبیلے کے ساتھ جنگ میں مارے گئے ۔1760 ۔ انگریز گورنر جنرل رابرٹ کلائیو ہندوستان سے برطانیہ واپس لوٹ گئے ۔ بعد میں 1765 میں دوبارہ ہندوستان آئے ۔1788۔پٹس ریگولیٹری ایکٹ نافذ کیا گیا۔1894۔ روحانی لیڈر مہیر بابا کی پنے میں پیدائش ہوئی۔1914 ۔ انگریز ایکٹر اور ‘ایلس ان ونڈر لینڈ’ کے پروڈیوسر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
ہندوستان اور عالمی تاریخ میں 25 فروری کے اہم واقعات۔
1586 ۔ اکبر کے دربار کے نو رتنوں میں سے ایک اور اپنی چالاکی اور حاضر جوابی کے لئے مشہور راجا بیربل، یوسف زئی قبیلے کے ساتھ جنگ میں مارے گئے ۔1760 ۔ انگریز گورنر جنرل رابرٹ کلائیو ہندوستان سے برطانیہ واپس لوٹ گئے ۔ بعد میں 1765 میں دوبارہ ہندوستان آئے ۔1788۔پٹس ریگولیٹری ایکٹ نافذ کیا گیا۔1894۔ روحانی لیڈر مہیر بابا کی پنے میں پیدائش ہوئی۔1914 ۔ انگریز ایکٹر اور ‘ایلس ان ونڈر لینڈ’ کے پروڈیوسر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
ہندوستان اور عالمی تاریخ میں 25 فروری کے اہم واقعات۔
1586 ۔ اکبر کے دربار کے نو رتنوں میں سے ایک اور اپنی چالاکی اور حاضر جوابی کے لئے مشہور راجا بیربل، یوسف زئی قبیلے کے ساتھ جنگ میں مارے گئے ۔1760 ۔ انگریز گورنر جنرل رابرٹ کلائیو ہندوستان سے برطانیہ واپس لوٹ گئے ۔ بعد میں 1765 میں دوبارہ ہندوستان آئے ۔1788۔پٹس ریگولیٹری ایکٹ نافذ کیا گیا۔1894۔ روحانی لیڈر مہیر بابا کی پنے میں پیدائش ہوئی۔1914 ۔ انگریز ایکٹر اور ‘ایلس ان ونڈر لینڈ’ کے پروڈیوسر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
نوبل امن انعام 2022 کا اعلان کردیا گیا
نوبل امن انعام 2022 کا اعلان کردیا گیا
نوبل امن انعام 2022 کا اعلان کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق امن کا نوبل انعام 2022 بیلاروس کے شہری اور 2 تنظیموں کو دیا گیا۔ بیلاروس کے شہری اور دو تنظیمیں امن  کے نوبل انعام کے حق دار قرار پائے۔ بیلاروس کے سماجی کارکن ایلس بیالیاٹسکی نوبل انعام پانے والوں میں شامل ہیں۔ انسانی حقوق  کے لیے کام کرنے والی روسی تنظیم میموریل کو بھی نوبل انعام دیا گیا۔ BREAKING NEWS:The Norwegian Nobel Committee has…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
45newshd · 4 years
Photo
Tumblr media
امریکا کو پاکستان کا اتنا خیال ہے تو باتیں کرنے کی بجائے اس ملک میں کیش اور  فنڈ لے کر آے، چین نے امریکی نمائندہ خصوصی ایلس ویلز کو کھری کھری سنا دیں اسلام آباد (این این آئی)امریکی نائب سیکرٹری براے جنوبی ایشیاء و وسطی ایشیاء ایلس ویلز کی سی پیک کے خلاف ہرزہ سرائی/چینی سفارت خانے نے کہا ہے کہ ایلس ویلز کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ نومبر 2019 والی تقریر کا تکرار ہے۔ ترجمان چینی سفارتخانے کہاکہ 21 جنوری کو پاکستان کے دورے پر آنے والی امریکی نائب سیکریٹری برائے جنوبی ایشیاء و وسطی
0 notes
urdugeo92-blog · 6 years
Text
پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے یا واپس افغانستان دھکیلے: ایلس ویلز
پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے یا واپس افغانستان دھکیلے: ایلس ویلز
[ad_1]
Tumblr media
امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کا کہنا ہےکہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے یا واپس افغانستان دھکیلے اور پاکستان یقینی بنائےکہ طالبان وہاں محفوظ پناہ گاہوں کامزہ نہ لیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنوب اور وسط ایشیا کے لیے امریکا کی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہاکہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ مل کرکام کرنے کے متمنی ہیں، افغانستان میں استحکام کو بڑھانے میں پاکستان…
View On WordPress
0 notes
ainalavi · 7 years
Link
  ایلس– فرمانروای چهار باد در اساطیر یونان . ایلس یک ساز موسیقی غول پیکر است، یک عمارت صوتی و بصری. این سازه به شکلی طراحی شده تا تغییر جهت‌های بی صدای باد را قابل شنیدن و آسمان همیشه در حال تغییر را قابل مشاهده کند. این سازه یک ساز بادی غول پیکر است، که میتواند تنها با استفاده از باد و بدون استفاده از نیروی الکتریکی یا تقویت کننده ایجاد صدا و موسیقی کند. نوسانات در سیم های متصل به لوله ها، به سطوح لوله‌ها که روی سازه را پوشانده‌اند منتقل میشوند، و از طریق این لوله‌ها به سمت تماشاچیانی که زیر قوس ایستاده اند پخش میشود. ایلس با استفاده از رشته سیم‌های آهنگین مخصوص به خود، فضایی سه بعدی از طنین صدای باد را ایجاد میکند. همچنین این سیم ها مانند تارهای سبیل گربه به کوچکترین برخوردی حساس است، جابه‌جایی باد اطراف این سازه‌ی هنری توسط سیم ها دریافت میشود و به صورت طنینی آهنگین به سمع بازدید کنندگان میرسد. هدف این است که عموم مردم بتوانند جابه‌جایی های مسیر باد را با درک صدای اطرافشان، تصور کنند. لوله‌هایی که به سیم‌ها متصل نیستند، با نت‌های موسیقی کوک میشوند و همیشه، حتی زمانی که باد نباشد این لوله ها یک سری از نت ها را با فرکانس‌‌های پایین پخش میکنند‌.
عمارت نورانی
در زیر قوس یک تماشاگر می تواند به طور همزمان از میان یک میدان با ۳۱۰ لوله‌ی فولادی ضد زنگ که از داخل پولیش شده اند به بیرون نگاه کند، همزانی که یک سری فرکانس‌های آهنگین به گوش میرسد هریک از این لوله‌ها منظره‌ای نورانی را در سراسر سازه ترسیم میکند. این لوله ها به منظور ایجاد قاب، چرخاندن و بزرگنماییِ چشم اندازی در اطراف عمارت عمل می کنند تا بیننده بتواند منظره‌ای از تغییر حالت نور مشاهده کند. همانطور که در طول روز ابرها و خورشید در آسمان حرکت میکنند و تجربه بصری عموم مردم دقیقه به دقیقه، ساعت به ساعت به طور قابل ملاحظه ای تغییر میکند.
طبیعت، مهندسی، صوت شناسی و معماری
ایلس محصول تحقیق و بررسی در صوت شناسی، باد، معماری و نور در سفر تحقیقاتی Luke Jerram به ایران است جایی که او از مسجد اصفهان بازدید کرد و با یک حفار ِچاه‌ و قنات در مورد زندگیش گفت‌وگو کرد. حفار در مورد صوت آهنگین درون چاه ها صحبت کرد اتفاقی که منجر شد Jerram به تحقیق درباره‌ی تاثیرات معماری در صدا و ساخت اثر جدیدش سوق پیدا کند .
طراحی الهام بخش
این اثر به جهت الهام بخش بودن و درگیر کردن عموم مردم با موضوعاتی همچون مهندسی، صوت شناسی و آیرودینامیک ساخته شده است. سازه‌ی ایلس و مشارکت علمی مرتبط با آن، نتیجه‌ی همکاری بین Luke Jerram و موسسه تحقیقات صدا و ارتعاش دانشگاه ساوت‌همپتن و مرکز تحقیقات صوت شناسی در دانشگاه سالفورد بوده است.
دیگر خواص صوتی
برای قوس(قسمت گـُوه شکل جدا شده از یک کره) دو منحنی وجود دارد،  صدا در زیر قوس خارق‌العاده است. قوس مانند یک عدسی آکوستیک عمل میکند، تمام صداهای خارج شده از لوله ها در یک کانون (زیر قوس، جایی که تماشاچی ایستاده است) جمع میشوند. اکوی عجیب و غریبی می تواند شنیده شود. Jerram زمانی که در ایران به مطالعه علم هندسه و خواص صوتی معماری مساجد مشغول بود این اثر را مشاهده کرده بود.
  آموزش وتوسعه
طیف گسترده ای از برنامه‌های کارگاه های خلاق مهندسی سرمایه گذاری شده اند. برای اطلاعات بیشتر http://ift.tt/2vTZkSc مراجعه کنید. نمایشگاه ساخت “Aeolus” در RWA، Bristol 2011 ارائه شد.
اقامتگاهی دائمی برای ایلس
Aeolus در حال حاضر به طور دائمی در ایرباس، تولید کننده پیشرو هواپیما، در تاسیسات Filton، Bristol نصب شده است.
Aeolus Facebook profile 
  نوشته ایِلس – عمارت صدای باد اولین بار در آرتوجورنو. پدیدار شد.
0 notes
weaajkal · 4 years
Photo
Tumblr media
پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ایلس ویلز #America #Pakistan #International #aajkalpk واشنگٹن: امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں،
0 notes
nowpakistan · 5 years
Photo
Tumblr media
پاکستانی امریکی نائب وزیرخارجہ کے بیان کو سمجھیں، امریکی سفیر
0 notes
bazmeurdu · 3 years
Text
ابن انشا : مزاح کا اچھوتا انداز
وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی، اس گھر میں تھے مہمان گئے
''کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا‘‘ کے خالق ابن انشا پر لکھوں تو کیا لکھوں۔ شیر محمد خاں نام کا ایک شخص جو 1926ء میں جالندھر میں پیدا ہوا۔ جو آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کر گیا۔ جس نے اردو کالج کراچی سے اردو میں ایم۔ اے۔ کیا اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کے بعد اس لیے اس سے دست بردار ہو گیا کہ محقق اور اسکالر وغیرہ بننا اس کے مزاج کے منافی تھا۔ جس نے ایک خط میں مجھے لکھا تھا کہ: ''میں برنارڈ شا کا مرید ہوں جس نے لکھا تھا کہ ساری انسائیکلو پیڈیا لکھنے کی نسبت ''ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ کا مصنف ہونا زیاد�� پسند کروں گا۔‘‘ یہ ابن انشا میرا بڑا جگری دوست تھا۔ میرا پیارا بھائی اور مجھ پر جان چھڑکنے والا۔ اس نے مجھے بڑی اپنائیت کے ساتھ خطوط لکھے اور ان خطوط میں اپنی شخصیت کو بارہا آشکار کیا۔
لاہور میں ایک چینی موچی کی دکان تھی۔ سڑک پر گزرتے ہوئے ابن انشا نے اس دکان کے شوکیس میں رکھا ہوا ایک انوکھا اور خوبصورت جوتا دیکھا۔ فوراً وہیں رک کر دکان میں داخل ہوا اور اس کے مالک سے پوچھنے لگا ''اس جوتے کے کیا دام ہیں‘‘؟ دکاندار بولا'' مگر آپ اسے خرید کر کیا کیجیے گا یہ آپ کے پاؤں کا جوتا نہیں ہے‘‘۔ وہ بولا ''مگر میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔‘‘ ایک پراسرار اور انوکھی، طباع اور رومانی شخصیت ''جوتے کا ترجمہ‘‘ تو محض ان کی ''خوش طبعی‘‘ کا ایک مظاہرہ تھا مگر اس جوتے کی بدولت انہیں چینی شاعری کی تلاش ہوئی۔ طرح طرح کے مجموعے اور انتخابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے اور ان کے منظوم ترجمے اردو میں کر ڈالے اور چینی نظموں کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی۔ اس کتاب میں قدیم چین کے لوک گیت ہیں۔ کنفیوشس کی نظمیں ہیں، چرواہوں کی تانیں، جوگیوں اور بیراگیوں کی خود کلامیاں اور ان کے اقوالِ دانش ہیں اور عہد جدید کے منظومات بھی۔
شخصیت کی اسی پراسراریت اور انوکھے پن کی وجہ سے وہ ایڈگر ایلن پو کو اپنا ''گرو دیو‘‘ کہتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی انوکھی شخصیت اور اس کی شاعری نے سب سے پہلے ہمارے یہاں میرا جی کو اپنا دلدادہ بنایا تھا اور انہوں نے بہت پہلے پو کی شخصیت اور شاعری پر ادبی دنیا میں ایک مضمون لکھا تھا ۔ پو کے دوسرے عاشق ابن انشا تھے جنہوں نے پو کی پر اسرار کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اسے''اندھا کنواں‘‘ کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کیا۔ خود ابن انشا کی اپنی شاعری میں یہی پر اسراریت ، رومانیت اور نرالی فضا ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام ''چاند نگر‘‘ ہے جو 1955ء میں مکتبہ اردو، لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام بھی پو کی ایک نظم سے مستعار ہے۔ ابن انشا اپنی اس رومانیت کے باوجود اپنے زمانے کے سماجی مسائل اور عوام کے دکھ درد کے ہی شاعر تھے۔ 
ابن انشا نئی نسل کے ان شاعروں کا سرخیل رہا جس نے پہلی بار شاعری میں ذاتی اور شخصی تجربے کی اہمیت پر زور دیا اور ترقی پسندی کے چراغ جلائے۔ پنجابی شاعری کی صنف ''سی حرفی‘‘ کو بھی میرے علم کے مطابق سب سے پہلے ابن انشا نے اپنی نظم ''امن کا آخری دن‘‘ میں برتنے کی کوشش کی۔ ابن انشا کی نظموں کی اپنی ایک فضا ہے۔ ان نظموں میں شام اور رات کے دھندلکے کو عام طور پر منظر نامے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ اور ان نظموں میں کسی گرجا کا گھڑیال بھی اکثر آتا ہے جو ہمیشہ دو ہی بجاتا ہے۔ کہیں ریل کی سیٹی بھی گونج اٹھتی ہے۔ ایک ریل کا پل بھی ہے۔ 1955ء میں ''چاند نگر‘‘ کی اشاعت اس سال کا ایک اہم ادبی واقعہ تھی۔ انشا کے مزاح کا انداز اچھوتا تھا۔ ناصر کاظمی کی ''برگ نے‘‘ بھی اسی سال شائع ہوئی۔ ابن انشا اور ناصر کاظمی دونوں سے میری ذہنی قربت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوستی محض خط و کتابت تک ہی محدود تھی۔ ایک کراچی میں تھا (ابن انشا) دوسرا لاہور میں (ناصر کاظمی) اور تیسرا علی گڑھ میں (راقم الحروف) مگر نصف ملاقاتوں کے ذریعہ خوب پینگیں بڑھیں۔
ان کے مزاحیہ مضامین، بچوں کی نظمیں، غرض کہ ہر طرح کی چیزیں دیکھنے میں آئیں۔ کبھی ''چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ کے نام سے اور کبھی''ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ کے عنوان سے اپنی سیاحی کا حال لکھا۔ 1960ء کے بعد اردو شاعری کے ایوان میں بڑی چہل پہل رہی۔ جدیدیت کے میلان نے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کی۔ ہم سب اسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے اور خوب خوب دھومیں مچائیں۔ ناصر کاظمی کا بھری جوانی میں انتقال ہو گیا۔ ان کی یاد میں لاہور سے لے کر علی گڑھ تک جلسے ہوئے۔ 1978ء کے آغاز میں جب ابن انشا ایک عارضے میں مبتلا ہو کر لندن کے ایک اسپتال میں اپنی جان جان آفرین کو سپرد کرتے ہیں تو کیا انگریزی اور کیا اردو سبھی اخباروں میں اردو کے ایک مزاح نگار کی موت کی مختصر سی خبر شائع ہوئی۔ اکیاون سال کی عمر میں وفات پانے والا البیلا شاعر ''چاند نگر‘‘ جیسے مجموعے کا خالق ایک''مزاح نگار‘‘ کی صورت میں منوں مٹی کے نیچے جا سویا۔ جب ان کی میت ہوائی جہاز کے ذریعے پاکستان لائی جارہی تھی تو ان کی یہ غزل مسافروں کو سنائی گئی''انشا جی اٹھو ، اب کوچ کرو‘‘۔ وہاں موجود ہر دوسری آنکھ اشک بار ہو گئی۔
خلیل الرحمان اعظمی
بشکریہ دنیا نیوز
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 5 years
Text
" کہانی کا سب سے مشکل ترین مرحلہ وہ ہوتا ہے جب آپ اپنی کہانی کو دوبارہ پڑھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ یہ کتنی خراب ہے "
ایلس منرو
( ایلس کو 2013 میں ادب کا نوبیل انعام ملا )
11 notes · View notes
risingpakistan · 5 years
Text
سی پیک : پاکستانی معیشت کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ ؟
’’چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے چین کو تو فائدہ پہنچے گا لیکن اس سے پاکستان کو طویل المدتی معاشی نقصان ہو سکتا ہے‘‘ یہ انتباہ امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سی پیک سے صرف چینی مفادات کا تحفظ ہو گا، یہ منصوبہ پاکستان پر بوجھ بنے گا اور سخت شرائط کے سبب چینی قرضوں کی ادائیگیاں مشکل ہوں گی۔ سی پیک کو وزیراعظم عمران خان کے اصلاحاتی ایجنڈے کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے اس کی شفافیت پر سوال اٹھایا اور اسے صرف چینی کمپنیوں کے کاروبار کے فروغ اور چینی باشندوں کے روزگار کا ذریعہ قرار دیا۔ 
ایلس ویلز نے سی پیک کو پاکستان کے لیے گھاٹے کا سودا باور کرانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امریکہ کے پاس اس سے بہتر اقتصادی ماڈل موجود ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے امریکی تعاون کی پیش کش بھی کی۔ ان کا کہنا تھا ’’امریکہ کی نجی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور حکومتی امداد سے پاکستان کو معاشی فائدہ پہنچ سکتا ہے‘‘۔ بین الاقوامی معیشت میں چین کی مسلسل پیش رفت، چند برس پہلے تک بلا شرکت غیرے دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت کے مقام پر فائز رہنے والی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے جس قدر پریشان کن ہے، اس کا اظہار وقتاً فوقتاً پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور بظاہر پاکستان کے مفاد میں کیے جانے والے اس تازہ انتباہ کا اصل محرک بھی عین ممکن ہے کہ یہی ہو، اس کے باوجود پاکستانی قوم اور حکومت کو پاک چین اقتصادی راہداری میں پاکستان کے مفادات کو یقینی بنانے کے اہتمام میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔ 
تاہم امریکہ اور چین سے تعلقات کے حوالے سے پاکستانی قوم کے عشروں پر محیط تجربے کا خلاصہ یہ ہے کہ چین ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا جبکہ امریکہ نے ہر دور میں پاکستان کو صرف اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا اور مطلب نکل جانے کے بعد نگاہیں پھیر لینے میں دیر نہیں لگائی۔ ایلس ویلز آج پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی شکل میں بقول خود سی پیک سے بہتر جس اقتصادی ماڈل کی بات کر رہی ہیں، امریکہ کے پاس یہ ماڈل پاکستان کو فراہم کرنے کا موقع قیام پاکستان کے فوراً بعد سے تھا لیکن اس کا تعاون معاشی میدان میں پاکستان کو خودکفیل بنانے کے بجائے عملاً اپنا دست نگر بنائے رکھنے کی حکمت عملی کے تابع رہا لہٰذا سی پیک کے مقابلے میں معاشی ترقی کے لیے امریکی ماڈل کی اس تازہ پیشکش کو اس پورے تاریخی پس منظر سے الگ رکھ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ 
جہاں تک پاک چین اقتصادی راہداری میں پاکستانی مفادات کا معاملہ ہے تو چین نے امریکی نائب وزیر خارجہ کے سی پیک سے متعلق الزامات اور اعتراضات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان میں چین کے سفیر یائو جنگ نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں ایلس ویلز کے خدشات کا مستند اعداد و شمار کے ساتھ جواب دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سی پیک سے اب تک 75 ہزار پاکستانیوں کو روزگار مل چکا ہے جبکہ آئندہ عشرے کے دوران 23 لاکھ پاکستانی اس سے روزگار حاصل کریں گے۔ ان کا کہنا تھا ’’چین پاکستان سے مغربی ممالک اور آئی ایم ایف کی طرح قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ امریکہ مخلص ہے تو آگے آئے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرے، ہم پاکستان بشمول سی پیک میں امریکی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کریں گے‘‘۔ چینی سفیر کی یہ دعوت فی الحقیقت پاکستان کے ساتھ امریکہ کے اخلاص کے دعوئوں کا امتحان ہے اور پاکستانی قوم منتظر ہے کہ امریکہ اس کا جواب کس طرح دیتا ہے۔ پاکستان بہرحال پوری عالمی برادری سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے اور تمام سچے دوستوں کے لیے اس کے بازو کشادہ ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
5 notes · View notes
alibabactl · 4 years
Text
Tumblr media
منٹو کی وفات پر اس کے قلم سے اسی کا خاکہ:
منٹو (خاکہ)
(سعادت حسن منٹو)
یہ مضمون منٹو صاحب نے انتقال سے تقریباً تین ماہ قبل ستمبر1954ء میں رسالہ نقوش کے لئے لکھا۔ مدیر نے ’طلوع‘ (رسالے کے پیش لفظ) میں اس تحریرکے لئے ’ایک نیا سلسلہ‘ کی سُرخی کے تحت یہ نوٹ لکھا:
’’ہمارا خیال ہے خود ادیبوں سے بھی اپنی ذات کے بارے میں لکھوانا چاہیے کہ وہ خود کو کس عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس شمارہ میں منٹو نے اپنے بارے میں کچھ فرمایا ہے۔ ان کا قلم چونکہ بڑا بے باک ہے اس لئے وہی بے باکی انہوں نے اپنے بارے میں بھی اختیار کی ہے۔ ویسے یہ بڑی ہمت کی بات ہے کہ جس طرح ان کا قلم دوسروں کے لئے ’’بے لگام‘‘ ہے، وہی قلم اپنے لئے بھی اتنا ہی بے رحم ہے۔
(محمد طفیل )
منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑا کٹھن کام ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت کا شرف حاصل رہا ہے اور سچ پوچھئے تو منٹو کا میں ہمزاد ہوں۔
اب تک اس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے حقیقت سے بالاتر ہے۔ بعض اسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ۔۔۔ ذرا ٹھہرےئے میں دیکھ لوں کہیں وہ کم بخت یہیں سن تو نہیں رہا۔۔۔ نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے۔ اس کو شام کے چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔
ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دُکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نباہنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔
اب میں زیادہ تمہید میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائے۔ مثلث کے بارے میں اس کی معلومات کافی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی اس کی تثلیث نہیں ہوئی۔ یہ اشارے ایسے ہیں جو صرف بافہم سامعین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11مئی سنہ 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں تو اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔
لیجئے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خرذات افسانہ نگار کیسے بنا؟ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ شوپن ہار، فرائڈ، ہیگل، نٹ شے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔
اب میں اس کی سکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہو گا۔ وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بہت بڑے تھے اور ولایت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کوکبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا، اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں، اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں۔ یہ سلوک اسے اس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔
اچھا اب اُس کی افسانہ نگاری کے متعلق سُنیے۔ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اس نے بعنوان ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیا نوالہ باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا، یہ اُس نے اپنے نام سے نہ چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔
اس کے بعد اُس کے متلوّن مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس نے انٹرنس کا امتحان دوبار فیل ہو کر پاس کیا، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہو گی کہ وہ اُردو کے پرچے میں ناکام رہا۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ہیں، اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں۔
اس کی لٹھ بازی عام محاورے کے مطابق جاٹوں کی لٹھ بازی نہیں ہے، وہ بنوٹ اور پھکیت ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو صاف اور سیدھی سڑک پر نہیں چلتا، بلکہ تنے ہوئے رسّے پر چلتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب گِرا۔۔۔ لیکن وہ کم بخت آج تک کبھی نہیں گرا۔۔۔ شاید گر جائے، اوندھے منہ۔۔۔ کہ پھر نہ اُٹھے، لیکن میں جانتا ہوں کہ مرتے وقت وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں اسی لیے گرا تھا کہ گر اوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے۔
میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ منٹو اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا خود افسانہ اسے سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا۔ سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیئے جاتا ہے، جو بعد میں چُوں چُوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ اس کی بیوی اس سے بہت نالاں ہے۔ وہ اس سے اکثر کہا کرتی ہے کہ تم افسانہ نگاری چھوڑ دو۔۔۔ کوئی دُکان کھول لو لیکن منٹو کے دماغ میں جو دکان کھلی ہے اس میں منیاری کے سامان سے کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ اس لیے وہ اکثر سوچا کرتا ہے اگر میں نے کبھی کوئی سٹور کھول لیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ کولڈسٹوریج یعنی سردخانہ بن جائے۔۔۔ جہاں اس کے تمام خیالات اور افکار منجمد ہو جائیں۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ منٹو مجھ سے خفا ہو جائے گا۔ اس کی ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے مگر خفگی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خفگی کے عالم میں وہ بالکل شیطان بن جاتا ہے لیکن صرف چند منٹوں کے لیے اور وہ چند منٹ، اﷲ کی پناہ۔۔۔
افسانہ لکھنے کے معاملے میں وہ نخرے ضرور بگھارتا ہے لیکن میں جانتا ہوں، اس لیے۔۔۔ کہ اس کا ہمزاد ہوں۔۔۔ کہ وہ فراڈ کر رہا ہے۔۔۔ اس نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب اسے افسانہ لکھنا ہوگا تو وہ رات کو سوچے گا۔۔۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اُٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کا خیال کرے گا۔۔۔ لیکن اسے ناکامی ہو گی۔ پھر وہ غسل خانے میں جائے گا۔وہاں وہ اپنے شوریدہ سر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سوچنے کے قابل ہو سکے لیکن ناکام رہے گا۔ پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع کر دے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہو گی تو باہر پان لینے کے لیے چلا جائے گا۔ پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ آخر وہ انتقامی طور پر قلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور ۷۸۶ لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کر دے گا۔
بابو گوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، ممی، موذیل، یہ سب افسانے اس نے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اسے بڑا غیر مذہبی اور فحش انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گہرے موضوعات پر قلم اُٹھاتا ہے اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا، پہلے صفحے کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا جس کا مطلب ہے بسم اﷲ۔۔۔ اور یہ شخص جو اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے کاغذ پر مومن بن جاتا ہے۔ یہ وہ کاغذی منٹو ہے، جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں ہی میں توڑ سکتے ہیں، ورنہ وہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔
اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ جو چند القاب ہیں بیان کیے دیتا ہوں۔ وہ چور ہے۔ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور مجمع گیر ہے۔
اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اُڑائے ہیں۔ ادھر آٹھ سو لا کے دیئے اور چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ اس نے کہاں رکھے ہیں اور دوسرے دن اس میں سے ایک سبزہ غائب کر دیا اور اس بے چاری کو جب اپنے اس نقصان کی خبر ہوئی تو اس نے نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔
یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست گو ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔۔۔ شروع شروع اس کا جھوٹ اس کے گھر چل جاتا تھا، اس لیے کہ اس میں منٹوؔ کا ایک خاص ٹچ ہوتا تھا لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک مجھ سے خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا تھا، جھوٹ تھا۔
منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔۔۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔
وہ اَن پڑھ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا۔ فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری۔ ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ۔۔۔ میرا مطلب ہے تنقید نگار، یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔
خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے جو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں، بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پاانداز ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے۔
رسالہ نقوش، لاہور۔ شمارہ 45/46۔بابت: ستمبر، اکتوبر1954ء
2 notes · View notes