Tumgik
#یامین
paknewsasia · 2 years
Text
حاجرہ یامین کی نئی تصایر وائرل،مداحوں کی جانب سے نا پسندیدگی کا اظہار
حاجرہ یامین کی نئی تصایر وائرل،مداحوں کی جانب سے نا پسندیدگی کا اظہار
حاجرہ یامین کو پاکستان شوبز انڈسٹری کی کامیاب اداکاروں میں سے سمجھا جاتاہے۔ اداکارہ اکثر و بیشتر اپنی تصاویر اور ویڈیوزسوشل میڈیا پر شیئر کرتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں ادکارہ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر کچھ تصاویر شیئر کی ہیں جس کو مداحوں کی جانب سے نا پسندگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ شیئر کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اداکارہ نے سفید رنگ کی ٹی شرٹ اور جینز پہنی ہوئی ہے اور ساتھ ہی کئی جیولریز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 2 years
Text
حاجرہ یامین کے ساتھ بازار میں کیا ہوا؟ اداکارہ نے انکشاف کر دیا
حاجرہ یامین کے ساتھ بازار میں کیا ہوا؟ اداکارہ نے انکشاف کر دیا
حاجرہ یامین کے ساتھ بازار میں کیا ہوا؟ اداکارہ نے انکشاف کر دیا کراچی: جنسی ہراسانی کا شکار مرد و عورت کو یکساں تحفظ دینے کےلئے آواز اُٹھانے والی پاکستانی اداکارہ حاجرہ یامین نے اپنےساتھ پیش آئے واقعے پر کھل کر گفتگو کردی۔ پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حاجرہ یامین ایکسپریس انٹرٹینمنٹ پر احسن خان کے پروگرام ٹائم آؤٹ وِد احسن خان میں بطورِ مہمان شریک ہوئیں، میزبان سے گفتگو کے دوران جنسی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
سندھ پولیس نے قومی کرکٹرز کو بھی دھمکا کر رشوت وصول کر لی
پاکستانی کرکٹر صہیب مقصود اور عامر یامین نے سندھ پولیس پر رشوت لینے کا الزام عائد کیا ہے۔ صہیب مقصود نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم سندھ میں نہیں پنجاب میں رہتے ہیں، زندگی میں پہلی بار کراچی سے ملتان بذریعہ روڈ سفر کیا۔ انہوں نے لکھا کہ سندھ پولیس اتنی کرپٹ ہے کہ 50 کلومیٹر کے بعد آپ کو روک کر پیسے مانگتی ہے اور نہ دینے کی صورت میں تھانے لے جانے کی دھمکی دیتی ہے۔ صہیب مقصود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
Tumblr media
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلس��ینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں ​​نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔  وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
Tumblr media
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔  اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔ 
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔ 
بارعہ علم الدین  
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
pakistantime · 4 months
Text
’تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے‘
Tumblr media
صرف 24 لاکھ لوگ یعنی شنگھائی کی آبادی کا بھی 5 فیصد اور ایک سپر پاور نے انہیں دھمکانے کے لیے دو طیارہ بردار بحری جہاز بھیج دیے تاکہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے بن یامین نیتن یاہو کو اپنی غیر مشروط وفاداری کا یقین دلایا جا سکے۔ سلام ہے غزہ کے لوگوں کو۔ کیا اسرائیلی حملے کی مزاحمت کرنے والے ان لوگوں سے زیادہ بھی کوئی بہادر ہوسکتا ہے؟ حیرت انگیز بات تو امریکی، برطانوی اور فرانسیسی لیڈروں کا ایک صف میں کھڑے ہونا اور نیتن یاہو کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ ہیکلِ ثالث کا مستقبل تھرڈ رائیخ سے مختلف ہو گا۔ یہ ہیکل ثالث بھی ارضِ اسرائیل کے لیے مزید زمین چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے رائیخ کو لیبینسروم درکار تھا۔ نازی تو روس میں زمین کے متلاشی تھے جبکہ صہیونی، جیسا کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربن نے درست طور پر اشارہ کیا ہے، فلسطینی عوام کی قیمت پر ایسا چاہتے ہیں۔ مزید زمین کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی اسرائیلی لالچ کو پورا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کی بات نہ کی جائے کیونکہ یہ نیتن یاہو کی خواہش نہیں۔
ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے اور اسے ویٹو بھی حاصل ہے۔ امریکی مندوب تو محض وائٹ ہاؤس کے ذریعے اسرائیل سے آنے والے احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسرائیل کے حکم سے انکار کے کیا نتائج ہوں گے۔ نومبر کے آخر میں، اپنے یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل نے حماس کے ساتھ ایک مختصر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ یرغمالیوں کے تبادلے کے بعد، نیتن یاہو نے غزہ کے شہری اہداف پر دوبارہ بمباری شروع کر دی، اور سلامتی کونسل جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ عام طور پر، جب سلامتی کونسل کوئی مشکل جغرافیائی سیاسی مسئلہ اٹھاتی ہے اور مندوبین کسی حل پر متفق ہونے میں ناکام رہتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ یہ کرتے ہیں کہ خونریزی کے خاتمے کے لیے ایک بے ضرر قرارداد منظور کرتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں، اس طرح کی تحریک اسرائیلی غصے کو جنم دے گی، کیونکہ یہ غزہ کے لوگوں کی جاری نسل کشی کو روک دے گی۔
Tumblr media
اسرائیل کے وفادار اتحادیوں کے طور پر، کونسل کے مغربی اراکین نے جنگ بندی کی قرارداد کو روک کر ایک ایسی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے جیسے ڈاکٹر بے ہوش کیے بغیر کسی مریض کا آپریشن کر دے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہمیں بیلسن اور ٹریبلنکا میں رائیخس فیوہرر ہملر کی ایس ایس کے فوجیوں کی یاد دلاتی ہے۔ صہیونیوں کو صرف لوگوں قتل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ زخمی اور حاملہ خواتین کو درد سے کراہتے ہوئے اور اس طبی امداد کے انتظار میں دیکھ کر افسوسناک خوشی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے جو ایسا لگتا تھا کہ کبھی نہیں پہنچے گی۔ توقع کے عین مطابق واشنگٹن نے رفح میں اسرائیلی ہدایات کی تعمیل کی۔ اسرائیل کے حکم پر اور مصری حکومت کے تعاون سے خوراک اور طبی سامان لے جانے والے طیارے العریش ہوائی اڈے پر اترے اور سامان لے جانے والے ٹرک رفح جانے کے بجائے 206 کلومیٹر طویل مصری اسرائیل سرحد پر کسی رابطہ مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ معائنے کے بعد وہ رفح کراسنگ پر گئے جہاں اسرائیلی حکام نے زخمیوں اور امداد کے منتظر لوگوں کو امداد کی جلد فراہمی روکنے کے لیے اس عمل میں مزید تاخیر کی۔
سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک یہودی ریاست ہے لیکن دو صہیونی حکومتیں ہیں، ایک مقبوضہ بیت المقدس میں اور دوسری واشنگٹن میں۔ مؤخر الذکر یروشلم کی حکومت کے تابع ہے، اس کا کام بنیادی طور پر اسرائیل کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ الاہلی ہسپتال پر بمباری کے جرم سے لیکود پارٹی کی حکومت کو بری الذمہ کرنے کے صدر جو بائیڈن کے فیصلے پر غور کریں۔ بائیڈن کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی، وہ اسرائیل میں تھے اور ظاہر ہے کہ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں سے مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے صرف وہی بات دہرائی جو نیتن یاہو نے ان سے کہی تھی۔ بعد میں نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کی تحقیقات سے بھی اس ��ات کی تصدیق ہوئی کہ یہ ایک اسرائیلی میزائل تھا جس نے ہسپتال کو قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ کیا امریکی سیاست پر صہیونی اثرات مبالغہ آمیز ہیں؟ دو امریکی پروفیسر، جان جے میرشیمر اور اسٹیفن ایم والٹ کی کتاب ’دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘ میں اس کا ایک علمی جواب ملتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بائیڈن کے رویے میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔ ایک فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ لیکود پارٹی کی حکومت ’اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت‘ ہے اور یہ کہ نیتن یاہو کو اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل فلسطینی ریاست کا انکار نہیں کرسکتا‘۔ تاہم اسرائیلی اثر و رسوخ کے بارے میں سچائی ایک ایسے شخص نے بیان کی جو ہر لحاظ سے صہیونی نظریے کی نمائندگی کرتا ہے اور اسے صبرا شاتیلہ میں قتل عام کی وجہ سے بیروت کا قصائی کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2001ء میں کابینہ کے اجلاس کے دوران، اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی وزیر اعظم ایریل شیرون کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ ایریل شیرون نے غصے میں آتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی ہم کچھ کرتے ہیں تو آپ مجھے کہتے ہیں کہ امریکی ایسا کریں گے اور ویسا کریں گے۔ ’میں آپ کو ایک بات واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں، اسرائیل پر امریکی دباؤ کی فکر نہ کریں، ہم، یہودی لوگ، امریکا کو کنٹرول کرتے ہیں اور امریکی اسے جانتے ہیں‘۔ یہ خبر ایک اسرائیلی ریڈیو اسٹیشن کول اسرائیل نے نشر کی تھی۔
محمد علی صدیقی  یہ مضمون 16 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
emergingpakistan · 7 months
Text
’مظلوم لوگ ہمیشہ کے لیے مظلوم نہیں رہ سکتے‘
Tumblr media
’مظلوم لوگ ہمیشہ کے لیے مظلوم نہیں رہ سکتے۔ آزادی کی تڑپ بالآخر خود کو ظاہر کرتی ہے‘— مارٹن لوتھر کنگ جونیئر دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دی جانے والی غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں نے گزشتہ نصف دہائی بدترین جبر میں گزارنے کے بعد گزشتہ ہفتے ایک جوابی وار کیا۔ یہ وار اتنا شدید تھا کہ اس نے اسرائیل کی صیہونی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں جنگ کو اسرائیلی حدود میں لے جا کر خطے کی طاقتور ترین عسکری قوت کو بدترین ہزیمت سے دوچار کیا۔ اس حملے سے ایک روز میں جتنے اسرائیلی ہلاک ہوئے اتنے اب تک کسی اور حملے میں نہیں ہوئے۔ یقینی طور پر اسرائیل کی جوابی کارروائی بھی انتہائی سفاکانہ رہی۔ تقریباً 22 لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ کی پٹی پر اسرائیلی افواج ماضی میں بھی بمباری کرتی رہی ہیں لیکن ان کی شدت کبھی بھی اتنی نہ تھی جتنی اس مرتبہ ہے۔ اسرائیلی جان بوجھ کر عام آبادی بہ شمول بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس وقت غزہ کا مکمل محاصرہ ہو چکا ہے اور خوراک، ایندھن اور دیگر اشیا بھی وہاں تک نہیں پہنچ رہیں۔ یہ محاصرہ جس کا مقصد غزہ کی آبادی کو بھوکا مارنا ہے واضح طور پر جنگی جرائم کے ضمرے میں آتا ہے۔
ایک غاضب قوت کا محکوم آبادی کے خلاف اعلان جنگ بہت عجیب سی بات ہے۔ لیکن طاقت کے بے پناہ استعمال کے باوجود بھی اسرائیل مزاحمت کو ختم نہیں کر سکا۔ فلسطینی جنگجو اب بھی اسرائیلی علاقوں میں لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس جنگ کے جلد ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے بلکہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ جنگ مغربی کنارے تک بھی پھیل سکتی ہے جہاں پہلے سے ہی اسرائیلی افواج موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو پہلے ہی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اسرائیلی ردعمل مشرق وسطیٰ کو تبدیل کر دے گا۔  درحقیقت یہ جنگ پہلے ہی علاقے کی جغرافیائی سیاست کو بدل رہی ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی حمایت کی ہے۔ اس تنازعے نے ایک بار پھر مغربی منافقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔  حماس کی جانب سے شہریوں کے قتل عام اور خواتین اور بچوں کو یرغمال بنانے کی مذمت کرتے ہوئے مغربی دنیا نے غزہ پر اسرائیلی بمباری کی منظوری دے دی ہے جس میں ’اسرائیل کے دفاع کے حق‘ کے بہانے بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔
Tumblr media
نام نہاد مہذب دنیا کی نظر میں مظلوموں کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر قبضہ کرنے والے کے خلاف مزاحمت کریں اور اپنی آزادی کے لیے لڑیں حماس کی جانب سے گزشتہ ہفتے کا حیران کن حملہ اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لیے بھلے ہی غیر متوقع ہو لیکن اس کی بنیادیں فلسطینی سرزمین پر طویل قبضے اور اسرائیلی افواج کے جاری مظالم میں ہیں۔ اسرائیلی بستیوں میں ہونے والی مسلسل توسیع کے نتیجے میں فلسطینی آبادی بے گھر ہو رہی ہے۔ غزہ گزشتہ 5 دہائیوں سے اسرائیلی مظالم کا شکار ہے اور اب صورت حال ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ غزہ کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے موجودہ جنرل سیکریٹری نے ’زمین پر جہنم‘ قرار دیا ہے۔ غزہ مسلسل محاصرے میں رہا ہے جس سے یہ علاقہ انسانی بحران کی تصویر بنا ہوا ہے۔ غزہ کے نصف سے زیادہ لوگ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد 5 سال سے زیادہ عمر نہیں پاتی۔ اسرائیل کی مسلسل بمباری اور ناکہ بندی کا سب سے زیادہ شکار بچے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں غزہ پر اسرائیل کی پے در پے بمباری میں سیکڑوں فلسطینی بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اسرائیل کے تازہ ترین فضائی حملوں نے علاقے کے ایک بڑے حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔ دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ فلسطینیوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی معمول بن چکی ہے۔ اب غزہ کی بے بس و مجبور آبادی اسرائیل کے زمینی حملے کے خوف میں ہے۔ طویل عرصے سے مصائب کا شکار ان مظلوموں کی مشکلات بھی مغرب کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ سکیں۔ مغربی دنیا اسرائیل کی نسل پرست پالیسیوں کے آگے منہ پھیر لیتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے عسکری قوت کا وحشیانہ استعمال اور مغرب کی جانب سے اس کی حمایت شاید ابھی مزید فلسطینیوں کی جان لے گی لیکن اس مزاحمت کو نہیں کچل سکتی۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جنگ کے اعلان سے مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس جنگ کا ایک نقصان اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے لیے امریکی کوششوں کا پٹڑی سے اترنا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے شروع کیے گئے اس عمل میں گزشتہ ماہ اہم پیش رفت ہوئی تھی جب کسی اسرائیلی وزیر نے پہلی مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ 
ہوسکتا ہے کہ اس دورے کا براہ راست تعلق اسرائیل-سعودی تعلقات کے حوالے سے ہونے والی بات چیت سے نہ ہو لیکن اسے دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے کے طور پر دیکھا گیا۔ لیکن اس لڑائی سے ان مذاکرات کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو بتایا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ’تمام مذاکرات ختم کررہا ہے‘۔ بائیڈن انتظامیہ کے اقدام کو مشرق وسطیٰ میں امریکا کی پوزیشن پر دوبارہ زور دینے کے ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ امریکا نے یہ قدم اس وقت اٹھایا تھا جب چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک امن معاہدہ کیا۔ یہ دونوں ممالک برسوں سے خطے میں پراکسی جنگ میں مصروف تھے۔ اس معاہدے نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم خطوں میں سے ایک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو ظاہر کیا تھا۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے امریکی سرپرستی میں کچھ پیش رفت تو ہوئی لیکن اس کے باوجود ابھی دونوں ممالک کے مابین کسی امن معاہدے کے امکانات نہیں تھے۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت اسرائیلی بستیوں کے معاملے پر کسی سمجھوتے سے انکاری تھی۔ ماضی کے امریکی صدور کے برعکس، بائیڈن نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے براہ راست کوئی کوشش نہیں کی۔ فلسطینیوں کو اس عمل سے دور رکھنے سے مشرق وسطیٰ میں طویل مدتی امن قائم نہیں ہو گا۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس جنگ کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کا اب کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس بحران کا واحد حل اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور فلسطینیوں کے علیحدہ ریاست کے حق کو تسلیم کرنا ہے۔
زاہد حسین  
یہ مضمون 11 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ روزنامہ ڈان
1 note · View note
hamsliveurdu · 8 months
Link
بلا تفریق مذہب و ذات اس بات پر نازاں ہے کہ ہندوستان نے ’چاند فتح‘ کر لیا ہے، لیکن کیا یہاں کرۂ ارض پر نفرت کی دیواریں دو فرقوں کے درمیان چاند کے راستے میں حائل کی جا رہی ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری وطن عزیز میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی روز نئی نئی شکل میں سامنے آ رہی ہے اور اس کے نئے نئے کردارسامنے آ رہے ہیں۔ کبھی یہ نفرت انگیزی مسند اقتدارپر بیٹھیے لوگوں کے ذریعہ سماج میں زہر گھولتی ہے۔ کبھی مذہبی جلسوں اور جلوسوں میں فروغ پاتی ہے۔ کبھی وہ تہذیب و ثقافت کے نام پر اور کبھی نام نہاد راشٹرواد کے نام پر ایک فرقہ پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں کہ ’نئے بھارت‘ میں نفرت، تعصب اور تشدد نے اپنی بنیادیں مضبوط کر لی ہیں۔ نفرت انگیزی کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ اب فلموں میں ہی نہیں، سڑکوں پر، ٹرینوں میں، بسوں میں، بازاروں میںاور یہاں تک کہ تعلیم کے مندر اسکول کالجوں میں بھی یہ فرقہ پرستی رقص کرتی نظر آتی ہے۔ تعصب اور نفرت کے بے لگام گھوڑے پر سوار فرقہ پرست اس کے بھیانک انجام سے بالکل بے خبر ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ایک طبقہ کو ہراساں کرکے، انھیںاحساس کمتری میں مبتلا کرکے، ان کے مذہبی امور میں رخنہ اندازی کرکے، ان کے کھانے پینے اور شکل و شباہت پر حملے کرکے، انھیں دوسرے درجہ کا شہری بنا کراس ملک کوترقی اور خوشحالی کے راستے پر لے جائیں گے، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ افسوس دنیا میں جس بھارت کی پہچان مہاتما گاندھی نے ’عدم تشدد‘ سے کروائی، آج کا’نیا بھارت‘نفرت، تعصب اور تشدد کی علامت بن گیا ہے۔ ابھی پورا ملک بلا تفریق مذہب و ذات اس بات پر نازاں ہے کہ ہندوستان نے ’چاند فتح‘ کر لیا ہے۔ ہم نے ’چندر یان3‘ کی کامیابی کے ساتھ سائنس اور خلا میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں۔ لیکن ایک طرف ہم چاند پر کمند ڈال رہے ہیں، دنیا کی رہنمائی کا خواب دیکھ رہے ہیں، ’وشو گرو‘ بننے کا دعویٰ کر ہے ہیں، وہیں دوسری طرف ملک کو ایک ایسے گڑھے میں لے جا رہے ہیں، جہاں سے نکلنا نا ممکن نہیں تو آسان بھی نہیں ہے۔ نفرت کی یہ دیواریںدو فرقوں کے درمیان نہیں، بلکہ چاند کے راستے میں حائل کی جا رہی ہیں۔ کیسے ہم اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ ہم چاند پر ہیں؟ آخر کیوں ہماری سائنس اور ’روور‘ ملک میں پھیل رہی نفرت کو نشان زد نہیں کر پا رہے ہیں؟حالات اس قدر نا گفتہ بہ ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے کہ ہم ’چندریان3‘ کو ’نئے بھارت‘ کی سچی تصویر سمجھیں یا مظفر نگر کے اسکول میں پیش آیا واقعہ ہی ’نئے بھارت‘ کی حقیقت ہے؟  افسوس اس بات کا ہے کہ سماج میں نفرت، تعصب اور تشدد کا یہ زہر نیچے سے اوپر کی طرف نہیں، بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ فرقہ پرستی کا یہ زہر سماج میں بہت گہرائی تک پیوست ہو چکا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جب حکومت، پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک طبقہ کے خلاف جتنے بھی مظالم کر لئے جائیں، ملزمین کو کٹہرے میں نہیں ، بلکہ اقتدار کے ساتھ کھڑا پائیں گے۔ حال ہی میں نوح میں پیش آئے واقعات اس کی تازہ مثال ہیں۔ ملک کا انصاف پسند طبقہ جن لوگوں کو ان واقعات کا اصل ذمہ دار مانتا ہے، وہ آرام سے ٹی وی پر بیٹھ کر انٹرویو دے رہے ہیں اور دوسری طرف ایک ہی طبقہ کے تقریباً ایک ہزار مکانوں کو مسمار کر دیا جاتا ہے، کاروبار تباہ کر دیا جاتا ہے اور سیکڑوں لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا تھا کہ مہاراشٹر میں چلتی ٹرین میں منافرت کے زہر میں ڈوبا چیتن نام کا ایک سرکاری محافظ چن چن کر تین مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ مزید کو مارنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پہلی نظر میں ذہنی بیمار قرار دے کراس کے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہیں حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم ’غدر 2‘ دیکھ کر نکلنے والے کس طرح کا اظہار کرتے ہیں، اس سے ’نئے بھارت‘ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایک رپورٹر فلم دیکھ کر نکلنےوالی ایک جواں سال لڑکی سے پوچھتا ہے کہ فلم کیسی لگی، وہ کہتی ہے کہ ’ بہت اچھی ہے، مسلمانوں کے چہرے پر جو خوف نظر آ رہا ہے، وہ مَست ہے‘۔ اسی طرح ایک 94 سال کی ایک بوڑھی عورت سے جب وہ یہی سوال کرتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ ’ارے اپنے لوگ اتنے مسلمانوں سے لڑے اس سے بڑے فخر کی بات کیا ہے۔‘ ملک میں نفرت کا زہر گھولنے والی فلم ’دی کشمیر فائلز‘ کوقومی یکجہتی کے زمرے میں ’نیشنل فلم ایوارڈ‘سے نوازا جاتا ہے۔ اس فلم کی نمائش کے دوران سنیما گھروں سے لے کر سماج میں کس قدر نفرت اور اشتعال کو پھیلایا گیا تھا، وہ سب نے دیکھا تھا۔ فلم کو نہ صرف ٹیکس فری کیاگیا، بلکہ ملک کے مختلف حصوںمیں حکمراں طبقہ نے مفت میں فلم دکھانے کا انتظام کیا تھا۔ اب ایسے میں ’کسے وکیل کریں، کس سے انصاف چاہیں‘۔ آپ سوچیں کہ ظلم کے خلاف کس سے انصاف کی امید لگائیں۔ کس سے گفتگو اور مذاکرات کئے جائیں کہ فرقہ وارانہ اہم آہنگی برقرار رہ سکے۔ اس سوال کا جواب ان لوگوں کو بھی دینا چاہئے جو چاہتے ہیںکہ مظلوم خود ظالم کے سامنے دست بستہ ہو کر گزارش کرے کہ آؤ ملک میں امن و سکون قائم کریں۔ مظفر نگر کے اسکول میں پیش آیا واقعہ کیا کسی ایک ٹیچر یا کسی ایک بچے تک محدود ہے؟ شاید نہیں۔ یہ معاملہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ تعلیم کے مندر میں ایک خاتون ٹیچر نے جو شرمناک حرکت کی ہے، اس کے لئے مذمتی الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ اس نے نہ صرف استاد کے مرتبہ اور اس کی شان کو ملیا میٹ کیا ہے، بلکہ نفرت میں ڈوبی اس خاتون نے آج کے بھارت کی حقیقت بیان کر دی ہے۔ کبیر داس کا ایک دوہا ہے’گرو گووند دوؤ کھڑے، کاکے لاگو پائے‘۔ کبیر داس نے اس دوہے میں گرو یعنی استاد کی شان بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ زندگی میں کبھی کبھی ایسی صورت حال آتی ہے کہ جب گرو اور گووند (بھگوان) ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں تو پہلے کس کا احترام کیا جائے۔ لیکن مظفر نگر کے ’نیہا پبلک اسکول‘ کی ٹیچر ترپتا تیاگی نے بتا دیا ہے کہ نئے بھارت میں اب کبیرکا دوہا بے معنی ہے ۔ کیا اسسے پہلے اس طرح کے واقعات کے بارے میں کوئی سوچ سکتا تھا؟ اگر کبھی ایسا ہوتا بھی تھا  تو شرمندگی اور احساس جرم کے سبب ملزم پانی پانی ہو جاتا تھا اور اس کے خلاف کارروائی یقینی ہوتی تھی، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔  نفرت انگیزی کے اس دور میں نہ کوئی شرمندگی ہے، نہ کسی جرم کا احساس اور نہ ہی کسی قانونی کارروائی کا خوف۔ مظلوم ہی خوفزدہ نظر آتا ہے۔ اسی لئے تو مظفر نگر میں ایک مسلم بچے کو کلاس میں الگ کھڑا کرکے ہندو بچوں سے پٹوایا جاتا ہے اور مدھیہ پردیش میں صرف اس لئے ایک مسلم اسکول پر بلڈوزرچلا دیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کی غیر مسلم بچیاں اسکارف پہنتی تھیں۔  اسکول کی پرنسپل ، ٹیچر اور سیکورٹی گارڈ کو طالبات کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ریاست کے دموہ میں ’گنگا جمنا پبلک اسکول‘ کی طرح مظفر نگر کے ’نیہا پبلک اسکول‘ میں ایسی کوئی کارروائی آپ کو نظر آئی؟ نہیں، کیوں کہ یہاں مظلوم مسلمان ہے اور ملزم ایک ہندو ہے۔ نئے بھارت میں ظالم اور مظلوم کے ساتھ  انصاف اور نا انصافی کا مطلب بھی بدل گیا ہے۔ پچھلے چند برسوں کا بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، ایک ہی قسم کے جرم میں انصاف کے دو پیمانے نظر آتے ہیں۔ خوف اور احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ مظفرنگر کے متاثر بچے کے والد نے پولیس سے شکایت تک نہیں کی۔ بھلا ہو سوشل میڈیا پر سرگرم ان انصاف پسند ہندوستانیوں کاجن کی وجہ سے یہ معاملہ سامنے آیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جن ہندو بچوں سےمسلم بچے کو پٹوایا گیا، ان کے والدین سامنے آتے اور ٹیچر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا، کیوں کہ یہی ’نئے بھارت‘ کی ’بلند تصویر‘ ہے۔ (مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) [email protected] اس مضمون میں پیش کئے گئے افکار وخیالات مضمون  نگار کے ذاتی ہیں۔
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
حاجرہ یامین نے شعیب اختر کے بیان پر کیا کہا؟
شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حاجرہ یامین نے بھی شعیب اختر کے بابر اعظم سے متعلق بیان پر تبصرہ کردیا۔ قومی ٹیم کے سابق اسپیڈ اسٹار شعیب اختر نے گزشتہ دنوں بابر اعظم سے متعلق کہا تھا کہ انہیں بولنا نہیں آتا اسی لیے وہ اب تک بڑے برانڈ نہیں بن سکے، انہیں بات نہیں کرنا آتی جس کے باعث وہ لوگوں سے جڑ نہیں پاتےکتنا مشکل ہے انگریزی میں بات کرنا۔ شعیب اختر کا کہنا تھا کہ ‘آج کل صرف ٹیلنٹ سے کام نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 1 year
Text
پی ایس ایل 8 کی پہلی سینچری کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مارٹن گپٹل کے نام
پاکستان سپر لیگ 8 کی پہلی سینچری ہفتے کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بلے باز مارٹن گپٹل نے اپنے نام کر لی ہے۔ مارٹن گپٹل نے ہفتے کو کراچی کنگز کے خلاف میچ کے دوران 67 بالوں پر 117 رنز بنائے اور ایک شاندار شاٹ کھیلتے ہوئے عامر یامین کی گیند پر عرفان خان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔  یہ مارٹن گپٹل کی پی ایس ایل کے تمام سیزنز کے دوران پہلی سینچری ہے۔ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
پی ایس ایل 8 کی پہلی سینچری کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مارٹن گپٹل کے نام
پاکستان سپر لیگ 8 کی پہلی سینچری ہفتے کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بلے باز مارٹن گپٹل نے اپنے نام کر لی ہے۔ مارٹن گپٹل نے ہفتے کو کراچی کنگز کے خلاف میچ کے دوران 67 بالوں پر 117 رنز بنائے اور ایک شاندار شاٹ کھیلتے ہوئے عامر یامین کی گیند پر عرفان خان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔  یہ مارٹن گپٹل کی پی ایس ایل کے تمام سیزنز کے دوران پہلی سینچری ہے۔ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
پی ایس ایل 8 کی پہلی سینچری کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مارٹن گپٹل کے نام
پاکستان سپر لیگ 8 کی پہلی سینچری ہفتے کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بلے باز مارٹن گپٹل نے اپنے نام کر لی ہے۔ مارٹن گپٹل نے ہفتے کو کراچی کنگز کے خلاف میچ کے دوران 67 بالوں پر 117 رنز بنائے اور ایک شاندار شاٹ کھیلتے ہوئے عامر یامین کی گیند پر عرفان خان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔  یہ مارٹن گپٹل کی پی ایس ایل کے تمام سیزنز کے دوران پہلی سینچری ہے۔ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
spitonews · 1 year
Text
ہاجرہ یامین نے محسن عباس کے ساتھ ویب سیریز میں کام کرنے کی وجہ بتادی
ہاجرہ یامین نے محسن عباس کے ساتھ ویب سیریز میں کام کرنے کی وجہ بتادی
محسن عباس کو اپنی سابقہ اہلیہ پر گھریلو تشدد کے الزامات پر شدید تنقید کا سامنا ہے (فوٹو: فائل)   کراچی: پاکستانی اداکارہ ہاجرہ یامین نے محسن عباس حیدر کے ساتھ ویب سیریز میں کام کرنے پر وضاحت دی ہے۔ انڈین فاشزم پر مبنی ویب سیریز ’سیوک‘ میں ہاجرہ یامین ایک بھارتی صحافی کا کردار ادا کررہی ہیں جبکہ اس سیریز میں محسن عباس بھی موجود ہیں۔ اداکار محسن عباس کو اپنی سابقہ اہلیہ پر گھریلو تشدد کے الزامات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years
Text
حراسانی کا کوئی یقین نہیں کرتا، ثبوت مانگا جاتا ہے . حاجرہ یامین
حراسانی کا کوئی یقین نہیں کرتا، ثبوت مانگا جاتا ہے . حاجرہ یامین
معروف اداکارہ حاجرہ یامین نے کہا ہے ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے بازار میں 10 ہاتھ لگے ہیں مجھے، میں کس کس کو بتاؤں گی؟ اور اگر بتاؤں بھی تو کوئی یقین نہیں کرتا ، آواز اُٹھاؤ تو کہا جاتا ہے کہ کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس؟ انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہئوے کہا بھلا حراسانی کا ثبوت کیسے دیا جائے، میں کیسے بتاؤں کے کس نے مجھے غلط طرح دیکھا یا غلط انداز سے ہاتھ لگانے کی کوشش کی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ’’ جب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
arcofpstuff · 4 years
Video
youtube
Yameen Name Meaning In Urdu By Name Info || Yameen Naam ka Kya Matlab ha...
0 notes
mwhwajahat · 3 years
Text
دو آنے کے بُندے... تحریر: صغریٰ یامین
دو آنے کے بُندے… تحریر: صغریٰ یامین
آزادی کے موقع پر لکھی گئی درد ناک تحریر …………….. “اماں! دو آنے کے بُندے دے دو۔” میرے دائیں جانب سے ننھی ارصع کی آواز آئی تو یکایک دوسری جانب سے گویا گالیوں کا فائر کھل گیا۔ “کھلو مرن جوگیے! ٹُٹ پینیے!،حرام زادیے!” یہ تماشا ہر دوسرے دن شہر کے کسی نہ کسی چوک میں دیکھنے کو ملتا۔ “دو آنے کے بُندے” یہ جملہ اماں مریاں (مریم) کی چِڑ تھے۔ بچے انہیں دیکھ کر جوں ہی یہ لفظ کہتے تو جواباً اماں انہیں مغلظات کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی منیرہ یامین ستی کرونا سے جاں بحق
مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی منیرہ یامین ستی کرونا سے جاں بحق #Coronavirus #Punjab #aajkalpk
لاہور : کرونا وائرس ایک اور سیاستدان کی جان لے گیا۔ مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی منیرہ یامین ستی کرونا سے جاں بحق ہوگئیں، منیرہ یامین ستی کافی دنوں سے کرونا کے باعث وینٹی لیٹر پر تھیں۔ دوسری جانب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق کورونا وائرس سے 50 افراد جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد اموات کی تعداد 10 ہزار 511 ہوگئی۔ پاکستان میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 4 لاکھ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes