Tumgik
#سماجت
makesite4seo · 1 year
Photo
Tumblr media
#آزادی #ایران #همبستگی #روزهای_روشن #داریوش #اسطوره #پهلوان_علی_کریمی #علی_کریمی #علی_دایی #پهلوان_رسول_خادم #عشق #امید #سماجت #ایستادگی #اکسپلور https://www.instagram.com/p/ClVzS6-Dkwe/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
عمران خان دوسروں پر پہلے اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں پرورش کا الزام لگاتے ہیں پھر منت سماجت کرتے ہیں حکومت میں واپس لائیں ، شیری رحمن
عمران خان دوسروں پر پہلے اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں پرورش کا الزام لگاتے ہیں پھر منت سماجت کرتے ہیں حکومت میں واپس لائیں ، شیری رحمن
اسلام آباد (نمائندہ عکس)وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین ایک طرف دوسروں پر اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں پرورش کا الزام لگاتے،دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو منت سماجت کرتے کہ ان کو واپس حکومت میں لائیں۔ اپنے بیان میں شیر ی رحمن نے کہاکہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا عمران خان اور ان کی جماعت کا وطیرہ ہے، یہ اپنے علاوہ ہر کسی کو غدار اور ملک دشمن سمجھتے۔ وفاقی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 2 months
Text
ہاں میں بیوفا ہوں
-
Part-5
اب میڈم کی انگلیوں کی رفتار کچھ تیز ہو گئی تھی پتہ نہیں کیسے جب میں نے اندر کی طرف دیکھا تو میڈم کی نظریں مجھ پر تھیں اور مجھے تو کچھ لمحے کے لئے سکتا سا ہوگیا کہ میڈم مجھے اس طرح اپنے لوڑے کو مسلتے ہوئے دیکھ رہی تھیں اور میری حالت تھوڑی بہتر تب ہوئی جب انہوں نے مجھے دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیا اوراسکے ےہ وہ مجھے روکتی وہ مجھے دیکھ کر اور زیادہ تیز اپنا ہاتھ چلانے لگ گئی شاید وہ اپنی حوس یا پھر گرمی کے ہاتھوں مجبور تھیں اورانہوں نے اپناکام جاری رکھا بنا کسی بھی چیز کی پرواہ کئئے شاید انکو میرا یوں انکو چھپ چھپ کر دیکھنا پسند آگیا تھا یا پھر وہ مجھے خود یوں دکھانا چاہتی تھیں (سہی کہا ہے کسی نے جب منی دماغ پر سوار ہو جائے تو اسکو نکالے بغیر انسان رکتا نہیں) میں انکو یوں دیکھ رک سا گیا اب میڈم کا وقت قریب تھا اور انکے جسم نے اب جھٹکے لینا شروع کر دیے تھے اور انکے منہ سے دبی دبی سسکاریاں نکل رہی تھیں اور جیسے ہی انکا پانی نکلنے کے قریب ہوا تا انھوں نے اپنی دونوں انگلیان باہر نکال کر تیزی سے اپنے ہاتھ کو پھدی کے دانے پر رگڑنے لگی اور میڈم کی چوٹ سے پانی کسی آبشار کی طرح بہنے لگا یہ دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے میں کو جھرنا پھوٹتے ہوئے دیکھ رہا ہوں تب ہی مجھے ہوش آیا
Tumblr media
جب میڈم سیدھی کھڑی ہوئی اور تب ہی مجھے خیال آیا یہاں سے نو دو گیارہ ہو جا شاید میڈم نے مجھے نہیں دیکھا ابھی تک (جوکہ بس ایک غلط فہمی تھی) میں وہاں سے رفو چکر ہوتا بنا اور فورا سے جا کے پڑھائی والے کمرے میں پہنچ کر کتابوں کو ٹٹولنے لگا ۔
پھر چند منٹوں میں ٹیوسن کے باقی بچے بھی آگئے اور سب اپنے اپنے کام میں مشغول ہو گئے اتنے میں میڈم بھی آگئی سارے بچوں نے اجتماعی سالام کیا میڈم کو اسکے بعد سب اپنی جگہ پر بیٹھ کر کام کر نے لگ گئے میں ان سب بچوں سے تھوڑا دور ہو کر بیٹھ گیا تا کہ میڈم مجھ سے کچھ دیر پہلے ہونے والی واردات کے بارے میں نہ پوچھیں ۔
بہر حال وقت گزرتا گیا اور سب اپنا کام مکمل کر کے ٹیوشن سے چھٹی کر کے نکلتے گئے اب میرے علاوہ تین اور بچے موجود تھے کمرے میں ۔
میں اپنی جگہ سے اٹھا اور میڈم کو خدا حافظ بول کر دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کے میڈم نے پیچھے سے ایک کرخت آواز لکائی جسکو سن کر میری ٹانگوں نے اگالا قدم اٹھانے سے رک گئی" کہاں جا رہے ہو دفع ہو جاؤاپنی جگہ پر جب سے آئے ہو ادھر ادھر کی باتوں اور تانکہ جھانکی کے علاوہ کیا ہی کیا ہے" میڈم کی جھاڑ سن کر میں واپس اپنی جگہ پر چلا گیا
Tumblr media
اور چپ کر کے سوچنے لگا اب کیا ہو گا آج تو تیری خیر نہیں آج تو بہت برے پھسے اسد
اس وقت میرے دل میں بس ایک ہی خیال تھا کے یا تو میں نے یہ سب دیکھا نہ ہوتا یا پھر میں یہاں سے کسی پرندے کی طرح فرار ہو جاؤں یہی خیال میرے دماغ میں چل رہے تھے کے ایک آواز میرے کانوں میں پڑی جس سے سن کر میں چونک پڑا اور وہ آواز میڈم کی ہی تھی اور وہ مجھے کہ رہی تھیں ادھر میرے قریب آکر بیٹھو میں خاموشی سے اپنا بیگ اٹھا یا اور میڈم کے صوفے کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کے اب کیا ہو گا اب کیا پوچھیں گی اور میں کیا جوب دوں گا۔ میں نے میڈم کو آنکھ بچا کر دیکھا تو وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھیں اور وہ مجھے اس طرح دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھیں شاید انکا تیر سہی نشانے پر لگا اور لگتا بھی کیسے نہیں میری اس وقت بری طرح سے پھٹی ہوئی تھی اب میڈم نے مجھ سے پوچھا کیا کیا ہے صبح سے تم نے ذرا میں بھی تو دیکھوں میں نے فورا سے پہلے جو جو کام کیے ہوئے تھے
Tumblr media
میڈم کے سامنے رکھ دیے ڈر کے مارے میرے منہ سے آواز تک نہیں نکل رہی تھی اور میں اشاروں سے میڈم کو صرف یہ بتا پایا کے یہ سب کام کیا ہے۔میری اس حرکت سے میڈم کو شدید غصہ آیا اور وہ میرا کان ذور سے مڑوڑتے ہوئے بولی بس اتنا ہی کیا ہے صبح سے جناب کے اگلے مہینے سے بورڈ کے پیپر شروع ہیں اور جناب خر مستیوں میں مصروف ہیں۔میں میڈم کی بات سن کر کچھ نا بولا اور خاموشی سے نیچے کی طرف دیکھتا اورمیڈم کی اور جھاڑ کھانے کے لئے تیاری پکڑ لی پھر میڈم نے کہا "کل اپنی امی کو بلا کر لانا میں نے ان سے کچھ ضروری بات کرنی ہے تمہارے متعلق" امی کا سن کر میری تو پینٹ گیلی ہونے لگ گئی میں نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھ لیا "کس بارے میں بات کرنی ہے
Tumblr media
" تو میڈم نے موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا"جو حرکت تم نے آج کی ہے اس کے بارے میں بات کرنی ہے" یہ سنا تھا کے میں میڈم کے پیروں میں گر پڑا اور منت سماجت کرنے لگ گیا کے ایسا نہ کریں اور امی کو اس بارے میں کچھ نہ بتائیں مگر میڈم میری اس حالت سے بھرپور فائدہ اٹھارہی تھیں اور انھوں نے مجھ پر اپنا دباؤ بناتے ہوئے کہا "کیوں نہ بتاؤں انکو آکر انکو بھی تو پتہ چلے انکا صا حبزادہ کیا غل کھلانے آتا ہے ادھر"
یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں میڈم کے پیروں کو پکڑ کر معافی تلافی کرنے لگ گیا میڈم اپنے پیروں کو مجھ سے چھڑاتے ہو بول رہی تھی اب رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں یہ بات اب تمہاری امی سے ہی ہو گی۔ اب میں مزید رونے لگ گیا اور اس بات کا ڈرمجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا کے اگر غلطی سے یہ بات اگر ابو کو پتا چل گئی تو ناجانے میری کیا حآلت ہونی ہے کچھ دیر ایسے ہی رونے دھونے اور میری منت سماجت کے بعد شاید میڈم کومیری حالت پر ترس آیا
Tumblr media Tumblr media
اور انہوں نے مجھ سے چپ ہونے کا کہا اور میں جو انکے پیروں میں گر کر کسی بھوکے نا مولود بچے کی طرح اس بچے میں اور مجھ میں کچھ ذیادہ فرق نہ تھا میڈم نے جب میری حالت دیکھی تو انکو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور مجھے چپ کروانے لگی اور ساتھ ہی پڑے ہوۓ جگ سے مجھے پانی کا ایک گلاس دیا جو کہ میں ایک ہی گھونٹ میں پی گیا انہوں نے میرے ہاتھ سے گلاس لیتے ہوۓ پوچھا اور پانی دوں تو میں نے سر کے اشارے سے منع کر دیا ۔
میرے چپ ہونے کے بعد میڈم نے مجھ سے کہا " اگر تم اتنا ہی ڈرتے ہو تو ادھر آۓ ہی کیوں تھے چلواگر آآ بھی گئے تو وہاں سے فورا چلے کیوں نہیں گئے" میں خاموشی سے سر جھکائے میڈم کی بات سن رہا تھا پھر میڈؐم نے جو کہا اس سے سن کر میری جان میں کچھ جان آئی میڈم نے کہا" دیکھو تمہاری امی کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات ہیں تو اور تمہارے اتنی معافیاں مانگنے کے بعد میں تمہاری امی کو کچھ نہیں بتاؤں گی مگر یاد رہے تم بھی اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کرو گے "
میں نے بنا کچھ سوچے سمجھے میڈم کی ہاں میں ہاں ملا دی اور بولا"میڈم جیسا آپ بولو گی میں ویسا ہی کروں گا اور اس بات کا میرے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ چلنے دوں گا " میڈم جنکو میرے اسی جواب کی امید تھی انھوں نے
میرا جواب سنتے ہی ایک شیطانی مسکراہٹ انکے چہرے پر آئی اور میڈم نے کہا"گڈ بوائے مجھے تم سے یہی امید تھی
"
Tumblr media
اب میں میڈم کے قریب سر جھکائے بیٹھا تھا پھر انہوں نے مجھ سے دن کی واردات کے بارے میں سوال کیا " تم وہاں کتنی دیر سے کھڑے ہمیں دیکھ رہے تھے تو میں نے صاف جھوٹ بولتے ہوئے کہا چند سیکنڈز ہی ہوئے تھے میڈم۔
میرے جھوٹ کو جھٹ سے پکڑتے ہوئے بولی "جھوٹ مت کہو میں جانتی ہوں تم وہاں کافی دیر سے موجود تھے " میں میڈم کی بات سن کر حیران تھا آخر میڈؐم کو اس بارے میں پتہ کیسے چلا میں ہکلاتے ہومیڈم سے کہا"میڈم آپکو کیسے پتہ " تو میڈم نے فورا سے کہا " ابھی تم بچے ہو جیسے جیسے بڑے ہوتے جاؤ گے خد ہی سمجھ جاؤ گے "
Tumblr media
میں میڈم کی بات سن کر کافی کشمکش میں آگیا اور سوچنے لگا آکر ایسا کیسے ہو سکتا ہے اگر میڈم نے مجھے دیکھ بھی لیا تھا تو کچھ بولی کیوں نہیں میرے ذہن میں لاکھوں سوال گھوم رہے تھے میڈم مجھے اس طرح سوچ میں گم ہوا دیکھ کر مجھ پر ترس کھاتے ہوئے انداز میں بولیں "ذیادہ مت سوچو پوچھو جوپوچھنا چاہتے ہو "
میں میڈم کی بات سن کر تھوڑا گھبرا سا گیا کے اب ان سے کس بارے میں کیا کیا پوچھو میرے ذہن میں تو لاکھوں سوال ہیں ان سے کس کس بارے میں پوچھو میڈم کے کافی ذور دینے کے بعد میں صرف اتنا ہی پوچھ سکا کے "میڈم اپکو کیسے پتہ کہ میں وہاں کھڑا ہوں"
جاری ہے
Tumblr media
0 notes
urduchronicle · 6 months
Text
سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کے قتل میں سزا کاٹنے والے پولیس افسر پر جیل میں چاقو سے حملہ
نیو یارک ٹائمز نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امریکی پولیس افسر ڈیرک شووین، جس کے ہاتھوں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل نے 2020 میں بڑے پیمانے پر نسلی انصاف کے مظاہروں کو جنم دیا تھا، پر جمعہ کے روز جیل میں چاقو کے وار کئے گئے۔ مرنے والے شخص کی منت سماجت کے باوجود شووین نے منیاپولس کی ایک سڑک پر 46 سالہ سیاہ فام کی گردن پر نو منٹ سے زیادہ وقت تک گھٹنا دیئے رکھا۔ فلائیڈ کی “میں سانس نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 1 year
Text
بھارت؛ ناگا لینڈ کے فریڈم فائٹرز کے ہاتھوں 31 بھارتی فوجی زیر حراست، ویڈیو وائرل
بھارتی سپاہی اور اعلیٰ آفسران فریڈم فائٹرز سے انہیں چھوڑنے کی منت سماجت کرتے نظر آئے، رپورٹس (فوٹو: اسکرین شارٹ) نئی دہلی: گوالیار میں تاریخی ہزیمت کے بعد بھارتی فوج کو ایک جھٹکا لگ گیا، انڈین آرمی کے 31 سپاہیوں کو ناگا لینڈ فریڈم فائٹرز نے حراست میں لے لیا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق گرفتار ہندوستانی سپاہیوں اور اعلیٰ آفسران فریڈم فائٹرز سے انہیں چھوڑنے کی منت سماجت کرتے نظر آئے، جان کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
spitonews · 1 year
Text
بھارت؛ ناگا لینڈ کے فریڈم فائٹرز کے ہاتھوں 31 بھارتی فوجی زیر حراست، ویڈیو وائرل
بھارتی سپاہی اور اعلیٰ آفسران فریڈم فائٹرز سے انہیں چھوڑنے کی منت سماجت کرتے نظر آئے، رپورٹس (فوٹو: اسکرین شارٹ) نئی دہلی: گوالیار میں تاریخی ہزیمت کے بعد بھارتی فوج کو ایک جھٹکا لگ گیا، انڈین آرمی کے 31 سپاہیوں کو ناگا لینڈ فریڈم فائٹرز نے حراست میں لے لیا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق گرفتار ہندوستانی سپاہیوں اور اعلیٰ آفسران فریڈم فائٹرز سے انہیں چھوڑنے کی منت سماجت کرتے نظر آئے، جان کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
altoheed · 1 year
Text
وزیر کی جان پہ بنی ہوئی تھی، فقیر بات ہی
وزیر کی جان پہ بنی ہوئی تھی، فقیر بات ہی
وزیر کی جان پہ بنی ہوئی تھی، فقیر بات ہی نئیں سُن رہا تھا ، اۤخر طویل مِنت سماجت کے بعد فقیر نے سر اٹھایا ، ہاں بول کیا کہنا ہے ؟ وزیر نے ہاتھ جوڑے اور بتانا شروع کیا ایک مہینہ پہلے ہمارے بادشاہ سلامت نے اچانک دربار میں ایک سوال اچھالا کہ کامیاب کردار کے لئے تربیت زیادہ کارآمد ہے یا ماحول ؟ میرے ایک ہم منصب وزیر نے جھٹ کہا کہ عالی جاہ ! تربیت جبکہ میں نے اُجلت میں کہا جناب ! ماحول ، ماحول تربیت…
View On WordPress
0 notes
farzanmoe · 2 years
Photo
Tumblr media
. هوشنگ فرزان همیشه سعی کن به اندازه کافی حضور داشـته باشی نه اونقدر کم که فراموش بشی و نه اونقدر زیاد که دل را بزنی آنهایی که ریشـه ندارند تا محبت می‌بینند می‌روند وگرنه شما کدوم درخت رو دیدید که باغبانش را ترک‌کند!؟ هیچ وقت برای داشتن کسی سماجت نکن پرنده‌ای که سهم شما نباشد برایش قفس هم بسازی می‌رود قشنگ‌ترین لحظات زندگی رو کسی به شما میده که در بدترین لحظه‌ها پیش شما باشـه وقتی کسی رو بیشتر از لیاقتش دوست داشـته باشی اونم بیشتر از آنچه لیاقتت باشه بهت آسیب می‌زنه وقتی دوستی‌ات با من تمام شد رازهایی رو که بهت گفتم پیش خودت نگه‌دار و این یعنی شرافت لازم نیست مهربونی تون رو به کسی ثابت کنید که هیچ توجهی به شما نداره یاد بگیرید هیچ کسی رو بیشتر از لیاقتش همراهی نکنید 🥀🌷🌿🌺🌿🌻🌿🌹🌿💓🌾⭐️💝🌷🌿🌺🌿🌻🌿🌹🌿💓🌾⭐️💝 🥀 . 🍁🍂🍁🍂🍁🍂🍁 . ❤ . 📍مارا به دوستانتون معرفی کنید... 📍لطفا در زیر پست ها بی احترامی نکنید،تبلیغ در پستهای من ممنوع است . در صورت مشاهده بلاک میشود . آدرس کانال تلگرام: t.me/hooshangfarzan@ . مشاور خانوادگی این صفحه خانم دکتر اسماعیلی با آی دی rams.janahe256 #جملات_ناب #حرف_دل #تکست_خاص #نوشته #دلنوشته #جملات_زیبا #جملات_مثبت #جملات_انگیزشی #عاشقانه #روانشناسی #متن #متن_خاص #متن_عاشقانه #متن_زیبا #عکس_نوشته #دلنوشت #سخنان_حکیمانه #دلنوشته_ها #دل_نوشته #دلنوشته_عاشقانه #سخنان_ناب #متن_عکس #متن_ادبی #شعر #متن_ناب #شادی_ها #زندگی #جملات_قصار #تگ_فالو_لایک_کامنت_یادتون_نره_ (at Livermore, California) https://www.instagram.com/p/CfZWAhRJaPu/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
45newshd · 4 years
Photo
Tumblr media
’’دوستی محبت اور محبت سے دائرہ اسلام میں داخل ہو ئی ‘‘ چائنیز لڑکی نے شادی کے بعد طلاق اور واپسی کیلئے کتنی بڑی رقم مانگ لی ؟ شوہر منت سماجت کرنے پر مجبور لیکن چائینز خاتون نےایسا کیا کیا کہ پولیس کو اسے اپنی تحویل میں لینا پڑا ،سوشل میڈیا کی شادی پر لڑکے کو دینے پڑ گئے سرگودھا(این این آئی)سوشل میڈیا پر دوستی سے محبت میں سرگودھا کے نوجوان سے شادی میں بیٹے کی ولادت کے بعد چائنیز لڑکی طلاق اور واپسی کے لئے ایک کروڑ کے مطالبہ پر سڑک پر نکل آئی جس کے مظاہرہ کرنے پر پولیس نے لڑکی کو اپنی تحویل میں لے کر تفتیش شروع کر دی ۔ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا پر دوستی کے بعد محبت میں گرفتار چائنز لڑکی چنگ چائونی پاکستان آکر سرگودھا پہنچ گئی
0 notes
asharenabir · 4 years
Photo
Tumblr media
... Flw @asharenabir . . گذشته ، چیز سمجی است . در تمام اوقات با شماست و به نظر من ساعتی نبوده که درباره اتفاقات ده یا بیست سال گذشته که مثل اراجیف تاریخی واقعیت هم نداشته اند ، فکر نکرده باشید. . . #تنفس - #جرج_اورول . . #کتاب #جملات_ناب #جملات_بزرگان #بریده_کتاب #سخن_بزرگان #سخنان_ناب #پراگراف_کتاب #سماجت #داستان_عاشقانه #کوتاه_عاشقانه #جملات_عاشقانه #عاشقانه_کوتاه #عشق #جملات_عمیق #گذشته . ممنون که همراه ما هستید 💙⁦♥️⁩ https://www.instagram.com/p/B8ONRH5J7e5/?igshid=mj2i90lavq9l
0 notes
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
بو کیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے
ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے
یار بے پروا و مفتر اور میں بے اختیار
پیش کچھ جاتی نہیں منت سماجت ہائے رے
2 notes · View notes
amiasfitaccw · 3 months
Text
آپ بیتی سچی کہانی
پارٹ 01
اس واقع کو گزرے پانچ سال ھو ئے ھوں گے لیکن آج بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ھوں تو میری چْوت گیلی ھو جاتی ھے حالاں کے میں ابھی دو بچوں کی ماں ھوں۔ میں ایک درمیانے درجے کے گھر میں پیدا ھو ئ تھی۔ میرا صرف ایک بھائ تھا جو مجھ سے بٹرا تھا۔یہ ان دنوں کی بات ھے جب مین کالج میں پٹرھتی تھی۔ھم لاھور میں رھتے تھے۔ میرے ابو ایک دفتر میں ملازم تھے ارو بھائ پنڈی میں کام کرتے تھے۔ میرے دنیا میں ایک ھی دوست تھی جس کا نام تھا نازیہ تھا۔ وہ میرے کزن بھی تھی۔ میرے امی ابو بہت سخت تھے اس لیے
نہایت خوبصورت ہونے کے باوجود بھی میں فیشن نہیں کر سکتی تھی ارو بڑی چادر کر کے کالج جاتی تھی۔کالج کی بہت سی لڑکیاں مجھے صرف دیکھنے میری کلاس آتی تھیں۔ چونکہ میری مان پٹھان تھی اسلیے میرا رنگ گورا ارو صاف تھا اور بڑی بڑی کالی آنکھیں لال گلابی ہونٹ اور خوبصورت جسم۔ مجھ میں ایسی کوئ برائ بھی نہ تھی ہاں البتہ کبھی کبھی اینٹرنیٹ پے سیکس کی فلم یا ویب سائٹ دیکھ لیتی تھی ارو ہاں نازیہ مہینے میں جب ایک یا دو بار میرے گھر سوتی تو ہم دونوں ایک دوسرے سے کھیلتے۔ میرا اپنا کمرہ تھاا۔ رات کو دونوں نگے ہو کر سوتے تھے اور ایک دوسرے کے سینے دباتے اور چوت بھی ملتے تھے جس سے ہمیں بہت مزہ آتا تھا۔بس یہی ہماری انجوئمنٹ تھی۔ہم ہر ایک بات ایک دوسرے سے شئر کرتے تھے۔ؓؑ پھر کیا ہوا کیایک لڑکا نازیہ کو پسند کرنے لگا۔ارو نازیہ بھی اسے پسند کرتی تھی۔ نازیہ جب بھی کالج سے چھٹی کر کے علی سے ملنے جاتی تو میں سارا معاملہ سنبھال لیتی۔ چند ہی ملاقاتون کے بعد انھوں نے سیکس بھی شروع کر دیا۔ اب جب رات کو نازیہ میرے سات سوتے تو مجھے اپنے سیکس کے قصے سناتی ارو وناتے ہوے میری چوت بھی ملتی تھی جس سے مجھے بہت مزہ آتا تھا۔اس کی باتیں سن کے میرا بھی بہت دل کرتا تھا کے میں بھی کسی سے چودوایا کروں لیکن مان باپ کا سوچ کے خاموش ہو جاتی۔
Tumblr media
ہمارے پڑوس میں بی بی مکھنی رہتی تھی۔ یس کے چار بچے تھے۔ اس خاوند ایک مل میں ملازم تھا ارو ۳۸ یعنی اڑتیس سال کا ہو گا لیکن دیہات کا ہونے کی وجہ سے بڑے قد کاٹھ کا اور سخت جسم کا تھا ارو کافی سانولا رنگ تھا۔ بس ایسا تھا کہ اگر ایک بار دیکھا تو شاید دوسرے بار آپ دیتھنے کی تکلیف نہ کریں۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ مجھے چھت پہ چڑھ کہ تاڑتا رہتا ہے۔میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ ایک دفعہ امی ابو نے دوسرے شہر جانا تھا اور رات ٹہرنا تھا تو میں نے نازیہ کہ سونے کے لیے بلا لیا۔اکژ ہم ایسے ہی کرتے تھے۔ شام کو نازیہ نے مجھے منت سماجت کر کے را ضی کر لیا کے وہ علی کو رات کو یہاں بلا لے۔ رات دس بجے علی آیا ارو ساتھ ہی ہمارے لیے کھانا بھی لے آیا۔کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں میرے کمرے میں چلے گیے ارو اندر سے دروازہ بند کر لیا۔میرا دل دھک دھک کرنے لگا کہ ابھی اندر کیا ہو گا۔ مجھ سے رہا نا گیا ارع میں نے کی ہول سے
اندرع جھانکنا شروع کر دیا۔کیا دیکھتی ہوں کے علی نے نازیہ کو گلے لگایا ہوا ہے ارو ایک ہاتھ سے نازیہ کی گانڈ پہ ہاتھ پھیر رہا ہے۔چند ہے لمحوں بعد نازیہ جھکی ارو علی کی پینٹ کی ہک کھول کے اس کا لن نکال کے ہاتھ میں لیا ارو پھر منہ میں لے کے چوسنے لگی۔یہ منظر دیکھ کے میرے بدن میں بجلی دوڑنے لگی ارو میرا ہاتھ میرے شلوار میں چلا گیا ارو میں نے محسوس کیا کے میرے چوت گیلی ہو رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں علی نے کپڑے اتار دیے ارو نازیہ کو بھی نگا کر دیا۔ارو پھر علے نے اپنا لن نازیہ کی چوت کے ہونٹوں پے ملنا شروع کر دیا۔ میں نے بھی اپنی انگلی سے اپنی چوت کو سہلانا شروع کر دیا۔پھر علی بیڈ پے لیٹ گیا اور نازیہ اس کے اوپر آ گئ ارع اس کے لن پے ایسے بیٹھی کے علی کا سارہ کا سارہ لن نازیہ کی چوت میں چلا گیا۔ اب اور آگے مجھ سے برداشت نہ ہوا ارو میں اپنے کمرے میں آ گء۔ سامنے دیکھا تو وہی پڑوسی مجھے اشارے کر رہا تھا۔
Tumblr media
پتا نہیں مجھے کیا ہوا کے میں مسکرا دی۔ اب وہ اس بیڈ روم میں گیا جو میرے بیڈروم کے سامنے تھا اور وہاں سے اشارہ کیا۔ میں پھر مسکرا دی۔ ہو دھوتی پہنے کھڑا تھا۔ اس نے دھوتی میں سے اپنا کالا لن نکال کے مجھے دیکھایا۔ مین نے گھبرا کے بتی بجھا دی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ مجھے غُصہ بھی بہت آیا کے دیکھو چار بچوں کا باپ اور مُجھ اٹھارہ سالہ لڑکی سے عشق لڑاتا ہے۔ خیر میں پھر کی ہول سے علے اور نازیہ کا تماشہ کرنے لگی۔اب دیکھا کے علی نازیہ پے چڑھا ہوا ہے اور نازیہ کی ٹانگیں اپنے کاندھے پے رکھ کے زور زور ساے گھسے مار رہا ہے۔علی کا لُلا نازیہ کی چُوت میں اندر باہر ہوتے دیکھ کر مجھے بہت بیچینی سی ہوء۔ میں نیچے آ کے کمپیوٹر پے سیکس فلمیں دیکھنے لگی۔ ایک فلم مین ایک بڑا کالا لن دیکھا۔ یہ بلکل پڑوسی ناصر کے کالے لن کی طرح تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے مجھے دیکھایا تھا۔ فلم میں اس کالے لن نے گوری کو اتنا مزہ کروایا کے گوری پاگل ہو گء۔ اب میرے ذہن میں بار بار ناصر کے کالے لن کے خیال آنے لگے۔ خیر میں نے پھر جا کر اُن کو دیکھا تو اب نازیہ ڈوگی سٹائیل مین چودا رہی تھی۔ میں اپنے کمرے میں آکے لیٹ گیئ لیکن بہت دیر تک نیند نہ آئی۔
جاری ہے...
Tumblr media
0 notes
kevserkitap · 3 years
Text
بخشی از داستان امروز.
در یک شب خیلی طولانی زمستان که از آسمان دانه های درشت برف می بارید، مادر خرگوش ها به خرگوش کوچولوی خود گفت" به زودی تو صاحب یک برادر ویا خواهر خواهی شد " خرگوش کوچولوی قصه ما با خوش حالی همان طور که سوپ داغ برروی میز را مزه مزه می کرد گفت" پس من دیگر تنها نیستم، این طور نیست؟" پدرش که روبه روی او برصندلی نشسته بود، با لبخند عینک خودرا جابه جا کرد و گفت" درسته، رابرت" رابرت خرگوشه وقتی دید سوپی در کاسه اش نمانده، به مادرش گفت" مادر، برایم باز هم سوپ می ریزی؟" " اوه، عزیزم تو نباید شب ها پرخوری کنی، وقتی غذا می خوری هم باید مراقب باشی لباست کثیف نشود، اما حالا یقه ات سوپی شده" *** روزهای زمستان برای رابرت کوچولو نسبتا سخت می گذشت چون او مجبور می شد در خانه بماند و تمام روز را از پنجره ی کوچک درخت چوبی, نرم نشستن برف بر زمین را تماشا کند. راستی که خانه ی آن ها در نزدیکی کوهستان آلپ و در مزرعه آقای براون بود. آقای براون پیرمرد قد کوتاه و چاقی بود که از آن که حیوانات وارد زمین او شوند، نفرت داشت و بلافاصله حیوان را از بین می برد، پس با این حساب خانواده ی خرگوش ها پنهانی در آن مزرعه زندگی می کردند، به علاوه ی اینکه نمی توانستد از خانه ای که بر تنه ی درخت داشتند، بیرون بروند، خصوصا در آن زمستان پیداکردن خوراکی و غذا کار آسانی نبود. پدر و مادر رابرت کوچولو خیاط بودند و چرخ خیاطی چوبی در اتاق دیگری داشتند، خانم خرگوشه حاشیه های پیراهن را با نوار صورتی و سوزن می دوخت و پدر رابرت با عینک خود با چرخ مشغول دوختن کلاه های زمستانی برای دوستان شان که سفارش داده بودند، می شد. در همان لحظات رابرت حوصله اش خیلی سر می رفت و دلش می خواست وارد خانه ی آقای براون بشود چون او فکر می کرد می تواند خوراکی و شیرینی های بهتری در آن جا پیدا می کند اما مادرش این اجازه را به او نمی داد و می گفت این کار بسیار خطرناک است. یک بعدازظهر برفی، رابرت بدون کوچک ترین سر وصدایی در را باز کرد و دویده، از نرده های ورودی در خانه ی آقای براون گذشت و سریعا خودرا گوشه در پنهان نمود. در همان موقع آقای براون در را باز کرد تا به اسطبل برود و به اسب هایش سری بزند. رابرت بسیار نگران و ترسیده بود، او نفس نفس می زد چون او فاصله چندانی با پاهای چاق مرد نداشت اما شانس اورد که اورا ندید. با قدم گذاشتن آقای براون ، رابرت بدون درنگ جست و به داخل خانه رفت. *** خانه ی مرد صاحب مزرعه بسیار بزرگ و پیچیده بود. رابرت هیجان داشت، او هنوز باورش نمی شد که توانسته وارد چنین مکانی بشود. به آرامی قدم برداشت و از سالن بزرگ که فرش سرخی داشت عبور کرد و در قسمت راست خانه متوجه آشپزخانه شد که پیش خدمتی از آن جا در حال خارج شدن بود. رابرت خود را پشت کمد دیواری چوبی رساند و وقتی دور شدن زن را دید، با آرامش پا به آشپزخانه ی بزرگ که با غذاهای خوشمزه و انواع کیک و شکلات بر روی میز تزیین شده بود، گذاشت. آن جا همان جایی بود که آرزویش را داشت. نفسی عمیق کشید و با خودش گفت" من فقط روز تولدم می توانستم تنها یک شکلات بخورم ، شکلاتی که مادرم از خانم لاک پشت می خرید، اما امروز به بزرگ ترین آرزوی زندگی ام رسیدم" و سپس خرگوش تپل ما به گاززدن به شکلات و شیرینی ها شروع کرد. رابرت ان قدر خورد و خورد تا زمانی که دیگر به سختی می توانست بدون دیده نشدن از طرف کسی به خانه ی خودش بازگردد. هنگامی که بازگشت، شکمش بسیار باد کرده بود و درد می کرد. پدرش گفت" تو نباید در این هوای سرد بیرون می رفتی رابرت. احتمالا آقای سمور پزشک نمی تواند در چنین هوایی تورا ببیند" رابرت بر تخت دراز کشیده و ناله های دردمند سر می داد. مادرش با نگرانی به آقای خرگوش گفت" عزیزم، ما باید هرطوری شده به آقای سمور خبر بدهیم ، پسر ما نمی تواند دوام بیاورد تا صبح" آقای خرگوش‌ با حساسیت نه چندان طولانی و درنگ چراغ دستی را گرفت و از پنجره به بیرون نگاهی انداخت. صدای وحشتناک باد برفی را می توانست بشنوند. طولی نکشید که پدر خانواده به همسرش گفت کت مرا بیاور ، عینک خود را مرتب کرد و مسمم شد تا انشب دکتر را به خانه اش بیاورد. باد با سماجت شدیدی برخلاف جهت حرکت آقای خرگوش می وزید و برف ها سبب می شد عینکش تکان تکان بخورد. خانه ی پزشک نسبتا طولانی بود و از مزرعه ی کوهستانی فاصله داشت. ساعاتی طول کشید تا او توانست نور روشنی را ببیند.
1 note · View note
urduclassic · 4 years
Text
قائد اعظم نے قدرت اللّٰہ شہاب کو کیوں ٹوکا تھا ؟
شہاب نامہ کے خالق قدرت اللّٰہ شہاب نے اپنی خود نوشت میں قائداعظم سے پہلی ملاقات کا واقعہ تحریر کیا ہے جس میں وہ ایک خفیہ دستاویز کے ساتھ قائداعظم کی خدمت میں پہنچے تو قائد اعظم نے مدعا سننے کے بعد دوبارہ ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ شہاب نامہ میں مصنف نے اہم شخصیات کی اس طرح تصویر کشی کی ہے کہ چھوٹے سے واقعے یا وقوعے سے قاری کردار کے باطن تک جھانک لیتا ہے۔ شہاب نامے میں مصنف نے قائداعظم سے دو مختصر ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک بار جب وہ ایک خفیہ دستاویز حاصل کر کے ان تک پہنچاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ دستاویز نہایت مفید خیال کی جاتیں، قائد اعظم کی اصول پرستی اور عظیم شخصیت کی جھلک چند جملوں میں سامنے آجاتی ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ یہ اپریل 1947 کی بات ہے کہ جب ہندوستان کی بساط سیاست پر مسلمانوں کے خلاف چالیں چلی جارہی تھیں، ایسے میں اُن کے ہاتھ خفیہ دستاویز لگی جس میں مسلمان افسران کو غیر قانونی طور پر عہدوں سے تبدیلی کا حکم دیا گیا تھا، اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہوم، فنانس اور پریس ڈپارٹمنٹ میں ہندو افسران کو بھرتی کیا جائے۔ قدرت اللّٰہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’یہ حکم نامہ یا سرکلر پڑھ کر شدید دھچکا لگا، اور دل میں عجیب سی کشمکش ہوتی رہی، تاہم جلد ہی قائداعظم سے ملاقات کی نیت سے دہلی کے سفر پر روانہ ہو گیا۔‘ انہوں نے لکھا کہ قائد اعظم کے پرائیوٹ سیکرٹری کے- ایچ خورشید سے منت سماجت کرنے کے بعد بڑی مشکل سے دو روز بعد قائداعظم تک رسائی حاصل کی، وہ اپنے کمرے میں کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’قائداعظم نے فارغ ہو کر ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور کہا کہ کیا بات ہے؟ قدرت اللّٰہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’قائد کے سوال پر ایک ہی سانس میں مَیں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میں قدرت اللّٰہ شہاب ہوں اور اس وقت اڑیسہ میں ڈپٹی ہوم سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ہوں۔‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے کانگریس کا سرکلر قائداعظم کی خدمت میں پیش کیا وہ بڑے سکون سے پڑھتے رہے یہاں تک کہ ان کے جذبات میں ذرا سا بھی ارتعاش پیدا نہ ہوا۔‘ قائد اعظم سرکلر پڑھ کر فارغ ہوئے تو قدرت اللّٰہ شہاب کو سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا کہا، اور پوچھا کہ یہ تم نے کہاں سے حاصل کی؟ 
جواباً میں نے تمام روداد سنائی جس پر قائداعظم نے کہا، ویل ویل ، تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، یہ اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس خفیہ دستاویز کی ہر کاپی پر نمبر درج ہے، تمہیں اس حرکت کے کیا نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں کیا تم اس سب کے لیے تیار ہو؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جی سر میں اس کے لیے تیار ہوں‘ آخر میں انہوں نے جانے کی اجازت دی اور شفقت بھرے لہجے میں کہا کہ ’بوائے دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
aaminaasadi · 4 years
Text
Tumblr media
🔸️تاثیر استمرار در موفقیت چیه ؟🔸️
.
این اولین پست با سیستم جدید توی پیج منه و هر آن چیزی که توی تغییر سبک زندگیم باعث شده سالم تر زندگی کنم مینویسم ! نه فکر کردم کسی شدم و نه کت شلوار تنم کردم !
.
وقتی اون استمرار و سماجتت نباشه؛
گزینه هایی مثه بهونه جویی رو انتخاب میکنی و خودتو قانع میکنی برای ادامه ندادن !! ادامه ندادن چیزی که دوسش داری داشته باشی!!!
و این یعنی آخر خط برای تو!!!!!!!!!
.
امروز یکم برای خواسته هات ارزش قائل شو !
توی دنیای ما چیزی که با ارزشه؛ پیگیری و سماجت میکنن!
اگه سماجت به خرج نمیدی یه دلیل بیشتر نداره:
اونم اینه که خواسته هات مهم نیست!
.
پس یادت نره!
مهم ترین شرط برای موفقیت استمراره!
مادامی که استمرار نداشته باشی ، هیچ اتفاقی برات نمیوفته !
استمرار ، مهم ترین اصله!
مطمئنم که هر کسی در کار خودش استمرار داشته باشه ، بالاخره به هدفش میرسه !!!!
.
#موفقیت #موفقیت_فردی #موفقیت_در_زندگی #موفقیت_شغلی #موفقیت_مالی #موفقیت💪 #موفقیت_شخصی #موفقیت_تحصیلی #موفقیت_در_جوانی #موفقیت_انگیزشی #موفقیت_کاری #موفقیت_در_کسب_و_کار
1 note · View note
bazmeurdu · 4 years
Text
میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں
انسانی رشتے، مجھے معلوم ہے کہ آدمی کو مجبور کر دیتے ہیں۔ ماں، بھائی اور بیٹی کا اصرار اپنی جگہ۔ ان کے کہنے پر وہ یہاں تک آ گئے۔ لیکن انہیں یہاں اب رک جانا ہو گا۔ اب انہیں رشتوں اور تاریخ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ میں انہیں اس موقع پر مولانا محمد علی جوہر کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ وہ جیل میں تھے کہ ان کی بیٹی آمنہ شدید بیمار ہو گئی۔ حکومت نے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ انگریزوں کی حکومت تھی‘ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس کی حکومت تھی۔ مولانا جوہر نے بیٹی کی محبت پر تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دی۔ منت سماجت سے انکار کیا۔ بیٹی کی محبت نے جوش مارا تو جذبات اشعار میں ڈھل گئے۔
میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں تجھ سے میں دور سہی، وہ تو مگر دور نہیں
تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اس کو نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں
تیری قدرت سے خدایا تیری رحمت نہیں کم آمنہ بھی جو شفا پائے تو کچھ دور نہیں
  مولانا محمد علی جوہر 
خورشید ندیم
7 notes · View notes