Tumgik
#خصوصی الاؤنس
newstimeurdu · 2 years
Text
متحدہ عرب امارات کا بے روزگار ملازمین کو خصوصی الاؤنس دینے کا فیصلہ
متحدہ عرب امارات کا بے روزگار ملازمین کو خصوصی الاؤنس دینے کا فیصلہ
دبئی: متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیراعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم نے بیروزگار ہوجانے والے ملازمین کو مخصوص عرصے تک خصوصی الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمراں محمد بن راشد المکتوم نے ملازمین کے لیے ایسا انشورنس پروگرام متعارف کرایا ہے جس کے تحت ملازمین کے بیروزگار ہونے پر محدود عرصے تک بیروزگاری الاؤنس دیا جائے گا۔ بیروزگاری الاؤنس ایسے ملازمین کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
سرکاری ملازمین کی پنشن پر حملہ
Tumblr media
نگراں حکومتوں نے اپنی حدود سے تجاوزکرنا شروع کر دیا۔ اب حکومت سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والی پنشن کو کم کرنے کا فیصلہ کرنے پر آمادہ ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کے بل کا بڑھتا ہوا بوجھ کم کرنے کے لیے پنشن اسکیم 2023 میں اہم ترامیم کا فیصلہ کیا ہے مگر مسلح افواج کو اس تجویز سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین نے جو تجاویز تیار کی ہیں، ان کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کی وفات کے بعد پنشن کی مدت 10 سال تک مقرر کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، تاہم وفات پانے والے ملازم کا کوئی بچہ معذور ہو گا تو اس صورت میں غیر معینہ مدت کے لیے پنشن ملے گی۔ پنشن اصلاحات کے لیے تیار کی جانے والی سمری میں یہ تجویز بھی ہے کہ شہداء کی فیملی پنشن کی میعاد 20 سال مقرر کی جائے۔ ملازمین کی ریٹائرمنٹ ان کی پنشن کا تعین آخری 36 ماہ کی تنخواہ رقم کے 70 فیصد کی بنیاد پر ہو گی۔ ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ایک اور بری تجویز یہ ہے کہ پنشن میں اضافہ میں سالانہ اضافہ کی رقم ایک رکھی جائے گی۔ پنشن میں افراطِ زر کی شرح سے اضافہ ہو گا، مگر یہ اضافہ 10 فیصد تک ہو گا۔ یہ شرح اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک حکومت پنشن قواعد پر نظرثانی نہیں کرتی۔ 
اسی طرح سرکاری ملازمین 25 سال کی ملازمت پر ریٹائرمنٹ لیتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کی عمر تک 3 فیصد سالانہ جرمانہ وصول کیا جائے گا۔ طے کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق خام پنشن کا زیادہ سے زیادہ 25 فیصد تک کمیوٹ کرا سکیں گے، اس وقت یہ شرح 35 فیصد ہے۔ چند سال قبل پنشن میں 30 سال سے زیادہ ملازمت پر سالانہ 3 فی صد اضافہ کیا جاتا تھا جو کہ 10 فیصد تک تھا۔ پنشن میں کمی کے بارے میں تیار ہونے والی تجاویز سرکاری ملازمین کا ریٹائرمنٹ کے بعد مستقبل تاریک کر دیں گی۔ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے موجودہ قواعد و ضوابط کے تحت اس وقت ریٹائر ہونے والے ملازم کی آخری تنخواہ پر 65 فیصد یا کمیوٹیشن کا 35 فیصد ادا کیا جاتا ہے، اگر نئے فارمولہ پرعملدرآمد ہوا تو ریٹائرڈ ملازم کی پنشن میں 35 فیصد تک کمی ہو گی۔ پنشن کے اضافہ کو افراطِ زرکی شرح سے منسلک تو کیا گیا ہے مگر یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ پنشن میں سالانہ اضافہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا۔
Tumblr media
گزشتہ دو برسوں میں افراطِ زرکی شرح تین ہندسوں تک بڑھی ہے اور اسی ماہ افراطِ زرکی شرح 34 فیصد کے قریب ہے، یوں اگر پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوا تو یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلہ میں انتہائی کم ہو گا۔ پنشن کے بارے میں اس سمری میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ملازم کی وفات کے بعد بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی، اگر ملازم کا کوئی معذور بچہ ہو تو پنشن ساری زندگی ملے گی، اگر بیوہ کے انتقال کے بعد غیر شادی شدہ، طلاق یافتہ یا بیوہ لڑکی ہو تو پنشن ان کے نام منتقل ہو جائے گی۔ سرکاری آڈیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ شق غلط استعمال ہوتی ہے، اگر خاندان میں بعض کیسوں میں 40 سے 50 سال تک پنشن دی جاتی ہے۔ یہ صورتحال تشویش ناک تو ہے مگر چند افراد کی بدعنوانی کی سزا بیوہ کو دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہر صورت میں بیوہ کو تمام عمر پنشن ملنی چاہیے۔ ایک اور افسوس ناک تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران شہید ہونے والے ملازمین کے لواحقین کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی۔ اس تجویزسے سرکاری ملازمین خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں قربانی کا جذبہ کم ہو جائے گا۔
وفاق اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں، اساتذہ اور دیگر عملہ کے لیے خصوصی پیکیج دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر سندھ میں ایسے کسی پیکیج کا اعلان نہیں ہوا، اگر حکومت ہر شہید ہونے والے سرکاری ملازم کے لواحقین کو خصوصی پیکیج دیتی ہے تو پھر 10 سال کی پابندی درست ہے۔ دوسری صورت میں یہ شق سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس فورس میں مایوسی پھیلانے کا باعث ہو گی۔ موجودہ قوانین کے تحت 25 سال تک ملازمت کرنے والا شخص ریٹائرمنٹ کے تمام فوائد حاصل کرتا ہے مگر نئی تجویز کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر تک کے حساب سے 3 فیصد سالانہ جرمانہ اس کی پنشن سے حذف کیا جائے گا۔ ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین میں سب سے زیادہ مراعات عدالتی شعبے کو حاصل ہیں۔ عدالتی شعبہ کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس PAS جس میں خاص طور پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ شامل ہے کو مراعات حاصل ہیں۔ پی اے ایس کے افسران کو کئی ایسے الاؤنس اور خصوصی الاؤنس ملتے ہیں جو دیگر سرکاری ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے بورڈ آف ریونیو کے سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسران کے الاؤنس بحال کر دیے ہیں مگر اس سرکلر میں تحریر کیا گیا ہے کہ فیلڈ افسران کو اپنا خیال کچھ رکھنا ہو گا۔ ان رپورٹوں کے جائزہ سے واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ اور ڈی ایم جی کے علاوہ باقی سرکاری ملازمین کو بہت کم مراعات حاصل ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کراچی میں سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسروں کو جو الاؤنس ملتے ہیں وہ الاؤنس سیکریٹریٹ سے چند میٹر پر قائم حکومت سندھ کے ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔ سرکاری ملازمین کی اکثریت کو مکمل میڈیکل کوریج حاصل نہیں ہے۔ سرکاری ملازمت کے لیے بروقت پنشن کا حصول ایک اور درد ناک باب کھولنے کے مترادف ہے۔ ریٹائر ہونے والے ملازم کو پہلے اپنے محکمہ میں سفارش یا کمیشن دے کر فائل کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ اس کے اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفاتر کے معاملات اور زیادہ گھمبیر ہوجاتے ہیں۔
سرکاری ملازمت کی ایک کشش تو اختیارات کا حصول ہوتا ہے تو دوسری ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن، جی پی فنڈ اور گریجویٹی کی رقم ملنے کی ہوتی ہے، مگر اختیارات کا معاملہ پولیس اور چند دیگر وزارتوں تک محدود ہے۔ پنجاب میں اساتذہ اور دیگر ملازمین نے تعلیمی اداروں کو نجی تحویل میں دینے اور پنشن کی کمی کے خلاف تحریک شروع کی۔ پنجاب کے ہر ضلع کے سیکڑوں اساتذہ اور دیگر ملازمین کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا پڑا اور ان کی گرفتاریاں ہوئیں، انھیں جیلوں میں بند کیا گیا۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ تحریک وفاق اور دیگر صوبوں تک پھیل جائے گی۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ غریبوں پر ٹیکس کم ہونا چاہیے۔ زیادہ بوجھ امیر پر ہونا چاہیے مگر غریب سرکاری ملازمین سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ نیو لبرل ازم کے فلسفہ کا اطلاق صرف سرکاری ملازمین پر ہونے جا رہا ہے۔ یورپی ممالک میں ہر شہری کو پنشن ملتی ہے۔ بھارت کی حکومت نے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ہر شہری کو پنشن کے نیٹ ورک میں شامل ہونے کا منصوبہ شروع کیا ہے، مگر پاکستان میں یہ مراعات کم کی جا رہی ہیں، یہ معاملہ نگراں حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس کو منتخب حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
کے پی اسمبلی پینل نے قانون سازوں کے الاؤنسز میں 25 فیصد اضافے کی سفارش کی ہے۔
کے پی اسمبلی پینل نے قانون سازوں کے الاؤنسز میں 25 فیصد اضافے کی سفارش کی ہے۔
پشاور: خیبرپختونخوا اسمبلی کی ایک کمیٹی نے اراکین اسمبلی کے تمام الاؤنسز میں 25 فیصد اضافے اور حلقہ کے معاونین اور آرڈرلیز کی بھرتی کے لیے بالترتیب 50,000 روپے اور 21,000 روپے کے دو نئے الاؤنس دینے کی سفارش کی ہے۔ یہ سفارش وزیر خوراک محمد عاطف خان کی سربراہی میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزراء اور اراکین صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں اور الاؤنسز سے متعلق ایوان کی خصوصی کمیٹی نے کی تھی۔ گھر میں جمع کرائی…
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
وفاقی کابینہ کی افواج پاکستان کے لئے 15 فیصد خصوصی الاؤنس کی منظوری - اردو نیوز پیڈیا
وفاقی کابینہ کی افواج پاکستان کے لئے 15 فیصد خصوصی الاؤنس کی منظوری – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے افواج پاکستان کے لئے 15 فیصد اسپیشل الاؤنس کی منظوری دے دی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں 22 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ جائزہ کمیٹی کی ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے سے متعلق رپورٹ کابینہ میں پیش کی گئی ۔ وفاقی کابینہ نے تحریک لبیک پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس میں مسلح افواج کے اہلکاروں کے لیے خصوصی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
مسلح افواج کے افسران کی تنخواہ میں 15 فیصد کے برابر خصوصی الاؤنس کی سمری وفاقی کابینہ کو بجھوا دی
مسلح افواج کے افسران کی تنخواہ میں 15 فیصد کے برابر خصوصی الاؤنس کی سمری وفاقی کابینہ کو بجھوا دی #finance #pakistan #government #Aajkalpk
وفاقی وزارت خزانہ نے مسلح افواج کے افسران اورجوانوں کی بنیادی تنخواہوں میں 15 فیصد کے برابر خصوصی الاؤنس دینے کی سمری وفاقی کابینہ کو بجھوا دی۔  وزارت خزانہ نے یہ خصوصی الاؤنس دینے کی منظوری وزیراعظم سے مانگی تھی تاہم وزیراعظم نے معاملہ کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کردی۔ وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے پے اینڈ پنشن کمیشن کی طرف سے عبوری رپورٹ کی تاخیر کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
blog-brilliant · 3 years
Text
پاکپتن: 2632مستحق افراد کو2کروڑ 28لاکھ گزارا الاؤنس تقسیم کر دیئے گئے ہیں. طارق رزاق بھٹی، چیئرمین ضلعی عشرو زکواۃ کمیٹی.
پاکپتن: 2632مستحق افراد کو2کروڑ 28لاکھ گزارا الاؤنس تقسیم کر دیئے گئے ہیں. طارق رزاق بھٹی، چیئرمین ضلعی عشرو زکواۃ کمیٹی.
پاکپتن (خصوصی رپورٹ) چیئر مین زکواۃ وعشرضلع پاکپتن طارق رزاق بھٹی نے کہا کہ ماہ رمضان میں ضلع پاکپتن کے 2632 مستحق افراد کو2کروڑ 28لاکھ گزارا الاؤنس تقسیم کر دیئے گئے ہیں. رمضان المبارک کے پہلا عشرہ میں گزارا تقسیم الاؤنس تقسیم کیا گیا ہے اس موقع پر ڈسٹرکٹ زکواۃ آفیسر میڈم ہیرا شاہین بھی موجود تھیں انہوں نے کہا کہ2516 مستحق افراد میں 2کروڑ 26لاکھ 43ہزار روپے تقسیم کئے جب کہ116 نابینا افراد کے لئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
uaekhabarofficial · 3 years
Text
بھارت - دبئی امارات کی پروازیں: مفت ہوٹل میں قیام کیسے حاصل کی جائے - خبریں
بھارت – دبئی امارات کی پروازیں: مفت ہوٹل میں قیام کیسے حاصل کی جائے – خبریں
ایر لائن 10 کلوگرام اضافی سامان الاؤنس اور خصوصی ہوائی جہاز کی پیش کش بھی کرتی ہے۔ امارات کی ایئر لائن نے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں نائٹ نائٹ تک کے دو قیام تک متعارف کرائے ہیں 10 کلو اضافی سامان الاؤنس اور خصوصی ہوائی جہاز دبئی سے ہندوستان جانے والے مسافروں کے لئے۔ یہ بھی پڑھیں: ابو ظہبی ہوائی اڈہ: مفت کوویڈ ٹیسٹ 90 منٹ میں نتائج دیتے ہیں کوویڈ کے درمیان متحدہ عرب امارات کا سفر نامہ: پورے امارات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspost · 4 years
Photo
Tumblr media
پنجاب میں ، بچانے والے کوویڈ 19 الاؤنس کا انتظار کر رہے ہیں راولپنڈی: ایکسپریس ٹریبیون نے سیکھا ، ریسکیو 1122 کے غیر تربیت یافتہ فرنٹ لائن کارکنان جنہوں نے کورونا وائرس کے مریضوں کو صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات میں منتقل کرنے کے خطرناک فرائض سرانجام دیئے ، وہ ابھی بھی وعدے کے تحت خصوصی الاؤنس کے عہدے پر فائز ہیں۔ …
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
کیا بابری مسجد کا تالا راجیو گاندھی نے کسی معاہدے کے تحت کھلوایا تھا؟ فیصل محمد علی بی بی سی ہندی5 منٹ قبل،FRANCIS APESTEGUY’راجیو گاندھی کی درخواست پر بابری مسجد کا تالا کھولنے اور اس کا استعمال شاہ بانو کیس (مسلمانوں کی ناز برداری) بمقابلہ رام مندر کرنے کی بات سراسر جھوٹ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم کو یکم فروری سنہ 1986 کو جو ہوا اس کا علم تک نہیں تھا اور ارون نہرو کے وزیر کے عہدے سے ہٹائے جانے کی یہی وجہ تھی۔‘یہ بات راجیو گاندھی کے وزیر اعظم آفس (پی ایم او) میں اس وقت کے جوائنٹ سیکریٹری وجاہت حبیب اللہ اور دون سکول میں ان کے جونیئر نے بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہی۔یکم فروری سنہ 1986 کو ڈسٹرکٹ جج کے ایم پانڈے نے ایک دن پہلے 31 جنوری سنہ 1986 کو دائر اپیل کی سماعت کے دوران تقریباً 37 برسوں سے بند بابری مسجد کا دروازہ کھلوایا تھا۔یہ بات کہ راجیو گاندھی حکومت نے (اس وقت اترپردیش میں بھی کانگریس کی حکومت تھی) بابری مسجد کا تالا کھلوایا کیونکہ اس نے مسلم طلاق شدہ خاتون شاہ بانو پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو الٹ دیا تھا۔اس سارے معاملے کو کانگریس کی سیاسی سودے بازی کہا جاتا ہے۔بہر حال وجاہت حبیب اللہ کہتے ہیں کہ شاہ بانو معاملے میں قانون (مسلم اپیزمنٹ یا نازبرداری) کے عوض ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے متنازع بابری مسجد کا تالا کھولنا بالکل غلط ہے۔وہ کہتے ہیں: ’یکم فروری سنہ 1986 کو ارون نہرو اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے ساتھ لکھنؤ میں موجود تھے۔‘،HINDUSTAN TIMESایم جے اکبر کا کردار؟مئی سنہ 1986 میں راجیو گاندھی حکومت نے مسلم خواتین کے متعلق قانون کو (طلاق پر تحفظ) کو نافذ کیا۔ یہ قانون شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کرنے کے بعد 23 اپریل 1985 کو لایا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 125 کے تحت علیحدگی یا طلاق یافتہ خاتون شوہر سے گزربسر کے لیے رقم مانگ سکتی ہیں، یہی بات مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ دفعہ 125 اور مسلم پرسنل لاء کے مابین کسی بھی قسم کا تنازع نہیں ہے۔وجاہت حبیب اللہ نے بات چيت کے دوران بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو قانون لا کر بدلنے کا مشورہ سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور نریندر مودی حکومت میں راجیہ سبھا کے موجودہ رکن پارلیمان ایم جے اکبر نے دیا تھا۔ایم جے اکبر اس وقت بہار کے کشن گنج سے کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان تھے۔ سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ نے انڈیا کے بہت سے بڑے اخبارات میں شائع وجاہت حبیب اللہ کے اس دعوے کی اب تک تردید نہیں کی ہے۔نہرو گاندھی خاندان کے بہت سارے افراد کے قریبی کہے جانے والے وجاہت حبیب اللہ کے راجیو گاندھی کے ساتھ گزارے گئے وقت کی یادیں جلد ہی کتابی شکل میں شائع ہونے والی ہیں۔بابری مسجد اور رام مندر یعنی ایودھیا معاملے کے بارے میں وجاہت حبیب اللہ کہتے ہیں: ’گجرات کے دورے پر جاتے ہوئے میں نے وزیر اعظم سے بابری مسجد کے تالے کو کھولنے کی بات کہی تو انھوں نے کہا کہ انھیں عدالتی حکم آنے کے بعد اس کیس کے بارے میں پتا چلا اور ارون نہرو نے اس معاملے میں ان سے صلاح مشورہ نہیں کیا تھا۔'ارون نہرو اس وقت راجیو گاندھی حکومت میں مرکزی نائب وزیر مملکت برائے داخلہ امور تھے۔حبیب اللہ یاد کرتے ہیں کہ ’نہرو گاندھی خاندان کے رکن اور’ہیوی ویٹ وزیر‘ سمجھے جانے والے ارون نہرو کی وزارت چھن جانے کی یہی وجہ تھی۔ لوگ دفاعی معاہدوں اور دیگر امور سے اس کا تعلق جوڑ سکتے ہیں۔'تاہم حبیب اللہ کا خیال ہے کہ شاہ بانو الاؤنس والا معاملہ ہندو مسلم مسئلے میں بدل گیا تھا۔،HINDUSTAN TIMES،تصویر کا کیپشن31 دسمبر 1991 کو ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے ساتھ ایم جے اکبر جو اس وقت کانگریس میں تھے اب بی جے پی میں ہیںانگریزی اخبار ’دی سٹیٹسمین‘ میں پورے معاملے پر نظر ڈالتے ہوئے نیرجا چودھری نے اس وقت لکھا: 'انتخابی فوائد کے لیے حکومت جس طرح دونوں برادریوں کی نازبرداری کی پالیسی اپنانے کی کوشش کر رہی ہے اس کی کاٹ تلاش کرنا بہت مشکل ہو گا۔‘نیرجا چودھری نے مسلسل اس معاملے پر رپورٹنگ کی تھی۔سنہ 1984 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو 49 فیصد ووٹ 404 نشستیں حاصل ہوئی تھیں جبکہ بی جے پی کو صرف آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔’سکرول‘ نامی ایک ویب سائٹ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیرالہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان نے دعویٰ کیا ہے کہ راجیو گاندھی کو کانگریس کی رہنما نجمہ ہیت اللہ نے نیا قانون لانے کے لیے راضی کیا تھا۔بعد میں نجمہ ہیت اللہ نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ عارف محمد خان بھی بعد میں بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔گاندھی-نہرو خاندان کے قریب کہلانے والے مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر کمل ناتھ نے کچھ دن قبل ایک بیان دیا ہے کہ بابری مسجد کا تالا کھولنے میں راجیو گاندھی کا کردار تھا۔،THE INDIA TODAY GROUP،تصویر کا کیپشنارون نہرو انتہائی دائیںراجیو گاندھی پر دباؤ؟بی بی سی کے سابقہ نامہ نگار اور ایودھیا سے وابستہ معاملات پر نظر رکھنے والے صحافی رام دت ترپاٹھی کا خیال ہے کہ ہندو معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے ذہنوں میں مسلمانوں کی نازبرداری کیے جانے کا احساس پیدا ہو گيا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کیس میں راجیو گاندھی حکومت پر بہت دباؤ تھا۔ان کے مطابق شنکراچاریہ سوروپانند رام مندر کے متعلق کسی فیصلے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے اور رامچندر پرمہنس کی خودکشی کی دھمکی سر پر کسی تلوار کی طرح لٹکی ہوئی تھی۔رام چندر پرمامہنس نے دھمکی دی تھی کہ اگلے سال کے رام نومی تک ’جائے پیدائش‘ کا تالا نہ کھولا گیا تو وہ خودکشی کرلیں گے۔ پانچ اگست، 2020 کو ایودھیا میں منعقدہ پروگرام کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی تقریر کے دوران رامچندر پرمہنس کو بھی یاد کیا۔شنکراچاریہ سوامی سوورپانند 1948 میں قائم رام راجیہ پریشد کے صدر تھے۔ ان کی سیاسی تنظیم نے سنہ 1952 کے بعد کچھ انتخابات میں معمولی کامیابی حاصل کرنے کے بعد رام جنم بھومی کے معاملے پر کئی پروگرامز کا اہتمام کیا تھا۔ اگرچہ بعد میں ان کی پارٹی جن سنگھ میں ضم ہو گئی لیکن سوامی سووروپانند کو کانگریس کے قریب سمجھا جاتا ہے۔رام دت ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ اسی وقت فیض آباد کے ایک مقامی وکیل امیش چندر نے 28 جنوری سنہ 1986 کو عدالت میں دروازہ کھولنے کے لیے درخواست دائر کی، جسے جج نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس سے متعلق تمام دستاویزات ہائی کورٹ میں ہیں۔ اسے دیکھے بغیر اس پر کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے۔امیش چندر نے 31 جنوری سنہ 1986 کو اس کے خلاف ڈسٹرکٹ جج کے سامنے اپیل کی اور جج کے ایم پانڈے نے اگلے ہی دن فیصلہ سنایا۔فیض آباد کے رہائشی اور بابری مسجد کیس سے وابستہ ایک شخص خالق احمد خان کا کہنا ہے کہ امیش چندر وشو ہندو پریشد کے قریب تھے۔،تصویر کا کیپشنعارف محمد خان اب بی جے پی میں ہیں لیکن پہلے کانگریس میں تھےرام دت ترپاٹھی تو درخواست کی ڈرافٹنگ تک ایک ایسے وکیل کے ہاں کیے جانے کی بات کرتے ہیں جو ایک عرصے سے ہندوؤں کی جانب سے متنازع مقام کے معاملات دیکھ رہے تھے۔سنہ 1984 کے انتخابات میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف دو سیٹیں ملیں اور اٹل بہاری واجپئی اور ایل کے اڈوانی جیسے بڑے رہنما انتخاب ہار گئے تھے۔متعدد جگہ پر سابق جج کے ایم پانڈے کے شائع مضامین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان فیصلے کے متعلق ان کے سامنے متعدد نشانیاں ابھری تھیں، جس میں انھوں نے اس دن عدالت کے احاطے میں موجود ایک بندر کا بھی ذکر کیا تھا۔لیکن ان ریکارڈز میں یہ بھی درج ہے کہ ضلعی جج نے مقامی انتظامیہ سے امن و امان کے بارے میں رائے طلب کی تھی، جس پر انھیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ایک بار تالا کھولنے کے بعد اس میں کوئی خلل نہیں ہو گا۔ بعد ازاں اپنی سوانح عمری میں جج کے ایم پانڈے نے بندر کا ذکر کیا۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کئی دہائیوں سے عدالت میں زیر سماعت ایسے دھماکہ خیز معاملے میں جب تک اوپر سے احکامات موصول نہیں ہوتے تب تک فیض آباد انتظامیہ خود ہی اتنا بڑا فیصلہ نہیں لے سکتی تھی۔ 23 دسمبر 1949 کو مسجد میں غیر قانونی بت رکھنے کے بعد اسے بند کر دیا گیا تھا اور معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔فیض آباد ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے پر لکھنؤ ہائی کورٹ کی خصوصی بنچ نے اپنے سنہ 2010 کے فیصلے میں سخت اعتراض کیا تھا اور اسے نہ صرف غیر قانونی قرار دیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ یکم فروری سنہ 1986 کو لیا جانے والا فیصلہ چھ دسمبر 1992 کو مسجد کو مسمار کرنے کا آغاز تھا۔عارف محمد خان جو اس وقت راجیو گاندھی کی کابینہ کے رکن تھے اور اس وقت پارٹی کے ایک ترقی پسند مسلمان چہرے کے طور پر ابھرے تھے، انھوں نے شاہ بانو بل کی مخالفت کی تھی انھوں نے اپنے مضمون میں اس معاملے میں ’ڈیل کی بات‘ کا دعویٰ کیا ہے۔انگریزی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ میں شائع مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’جنوری 1986 کے دوسرے ہفتے میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ اس پرسنل لاء بورڈ (مسلم) کے ساتھ اتفاق رائے ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کے سرمائی اجلاس میں فیصلے کو الٹ دینے کے لیے ایک قانون متعارف کرایا جائے گا۔ اجلاس پانچ فروری 1986 کو شروع ہونا تھا۔ اس اعلان کی اس قدر مخالفت کی گئی کہ حکومت شاہ بانو کیس سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے توازن کے بارے میں سوچنے لگی۔ اس سلسلے میں ایودھیا معاملے سامنے تھا جہاں مرکزی حکومت کے حکم پر اترپردیش حکومت نے متنازع سائٹ کا تالا کھولنے کے انتظامات کر دیے۔'اس وقت کے ایک ہی ٹیلی وژن چینل دور درشن پر اسے دکھائے جانے کے بارے میں بھی بڑے سوالات اٹھائے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ تالا کھولنے کے واقعے کو فوری طور پر سرکاری میڈیا پر نشر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی حکومت کو پہلے ہی سے واقعے کا علم تھا۔،HINDUSTAN TIMES،تصویر کا کیپشننمجہ ہیپ اللہفیصلے 40 منٹ بعد ہی اس پر عملفیض آباد کے ضلعی جج نے شام 4 بج کر 20 منٹ پر اپنا فیصلہ سنایا اور ٹھیک 40 منٹ بعد شام 5 بجکر 5 منٹ پر مسجد کا تالا کھول دیا گیا۔ اور دورد��شن کی پوری ٹیم پہلے ہی سے اس واقعے کی عکسبندی کے لیے وہاں موجود تھی جسے بعد میں شام کی خبروں میں دکھایا گیا۔ڈسٹرکٹ جج نے تمام فریقین کو ابھی اپنے فیصلے کی کاپی بھی نہیں دی اور جج کے دفتر سے بابری مسجد کا فاصلہ قریب سات کلومیٹر ہے۔حتیٰ کہ جس آفیسر کے پاس تالے کی چابی تھی اسے بھی اطلاع نہیں دی گئی اور نہ ہی اس کا انتظار کیا گیا اور تالا توڑ دیا گیا۔ بعد میں کانگریس حکومت نے ضلعی جج کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کیا، اس سے لوگوں کو کانگریس کے ارادوں پر بھی شبہ ہوتا ہے۔مصنف اور سیاسی تجزیہ کار رشید قدوائی کا کہنا ہے کہ اس وقت کے مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات کو اس معاملے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس وقت کی پارلیمان کی پوری کارروائی کو یاد کرتے ہوئے رشید قدوائی کا کہنا ہے کہ اس وقت عارف محمد خان اور کانگریس کے ضیاء الرحمٰن انصاری پورے معاملے میں دو مختلف سروں پر کھڑے تھے۔ضیاء الرحمٰن انصاری کے بیٹے فصیح الرحمان نے اپنی کتاب 'ونگز آف ڈسٹینی: ضیاء الرحمٰن انصاری- اے لائف' میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ان کے والد نے راجیو گاندھی پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بدلنے والا قانون لائیں۔فصیح الرحمان کا دعویٰ ہے کہ ضیاء الرحمٰن انصاری مذہبی جوش میں اس معاملے پر استعفی دینے کے لیے تیار تھے اور وہ راجیو گاندھی کو قانون لانے کے لیے تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔،کانگریس میں ہر نظریہ کے لوگتاہم سکرول نیوز ویب سائٹ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں عارف محمد خان کا کہنا ہے کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ ضیا الرحمن انصاری راجیو گاندھی کے خیالات کو تبدیل کرنے میں شامل تھے۔نریندر مودی حکومت نے سنہ 2017 میں جب نیا مسلم خواتین (حقوق سے متعلق حقوق پر شادی) بل پیش کیا تھا تو اس میں کبھی راجیو گاندھی کے قریبی رہنے والے اس کے حق میں زوردار تقریر کرنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ایم جے اکبر بھی اس میں شامل تھے۔رشید قدوائی کا کہنا ہے کہ کانگریس میں آزادی کی جنگ سے لے کر اب تک کمیونسٹ نظریہ کے حاملین سے لے کر دائیں بازو کے نظریہ تک والے دونوں طرح کے لوگ آج تک موجود ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے بارے میں اگر جیوتی رادیتہ سندھیا (اس وقت وہ کانگریس میں تھے) اور راہل گاندھی کے خیالات مختلف ہو سکتے ہیں تو سنہ 1986 میں جو کچھ ہوا اسے بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 'اگر سیاسی سودے بازی کو سچ مان لیا بھی جائے تو بھی کانگریس اترپردیش اور بہار سمیت بہت ساری ریاستوں سے جا چکی ہے اور کم از کم مسلمان اس سے بہت دور ہو چکے ہیں۔' خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
tardosnews · 4 years
Text
پناہ گاہ کی اہمیت اسحاق ڈار سے بہتر کون جانتا ہے؟ عثمان ڈار کی لفظی گولہ باری
پناہ گاہ کی اہمیت اسحاق ڈار سے بہتر کون جانتا ہے؟ عثمان ڈار کی لفظی گولہ باری
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
وزیراعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار کا کہنا ہے کہ شریف خاندان اور اسحاق ڈار لندن میں پناہ لے کر بیٹھے ہیں۔ نجی ٹی وی سے  گفتگو کرتے ہوئے عثمان ڈار نے کہا کہ شریف خاندان،اسحاق ڈار سے زیادہ پناہ گاہ کا کسی کو اندازہ نہیں، شریف خاندان اور اسحاق ڈار لندن میں پناہ لے کر بیٹھے ہیں۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عدالتوں سے انہیں ریلیف مل رہا ہے آکر سامناکریں، یوکے میں بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا…
View On WordPress
0 notes
45newshd · 4 years
Photo
Tumblr media
  نئے مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بڑااضافہ،تیاریاں شروع،تفصیلات منظر عام پر آگئیں پشاور (آن لائن) امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کے اضافی بوجھ کو مد نظر رکھتے ہو ئے آئندہ نئے مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ کے لئے سفارشات کی تیاری شروع کر دی ہیں جبکہ گریڈ 1سے گریڈ 19تک وفاقی ملازمین کے بنیادی تنخواہ میں 45فیصد ایڈہاک ریلیف الاونس اور گریڈ 20سے گریڈ 22تک 20فیصد ایڈہا ک ریلیف الاؤنس اور یوٹیلٹی الاونس میں 5400سے 20ہزار روپے تک ماہانہ اضافہ کے خصوصی مراعاتی پیکج تیار کر لیا ہے یکم جنوری 2020سے ممکنہ طور
0 notes
khouj-blog1 · 5 years
Text
راہول ڈریوڈ ماڈل متعارف کرانے کا فیصلہ
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/106872/
راہول ڈریوڈ ماڈل متعارف کرانے کا فیصلہ
Tumblr media
 پاکستان کرکٹ بورڈ نے جونیئر سطح پر بھارتی کرکٹر راہول ڈریوڈ کی طرز کا ماڈل متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
پاکستان کرکٹ بورڈ ایک ایسے پلان پر کام کررہا ہے جس کے تحت جونیئر سطح پر راہول ڈریوڈ ماڈل متعارف کرایا جائے گا اور نوجوان کرکٹرز کیلئے ماضی کے کسی عظیم کھلاڑی کو کوچ مقرر کیا جائے گا۔یاد رہے کہ بھارت نے ماضی کے عظیم کھلاڑی راہول ڈریوڈ کو اپنی انڈر 19 ٹیم کا نگران مقرر کیا ہوا ہے۔اس ماڈل کے تحت نوجوان کھلاڑیوں کو آف دی فیلڈ ڈسپلن سکھانے کیلئے انگریزی کی کلاسز دی جائیں گی، کھانے پینے اور لباس کے معاملے پر بھی قومی اکیڈمی میں خصوصی کلاسز کا اہتمام کیا جائے گا۔ 
گزشتہ کئی سالوں سے جونیئر ٹیموں کی کوچنگ میں بندر بانٹ ہورہی ہے اور ہر سیریز میں نیا کوچ ہوتا ہے۔ انڈر19 ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ منصور ر��نا کو پاکستانی ٹیم میں ڈیلی الاؤنس بانٹنے اور میڈیا ہینڈلنگ کا کام سونپ دیا گیا ہے۔
0 notes
uaekhabarofficial · 3 years
Text
متحدہ عرب امارات: امارات مسافروں کو مفت ہوٹل قیام ، 10 کلوگرام اضافی سامان کی پیش کش کرتا ہے
متحدہ عرب امارات: امارات مسافروں کو مفت ہوٹل قیام ، 10 کلوگرام اضافی سامان کی پیش کش کرتا ہے
اکانومی کلاس مسافروں کو ایک رات کی مفت قیام ملے گا جبکہ کاروباری اور فرسٹ کلاس مسافر 2 رات کے مفت قیام سے لطف اندوز ہوں گے۔ امارات ہندوستان سے دبئی جانے والے مسافروں کو دو رات کے ہوٹل ��یں مفت قیام ، 10 کلوگرام تک اضافی سامان الاؤنس کے علاوہ خصوصی ہوائی جہاز کی پیش کش کررہی ہے۔ دبئی میں قائم کیریئر نے خلج ٹائمز کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان سے اکانومی کلاس مسافر جو اس سال 15 مارچ سے 30…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspost · 4 years
Photo
Tumblr media
پنجاب میں ، بچانے والے کوویڈ 19 الاؤنس کا انتظار کر رہے ہیں راولپنڈی: ایکسپریس ٹریبیون نے سیکھا ، ریسکیو 1122 کے غیر تربیت یافتہ فرنٹ لائن کارکنان جنہوں نے کورونا وائرس کے مریضوں کو صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات میں منتقل کرنے کے خطرناک فرائض سرانجام دیئے ، وہ ابھی بھی وعدے کے تحت خصوصی الاؤنس کے عہدے پر فائز ہیں۔ …
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
وزیراعلیٰ پنجاب نےریسکیوعملےکےلئےخصوصی الاؤنس دینےکااعلان کیاہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کورونا ڈیوٹی کرنے والے ریسکیوعملے کے لئے خصوصی الاؤنس دینے کا اعلان کیا ہے ۔
0 notes
tardosnews · 5 years
Photo
Tumblr media
حکومت کا خصوصی الاؤنس دینے کا فیصلہ، سرکاری ملازمین کو سالانہ کتنی رقم ملے گی؟ حکومت کا خصوصی الاؤنس دینے کا فیصلہ،ایم فل اور ایل ایل ایم ڈگری ہولڈرز سرکاری ملازمین کو پانچ ہزار روپے ماہانہ ملیں گے
0 notes