Tumgik
#آئین کی دھجیاں
akksofficial · 2 years
Text
حکومت کو بھی نظر آرہا ہے نون لیگ پنجاب سے جانیوالی ہے، اسد عمر
حکومت کو بھی نظر آرہا ہے نون لیگ پنجاب سے جانیوالی ہے، اسد عمر
اسلام آباد (نمائندہ عکس) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و سابق وفاقی وزیر اسدعمر نے کہا ہے کہ خوداری کا بیانیہ لوگوں کے دلوں میں اتر گیا، جوکچھ ہورہا ہے حکومت کو بھی نظر آرہا ہے، پہلے ہی کہا تھا کہ پنجاب حکومت جعلی حکومت ہے، یہ لوگ کبھی ہوٹلوں میں اجلاس بلاتے رہے کبھی کہاں ، عجیب و غریب تماشے لگائے ہوئے ہیں، زور زبردستی کی جارہی ہے اور آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، پنجاب میں اے سی اور ڈی سی کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا ہماری قسمت میں یہی لوگ بچے ہیں؟
Tumblr media
اس خطے کے عوام کو بس دو بار اپنے اظہار کا حقیقی موقع ملا۔ پہلی بار 1947 میں، جب اُن سے پوچھا گیا کہ نیا ملک چاہیے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کیوں؟ جواب ملا تاکہ تم استحصال سے پاک ایک پُرامن آزاد زندگی بسر کر سکو۔ لوگوں نے کہا ٹھیک ہے، یہ بات ہے تو بنا لو پھر نیا ملک۔ دوسری بار دسمبر 1970 میں پوچھا گیا کہ تمہیں ایسا ہی ملک چاہیے جیسا چل رہا ہے یا کچھ اور چاہتے ہو؟ عوام نے کہا کچھ اور چاہتے ہیں۔ بالکل ویسا جیسا کہ ڈیل کرتے ہوئے وعدہ کیا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ تو پرانی بات ہو گئی۔ رات گئی بات گئی۔ تمہاری بھلائی کس میں ہے یہ تم سے زیادہ ہم جانتے ہیں۔ جیسا تم چاہتے ہو ویسا ملک تو نہیں ملے گا، لہذا جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا ہی تم بھی چاہو۔ عوام نے کہا تو پھر تمہاری ایسی کی تیسی۔ ان دو مواقع کے سوا یاد نہیں کہ عوام سے کب اور کس نے رجوع کیا ؟ تو کیا اس ملک میں انتخابات ایک درجن سے زائد بار نہیں ہوئے؟ جی ہاں ہوئے؟ کیا یہاں پونے دو درجن حکومتیں تبدیل نہیں ہوئیں؟ یقیناً ہوئیں۔ تو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ عوام سے سوائے دو بار کے کبھی نہیں پوچھا گیا؟
اب جب آپ نے یہ سوال اٹھا ہی دیا ہے تو پھر جواب بھی تحمل سے سنیے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی اور ستر کی قانون ساز اسمبلی تو ہماری مرضی سے بنی۔ کوئی تیسری قانون ساز اسمبلی ہماری مرضی سے بنی ہو تو بتائیے۔ پہلی نے ہمیں ملک دیا اور ستر والی نے آئین۔ دیگر اسمبلیوں نے دُکھ یا ربر سٹیمپ کے سوا کیا دیا۔  تراکیب و استعاروں میں تو ویسٹ منسٹر ڈھانچے کی خوب نقالی کر لی۔ یہ عدلیہ ہے تو یہ ایوانِ بالا و زیریں ہے تو یہ کابینہ ہے اور یہ ہے آئینی دستاویز۔ مگر اس نظام کو چلانے کے لیے جو جمہوری روح درکار ہے وہ کہاں ہے۔ آپ کہتے ہیں ووٹر کو ضمیر کی آواز پر کُھلے ذہن سے سوچ سمجھ کے اپنا نمائندہ چننا چاہیے۔ لیکن اسی ضمیر کی آواز پر منتخب ہونے والا نمائندہ اپنا ضمیر گروی رکھنے پر مجبور ہے۔حالانکہ یہ سب کے سب صادق اور امین ہیں۔ یعنی عوام جو ووٹ حقیقی جمہوریت کی آس میں دیتے ہیں وہی ووٹ اوپر جا کر ایک غلام پارلیمانی پارٹی کی صورت میں پارٹی سربراہوں کی آمریت میں بدل جاتا ہے۔
Tumblr media
گویا کسی ایک ڈکٹیٹر سے بچنے کے چکر میں پورا نظام آٹھ، دس منتخب یا نامزد پارلیمانی ڈکٹیٹرز کا غلام بن جاتا ہے اور وہ بھی قانون کی بھرپور پشت پناہی کے ساتھ۔ اور پھر ان آٹھ، دس ڈکٹیٹرز کو پردوں کے پیچھے بیٹھا سپر ڈکٹیٹر ریموٹ کنٹرول پر چلاتا ہے۔ یوں عوام کا من و رنجن ایک کورئیو گرافڈ پتلی تماشے سے ہوتا رہتا ہے۔ کہانی بھی اس کی، ڈور بھی اس کی، پتلی بھی اس کی۔ سندھی کا محاورہ ہے ’واردات بھی جہان خان کی اور فیصلہ بھی جہان خان کا‘ اور وہ بھی وسیع تر قومی مفاد کے نام پر۔ آپ کو ثبوت چاہیے؟ کیا سرد جنگ کی ابتدا ہی میں امریکہ کا میلا اٹھانے کا فیصلہ عوام سے پوچھ کے ہوا تھا؟ کیا فالج زدہ غلام محمد اور لومڑ صفت اسکندر مرزا کو عوام نے منتخب کیا تھا؟ کیا ون یونٹ کا مطالبہ عوام نے کیا تھا؟ کیا اعلی عدلیہ نے نظریہ ضرورت کا عدالتی بم اس ملک کے سیاسی مستقبل پر عوام کے وسیع تر مفاد میں گرایا تھا؟ کیا ��نرل ایوب خان کو مشرقی و مغربی پاکستان کے ایک ملین لوگوں نے پیٹیشن بھیجی تھی کہ خدا کے واسطے ہمیں کرپٹ نظام سے مارشل لا کے ذریعے نجات دلاؤ۔
کیا باسٹھ کا صدارتی آئین کسی منتخب رہنما نے کسی عوامی ریفرنڈم میں منظور کروایا تھا؟ کیا یہ لوگوں کی فرمائش تھی کہ ہمیں مغربی طرز ِجمہوریت نہیں بلکہ بنیادی طرزِ جمہوریت درکار ہے۔ کیا پینسٹھ کی جنگ عام آدمی کی بنیادی ضرورت تھی؟ کیا یحیی خان نے ایوبی آمریت کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے والوں کی تائید سے مارشل لا لگایا؟ ستر میں عوام کو رائے دینے کی تو انتخابی آزادی ملی لیکن پھر رائے کی دھجیاں ملک کے کون سے عظیم تر مفاد میں اڑا دی گئیں۔ جو قتل ہوئے ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ جنھوں نے مارا ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ جنھوں نے مروایا ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ بھٹو کو پھانسی عوام کے پرزور مطالبے پر دی گئی؟ افغان خانہ جنگی میں اگر ضیا الحق نہ کودتا تو کیا عوام اس کا تختہ الٹ دیتے؟ جماعتی کی جگہ غیر جماعتی نظام کیا جمہوریت کو آگے لے کے گیا یا رہا سہا ستر بھی چاک کر گیا؟
پروڈا، ایبڈو، ڈی پی آر، اٹھاون ٹو بی، اے ٹی اے، نیب، صادق اور امین، جبری گمشدگیاں، محکمہ زراعت، آر ٹی ایس، سلیکٹڈ، امپورٹڈ۔ کیا ہماری قسمت میں یہی ہے؟ جہادی کلچر ریاست نے عوام کو دیا یا عوام میں خود بخود پنپا؟ فرقہ واریت کا وائرس کسی نصابی لیبارٹری میں تیار کر کے رگوں میں اتارا گیا یا پہلے سے ہی ہر پاکستانی کے ڈی این اے میں تھا؟ قرضے عوام کے نام پر عوام کے لیے کس نے لیے۔ ان میں سے کتنے عوام پر اور کتنے اشرافی فیصلوں اور فصیلوں کی تعمیر پر لگے؟ یہ قرضے کون چکائے گا؟ باجوہ، عمران، شہباز، اسحاق، زرداری یا وہ سکیورٹی گارڈ جو پندرہ ہزار روپے تنخواہ میں سے بھی ہر شے پر براہ راست یا بلاواسطہ ٹیکس دے رہا ہے۔ دس دس لاکھ روپے پنشن پانے والے مفلوک الحال تو اعزازی گاڑی، سکیورٹی، رہائش، کوڑیوں کے مول کروڑوں کے پلاٹ، ٹول ٹیکس کی معافی، اشرافی کلب میں مفت کے بھاؤ لنچ، ڈنر، گالف، بہترین ملکی و غیرملکی طبی سہولتوں کے قانونی حق دار بن کے فصیلی کالونیوں میں رہیں اور عوام اپنے لیے صبح سے شام تک ایک ایک لمحہ خریدیں اور اسحاق ڈاروں کی مسلسل خوش خبریوں کی اذیت بھی سہیں جمہوریت، آمریت، مستقبل گئے بھاڑ میں۔ یہ بتائیے 22 کروڑ میں سے اکیس کروڑ ننانوے لاکھ انسانوں کا اب کیا کرنا ہے کہ جن کی اوقات کچرا برابر کر دی گئی ہے؟ ان میں سے کتنوں کو ٹائی ٹینک سے اُتاری جانے والی کشتیوں میں جگہ یا لائف جیکٹ یا کوئی ٹوٹا تختہ مل سکے گا؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
gamekai · 1 year
Text
عمران خان کی جیل بھرو تحریک کیلئے رضاکاروں سے اپیل
لاہور : چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ رضاکاروں سے اپیل کرتا ہوں کہ جیل بھرو تحریک کیلئے تیار رہیں، تاریخ کا اعلان جلد کروں گا۔ یہ بات انہوں نے اپنے تازہ ویڈیو پیغام میں کہی، انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ کیوں پہنچے کہ جیل بھرو تحریک شروع کرنا پڑی، جب سے موجودہ امپورٹڈ حکومت آئی ہے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ملک کا آئین فیصلہ کرتا ہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
'ہم آئین کے حوالے سے نازک موڑ پر کھڑے ہیں'
‘ہم آئین کے حوالے سے نازک موڑ پر کھڑے ہیں’
پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ  ہم آئین کے حوالے سے نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ اپنے جاری کردہ ویڈیو بیان میں پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ پوری دنیا میں 4 اپریل کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کیا گیا کیونکہ شہید بھٹو نے اس ملک کو متفقہ آئین دیا۔ فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ مگر عمران خان حکومت نے آئین کی دھجیاں بکھیر دی ہیں، ہم آئین کے حوالے سے نازک موڑ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years
Text
آئی ایم ایف سوچ رہا ہے کس سے بات کریں؟ حمزہ شہباز
آئی ایم ایف سوچ رہا ہے کس سے بات کریں؟ حمزہ شہباز
مسلم لیگ (ن) کےمرکزی صدر رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ عمران نیازی آئین پاکستان اورسسٹم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، عمران خان کا راستہ روکنا ہوگا وگرنہ آئین و قانون کا جنازہ نکل جائے گا۔ چودھری پرویز الٰہی ہوش کے ناخن لیں۔ ہمارے نمبرز پورے تھے، چودھری پرویزالٰہی کے پاس نمبرز ہوتے تو وہ کیوں اجلاس ملتوی کرتے؟ وہ آئین ، قانون اور اخلاق کی دھجیاں اڑانے کے ماہر ہیں، عوام آج کل ہیجانی کیفیت کا شکار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
umeednews · 2 years
Text
آج پاکستان کا آئین توڑا گیا ہے اور اس کی سزا آئین میں واضح ہے؛بلاول بھٹو زرداری
آج پاکستان کا آئین توڑا گیا ہے اور اس کی سزا آئین میں واضح ہے؛بلاول بھٹو زرداری
اسلام آباد: چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے آئین کی دھجیاں اڑائیں، ان کے فیصلے کے خلاف آج سپریم کورٹ جائیں گے۔ پارلیمنٹ کے اندر میڈیا سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے ہمارے پاس تعداد مکمل تھی اور ہم وزیراعظم کو عدم اعتماد میں شکست دلوانے کی پوزیشن میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
columnspk · 2 years
Text
Hamara Rawaye He Hamara Mustaqbil
Hamara Rawaye He Hamara Mustaqbil
ہمارے رویے ہی ہمارا مستقبل ، پاک بھارت باہمی تجارت ہمارا انفرادی اور اجتماعی طرز عمل ہی ہمارے حال اور مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر نہ کریں۔ مسائل کا حل نظاموں (پارلیمانی صدارتی) سے وابستہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا دارومدار ہمارے رویوں اور اعمال پر ہے۔ ہمارے ہاں میرٹ کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ہم آئین کی بالادستی سے کوسوں دور ہیں۔ہمارے ہاں قانون…
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد لوگوں کی زندگیاں کیسے تبدیل ہوئیں: بارہ مہینے، بارہ کہانیاں 10 منٹ قبلانڈیا میں انتہا پسند ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ سال پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو انڈیا کے آئین کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے مرکزی حکومت کے براہ راست دائرہ اختیار میں شامل کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔اس متنازع ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں گذشتہ ایک سال سے درخواستیں زیر سماعت ہیں اور اس کے بعد سے نریندر مودی کی سرکار نے کشمیر میں 40 ہزار کے قریب سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات کر دیے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولت منقطع کر دی گئی، تمام سیاسی رہنماؤں اور بے شمار نوجوان کو گرفتار یا نظر بند کر دیا گیا اور سری نگر اور دیگر کئی جگہوں پر غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا۔کئی ماہ تک مسلسل کرفیو اور سخت سیکیورٹی اقدامات میں اس سال مارچ میں کچھ نرمی کی گئی۔ لیکن اس کے بعد کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر سری نگر اور وادی کے دوسرے علاقوں میں کارروبار زندگی مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والوں کے لیے گذشتہ ایک سال خوف اور شدید مشکلات کا سال تھا جس سے عوامی غم و غصہ اپنے عروج کو چھونے لگا ہے۔بی بی سی نے زندگی کے مختلف شعبوں میں مختلف سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے 12 خواتین اور مرد حضرات سے بات کی ہے۔ثنا ارشاد متو، عمر 26 سال،Abid bhattثنا جو گذشتہ چار سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پیشے میں نجی اور پیشہ وارانہ زندگی کو آپ الگ الگ نہیں رکھ سکتے۔‘’ہم ماضی میں کئی مرتبہ کرفیو سے گزرے ہیں لیکن گذشتہ سال ایک خوف کا ماحول تھا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے مواصلات کے طریقہ بدل گئے اور ہم نے اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کے لیے نئے طریقہ اختیار کرنا شروع کر دیے۔‘محترمہ متو کے بقول سیکیورٹی اہلکاروں کا رویہ جو اخبار نویسوں کی طرف پہلے ہی بڑا جارحانہ تھا اس میں گذشتہ سال اگست کے بعد اور بھی شدت آ گئی۔’اب اخبار نویسوں سے سوالات کیے جانے لگے اور انھیں گرفتار کیا جانے لگا۔ ان پر معلومات حاصل کرنے کے اپنے ذرائع ظاہر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا۔ آج اگر مجھ سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنا ہو تو مجھے کئی مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کیونکہ مجھے کام بھی تو کرنا ہے۔ مسلسل ایک خوف موجود ہے۔‘’گھر میں بھی ایک خوف رہتا ہے۔ میں اپنے کام کے مسائل پر اپنے گھر والوں سے بات نہیں کرتی۔ کبھی کبھی تو جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے۔‘الطاف حسین، عمر 55 برس،Abid bhatt،تصویر کا کیپشنالطاف حسین کا بیٹا پانچ اگست کے حکومتی اقدامات کے ابتدائی دنوں میں مرنے والوں میں شامل تھاالطاف حسین کا بیٹا پانچ اگست کے حکومتی اقدامات کے ابتدائی دنوں میں مرنے والوں میں شامل تھا۔ عصیب الطاف جو 17 سال کا تھا اس نے اپنے پیچھے بھاگنے والے سیکیورٹی اہلکاروں سے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی۔ایک سال گزرنے کے باجود حکومتی سطح پر ان کی موت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ جس ہسپتال میں اس کی موت واقع ہوئی انھوں نے بھی موت کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔الطاف حسین کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا فٹ بال کھیلنے گیا تھا اور تابوت میں واپس لوٹا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس دن کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی اور اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ مارا گیا۔ ’میرے پاس عینی شاہدین موجود ہیں لیکن پھر بھی پولیس مقدمہ درج کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم پولیس سٹیشن کے بعد عدالت میں بھی گئے لیکن کوئی انصاف نہیں ہے۔‘منیفہ نذیر، عمر چھ سال ،Abid Bhatt،تصویر کا کیپشن’میں اپنی سکول کے سبق سب بھول گئی۔ میں سو فیصد نمبر حاصل کرتی تھی۔ جب میری آنکھ ٹھیک ہو گئی تو میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں کیونکہ ڈاکٹروں نے میرا علاج کیا۔‘منفیہ سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں ہونے والی ایک جھڑپ میں پھنس گئی تھیں۔ان کی دائیں آنکھ میں کوئی چیز لگی۔’میں کئی دن تک ہسپتال میں رہی لیکن اب مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں ہے۔ میں اپنی سکول کے سبق سب بھول گئی۔ میں سو فیصد نمبر حاصل کرتی تھی۔ جب میری آنکھ ٹھیک ہو گئی تو میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں کیونکہ ڈاکٹروں نے میرا علاج کیا۔‘منیفہ کے والد ایک مقامی نیوز ایجنسی میں فوٹو گرافر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کی ایک آنکھ مکمل طور پر ضائع ہو گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ منیفہ کو انھوں نے سکول سے اٹھا لیا ہے کیونکہ وہ اس کے سکول کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔منیفہ نے کہا کہ وہ دیکھ نہیں سکتیں، انھیں صرف سائے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ 15 دن بعد وہ سکول جا سکیں گی لیکن ایک سال سے زیادہ ہو گیا وہ سکول نہیں جا سکیں۔فاروق احمد، عمر 34 برس،Abid bhatt،تصویر کا کیپشنسنہ 2003 میں اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر اور کچھ اپنی بچت کے پیسے نکال کر انھوں نے اپنی بس خرید لیفاروق احمد کی کہانی غربت سے خوشحالی کی ایک عام کہانی ہے۔کم عمری ہی سے انھوں نے اپنے خاندان کا معاشی بوجھ اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ سری نگر کے بس اڈے پر ڈرائیوروں کی مدد کر کے روزی کماتے تھے۔سنہ 2003 میں اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر اور کچھ اپنی بچت کے پیسے نکال کر انھوں نے اپنی بس خرید لی۔آج اپنے ایک کارروباری شریک کے ساتھ ان کی سات بسیں ہیں جو اب کھڑی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ گذشتہ ایک سال سے جاری حالات میں سب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں انھوں نے اپنی بسوں کی انشورنش کی تجدید کرائی ہے جس کے لیے انھیں چار لاکھ روپے ادا کرنے پڑے ہیں اور اس دوران آمدنی صفر ہو گئی ہے۔ ’میرے ساتھ ورکر پر فاقوں کی نوبت آ گئی ہے لیکن میں ان کے گھر والوں کا خیال کیسے کر سکتا ہوں جب مجھے اپنا گھر چلانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ ’میرے جیسے لوگ اپنی قیمتی اشیا بیچ کر کاروبار کرتے ہیں اگر ہماری آمدن نہیں ہو گی تو ہم اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔‘فاروق احمد اب مزدوری کرکے اپنے اخراجات اور اپنے قرضے ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اقرا احمد، عمر 28 برس،Abid Bhatt،تصویر کا کیپشنانٹر نیٹ پر پابندی لگنے سے ان کا کام ٹھپ ہو گیا ہے اور ٹو جی سے کام نہیں چلتا۔ ان کے گاہک امریکہ، دبئی اور آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ہیںاقرا احمد نے فیش ڈیزائننگ کا کام اس لیے شروع کیا تھا کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ ان پر کوئی حکم نہ چلائے۔انھوں نے کہا کہ وہ کشمیر کی ثقافت کو اپنے کام کے ذریعے فروغ دینا چاہتی ہیں اور اپنے ملبوسات آئن لائن پر فروخت کرتی ہیں۔انٹر نیٹ پر پابندی لگنے سے ان کا کام ٹھپ ہو گیا ہے اور ٹو جی سے کام نہیں چلتا۔ ان کے گاہک امریکہ، دبئی اور آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ان کے زیادہ تر گاہک کشمیری ہیں لیکن اب وہ ان کے ملبوسات نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ٹو جی پر تصاویر نہیں کھلتیں۔ ’مجھے ہر ماہ سو سے ڈیڑھ سو آڈر مل جاتے تھے اب مجھ پورے مہینے میں صرف چھ یا سات ہی آرڈر مل پاتے ہیں۔‘بین الاقوامی گاہکوں کو آڈر ملنے پر بہت تشویش ہوتی ہے۔ ایک گاہگ نے حال ہی میں انھیں فون کر کے چھ ماہ بعد آڈر بھیجنے پر مبارک باد دی۔ ایک اور گاہک نے انھیں کہا کہ ’دفع ہو جاو‘ کیوں وہ ان کا پیغام کا انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وقت پر جواب نہیں دے سکیں تھیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان حالات میں وہ اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ پائیں گی کیونکہ ان کے ماہانہ دو لاکھ روپے کے اخراجات ہیں۔ آمدن نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سات ورکروں کواجرتیں ادا نہیں کر پائیں گی۔بدرد دجا، عمر 24 برس،Abid Bhatt،تصویر کا کیپشن'بات کرنا ہی ایک راستہ رہے گیا تھا کہ آپ دل کی بھڑاس نکال سکیں لیکن اب اس میں بھی خطرہ ہے کہ آپ گرفتار نہ کر لیے جائیں‘’قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے میں آئین، جمہوریت کی روح، بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی عملداری کا مطالعہ کرتا ہوں۔ یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ جو قعلے انھوں نے تعمیر کیے ہیں وہ مسمار ہو رہے ہیں۔ ہماری شخصی آزادیاں سلب کر لی گئی ہیں۔ تمام طالب علموں اور اساتذہ کے لیے قانون کی تعلیم ایک مذاق بن گئی ہے۔‘بدرد دجا اپنے پیشے سے مایوس ہو گئے ہیں۔'بات کرنا ہی ایک راستہ رہے گیا تھا کہ آپ دل کی بھڑاس نکال سکیں لیکن اب اس میں بھی خطرہ ہے کہ آپ گرفتار نہ کر لیے جائیں۔ ’انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے ساتھ ایک زیر تربیت کارکن ہونے کی وجہ سے میں نے دیکھ کہ ایک شخص کو محض اس لیے پولیس نے گرفتار کر لیا کہ اس نے میڈیا کے کسی نمائندے سے بات کی تھی۔ 'ہماری روح کو کچلا جا رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’شدید مایوسی ہے۔ ہم نے قانون اس لیے نہیں پڑھا تھا کہ جو لوگ اس کی عملداری اور پاسداری کے ذمہ دار ہیں وہ ہی اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔‘ وہ اب کسی دوسرے پیشے کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔منظور بھٹ، عمر 29 برس،Abid Bhatt،تصویر کا کیپشنمنظور بھٹ نے بتایا کہ بی جے پی میں شامل ہونے پر ان کے رشتہ داروں اور ان کے دوستوں نے ان کا سماجی بائیکاٹ کر دیا ہےمنظور بھٹ انڈیا کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے شعبہ نشر و اشاعات کے سربراہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی میں شامل ہونے پر ان کے رشتہ داروں اور ان کے دوستوں نے ان کا سماجی بائیکاٹ کر دیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے دوزخ میں نہیں جائیں گے۔ اس کے برعکس ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے علاقے اور اپنے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔'میرا مقصد پیسہ بنانا نہیں ہے بلکہ دوسروں کی زندگی بہتر کرنا ہے۔ ہمارے نوجوان بندوقیں اٹھا لیتے ہیں لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کشمیر میں جو لوگ مر رہے ہیں میرے بھی بھائی ہیں لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘جاوید احمد عمر 35 سال،Abid Bhatt،تصویر کا کیپشناب وہ سبزیاں فروخت کرنے پر مجبور ہیں لیکن لاک ڈاؤن میں گاہک کہاں ہیںجاوید احمد سری نگر کی دلکش دل جھیل میں کشتی بان ہیں اور 25 برس سے سیاحوں کو جھیل کی سیر کراتے ہیں۔ اس سے انھیں اچھی آمدن ہوتی تھی اور وہ اوسطً 500 روپے روزانہ کما لیتے تھے۔اب وہ سبزیاں فروخت کرنے پر مجبور ہیں لیکن لاک ڈاؤن میں گاہک کہاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کے سکول کی فیسیں ادا کرنے میں بھی دشواری پیش آ رہی ہے۔’ہمارا مستقل تباہ ہو گیا ہے۔ سیاح خوف کی وجہ سے نہیں آ رہے۔ یہ کشمیر میں ہر کسی کے لیے بہت مشکل وقت ہے۔ لیکن سیاحت کا شعبہ سب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ حکومت نے ہر کشتی والے کو ایک ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اس سے سے بجلی کا بل بھی پورا نہیں ہو گا۔ میں نے سب کچھ خدا پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔‘فلاح شاہ، عمر 12 برس،Abid Bhattانڈیا کے دوسرے علاقوں میں تعلیم کی بہتریں سہولیات دستیاب ہیں۔ مجھے اس صورت حال کا سامنا ہے کہ میں بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہوں۔ اگر اس مرحلے پر تعلیم سے محروم رہیں گے تو آگے چل کر کس طرح مقابلہ کر سکیں گے۔’مجھے سائنس اور ریاضی کے سبق سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ انٹر نیٹ بند ہونے کی وجہ سے سوالات کا حل بھی تلاش نہیں کر پا رہا۔ انٹر نیٹ بحال کر دیا گیا ہے لیکن اس کی رفتار انتہائی سست ہے۔ ’اگر میں کوئی کتاب کھولتا ہوں اور پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مجھے تو اس کی سمجھ ہی نہیں ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ہم جماعت سہیلیوں اور اساتذہ کو یاد کرتی ہیں۔’میں ایک سال سے گھر سے باہر نہیں نکلی۔ میں ایک جگہ قید ہو کر رہ گئی ہوں۔ اگر کسی اور ریاست میں ایک سال سے لاک ڈاؤن ہوتا تو طلبہ سڑکوں پر نکل آتے۔ لیکن ہم احتجاج کرتے ہیں تو ہمیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔‘ساجد فاروق، عمر 43 برس،Abid Bhattساجد فاروق ایک ہوٹل چلاتے ہیں اور تین نسلوں سے کارروباری ہیں۔ ان کہا کہنا ہے کہ انہیں بھی کشمیر میں کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔وہ سنہ 1990 سے جاری ہلاکتوں اور خون ریزی کی بات کرتے ہیں جب کشمیر میں انڈیا کے خلاف مسلح شورش شروع ہوئی۔انہوں نے کہا کہ کارروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔'بجلی میں استعمال کروں یا نہ کروں مجھے ہر ماہ دو لاکھ روپے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ دوسرے بل بھی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ حالات بہتر ہوں گے۔ جب کشمیر میں ماتم ہوتا ہے ملک کے دوسرے حصوں میں جشن ہوتا ہے۔ ہر چیز میں سیاست گھس گئی ہے۔ ہر چیز میں جھگڑا ہے ایسے ماحول میں آپ کارروبار کیسے کر سکتے ہیں۔بلال احمد، عمر 35 برس،Abid Bhattبلال احمد کشمیر میں پھل اگاتے ہیں۔ زراعت کے شعبے میں یہ پھلوں کی باغبانی ایک بڑا ذریعہ آمدن ہے۔انہوں نے کہا کہ ناموافق موسم اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ انہیں اپنی زمین بیچنا پڑ سکتی ہے۔انہوں نے کہا اس سال جلد برفباری کی وجہ سے ان کی سیبوں پر خوبانی کی فصل خراب ہو گئی اور اس کے بعد مزدور نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنے باغ پر سپرے بھی نہیں کر سکے جس سے رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔’ہم ایک سال سے بےکار بیٹھے ہیں۔ سیبوں کی کاشت سے ایک سے ڈیڑھ لاکھ مل جاتے تھے لیکن اس سال صرف 30 ہزار روپے ہیں مل سکیں ہیں۔ میرے بھائی نے خوبانی کے بارہ سو بکس کاشت کیے تھے لیکن خریدار نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر پھینکے پڑے۔ اگر صورت حال یہ رہی تو ہمیں زمین بیچنا پڑے گی۔ ہم کیا کریں گے۔ میں نے تو تعلیم بھی حاصل نہیں کی۔‘محمد صادق، عمر 49 برس،Abid Bhatt،تصویر کا کیپشنریاستی حکومت نے حال ہی میں ریت اور بجری نکالنے کا ٹھیکہ کچھ غیر مقامی ٹھیکداروں کو دے دیا ہے جس سے صادق جیسے ہزاروں مقامی لوگ بے روزگار ہو گئے ہیںصادق برتن بنانے کا کام کرتے ہیں لیکن ان کے کاروبار کا پہیہ بھی گیا ہے۔ریاستی حکومت نے حال ہی میں ریت اور بجری نکالنے کا ٹھیکہ کچھ غیر مقامی ٹھیکداروں کو دے دیا ہے جس سے صادق جیسے ہزاروں مقامی لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔’حکومت نے مٹی کھودنے پر پابندی لگا دی ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسا عدالت کے حکم پر کیا گیا ہے لیکن عدالت اس سے پہلےکہاں تھی۔ کیا ججوں کو ہمارے جیسے غریبوں کا خیال نہیں آیا۔ کیا وہ ہمیں بھوکا مارنا چاہتے ہیں۔ ’لاک ڈاؤن کو وجہ سے کوئی چیز فروخت نہیں ہو رہی۔ میں نے نئی چیزیں بنانا بند کر دی ہیں اور مزدوری کرنا شروع کر دی ہے۔‘ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
چیف الیکشن کمشنرقانون کے دائرے سے باہر فیصلے کررہے ہیں، شیریں مزاری
چیف الیکشن کمشنرقانون کے دائرے سے باہر فیصلے کررہے ہیں، شیریں مزاری
اسلام آ باد (نمائندہ عکس ) تحریک انصاف کے رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنرقانون کے دائرے سے باہر فیصلے کررہے ہیں،ایف آئی اے پی ٹی آئی کا تمام ریکارڈ کس حیثیت سے مانگ رہا ہے؟،شہبازگل نے اگر قانون کیخلاف ورزی کی ہے تو ان پر کیس کریں،امپورٹڈ حکومت نے آئین و قانون کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔شیریں مزاری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ واضح ہوتا جارہا ہے الیکشن کمیشن جانبدار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
peoplessvoice · 4 years
Photo
Tumblr media
کلیم امام پی ٹی آئی کے عمر کوٹ کے ضلعی صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا سیاسی کردار کھل کر سامنے آگیا ہے: پلوشہ خان پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات پلوشہ خان نے آئی جی سندھ پولیس کلیم امام کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر عمر کوٹ کے ایس پی اور ڈی سی کے تبادلے کے مطالبے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور کلیم امام پی ٹی آئی کے عمر کوٹ کے ضلعی صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا سیاسی کردار کھل کر سامنے آگیا ہے۔ پلوشہ خان نے کہا کہ سلطنت نیازیہ آئی جی سندھ کو بطور وائس رائے استعمال کرکے صوبائی خود مختاری کی دھجیاں اڑا رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ آئی جی سندھ پولیس منتخب نمائندوں کی کھلی کچہری کا بھی نوٹس لینے لگے ہیں۔ آئی جی سندھ کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ منتخب نمائندوں کے کھلی کچہریوں کا نوٹس لیں۔ یہ سروس ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر آئی جی سندھ کے خلاف محکمانہ کارروائی ہونی چاہیے۔ پلوشہ خان نے کہا کہ آئی جی سندھ پولیس کے متعلق حکومت سندھ کے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں کہ آئی جی سندھ کی تمام تر توجہ پی ٹی آئی کے مفادات تک محدود ہے اور سندھ میں امن و عامہ کا معاملہ ان کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں عوام کی منتخب حکومت ہے۔ وفاق سندھ میں بے جا مداخلت کرکے سندھ کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین بند کرے۔ پلوشہ خان نے کہا کہ سلیکٹڈ حکومت صوبائی خود مختاری کی دھجیاں اڑا کر آئین سے انحراف کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی جی سندھ کا سیاسی کردار سامنے آنے کے بعد یا تو آئی جی سندھ کو وفاق واپس بلائے یا کلیم امام سرکاری ملازمت چھوڑ کر باقاعدہ پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں۔
0 notes
pakistantime · 4 years
Text
بھارتی شہریت کا ترمیمی بل : کیا جناح کا نظریہ مکمل ہو گیا ؟
بھارتی متنازع شہریت بل کیخلاف عوامی احتجاج پر مودی سرکار بجائے مناسب حل کے ‘ تشدد پر اتر آئی‘ جلسوں ‘ جلوسوں اور مظاہروں کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ پولیس نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں پر بدترین تشدد اور طالبات کے ساتھ قابل اعتراض حرکات کیں‘ جس سے کئی طلبا زخمی ہو کر ہسپتال داخل ہو گئے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم پارلیمنٹ ہاؤس تک مارچ کرنا چاہتے تھے‘ لیکن پولیس نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ پولیس نے اندھا دھند گولیاں برسائیں اور آنسو گیس کا شدید استعمال کیا‘ اس کے باوجود طالبعلموں کو آگے بڑھنے سے نہ روک سکے تو پولیس نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ساتھ ان پر بدترین تشدد کیا۔ 
طالبات کو گھسیٹا گیا ‘جس پر ہنگامہ اور بڑھ گیا۔ درجن سے زیادہ طالبعلم زخمی ہو کر ہسپتال پہنچے ‘جہاں کے ڈاکٹروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان مظاہرین پر زہریلے کیمیکل سپرے کا استعمال کیا گیا‘ جس کی وجہ سے نا صرف ان کی بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے‘ وہیں مختلف بیماریوں کا بھی اندیشہ ہے۔ بھارتی حکومت نے دہلی کے شاہین باغ میں متنازع شہریت قانون کیخلاف احتجاج کرنیوالوں کو فوری طور پر ہٹانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا‘ مگر عدالت نے اس قسم کا کوئی بھی حکم دینے سے انکار کر دیا‘ تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ لوگوں کو عوامی شاہراہ کو غیرمعینہ مدت تک کیلئے بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
بینچ میں موجود ایک جج جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ کہ وہ حکومت کو سنے بغیر دونوں درخواست کو نہیں سن سکتے ۔ یہ درخواستیں وکیل امیت شاہنی اور بی جے پی دہلی کے رہنما نند کشور گارگ نے دائر کی تھیں‘ تاہم ان کی جانب سے یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ وہ اس احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتے ‘جو ایک ہی جگہ پر غیرمعینہ مدت تک جاری رہے ۔ متنازع شہریت بل کی مخالفت میں بعض بھارتی ریاستیں بھی پیش پیش ہیں۔ حال ہی میں کیرالہ‘ راجستھان اور پنجاب کے بعد مغربی بنگال کی اسمبلی نے بھی مودی سرکار کے اس متنازع شہریت ترمیمی قانون کیخلاف قرارداد منظور کی‘ جس میں مودی سرکار سے متنازع قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری سرکار مذہبی منافرت پر مشتمل ایسے کسی بھی قانون پر عملدرآمد نہیں کرے گی‘ جس سے بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار ہوتا ہو۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ چندر شیکھر را بھی متنازع قانون کے خلاف قرارداد منظور کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ شہریت قانون میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے پر تکلیف پہنچی ہے ۔ مسلمان رکن اسمبلی اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ یہ قانون ہٹلر کے قوانین سے زیادہ برا اور مسلمانوں کو بے ریاست بنانے کی سازش ہے ۔ کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ اس بل کی جو بھی حمایت کرے گا وہ انڈیا کی بنیاد کو تباہ کر رہا ہو گا‘ تاہم بی جے پی کے رہنماوں اور حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ یہ بل مسلمانوں کے خلاف نہیں۔
شہریت ترمیمی قانون این آر سی کیخلاف احتجاج کرنے والے طلبا اور دیگر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے معروف اداکار نصیرالدین شاہ‘ میرا نائیر سمیت تقریباً 300 شخصیات نے اپنے دستخطوں کے ساتھ سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں کھلا خط جاری کیا ہے ۔ شہریت ترمیمی ایکٹ پر متنازع ریمارکس بارے اعتراف کرتے ہوئے بھارتی کانگریس کے سینئر رہنما شسی تھرور نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ محمد علی جناح جیت گئے ‘بلکہ وہ ابھی بھی جیت رہے ہیں‘ اگر شہریت ترمیمی ایکٹ این بی آر اور این آر سی کو لیڈ کرے گا تو یہ محمد علی جناح کے دو قومی نظریے کے خطوط پر مبنی استوار ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو آپ یہ کہہ سکیں گے کہ جناح کا نظریہ مکمل ہو گیا۔
اس قانون کے لاگو ہونے سے جناح کے اس نظریے کو تقویت ملے گی کہ مسلمان ایک علیحدہ ملک کے مستحق ہیں‘ کیونکہ ہندو مسلمانوں کے حق میں نہیں ہو سکتے ۔ بھارت میں ظالم مودی سرکار کے مسلم دشمن قانون جناح کے نظریے کی جیت ہے۔ بل میں غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کی ترامیم شامل ہیں‘ جس کے تحت بنگلہ دیش‘ پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو‘ بودھ‘ جین‘ سکھ‘ مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی‘ لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ کانگریس کے رہنما کپل سبل نے دعویٰ کیا کہ بل سے آئین کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ 
متنازع بل کی منظوری سے دو قومی نظریہ حقیقت بن جائے گا‘ جبکہ مودی نے الزام لگایا ہے کہ اپوزیشن‘ پاکستان کی زبان بول رہی ہے۔ کانگریس کے آنند شرما نے کہا کہ کپل سبل بل کی مخالفت کرتے ہیں۔ نظر ثانی کریں‘ تاریخ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض بھارت کا اقلیتوں کی شہریت کا متنازع ترمیمی بل نا صرف بھارت میں ‘بلکہ عالمی طورپر تنقید کا نشانہ بن رہا ہے ۔ مودی کی پارٹی پی جے پی کے یہ اقدامات بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ہے ۔ مودی نے اقلیتی مسلم برادری کو نشانہ بنایا‘ جو بھارت کی ثقافت ہے یہ اقدام دو ایٹمی طاقتوں میں تناؤ بڑھا سکتا ہے ۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
munsifurdu · 2 years
Text
ملک میں قانون اور آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں: اشوک گہلوٹ
گہلوٹ نے کہا کہ ملک قانون کی حکمرانی سے چلتا ہے جس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے، سی بی آئی، ای ڈی، انکم ٹیکس ہر جگہ چھاپے پڑ گئے ہیں۔ #Munsifurdu
جے پور: راجستھان کے چیف منسٹر اشوک گہلوٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں قانون اور آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جمہوریت کو خطرہ میں ڈال دیا گیا ہے اور الیکشن جیتنے کے لیے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ملک، ریاست کے باشندوں اور نوجوانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کس سمت جا رہا ہے۔ گہلوٹ نے یہاں میڈیا سے یہ بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا ہمارے ملک کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
اپوزیشن سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے فواد چوہدری
اپوزیشن سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے فواد چوہدری
 عمران خان نے احتجاج کی کال دی تو آپ کا گھروں میں رہنا مشکل ہو جائے گا، ن لیگ اور پی پی کس منہ سے آئین کا نام لے رہی ہے ان کو شرم آ نی چاہیے، کیا لوگوں کو خریدنا اور ہارس ٹریڈنگ آئین کا حصہ ہے، اسپیکر کی رولنگ کو آئین سے بغاوت کہنے والے یہ ہوتے کون ہیں، اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی نہیں کہا جاسکتا، آرٹیکل 6 سے پہلے آرٹیکل 5 ہے جس میں وفاداری کی بات ہے، ان جماعتوں نے آئین کی دھجیاں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
tardosnews · 4 years
Photo
Tumblr media
مودی حکومت کی ایسی حرکت کہ کانگریس نے ان پرآئین کی دھجیاں اڑانے کا الزام لگا دیا؟ بڑی وجہ نے سب کو حیرت زدہ کر دیا ہندوستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے مودی حکومت پر مہاراشٹر میں انتخابات کے بعد آئین کی دھجیاں اڑانے کا الزام لگایا ہے۔
0 notes
dailyshahbaz · 5 years
Photo
Tumblr media
ریاست پاکستان کی پشتون اولاد – عبدالروف یوسفزئی ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے چھوٹے صوبوں کے لوگوں کو روز اول سے ہی پنجابی اور ملٹری بیوروکریسی نے دبایا ہوا ہے۔ سفید چمڑی والے آقا سے تو چھٹکارا مل گیا مگربراؤن اشرافیہ نے کبھی بھی چھوٹی اقوام کو آگے نہیں آنے دیا۔ مذہب کے نام پر بننے والی ریاست میں ہمیشہ سے اقلیت اور کمزوروں کا استحصال بھی اسی نام پرہورہا ہے۔ مملکت خداداد میں مذہب صرف سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اس ہوم میڈ تھیوری کو شیخ مجیب نے توڑا بھی ہے لیکن پالیسی میکرز ہمیشہ ’’پاکستان تا قیامت رہے گا‘‘کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چالیس سال سے پشتون ریجن میں جنگی اقتصاد کا کھیل خطرناک حد تک کھیلا گیا جوکہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ تقسیم کے ایک سال بعد چارسدہ میں خدائی خدمت گاروں کے پرامن جلوس پراس وقت کے سلیکٹیڈ وزیر اعلی قیوم خان کے حکم پر سینکڑوں پشتونوں کو قتل کیا گیا۔ باچا خان انگریز سرکار کے دور میں 14 جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تقریبا17 سال جیلوں میں رہے، ہری پور جیل میں تو باقاعدہ باچاخان کا ایک کمرہ ہوا کرتا تھا اور ریاستی جبر کی یہ نشانی بعد میں مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان قتل پیروی کے لئے کمرہ عدالت میں تبدیل کیا گیا۔ ریاستی جبر کا سلسلہ رکا نہیں ہے آج بھی جوان نسل کے پشتون ممبرز قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر سمیت کئی انسانی حقوق کی بات کرنے والے باچاخان کے کمرے کی پڑوس میں ہیں۔ سرخ پوشوں نے جب بھی آئین کی بالادستی کے لئے آئین توڑنے والے جرنیلوں کے خلاف آواز اٹھائی تووہ غدار ٹہرے اور جب جنگ کے خلاف بولے توپشتون قیادت پرغیر مسلم ہونے کے فتوے لیکن وقت نے پرامن فلسفے کے پیروکاروں کو درست ثابت کردیا۔ دہشت گردوں کے خلاف حالیہ جنگ خصوصی طور پر پشتون علاقوں میں لڑی گئی، ہزاروں تو تاریک راہوں میں مارے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ سالہا سال شدید گرمیوں اور کپکپاتی سردیوں میں آئی ڈی پیز کیمپوں میں دن گزار رہے تھے۔ ملٹری آپریشنز کے بعد فوج نے اعلان کیا کہ ہم نے دہشت گردوں کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی مگر پھر بھی پیرالائزڈ دہشت گرد کبھی کبھی نمودار ہوجاتے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں کا کنٹرول جب پاکستانی فوج نے سنبھالنا شروع کیا تو مقامی سطح پر سپاہیوں کی غیر قانونی طور لوگوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ ختم ہونے والا نہیں تھا تو پشتون تخفظ موومنٹ کی شکل میں مزاخمتی تحریک نے جنم لیا جس نے خوف کے ماحول کو کافی حد تک ختم کردیا حتی کہ شکایتیں اعلیٰ فوجی حکام کو جوانوں نے میٹنگز میں بھی بتائیں اور بہت حد تک سپاہیوں کی رویہ میں نرمی بھی لائی گئی۔ حالیہ دنوں میں چند واقعات ایسے پیش آئے جنہیں ہضم کرنے کے لئے ماضی کو بھولنا پڑے گا جو ممکن نہیں ہے۔ خیسور میں جس طرح فوجی جوانوں نے چادر اور چاردیواری کی دھجیاں کئی مرتبہ اڑائیں مقامی لوگ جب واقعہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے لے آئے اور بعد میں انٹرنیشنل میڈیا نے بھی خبر کو خوب اچھالا اور بالاخرمقامی فوجی کمانڈر نے گھر کا دورہ کرکے پشتو زبان میں ولولہ انگیز تقریر بھی کی تو معاملہ کچھ رفع دفع ہوگیا۔ خڑقمر کا بدترین واقعے میں تو احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلائی گئیں جس میں درجن بھر کے قریب جوان جاں بحق ہوئے مگر کمال ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے متعلق کسی نے انکوائری تک کی بات نہیں کی۔ ریاستی اداروں نے مل کر مرنے والوں کو جیل میں بند کیا۔ کفر کا معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے۔ مگر ظلم کا نہیں (حضرت علی) مومند ضلع میں جب ایک اور واقعہ نے ہمارے سر شرم سے جھکا دیئے ایک قوم کے محافظ کو خاتون نے اس وقت ڈھیر کر دیا جب وہ گھر کے اندر گھسنے کی کوشش کر رہا تھا جس کا ذکر بعد میں اپنے لوگوں نے ان الفاظ کے ساتھ کیا تھا کہ وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ اور اب وزیرستان کا تازہ ترین واقعہ جس میں مبینہ طور پر ایک باوردی جوان کو مقامی لوگوں نے ماردیا۔ فائرنگ کے اس واقعہ میں دو بھائی بھی مر گئے۔ فوجی شعبہ تعلقات عامہ نے کہا کہ دہشتگردوں کے ساتھ لڑائی میں جوان مرگیا۔ مگر مقامی لوگوں نے مرنے والے دونوں بھائیوں کی لاشیں رکھ کر احتجاج شروع کیا۔ گاؤں والوں کے موقف کو کسی بھی پاکستانی اخبار نے شائع تک نہیں کیا۔ مرنے والوں نے کہا کہ دہشت گرد احتجاج نہیں جلدی سے تدفین کرتے ہیں۔ لوگوں نے الزام لگایا کہ شام کے بعد نامعلوم افراد مقامی گھروں میں پتھر پھینکتے ہیں اور گاؤں والوں کو پکڑ کر مارتے بھی ہیں۔ وزیرستان میں اب چونکہ فوج عملا ہر چیز کو کنٹرول کرتی ہے تو وزیر اعلی خیبر پختوںخوا جو صوبے کا چیف ایگزیکٹیو ہے اور کورکمانڈر پشاور کی ذمہ داری بنتی ہے کہ متعلقہ علاقوں کے آفیسرز کو سزا دیں تاکہ ایک مثال قائم ہو سکے۔1971 ء کی خانہ جنگی کی شروعات کے دنوں اور حالیہ دور میں بھی اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات رونماہوئے جنہیںکولیٹرل ڈیمج کے نام پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کردیا گیا ہے۔ پاکستانی فوج ایک مغزز اور معتبر ادارہ ہے جس کے لئے ہر پاکستانی خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس ادا کرتا ہے اس طرح کے واقعات کو دوسرا رنگ دینے سے ایک خاص وقت میں تو مسائل کو کارپٹ کے نیچھے دبایا جا سکتا ہے مگر تاریخ کے اوراق میں اس جیسے سیاہ داغ تا ابد ہمارا پیچھا کریں گے۔ چند ماہ سے پاک فوج پشتون نوجوان کو سینے سے لگانے کی کوشش میں بھی لگی ہوئی ہے مختلف پروگرامز میں ان کو مدعو کیا جاتاہے ان کو سنا جاتا ہے آئی ایس پی آر چند ہفتوں بعد یگانگت کی ایک تصویر بھی میڈیا کو جاری کرتا ہے۔ مگرایک بے ہودہ واقعہ جب رونما ہوتا ہے تو تمام مثبت کوششوں پرصرف ایک بندہ پانی پھیرلیتا ہے اور جوانوں کی احساس بیگانگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں بھی کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ یہ عمل انفرادی ہوتا ہے جب تک ادارہ قانون شکن فرد کا دفاع نہیں کرتا۔ قانون توڑنے والوں کا کورٹ مارشل اور بعد میں کارروائی، نام اور فوٹو کے ساتھ اخبارات میں شائع ہونی چاہیے۔ مسئلہ میں تناؤ اور بگاڑتب آتا ہے جب ادارے کے دوست غیر قانونی عمل کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ جھوٹ بولنے سے معاشرے اور اداروں میں احتساب اور قانون کی حکمرانی کا عمل ٹہرجاتا ہے جہاں سے زوال شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستانی فوج کوئی دوسری مخلوق نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے، اس کے آفیسرز بھی ہماری طرح کے انسان ہیں ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ اگر کامیابیوں پر فوجی آفیسرز کو انعامات سے نوازا جاتا ہے جن کی ویڈیوز ٹی وی چینلز پر جب کہ خبر سمیت تصاویر اخبارات کی زینت بنتی ہیں تو ادارے میں جزا کے ساتھ سزا کا بھی اوپن عمل ضروری ہے۔ اخبارات میں روزانہ تین تین کالمز کی خبر سے امیج تو عوام کی آنکھوں میں بہتر بنایا جاسکتاہے مگر ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے اصول اور انصاف پرمبنی فیصلے کرنے ہوں گے۔ تنقید اور احتساب سے کوئی بندہ اور ادارہ مبرا نہیں ہونا چائیے جب یہ جرنیل ریٹائرڈ ہوتے ہیں توجنرل شاہد عزیز کی طرح محب الوطنی کی"سچی کہانیوں" کی کتاب لکھتے ہیں جس کو بعد میں کوئی ذی شعور فرد سنجیدہ نہیں لیتا۔ اگر حالات جوں کے توں رہے تو پھر کوئی بھی کپتان یا میجر موٹروے کے آفسر اور صحافی کو سرراہ سپاہیوں کی مدد سے گھونسے اور لاتے مارنا اپنا حق سمجھے گا۔ سرجنرل قمر باجوہ! بہت دیر ہوگئی فوج میں بے رحم احتساب اور سوال کی ضروت ہے مزید دیرتباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
دودھ بیچنے والے ایک شخص کو نیب افسران کے نمبر کس نے دیے: سپریم کورٹ شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد21 منٹ قبل،سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے قومی احتساب بیورو یعنی نیب افسران کے نام پر پیسے لینے والے ملزم کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران نیب افسران کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے پورے ملک میں تعینات ڈائریکٹر جنرل رینک کے نیب افسران کی تقرریوں کے بارے میں تفصیلات طلب کر لی ہیں۔سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کے افسران بھرتی کرنے کے اختیار کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ادارے کے سربراہ جو خود سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں، آئین اور قانون کو بائی پاس کر کے کیسے بھرتیاں کر سکتے ہیں۔ عدالت نے اس ضمن میں اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا ہے۔سپریم کورٹ کے بینچ کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہر بندہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے, اُنھوں نے کہا کہ مارشل لا میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ ملک میں مارشل لا سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے۔ملزم محمد ندیم جن پر الزام ہے کہ وہ نیب کے اعلیٰ سرکاری افسران کو بلیک میل کرتے ہیں، کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تفتیش کے مطابق مڈل پاس ملزم کے پاس صرف ایک بھینس ہے۔ اُنھوں نے سوال اٹھایا کہ ملزم کے پاس بڑے بڑے افسران کے موبائل نمبر کیسے آگئے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کے ایم ڈی سمیت 22 افراد کی مخلتف شکایات ملیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ایم ڈی پی ایس او نے ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان منگی سے رابطہ کیا۔ عدالت نے ڈائریکٹر جنرل نیب عرفان منگی کو روسٹم پر بلایا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عرفان منگی کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیا ہے۔ جس پر ڈی جی نیب راولپنڈی نے جواب دیا کہ وہ ��یشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور ان کی تنخواہ چار لاکھ بیس ہزار روپے ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا وہ فوجداری معاملات کا تجربہ رکھتے ہیں جس پر ڈی جی نیب راولپنڈی کا کہنا تھا کہ ان کا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے؟ عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے۔‘اپنے ریمارکس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا ’نیب کیسے کام کررہا ہے۔ حیرت ہے کہ عوام کے پیسے سے ایک ایسے شخص کو ماہانہ لاکھوں روپے ادا کیے جارہے ہیں جو فوجداری مقدمات سمجھنے کا تجربہ ہی نہیں رکھتے۔‘واضح رہے کہ ڈی جی نیب عرفان منگی اس تفتیشی ٹیم کا حصہ تھے جس نے پاناما کیس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کی خلاف تحقیقات کی تھیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ چیئرمین نیب کس قانون کےتحت بھرتیاں کرتے ہیں؟ اُن کا کہنا تھا کہ ’چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اب جج نہیں ہیں اور عدالت جب چاہے اُنھیں طلب کرسکتی ہے۔‘بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس میں کہا کہ نیب جس معاملے میں چاہتا ہے گھس جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بار بار مواقع دیے مگر نیب کے غیر قانونی کام جاری ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ڈرانے کے لیے نیب کا نام ہی کافی ہے۔ نیب کے پراسکیوٹر نے کہا کہ نیب کے اہلکار اپنا کام قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ہمیں نیب کے لیے قانون کی کلاسز لگانی پڑیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ادارہ چلانے کے لیے قواعد بنائے جاتے ہیں اور حیرت ہے کہ نیب نے 1999 سے اب تک کوئی رولز اینڈ ریگولیشنز بنائے ہی نہیں گئے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ قواعد نہ بنانے پر نیب کے اپنے خلاف ریفرنس بنتا ہے۔،Supreme Court of Pakistan،تصویر کا کیپشنجسٹس قاضی فائز عیسیٰضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم ندیم نے عرفان منگی سمیت مختلف افسران کو اہم شخصیات بن کر کالیں کیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ملزم کے خلاف نیب کی جانب سے مقدمہ درج کروایا گیا۔بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے تفتیشی پولیس افسر سے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں ابھی تک کسی گواہ کا ابتدائی بیان لیا گیا اور کیا ملزم کے فون کا فرانزک کروایا گیا۔ جس کے جواب میں تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ فرانزک کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی۔عدالت نے تفتیسی افسر سے سوال کیا کہ ملزم ندیم کام کیا کرتا ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم بہاولپور کا رہنے والا ہے اور ایک بھینس کو پال کر اس کا دودھ بیچ کر پیسے کماتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک ایسے شخص کے پاس افسران کے نمبر کیسے آگئے اور اتنی اہم معلومات کیسے پہنچیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ اگر عرفان منگی کو کال کی تھی تو ان کا بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ ملزم ندیم کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کے خلاف بلاوجہ مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کسی متاثر شخص کا بیان ریکارڈ تک نہیں کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے خلاف پہلے نیب ریفرنس بھی بنایا گیا پھر ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ملزم کی ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے درست معاونت نہ کرنے پر ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد اور نیب پراسیکوٹر کی سخت سرزنش کی۔بینچ کے سربراہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اتھارٹیز کو قانون کے مطابق گائیڈ کرنا قانونی افسران کی ذمہ داری ہے۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes