میرے گاؤں کے نفاست علی نے جی بھر کر چودا
قسط 04
اس نے مجھے زور جکڑ لیا اور میں کوشش کرتی رہی اسکی گرفت سے نکلنے کی مگر اس نے مجھے نہیں چھوڑ تھا سالا گانڈ چودنے پہ کچھ برا لگا تھاا ذرا دیر بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ تکلیف کم ہوئی میں نے کہا ہاں مگر آپ اس کو نکال کر وہیں ڈالیں جہاں پہلے تھا مگر اس نے انکار کردیا تھا
مجھے گانڈ میں وہ مزہ نہیں مل رہا تھااور کہا ابھی نہیں تھوڑی دیر میں میں خاموش ہوگئی میں نے خود کو پورا اسکے حوالے کیا ہوا تھا اس نے میری رضامندی دیکھ کر اپنا کام شروع کردیا اور جھٹکے دینا شروع کیے اور پھر پوری رفتار میں ایکبار پھر سے آگیا میرے بوبز بری طرح سے ہل ہل کر میرے چہرے سے ٹکرا رہے تھے
اور میں بھی پوری ہل رہی تھی میں نے کہا ایسے مزہ نہیں آرہا ہے بہت ہل رہی ہوں پلیز میں تو اس نے کہا چلو نیچے زمین پر مجھے زمین پر لاکر اس نے پیٹ کے بل مجھے بیڈ پر اسطرح لٹایا کہ میرے گھٹنے زمین پر لگے تھے اب وہ بھی اسی پوزیشن میں آگیا اور پھر سے لوڑا میری گانڈ میں داخل کیا تھا
اب اس نے پورا لوڑا اندر ڈال کر مزید کنواری گانڈ کو گہرا کرنے کی کوشش کی اور اندر لوڑا کو رکھ کر ہی دباؤ ڈالا جس سے ایک بار پھر میری چیخیں نکلنا شروع ہوگئی تھیں بالاخر اسکا وقت پورا ہونے لگااس نے مجھ سے کہا میں تمہاری گانڈ میں ہی منی نکال رہا ہوں
نہیں تو تم ماں بن سکتی ہو میں نے کوئی جواب نہیں دیا اس نے پورا لوڑا گانڈ میں گھسیڑا اور لوڑا نے منی اگلنا شروع کردی تھی میری گانڈ فل بھر دی اس نےمیری زندگی اتنی حسیں ہوتی جا رہی تھی کہ کیا بتاؤں دن بدن خشیوں میں اضافہ ہوتا گیا وقت اپنی فطری منزل کی جانب رواں دواں تھا
ہماری پیار کا صرف نفاست علی کےصرف دو دوستوں قیصر اور سرادر کے علاوہ کسی کو پتا نہیں تھا وہ اپنے دوستوں سے میری بات کرواتا میں اس کی پیار میں دیوانی ہو گئی تھی وہ جتنے پیسے بھی مانگتا میں جہاں سے بھی لیتی مگر اس کو وقت پر دیتی وہ کبھی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی ناراض نا ہوتا نہ کبھی مجھے اس کو منانے کا بہانہ ملتا وہ اپنے وقت کا ہیرا تھا جس کا شوق صرف مجھے تھا مجھے اس کی ضرورت تھی
صرف میں ہی اسے پانا چاہتی تھی اسے کھونے سے پہلے میں اپنی جان دے دیتی ہم نادان لڑکیاں جب چاہتی ہیں تو اس طرح ہی چاہتی ہیں ایک دن اس کے دوست قیصر نے پتہ نہیں کس سے میرے ابا کا نمبر لیا تھا اور کال کر کے کہا کہ تمہاری بیٹی فلاں لڑکے سے پیار کرتی ہے اس کے بنا نہیں رہ سکتی وہ حالانکہ شادی شدہ ہے میرے ابا نے گھر آ کرفل مچا دی اور گھر والا سیل امی کو کہا کہ کومل کو نہیں دینا
لیکن مجھے تو نفاست علی نے سیل لے کر دیا ہوا تھا مگر شادی شدہ والی بات تو ایک دم میرے دل میں بیٹھ گئی کیا نفاست علی واقعی شادی شدہ تھا میں نے نفاست علی سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ قیصر ایسے ہی بکواس کرتا رہتا ہے تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا اس طرح اسکی میٹھی میٹھی باتوں کے بہکاوے میں آکر میں شادی شدہ والی بات بالکل بھول ہی گئی اب امی ابا مجھ سے ناراض رہنے لگے
مگر میں اس کی پیار میں اتنی جنونی ہو چکی تھی کہ اس بات پرتوجہ ہی نہ دیا میں بتانا بھول گئی کہ اس بات پر مجھے گھر والوں نے بہت مارا حتی کہ ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت بھی نہیں تھا کہ ان کو شک ہوتا میرے ابا ویسے ہی سخت مزاج تھے میرے ماموں کے بیٹے کی اب شادی تھی ہم سب گھر والے ادھر گئے ہوئے تھے تو نفاست علی نے بیت ضد کی کہ مجھے ملو
میں نے وہاں ایک پکی سہیلی بنائی ہوئی تھی میں اس کے گھر رات کو نفاست علی کو لے گئی تھی سہیلی کے گھر اس رات کوئی بھی نہیں تھا مجھے چدانی تھی اس رات نفاست علی سے میری دوسرے ملاقات تھی اس سے بہت دل کی باتیں ہوئیں دل کی ایک بار پھر سے پیار کے عہد و پیماں ہوئے باتوں ہی باتوں میں وہ میری تعریف کرنے لگا
اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا – سچ میں نرم تم بہت خوبصورت ہووہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا ادھرپھدی گیلی ہو رہی تھی کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری چنی ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی
اب میں مدہوش سی ہو رہی تھی مگر پھر بھی اپنے اوپر قابا رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ سمجھ چکا تھاپھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیا اور اس کا ہاتھ میرے بازو سے ہوتا ہوا میرے ریشمی بالوں میں گھس گیا میں چپ چاپ بیٹھی مست مست ہو رہی تھی اور میری سانسیں اور زیادہ گرم ہو رہی تھی
اس کا ایک ہاتھ میری گانڈ والی سائیڈ پر میرے بالوں میں چل رہا تھا اور وہ میری تعریف پہ تعریف کئے جا رہا تھا پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے میری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیا تھا میں جان گئی کیا کرنا چاہتا ہےمیں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا
اس نے اپنے رس بھرے لپس کو میرے لپس پر رکھ دیا اور میرے لپس کا رس چوسنا شروع کر دیامجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں اس کا ساتھ دینے لگی تھی پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور مجھے اپنی مردانہ گرمی والی گود میں بٹھا لیا اب میرے دونوں نپلز اس کی چھاتی سے دب رہے تھے
اور کواری بڑھنے لگی تھی اس کا ہاتھ اب کبھی میری چکنی گانڈ پر کبھی بالوں میں کبھی گالوں میں اور کبھی میرے بوبز پر چل رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ کس کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں میں گھما رہی تھی پندرہ سے بیس منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے چوستے چاٹتے رہے تھے
پھر اس نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم کی طرف چل پڑا اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیا اور پھر میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا تھا پھر وہ میرے اوپر لیٹ گیا اور پھر سے مجھے چومنے لگا اسی دوران اس نے میرے بالوں میں سے ہیئر رنگ نکال دیا جس سے بال میرے چہرے پر بکھر گئے
مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا اب تو میں بھی شہوت کی آگ میں ڈوبے جا رہی تھی پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور میری قمیض کو اوپر اٹھایا اور اتار دیا میری بریزر میں سے میرے سفید دودھ جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے وہ بریزر کے اوپر سے ہی میرے بوبز مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا
پھر اس کا ہاتھ میری تنگ پجامی تک پہنچ گیا جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیا
میری پجامی بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے میں اسے بہت مشکل ہوئی مگر پجامی اتارتے ہی وہ میرے گول گول خوار پھدی کے درازدیکھ کر خوش ہو گیا اب میں اس کے سامنے بریزر اور پینٹی میں تھی اس نے میری ٹانگوں کو چوما اور پھر میری گانڈ تک پہنچ گیامیں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ میرے خوارپھدی کے لپسوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا
اب تک میری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب اپنے پیار کے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورے مزے کیوں نہیں لیتی بھلا میں پیچھے مڑی اور چدائی کے لیئے فل گھوڑی بن کر اس کی پینٹ جہاں پر لوڑا تھا پر اپنا چہرہ اور گالے رگڑنے لگی میں نے اس کی شرٹ کھولنی شروع کر دی تھی جیسے جیسے میں اس کی شرٹ کھول رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی
میں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی دھیرے دھیرے میں نے اس کی شرٹ کھول کر اتار دی وہ میرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا میں بہت ہاٹ مست ہوتی جا رہی تھی
میرے ہاتھ اب اس کی پینٹ تک پہنچ گئے تھے میں نے اس کی پینٹ کھولی اور نیچے سرکا دی اس کا لوڑا انڈروئیر میں کسا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر پھاڑ کر باہر آ جائے گا اب اس طرح کا لن ہی مانگ رہی تھی
میں نے اس کی پینٹ اتار دی
میں نے اپنی ایک اوںگلی اوپر سے اس کے انڈرویئر میں گھسا دی اور نیچے کو کیااس سے اس کی بالوں والی جگہ جو اس نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی میں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھینچااس کا ساڑھے سات انچ کا لوڑا میری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیا اور سیدھا میرے منہ کے سامنے ہلنے لگا موٹا لن تھا
اور سرا بھی موتا تھا اتنا بڑا لوڑا اچانک میرے منہ کے سامنے ایسے آیا کہ میں ایک بار تو ڈر گئی اس کا بڑا سا اور لمبا سا لوڑا مجھے بہت پیارا لگ رہا تھا اور وہ میری پیاس بھی تو بجھانے والا تھامیرے لپس اس کی طرف بڑھنے لگے اور میں نے اس کے ٹوپے کو چوم لیا میرے ہونٹوں پر گرم گرم احساس ہوا جسے میں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی تبھی نفاست علی نے بھی میرے بالوں کو پکڑ لیا
اور میرا سر اپنے لوڑا کی طرف دبانے لگامیں نے منہ کھولا اور اس کا لوڑا میرے منہ میں سمانے لگا اس کا لوڑا میں مکمل اپنے منہ میں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو میں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنے لگی نفاست علی بھی میرے سر کو اپنے لوڑا پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے منہ میں اپنا لوڑا گھسےڑنے کی کوشش کر رہا تھا
تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے دھکوں نے زور پکڑ لیا اور اس کا لوڑا میرے گلے تک اترنے لگا میری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک میرے منہ میں جیسے سیلاب آ گیا ہو میرے منہ میں ایک مزیدار چیز گھل گیا تب مجھے سمجھ میں آیا کہ نفاست علی فارغ ہو گیا ہےتبھی اس کے دھکے بھی رک گئے اور لوڑا بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیااس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ میرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا
کچھ تو میرے گلے سے اندر چلا گیا تھا اور بہت سارا میرے چھاتی تک بہہ کر آ گیا میں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیا اس درمیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہےتھوڑی دیر کے باڑ وہ پھر اٹھا اور میرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر میرے اوپر جھک گیا پھر اسن مجھے اپنے اوپر کر لیا اور میری بریزر کی ہک کھول دی میرے دونوں بوبز آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے
اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں بوبز اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا
وہ میرےممے کو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا میری تو جان نکلی جا رہی تھی میرے مممو کا رسپان کرنے کے بعد وہ اٹھا اور میری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیا اس نے میری پینٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور دونوں ہاتھوں سے میری ٹانگیں پھیلا کر کھول دیوہ میری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان میری خوار پھدی پر رکھ دی میرے بدن میں جیسے بجلی دوڑنے لگی
میں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ میں دبا لیا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا اس کا لوڑا میرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا مجھے پتہ چل گیا کہ اسکا بڑالوڑا پھر سے تیار ہیں اور سخت ہو چکا ہے میں نے نفاست علی کی ببازو پکڑی اور اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا میری جان میرے اوپر آ جاؤ نفاست علی۔
(جاری ہے)
2 notes
·
View notes
🌹🌹𝗧𝗛𝗘 𝗗𝗘𝗠𝗔𝗡𝗗 𝗙𝗢𝗥 𝗝𝗨𝗦𝗧𝗜𝗖𝗘.
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
7️⃣5️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗧𝗛𝗘 𝗗𝗘𝗠𝗔𝗡𝗗 𝗙𝗢𝗥 𝗝𝗨𝗦𝗧𝗜𝗖𝗘:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝗼𝗻𝗰𝗲 𝘁𝗼𝗼𝗸 𝗮 𝗹𝗼𝗮𝗻 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗮 𝗺𝗮𝗻 𝗶𝗻 𝗠𝗮𝗱𝗶𝗻𝗮𝗵. 𝗧𝗵𝗲𝗻 𝗼𝗻𝗲 𝗱𝗮𝘆, 𝘁𝗵𝗶𝘀 𝗺𝗮𝗻 𝗰𝗮𝗺𝗲 𝗮𝗻𝗱 𝘂𝘀𝗲𝗱 𝗵𝗮𝗿𝘀𝗵 𝗹𝗮𝗻𝗴𝘂𝗮𝗴𝗲 𝘄𝗵𝗶𝗹𝗲 𝗱𝗲𝗺𝗮𝗻𝗱𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝘁𝗼 𝗽𝗮𝘆 𝗼𝗳𝗳 𝗵𝗶𝘀 𝗱𝗲𝗯𝘁. 𝗧𝗵𝗲 𝗰𝗼𝗺𝗽𝗮𝗻𝗶𝗼𝗻𝘀 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝘄𝗮𝗻𝘁𝗲𝗱 𝘁𝗼 𝗽𝘂𝗻𝗶𝘀𝗵 𝗵𝗶𝗺 𝗳𝗼𝗿 𝗵𝗶𝘀 𝗶𝗻𝘀𝗼𝗹𝗲𝗻𝗰𝗲. 𝗕𝘂𝘁 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁ﷺ 𝘀𝘁𝗼𝗽𝗽𝗲𝗱 𝘁𝗵𝗲𝗺. 𝗛𝗲ﷺ 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗶𝗴𝗵𝘁𝗳𝘂𝗹 𝗼𝘄𝗻𝗲𝗿 𝗵𝗮𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗶𝗴𝗵𝘁 𝘁𝗼 𝘀𝗽𝗲𝗮𝗸..
(Sahih al-Bukhari, Hadith No. 2306)
●𝗧𝗵𝗶𝘀 𝗶𝘀 𝗮 𝗹𝗲𝘀𝘀𝗼𝗻 𝗶𝗻 𝗱𝗲𝗮𝗹𝗶𝗻𝗴 𝗴𝗲𝗻𝘁𝗹𝘆 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿𝘀.
● 𝗜𝗳 𝗳𝗼𝗿 𝘀𝗼𝗺𝗲 𝗿𝗲𝗮𝘀𝗼𝗻, 𝘁𝗵𝗲 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻 𝗯𝗲𝗰𝗼𝗺𝗲𝘀 𝗮𝗻𝗴𝗿𝘆 𝗼𝗿 𝘀𝗽𝗲𝗮𝗸𝘀 𝗵𝗮𝗿𝘀𝗵𝗹𝘆, 𝘁𝗵𝗲 𝗹𝗶𝘀𝘁𝗲𝗻𝗲𝗿𝘀 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗱𝗲𝗮𝗹 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗵𝗶𝗺 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝘁𝗹𝘆.
●𝗜𝗳 𝗮 𝗺𝗮𝗻 𝗰𝗮𝗻𝗻𝗼𝘁 𝘁𝗼𝗹𝗲𝗿𝗮𝘁𝗲 𝗵𝗮𝗿𝘀𝗵 𝘄𝗼𝗿𝗱𝘀, 𝗵𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗻𝗼𝘁 𝗲𝘃𝗲𝗻 𝗯𝗼𝗿𝗿𝗼𝘄 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿𝘀.
● 𝗔𝗳𝘁𝗲𝗿 𝘁𝗮𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗮 𝗹𝗼𝗮𝗻, 𝗵𝗼𝘄𝗲𝘃𝗲𝗿, 𝗵𝗲 𝗺𝘂𝘀𝘁 𝗴𝗶𝘃𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝗹𝗲𝗻𝗱𝗲𝗿 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗶𝗴𝗵𝘁 𝘁𝗼
𝗲𝘅𝗽𝗿𝗲𝘀𝘀 𝗵𝗶𝘀 𝗳𝗲𝗲𝗹𝗶𝗻𝗴𝘀 𝗮𝘀 𝗵𝗲 𝘄𝗶𝘀𝗵𝗲𝘀.
● 𝗜𝗻 𝘁𝗵𝗶𝘀 𝗰𝗮𝘀𝗲, 𝘁𝗵𝗲 𝗯𝗼𝗿𝗿𝗼𝘄𝗲𝗿 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗲𝘅𝗲𝗿𝗰𝗶𝘀𝗲 𝗿𝗲𝘀𝘁𝗿𝗮𝗶𝗻𝘁.
● 𝗛𝗲 𝗰𝗮𝗻𝗻𝗼𝘁, 𝗼𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗰𝗼𝗻𝘁𝗿𝗮𝗿𝘆, 𝗮𝗱𝘃𝗶𝘀𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝗹𝗲𝗻𝗱𝗲𝗿 𝘁𝗼 𝗯𝗲 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝘁.
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 انصاف کا مطالبہ:
پیغمبر اسلامﷺ نے ایک مرتبہ مدینہ میں ایک شخص سے قرض لیا۔ پھر ایک دن وہ شخص آیا اور پیغمبر اسلامﷺ سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کیے۔ پیغمبر اسلامﷺ کے اصحاب اس کو گستاخی کی سزا دینا چاہتے تھے۔ لیکن نبیﷺ نے انہیں روک دیا۔ نبیﷺ نے کہا کہ حق دار کو بات کرنے کا حق ہے۔
(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2306)
● یہ دوسروں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا سبق ہے۔
● اگر کسی وجہ سے دوسرا شخص غصے میں آجائے یا سخت بات کرے تو سننے والوں کو اس کے ساتھ تحمل سے پیش آنا چاہیے۔
● اگر کوئی ادمی سخت الفاظ برداشت نہیں کر سکتا تو اسے دوسروں سے قرض بھی نہیں لینا چاہیے۔
● اگر کوئی ادمی سخت الفاظ برداشت نہیں کر سکتا تو اسے دوسروں سے قرض بھی نہیں لینا چاہیے۔
● تاہم، قرض لینے کے بعد، اسے قرض دہندہ کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا حق دینا چاہیے۔
● اس صورت میں، قرض لینے والے کو تحمل سے کام لینا چاہیے۔
● اس کے برعکس، وہ قرض دینے والے کو صبر کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتا۔
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 قرآن مجید کی روشنی میں لین دین کے عمومی اصول:
زیرِ نظر تحریر کا موضوع انسان کےمعاشرتی معاملات ’’لین دین‘‘ سے ہے-یعنی انسان اپنے معاشرتی معاملات میں ایک دوسرے سے لین دین کس طریق سے بخوبی نبھا سکتا ہے-
● کیونکہ معاملات کی پابندی انسان کوایک اچھا شہری، ایک اچھا فرد بننے میں مدد فراہم کرتی ہے-
● قرآن مجید و سنت مبارکہ کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ عبادات کو تفصیل میں جبکہ معاشرتی معاملات یعنی لین دین کو عام اصطلاحات ومسلمہ اصولوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے-
● بالفاظ دیگر معاملات کے لئے مسلمہ اصول واضح کئے گئے ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات و واقعات کےمطابق قانون سازی کی جاسکتی ہے-
● شریعت نے معاملات کو اصولوں کی روشنی میں اس لئے بیان کیا تاکہ مختلف لوگ، مختلف جگہوں سے اور مختلف وقت میں اس سے راہنمائی حاصل کر سکیں-جس کی وجہ شریعت محمدی (ﷺ)کی جامعیت اور عالمگیریت ہے-
● قرآن پاک میں لین دین کے معاملات کوطے کرنے کے لئے کچھ اسلامی اصول بیان کیے گئے ہیں جن میں سے کچھ کاذکردرج ذیل میں کیا جارہاہے:
▪️باہمی رضامندی : لین دین میں باہمی رضا مندی پہلا اصول ہے جس کا مطلب اسلامی قوانین میں دونوں فریقن کا آزادانہ طور پربغیر کسی خوف و ڈر کے رضا مند ہونا ہے- کسی لین دین کے معاہدے کی توثیق کے لئے ضروری ہےکہ دونوں فریقین باہمی طور پر رضا مند ہوں-
● ایسا معاہدہ جس میں جبر، دھوکہ، غلط بیانی اور دوسرے غیر قانونی عناصر شامل ہوں؛ ایسے معاہدے کو شریعت باطل قرار دیتی ہے-
● اس کو باطل کرنے کی علت پارٹیز کی باہمی رضا مندی اور معاہدے میں شامل ہونے کا ارادہ نہ ہونا ہے کیونکہ جبر، دھوکہ، غلط بیانی جیسے عوامل سے باہمی رضا مندی اور ارادہ باقی نہیں رہتے-
● باہمی رضا مندی کو قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں بڑی اہمیت دی گئی ہے-
🔹 جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے‘‘-
(النساء:29)
🔹 اسی طرح حضورنبی کریم (ﷺ)نےفرمایا : ’’فروخت کا معاہدہ صرف باہمی رضامندی سےدرست ہے‘‘-(سنن ابن ماجہ)
▪️ قمار اورمیسرکی ممانعت: قمار اور میسر سے بچاؤ بھی اسلامی اصولوں میں ایک بہت اہمیت کا حامل اصول ہے-
●اسلام نے جوا کی تمام صورتوں کوسختی سے منع کیا ہے اسلام میں میسر اور قمار جوا کی ایسی اقسام ہیں جو مکمل طور پر ممنوع ہیں-
● میسر سے مراد بغیر کوئی مشقت اور ذرائع آمدن استعمال کیے- یعنی دوسروں کوحق سے محروم کرتے ہوئے دولت کو اکٹھا کرنا- مطلب بہت آسانی سےمنافع حاصل کرنا- مثال کے طور پر لاٹری کا پیسہ، پانسے سے کھیلنا اور بازی یا شرط لگانا میسر کی تعریف پر پورا اترتا ہے-
● قمار وہ آمدنی، منافع یا حصول منافع پر مشتمل ہے جس کا مکمل انحصار قسمت اورموقع پر ہو-
● قرآن مجید نے ان سے بچنے کی تنبیہ فرمائی ہے-
🔹 جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! بے شک شراب اور جوأ اور (عبادت کے لیے) نصب کیے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لیے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں-سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ‘‘-(المائدہ:90)
▪️ربا کا خاتمہ: عصر حاضرمیں اسلامی قانون کا تصورِربا بالعموم اور اسلامی بینکنگ کے آغاز سے بالخصوص ایک بہت اہم مسئلہ ہے-
● ربا کے لغوی معنی زیادتی، بڑھوتی اور بلندی کے ہیں-
●اسکالر نبیل صالح کے مطابق اصل رقم میں ایک ہی جنس کی دو چیزوں کے درمیان ایک غیر قانونی اضافہ ربا کہلاتا ہے-
● ربا کی ممانعت قرآن و احادیث میں بہت سے جگہوں پرفرمائی گئی ہے:
🔹 ’’اور اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے‘‘-(البقرۃ:275)
🔹 مزید فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو-پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘- (البقرۃ:278-279)
▪️دھوکہ اور فریب کی ممانعت:
خیلابہ اور غش بھی اسلامی اصولوں میں فریب اور دھوکہ دہی کے معنوں میں آتے ہیں -
● قرآن اور سنت نے دھوکہ دہی اور جھوٹ سےمنع کیا ہے-
● خلابہ، غش اور تطفیف کے الفاظ قرآن مجید میں دھوکہ دہی کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں-
● اس کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ فروخت کی جانے والی چیز کی خرابی کو چھپانا-دھوکہ کے کاموں میں نام تول کی کمی کو (تطفیف)، ایک چیز کی قیمت بڑھانے کیلئے غلط بولی لگانا (نجش)، ایک دودھ دینے والے جانور کی پیداوار کو خریدار کے سامنے غلط بیان کرنا (تسریعہ) کہا گیا ہے-
🔹 قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے-یہ لوگ جب (دوسرے) لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو (ان سے) پورا لیتے ہیں اور جب انہیں (خود)ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں-کیا یہ لوگ اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ وہ (مرنے کے بعد دوبارہ) اٹھائے جائیں گے-ایک بڑے سخت دن کے لیے‘‘- (المطففین:1-5)
● ان آیات مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ ناپ تول کر نے والےپر کتنی بڑی وعید ہے -
🔹 حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشادفرمایا : ’’اگر دونوں نے سچ بولا اور چیز کی خرابی کو پہلے بیان کیا پھر وہ اپنے لین دین میں برکت پائیں گے اور اگر انہوں نے جھوٹ بولا اور کچھ چھپایا تو وہ لین دین کی برکت کو کھو دیں گے‘‘- (صحیح بخاری)
🔹 آپ (ﷺ)نے مزید ارشاد فرمایا : ’’ایماندار اور سچا دکاندار قیامت کے دن اللہ کے نبی، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوگا‘‘- (سنن ابن ماجہ)
▪️متنازع معاہدوں کی ممانعت: متنازع معاہدوں سے متعلق قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو ‘‘- (البقرۃ:278)
● قرآن پاک کی طرح حدیث مبارکہ میں بھی متنازع معاہدوں کو بھی بہت سختی سے منع کیا گیا ہے-
🔹 جیسا کہ حدیث نبوی (ﷺ) ہے: ’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ایک فروخت میں دو فروختوں سے منع فرمایا ‘‘- (ایضاً)
● اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل چند استدلال کئے جا سکتےہیں: مثلاً:
● ایک شخص دوسرے شخص کو کہتا ہے کہ ’’اگر میں تمہیں فلاں قیمت پر یہ چیز فروخت کر دوں تو اس کے بدلے اُس قیمت پر تم اپنا گھر مجھے بیچ دو گے‘‘-
● معاہدہ تب دوسرے معاہدہ پر متنازع بنتا ہے جب دونوں باہمی طور پر متضاد معاہدے ہوں- مثلاً زید اپنے دوست بکر کو کہتا ہے کہ میں تمہیں تب اپنا گھر بیچوں گا جب تیسرا دوست قمر مجھے اپنا گھر بیچے گا-یعنی ایک معاہدہ دوسرے پر منحصرہو-
● زید اپنے دوست بکر کو کہتا ہے کہ میں یہ چیز تمہیں ایک سو روپے نقد اوراگر ادھار چاہیے تو ایک سو پچاس کی بیچوں گا - اس طرح ایک چیز کی فروخت میں دو مختلف چیزوں کا آجانا بالکل غلط ہے-
▪️معاہدہ کی مقاصد الشریعہ سے مطابقت و موافقت:
● مقاصد الشریعہ بھی اسلامی اصولوں میں بہت اہمیت کے حامل ہیں-
● یعنی شریعہ کے کیا مقاصد ہیں؟ جن کی پیروی کرنا ہم پر فرض ہے-
● فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ شریعہ کا مقصد انسانی پانچ چیزوں کی حفاظت ہے: ’’دین، نفس، نسل،عقل اور مال کی حفاظت‘‘-
● کوئی بھی معاہدہ مندرجہ بالا مقاصد کےخلاف ہو تو وہ شریعت کی روشنی میں مسترد قرار دیا جاتاہے-
● مقاصد الشریعہ کو اسلامی قانون میں حقوق اللہ کی طرح دیکھا جاتا ہے-
● مقاصد الشریعہ پر قرآن پاک اور احادیث میں بہت زور دیا گیا ہے-
🔹 جیساکہ اللہ رب العزت کافرمانِ ذیشان ہے: ’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا اور بے شک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقینا زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں‘‘- (المائدہ:32)
🔹 مزید انسانی جان کی عظمت کویوں فرمایاگیاہے: ’’اور تمہارے لیے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خونریزی اور بربادی سے) بچو‘‘- (البقرۃ:179)
🔹 مقاصدِ شریعہ کی مزید وضاحت یوں کی گئی ہے: ’’اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ‘‘- (النساء:29)
▪️نقصان کی ذمہ داری اور منافع کی تو ثیق: اسلام میں تجارت اور لین دین کی مکمل اجازت ہے، زندگی کے ہر پہلو کے متعلق آگاہی، بہترین تجارت اور لین دین کا طریقہ ہے-
● اسلام نے ہر فرد کو واضح احکام میں بتایا کہ منافع کیسے حاصل کیا جائے-
🔹 جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک ضرور تمہاری آزمائش ہوگی تمہارے مال اور تمہاری جانوں میں ‘‘- (آلِ عمران:186)
● ہر ٹرانزکشن میں یہ اصول واضح ہو ناچاہیے کہ ایک شخص اس صورت میں فائدہ اٹھانے کا حق رکھتاہے جس میں اس کو نقصان کا بھی خطرہ ہوتا ہے-
● یہ اصول خرید و فروخت کے لین دین اور شراکت داری میں استعمال ہو رہا ہے-
● ایک کاروباری آدمی نفع تب ہی کماتا ہے جب وہ نقصان برداشت کرنے کے لیے تیار ہو-
● بالکل اسی طرح ایک مکان مالک اس گھر کا کرایہ لینے کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ اس نے اس مکان سےمتعلق نقصانات کو برداشت کرنا ہوتا ہے-
● مذکورہ خطرہ اس کو اس کرایے کاصحیح حقدار بناتا ہے جو وہ وصول کرتا ہے-
● شراکت داری میں بھی تمام جمع کیا گیا منافع اصول ذمہ داری کے ساتھ منسوب کیا جاتاہے-
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes