Tumgik
#عطا محمد تبسم
azharniaz · 7 months
Text
لوٹ مچ گئی ہے کیا؟عطا محمد تبسم
آپ نے اس اندھے کا لطیفہ تو سنا ہوگا، جو ایک دعوت میں شریک ہوا۔اس نے اپنے ہمراہی سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب دستر خوان لگ جائے تو مجھے، ایک کہنی مار کر اشارہ کردینا، جب کھانا شروع ہو تو مجھے ایک اور کہنی کا ٹہوکہ دینا تو میں سمجھ جاؤں اور کھانا شروع کردوں گا۔ اب محفل میں دستر خوان لگ گیا۔ اور اس کے ساتھی نے ، اسے کہنی کا ٹہوکہ دے کر اشارہ بھی دے دیا۔ اس اثنا میں کھانا لگ گیا۔ لیکن ابھی کھانا شروع…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
minhajbooks · 1 year
Text
Tumblr media
🔰 سیدنا صدیق اَکبر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یارغار، کشتہ عشق مصطفیٰ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب کے حوالے سے سلسلہ ”الاربعینات“ میں ایک انتہائی گرانقدر اضافہ۔ اس کتاب میں فروغ اسلام اور سربلندیء دین کیلئے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بے مثال قربانیوں کا ذکر۔ نیز اہل بیت کے ساتھ آپ کی محبت ومؤدت کا تذکرہ مستند احادیث مبارکہ کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
🔹 بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے 🔹 صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا نام و نسب 🔹 جسے آگ سے محفوظ شخص دیکھنا ہو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے 🔹 آپ رضی اللہ عنہ کا لقب صدّیق آسمان سے نازل فرمایاگیا 🔹 میں تو معراج سے بھی عجیب تر خبروں میں حضور ﷺ کی تصدیق کرتا ہوں 🔹 قول صحابہ رضی اللہ عنھم : آپ رضی اللہ عنہ امت میں سب سے افضل ہیں 🔹 اگرکوئی خلیل مصطفیٰ ﷺ ہوتا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوتے 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ صاحب مصطفیٰ ﷺ 🔹 صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ رفیقِ مصطفیٰ ﷺ 🔹 صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ نائبِ مصطفیٰ ﷺ 🔹 صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ وزیرِ مصطفیٰ ﷺ 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ سمع و بصرِ مصطفیٰ ﷺ 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ حبیب مصطفیٰ ﷺ 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ شناسائے مزاجِ مصطفیٰ ﷺ 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ فنائے ادبِ مصطفیٰ ﷺ 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ کشتۂ عشقِ مصطفیٰ ﷺ 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ ثانی اثنین 🔹 ابوبکر رضی اللہ عنہ ناراض تو مصطفیٰ ﷺ ناراض 🔹 حضور ﷺ آپ رضی اللہ عنہ کو پیار سے دیکھتے اور تبسم فرماتے 🔹 صدّیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضورِ ﷺ پر اپنا سب کچھ لٹا دیا 🔹 میرے لیے اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہے 🔹 کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے 🔹 ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مجھ پر کسی نے احسان نہیں کیا 🔹 ہمارے اوپرکسی کا کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ نہ چکا دیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے 🔹 اللہ تعالیٰ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر سلام بھیجا اور پوچھا : کیا تم مجھ سے راضی ہو؟ 🔹 مسجد نبوی کے صحن میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ حسن خلق کا پیکر اتم 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ جملہ حسنات کے جامع 🔹 صحابہ کرام آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسول کہہ کر پکارتے 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ پہلے جامع القرآن 🔹 روز قیامت اٹھتے وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ حضور ﷺ کے ہاتھ میں ہو گا 🔹 حضور ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت عطا فرما دی 🔹 امت محمدی علی صاحبہاالصلٰوۃ والسلام میں سب سے پہلے جنت میں جانے والے 🔹 آپ رضی اللہ عنہ عمر رسیدہ جنتیوں کے سردار ہیں 🔹 آپ رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ آسمانِ جنت کا درخشاں ستارا ہیں 🔹 آخرت میں اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کو اپنا دیدار خاص عطا فرمائے گا 🔹 وصالِ محبوب ﷺ پر صبر و استقامت 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ حضور ﷺ کے غار و مزار کے ساتھی ہیں 🔹 صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی محبت و اطاعت اور شکر اُمت پر واجب ہے 🔹 آپ رضی اللہ عنہ کی محبت و مودتِ اہل بیت رضی اللہ عنہم 🔹 فضائلِ ابی بکر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ بروایاتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 216 قیمت : 370 روپے
پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/english/book/30/Merits-and-Virtues-of-Sayyiduna-Abu-Bakr-R-A/
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
pakistantime · 3 years
Text
آج کے افغانستان کو کیسے جانیں؟
اس وقت ہم دو دنیاؤں کے یرغمالی ہیں۔ ایک دنیا فتح مبین والی اور دوسری اس کے بالکل برعکس، یہ سمجھنے والی کہ مرغابیوں کی پر سکون دنیا میں کچھ خون آشام درندے گھس آئے ہیں، لہٰذا اب کسی خیر کی توقع نہیں۔ ان دو انتہاؤں کے بیچ اوّل تو کوئی بات کرتا نہیں، کوئی ایسی ہمت کرے بھی تو کوئی سننے کو تیار نہیں۔ بہتر ہو گا اس کیفیت کو چند مثالوں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ عطا محمد تبسم کئی اعتبار سے ایک مثالی شخصیت ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے قرب و جوار میں تبدیلیاں رونما ہوئیں تو ان کا جو تبصرہ سامنے آیا، اس کی مدد سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ ہمارا ایک بہت بڑا طبقۂ خیال موجودہ منظر نامے کو کس انداز میں دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے لکھا، ’یہ قوم بت شکن ہے، مجسمہ پوجنے والے جان لیں تو یہ اچھا ہے‘۔ اس بلیغ جملے میں بامیان کے تکلیف دہ واقعات کی طرف تو اشارہ ہے ہی، طالبان نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں جو طرز عمل اختیار کیا، اس کی تائید اور اس کے احیا کی غیر معمولی آرزو بھی اس میں جھلکتی ہے۔
یہ ایک انتہا تھی، دوسری انتہا ایک بین الاقوامی خبری ادارے کی اس رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا کہ طالبان کے کابل کا انتظام سنبھالنے کے بعد برطانوی سفارت خانے اور بعض افغان خاندانوں نے ایک برطانوی لیبر کونسلر پیمانہ اسد کو کس طرح خوفزدہ کر کے افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اس قسم کے تبصروں اور واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آج کے افغانستان کو اپنے نظریات، خواہشات اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں تو خوب دیکھا جا رہا ہے لیکن اس ملک میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، اسے معروضی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ کوئی زمانہ تھا جب طالبان جن کے لٹھ بردار دستے شہر میں نکلتے اور بدقسمتی سے کوئی خاتون ان کی نگاہ میں آجاتی تو وہ اس کے ٹخنوں پر ڈنڈے مار مار اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتے۔ وہ عہد صرف خواتین کے لیے ہی ایک تکلیف دہ یاد کی حیثیت نہیں رکھتا تھا بلکہ سیاسی مخالفین کے لیے بھی ان کے ہاں کوئی گنجائش نہ تھی لیکن اگر صرف ان ہی دو حوالوں سے دیکھا جائے تو ایک بالکل مختلف منظر دکھائی دیتا ہے۔
افغان ٹیلی ویژن پر طالبان کے ترجمان ایک خاتون صحافی کے روبرو نہ صرف بیٹھے بلکہ اسے انٹرویو بھی دیا۔ صرف اسی ایک واقعہ کو دیکھا جائے تو اس میں ان گنت پیغامات پوشیدہ ہیں۔ یعنی تصویر کو گناہ سمجھنے والوں نے صرف تصویر کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ متحرک تصویر سے بھی استفادہ کیا اور اس سے بڑھ کر ایک ایسی مخلوق کے برابر بیٹھ کر اس کے سوالوں کے جواب دیے، ماضی میں جسے وہ کبھی اپنے برابر کا نہ سمجھتے تھے۔ ٹیلی ویژن اسٹوڈیو میں دکھائی دینے والے اس واقعے سے بڑھ کر بھی ایک واقعہ ہے۔ اس واقعے میں دوپٹہ اوڑھے ایک خاتون رپورٹر کابل کی سڑکوں پر رپورٹنگ کرتی دیکھی گئی۔ طالبان نے کابل کا انتظام سنبھالتے ہی جب شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کا کردار تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی حجاب کے الفاظ بھی سنے گئے۔ موجودہ زمانے میں جب حجاب کا ذکر ہوتا ہے تو اس کا ایرانی تصور ہی ذہن میں آتا ہے جس میں خواتین ایک خاص انداز میں منھ سر لپیٹ لیتی ہیں۔
اس کے برعکس حجاب کا ایک پاکستانی اندازہے جس میں خواتین ایک سادہ دوپٹے سے سر کو ڈھانپتی ہیں۔ یہ انداز حجاب زیادہ معتدل اور فطرت کے قریب ہے۔ آج کے کابل میں ذرائع ابلاغ کے توسط سے جو خواتین سامنے آئی ہیں، اسی ’پاکستانی‘ حجاب میں دیکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بچیوں کے اسکول کھلنے کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں جو ایک مختلف افغانستان کی خبر دیتی ہیں۔ افغانستان کے حالات میں جس تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ایسی کیفیت میں کوئی حتمی رائے دینا تو جلد بازی ہو گی لیکن اس صورت حال کو دستیاب حالات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہے۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں صرف کابل ائیرپورٹ کی مثال ہی پیش نظر رکھ لی جائے تو بہت کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ کیا پورے افغانستان پر چشم زدن میں قابض ہو جانے والے اتنی اہلیت نہیں رکھتے کہ وہ کابل ائیرپورٹ بھی سنبھال لیں۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا تو اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ 
اسی طرح انھوں نے اپنی سیاسی کونسل میں شیعہ اور اسماعیلی عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو شامل نہیں کیا بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی جگہ بنائی ہے۔ یہ بدلے ہوئے افغانستان کے چند مناظر ہیں۔ حال ہی میں کابل اور اسد آباد میں افغانستان کا روایتی تین رنگوں کا پرچم لے کر نکلنے والوں پر تشدد کی خبریں آئی ہیں۔ ان خبروں سے مایوسی ہوئی، لگا کہ یہ تو پھر وہی پرانا ظالمانہ طرز عمل ہے۔ یہ تاثر درست ہے لیکن اگر طالبان تبدیل بھی ہوئے ہیں تو اس قدر ہیجان خیز افغانستان سے ایسے حادثات کی خبریں کچھ عرصے تک آتی رہیں گی، بدلے ہوئے افغانستان میں جیسے پرانے پرچم کے تعلق سے حادثات کی خبریں سامنے آئی ہیں، بالکل اسی طرح آنے والے دنوں میں ہمارے ان دوستوں کو بھی کچھ مایوسی ہو سکتی ہے جو آج کے طالبان میں ماضی کے بت شکن دیکھ رہے ہیں یا کچھ ایسے مجاہدین جو نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کرتے ہوئے دکھائی دیں۔
مجھے ڈر ہے کہ اس طرح سوچنے والے دوستوں کو بھی مایوسی ہو گی۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ مستقبل کے افغانستان میں ہمیں کچھ ایسے قوم پرست دکھائی دیں گے، بعض عالمی قوتوں کے ساتھ جن کے گہرے مراسم ہوں گے اور وہ خطے میں کچھ ایسی تبدیلیوں کے محرک ہوں گے جن تبدیلیوں کے بارے میں ہم لوگ ابھی تک شاید غور نہیں کر سکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پڑوس کے واقعات کو اپنی اپنی عینک سے دیکھنے کے بجائے زمینی حقائق کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
فاروق عادل 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduclassic · 8 years
Text
عظیم شاعر، معلم، ادیب، نقاد، مترجم، مدیر، براڈ کاسٹر صوفی تبسمؔ
صوفی تبسم 4اگست 1899ء کو امرتسر (بھارت) میں پیدا ہوئے جہاں اُن کے بزرگ کشمیر سے آکر آباد ہوئے تھے۔ والد کا نام صوفی غلام رسول اور والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ تھا۔ صوفی تبسم کا نام غلام مصطفی رکھا گیا۔ یہ ابھی معصوم بچے ہی تھے کہ اُن کی والدہ ماجدہ ایک دن اُنہیں دیوان خانے سے باہر صحن میں لیے بیٹھی تھیں کہ ایک فقیر کا اُدھر سے گزر ہوا ۔اُس نے بچے پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور کہا اے بی بی یہ بچہ بڑی قسمت لے کر پیدا ہوا ہے۔ 
بڑا ہوکر شہرت اور ناموری حاصل کرے گا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ آج کا یہ معصوم سا بچہ غلام مصطفی کل کا مشہورِ زمانہ صوفی تبسم ہے جو بیسویں صدی کا مشہور و معروف شاعر، ممتاز ادیب، نقاد، محقق، معلم ، مترجم اور مدیر بن کر دنیائے ادب پر چھا جائے گا۔ صوفی تبسم کے والد کا پیشہ کاروبار تھا لیکن صوفی تبسم نے درس و تدریس کے شعبے کو اپنایا۔ صوفی تبسم نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن سکول امرتسر سے حاصل کی۔ 
ایف اے خالصہ کالج امرتسر سے کیا اور پھر ایف سی کالج لاہو رسے بی اے کیا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے فارسی کی سند حاصل کی اور سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا امتحان پاس کیا۔ یوں ایم اے بی ٹی کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا مگر کچھ ہی عرصہ معلمی کرکے انسپکٹر آف سکولز ہوگئے۔ بعد ازاں سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں السنۂ شرقیہ کے پروفیسر ہوئے اور تین چار سال بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ یہاں صدر شعبۂ فارسی اور صدر شعبۂ اُردو رہے اور مدتِ ملازمت پوری کرکے یہیں سے ریٹائر ہوئے۔
صوفی تبسم نے جو عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور میں گزارا وہ 23برسوں پر محیط ہے۔ 1931ء سے 1954ء تک وہ اس کالج میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اُنہوں نے کالج کے لیے بے انتہا خدمات انجام دیں۔ ایک ڈرامیٹک سوسائٹی بنائی جس کے تحت شیکسپیئر کے کئی ڈرامے ترجمہ کیے اور پھر سٹیج بھی کروائے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے   کا پنجابی ترجمہ ساون رین دا سفنہ اور     کا اُردو ترجمہ ’’خطرناک لوگ‘‘ کے نام سے صفدر میر اور رفیع پیر کی   میں سٹیج ہوئے۔ یہ ڈرامے اس قدر مقبول ہوئے کہ ان کو ہر سال   میں اسٹیج کیا جاتا رہا۔ 
ایک خصوصیت ان ڈراموں کی یہ بھی تھی کہ اس میں صوفی تبسم نے بطور ایکٹر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ ’’دلی کی آخری شمع‘‘ کے عنوان سے مشہور تمثیل میں برصغیر کے نامور شعراء کے نام اور کلام کو نئی نسل سے روشناس کرایا گیا۔ اس میں نامور شعراء کو پوٹرے کیا گیا تھا۔ یہ ایک بڑا کامیاب کارنامہ تھا جس کی یادگار تصاویر آج بھی گورنمنٹ کالج کے ہال میں زندہ و تابندہ جگمگا رہی ہیں۔
بلاشبہ گورنمنٹ کالج کا یہ علمی و ادبی زمانہ عروج کا زمانہ تھا۔ یہ دور ڈی جی سوندھی کا تھا جو پطرس بخاری سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل رہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل گورنمنٹ کالج لاہور سے صوفی تبسم نے تعلیم بالغاں کے لیے ایک جریدہ ’’دوست‘‘ کے نام سے نکالا جو اُنہی کی ادارت میں خاصا کامیاب رہا۔ گورنمنٹ کالج میں ادیب فاضل کی شام کی کلاسیں بھی صوفی صاحب نے ہی شروع کروائیں۔ اپنے طویل دور معلمی میں صوفی صاحب اپنے شاگرد وں میں بے حد مقبول رہے۔ اُن کے شاگردوں میں ایسے ایسے بہت سے نام ہیں جنہوں نے اپنے استاد کی طرح بے پناہ شہرت حاصل کی۔
 قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، تجمل حسین، اشفاق احمد، بانوقدسیہ، کشور ناہید، فیض احمد فیض، اعجاز حسین بٹالوی، جسٹس نسیم حسن شاہ، شہزاد احمد، حنیف رامے اور ان کے علاوہ کئی نامور شاگرد برصغیر کے گوشے گوشے میں موجود ہیں۔ صوفی صاحب نے جس شہر میں آنکھ کھولی وہ امرتسر تھا جس کا پانی میٹھا تھا اُس کی شیرینی صوفی صاحب کی باتوں میں موجود تھی۔ یہ شہر ایسا شہر تھا جہاں کاروبار کے علاوہ بڑے بڑے شہرت یافتہ شاعر، ادیب، علماء فضلاء اور مشائخ بستے تھے۔ جن میں صوفی صاحب کے برگزیدہ اُستاد قاضی حفیظ اللہ، مولوی احمد دین امرتسری، علامہ محمد حسین عرشی امرتسری، حکیم مفتی غلام رسول اور صوفی تبسم کے خاص اُستادِ گرامی حکیم فیروزالدین طغرائی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
صوفی تبسم کا تخلص ابتدا میں کچھ عرصہ اصغر صہبائی بھی رہا مگر اُن کے اُستاد حکیم فیروزالدین طغرائی نے یہ تخلص اس لیے بدلا کہ صوفی صاحب سراپا متبسم رہتے تھے لہٰذا اُنہوں نے ان کا تخلص تبسم تجویز کیا۔ صوفی صاحب نے طالب علمی کا ابتدائی زمانہ امرتسر میں گزارا اور دادا کی تربیت میں رہے۔ صوفی صاحب کے داد اکا بہت بڑا کتب خانہ تھا۔ جس میں فارسی اور اُردو کی نادر کتابیں موجود تھیں۔ صوفی صاحب اس نادر علمی سرمائے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ ان میں فارسی شعراء کے دیوان بھی تھے۔
 صوفی صاحب کو بچپن ہی سے فارسی شاعری کا ذوق و شوق تھا، یہی وجہ ہے کہ صوفی صاحب نے جب شعر کہنا شروع کیے تو وہ اشعار فارسی زبان ہی میں تھے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو، شیخ حسام الدین سید عطا اللہ شاہ بخاری صوفی صاحب کے محلے میں ہی رہتے تھے اور صوفی صاحب کے ساتھ اُن کے خاص مراسم تھے۔ صوفی صاحب جب لاہور منتقل ہوئے تو یہ لوگ صوفی صاحب کے ہاں ہی قیام کرتے۔ شیخ حسام الدین احرار کے عظیم لیڈر شمار ہوتے تھے۔ اُن کے صوفی صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ نجی تعلقات تھے۔
لاہور میں صوفی صاحب ’’بھائیوں کے میدان‘‘ (علاقہ کا نام) میں ایک سال رہے پھر ذیلدار روڈ پر قیام پذیر رہے جہاں نیازمندانِ لاہور کی مجالس اپنے عروج پر تھیں پھر کچھ عرصہ اندرون بھاٹی گیٹ قیام پذیر رہے۔ صوفی صاحب کواڈرینگل ہوسٹل (اقبال ہوسٹل) میں بھی رہے۔ ایک سال یہاں قیام پذیر ہونے کے بعد نیوہوسٹل گورنمنٹ کالج میں منتقل ہوگئے جہاں اُنہوں نے ریٹائرمنٹ تک کا عرصہ گزارا۔ نیوہوسٹل میں پطرس بخاری بھی آتے جو اُس وقت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور صوفی صاحب کے دوست بھی تھے۔
 یہاں دیگر احباب کو اکٹھا کرتے اور رات گئے تک علمی و ادبی محفلیں گرم رہتیں۔ یہ علمی و ادبی حلقہ نیازمندانِ لاہور کے نام سے مشہور ہے جن میں پطرس بخاری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، عبدالمجیدسالک، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، پنڈت ہری چند اختر، کرنل مجید ملک، امتیاز علی تاج اور عبدالرحمن چغتائی شامل تھے۔ صوفی صاحب 1957ء میں گورنمنٹ کالج سے ریٹائر ہونے کے بعد نیوہوسٹل سے سنت نگر حویلی میں منتقل ہوگئے اور وہاں دس سال کا عرصہ گزارا۔ یہاں بھی پاکستان کے عظیم مفکر جمع ہوتے اور یوں علمی و ادبی مجالس کا دور دورہ رہتا۔ اُستاد دامن، احسان دانش، فیض احمد فیض، ڈاکٹر حمیدالدین، عابد علی عابد اور کئی نامور شخصیات سے گیلری بھری رہتی۔ 1964ء میں صوفی صاحب سمن آباد منتقل ہوئے جہاں اُنہوں نے زندگی کے چودہ سال گزارے 
یہ آج کون خراماں اِدھر سے گزرا ہے 
جبینِ شوق ہے بے تاب نقشِ پا کے لئے
صوفی صاحب ریٹائر ہونے کے بعد بھی بدستور علمی و ادبی کاموں میں مصروف رہے۔ اُسی سال صوفی صاحب خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کے بانی خود صوفی صاحب تھے۔ فارسی زبان کی ترویج کے سلسلے میں اُن کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ آپ نے لوگوں میں فارسی کا ذوق پیدا کرنے کے لیے بے انتہا کام کیا۔ اُسی دوران صوفی صاحب سول سروسز اکیڈیمی اور فنانس سروسز اکیڈیمی میں بھی اردو کے معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔
آپ کچھ عرصہ ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ کے بھی ایڈیٹر رہے۔ آپ کی سرپرستی میں اس ادبی و ثقافتی مجلے کا شمار اعلیٰ معیاری رسالوں میں ہونے لگا۔ ’’لیل و نہار‘‘ میں ان کا ایک کالم ’’حرف و سخن‘‘ کے نام سے چھپتا رہا جو بے حد مقبول تھا۔’’ لیل و نہار‘‘ کے بعد وہ مقتدرہ قومی زبان سے وابستہ ہوگئے جہاں سید وقار عظیم اور صوفی صاحب نے کئی لفظوں کے اُردو میں خوبصورت تراجم کیے۔ صوفی صاحب مینارِپاکستان کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔ وہ پہلے چیئرمین پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ تھے۔ وہی پہلی بار پاکستان کرکٹ ٹیم کو انڈیا میچ کھیلنے لے کر گئے۔
ڈاکٹر فوزیہ تبسم
0 notes
azharniaz · 7 months
Text
ایک نئی صبح کی تلاش عطا محمد تبسم
صبح فجر کے بعدایک سفر درپیش تھا ، نماز کے بعد میں نے چائے کی فرمائش کی تو اہلیہ نے گیس نہ آنے کی نوید سنائی ۔ صبح سویرے گھروں میں گیس نہیں آتی ۔ شام کو بھی گیس کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہماری زندگیوں میں دیکھتے ہی دیکھتے کتنی تبدیلی آگئی ، سحر خیزی کی جگہ اب دن چڑھے گھروں میں چولہے جلتے ہیں، اکثر بچوں کو بغیر ناشتہ یا ڈبل روٹی اور دودھ چائے پر ہی اسکول بھیج دیا جاتا ہے۔ پیٹرول کے دام بڑھتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 8 months
Text
لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟عطا محمد تبسم
ملک میں کامیاب ہڑتال پر جماعت اسلامی خوش ہے، اور اسے ایک بڑی کامیابی خیال کیا جارہا ہے، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے امارت کی دوسری ٹرم پوری کرنے سے پہلے ملکی سیاست میں پہلی بار بھرپور احتجاج کیا ہے۔ گو اس احتجاج میں جماعت اسلامی سے زیادہ مہنگائی سے تنگ آئی عوام اور بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف عوامی غم و غصہ کا زیادہ دخل نظر آتا ہے۔بجلی پیٹرول کے نرخوں میں اضافے اور مہنگائی کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 1 year
Text
"بنو قابل "سے کراچی کی روشنیاں بحال ہوں گی
“بنو قابل “سے کراچی کی روشنیاں بحال ہوں گی
عطا محمد تبسم امریکہ میں مقیم سینئر صحافی عارف الحق عارف ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں، اور ہر جگہ ان کے اعزاز میں محفلیں منعقد ہورہی ہیں، عارف الحق عارف صحت مند بھی ہیں، اور یاد داشت بھی کمال کی رکھتے ہیں۔ پچاس ساٹھ برس کا قصہ ہے، جو وہ ایک داستان گو کی طرح سناتے ہیں، ا ن کی داستانوں میں سیاست صحافت ، شخصیات ، واقعات، سب سموئے ہوتے ہیں، نوجوانوں کے لیے ان کی داستانوں میں بہت کچھ ہے، ایک شخص کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 1 year
Text
کراچی کو کب تک لوٹو گے؟عطا محمد تبسم
کراچی کو کب تک لوٹو گے؟عطا محمد تبسم
مجھے اب کراچی کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے ڈر لگتا ہے، چلتے چلتے اچانک کوئی گڑھا، گٹر ، سڑک کے بیچوں بیچ رکھا گملا، کسی گٹر میں کھڑا ہوا بانس ، فٹ پاتھ پر رکھا ہوا، صوفہ ، یا سڑک کے درمیان میں رکھا ہوا کمبوڈ ،یا پلاسٹک کا بڑا سا باتھ ٹب ، سڑک کے درمیان اگا ہوا درخت مجھے خطرہ کا نشان نظر آتا ہے۔ایک بار ہم گلشن اقبال میں ڈینٹسٹ کے پاس گئے، میرے بچے اس وقت چھوٹے تھے، بیٹے نے گاڑی کاایک طرف کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 1 year
Text
میری جاسوسی کون کررہا ہے؟
میری جاسوسی کون کررہا ہے؟
عطا محمد تبسم میں اپنے اس دوست نما دشمن سے پیار بھی کرتا ہوں، اور نفرت بھی، یہ میری زندگی میں جب سے آیا ہے، مجھے بہت سی سہولتیں بھی حاصل ہوئی ہیں، اور بہت سی مشکلات بھی، میں اس کے بغیر رہ بھی نہیں سکتا، اور اس کی موجودگی مجھے پریشان بھی بہت کرتی ہے،اس کے بغیر میں خود کو ادھورا سمجھتا ہوں، یہ میری زندگی میں اس قدر دخیل ہوگیا ہے کہ رات کو جب نیند سے آنکھیں بند ہونے لگتی ہی، تو بھی یہ میرا پیچھا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 2 years
Text
سیاہی کا یہ داغ مٹ نہ پائے گا۔عطا محمد تبسم
سیاہی کا یہ داغ مٹ نہ پائے گا۔عطا محمد تبسم
ایک بزرگ جانے کن کن ممالک کے دورے کے بعد ،منصورہ پہنچتے ہیں، گھر جانے سے پہلے دارالمال جاتے ہیں، اپنی شیروانی جیبوں سے ریال، ڈالر، پونڈ،کرنسی نوٹ، روپے، چیک نکالتے ہیں، ایک ایک جیب ٹٹولتے ہیں، کسی کونے کھدرے میں کچھ رہ نہ جائے،سب کچھ نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں، اطمینان کا سانس لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں، یہ سب جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرکے رسید لکھ دو، شکر الحمدللہ کہتے ہوئے، کہتے ہیں میرے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 2 years
Text
معیشت کے جادوگرعطا محمد تبسم
معیشت کے جادوگرعطا محمد تبسم
اس دن جوئیلرز اور جم ایسوسی ایشن کراچی کے ایک استقبالیہ میں اسحاق ڈار کو ایک یادداشت پیش کرنی تھی، جس کا ترجمہ کرنے اور اردو میں کمپوزننگ کی ذمہ داری مجھے تفویض کی گئی تھی، بھاگم دوڑ کرکے جب میں یہ یاد داشت تیار کرکے ڈیفنس کلب پہنچا تو اسحاق ڈار و ہاں پہنچ چکے تھے، یہ میاں نواز شریف کا دوسرا دور تھا، جس میں وہ انشورنس کے کاروبار کو کسی نہ کسی طرح نجی شعبہ کو دینا چاہتے تھے، ان پر امریکن لائف کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 2 years
Text
خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟عطا محمد تبسم
خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟عطا محمد تبسم
چوری اور منافع خوری کی عادت پڑ جائے تو پھر اس کا کوئی انت نہیں ہوتا ۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، گھر میں کوئی چوری کرنا شروع کردے تو گھر برباد ہوجاتے ہیں، اور معاشرے اگر چوری کی لت میں پڑ جائیں تو قومیں برباد ہوجاتی ہیں۔ سیلاب کیا آیا ، امداد اور امداد جمع کرنے والے، سب ہی نکل آئے، اچھے اور برے ، اچھوں کاذکر کم ہوتا ہے، دیر سے ہوتا ہے، تھوڑا تھوڑا ہوتا ہے، لیکن پھولوں کی خوشبوں کی طرح پھیلتا ہے، سارے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 2 years
Text
غدار کون ہے؟ عطا محمد تبسم
غدار کون ہے؟ عطا محمد تبسم
کون محب وطن ہے؟ اور کون غدار؟ اس کا فیصلہ آپ کیوں کر کر سکتے ہیں، کیا آپ نے میر ا دل چیر کو دیکھا ہے، وہاں آپ کو کیا لکھا نظر آیا۔یہی کہ میں غدار ہوں؟ کسی کا غدار کسی کا ہیرو ہوتا ہے، سب کے نزدیک غداری اور حب الوطنی کے الگ،پیمانے ہیں،کیسے کیسے لوگوں کو غداری کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کیئے گئے۔کیسے کیسے لوگوں پر مقدمے چلائے گئے، عدالتوں میں گھسیٹا گیا، جیلوں میں بند کیا گیا۔زبان بندی کی گئی، جلسوں سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 2 years
Text
سیلاب کیوں آتے ہیں؟عطا محمد تبسم
سیلاب کیوں آتے ہیں؟عطا محمد تبسم
شجاعت اور دلیری کی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں، ہست بر مومن شہید زندگی۔ بر منافق مرد نست وزندگی۔ مولانا روم نے کہا کہ مومن کے لیے شہادت زندگی ہے، منافق کے لیے موت اور تباہی ہے۔ جس نے ایک انسان کی جان بچالی، اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی، سیلاب نے کیسی تباہی مچائی ہے، کیا اس بار واقعی پہاڑ روئے ہیں؟ اگر یہ پہاڑ انسان کے، انسان پر حد سے زیادہ ظلم پر روئے ہیں تو پھر انسان ہی اس سیلاب میں کیوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 2 years
Text
سیاست کےداؤ پیچ آزمائیں، اپنے پتے کھیلیں
سیاست کےداؤ پیچ آزمائیں، اپنے پتے کھیلیں
عطا محمد تبسم سیاست میں گرفتاری ، جیل جانا،تھانے کچہری کا سامنا کرنا معمول کی بات ہے،لیکن یہ اعزاز صرف قائد اعظم کو حاصل ہے کہ انھوں نے ایک بڑی سیاسی تحریک برپا کی، پاک وہند کی سیاست میں بھرپور سیاسی کردار ادا کیا، لیکن کبھی گرفتار نہیں ہوئے، انھوں نے کبھی قانون کی حدود کو نہیں توڑا۔اب پاکستان کی سیاست میں تشدد کا غلغلہ ہے، لیکن پاکستان کی سیاست کب  تشدد سے پاک رہی ہے۔پنجاب پولیس تو ہمیشہ سے ایسی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 2 years
Text
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔
عطا محمد تبسم عمران خان کی سات انتخابی حلقوں سے جیت کی خبریں آرہی ہیں، پی ڈی ایم کا حکومتی اتحاد بہت آسانی سے ڈھیر ہوگیا۔ ایک طرف تیرہ 13 سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور دوسری طرف اکیلا کپتان عمران خان، مسلم لیگ نون کو تو الیکشن میں پولنگ شروع ہوتے ہی اپنی شکست کا اندازہ ہوگیا تھا، شاید اسی لیے عطا اللہ تارڑ ووٹروں سے یہ کہتے نظر آئے کہ “عمران خان کو ووٹ دینا ووٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا ہے”۔ تحریک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes