میر تقی میر
کب سے صحبت بگڑ رہی ہے کیونکر کوئی بناوے اب
ناز و نیاز کا جھگڑا ایسا کس کے کنے لے جاوے اب
سوچتّے آتے ہیں جی میں پگڑی پر گل رکھے سے
کس کو دماغ رہا ہے اس کے جو حرف خشن اٹھاوے اب
تیغ بلند ہوئی ہے اس کی قسمت ہوں گے زخم رسا
مرد اگر ہے صیدحرم تو کوئی جراحت کھاوے اب
داغ سر و سینے کے میرے حسرت آگیں چشم ہوئے
دیکھیں کیا کیا عشق ستم کش ہم لوگوں کو دکھاوے اب
دم دو دم گھبراہٹ ہوتو ہوسکتا ہے تدارک…
میرے مالک نے، مرے حق میں یہ احسان کیا، خاک ناچیز تھا، سو مجھے انسان کیا۔ (میر تقی میر) (at Quetta, Pakistan) https://www.instagram.com/p/CnEDmW3t5OE/?igshid=NGJjMDIxMWI=
وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں
ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چھپا لیتے ہیں
کچھ تفاوت نہیں ہستی و عدم میں ہم بھی
اٹھ کے اب قافلۂ رفتہ کو جا لیتے ہیں
نازکی ہائے رے طالع کی نکوئی سے کبھو
پھول سا ہاتھوں میں ہم اس کو اٹھا لیتے ہیں
صحبت آخر کو بگڑتی ہے سخن سازی سے
کیا درانداز بھی اک بات بنا لیتے ہیں
ہم فقیروں کو کچھ آزار تمھیں دیتے ہو
یوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں
چاک سینے کے ہمارے نہیں…