Tumgik
#ماہرین زراعت
emergingpakistan · 4 months
Text
کیا کاشت کاروں سے انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے؟
Tumblr media
ریونیو بڑھانے میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان خود کو ہمیشہ بین الاقوامی قرض دہندگان کے رحم وکرم پر پاتا ہے۔ فی الحال ہم ایک آئی ایم ایف معاہدے میں شامل ہیں جو حکومت کو ریونیو میں اضافہ کرنے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بہتر بنانے کا پابند کرتا ہے۔ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک ریاست معیشت کے تمام شعبوں پر یکساں طور پر ٹیکس عائد نہ کرے۔ ان شعبہ جات میں زرعی شعبہ بھی شامل ہے جہاں زرعی پیداوار پر مؤثر ٹیکس لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان کی 350 ارب ڈالرز کی مجموعی معیشت میں تقریباً پانچواں حصہ زراعت کا ہے۔ اگر یہ شعبہ معیشت میں اپنا منصفانہ حصہ ڈال رہا ہے تو موجودہ سال کے 9 ہزار 415 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کے طے شدہ ہدف کا پانچواں حصہ زرعی پیداوار سے آنا چاہیے۔ تاہم متوقع رقم کا چھوٹا سا حصہ ہی حاصل ہو پاتا ہے۔ لوگوں میں اس عام غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ زراعت کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے مطابق زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر دیگر کسی بھی آمدنی کی طرح ٹیکس عائد کیا جاتا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ٹیکس فیڈرل بورڈ آف ریونیو نہیں بلکہ صوبائی حکام وصول کرتے ہیں۔
کاشت کار اور دیگر مفاد پرست گروہ زرعی انکم ٹیکس کے خلاف مختلف دلائل پیش کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر محسوس کرتے ہیں کہ چونکہ ان پر پہلے سے ہی بالواسطہ طور پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا ہے اس لیے ان سے انکم ٹیکس وصول نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کی شکایت بھی کرتے ہیں جوکہ ان کی آمدنی پر بالواسطہ ٹیکس جیسا ہے۔ اگرچہ ایسی شکایات غلط نہیں ہیں لیکن 2022ء میں گندم کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہونے سے قیمتوں پر حکومتی کنٹرول غیر موثر ہو گیا ہے۔ البتہ دیگر اجناس جیسے کپاس اور چاول کو برآمد کرنے کی آزادی ہے بلکہ حکومتی پالیسی کے تحت چاول کی برآمدات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دیگر اہم اجناس میں چینی وہ واحد شے ہے جو اس سے مستثنیٰ ہے۔ چینی سخت حکومتی کنٹرول کے تابع ہے اور اسے عام طور پر برآمدی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پابندیوں کو پورا کرنے اور مقامی صنعتوں اور بڑے کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے چینی کی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ بہت سے ٹیکس ماہرین کا خیال ہے کہ محدود دستاویزی معیشت اور وسیع جغرافیائی رقبے پر زراعت کی وجہ سے اس پر زرعی ٹیکس کا نفاذ ممکن نہیں۔ 
Tumblr media
شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے زرعی ریونیو پر فرضی ٹیکس عائد کیا اور اس ٹیکس کی بنیاد اصل پیداوار یا پیداواری صلاحیت کے بجائے زمین کے کرائے پر رکھی۔ تاہم اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ اب پالیسی سطح پر اس کام کو کرنے کا عزم موجود ہے تو سیٹلائٹ تصاویر اور مشین لرننگ ٹیکنالوجیز کے دور میں زراعت پر ٹیکس لگانا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ درحقیقت اگر کسان چاہتے ہیں کہ پاکستان میں زراعت کو باضابطہ طور پر بڑی معیشت کا حصہ سمجھا جائے اور قومی سپلائی چین کے حصے کے طور پر دستاویزی شکل دی جائے تو انہیں اس طرح کے خیال کی وکالت کرنی چاہیے۔ یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے کہ ریونیو اسٹاف اب بھی اپنے ہاتھوں سے زرعی ریونیو وصول کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے وہ گزشتہ 100 سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔ مروجہ نظام میں اگر کوئی ادائیگی نہیں کرتا ہے یا اس سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا ہے تو نگرانی یا ناانصافی کا ازالے کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ پورے نظام کو جدید بنایا جائے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف اور دیگر قرض یا عطیہ دہندگان کو قیادت کرنا ہو گی کیونکہ ہمارا ملکی نظام ذاتی مفادات کے ماتحت نظر آتا ہے جس کی وجہ سے زراعت اور دیہی معیشتوں میں ٹیکنالوجی کے ذریعے شفافیت لانے کا امکان موجود نہیں ہے۔
بین الاقوامی قرض دہندگان اور ترقیاتی شراکت داروں کو چاہیے کہ وہ زرعی زمینوں کو ڈیجیٹل بنانے اور زمین کے ریکارڈز کو آسانی سے تلاش کرنے کے قابل بنانے کے لیے گرانٹ فراہم کریں۔ دوسرے مرحلے کے طور پر زرعی زمینوں کی تمام تصاویر سال بھر انفرادی کاشت کاروں (ان کی ملکیت میں موجود رقبے سے قطع نظر) کے ساتھ ساتھ حکومت کو فراہم کی جائیں۔ ان تصاویر کے ذریعے کسانوں کو وقتاً فوقتاً اپنی فصلوں کا جائزہ لینے کے قابل بنانا چاہیے (روزانہ جائزہ لینا بہترین ہو گا) جبکہ حکومت کو فصل کے حوالے سے اعدادوشمار کی نگرانی اور اسے جمع کرنے میں آسانی ہو گی۔ اس سے حکومت کو ٹیکس وصولی میں بہت حد تک مدد ملے گی کیونکہ ڈیجیٹل دور میں کچھ چھپایا نہیں جا سکتا۔ مشین لرننگ حکومت اور کسانوں کو سیٹلائٹ تصاویرکو سمجھنے میں مدد کر سکتی ہے اور یہاں تک کہ اگر تصویر کا تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے نظام، اس کام میں مکمل تربیت یافتہ ہوں تو کٹائی کے وقت مشین لرننگ مختلف فصلوں کی پیداواری صلاحیت کا اندازہ بھی لگا سکتی ہے۔ 
محدود وسائل کے پیش نظر زرعی ٹیکس کے ساتھ ساتھ مالیاتی منتقلی بھی ٹیکنالوجی کے تابع کرنے کی ضرورت ہے۔ کاشت کاروں کی سطح پر جو لوگ ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں ان پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے جیسے حکومت کو واجبات کی ادائیگی کے بغیر اپنی جائیداد کو خاندان کے افراد کو فروخت کرنے یا تحفے میں دینے پر پابندی ہونی چاہیے۔ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب زمین کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ ٹیکنالوجی بڑے کاشت کاروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے میں مدد کرے گی جو ویسے تو تمام کاشت کاروں کا محض چار فیصد ہیں لیکن تقریباً 40 فیصد زرعی زمینوں کے مالک ہیں۔ اس سے زرعی انکم ٹیکس کی مد میں سیکڑوں ارب روپے کی وصولی ہو گی جبکہ کاشت کاری کے طریقوں کو جدید بنانے میں بھی مدد حاصل ہو گی۔
اعجاز اے نظامانی   یہ مضمون 11 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
بڑی تحریک کے کنارے پر
Tumblr media
مولا علیؓ فرماتے ہیں کہ "سب سے ذلیل ترین انسان وہ ہے جسے حق اور سچ کا پتہ ہو اور وہ پھر بھی جھوٹ کے ساتھ کھڑا رہے"۔ جب سے قلم تھاما ہے کوشش کی ہے کہ اپنا شمار ذلیل ترین انسانوں میں نہ ہونے دوں۔ سچ یہ ہے کہ لوگوں کا جینا محال ہو چکا ہے، سچ یہ ہے کہ لوگوں کی تنخواہوں سے زیادہ بجلی کے بل آ رہے ہیں، سچ یہ ہے کہ ڈیڑھ برس پہلے ڈالر 176 روپے اور پیٹرول 150 روپے کا لیٹر تھا۔ ظلم یہ ہے کہ آج ڈالر تین سو روپے سے اوپر ہے، ظلم یہ ہے کہ آج پیٹرول بھی قریباً تین سو روپے لیٹر ہے۔ ستم یہ ہے کہ آٹا 170 روپے کلو، کوکنگ آئل 700 روپے، چینی 172 روپے، بجلی کا یونٹ 65 روپے، ڈی اے پی کھاد 10 ہزار، یوریا پینتیس سو روپے، چھوٹی چھوٹی گاڑیاں بائیس سے پچیس لاکھ اور حج اخراجات کم از کم 13 لاکھ روپے ہو چکے ہیں۔ ملک کی حالت یہ ہے کہ ہماری زرعی زمینوں پر 15 سالوں میں دو لاکھ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں۔ ہمیں گندم، کاٹن، چینی اور دالیں باہر سے منگوانا پڑتی ہیں، کہنے کو تو یہ زرعی ملک ہے مگر یہاں زراعت مشکل ترین بنا دی گئی ہے۔ فیکٹریاں بند پڑی ہیں، کاروبار نہ ہونے کے مترادف ہے، ہماری مقتدر قوتوں کو اس بڑی غلطی کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ انہوں نے پچاس ساٹھ برس پہلے جس سیاستدان کو میدان میں اتارا، اس نے نفرت انگیز باتیں کر کے اپنے اقتدار کی ہوس کو تو پورا کر لیا مگر ملک ٹوٹ گیا، 
ٹوٹنے والے ملک میں ظلم و ستم ہوا پھر جب 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی تو بنگال کا شیخ مجیب الرحمٰن یہاں نہیں آنا چاہتا تھا ، اس نے کانفرنس میں نمائندگی کے لئے اپنا وزیر خارجہ نامزد کیا مگر یہاں خواہشیں پنپ رہی تھیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن شریک ہوں پھر اس خواہش کو دوام بخشنے کیلئے مصر کے انور سادات اور فلسطین کے یاسر عرفات خصوصی طیارے میں ڈھاکہ گئے اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں مصروف رہنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو طیارے میں بٹھا کر لے آئے۔ لاہور میں ہوائی اڈے پر اس شخص نے شیخ مجیب الرحمٰن کا استقبال کیا جسے وہ Butcher of Bangal کہتا تھا۔ اس کانفرنس کے موقع پر لوگوں نے دیکھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا، شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر خوش گپیاں لگاتا رہا اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کے سینوں پر مونگ دلتا رہا۔ اسی نے فیکٹریوں اور اداروں کو نیشنلائز کر کے پاکستانی معیشت کا گلا گھونٹ دیا تھا، رہی سہی کسر اداروں میں یونینز بنا کر پوری کر دی گئی۔ 
Tumblr media
ضیائی آمریت میں ہماری مقتدر قوتوں نے لاہور کے ایک کاروباری شخص کا بچہ متعارف کروایا، اس بچے کی پرورش کی گئی، اسی دور میں ہر ادارے میں کرپشن متعارف کروائی گئی اور پورا نظام کرپٹ کر دیا۔ آج پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں ہر جگہ کرپشن نظر آتی ہے، جونکیں ہمارا خون چوس رہی ہیں۔ 80ء کی دہائی سے شروع ہونے والا لوٹ مار کا یہ کھیل ہمارا خزانہ چاٹ گیا، کاروباری نے کاروباریوں کو کروڑوں اربوں کے قرضے دے کر معاف کر دیئے، اس نے ایک معیشت کا ماہر متعارف کروایا، اس نے ہماری معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا، اس نے ایس آر اوز کا کھیل کھیلا، کبھی فارن کرنسی اکاؤنٹ سیل کئے، ملک مقروض ہوتا چلا گیا اور حکمرانوں کی جائیدادیں اور پیسہ دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ 1951ء میں ڈالر 3 روپے کا تھا، 1972ء میں 5 روپے اور 1985ء میں 12 روپے کا تھا، بس اسکے بعد "ماہرین" نے ڈالر کو پر لگا دیئے۔ آج ہم سوچتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے کلب، نوے ہزار گاڑیاں، 220 ارب کا مفت پیٹرول، واپڈا ملازمین کی ساڑھے پانچ ارب کی مفت بجلی اور اس کے علاوہ باقی مفت بروں کی مفت بجلی ہماری معیشت پر بوجھ ہے ورنہ ہمارا خزانہ کمزور نہیں تھا۔ 
سوئٹزرلینڈ ہمارے شمالی علاقہ جات سے نصف ہونے کے باوجود ساٹھ سے ستر ارب ڈالر صرف سیاحت سے کماتا ہے، ہم کیوں نہ ایسا کر سکے؟۔ ڈیڑھ برس پہلے کہنے کو مہنگائی تھی مگر خود کشیوں کا موسم نہیں تھا۔ مقتدر قوتوں کے متعارف کروائے گئے ماہرین کے 16 مہینے ایسے لگے کہ آج میرے دیس کے آنگن میں غربت، بیروزگاری اور بھوک کا بسیرا ہے، خودکشیوں کی خبریں آ رہی ہیں، جرائم بڑھتے جا رہے ہیں، 16 ماہ کی حکومت لوگوں کو احتجاج پہ لے آئی ہے۔ احتجاج تک لانے میں ظالمانہ پالیسیوں کا مرکزی کردار ہے، لوگوں کے لبوں سے روٹی چھن گئی، صحت اور تعلیم کے خواب بکھر گئے، روزگار اجڑ گیا، دھرتی پر ہونے والا ظلم لوگوں کو ایک بڑی احتجاجی تحریک کے کنارے پر لے آیا ہے۔ لوگ بھی کیا کریں، آمدنی سے کہیں زیادہ ٹیکس اور بل ہیں۔ ان کے پاس بھی احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ بقول جہانزیب ساحر
ہماری آنکھیں اداس غزلوں کے قافیے ہیں ہمارا چہرہ پرانے وقتوں کی شاعری ہے
یہ صرف حرفوں کی تابکاری کا زہر کب ہے خدا کے بندو! یہ ہم غریبوں کی شاعری ہے
مظہر برلاس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
airnews-arngbad · 1 year
Text
آکاشوانی اورنگ آباد‘ علاقائی اُردو خبریں: بتاریخ: 04 مئی 2023‘ وقت: صبح 09:00 تا 09:10
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ سڑکوں کی معیاری درستی کیلئے مہاراشٹر اسٹیٹ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کا ریاستی کابینہ کا فیصلہ؛ کچرے کی پروسیسنگ کیلئے ICT پر مبنی پروجیکٹ شروع کیا جائیگا۔
٭ انیمیشن‘ گیمنگ اور VFX کو اسکولی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ۔
٭ دی کیرالا اسٹوری فلم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ سپریم کورٹ کی جانب سے مسترد۔
٭ رجسٹرار دفاتر ہفتے اور اتوار کو بھی کھلے رہیں گے۔
اور۔۔ ٭ IPL کرکٹ ٹورنامنٹ میں ممبئی انڈینس کی پنجاب کنگس کے خلاف چھ وِکٹ سے فتح۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاست میں سڑکوں کی معیاری اور تیز رفتار درستی کیلئے مہاراشٹر اسٹیٹ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کو ریاستی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ اس کارپوریشن کا بنیادی سرمایہ 100 کروڑ روپئے رہے گا۔ جس میں سے 51 فیصد سرکاری حصہ مرحلہ وار فراہم کیا جائیگا۔
***** ***** *****
ریاست کے تمام مقامی بلدیاتی اداروں میں کچرے کی پروسیسنگ کیلئے اطلاعات و کمیونکیشن ٹکنالوجی ICT پر مبنی پروجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ ریاستی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا ہے۔ اس کیلئے 578 کروڑ 63 لاکھ روپئے منظور کیے گئے۔ کچرا اُٹھانے والی تمام گاڑیوں پر نظر رکھنے کیلئے GPS یا ICT پر مبنی ٹکنالوجی کا استعمال کیا جائیگا۔ متعلقہ کمشنر یا چیف ایگزیکٹیو کے ذریعے سوچھ بھارت مشن کی معرفت یہ پروجیکٹ چلائے جائیں گے۔
***** ***** *****
جنگلات اور سمندری حیات مضامین پر عالمی سطح کی بہترین یونیورسٹیوں میں جاکر تحقیق کرنے کیلئے 75 طلبہ و ریسرچ اسکالرز کو تین برس کیلئے اسکالرشپ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کل ہوئے کابینی اجلاس میں اس فیصلے کو منظوری دی گئی۔ ان میں سے 30 فیصد نشستیں طالبات کیلئے مختص کی گئی ہیں۔ فیصلے کے مطابق ماسٹرز ڈگری کیلئے 15‘ اور پی ایچ ڈی کیلئے 10‘ اس طرح مجموعی طور پر 25 طلبہ کو تین سال کیلئے یہ اسکالر شپ دی جائیگی۔ ماسٹرز ڈگری اسکالرشپ کیلئے طلبہ کی عمر کی حد 35 برس اور پی ایچ ڈی کیلئے 40 برس رکھی گئی ہے۔
***** ***** *****
ریاستی کابینہ نے کولہاپور ضلع کے شیروڑ تعلقے کے اُود گاؤں میں 350 پلنگ پر مشتمل نفسیاتی امراض کے اسپتال کے قیام کو منظوری دی ہے۔ کل منعقدہ اجلاس میں کابینہ نے اس اسپتال کیلئے 146 کروڑ 22 لاکھ روپئے کا فنڈ بھی منظور کیا۔
***** ***** *****
حکومت عنقریب انیمیشن‘ گیمنگ اور VFX کو اسکولی نصاب میں شامل کرے گی۔ مرکزی اطلاعات و نشریات کی وزارت کے سیکریٹری اپوروا چندرا نے یہ اطلاع دی۔ کل ممبئی میں فیڈریشن آف انڈین کامرس اینڈ انڈسٹریز ”فِکّی“ کے ایک پروگرام سے وہ مخاطب تھے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کو انیمیشن‘ VFX اور گیمنگ کے شعبوں میں عالمی سطح پر رابطے کی ضرورت ہے اور تیقن دیا کہ اس صنعت کیلئے ضروری افرادی قوت اُبھارنے کیلئے حکومت مدد کرے گی۔ چندرا نے اعلان کیا کہ ممبئی کے گورے گاؤں فلم سٹی میں سینٹر آف ایکسیلنس قائم کیا جائیگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ فلم شائقین اپنی پسند کی فیچر فلموں کی ڈیجیٹلائزیشن کیلئے اب فنڈ جمع کرسکیں گے۔ حکومت عنقریب فلمی صنعت کا ورثہ سمجھے جانے والی فلموں کی ایک فہرست جاری کریگی اور شائقین اس فہرست سے اپنی پسند کی فلموں کو ڈیجیٹلائزیشن کیلئے منتخب کرسکیں گی۔ حکومت نے اس کیلئے پانچ ہزار فیچر اور دستاویزی فلموں کا ہدف مقرر کیا ہے۔ جن میں سے ڈھائی ہزار فلموں کو ڈیجیٹل شکل میں منتقل کیا جاچکا ہے۔
***** ***** *****
ریاست کی نہایت اہم عمارتوں‘ اسپتالوں‘ پانچ ستارہ ہوٹلوں‘ اسکولوں اور عبادت گاہوں پر انسانی تخلیق کردہ آفتوں اور انتہاء پسند حملوں سے تحفظ کیلئے اقدامات تجویز کرنے سے متعلق رپورٹ‘ ماہرین کی ایک کمیٹی نے وزیرِ اعلیٰ کے حوالے کی ہے۔ اس رپورٹ میں بڑی عوامی اور نہایت اونچی عمارتوں کے تحفظ سے متعلق تجزیہ کیا گیا ہے اور ان پر انتہاء پسندوں کے حملوں کو روکنے کیلئے تجاویز بھی دی گئیں۔
***** ***** *****
وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے زراعت کیلئے شمسی توانائی پر چلنے والے پمپ اور دیہی علاقوں کے اسپتالوں میں شمسی توانائی مہیا کرنے کیلئے تعاون کی اپیل کی ہے۔ ایشیائی بینک کے ایک وفد نے کل وزیرِ اعلیٰ سے ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ اگر یہ پروجیکٹ شروع ہوجاتے ہیں تو کسانوں کو سبز توانائی فراہم کرنے والی مہاراشٹر ملک کی پہلی ریاست ہوگی۔
***** ***** *****
راشٹروادی کانگریس کے ریاستی صدر جینت پاٹل نے وضاحت کی ہے کہ انھوں نے اپنے کسی بھی عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا۔ تاہم پارٹی کے جنرل سیکریٹری جتندر آہواڑ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں آہواڑ نے کہا کہ تھانہ کے تمام پارٹی عہدیداروں نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دریں اثناء رکنِ پارلیمان شرد پوار نے ہدایت کی ہے کہ پارٹی نے صدر کے عہدے کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی ہے وہ جمعہ کو اجلاس منعقد کرے۔ اس اجلاس میں جو بھی فیصلہ کیا جائیگا اُسے وہ تسلیم کریں گے۔
***** ***** *****
راشٹروادی کانگریس کے سرکردہ قائد پرفل پٹیل نے کہا ہے کہ پارٹی نے شرد پوار سے درخواست کی ہے کہ وہ پارٹی صدارت چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں‘ اس لیے نیا صدر منتخب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کل ممبئی میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر شرد پوار اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں تب بھی وہ ہی پارٹی کے سپریمو‘ پارٹی کی شناخت اور پارٹی کا چہرہ رہیں گے۔ وہ جو کوئی بھی فیصلہ کرلیں لیکن عوامی زندگی میں ہمیشہ فعال رہیں گے۔ اس لیے ریاست میں مہا وِکاس آگھاڑی کو کوئی دھچکا نہیں لگے گا۔
***** ***** *****
کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے کہا ہے کہ سنجے راؤت کانگریس کے معاملات سے متعلق گمراہ کن بیانات نہ دیں۔ وہ کانگریس کے ترجمان نہیں ہیں۔ سنجے راؤت کے کانگریس سے متعلق بیان پر نانا پٹولے کل ناگپور میں اپنا ردّ عمل دے رہے تھے۔ راؤت نے کہا تھا کہ کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے ہیں لیکن قطعی فیصلے راہل گاندھی کے ہی ہوتے ہیں۔ اس پر نانا پٹولے نے کہا کہ راوت‘ ملک ارجن کھرگے کی اہلیت اور گاندھی خاندان سے متعلق کوئی بیان بازی نہ کریں۔ انھوں نے مزید وضاحت کی کہ اگر راشٹروادی کانگریس‘ بی جے پی کے ساتھ جاتی ہے تب بھی کانگریس پارٹی بی جے پی کیخلاف اپنی لڑائی جاری رکھے گی۔
***** ***** *****
دی کیرالا اسٹوری فلم پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کو عدالت ِ عظمیٰ نے مسترد کردیا ہے۔ کیرالا میں بائیں جمہوری اتحاد اور کانگریس نے فلم پر شرانگیز تقریر کو فروغ دینے کا الزام لگایا ہے۔ اس خصوص میں داخل کردہ ایک درخواست کی فوری سماعت کا مطالبہ بھی عدالت نے مسترد کردیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سینسر بورڈ نے فلم کو منظوری دے دی ہے اور عدالت اس پر کوئی قدغن نہیں لگاسکتی۔ اگر فلم کی نمائش کے فیصلے کو چیلنج کرنا ہے تو درست پلیٹ فارم پر اسے چیلنج کیا جائے۔
***** ***** *****
ضلعی صدر دفتر اور میونسپل علاقوں میں رجسٹرار دفتر کے کام کاج ہفتے اور اتوار کو چھٹی کے دِن بھی جاری رہے گا۔ وزیرِ محصول رادھا کرشن وِکھے پاٹل نے یہ اعلان کیا۔ انھوں نے کہا کہ رجسٹرار آفس میں عوام کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے تعطیل کے دِن بھی شہری اپنے دستاویز کی رجسٹری کرسکیں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے یہ سہولت دی گئی ہے۔
***** ***** *****
IPL کرکٹ ٹورنامنٹ میں کل موہالی میں کھیلے گئے ایک میچ میں ممبئی انڈینس نے پنجاب کنگز کو 6 وِکٹ سے شکست دے دی۔ پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے پنجاب ٹیم کا 215 رن کا ہدف ممبئی انڈینس نے 19 ویں اوور میں حاصل کرلیا۔ اس سے قبل لکھنؤ سپر جائنٹس اور چنئی سپر کنگس کا میچ بارش کے باعث منسوخ کردیا گیا۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ سڑکوں کی معیاری درستی کیلئے مہاراشٹر اسٹیٹ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کا ریاستی کابینہ کا فیصلہ؛ کچرے کی پروسیسنگ کیلئے ICT پر مبنی پروجیکٹ شروع کیا جائیگا۔
٭ انیمیشن‘ گیمنگ اور VFX کو اسکولی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ۔
٭ دی کیرالا اسٹوری فلم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ سپریم کورٹ کی جانب سے مسترد۔
٭ رجسٹرار دفاتر ہفتے اور اتوار کو بھی کھلے رہیں گے۔
اور۔۔ ٭ IPL کرکٹ ٹورنامنٹ میں ممبئی انڈینس کی پنجاب کنگس کے خلاف چھ وِکٹ سے فتح۔
***** ***** ***** 
0 notes
gamekai · 1 year
Text
پاکستان اور روس کے درمیان بات چیت کے دوسرے دور کا آغاز
اسلام آباد : پاکستان اور روس کے درمیان بات چیت کے دوسرے دور کا آغاز ہوگیا ، جس میں سستا تیل اور ایل این جی خریدنے کے معاملے پر معاہدوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق روس سے سستا تیل اور ایل این جی خریدنے کے معاملے پر پاکستان اور روس کے مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ ذرائع نے بتایا کہ آج توانائی ، تجارت، زراعت، صنعتی تعاون پرتکنیکی مذاکرات جاری رہیں گے، دونوں ملکوں کے ماہرین تعلیم،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 1 year
Text
اب پلاسٹک کچرے کو زراعت کے لیے مفید اجزا میں بدلا جاسکتا ہے
اب پلاسٹک کچرے کو زراعت کے لیے مفید اجزا میں بدلا جاسکتا ہے
امریکی ماہرین نے پلاسٹک اور مکئی کی باقیات کو ایک عمل سے گزار کر اسے سے ماحول دوست مٹیریئل تیار کیا ہے۔ فوٹو: فائل ریور سائیڈ ، امریکہ: پلاسٹک کے کوڑے نے سیارہ زمین کو کئی مسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ اب جامعہ کیلیفورنیا، ریورسائڈ کے ماہرین نے دنیا میں سالانہ جمع ہونے والے کروڑوں ٹن پلاسٹک کا ایک انسان دوست مصرف ڈھونڈ نکالا ہے۔ بصورتِ دیگر یہ دریاؤں اور سمندروں میں جاکر انسان اور آبی حیات کے لیے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
پتوں، ٹہنیوں، پھلیوں پر سیاہ و بھورے دھبے نظر آتے ہی فوری تدارکی اقدامات یقینی بنانے چاہئیں،ترجمان محکمہ زراعت
پتوں، ٹہنیوں، پھلیوں پر سیاہ و بھورے دھبے نظر آتے ہی فوری تدارکی اقدامات یقینی بنانے چاہئیں،ترجمان محکمہ زراعت
فیصل آباد (عکس آن لائن):محکمہ زراعت کے ترجمان نے کہا کہ سفوفی پھپھوندی تیلدار اجناس کی فصلات کو نقصان پہنچا سکتی ہے لہذاپتوں، ٹہنیوں، پھلیوں پر سیاہ و بھورے دھبے نظر آتے ہی فوری تدارکی اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ انہوں نے رایا اور سرسوں کے کاشتکاروں کو ہدایت کی کہ وہ فصل کو مختلف بیماریوں کے حملہ سے محفوظ رکھنے کیلئے محکمہ زراعت اور ماہرین زراعت کے مشوروں پر عملدرآمد یقینی بنائیں تا کہ بعد میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-news · 2 years
Text
معیشت استعمار کے شکنجے میں
پاکستان میں حکومتی تبدیلی کے سوا کچھ بھی تبدیل نہ ہوا۔ وہی کمزور معیشت کا رونا دھونا ہے۔ وہی بلند بانگ دعوے ہیں۔ وہی بےلگام زبانیں ہیں۔ وہی کرپشن کی داستانیں ہیں۔ وہی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی، وہی نعرے اور تقریریں ہیں۔ پاکستانی قوم پر پیٹرول بم گرنے کے بعد تحریکِ انصاف کے لوگ یوں خوش ہیں جیسے انہیں کوئی نعمتِ غیر مترقبہ مل گئی ہو جبکہ پی ڈی ایم کے اراکینِ پارلیمنٹ بڑھ چڑھ کر اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اس وقت پاکستان کی سب سے کنفیوزڈ شخصیت ہیں جنہیں یہ تک پتا نہیں کہ پیٹرول کی قیمتوں نے بڑھنا ہے یا نہیں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ پاکستان سمیت پوری دنیا استعماری قوتوں کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے حکمران طبقہ اپنے اپنے ملکوں پر اپنی گرفت کھو چکا ہے اور پوری دنیا پر اصل حکومت ان کمپنیوں کی ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کس ملک کے عوام نے کون سی خوراک کھانی ہے اور کس کمپنی کا پانی پینا ہے۔
استعماری قوتوں نے اپنا روپ بدل کر ہمارے ملک پر ایسا غیرمرئی قبضہ قائم کر لیا ہے جس سے نکلنا آسان نظر نہیں آرہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند سینکڑوں ایسٹ انڈیا کمپنیاں دنیا کے مختلف حصوں میں بیٹھ کر پوری دنیا پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ یہ کمپنیاں جسے چاہتی ہیں، مقبولیت کی اعلیٰ منازل پر فائز کر دیتی ہیں اور جس سے نگاہیں پھیر لیں وہ قابلِ نفرت ٹھہرتا ہے۔ پوری دنیا میں خوراک کے مسائل بڑھ چکے ہیں۔ وہ ممالک جو پوری دنیا کو غلہ مہیا کرتے تھے، آج خود گندم منگوا رہے ہیں۔ تقسیم سے قبل پنجاب پورے ہندوستان کو غلہ اور دیگر غذائی اشیاء فراہم کرتا تھا لیکن آج پنجاب میں صورتحال قابلِ رشک نہیں۔ میں خود زراعت کے پیشے سے وابستہ ہوں۔ اِس مرتبہ گندم کی فی ایکڑ پیداوار پچھلے برسوں کی نسبت بہت بہتر تھی لیکن پورے ملک میں شور ہے کہ گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو اپنی گندم وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود بیرونِ ملک سے گندم منگوانے کے راستے ہموار کر رہی ہیں؟ 
پانی کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ پوری دنیا پانی کی قلت پر بات کر رہی ہے۔ آبی ماہرین نے اس حوالے سے اپنی اقوام کو بیدار کیا ہے۔ بعض ممالک نے تو آج سے 50 سال قبل اِس خطرے کو بھانپ کر ایسی منصوبہ بندی کی کہ آج جبکہ ہر طرف پانی کی قلت کا شور ہے، اِن ممالک نے اپنے پاس دریا نہ ہونے کے باوجود آب پاشی کا ایک وسیع نظام قائم کر لیا ہے۔ پاکستان میں زیر زمین پانی تیزی سے زہریلا ہو رہا ہے۔ میڈیا میں سندھ اور چولستان میں پانی کی قلت کے متعلق بتایا جارہا ہے لیکن صورتحال پاکستان بھر میں ایسی ہی ہے۔ پاکستان کا کون سا ایسا شہر ہے جہاں پر زیر زمین پانی میٹھا رہ گیا ہے؟ لیکن اس سنگین مسئلے پر کسی فورم پر بات نہیں ہو رہی۔ ہمارے رہنما بولتے ہیں تو کسی کی کردار کشی کیلئے، منصوبے بناتے ہیں تو وہ بھی قلیل مدت کے لیے۔ کورونا وبا کے دوران جس طرح تحریک انصاف کی حکومت نے لوگوں کو لائنوں میں کھڑا کر کے ہزاروں روپے فی کس کے حساب سے تقسیم کیے، اس سے ملک کی غربت تو کم کرنے میں مدد نہیں ملی البتہ مفت خوری کے رجحان میں ضرور اضافہ ہوا۔ 
جبکہ میاں شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ملک کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کو دو ہزار روپے ماہانہ دینے کا اعلان کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس کام کے لیے 58 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کاش پی ڈی ایم کی حکومت اگلے الیکشن کا سوچنے کی بجائے مستقبل کا سوچتی اور اربوں روپے سے ٹیکنیکل ادارے تشکیل دیتی جس سے ہزاروں ہنر مند افراد پیدا ہو کر معاشرے میں متحرک اور فعال کردار ادا کر سکتے۔ یہ ٹیکنیکل ادارے اچھے مکینک اور بہترین کارپینٹر پیدا کرتے۔ اس رقم سے پیرا میڈیکل اسٹاف کی تربیت کے ادارے قائم کیے جاتے اور حکومت کی نگرانی میں ان اداروں سے تربیت یافتہ افراد کو بیرونِ ملک بھیجا جاتا۔ جس سے ایک طرف تو بیروزگاری کم کرنے میں مدد ملتی تو دوسری طرف ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں قابلِ قدر اضافہ ہوتا۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے وہی کیا جو گزشتہ حکمران کرتے آرہے تھے۔ فی خاندان 2 ہزار روپے سے مہنگائی کے طوفان کو روکنے کی سعی لاحاصل کی۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی تقریر میں میثاقِ معیشت کا ذکر کیا۔ نہ تو 2018 میں ان کی تجویز پر کسی نے کان دھر ے تھے اور نہ ہی آج اس تجویز پر کوئی بات کرنے کو تیار ہے۔ 
لہٰذا خیالی منصوبوں سے نکلیں۔ آپ نے استروں کی مالا اپنے گلے میں ڈال ہی لی ہے تو اس سے قوم کا خون نہ نکالیں بلکہ ایسی پالیسیاں ترتیب دیں کہ جس سے معیشت کو سانس لینے میں آسانی ہو سکے۔ بجلی کا سرکلر خسارہ 2500 ارب روپے ہے، اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔ گیس سیکٹر کا خسارہ 1500 ارب روپے سے متجاوز ہے، پاکستان اسٹیٹ آئل کا خسارہ 685 ارب سے ب��ھ چکا ہے۔ ملک کا تجارتی خسارہ 50 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ پاکستان کا جی ڈی پی 262 ارب ڈالر تک گر چکا ہے۔ یہ معمول کی صورت حال نہیں بلکہ جنگی بنیادوں پر اس بگاڑ کو درست کرنا پڑے گا۔ اس حبس اور گھٹن زدہ ماحول میں سعودی سفیر نواف سعید المالکی کی کوششوں سے پرنس محمد بن سلمان نے پاکستان کو دیے گئے تین ارب ڈالرز کی واپسی موخر کر دی۔ اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کے بہترین دوست ہونے کا حق ادا کیا۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ پاکستان میں سعودی سفیر میرے محترم دوست نواف سعید المالکی ایک پاکستان دوست سفیر ہیں۔ ان کا دل پاکستان کی محبت میں دھڑکتا ہے۔ ان کی محنت کے سبب پاکستان اور سعودی عرب کی قربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے اس اقدام سے پاکستانی معیشت کو سہارا ملے گا اور توقع ہے کہ اِس سے آئی ایم ایف کے پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرنے کی راہ بھی ہموار ہو گی۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 2 years
Text
پاکستان میں پانی کی قلت شدید
پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ شدید ہوتا جا رہا ہے اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے پالیسی تبدیل نہیں کی تو ملک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سندھ کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت کے حوالے سے زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ٹھٹہ، بدین، سجاول، کے ٹی بندر، دادو اور سیہون شریف سمیت سندھ کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت رہی، جس سے آبادکاروں اور کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس قلت کا سامنا صرف صوبہ سندھ کو ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے بھی کئی علاقے پانی کی قلت سے شدید متاثر ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں گوادر میں پانی کی قلت کے حوالے سے شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے، جس نے پورے بلوچستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے علاوہ نصیرآباد، جس کو بلوچستان کا گرین بیلٹ بھی کہا جاتا ہے، اس کو بھی دریائے سندھ سے اس کی ضروریات کے مطابق پانی نہیں مل رہا، جس سے کھیتی باڑی اور کاشتکاری متاثر ہو سکتی ہے۔
بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں زیر زمین پانی کو بے دردی سے نکالا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے آنے والے وقتوں میں ان علاقوں میں پانی کا شدید بحران آئے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مستونگ، قلات کوئٹہ، زیارت اور پشین سمیت کئی علاقوں میں ایک ایک ہزار فٹ کھدائی کر کے زیر زمین پانی کو بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس عمل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ان علاقوں میں پانی کا بحران مزید شدید ہو جائے گا۔ جان بلیدی کے مطابق بلوچستان کا علاقہ نصیرآباد بھی پانی کی قلت کا شکار ہے: ''اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے دریائے سندھ سے اس کے حصے کا پانی نہیں مل رہا، جس کی وجہ سے نا صرف زراعت بلکہ ہزاروں لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہو گا۔‘‘
  ٹھٹہ، بدین، سجاول، کے ٹی بندر، دادو اور سیہون شریف سمیت سندھ کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت رہی، جس سے آبادکاروں اور کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک کے کچھ حلقے یہ کہتے ہیں کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے مزید ڈیم بنانے چاہییں لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیموں اور بیراجوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے، جس سے صوبوں کے درمیان بھی تلخیاں بڑھی ہیں۔ آبی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ ہم نے پانی کے فطری نظام کو خراب کیا ہے، جس کی وجہ سے سندھ میں پانی کی قلت کا مسلئہ کھڑا ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے ڈیم اور بیراج بنا کر پانی کے قدرتی طریقے کو خراب کیا۔ ورنہ ملک میں پانی کی قلت نہ ہوتی کیونکہ آپ کے دریاؤں میں پانی برف پگھلنے، گلیشیئر پگھلنے اور مون سون کی بارشوں کی وجہ سے آ جاتا تھا۔ برف باری اور گلیشئیر کے پگھلنے کی وجہ سے جو پانی ماضی میں آتا تھا، وہ براہ راست دریا میں چلا جاتا تھا۔ اب ہم نے ڈیم اور بیراجوں کے ذریعے اس پانی کو روک لیا ہے، جس کی وجہ سے پانی سندھ کے کئی علاقوں تک پہنچ نہیں پاتا۔‘‘ پاکستانی عوام کو لاحق خطرات پاکستان ’گلوبل وارمنگ‘ يا عالمی درجہ حرارت ميں اضافے کا سبب بننے والی ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے عالمی سطح پر اخراج کا صرف ايک فيصد کا حصہ دار ہے تاہم اس کے باوجود موسمياتی تبديليوں و درجہ حرارت ميں اضافے سے پاکستان کی دو سو ملين سے زائد آبادی کو سب سے زيادہ خطرات لاحق ہيں۔ سن 2018 کے ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈيکس‘ ميں پاکستان ان ممالک کی فہرست ميں شامل ہے، جو موسمياتی تبديليوں سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔ حسن عباس کے مطابق یہ تصور غلط ہے کہ ڈیموں کو بھرنے کے لیے گلیشیئر اور برف باری سے پگھلنے والے پانی کو استعمال کیا جائے: ''ڈیموں میں پانی مون سون کی برسات سے آسانی سے بھرا جا سکتا ہے لیکن ہم پہلے برف باری اور گلیشئیر سے پگھلنے والے پانی کو ڈیموں سے بھرتے ہیں اور مون سون کی بارشوں سے بھی ان ڈیموں کو بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
برف باری اور گلیشئیر سے پگھلنے والے پانی کو اس وقت ڈیموں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے جب اس کی سندھ کو شدید ضرورت ہوتی ہے اور وہاں یہ فصلوں کے کیے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر حسن عباس نے یہ تجویز کیا کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا ڈیموں کا یہ پانی انسانی اور زرعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہے یا اس سے بجلی پیدا کرنی ہے، ''میرے خیال میں مزید ڈیم نہیں بننے چاہییں اور پانی کی تقسیم کو بہتر بنایا جانا چاہیے۔ تربیلا اور منگلا ڈیم چار ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرتے ہیں اور سندھ اور پنجاب کی لڑائی صرف دو ملین ایکڑ فٹ پر ہوتی ہے۔ اگر اس پانی کو نہ روکا جائے تو دونوں صوبوں میں لڑائی بھی نہ ہو اور سندھ میں پانی کی قلت کا مسلئہ بھی حل ہو جائے۔‘‘
 ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ لوگ آخر کریں کیا؟ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر ڈاکٹر عارف محمود کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت سے مستقل طور پر چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں زراعت پر انحصار کم کرنا پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ''ہم زراعت کے لیے سیلابی طریقے سے پانی استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے چار ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی سالانہ ضائع ہوتا ہے جبکہ نہری نظام میں بھی بہت ساری خامیاں ہیں اور اس کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گنے، چاول اور وہ تمام دوسری فصلیں جن میں پانی بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے ان فصلوں کی کاشت کو ہم محدود کریں۔‘‘ ڈاکٹر عارف محمود کے مطابق کیونکہ سندھ دریائے سندھ کے آخری کونے پر واقع ہے اس لیے اس تک پانی پہچنے میں تاخیر ہو جاتی ہے: ''لیکن اس سال برف باری بھی کم ہوئی ہے اور بارش بھی کم ہوئی ہیں جس کی وجہ سے سندھ کے کئی علاقے خصوصاً ٹھٹہ، بدین، سجاول، دادو اور سہون شریف پانی کی قلت کا شدید شکار ہوئے ہیں تاہم 25 سے 30 دن میں پانی کی فراہمی بہتر ہو جائے گی۔‘‘
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو  
0 notes
classyfoxdestiny · 2 years
Text
ٹیسکو اور میک ڈونلڈز کے سپلائرز سمیت گوشت اور دودھ کے جنات 'اب بھی اگلی وبائی بیماری کو جنم دینے کا خطرہ ہے' #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%b9%db%8c%d8%b3%da%a9%d9%88-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%db%8c%da%a9-%da%88%d9%88%d9%86%d9%84%da%88%d8%b2-%da%a9%db%92-%d8%b3%d9%be%d9%84%d8%a7%d8%a6%d8%b1%d8%b2-%d8%b3%d9%85%db%8c%d8%aa-%da%af%d9%88/
ٹیسکو اور میک ڈونلڈز کے سپلائرز سمیت گوشت اور دودھ کے جنات 'اب بھی اگلی وبائی بیماری کو جنم دینے کا خطرہ ہے'
Tumblr media Tumblr media
دنیا کے سب سے بڑے کا دو تہائی گوشت اور ڈیری یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ فرمیں، بشمول ٹیسکو اور میکڈونلڈز کے سپلائی کرنے والے، اگلی وبائی بیماری کو روکنے کے لیے کافی کام نہیں کر رہے ہیں۔
غیر منافع بخش تنظیم Fairr Initiative نے فوڈ انڈسٹری کمپنیوں کو نئی بیماریوں کو ابھرنے کی اجازت دینے کے خطرے کے مطابق اسکور کیا ہے۔
رپورٹ، ایک کی طرف سے حمایت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن Covid ایلچی، جانوروں کی زراعت میں ہجوم، زیادہ تناؤ والے حالات کو بہتر بنانے میں ناکامی کو انفیکشن کے لیے ایک “مثالی افزائش گاہ” بنانے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
کمپنیوں کو جانوروں کے حالات، جنگلی رہائش گاہوں میں “جارحانہ تجاوزات” اور مزدوری کے طریقوں پر درجہ بندی کی گئی جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے کارکنوں میں بیماری پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
تحقیق نے 60 میں سے 38 جانوروں کی زراعت کی فرموں (63 فیصد) کو “ہائی رسک” قرار دیا، جس میں میکڈونلڈز اور ٹیسکو کو چینی فراہم کنندہ بھی شامل ہے۔
مطالعہ کے مطابق، سات بڑی گوشت فرموں میں سے کسی نے مطالعہ کیا، بشمول امریکی جنات نے، بیماری کی چھٹیوں میں اضافہ کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تاکہ کورونا وائرس میں مبتلا ملازمین کو کام پر جانے سے روکا جا سکے۔
اقوام متحدہ اور یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی دونوں کے ماہرین نے پہلے جانوروں یا جانوروں کی خوراک کو ابھرتی ہوئی بیماریوں کے ابتدائی نقطہ کے طور پر نشان زد کیا ہے، جیسے Covid-19.
دی اقوام متحدہ کا کہنا ہے۔ نئی وبائی بیماری کو جنم دینے والے عوامل میں جانوروں کے پروٹین کی مانگ میں اضافہ بھی شامل ہے۔ شدید اور غیر پائیدار کاشتکاری میں اضافہ اور جنگلی حیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور استحصال کے ساتھ ساتھ موسمیاتی بحران۔
گزشتہ سال جنوبی افریقہ کے سائنسدانوں نے خبردار کیا کہ سستی کی باقاعدہ فراہمی کا مطالبہ گوشت مستقبل بنائے گا وبائی امراض یہ بنائے گا Covid-19 وبائی بیماری “ڈریس ریہرسل” کی طرح نظر آتی ہے۔
نئی رپورٹ، ملٹی ٹریلین پاؤنڈ سرمایہ کاروں کے نیٹ ورک FAIRR کی طرف سے تیار کی گئی، جو کہ وبائی بیماری کے دو سال کو نشان زد کرتی ہے، کہتی ہے کہ جون 2020 میں 73 فیصد سے 63 فیصد معمولی بہتری ہے لیکن اس نے پھر بھی ظاہر کیا کہ اکثریت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
درجہ بندی میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی 10 کمپنیوں میں سے آٹھ کا تعلق ایشیا میں ہے۔
جب جانوروں کو پرہجوم حالات میں رکھا جاتا ہے، تو وہ وائرس کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں، اور تناؤ ان کے مدافعتی نظام کو کم کرتا ہے، جس سے پیتھوجینز جنگلی کی نسبت زیادہ آسانی سے پھیل سکتے ہیں۔
اینٹی بائیوٹکس کا باقاعدگی سے استعمال مزاحمت پیدا کرتا ہے اور جانوروں میں جینیاتی تنوع کم ہونا خطرے کے دیگر عوامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے لیے کووِڈ 19 کے خصوصی ایلچی ڈیوڈ نابارو نے کہا: “جانوروں اور انسانوں کے درمیان منتقل ہونے والی بیماریوں کے ظہور میں پچھلی دہائی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
“لہذا حکومتوں، شعبوں، اداروں، سول سوسائٹی، مقامی لوگوں، نوجوانوں اور بہت کچھ کی طرف سے مشترکہ کارروائی کی اہمیت، عالمی ادارہ صحت کی طرف سے بلائی گئی، وبائی امراض کی روک تھام اور متعدی بیماری کی عدم مساوات کا مقابلہ کرنے کے لیے نظام کو اپنانے کے لیے۔”
رپورٹ دیگر اقدامات کے علاوہ متبادل پروٹین میں تنوع کی حوصلہ افزائی کے لیے ضابطے کی سفارش کرتی ہے۔
دوسرے ماہرین پہلے خبردار کر چکے ہیں۔ انفیکشنز کی “کاک ٹیل” جس میں مرغیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، وبائی امراض کے پھیلاؤ کے لیے قریب قریب بہترین افزائش گاہ بناتا ہے۔
فیئر کے چیئر اور بانی جیریمی کولر نے کہا: “مارکیٹوں سے پیغام واضح ہے: سارس، سوائن فلو اور ایبولا کے بعد، CoVID-19 کو ریت میں ایک لکیر ہونا چاہیے۔
“بزنس معمول کے مطابق جانوروں کی زراعت کو اگلی زونوٹک وبائی بیماری کا خطرہ لاحق ہے، جس سے سرمایہ کاری کا ناقابل برداشت خطرہ ہے اور عالمی صحت عامہ کے لیے خطرہ۔
“جانوروں اور کارکنوں دونوں کی فلاح و بہبود کے حالات سے شروع کرتے ہوئے، شعبے کو تیزی سے بہتری لانی چاہیے۔”
لیگل اینڈ جنرل انویسٹمنٹ منیجمنٹ کے ایلکس بر نے کہا کہ یہ نتائج گوشت کی صنعت کے لیے ایک جاگ اپ کال ہونا چاہیے۔
آزاد Tesco اور McDonald’s دونوں سے تبصرہ کرنے کو کہا لیکن کمپنیوں نے اشاعت کے ذریعے کوئی جواب نہیں دیا۔
Source link
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
کاشتکاروں کو جدید زرعی رجحانات سے آگاہی فراہم کرنا ہوگی.ماہرین زراعت
کاشتکاروں کو جدید زرعی رجحانات سے آگاہی فراہم کرنا ہوگی.ماہرین زراعت
ماہرین زراعت نے کہا ہے کہ فصل کی تاخیر سے کاشت‘کھادوں کے بے وقت و غیر متناسب استعمال‘جڑی بوٹیوں کی کثرت‘ معیاری بیجوں کے عدم استعمال‘آبپاشی کے اوقات سے لاعلمی کے باعث گندم کی پیداوار اصل ہدف سے کم حاصل ہورہی ہے اورپاکستان میں گندم کی اوسط پیداوار 29من فی ایکڑ تک محدودہوکر رہ گئی ہے جس کے برعکس بیرون ممالک کے کاشتکار اورترقی پسند زمیندار جدیدزرعی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرکے 60من فی ایکڑ تک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
پاکستان ریورس گیئر پر کیوں؟
Tumblr media
جدید جمہوریہ ترکیہ 1923میں قائم ہوا لیکن اسکے قیام کے 32 سال بعد یعنی 1955ء میں جمہوریت کے سنہری اصول ’’ کثیر الجماعتی نظام‘‘ (اگرچہ 1945 میں کثیر الجماعتی نظام کے تحت انتخابات ہوئے لیکن اس وقت کے صدر عصمت انونو اور اسٹیبلشمنٹ کی دھاندلی کی وجہ سے ترکیہ میں ان انتخابات کو تاریخ پر ایک دھبہ سمجھا جاتا ہے) کے تحت پہلی بار صاف اور شفاف انتخابات کروائے گئے جبکہ پاکستان کے قیام کے پہلے ہی روز سے ڈیمو کریسی پر پوری طرح عمل درآمد شروع ہو گیا تھا تاہم قائد اعظم کے بعد پاکستان میں پارلیمانی نظام کامیابی سے نہ چل سکا اور صدارتی نظام اپنانے سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں 1961ء میں پاکستان میں قائم ہونے والے خلائی ادارے ’’سپارکو ‘‘ نے ایک سال بعد ہی 1962ء میں امریکہ کے تعاون سے خلا میں اپنا پہلا سیارہ روانہ کر کے بھارت کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں لیکن موجود دور میں بھارت نے چاند پر بھیجے جانے والا چندریان 3 مشن کامیابی سے لانچ کیا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کی شرح ترقی 7 فیصد، مینو فیکچرنگ میں 7 اور زراعت میں شرح ترقی 9 فیصد تھی۔ 
پاکستان دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن چکا تھا۔ پاکستان نے ساٹھ ہی کی دہائی میں جرمنی کو 12 کروڑ روپے قرض دیا تھا اور جرمن چانسلر نے اس مہربانی پر حکومت پاکستان کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا تھا۔ صدر ایوب ہی کے دور میں پاکستان میں پہلی بار سر پلس بجٹ پیش کیا گیا اور پاکستان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کے تحت بڑے پیمانے پر بیراج قائم کیے گئے۔ اسی دور میں پاکستان نے کوریا کو پانچ سالہ منصوبہ بنا کر دیا اور کوریا نے اس منصوبے پر مکمل طور پر عمل درآمد کرتے ہوئے ترقی کی راہ اختیار کی۔ ساٹھ کی دہائی سے لے کر نوے کی دہائی تک پاکستان تعلیم و تدریس، علم و سائنس اور آرٹ کے شعبے میں نہ صرف قرب و جوار کے ممالک بلکہ، ترکیہ، عرب ممالک اور افریقی ممالک کی آنکھوں کا تارہ بنا ہوا تھا اور ان ممالک کے طلبا و طالبات پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ (ترکیہ کی اعلیٰ شخصیات میں سے برہان قایا ترک اور علی شاہین نے پاکستان ہی سےاعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے)۔ 
Tumblr media
بدقسمتی سے اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور پاکستانی طلبا بڑی تعداد میں ترکیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی تک پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جسے’’ عروس البلاد ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور جس کی سڑکوں کو رات کو دھویا جاتا تھا دنیا کے پُر امن، خوبصورت ترین اور جدید ترین شہروں میں سے ایک تھا ، دنیا کی تمام بڑی بڑی ائیر لائنز کے کراچی میں دفاتر موجود تھے۔ پاکستان کے قومی ادارے (جب تک سیاست سے دور رہے ) ترقی کی معراج کو چھوتے رہے ۔ پی آئی اے جس کا موٹو تھا ’’باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں سے ایک تھی اور امریکی صدور تک اس ائیر لائن پر سفر کرنا اپنے لیے اعزا ز سمجھتے تھے۔ اُس وقت پی آئی اے ایشیا کی پہلی ائیر لائن تھی جس کے پاس جیٹ طیارے موجود تھے۔ پاکستان نے اسی دور میں دنیا کا خوبصورت ترین دارالحکومت تعمیر کیا اور جس کے بارے میں ترکیہ کے سابق صدر عبداللہ نے راقم سے بات چیت کرتے ہوئے ( مترجم ہونے کے ناتے) کہا تھا کہ’’اسلام آباد گرین پارک میں قائم کیا گیا دنیا کا خوبصورت ترین دارالحکومت ہے۔
ساٹھ ہی کی دہائی میں پاکستان کے صدر ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو امریکی صدر اپنی پوری کابینہ ، تینوں افواج کے سربراہان اور امریکی عوام نے ائیر پورٹ پر پہنچ کر جس جوش و خروش سے پاکستان کے صدر کا استقبال کیا اس سے دنیا پر پاکستان کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔ اسی کی دہائی تک پاکستان ٹیلی ویژن چینل کے ڈرامے اور پروگرام صرف جنوبی ایشیا کے ممالک ہی نہیں بلکہ ترکیہ میں بھی بڑے مقبول تھے اور پاکستانی ڈرامے ترکی زبان میں ڈب کر کے پیش کیے جاتے (راقم بھی کئی ڈراموں کا ترکی زبان میں ترجمہ کر چکا ہے) پاکستان نے ترکیہ کے نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ہی کو نہیں بلکہ ترکیہ کے ڈاک اور ٹیلی فون کے ادارے PTT اور بینکنگ سسٹم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں تکنیکی امداد فراہم کی۔ ترکیہ میں ترگت اوزال کے آزاد منڈی اقتصادی نظام اپنانے کیلئے بھی پاکستان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ترگت اوزال ہی نے اپنے ملک میں انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے فیصلے کے بعد برطانیہ یا مغربی ممالک سے نہیں بلکہ پاکستان کے انگریزی زبان کےاساتذہ کو مدعو کیا۔ 
نوے کی دہائی میں پاکستانی ماہرین نےترکوں کو کمپیوٹر کی ٹریننگ فراہم کی اور بعد میں ڈرون ٹیکنالوجی سے بھی متعارف کروایا۔ ترکیہ کے انگریزی ٹی وی چینل ٹی آر ٹی ورلڈ اور انادولو نیوز ایجنسی کے انگریزی شعبے کو پاکستانیوں ہی نے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد فراہم کی۔ پاکستان ہی نے ستر کی دہائی میں جب، مغربی ممالک نے ترکیہ کو دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے اسلحہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا توبڑی مقدار میں گولہ بارود فراہم کیا اور قبرص کی جنگ میں پاکستان کی مدد کو بھلا کون ترک بھول سکتا ہے؟ پاکستان ہی دنیا میں واحد ملک تھا جس نے قبرص کی جنگ میں ترکیہ کی کھل کر مدد کی تھی۔ یہ تھا ماضی کا پاکستان جو بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا مگراب افسوس ریورس گیئر پر ہے۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
risingpakistan · 8 months
Text
وہ دن دور نہیں جب بجلی مفت ملے گی : وسعت اللہ خان
Tumblr media
ضیا دور تک سنسر، کوڑے، تعزیر، مشائخ، الذولفقار، غیر جماعتی نظام، مثبت نتائج، ملٹری کورٹس، نشریاتی دوپٹہ جیسے الفاظ سے تو کان خوب مانوس تھے۔ مگر لوڈ شیڈنگ کس پرندے کا نام ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ یا واپڈا تھا یا پھر کے ای ایس سی۔ بجلی کبھی کبھار جاتی ضرور تھی مگر وارسک، منگلا، تربیلا کے ہوتے بجلی کم بھی پڑ سکتی ہے، یہ تصور ہی محال تھا۔ بلکہ اتنی اضافی بجلی تھی کہ نور جہاں اور ناہید اختر کے گانوں میں بھی بن داس استعمال ہوتی تھی۔ مثلاً ’جلمی جوانی رت مستانی تن من جلتا جائے دور ہی رہنا دل والو نزدیک نہ کوئی آئے‘، ’میں بجلی ہوں میں شعلہ ہوں‘ یا پھر ’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں جو مجھ کو چھو لے گا وہ جل جائے گا‘۔ یا پھر ’ہٹ جا پچھے کڑی توں اے کرنٹ مار دی اے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور جو بجلی فلمی شاعری سے بچ جاتی وہ شاہی قلعہ ٹائپ عمارات میں سیاسی قیدیوں کو جھٹکے دینے یا دو نمبر پیروں فقیروں کے ہاتھوں سائلین کے جن جھٹکانے میں صرف ہو جاتی۔ 
تب کے زمانے میں ڈسکو کا مطلب نازیہ حسن کا چارٹ بسٹر ’ڈسکو دیوانے‘ تھا۔ آج ڈسکو کا مطلب وہ بارہ برقی تقسیم کار نجی کمپنیاں ہیں جو ہم تک بجلی پہنچانے کے مرحلے میں صارف کو ڈسکو کرواتی ہیں اور پھر بھی کہتی ہیں کہ ’ساہنوں تے کچھ بچدا ای نئیں‘۔ نوے کی دہائی میں لوڈ شیڈنگ عوامی یادداشت کا حصہ بننے لگی اور آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس) کی اصطلاح بھی جلوہ افروز ہوئی۔ پہلی بار پتا چلا کہ نجی شعبہ محض بجلی سے چلتا ہی نہیں خود بھی صنعتی پیمانے پر بجلی بناتا ہے۔ جیسے جیسے آئی پی پیز آتی گئیں ویسے ویسے لوڈ شیڈنگ بھی بڑھتی گئی۔ 2008 میں دورِ مشرف کے خاتمے کے بعد زرداری حکومت آئی تو وزیرِ پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ دسمبر تک لوڈ شیڈنگ زیرو ہو جائے گی۔ مگر دسمبر کے بعد خود راجہ صاحب ٹوٹا ہوا تارہ ہو گئے۔ حتیٰ کہ جس دن 12 گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی اس روز عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔  نواز شریف کی تیسری حکومت 2013 میں اسی وعدے پر اقتدار میں آئی کہ لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ مگر یہ نہ انھوں نے بتایا نہ کسی اور نے پوچھا کہ کس بھاؤ ختم کریں گے؟ سرکار اتنے جوش میں تھی کہ جتنی قومی کھپت تھی اس سے دوگنی برقی پیداوار کا انتظام کر لیا۔ مگر اس زائد از ضرورت پیداوار کا کرنا کیا ہے، یہ نہیں سوچا۔
Tumblr media
واجبات کا بحران اتنا شدید تھا کہ میاں صاحب کے وزیرِ برقیات عابد شیر علی نے احکامات جاری کر دیے کہ کروڑوں روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی کی پاداش میں پارلیمنٹ، ایوانِ صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس اور وفاقی سیکریٹریٹ کی بجلی کاٹ دی جائے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ شریف حکومت نے بجلی اکٹھی کرنے کے لیے چینی و غیر چینی کمپنیوں پر دروازے کھول دیے۔ آج صورت یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی سازی کی گنجائش اکتالیس ہزار میگا واٹ مگر کھپت لگ بھگ اٹھائیس ہزار میگا واٹ ہے۔ جبکہ ٹرانسمیشن لائنیں اس قابل نہیں کہ اتنا بوجھ سہار سکیں۔ اوپر سے یہ بھی شرط ہے کہ بجلی استعمال ہو نہ ہو سرکار کو نجی کمپنیوں کو غیر استعمال شدہ بجلی کے بھی پیسے دینے ہیں۔ اس جنجال سے گردشی قرضے (سرکلر ڈیبٹ) کے عفریت نے جنم لیا۔ پیٹ بھر بھی جائے تو اگلے برس کمینا پھر اتنا کا اتنا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت گردشی قرضے کا حجم پونے تین ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔ گویا سرکلر ڈیبٹ وہ اژدھا ہے جس کی گرفت وقت کے ساتھ ساتھ اور کستی جاتی ہے۔
خود آئی پی پی پیز پر بھی گذشتہ برس تک بینکوں کے لگ بھگ اکتیس ارب روپے واجب الادا تھے۔ گویا ہر کسی کی گوٹ کسی اور کے ہاں پھنسی ہوئی ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پلانٹ یا ڈیم سے میرے گھر تک جو بجلی آ رہی ہے وہ ٹرانسمیشن کے دوران ضائع بھی ہو رہی ہے۔ اسے لائن لاسز کہا جاتا ہے۔ سالِ گذشتہ اس نقصان کا تخمینہ پانچ سو بیس ارب روپے لگایا گیا۔ اس نقصان میں جدت کاری کے ذریعے کسی حد تک کمی ممکن ہے مگر پیسے چاہییں۔ مزید سنگین مسئلہ یہ ہے جو بجلی لائن لاسز کے بعد صارف تک پہنچ رہی ہے اس میں سے بھی سالانہ تین سو اسی ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ اس میں اشرافیہ، صنعت، زراعت، عام صارف، خوانچہ فروش، بڑے بڑے شب گیر جلسے۔ غرض جس کا بس چلتا ہے ہاتھ رنگ لیتا ہے۔ ان تین سو اسی ارب روپے میں سے اسی ارب روپے کی بجلی میٹرنگ وغیرہ میں ہیرا پھیری اور باقی کنڈے کے ذریعے چوری ہو رہی ہے۔پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں چوری شدہ بجلی کے پیسے بھی بل دینے والوں کے کھاتے میں ڈال دیتی ہیں۔ گذشتہ برس تک بجلی چوری کی سب سے زیادہ شکایات مبینہ طور پر پیسکو کو موصول ہوئیں۔ صرف بنوں کے ایک گرڈ سٹیشن سے پانچ ارب روپے کی بجلی چوری ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔
ایک پورا زیلی کاروبار کنڈا ماہرین کی شکل میں پنپ رہا ہے۔ جبکہ بجلی کا باقاعدہ عملہ بھی شریک ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہر بھیڑ کالی نہیں پر ہر سفید بھیڑ بھی سفید نہیں۔ کہنے کو پاکستان دریاؤں، جھیلوں، پہاڑی چشموں کی سرزمین ہے۔ پھر بھی قومی پیداوار میں آبی بجلی کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ اٹھاون اعشاریہ اٹھ فیصد بجلی فرنس آئل، ایل این جی اور کوئلے وغیرہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئلے کی کچھ مقدار چھوڑ کے باقی ایندھن باہر سے منگوایا جاتا ہے۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ برس میں روپے کی قدر میں سو فیصد سے زائد گراوٹ کے سبب درآمدی ایندھن کی لاگت دوگنی سے زائد ہو گئی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں جوہری کارخانوں کا حصہ آٹھ اعشاریہ چھ فیصد اور ہوا اور شمسی توانائی کا حصہ چھ اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ حکومتوں کی خواہش تو بہت ہے کہ 2030 تک قدرتی ذرائع سے کم از کم بیس فیصد تک بجلی کشید کر لی جائے مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں اب بھی بجلی کی فی کس سالانہ کھپت چھ سو چوالیس کلو واٹ ہے۔ یعنی پاکستان ان گنے چنے ممالک میں آتا ہے جہاں بجلی کی کھپت عالمی کھپت کی اوسط کا محض 18 فیصد ہے۔ پھر بھی عام آدمی کی کمر ٹوٹ رہی ہے کیونکہ سب بے اعتدالیاں بل میں شامل کر دی گئی ہیں۔ سو روپے کی بجلی ٹیکسوں سمیت کم از کم دو سو روپے کی پڑ رہی ہے۔ چنانچہ جس کی تنخواہ 25 ہزار ہے اسے جب 45 ہزار روپے کا برقی ڈیتھ وارنٹ ملتا ہے تو ٹکریں مارنے، سڑک پر سینہ کوبی یا خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ شنوائی کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر ایک نہ ایک دن حکومت ہر آدمی کو مفت بجلی فراہم کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس کا آغاز کئی برس پہلے سے بجلی کی صنعت سے وابستہ ملازموں، بیورو کریٹس، عدلیہ، وزرائے کرام، دفاعی افسران، مخصوص صنعتی و کاروباری اداروں کو مفت یا محض پیداواری لاگت پر یا سبسڈائزڈ ریٹ پر بجلی فراہم کرنے سے ہو چکا ہے۔ ایک دن ہمیں بھی یہ رعایتیں مل جائیں گی۔ میری دعا ہے کہ یہ دن دیکھنے کے لیے چوبیس کروڑ پچانوے لاکھ لوگ کم از کم سو برس زندہ رہیں۔ آمین۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو  
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
پنجاب کے کاشتکاروں کو گندم کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کے لیے تصدیق شدہ بیج استعمال کرنے کا مشورہ
پنجاب کے کاشتکاروں کو گندم کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کے لیے تصدیق شدہ بیج استعمال کرنے کا مشورہ
ملتان: محکمہ زراعت پنجاب نے جمعرات کو کاشتکاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گندم کی بہتر پیداوار کے لیے صرف تصدیق شدہ بیج ہی استعمال کریں۔ زرعی ماہرین نے آبپاشی والے علاقوں کے لیے دلکش 21-، سبحانی21-، MH21، اکبر19، غازی19، بھکر سٹار، اناج 2017، زنکول 2016، بورلاگ 2016 اور اجالا 2016 اور گولڈ 2016، جنوبی پنجاب کے لیے جوہر 2016، مل 2016، مل 2016، 12012، جنوبی پنجاب اضلاع محکمہ نے گندم کے کاشتکاروں سے کہا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mwhwajahat · 2 years
Text
پیرمحل زرعی یونیورسٹی کے طلبہ کی زرعی ماہرین کے ہمراہ زیادہ گندم اگائو مہم کے سلسلے میں روڈ شواورریلی
پیرمحل زرعی یونیورسٹی کے طلبہ کی زرعی ماہرین کے ہمراہ زیادہ گندم اگائو مہم کے سلسلے میں روڈ شواورریلی
پیرمحل ( نمائندہ سچ کا ساتھ ) زرعی یونیورسٹی کے طلبہ کی زرعی ماہرین کے ہمراہ زیادہ گندم اگائو مہم کے سلسلے میں روڈ شواورریلی، کاشتکاروں کو گندم کی پیداواری ٹیکنالوجی سے روشناس کروائیں گے محکمہ زراعت پیرمحل کے زیر اہتمام زیادہ گندم اگائو مہم کے سلسلے میں زرعی یونیورسٹی سب کیمپس کے طلبہ میں پیرمحل میں روڈ شواور ریلی کا انعقاد کیا گیا جس کی قیادت چودھری محمد اکرم اسسٹنٹ ڈائر یکٹر زراعت توسیع ، محمد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
ماہرین زراعت کی گندم کی بہترین فصل کے حصول کیلئے پہلی آبپاشی کے ساتھ کمزور زمینوں میں دو بوری ڈی اے پی یاپانچ بوری سنگل سپر فاسفیٹ فی ایکڑ ڈالنے کی ہدایت
ماہرین زراعت کی گندم کی بہترین فصل کے حصول کیلئے پہلی آبپاشی کے ساتھ کمزور زمینوں میں دو بوری ڈی اے پی یاپانچ بوری سنگل سپر فاسفیٹ فی ایکڑ ڈالنے کی ہدایت
فیصل آباد (عکس آن لائن):ماہرین زراعت نے کاشتکاروں کو گندم کی بہترین فصل کے حصول کیلئے پہلی آبپاشی کے ساتھ کمزور زمینوں میں دو بوری ڈی اے پی یاپانچ بوری سنگل سپر فاسفیٹ فی ایکڑ ڈالنے کی ہدایت کی ہے ۔ ماہرین نے کہا کہ گندم کی فصل میں فاسفورسی کھاد اراضی تجزیہ کی روشنی میں استعمال کرنے سے گندم کے پیداواری اخراجات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ماہرین شعبہ ایگرانومی نے کاشتکاروں سے کہاہے کہ بوائی کے وقت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-news · 2 years
Text
آئی ایم ایف اور غریب ممالک
برٹن ووڈذ کانفرنس‘ جس کو عام طور پر‘ (United Nations Monetry and financial Conference) کہا جاتا ہے‘ یہ کانفرنس جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے وقت 1944 میں 1-22 جولائی کو امریکی ریاست نیو ہمپشائر کے شہر‘ برٹن ووڈز کے مائونٹ واشنگٹن ہوٹل میں منعقد ہوئی‘ کانفرنس میں اتحادی ممالک اور ان کے حمایتی 44 ممالک کے 730 مندوبین شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا مقصد دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد عالمی سطح پر نئی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں کو تیار کرنا تھا‘ بنیادی مسئلہ سامراجی طاقتوں کو یہ درپیش تھا کہ جنگ عظیم کی وجہ سے نوآبادیاتی طاقتوں‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ ہالینڈ اور اٹلی کی طاقت ختم ہو چکی تھی اوروہ اپنے زیر قبضہ نوآبادیات کو مزید غلام نہیں رکھ سکتے تھے‘ اب مسئلہ یہ تھا کہ ان نوآبادیات کو آزادی تو دینی تھی لیکن آزادی کے بعد ان کو معاشی طور پر کیسے پابند رکھا جائے‘ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد ایک ایسے عالمی اداروں اور نظام کا قیام تھا جو تیسری دنیا کے ممالک کو معاشی طور پر سامراجی طاقتوں کے کنٹرول میں رکھ سکے۔
پاکستان کے حکمران آج تک نہیں سمجھ سکے یا شاید سمجھنا نہیں چاہتے کہ آئی ایم ایف کا ادارہ کسی کی دوستی اور اس پر رحم کھانے کے لیے نہیں بنایا گیا‘ برٹن ووڈز کانفرنس کے نتیجے میں قائم تمام ادارے اور معاشی پالیسیاں صرف سامراجی مقاصد کے لیے بنائی گئی تھیں ‘آئیے آج ذرا آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کی امداد پر ایک نظر ڈالیں۔ آئی ایم ایف کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے  کہ حکومت کو زیادہ ٹیکس لگانے چاہیے تاکہ پبلک سیکٹر میں اخراجات کے لیے زیادہ سرمایہ جمع ہو سکے‘ افراط زر کو روکنے کے لیے آئی ایم ایف سخت اقتصادی پالیسیوں کو لاگو کرنے کی تلقین کرتی ہے‘ جس کی وجہ سے شرح سود میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں سکڑ جاتی ہیں‘ اس طرح افراط زر اور بھی بڑھ جاتا ہے‘  آئی ایم ایف کے ماہرین کے ہاں یہ خیال عام ہے کہ افراط زر میں کمی کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ترقی کے لیے افراط زر کی شرح کوئی معیار نہیں ہے۔
آئی ایم ایف اپنی امداد کے ساتھ جو دوسری شرائط عائد کرتا ہے‘ ان میں آزادانہ تجارت اور پرائیوٹائیزیشن پر زور دیا جاتا ہے‘ یہ دونوں شرائط غریب ممالک کی معاشیات کے لیے تباہ کن اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ اگر تجارت کو آزاد کیا جائے تو اس سے معاشی صورت حال میں استحکام آ جاتا ہے‘ ایک بڑا جھوٹ اور افسانہ ہے‘ جب یہ ممالک تجارت میں آزادانہ پالیسی اختیار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے ان ممالک کا استحصال بہت آسان ہو جاتا ہے۔  آئی ایم ایف غریب اور ترقی پذیر ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ آزادانہ تجارت کے لیے اپنی سرحدیں کھول دے‘ اس پالیسی کے اثرات ترقی پذیر ممالک کی زراعت‘ ماحولیات اور افرادی قوت پر منفی پڑتے ہیں‘ یہ پالیسی ایک استحصالی پالیسی ہے‘ جس وقت بھی ترقی پذیر ممالک اپنی سرحدیں تجارت کے لیے کھولتے ہیں‘ سب سے پہلے سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک کی مارکیٹوں پر قبضہ کر لیتی ہیں۔
بیرونی سرمایے پر زیادہ انحصار بہت ہی خطرناک ہوتا ہے‘ بیرونی قرضدار کبھی بھی کسی ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا نہیں دیکھ سکتے‘ مقامی صنعت تباہ ہو جاتی اور ملک بیرونی اشیاء کی منڈی بن جاتا ہے۔ آج کل پاکستان چین اور دیگر ممالک کے مال کی مارکیٹ بن چکی ہے اور اپنے ملک کی صنعت ختم ہو چکی ہے۔ پاکستان آج کل خطرناک حد تک قرضوں میں دھنسا ہوا ہے‘ سرمایہ داری نظام کے نئے وکلاء جو ”Neo liberals” کہلاتے ہیں ‘ان کے ایک دانشور Milton Friedman اس نظام کے حق میں ٹریکل ڈائون کا فلسفہ پیش کرتے ہیں‘ اس فلسفے کے مطابق سرمایہ دار انہ نظام میں یہ خوبی موجود ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جیسے جیسے دولت بڑھتی ہے اس کا بڑا حصہ ترقی پذیر ممالک کو منتقل ہوتا رہتا ہے‘ جب ملک میں سرمایہ دار کے پاس دولت زیادہ ہو جائے تو اس کا بہائو غریب طبقوں کی طرف ہو جاتا ہے‘ یوں پورے معاشرے میں دولت پھیل جاتی ہے اور عالمی سطح پر بھی غریب ممالک میں دولت کا پھیلائو بڑھ جاتا ہے‘ ابھی تک تو پاکستان میں یہ نظریہ ناکام نظر آتا ہے ۔
سرمایہ داری نظام کے پیشوا حضرات نے کسی ملک کی اقتصادی صورت حال بہتر بنانے کے لیے چند بنیادی اصلاحات کے اصول طے کیے ہیں‘ ان میں موثر مالیاتی نظام چلانے والے ادارے‘ امن و امان ‘ سرمایے کا تحفظ‘ مضبوط قانونی اور انتظامی ادارے‘ قانون کی سختی سے عمل داری‘ ملک کی مقامی صنعتوں کو تحفظ اور سب سے بڑھ کر ایک مضبوط سیاسی نظام جس کی قیادت واقعی ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی خواہشمند ہو۔ اگر پاکستان کے حکمران واقعی ملک کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہو گا۔ طرز حکمرانی تبدیل کریں‘ کرپشن روکنے کے لیے ریاستی اداروں کے سربراہان، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور دیگر اہم عہدوں کو دیے گئے صوابدیدی اختیارات ختم کرنا ہوں اور کرپشن روکنے کے لیے قوانین کو ابہام سے پاک کرنا ہو گا۔ عمران خان کو شوکت ترین جیسے وزیر خزانہ کی تلاش تھی‘ جب سے وزیر بنا ہے کوئی دن مہنگائی اور ٹیکس میں اضافے کے بغیر نہیں گزرتا‘ ویل ڈن ترین صاحب‘ وزیر اعظم کو خوش کر دیا۔
ہر روز صبح اٹھ کر یا رات کو سوتے وقت خبروں کی سرخیاں ضرور سنتا ہوں، ایسا کوئی دن نہیں جاتا کہ حکومت کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ نہ کرتی ہو‘ تحریک انصاف کی تو حکومت ہے لیکن اس کے ساتھ‘ باپ پارٹی‘ شیخ رشید ‘ مسلم لیگ (ق ) ‘ جی ڈی اے ‘ اور متحدہ قومی مومنٹ بھی بطور اتحادی کے اس مہنگائی کے سونامی لانے میں برابر کی حصہ دار ہیں۔ حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی اخباری بیانات کے سوا اس مسئلے پر عملی اقدام سے گریزاں رہتی ہیں۔ حکومت بڑے مزے سے قیمتوں میں اضافے پر اضافہ کر رہی ہے آج تک کبھی بھی اسمبلی میں اس مسئلے پر کوئی ٹھوس بات یا واک آئوٹ نہ ہو سکا۔ خبر آئی ہے کہ نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے ‘صوبے کے نام کی تبدیلی پر جشن منانے والوں سے فریاد ہے کہ پختونوں کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے کیا 18ویں ترمیم کے بعد بھی ہماری پیدا کردہ سستی بجلی ہماری قسمت میں نہیں ہے‘ آخر اس ترمیم کا فائدہ کیا ہوا؟۔
جمیل مرغز  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes