Tumgik
#لوگ
akksofficial · 2 years
Text
عمران خان کو سیلاب میں ڈوبا ملک اور لوگ نظر نہیں آ رہے ، اقتدار کی پوس کی پٹی آنکھوں پہ بندھی ہے ، وزیراطلاعات
عمران خان کو سیلاب میں ڈوبا ملک اور لوگ نظر نہیں آ رہے ، اقتدار کی پوس کی پٹی آنکھوں پہ بندھی ہے ، وزیراطلاعات
اسلام آباد (عکس آن لائن)وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عمران خان کو سیلاب میں ڈوبا ملک اور لوگ نظر نہیں آ رہے ، اقتدار کی پوس کی پٹی آنکھوں پہ بندھی ہے ،عمران خان کا حقیقی مسئلہ ذاتی انّا، تکبر خود پسندی، اقتدار کی ہوس اور کرپشن ہے،عمران خان صاحب جتنی اوقات ہے اْتنی بات کریں، ”کی جائے”اور ”کیا جائے” کا وقت ختم،عمران صاحب پہلے فیصلہ کریں آپ کا مسئلہ ہے کیا؟ بیرونی سازش ؟ حقیقی آزادی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
بارشوں سے آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی، کیونکہ لاکھوں لوگ پاکستان بھر میں امداد کے منتظر ہیں۔
بارشوں سے آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی، کیونکہ لاکھوں لوگ پاکستان بھر میں امداد کے منتظر ہیں۔
25 اگست 2022 کو صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور میں مون سون کی شدید بارشوں کے بعد پھنسے ہوئے لوگ سیلاب زدہ علاقے سے گزر رہے ہیں۔ – اے ایف پی پاکستان بھر میں جمعے کے روز ہونے والی مسلسل سیلاب اور بارش نے چاروں صوبوں بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں لاکھوں افراد کو پریشانی اور امداد کے منتظر کر دیا جہاں ایک ہی دن میں بے پناہ تباہی ریکارڈ کی گئی ہے۔ بارش کی وجہ سے آنے والے سیلاب نے بنیادی ڈھانچے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
”خطرہ ہے یہ لوگ کیسز ختم کروانے کے چکر میں ملک تباہ نہ کردیں“
”خطرہ ہے یہ لوگ کیسز ختم کروانے کے چکر میں ملک تباہ نہ کردیں“
اسلام آباد: چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ خطرہ ہے این آر او ٹو لیتے لیتے یہ ملک کو تباہ کریں گے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جیسے معیشت سنبھالنے کی کوشش کی ان کے پاس کوئی پلان نہیں تھا، ان کی حکمت عملی صرف اپنے خلاف مقدمات کا خاتمہ ہے، سب سے زیادہ خطرہ یہ ہے این آر او ٹو لیتے لیتے یہ ملک کو تباہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ariesvibe · 10 months
Text
.
10 notes · View notes
peghamnetwork-blog · 4 months
Text
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
 
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
masailworld · 1 year
Text
کیاعدت صرف بیوی پر ہے کیا باقی لوگ گھر سے باہر جاسکتے ہیں؟
کیاعدت صرف بیوی پر ہے کیا باقی لوگ گھر سے باہر جاسکتے ہیں؟
کیاعدت صرف بیوی پر ہے کیا باقی لوگ گھر سے باہر جاسکتے ہیں؟ مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔ امید ہے کہ مزاج بخیر ہونگے حضرت ایک سوال عرض ہے کہ ایک شخص انتقال کرگیا اس نے اپنی لڑکی کا رشتہ زمانہ حیات میں کردیا تھا لیکن اب وہ انتقال کرگیا ہے اس لئے ان کی بیوی عدت میں ہے اور شادی کی تاریخ عدت کے اندر پڑ رہی ہے اس لئے کچھ لوگ بول رہے ہیں کہ شادی کی تاریخ ٹال دی جائے لیکن رشتہ مشکل سے ملا اور اچھا ہے…
View On WordPress
0 notes
Text
کوڑھی کٹنیا مُنگراسَن آتنی آرپار بیٹھے گِرَست دانتی
سب کھیتی کاٹنے والے کو بڑی بڑی بولیاں ملتی ہیں اور جو بہت کام کرتے ہیں ان کو گرا پڑا ملتا ہے، بُرے لوگ اچھی حالت میں ہیں اور اچھے تکلیف میں
0 notes
quran0hadees · 2 years
Text
Tumblr media
دو قسم کے لوگ ہلاکت سے دو چار ہونگے
0 notes
barg-e-sehra · 2 months
Text
‏حیرت ہے کہ ہم لوگ بھی ٹھکرائے ہوئے ہیں
ہم جیسے تو سینوں سے لگانے کے لیے تھے
hairat hai k hum loag bhi thukraye howe hain
hum jaise to seeno'n se laganay k liye the.
108 notes · View notes
aashufta-sar · 8 months
Text
دے رہے ہیں لوگ میرے دل پہ دستک بار بار، دل مگر یہ کہہ رہا ہے صرف تو اور صرف تو
De rahe hain log mere dil pe dastak bar bar, dil magar yeh keh raha hai sirf Tu aur sirf Tu
— Fariha Naqvi فریحہ نقوی
Tumblr media
258 notes · View notes
akksofficial · 2 years
Text
اگلے مہینے جب لوگ نکلیں گے تو وہ کسی کے کہنے پر بھی واپس نہیں جائیں گے‘ شیخ رشید
اگلے مہینے جب لوگ نکلیں گے تو وہ کسی کے کہنے پر بھی واپس نہیں جائیں گے‘ شیخ رشید
راولپنڈی(نمائندہ عکس) سابق وفاقی وزیر داخلہ و عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے شہباز حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگلے مہینے جب لوگ نکلیں گے تو وہ کسی کے کہنے پر بھی واپس نہیں جائیں گے“کیا بیساکھیوں کے سہارے یا آئی ایم ایف کی خیرات سے حکومت چلائی جائے گی‘ 11اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت جتنا بھی زور لگا لے دنیا کی کوئی طاقت ان کو گھر جانے سے نہیں روک سکتی‘ موجودہ حکومت کے کرپٹ لوگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
عورت کو تو جنگ میں بھی قتل کی اجازت نہیں تم لوگ اسے محبت میں مار دیتے ہو
A woman is not allowed to be killed even in war, you people kill her in love
535 notes · View notes
ariesvibe · 10 months
Text
.
7 notes · View notes
forgottengenius · 3 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
masailworld · 2 years
Text
بائیکاٹ کے باوجود جو لوگ ظالم (زانی) سے رشتہ رکھیں؟
بائیکاٹ کے باوجود جو لوگ ظالم (زانی) سے رشتہ رکھیں؟
بائیکاٹ کے باوجود جو لوگ ظالم (زانی) سے رشتہ رکھیں؟ مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید کی بیوی ھندہ کو بکر بھگا کر لایا ہے اور ھندہ بے طلاق ہے اب بکر نے کسی مولوی سے جعل سازی کرکے نکاح پڑھوا لیا ہے کیا یہ نکاح درست ہے اور اب ھندہ حمل سے ہے تو گاؤں والوں نے بکر کا سماجی بائیکاٹ کردیا ہے اس کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بکر کو…
View On WordPress
0 notes
therealmehikikomori · 2 years
Text
حَجَام کا اُسْتُرَہ میرے سَر پَر بھی پِھرتا ہے ، تُمھارے سَر پَر بھی
میں اور تم ایک جیسے ہیں ، سب لوگ ایک جیسے ہیں ، یکساں برتاؤ کے موقع پر مستعمل.
0 notes