عشق_اور_حوس
شادی کے دو ماہ بعد میرے میاں تو فارن اپنی جاب پرچلے گئے ۔ اور میں ساس اور سُسرکے
ساتھ رہ گئی ۔ ہم ایک گراں، گاؤں یعنی پنڈ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اک دوجے
کو جانتا ہے ۔ بڑے شہروں میں تو ہمسائے کو بھی کوئی نہیں جانتا مگر پنڈ میں ایسا نہیں ہوتا
میرے میکے اور سسرالی سارے رشتہ دار تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے ہیں کئی کی تو
دیواریں بھی ایک ہیں ۔ دائیں طرف میری پھوپھی کا گھر تھا بائیں طرف میرے دیور کا
اسی طرح دائیں طرف تین گھر چھوڑ کر ایک بند گلی تھی جس میں میری نند رہتی تھی
أس گلی میں صرف تین گھر تھے ایک میری نند کا ایک اس کے جٹیھ کا اور ان کے سامنے
میری نند کے ساس سسر رہتے تھے وہ گلی میری نند کی سسرال کی ہی سمجھ لیں ۔ تفصیل
اس لئے دی ہے کہ جو واقعہ میں آپ لوگوں سے شئیر کرنے جا رہی ہوں وہ میری نند کے
جیٹھ کے متعلق ہے جو رنڈوا تھا شاھد 28سال سے زیادہ کا تھا ۔سب أسے چاچو کہتے تھے ۔ بلا کا نظرباز تھا اور کافی بدنام تھا ۔ رنڈوا تھا بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی اس نے نہیں کی تھی اور گھرمیں اکیلا رہتا تھا ۔ لوگوں میں اسکے بارے مشہور تھا کہ وہ عورتوں کی جنسی ضرورت پوری کرتا ہے اور ان سے کماتا ہے مگر یقین سے کوئی ایسا نہیں کہ سکتا تھا افواہیں سمجھی جاتی تھیں ۔ میں اکثر اپنی نند کے گھر جاتی تھی کیونکہ ایک تو وہ صرف چند سال بڑی تھی اور ہماری ایک دوجے سے خوب بنتی تھی دوسرا میری ساس ار سُسر بھی خوش رہتے کہ ان کی بیٹی سے اچھی بنارکھی ہے نند کے گھر سے پہلے اس کے جیٹھ کا گھر تھا اور وہ ہمیشہ دروازہ کھول کے اپنی ڈیوڑھی میں بیٹھا رہتا تھا۔ میں جب بھی نند کے ہاں جاتی اس کے گھر کے آگے سے گذرنا ہوتا اور وہ فورا أٹھ کر دروازے پر آجاتا تو حال احوال پوچھنے لگتا
کے حال نیں ، ول تے آہو ناں
میں ۔
شاھد تُسی دسو
وہ ۔ کوئی خط سط وی آوندا نیں کہ اوتھے دل لا گدا نیں
نہ بھی خط آیا ہوتا تو یہی کہتی کہ ایہ کل پرسوں آیا تے چاچو تساں کی سلام لکھیا نیں
وہ۔ ہلا ، تُو جواب دتا تے مینڈا وی لکھیناس ‘ جی چاچو کہہ کے آگے نند کے دروازے کی
طرف بڑھتی ۔ مجھے جن نظروں سے وہ دیکھتا اس میں ہوس صاف ظاھر ہوتی ۔ مرد کی نظر عورت پہچان جاتی ہے کہ وہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ میں آگے نند کے گھر کی جانب بڑھتی تو اس کی میلی نظروں کی حدت کولہوں اور کمر پر محسوس کرتی ۔ وہ تب تک دروازے سے جھانکتا رہتا جب تک میں نند کے گھر میں داخل نہ ہوجاتی ۔ خیر ۔ میں اس کو روزمرہ کی روٹین سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ۔
اردو اور پشتو کی خاص کہانیاں گروپ کی شاندار کہانی شاندار محفل
میرے میاں کو جب چھ ماہ سے زیادہ ہوگئے تو دن بدن میری فطری خواہش بڑھنا شروع ہوگئی اورعورت ہی جانتی ہے کہ مرد پاس نہ ہو تو کیسا عذاب جھیلتی ہےعورت ۔ چاچو عورت کے بارے کافی کُچھ معلومات رکھتا تھا اور اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب ایک دن نند کےگھر جاتے ہوئے أسے درازے پر کھڑا دیکھا تو میں نے اسے سلام بولا تو چاچو نے کہا
سیمو تھکی تھکی وی دسدی ایں خیر کوئی گل نہیں چار پنج دناں بعد تھکاوٹ وی أتر جانی
۔ اس دن مجھے پیریڈ شروع ہوئے دوسرا دن تھا اور اس کو میرا چہرہ دیکھ کے اندازہ ہو گیا ۔
جب کبھی میں ہارنی ہوتی تو نظروں میں نظریں ڈال کے کہہ دیتا کہ سیمو تے بڑی اوکھی اوکھی پئی دسنی اے تے سجن ماہی وی ُدور ۔ میں بات کو ٹال کے آگے بڑھ جاتی ۔ اسی طرح.یہ انٹرٹینمنٹ رومانٹک ناول خاص لوگ گروپ کے لیئے لکھی گئی.
چلتا رہتا ۔ وہ چونکہ اکیلا رہتا تھا خود تو گھریر کبھی کبھارہی پکاتا اور کھاتا سامنے کے گھر میں چونکہ اس کے والدین رہتےتھے تو ان کے پاس اورکبھی کبھار میری نند کے ہاں بھی
کھالیتا جس طرح عام طور پر ہوتا ہے کوئی اچھی ڈش بنائی جائے تو قریبی اور آس پاس
کے گھروں میں بھی شئیر کرتے ہیں اسی طرح ہم کوئی سپیشل ڈش وغیرہ بناتے تو چاچو
کو ضرور دیتے ۔ یعنی ہم سب گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ اچھی بنا کر رکھتے۔ اور عزیز
واقارب بھی قریب ہی رہتے مگر میرے ساس ُسسر اپنی بیٹی میری نند کی وجہ سے اس کی
سسرال کاخاص خیال رکھتے ۔ اور مجھے اپنی سُسرال کی خوشنودگی عزیز تھی ۔ ایک روز
مجھے خیال آیا کہ میں نے ٹانگوں کے بال کافی عرصہ سے صاف نہیں کئے جن کے خاوند
پاس ہوں تو باقاعدگی سے کرتی ہیں مگر پردیس گئے پیا کی پیاری سُستی کرجاتی ہے ۔
خیرمیں نے اچھی صفائی کی اور نہا دھو کر اک نواں جوڑا لا کے اپنی نند کے ہاں گئی۔ ہمارے گاؤں میں ان دنوں پردہ وغیرہ نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ ایک ہی برادری کے تھے ہم عورتیں اگر شہر جاتیں تو بُرقعہ لے لیتی تھیں خیر حسب معمول چاچو دروازے پر آگئے اور حال احوال پوچھا اور باتوں ہی باتوں میں کہنے لگے کہ سیمو کوئی عجیب جیہی مشک پی آوندی اے
میں نے کہا پتہ نہیں مجھے تو نہیں آرہی پھر مجھے خیال آیا سیمو مرجانی ایہ تے بال صفا
پوڈر کی بات کر رہا ہے میں تو ہکا بکا رہ گئی اور اس نے بات کو بدل دیا اور میرے نئے جوڑے کی آڑ میں میری تعریف کرنے لگے میں جلدی سے آگے نند کے گھر چلی گئی ۔ مگر میں کافی نروس بھی تھی اور چاچو کی بات سے کافی شرمندہ شرمندہ بھی اور خجالت محسوس کرنے لگی ، کچھ دیر بیٹھ کے اپنے گھر کو لوٹی تو چاچو دروازے پر ہی اٹکا ہوا تھا
جیسے میرا ہی انتظار کر رہا ہو کہنے لگا نظر بد دُور اج اپنی نظر ضرور اتارنا
میں نے کہا چاچو تسُی وی جو منہ اؤندہ کہہ دیندے او اور جلدی جلدی قدم بڑھا کر گھر آگئی
شام کو میری ساس نے کہا کہ اج تے گُڑ آلے چاولاں تے دل کردا پیا ، میں نے شام کو
گُڑ کے چاول یعنی میٹھے چاول پکائے اور اپنی نند کو دینے گئی تو چاچو جو کہ میری
نند کا جیٹھ لگتا تھا بھی ان کے گھر ہی کھانا کھا رہا تھا وہ کہنے لگا سیمو گُڑا الے چاول
تے مینو وی بڑے چنگے لگدے آ میں کہیا چنگا چاچو تساں وی دے ویساں ۔ گھر آکر کھانا
کھایا اورسریوں کے دن تھے بہت چھوٹے اور لمبی راتیں میرے ساس اور سُسر کھانے سے پہلے ہی عشاء کی نماز سےفارغ ہوگئے تھے اور اپے کمرےمیں چلے گئے تھے ۔ برتن رکھتے ہوئے مجھے یاد آیا چاچو کو تو چاول بھی دینے تھے ۔ اگرچہ اتنی زیادہ دیر نہیں ہوئی تٓھی مگر پنڈ میں تو مغرب کے بعد ہی سُناٹا ہوجاتا ہے میں نےسوچا چاچو کونسا سو گیا
ہوگا اسے چاول دے ہی آؤں ۔ میں نے سردی سے بجنے کےلئے شال لی اور مٹھےچاول چاچو کو دینے گئی ۔ گھر سے نکل کر مجھے خیال آیا ایک تو چاچو چھڑا چھانڈ اور پھر بدنام بھی
اور اگر اس وقت کسی نے اس کے دروازے پر کسی نے دیکھ لیا تو سیمو تیرے پلے کجھ وی
نہیں رہنا ۔ سوچا واپس جاؤں اور کل دن میں اسے چاول دے دونگی مگر پھر خیال آیا
کہ میں نے کونسا وہاں رکنا ہے اور گلی میں تین ہی گھر ہیں وہ بھی اپنے ہی کسی نے
پوچھا تو بول دونگی چاول دینے آئی ہوں اور چاچو کو اپنی نند کے سامنے میں نے بولا تھا
کہ دے جاؤں گی چول ۔ ہم چاول نہیں کہتے چول کہتے ہیں یہی سوچ کر چاچو کے دروازے
پر پہنچ گئی
چاچو کا دروازہ ناک کرنے ہپلے سے میں نے چیک کیا ، دروزاہ کھلا ہوا تھا ۔ آگے
ڈیوڑھی میں اندھیرا گُھپ ، میں نے چاچو کو دو تین بار آستہ آہستہ چاچو کہہ کر بلایا
مگر چاچو شاید اندرکمرے میں اور وہاں تک جانے کے صحن سے گذرنا پڑتا تھا ۔ اک
کمرے میں لالٹین کی روشنی کھڑکی کی درزوں سے جھانک رہی تھی میں نے آہستہ
آہستہ دروازہ ناک کیا تو چاچو کی آواز آئی ’ دروازہ کھلا سیمو اندر لنگ آ‘ میں حیران
ہوئی کہ چاچو کو کیسے پتہ چلا کہ میں دروازے پر ہوں اتنے تک چاچو دروازے پر تھا
بولا ’’کہ میں تمہارے چاولوں کی انتظار میں تھا ‘‘ میں نے پلیٹ چاچو کے ہاتھ میں دی
اور جانے کے لئے مُڑی کہ چاچو نے کہا ٹہر سیمو میں رسوئی میں چاول رکھ کر پلیٹ
تمہیں دیتا ہوں پہلے والے برتن بھی کافی اکٹھے ہوئے پڑے ہیں ، میں بھی ساتھ چلنے لگی
تو چاچو نے کہا تم رکو میں آتا ہوں اتنے میں چاچو جلدی سے کمرے سے جلا گیا اور
تھوڑی دیر میں واپس تو برتن اس کے ہاتھ میں نہیں تھے ۔
چاچو نے کہا ہاں سنا سیمو کوئی خط سط ، میں کہیا دیر ہوگئی میں صبح ہی برتن
لے لاں گی ۔ اور دروازے کی طرف بڑھی اس سے پہلے کہ میں دروازے سے نکلتی
چاچو نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور گلے لگانے کی کوشش کی ، مجھے بڑا غصہ
آیا اور میں نے جھٹکے سے بازو چھڑایا اور بولی چاچو تینو اینی جراءات کس طرح ہوئی
مجھےچاچو کی خراب نیت کا تو اندازہ تھا مگر مجھے یقین تھا کہ چاچو ایسی بے غیرتی نہیں
کرسکتا ۔ اب میں بے یقینی اور اور صدمہ کی کیفیت میں تھی کہ میں کس مصیبت میں
پھنس گئی ۔ اور باہر کی طرف دوڑی مگر چاچو تو کنڈی لگا چکا تھا ۔
میں نے چاچو کو بولا
دیکھ مجھے جانے دے نہیں تو تمہارے باپ کو بتاؤں گی اس کا باپ سامنے والے گھر میں
رہتا تھا اور پنڈ کا نمبردار تھا ، اس نے مجھے پیچھے سے کمر سے پکڑا اور اپنے طرف کھینچ کے اپنے سینہ سے لگا لیا ، میں کو شش کرنے لگی کہ کسی طرح اپنے آپ کو چُھڑاؤں
ایک خیال آیا زور زور سے شور مچاؤں مگر اس خیال سے رک گئی کہ اس طرح بدنامی تو میری ہی ہوگی اور میں کس طرح کسی کویقین دلاسکونگی کہ اتنی رات میں چاول دینے آئی تھی وہ بھی
ایک بدنام رنڈوے کو ۔ میں چاہتی تھی کوئی ایسی چیزمیرے ہاتھ لگ جائے جو چاچو کے سر
پر مار کر اسے بیہوش کرکے بھاگ جاؤں ۔ مگر کچھ آس پاس نہ تھا میں نے چھڑالیا یا
چاچو نے مجھے آذاد کیا کہ میں دوڑی دروازے کی طرف مگر یہ اندروٹھے کا دوازہ تھا
جو پٹ سے کھل گیا اور اندھیرا ہونے کی وجہ سےدہلیز کے ساتھ ٹھو��ر کھا کر میں اندروٹھے
کمرے میں جا گری ( ہماری طرف ایک کمرے کے آگے بھی کمرا بنا دیتے تھے پہلے وقتوں
میں یعنی ایک کمرے میں دو کمرے جن کا مین دروازہ ایک ہی ہوتا تھا ۔ اب شاید یہ رواج
نہیں رہا ۔ اب میں اٹھنے کی کو شش کر رہی تھی کہ چاچو نے پیچھے سے دبوچ لیا میں گھوڑی کی حالت میں تھی یعنی چاروں پاؤں پر اور چاچو مجھے لپٹنے کی ٹرائی کرنے لگا ، مجھے اپنے کولہو پر اس کا اوزارمحسوس ہو رہا تھا میں نے کوشش کی اور کھڑی ہوگئی مگر چاچو میرے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور اس کا ہتھیار میری ٹانگوں کے بیچ تھا میں نے چاچو کو بولا چاچو مجھے جانے دو ۔ دیر بہت ہوگئی ہے ۔ چاچو کچھ بولا نہیں مگر مجھے أٹھا کر پلنگ پر لٹا کر پھر مجھے دبوچ لیا ۔ چاچو کی کوشش تھی کہ کسی طرح میرا بوسہ لے مگر میں اپنے ہونٹ اس سے بچا رہی تھی گالوں پر تو اکا دکا چومیاں لے رہا تھا اور مجھے گلے سے لگا کربھینچ رہا تھا میں نے اسے گالیاں دینی شروع کردیں اور اپنے سے دور دھکیلنے لگی مگر زور ور تھا میں ایک کبوتری کی طرح پھنس چکی تھی وہ میرے مموں کو دبانے لگا اور جسم پر ہاتھ بھی پھیر لیتا ۔
اس کا نیولا سر أٹھا کر کسی سوراخ میں جانے کے لئے میری ٹانگوں کے بیچ ٹکڑیں مار
رہا تھا چاچو نےحرامزدگی کی کہ اپنی چادر دھوتی کھول کے نیچے پھینک دی اب وہ صرف
قمیض پہنے ہوئے تھا اور نیچے ننگا ۔ میں نے اچٹتی نظروں سے اسے دیکھا تو اتنا بُرا نہیں لگا ۔ اب اس نے میری شلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے سختی سے منع کیا مگر اس نے ایک نہ سُنی اور میرا ازار بند کھولنے میں کامیاب ہوگیا ۔ میں نے پھر باندھنے کی کوشش کی
کی اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ شلوار کے اندر ڈال دیا اورمیری ٹانگوں کے سنگم پر رکھدیا
میری منہ سے بے ساختہ سسکاری سی نکلی تو اسنے انگلی وہاں لپس پر پھیرنا اور مساج کرنا
شروع کردیا اب میں اسکے ہاتھ کو ہٹانے کی کوش کر رہی تھی اس کا دوسرا بازو میری کمر کو جکڑے ہوئے تھا اور اس کے ہونٹ برابر کوشش کررہے کہ کسی طرح میرے ہونٹوں تک رسائی حاصل کرلیں مگر میں برابر سر کو ہلا رہی تھی ۔ ادھر اس نے اب انگلی اندر ڈال کر
ہلانا شروع کی اورمیں اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کو کھینچنے لگی ۔مگر اسے ہٹانے کی بجائے دبا بیٹتھی دراصل اب میں شدت سے ٹرائی نہیں کر رہی تھی اور أس کا ٹچ اچھا لگنے لگا مگر میں نےأس پر ظاھر نہ ہونے دیا کہ ہارنا چاہتی ہوں ۔ اس نے یوں ہی مجھے جکڑے رکھا اور خود میری ٹانگوں میں آکر بیٹھ گیا میں نے پاؤں سے اسے دھکیلنےکی کوشش کی تو اس نے میری ٹانگوں کو قابو کرلیا
اب وہ میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھا تھا ۔ اور اس کا باز بڑےناز سے سر أٹھائے اپنے
شکار کی تلاس میں ادھر ادھر اوپر نیچے اپنی ایک آنکھ سے ڈھونڈھ رہا تھا ۔ میری شلوار کا آزار بند تو کھلا تھا مگر شلوار ابھی پہنی ہوئی تھی ۔ اب شاھد
مجھ پر لیٹ گیا اور لپٹ گیا
اس کے باز نے کُھلے ازار بند کا فائدہ أٹھایا اورسیدھا اپنےشکار سے جا ٹکرایا ۔ چاچو اسے
اوپراوپر سے رگڑنے لگا ۔ وہ مجھے خوار کرنے کی کوشش میں تھا اور میں نے بھی سوچ لیا
تھا کہ اس کو یہ باور نہیں کرنے دونگی کہ میں کمزور پڑ گئی ہوں ۔ مجھے اس کی رگڑ
اچھی لگ رہی تھی چھ ماہ سے زیاد بنا مرد کے ٹچ رہ رہی تھی اور ترس رہی تھی کسی کے مضبوط بازو۔ پیار بوسے شرگوشیوں اور زور دار جھٹکوں کے لئے ۔ چاچو نے میرے نیچے
سے اچانک شلوار کھینچ کر نیچے پھنک دی اب میں اس کے سامنے صرف قمیض میں تھی
نیچا دھڑ ننگا تھا ۔ چاچو کچھ دیر تو میری رانی کو دیکھتا رہا پھر اچانک أس پر جُھک کر
رانی کو چوم لیا ۔ أفف میری سسکاری سی نکل گئی میں نے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اوپر
کیا اور غصہ سے دیکھا ۔ أ س نے جواب میں کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ میری نظریں جھک گیئں یہ ایک قسم کا میرا سرنڈر تھا اس نے اسی جگہ کےدو چار بوسے اور لئے اور اچانک اس نے میری ٹانگیں اپنے شانوں پر رکھ لیں اور اپنے سالار کو میری راجدھانی پر اچانک حملہ کرکے ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ اندر کردیا میری راجدھانی اس حملے کے لئے تیار نہ اس کی دیواریں تک چھل گئیں۔ میں بمشکل اپنی چیخ روک پائی ۔ اب توچاچو اپنے سالار کو کبھی دائیں کبھی بائیں دوڑاتا میں اپنی لذت بھری سسکیوں کو روکنے کی ناکام کوشش کررہی تھی ۔ اور سر کو ادھر أدھرپھینک رہی تھی میری آنکھیں بند تھیں اور میں سُرور کی حدیں چُھو رہی تھی اس کا سالار کافی تجربہ کار تھا اور ہر اس کونے میں چوٹ لگاتا جہاں جہاں لگانے کی ضروت تھی آخ کار اس نے راجدھانی پر فتح کاجھنڈا گاڑ دیا اور اس خوشی میں سوغات کی بوچھاڑ کردی ۔
مجھے اس وقت جاجو بہت اچھا لگا میں نے اسے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف جھکایا اور اپنے لب اس کے ہونٹوں پر رکھ دئیے جنہیں اس نے خوب چوسا وہ میرے ساتھ ہی لیٹ گیا اور کہنےلگا سوری ۔ میں کچھ نہ بولی اب کچھ بولنےکو شاید کچھ بچا ہی نہ تھا ۔ ہم دونو یوں ہی لیٹےرہے چاچو کچھ کہنے کی کوشش میں رہا مگر میں کسی اور ہی دنیا میں تھی چاچو میرے مموں سےکھیل رہا میں یوں لیٹی رہی کہ چاچو کے نفس نے میری ران کو ٹچ کیا وہ دوبارہ نیم ا یستادہ ہوچکا تھا میں نے اسے چھونا چاہا مگر ایک جھجھک تھی سوچا چاچو کیا سوچے گا ۔ چاچو نے میرے ہاتھ کو بڑھتے او رکتے ہوئےمحسوس کر لیاتھا اس نے میرا ہاتھ اپنےہاتھ میں لے کر دو چار بوسے دیئے اور پھر میرا ہاتھ اپنے شہزادے پر رکھ دیا میں نے شرماتے ہوئے اسے ہاتھ لگایا تو شہزاد ے نے سر اٹھالیا میں نے اس کو ہاتھ میں لے لیا اور ہولے ہولے دبانے لگی ۔ وہ مست ہونے لگا اور جھومنے لگا ۔ وہ اپنی شہزادی سے ملنے کےلئے بے چین نظر آرہا تھا ۔ چاچو میرے نپل چوسنے لگا مجھے بہت مز آرہا تھا میں نے چاچو کو پیچھے دھکیلا اور خود أٹھ کر بیٹھ گئی ۔ چاچو بھی سیدھا ہو کر لیٹ گیا میں اس کے اوپر بیٹھ گئی ۔ شہزادےکو اپنےہاتھ میں لے کر اس پر شہزادی کو ٹکایا اور شہزادے کا سر اس پر پھیرنے لگی پھر شہزادی کو شزادے کے اوپر آستہ آہستہ دبانے لگی اور شہزادی کے اندر پھسلتے ہوئے جانے لگا جب مجھے محسوس ہوا
کہ شہزادہ گھر پہنچ چکا ہے میں چاچو کے اوپر جُھکی اور اسے چومنے لگی اس کے گال
گردن ہونٹ اس کے بالوں بھری چھاتی کے نپل اور ساتھ ساتھ شہزادے کے اوپر شہزادی کو
ہلاتی چاچو نے میرے ہونٹ چوسنےشرو ع کردیئے اور ہاتھوں سے میرے ممے دبانا
مجھے بہت سواد آرہا تھا اب کسی قسم کاڈرنہیں رہا تھا تھوڑی دیر میں میں فارغ ہوگئی
چاچو کو اشارہ کیا اور خود نیچے لیٹ گئی مگر
شاھد نے مجھے گھوڑی بنادیا
اور ایک بار پھر اس نے زبردست انٹری دی ۔ چاچو نے خوب ارمان نکالے اور میری
چولیں تک ہلا ڈالیں آخرکار شہزادے نےشہزادی کا اندر بھرکر خراج ادا کیا ۔
میں نے شلوار پہن لی اور چاچو کو بولا اب جانے دو ۔ چاچو بولا سیمو اینا مزہ
فر کدوں میں کہیا جدوں فر صفائی کیتی اودوں ۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے شکرہے میرے ساس سُسر سوگئے تھے میں باتھ روم میں گئی
تو رانی کو ہاتھ لگا کر دیکھا بیچاری سُوج گئی تھی چاچوکا پہلا وار ہی اس کا کام کر گیا تھا
آج صبح جب اسے صفا کر رہی تھی خیال و خواب میں بھی نہ تھا کہ آج شام کواس کی مانگ
بھری جائیگی اورمن کی مراد پوری ہوگی ۔
چاچو سے پرامس کیا تھا جب بھی صفائی کی تومزہ دونگی اور لوں گی ۔ اور جب تک وہاں ریی ہفتہ میں صفائی ضرور کرتی رہی اور جب صفائی کرکے چاچوکے پاس سے گذرتی تو اس کو مشک آجاتی کہ رات کو دروزہ کُھلا رکھنا ہے....
ختم شد
10 notes
·
View notes
𝐀𝐦𝐚𝐳𝐢𝐧𝐠 𝐅𝐫𝐞𝐞 𝐁𝐨𝐨𝐤 گیان گنگا𝐣
جاننا چاہیے
● تمباکو کا استعمال کبیرہ گناہ ہے۔
نشہ تباہ کرتا ہے۔
● ہماری انسانی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟
● تخلیق کی تخلیق۔
● خدا اعلیٰ کون ہے، وہ کہاں رہتا ہے، کیسے پایا جاتا ہے؟
● ہمیں اپنی زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟
● اولیاء اللہ نے انسانی زندگی کو "نایاب" کیوں کہا ہے؟
📚🇬🇾🇦
غیر حل شدہ سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے کتاب پڑھیں
سنت رامپال جی مہاراج کی تحریر
💢 "🅶︎🆈︎🅰︎🅽︎ 🅶︎🅰︎🅽︎🅶︎🅰︎" 💢
𝐅𝐫𝐞𝐞 👉 قرآن اور بائبل - تمام صحیفوں سے ثابت روحانی علم کی شاندار کتاب
حکم دیا
آرڈر کرنے کے لئے بالکل مفت رہنے کا طریقہ
▪️ آپ کا نام -................
▪️ والد کا نام - ................
مکان/گلی نمبر/وارڈ نمبر- ................
▪️شہر/گاؤں - ................
▪️ پوسٹ آفس - ................
▪️ضلع -................
حالت - ................
▪️پن کوڈ -................
▪️ موبائل نمبر ,
کمنٹ باکس میں دیں۔
یا اپنی پرائیویسی کو یقینی بنانے کے لیے نیچے دیے گئے گوگل فارم پر جائیں اور اپنی تفصیلات پُر کریں۔
👇👇👇👇👇
🍁🍁 گیان گنگا🍁🍁
https://docs.google.com/forms/d/e/1FAIpQLSfyXnZc7AHa6Pfo_nrTCZeFpcNz_7WmQdHoh0sXucThAwJb0w/viewform?usp=sf_link
🎁 نوٹ
▪️▪️ یہ کتاب ہمارے تمام صحیفوں پر مبنی ہے۔
▪️ اگر آپ پہلے آرڈر کر چکے ہیں تو دوبارہ آرڈر نہ کریں۔
▪️ کوئی چارج نہیں کتاب بالکل مفت حاصل کریں۔
اگر آپ کا نام، پتہ، موبائل نمبر درست ہے تو ہم یہ کتاب آپ تک پہنچانے کی ضمانت دیتے ہیں۔کتاب 30 دن کے اندر آپ تک پہنچائی جائے گی۔
▪️اس کتاب کو پڑھنے سے تمام برائیاں دور ہو جاتی ہیں۔
▪️
4 notes
·
View notes
بهابهي اور بهابهی کی امی
پارٹ 02
بھابھی میرے اوپر سے اٹھ کر کھڑی هوتے هوے بولیں نہی میں نیکال لونگی بھابھی نے کولڈ ڈرنک نیکال کر مجھ دیتے هوے میرے ساتھ بیٹھ گیں بھابھی میرے ساتھ تج هو کر بیٹھیں تھیں بھابھی کی ران میری ران کے ساتھ اور بھابھی کی گانڈ بھی میرے ساتھ ٹچ تهی بهابهی کولڈرنک پیتے هوے بولیں خالد تم موتھ نہ لگا یا کرو اس سے تم کو کمزوری هو جاے گی میں نے کہا بھابھی موٹھ نہ ماروں تو کیا کروں آپ کو دیکھ کر لن کھڑا هو جاتا هے بهابهی اوے بے شرم بھابھی کو ایسی نظر سے کیوں دیکتھے ہو کہ لن کھڑا هو جاتا هے میں نے کہا اب کیا کروں کوئی گرل فرینڈ تو ہے نہی تو اس وجہ سے آپ کو ہی دیکتها هون بها بهى مطلب گرل فرینڈ نہی ھے تو بھابھی کو دیکھ کر موٹھ ماروگے گھر میں امی بھی تو ہیں کیا انکو بھی دیکتھے ھو میں نے کہا ہاں بھابھی آپ دونوں کو دیکھ کر لن کھڑا هو جاتا هے بهابهی اوف خالد تم تو بہت ہی بے شرم هو گھر کی عورتوں کو چودنے کے چکر میں ھو میں نے بھابھی کی ران پر ہاتھ رکتھے هوے کہا بھابھی گھر میں چودنے کے کافی فائده هے بهابهی وہ کیا هے میں بولا ایک بدنامی کا ڈر نہی ھوتا اور دوسرے جب موقع ملے چودای کر لو بھابھی واہ خالد بہت بوشیار هو اسکا مطلب پوری پلاننگ سوچی هوى هے میں نے ران پر ہاتھ پھرتے هوے کہا بهابهی آپ تو میری انڈیل هو بهای تو خوش نصیب ہیں کہ انکو آپ جیسی سیکسی بيوى ملى هے بهابهی لیکن تمهاری بهای تو بلکل بھی سیکسی نہی ہیں میں نے کہا وہ کیسے بھابھی نے میرا ہاتھ اپنی ران سے بتاتے هوے کہا بتا دونگی ابھی پیشاب کر کے آتی ہوں اے سی سلیپر میں باتھ روم کیبن کے اندر هی هوتا هے بهابهي باته روم چلی گیں میں ٹرین سے باھر کے منظر دیکھنے لگا ٹریں حیدرآباد پہچنے والی تھی جبھی کیبن کا دور ناک هوا کیبن کا ڈور اوپن کیا تو ٹکٹ چیکر تھا اس نے ٹکٹ چیک کیا اور چلاگیا میں نے کیبن کا دروازہ لاک کیا تو بھابھی بھی باتھ روم سے باھر آگیں بھابھی بولیں خالد كون آیا تھا میں نے کہا بھابھی ٹکٹ چیکر تها بهابهی بولیں اب کھانا کب کھانا ہے میں بولا بها بهى حیدرآباد آ رها هے ابھی کھانا ہے تو بتادیں مجھے تو بھوک نہی هے بهابهی بولیں ٹھیک ہے بعد میں کھالینگے تم ایسا کرو ایزی هو جاو اور تمھارے بیگ میں جو شاپر تھا
وہ بھی مجھے دے دو میں نے سیٹ کے نیچے سے بیگ نیکالا اور بھابھی کا کپڑوں کا شاپر بھابھی کو دیا اپنا تراوزر نیکالا بهابهی بولیں تم باتھ روم میں چینج کر لو میں بھی یہ چینج کر لوں میں اپنا ٹراوزر لے کر باتھ روم میں چلا گیا صرف بنیان اور ٹراوزر میں جب باتھ روم سے باھر آیا تو حیرت کے مارے میری آنکھیں کھلی هوی تھیں بھابھی نے نیث کی نائٹی پہنی هوی تهی نائٹی کے نیچے بریزر اور پینٹی کچھ بھی نہی تھی نائٹی میں سے بھابھی کے ممے اور پھدی صاف نظر آرهی تهی بهابهی مجھے ایسے دیکتھے هوے اوے کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رھے ھو میں نے کہا بھابھی آپ تو واقعی بہت سیکسی جسم کی مالک ہو اوف کیا ممے ہیں بھابھی بولیں اب میں دیکتھی ہوں تم کتنی گرم هو بھابھی کو نائٹی میں دیکھ کر لن تو جھوم گیا اور ٹراوزر میں انگڑای لے کر کھڑا ہو گیا بھابھی کا فگر کمال کا تھا بھابھی مجھے دیکھے بولیں اوے خالد میں جی بھابهى بهابهی بولیں یار ای سی تیز چل رھا مجھے تو ٹھنڈ لگ رھی هے میں بھابھی کے پاس بیٹهتے هوے بولا ابھی آپ کو گرم کردونگا بھابھی نے اپنا هاته میری ران پر پہرتے هوے کہا تو گرم کرو نہ منع کس نے کیا هے يہ كہتے هوے بھابھی نے مجھے اپنے گلے لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے نرم ملائم گلابی ہونٹ رکھ دے زندگی میں پہلی دفہ کسی عورت کے ہونٹ میرے ہونٹ سے ٹچ ہوے تھے اس کا مزا ہی الگ ہے ہونٹوں کو ٹچ کرتے ہی میں نے بھابھی کو اپنے ساتھ لیپٹا لیا بھابھی کے ثانثٹ ممے میرے سینے سے دبے هوے تھے ہم دونوں ایک دوسرے کے ہونٹوں کو ایسے چوس رہے تھے جیسے صدیوں کے پیاسے هوں بھابھی نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی تھی اب ہم دونوں ایک دوسرے کی زبانوں کو چوس رھے تھے زابان چوسنے کا بھی الگ مزا ہے بھابھی مجھے لپٹى هوى ہونٹوں اور زبان کی چوسای کا مزا لیتے هوے بولیں خالد تم تو واقعی میں بہت گرم ہو
اور یہ کہتے هوے میرے لن کو ٹراوزر کے اوپر سے پکڑتے هوے بولیں جس دن تمھارا
لن پہلی دفہ دیکھا تھا اسی دن یہ سوچ لیا تو کہ تم سے پھدی مروانگی تمهارا لن تو
تمهاری بهای سے بڑا اور موٹا ہے بھابھی نے باتوں باتوں پر لن تراوزر سے باھر
نیکال لیا تھا اور لن اب بھابھی کے چوڑیوں والے نازک ہاتھ میں بہت مزا دے رھا
تها بهابهی لن کو سہلاتے هوے بولیں خالد جانی تمهارا لن تو بہت شاندار ہے میں
نے کہا بھا بھی جب پھدی میں لو گی تو اور مزا آے گا بھابھی نے میرے ہونٹوں سے
اپنے ہونٹ بتاتے هوے کہا جانی ابھی اسکا چوپا لگا کر بتاتی ھوں كيسا هے بهابهی
سیٹ سے اوٹھ کر نیچے بیٹھ گی اور میری ٹانگیں کھول کر بولیں خالد تمھارے لن دیکھ کر گدھے کا لن یاد آگیا هے بہت جاندار لن هے بس آج کے بعد اس لن کی موٹھ نہی مارنا جب بھی مارنا تو پھدی مارنا یہ کہتے هوے بهابهی نے میرا لن اپنے منہ میں لے لیا اوف پہلی دفہ لن کسی عورت کے منہ میں گیا تھا میرے منی سے ایک زور دار سسکی نکلی بھابھی مجھے دیکھ کر مسکراتی هوی بولیں جانی مزا آیا میں نے کہا بھابھی اور چوسو بھابھی نے یہ سنتے ہی لن منہ میں لے لیا اور لن کا چوپا لگانے لگیں بھابھی نے منہ سے لن نکالتے هوے کہا جانی یہ ٹراوزر اتار دو میں کهڑا هوا تو بھابھی نے میرا ٹراوزر اتار دیا اور کھڑے ہو کر میری بنیان بهی اتار دی اب میں بھابھی کے سامنے ننگا کھڑا تھا بھابھی نے مجھے سیٹ پر بیٹھنے کا کہا میں بیٹھ گیا تو بھابھی نے پھر میرے لن کو منہ میں لے کر چوپا لگا با شروع کر دیا میں بھابھی کے سلکی بالوں میں ھاتھ پھرتے هوے بولا بهابهی لو يو مزا آگیا بهابهی بولیں جانی ابھی تو کھیل شروع هوا هے آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے
بهابهی بولیں خالد تمھارے کنوارے لن کا جوس بہت ٹیسٹی اور مزے دار ہے میں نے کہا بهاى كا نبى هے بهابهی بولیں جانی اس میں تو جان ہی نہی ھے وہ تو مہنہ میں ایک بار ہی کھڑا ہوتا یہ باتیں ابھی چھوڑو اور مجھے کنوارے لن کا مزا لنے دو میں بولا بھابھی ایسا نہ کرنا کہ منہ میں ہی فارغ کردو بهابهی بولیں اوے بس 2 منٹ چوپے لگانے دو پھر موٹا لن ڈالو اور ایسے چدائی کرو کہ چوتڑوں کی آواز پورے کیبن میں پھیل جائے میں نے کہا بھابھی آپ بے فکر هو جان اگر بڑا بھای آپ کی پھدی نبی مارتا تو چھوٹا بهای هے نہ اپنی بھابھی کی پھدی مارنے کے لیے یہ سنتے ہی بھا بھی نیچے سے اٹھ کر میری گود میں میری طرف منہ کر کہ بیٹھ گی اور میرے چہرے اور ہونٹوں کو چوسنے لکیں نیچے سے اپنی گانڈ میرے لن پر رگڑتی ہوے بولیں جانی تیری بھابھی کی پھدی بھی جوان اور ٹکڑے لن سے مروانے کے لیے تڑپ رهی هے بهابهی بہت جوش میں اور گرم تھیں نیچے سے اپنی گانڈ اور پھدی سے لن کو رگڑ رہی تھیں اور اوپر سے اپنے ممے میرے سینے دبا کر مجھے ٹائٹ کر کے کسنگ کر رہی تھیں ہم دونوں فرینچ کسنگ کے مزے لے رھے رہے ایک دم بھابھی میرے اوپر سے اٹھ کر کھڑی ہو گیں اور اپنی نائٹی اتار کر میرے سامنے ننگی کھڑی ہو گیں اور ایک پیر سیٹ پر رکتھے ہوے بولیں جانی بھابھی کی پھدی کا جوس ٹیسٹ نہی کرو گے بھابھی کی پھدی بالوں سے صاف گیلی چیکنی پھدی جس کے ہونٹ اس میں ملے هوے اور نیچے کی طرف تھی جیسے کسی کنواری لڑکی کی هو لگتا هے بهای نے پھدی زیادہ نہی ماری تهی بهابهی کی چکنی پھدی دیکھ کر مجھ سے بھی نہی رہا گیا ارو میں نے آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ بھابھی کی گرم پھدی پر رکھ دے اور بھابھی کی پھدی کا جوس پینے لگس بهابهی میرے سر کو اپنی پھدی پر دباتے هوے آه اووووف اوه جانی چوس اپنی بھابھی کی پھدی اه تو وه خوش نصیب هے جو میری پھدی کا جوس پی رها هي آه اووووووف مرگی پھدی کھول کر اندر زبان ڈال بهابهی اپنی پھدی مرے منہ میں دبارھی تھیں میں نے بھی پھدی کھول کر زبان بھابھی کی پھدی میں ڈال کر اندر کردی بھابھی کی سسکیاں تیز ھو رھیں تھیں ٹرین کی آواز اتنی تھی کہ بھابھی کی آواز باهر نبی جا سکتی تهی بهای پهدی چوسواتے هوے میرے منہ میں فاعغ هو گیں اور ہانپتے هوے سیٹ پر لیٹ گیں بھابھی کا سانس تیز تیز چل رها تها بهابهی کا منہ سیکس کہ وجہ سے لال انار ھو رھا تھا میں تھوڑا سائڈ پر هوا اور بھابھی سیٹ پر سیدھی لیٹ گیں اور اپنی لال آنکھوں سے مجھے دیکتهے هوے بولیں اوے تم تو سیکس ماستر هو پھدی چوسنے میں میرا یہ حال کر دیا ہے جب پھدی مارو گے تو کیا بنے گا
میرا میں بولا بھابھی یہ سب انگلش فلموں نے مجھے ماسٹر بنا دیا هے بھابھی بولیں چل اب بھابھی کے ممے بھی چوس دیکھ میرے نپل کتنے ثائث هو رہے ہیں میں بھابھی کے اوپر آیا اور بھابھی کے 36 سائز کت ممے دبانے لگا بھابھی کے نپل ابھی زیادہ بڑے نبی تھے بھابھی کے لائت بروان نپل جو کھڑے هوے تھے منہ میں لے کر چوسنے لگا بھابھی کے نپل منہ میں جاتے ہی بھابھی نے کہا اوہ خالد ہاں ایسے چوس مزا آگیا جانی اوف اوه اه اه اوف واو لو یو جانی بهابهی پھر گرم هوگیں تھیں بھابھی بولیں جانی اب لن ،،،،،،،،،، پھدی میں ڈال دے اب چود اپنی بھابھی کو اوف بھابھی نے اپنی ٹانگیں کھولیں ایک ٹانگ سیٹ سے نیچے کی اور اپنے ہاتھ سے لن کو پھدی پر سیٹ کیا اور بولیں خالد دھکا مار اور لن کو پھدی کے اندر کردے میں تو پہلے ہی تیار تھا اور ایک جھٹکا مارا اور پورا لن بھابھی کی پھدی میں اتارر دیا بھابھی اوے آرام سے میں بولا بهابهی پهدی اندر سے اتنی گیلی تھی کہ پورا چلا گیا بھابھی میری پھدی نے پہلی دفہ تو اتنا موڑا اور لنمبا لن لیا ہے ابھی دھکے نہی مارنا تھوڑا پھدی کا درد كم هو جاے میں نے لن پھدی میں ہی رکھا اور بھابھی کے ممے دبانے لگا بھابھی کے بونٹ چوسنے لگا کچھ دیر کت بعد بھابھی کو سکون ملا تو بھابھی بولیں خالد اب چود
اینک بھابھی کو بس پھر میں ٹھورا اوپر ھوا اور لن پھدی کے اندر باہر کرنے لگا
ترین اپنی پوری رفتار سے چل رھی تھی اور ٹرین کے اندر دیور بھابھی کی چودای
بھی اپنی رفتار سے ھو رھی تھی میں پورے جوش کے ساتھ بھابھی کی چودای کر رها تھا بھابھی نے مزے کی شدت سے گالیاں دینا شروع کردی تھیں اوف بہن چود مار پھدی اور تیز میں نے کہا بھابھی ابھی بہن چود تو نہ کہیں بہن کو تو نہی چودا بهابهي اوه تجهے بہن چود بھی بناونگی تجھے مادر چود بھی بناونگی تو گھر میں سب کو چودے گا تیری بہن اور ماں بھی بہت گرم ہے ایک دن آے گا تو انکی پھدی بھی مارے گا میرے شہزادے آہ چود بہن چود آج بھابھی کی پھدی پھاڑ دے اپنے کنوارے لن سے آہ بھابھی اپنی گانڈ اٹھا کر اپنی پھدی مروا رہی تھیں بھابھی کی پھدی اندر سے بہت گرم ھو رھی تھی بھابھی نے لن باهر نیکالا اور گھوڑی بن گیں اپنے دونوں ہاتھ سیٹ پر رکھے اور بولیں جانی اب پیچھے سے گدھے کی طرح میرے اوپر چڑھ کر پیچھے سے پھدی مار میں بھابھی کے پیچھے آیا اور پھدی میں لن ڈال کر بھابھی کے اوپر چڑھ گیا اور ایک زور دار چودای شروع کر دی چلتی ٹرین میں چودای کا مزا ہی کچھ اور ہے اے سی سلیپر کے کیبن میں بھابھی اور دیور کی چودای عروج پر تھی ٹرین کے چلنے کی آواز میں چودای کی آوازیں مکس هو رهيں تھیں چودای کی تھپاتھپ اور ٹرین کی آواز ایک عجیب سماں بانده رهی تهی بهابهی مزے کی بلندیوں کو چھوتے هوے پاگل ھو رھی تھیں او چود اور چود پھدی کی گرمی نیکال جانی اپنی بھابھی کی پیاس بھجادی مار پهدی اوه تری بهای میں تو دم هي نهي هي اوه ميرے راجا آج سے تو میرا شوهر هی بهابهی زور زور سے اپنی گانڈ آگے پیچھے کر کے پھدی مروا رہی تھیں میرے دونوں ہاتھ بھابھی کی گانڈ پر تھے گانڈ کو پکڑ کر لن کو پھدی کے اندر باھر کر رھا تھا اے سی چلنے کے باوجود ہم دونوں پسینے سے بھیگے هوے تھے اے سی چلنے کا احساس هي نبى هو رها تها اب بهابهی بهی تھک گیں تھیں اور بھابھی نے ایک زور دار سسکی لیتے هوے اینک گانڈ سے میرے لن کو دبا دیا اور پھدی نے بھی اندر لن کو پکڑ لیا بھابھی فارغ هو رهي تھیں بھابھی کے فارغ هوتے هی میری بھی بس هوگی میں نے کہا بھابھی میں بھی فارغ هو رها هوں بھابھی بولیں جانی پهدى ميں فارغ هو جاو تمھارے کنوارے لن کی منی سے میری پھدی کو ٹھنڈا کرو میں نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور بھابھی کی گرم پھدی میں فارغ هوا اوه بهابهی کی پھدی نے میرے لن کو دبا لیا تھا اور میرے لن کو نیچوڑ رہی تهی لن پھدی میں پھنسا ہوا تھا آج پہلی دفہ لن اتنی گرم پھدی میں اپنا پانی نیکال رها تھا ہم دونوں تھک ہار کر برتھ پر لیتے هوے تھے ہماری سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں
کہ پتہ نہی کتنے کلومیٹر بھاگ کر آرہے ہیں ٹھوڑی ریر بعد جب نارمل هوی تو بهابهی اٹھ کر بیٹھ گیں ٹرین بھی اس ٹائم روہڑی ریلوے اسٹیشن پر رک رهی تهی بھابھی مجھے گلے لگاتے هوے بولی اور بدمعاش اپنی بھابھی کی تو بجادی اب تو یہ پھدی تیرے لن کی دیوانی هوگی ہے تم تو بہت گرم هو اب تو تمهاری موجیں روز اپنی بھابھی کو چودنا میں اور اب کبھی مٹھ نہی مارنا سمجھے تم فکر نہی کرو اس لن کو تمھاری بہن اور ماں کی پھدی میں بھی ڈلواونگی میں نے کہا بھابھی یہ کیسے ہوگا بھابھی بس یہ تم مجھ پر چھوڑ دو گھر کے لن بر سب کس حق هے یہ کہتے هوے بهابهی باتھ روم چلی گیں بھابھی پیشاب کرکے آیں اور بولیں بہن چود ایسی پھدی ماری کے پیشاب کرتے هوے بھی درد هو رها هے دیکھ پھدی سوج گی میں نے پھدی پر ہاتھ پھرتے هوے کہا جان چودای و بی هوتی هے جس میں پھدی سوج جای بهابهی واہ جی پهدی ماسٹر چلو تم بھی پیشاب کرکے او یہ میں لن پکڑ کر کرواں میں بولا بھابھی لن پکڑ کر کروادو بہت مزا آے گا بھابھی چلو ابھی خود کرو جب تک میں کھانا نیکالتی ھوں میں باتھ روم گیا پیشاب کرکے باهر آیا ہم دونوں نے کھانا کھایا ٹرین اب روهری اسٹیشن سے چل پڑی تھی ہم نے کھانا کھایا کھانے کی بعد ہم دونوں ایک ساتھ ننگے برتھ پر ایک دوسرے سے لیپٹ کر لیٹ گے بھابھی نے اپنی ایک ٹانگ میرے اوپر رکھی ھو تھی میں نے اوپر سے بھابھی کو اپنے ساتھ لگا یا هوا تها بهابهی کے ممے میرے سینے سے دبے ہوے تھے اور ہونٹ ایک دوسرے کت بوبتوں کے ساتھ جڑے هوے تھے بھابھی میرے بالوں میں ہاتھ پہرتے هوے بولیں جانی تم تو کمال کا چودتے ھو میں نے کہا بھابھی آپ بھی تو پھدی کمال کی مرواتی ہو آپ بھی بہت گرم اور سیکسی هو بهابهی نے پھدی کو لن پر دبستے هوے بولیں جانی تم کو بھابھی کی پھدی نے مزس دیا میں نے بھابھی کو کس کرتے هوے کہا جان میری سوچ سے بھی زیادہ مزا ملا بھابھی کی پھدی مارنے میں بھابھی نے مجھے ٹائٹ سے لیپٹا لیا بهابهی پهر گرم ھو رھیں تھیں بھابھی نے مجھے دوبارہ پیار کرنا شروع کردیا تها میرا لن بھی کھڑا ہو کر بھابھی کی پھدی کو ٹچ کر رها تھا بھابھی لن کے ساتھ پھدی کو ملاتے هوے بولیں جانی کیا موڈ ہے لن تو پھر پھدی مارنے کو تیار ہے میں نے کہا جی بھابھی اور پھر ہم دونوں ایک اور مزے دار چودای کے لیے تیار ھو گے ہمیں اس ٹائم حوش آیا جب ترین ملتان اسٹیشن سے نیکل رھی تھی صبح کا اجالا نیکل آیا تھا بھابھی کی تین دفہ جم کر چودای کی ٹائم کا پتہ ہی نہی چلا بھابھی اوے چلو اب ملتان سے ایک گھنٹہ کا سفر ہے اب باقی چودای ساہیوال جا کر چلو تیاری کرو ہم دونوں باتھ روم کے فریش ھو کر کپڑے پہنے بھابھی نے بھی دوسرے کپڑے پہنے ہم دونوں نے سامان پیک کیا اور ساہیوال آنے کا انتظار کرنے لگے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
5 notes
·
View notes