Tumgik
#سلطنتیں
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
Tumblr media
دھرتی کے سپوت راجہ پورس-
------ ۔سکندر اعظم یونان سے نکلا وہ اپنے لشکر سے تیں گناہ بڑے لشکروں سے لڑا اس نے ایران کے بادشاہ دارا کو شکست دے وہ ایران و عراق قتح کرتا ہوا افغانستان پہنچا وہ افغانستان کو قتح کرنے کے بعد پنجاب پہنچا جہاں اس کا سامنہ سپتا سندھو پنجاب کے عظیم حکمران راجہ پورس پنجابی ۔پورس پنجابی دی گریٹ سے ہوا ۔پنجابی پورس اپنی فوج سے تیں گناہ بڑے فوج کو دیکھ کر زرا نہ گھبرایا ۔پنجابی شان سجائے آگے بڑھا اور سکندر سے جنگ کی ۔یہ جنگ کون جیتا کیا ہوا کیا نہیں ہوا ۔تاریخ میں کوئی کہتا ہے کہ پنجابی پورس یہ جنگ جیتا اور سکندر مارا گیا ۔تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جنگ سکندر جیتا اور جانے وقت اس نے راجہ پورس کو اس کی سلطنت واپس کر دی ۔جاتے ہوئے بخار ہوا ۔بخار کی وجہ سے مر گیا ۔اصل میں یہ جنگ پنجابی پورس نے جیتی تھے ۔سکندر کو ضرب لگی جو برداش نہ کر سکا اور مر گیا ۔آگر یہ جنگ سکندر جیتا تھا تو پنجاب سے آگے کیوں نہیں بڑھا؟؟اگر اس نے پنجابی پورس کو اس کی سلطنت واپس کر دی تھے تو دارا کو کیوں نہیں کی؟؟عراق و افغانستان کے بادشاہوں کو ان کی سلطنتیں واپس کیوں نہیں کیں؟؟؟اصل میں پنجابی پورس سے سکندر کو موہن کی کھانی پڑی تھی ۔اس لئے پنجاب سے ہی مارا ہوا واپس کیا تھا ۔یہ ہے پنجابی قوم کے عظیم حکمران راجہ پورس پنجابی داستان جو اپنے لشکر سے تین گناہ لشکر سے لڑا اس کو عبرت ناک شکست دی ۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ شروع میں پورس کے ہاتھیوں کی وجہ سے سکندر کی فوج کی اور رتھوں کی نقل و حرکت سست رہی۔ لیکن پورس کے تیر اندازوں کے پاس لمبی کمانیں تھیں جنہیں زمین پر ٹیک کر چلانا پڑتا تھا ۔ جنگ کے روز بارش کی وجہ سے زمین پھسلواں ہو چکی تھی ۔ اسطرح اس کے تیر انداز غیر موثر ہو گئے اور یوں آہستہ آہستہ سکندر کا پلڑا بھاری ہوتا گیا ۔ اوپر سے پورس کی رتھیں وزنی تھیں اور وہ بارش کے باعث میں کھب کھب جاتی تھیں ۔ اسکے برعکس سکندر کے تیر انداز بھاگتے گھوڑوں پر سے تیر چلاتے تھے ۔ وہ پورس کے تیر اندازوں کے مقابلے میں جب چاہتے پینترا بدل لیتے تھے اور مختلف اطراف سے حملہ کر دیتے تھے پھر اسکی رتھیں بھی ہلکی پھلکی تھیں اسلئے نقل و حرکت میں بہت آسانی تھی ۔ پورس کی فوج ڈٹ کر اور جم کر لڑ رہی تھی لیکن سکندر کی سکھاٰئی ہوئی چال کے مطابق اسکے پیادہ سپاہیوں نے پورس کے ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ دیں جو پلٹ کر خود اپنی ہی فوجوں کو روندنے لگے۔ دونوں طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے پنجابی فوج کا ایک ایک سپاہی کٹ گیا یا زخمی ہو گیا۔پورس کو اس حالت میں گررفتار کیا گیا کہ میدان جنگ میں کھڑا پنجاب کا عظیم سپوت آخری آدمی تھا اور اس کے بدن پر تیروں اور تلواروں سے لگے زخموں سے خون بہہ رہا تھا ۔
پورس کو سکندر کے سامنے لایا گیا تو گو کہ لہو لہان تھا لیکن اسکا سر بلند تھا اسکی آنکھوں میں بدستور چمک تھی اور اسکے چہرے پر کوئی پریشانی نہ تھی ۔سکندر نے اسے اپنے برابر بٹھایا ،دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور پورس کا علاقہ اس کے پاس رہنے دیا ۔تاریخ دان سکندر اور پورس کی جنگ کو برابری کی جنگ قرار دیتے ہیں ۔ گو کے پورس کے ہاتھیوں نے بلاآخر اسکی اپنی فوج کو ہی روند ڈالا مگر انہی ہاتھیوں نے ابتدا ء میں ہزاروں یونانیوں کو بھی کچل کر رکھ دیا ۔ سکندر کی فوج اس لڑائی کے بعد سخت دل برداشتہ ہو گئی تھی ۔سکندر نے دراصل مصلحت کے تحت ہی پورس کو دوست بنایا تھا ورنہ وہ مہینوں کی محنت کے بعد اور ہزاروں ساتھیوں کی جانیں گنوا کر ہاتھ آئے علاقے کو کون واپس کرتا ہے؟
وہ بددلی جو پورس کے ساتھ اس جنگ نے یونانی فوج میں پھلائی تھی جلد ہی رنگ لانے لگی ۔ جب سکندر بیاس کی جانب بڑھا تو دریا کے دوسرے ایک اورپنجابی فوج کو مزاحمت کے لئے تیار کھڑا دیکھ کر اس کے سپاہیوں اور سپہ سالاروں نے بلکل ہی دل چھوڑ دیا اسطرح پانچ دریاوں کے دیس میں ڈٹے ہوئے پنجاب کے جواں مردوں نے سکندر اعظم کا رخ واپس یونان کی طرف موڑ دیا واپسی پر پنجاب کے ایک اور لشکر سے سکندر کی جھڑپ ہوئی جس سے ایک تیر سکندر کو لگا جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا اور یوں ایک پنجابی کے ہاتھوں لافانی دیو تاؤں کی طرح آسمانوں پر جگمگانے والا سکندر پیوند خاک ہو گیا،
1 note · View note
tohfa-e-qalandar · 2 years
Photo
Tumblr media
بسم اللہ الرحمن الرحیم مولای صل وسلم دائما ابدا علی حبیبک خیر الخلق کلھم حضرت سید غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں”یاد رکھو ! رحمٰن کے دوست وہی ہیں جو سختیاں اُٹھاتے ہیں، فرمانبرداری، اطاعت میں چست ہیں۔اللہ کی نعمت پر شاکر ہیں اور خلوص عقیدہ کی خلعت پہنتے ہیں۔وہ اللہ کے خاص بندے ہیں۔دُنیا کی عزت اور دولت سے بالکل بے پرواہ ہیں۔قبر کے عذاب، اس کی تنگی اور قیامت کے دن حساب کتاب اور تنہائی کے خوف سے بے نیاز ہیں، کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ بہشت میں رہیں گے اور ہر طرح کی نعمتوں سے ان کا وقت خوشحالی میں گزرے گا۔بہشت کی سب لطیف چیزیں ان کی خواہش کے مطابق اُنہیں ملیں گی۔ان سب طرح کے لوگوں سے تو مخالفت کر رہا ہے۔دُنیا کی راحت اور نعمت پر متکبر ہو رہا ہے اور اس بات سے غافل ہے کہ تجھ سے پہلے تیرے ہی جیسے ناز پروردہ سب دُنیا سے رخصت ہو گئے۔تم بھی اس فانی دُنیا سے رخصت ہو جاؤ گے ۔کیسے کیسے ذی مرتبہ اور جاہ و جلال والے بادشاہ گزرے ہیں۔جیسے فرعون، ہامان، قارون، شداد، عاد ، قیصر و کسریٰ وغیرہ، یہ سب فنا ہو گئے۔زمانے نے اُنہیں چھوڑ دیا، دُنیا نے اُنہیں دام فریب میں پھنسا لیا۔شیطان نے اُنہیں اللہ تعالی سے غافل کر دیا تھا، اُن کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔وہ اپنے لئے سامان راحت جمع کرنے لگے تھے۔یہاں تک کہ اچانک قضا آگئی، دم بھر میں آنکھیں بند کر کے چل بسے۔ ان کی سلطنتیں تباہ ہو گئیں، مال خزانہ جاتا رہا، آرام کرنے کے لئے نرم اور ملائم بستر سب چھن گئے۔جن گھروں کو انہوں نے مضبوط قلعے سمجھ رکھا تھا، اُن سے نکال دئیے گئے، ملک ، دولت، اور عزت جس پر وہ متکبر ہو رہے تھے، ان کے عوض میں ذلت و خواری پائی۔اور جو امارت ان کے سپرد کی گئی تھی اس کے بارے میں جوابدہی ہو گی۔اور جن چیزوں سے منکر تھے وہ سب اللہ کی طرف سے اُنہیں مل گئیں، یعنی عذاب۔اُن کے افعال بد کی انھیں خبر ہو گئی۔اس دنیائے فانی میں جو کچھ انہوں نے کمایا تھا۔اس پردیس میں لڑتے جھگڑتے رہے۔ایک دوسرے کا حق چھینا، نتیجہ یہ ہوا کہ حاکم ازلی کے ہاں تنگی اور سختی کے ساتھ گرفتار کر کے لائے گئے۔جیسا کہ دُنیا میں یہ لوگ دوسروں کو ناحق قید کرتے تھے، انھیں مصیبت میں ڈال کر بڑے بڑے عذاب دیتے تھے۔اسی طرح ان کو بھی عذاب دیا گیا۔اللہ نے اُنہیں دوزخ میں ڈالا۔ان کے ہاتھ پاؤں دوزخ میں جلائے، گردنوں میں آگ کے طوق ڈالے، پاؤں میں آگ کی زنجیریں، جوتیوں کے ہار پہنائے گئے ان کا منہ کالا کیا گیا۔زقوم اور ضریع کو ان کی خوراک بنایا گیا جو ایک قسم کے بڑے کڑوے کانٹے ہیں۔ https://www.instagram.com/p/CaReYYWMVh7/?utm_medium=tumblr
0 notes
warraichh · 2 years
Text
دقیانوس کی سرگزشت
عام فہم زبان میں دقیانوس پرانی اور قدیم سوچ کے انسان کو کہا جاتا ہے ۔ دقیانوس دراصل ایک رومن شہنشاہ تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ککے کوئ دو سو برس بعد حکمران ہوا۔ اس وقت اکثریت عیسائ مذہب اختیار کرچکی تھی اور لوگ رومن دیوی دیوتائوں اور بت پرستی سے بیزار ہو چکے تھے۔ دقیانوس نے بزور طاقت زبردست رومن مزہب اور بت پرستی کو رائج کرنا چاہا۔اسی کے زمانے میں اصحاب کہف کا واقعہ بھی پیش آیا۔ اصحاب کہف دقیانوس کے خوف سے ہی غار میں چھپ گئے تھے۔۔ دقیا نوس نے کیونکہ ایک متروک اور جہالت بھرے مزہب کو دوبارہ لاگو کرنا چاہا تھا اس لئے اس کا نام ایک محاورہ یا پہچان بن گیا ایسے لوگوں کے لئے کہ جو پرانی اور جہالت کی رسموں اور سوچ کے حامی ہوتے ہیں۔
دقیانوس اور اصحاب کہف۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال بے حد خراب اور نہایت ابتر ہو گیا۔ لوگ بت پرستی کرنے لگے اور دوسروں کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ خصوصاً ان کا ایک بادشاہ ”دقیانوس”تو اس قدر ظالم تھا کہ جو شخص بت پرستی سے انکار کرتا تھا یہ اُس کو قتل کرڈالتا تھا۔
اصحابِ کہف کون تھے؟:۔اصحابِ کہف شہر ”اُفسوس”کے شرفاء تھے جو بادشاہ کے معزز درباری بھی تھے۔ مگر یہ لوگ صاحب ِ ایمان اور بت پرستی سے انتہائی بیزار تھے۔ ”دقیانوس”کے ظلم و جبر سے پریشان ہو کر یہ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لئے اُس کے دربار سے بھاگ نکلے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہوئے اور سو گئے، تو تین سو برس سے زیادہ عرصے تک اسی حال میں سوتے رہ گئے۔ دقیانوس نے جب ان لوگوں کو تلاش کرایا اور اُس کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ غار کے اندر ہیں تو وہ بے حد ناراض ہوا۔ اور فرط غیظ و غضب میں یہ حکم دے دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار اُٹھا کر بند کردیا جائے تاکہ یہ لوگ اُسی میں رہ کر مرجائیں اور وہی غار ان لوگوں کی قبر بن جائے۔ مگر دقیانوس نے جس شخص کے سپرد یہ کام کیا تھا وہ بہت ہی نیک دل اور صاحب ِ ایمان آدمی تھا۔ اُس نے اصحاب ِکہف کے نام اُن کی تعداد اور اُن کا پورا واقعہ ایک تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق کے اندر رکھ کر دیوار کی بنیاد میں رکھ دیا۔ اور اسی طرح کی ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرادی۔ کچھ دنوں کے بعد دقیانوس بادشاہ مر گیا اور سلطنتیں بدلتی رہیں۔ یہاں تک کہ ایک نیک دل اور انصاف پرور بادشاہ جس کا نام ”بیدروس” تھا، تخت نشین ہوا جس نے اڑسٹھ سال تک بہت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اُس کے دور میں مذہبی فرقہ بندی شروع ہو گئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اُٹھنے اور قیامت کا انکار کرنے لگے۔ قوم کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ رنج و غم میں ڈوب گیا اور وہ تنہائی میں ایک مکان کے اندر بند ہو کر خداوند قدوس عزوجل کے دربار میں نہایت بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری کر کے دعائیں مانگنے لگا کہ یا اللہ عزوجل کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما دے تاکہ لوگوں کو مرنے کے بعد زندہ ہو کر اٹھنے اور قیامت کا یقین ہوجائے۔ بادشاہ کی یہ دعا مقبول ہو گئی اور اچانک بکریوں کے ایک چرواہے نے اپنی بکریوں کو ٹھہرانے کے لئے اسی غار کو منتخب کیا اور دیوار کو گرا دیا۔ دیوار گرتے ہی لوگوں پر ایسی ہیبت و دہشت سوار ہو گئی کہ دیوار گرانے والے لرزہ براندام ہو کر وہاں سے بھاگ گئے اور اصحابِ کہف بحکم الٰہی اپنی نیند سے بیدار ہو کر اٹھ بیٹھے اور ایک دوسرے سے سلام و کلام میں مشغول ہو گئے اور نماز بھی ادا کرلی۔ جب ان لوگوں کو بھوک لگی تو ان لوگوں نے اپنے ایک ساتھی یملیخاسے کہا کہ تم بازار جا کر کچھ کھانا لاؤ اور نہایت خاموشی سے یہ بھی معلوم کرو کہ ”دقیانوس”ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ رکھتا ہے؟ ”یملیخا”غار سے نکل کر بازار گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر میں ہر طرف اسلام کا چرچا ہے اور لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔یملیخا یہ منظر دیکھ کر محو حیرت ہو گئے کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟کہ اس شہر میں تو ایمان واسلام کا نام لینا بھی جرم تھا آج یہ انقلاب کہاں سے اورکیونکر آگیا؟
پھر یہ ایک نانبائی کی دکان پر کھانا لینے گئے اور دقیانوسی زمانے کا روپیہ دکاندار کو دیا جس کا چلن بند ہوچکا تھا بلکہ کوئی اس سکہ کا دیکھنے والا بھی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ دکاندار کو شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو کوئی پرانا خزانہ مل گیا ہے چنانچہ دکاندار نے ان کو حکام کے سپرد کردیا اور حکام نے ان سے خزانے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی اور کہا کہ بتاؤ خزانہ کہاں ہے؟ ”یملیخا” نے کہا کہ کوئی خزانہ نہیں ہے۔ یہ ہمارا ہی روپیہ ہے۔ حکام نے کہا کہ ہم کس طرح مان لیں کہ روپیہ تمہارا ہے؟ یہ سکہ تین سو برس پرانا ہے اور برسوں گزر گئے کہ اس سکہ کا چلن بند ہو گیا اور تم ابھی جوان ہو۔ لہٰذا صاف صاف بتاؤ کہ عقدہ حل ہوجائے۔ یہ سن کریملیخا نے کہا کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کا کیا حال ہے؟ حکام نے کہا کہ آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ ہاں سینکڑوں برس گزرے کہ اس نام کا ایک بے ایمان بادشاہ گزرا ہے جو بت پرست تھا۔ ”یملیخا” نے کہا کہ ابھی کل ہی تو ہم لوگ اس کے خوف سے اپنے ایمان اور جان کو بچا کر بھاگے ہیں۔ میرے ساتھی قریب ہی کے ایک غار میں موجود ہیں۔ تم لوگ میرے ساتھ چلو میں تم لوگوں کو اُن سے ملادوں۔ چنانچہ حکام اور عمائدین شہر کثیر تعداد میں اُس غار کے پاس پہنچے۔ اصحاب ِ کہف ”یملیخا” کے انتظار میں تھے۔ جب ان کی واپسی میں دیر ہوئی تو اُن لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ شاید یملیخا گرفتار ہو گئے اور جب غار کے منہ پر بہت سے آدمیوں کا شور و غوغا ان لوگوں نے سنا تو سمجھ بیٹھے کہ غالباً دقیانوس کی فوج ہماری گرفتاری کے لئے آن پہنچی ہے۔ تو یہ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ ذکر ِ الٰہی اور توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے۔
حکام نے غار پر پہنچ کر تانبے کا صندوق برآمد کیا اور اس کے اندر سے تختی نکال کر پڑھا تو اُس تختی پر اصحاب ِ کہف کا نام لکھا تھا اور یہ بھی تحریر تھا کہ یہ مومنوں کی جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس بادشاہ کے خوف سے اس غار میں پناہ گزیں ہوئی ہے۔ تو دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے ان لوگوں کو غار میں بند کردیا ہے۔ ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی یہ غار کھلے تو لوگ اصحاب ِ کہف کے حال پر مطلع ہوجائیں۔ حکام تختی کی عبارت پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اور ان لوگوں نے اپنے بادشاہ ”بیدروس” کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ فوراً ہی بید روس بادشاہ اپنے امراء اور عمائدین شہر کو ساتھ لے کر غار کے پاس پہنچا تو اصحاب ِ کہف نے غار سے نکل کر بادشاہ سے معان��ہ کیا اور اپنی سرگزشت بیان کی۔ بیدروس بادشاہ سجدہ میں گر کر خداوند قدوس کا شکر ادا کرنے لگا کہ میری دعا قبول ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانی ظاہر کردی جس سے موت کے بعد زندہ ہو کر اُٹھنے کا ہر شخص کو یقین ہو گیا۔ اصحاب ِ کہف بادشاہ کو دعائیں دینے لگے کہ اللہ تعالیٰ تیری بادشاہی کی حفاظت فرمائے۔ اب ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ پھر اصحاب ِ کہف نے السلام علیکم کہا اور غار کے اندر چلے گئے اور سو گئے اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وفات دے دی۔ بادشاہ بیدروس نے سال کی لکڑی کا صندوق بنوا کر اصحابِ کہف کی مقدس لاشوں کو اس میں رکھوا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب ِ کہف کا ایسا رعب لوگوں کے دلوں میں پیدا کردیا کہ کسی کی یہ مجال نہیں کہ غار کے منہ تک جا سکے۔ اس طرح اصحاب ِ کہف کی لاشوں کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے سامان کردیا۔ پھر بیدروس بادشاہ نے غار کے منہ پر ایک مسجد بنوا دی اور سالانہ ایک دن مقرر کردیا کہ تمام شہر والے اس دن عید کی طرح زیارت کے لئے آیا کریں۔
(خازن، ج۳،ص۱۹۸۔۲۰۰)
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے  
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے  
آزادیٔ کشمیر کی توانا آواز خاموش ہوگئی، اگرچہ اس کی گونج وادی میں آج بھی سنی جاسکتی ہے۔ ہرگز نہ نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق! سید علی گیلانی آزاد ہوگئے! (دنیا مومن کا قید خانہ ہے۔‘: صحیح مسلم) سالہا سال غاصب دشمن کی جیلوں یا گھر میں نظربند رہنے والا۔ نظریہ پر جینے والا شیر جو پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی تھا۔ یہاں فلمیں، ڈرامے، گانے، ٹیبلو، بینر، کشمیری جھنڈے، جلوس، ہاتھوں کی زنجیر بناکر، گلا پھاڑ نعرے لگاکر بیانات دے کر کشمیر خاص خاص دنوں میں آزاد کروانے کا زبانی جمع خرچ ہوتا۔ وہاں علی گیلانی کی پوری زندگی بھارت کو للکارنے صعوبتیں اٹھانے کی عملی مشقت تھی۔ آئین جوانمرداں حق گوئی وبے باکی، اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی! جبر کے شکنجے میں 8 لاکھ فوج کے بوٹوں تلے کشمیریوں کے حقوق روندنے والا بھارت، بوڑھے شیر کے جسد خاکی (میں پنہاں شرر) سے لرزاں وترساں تھا۔ کرفیو لگایا۔ نیٹ سروسز بند کیں۔ نہ صرف گھر میں گھس کر میت پر ناجائز قبضہ کیا بلکہ مزاحمت کرنے پر گھر والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ فوجی محاصرے میں تدفین ہوئی۔ رعب ودبدبے، ہیبت کی لہریں بھارتیوں کے سینے شق کر رہی تھیں، سید علی گیلانی کئی ماہ سے دل اور گردوں کے مرض میں مبتلا تھے۔ 92 سال کی عمر تک جس دل گردے سے جنگ آزادی لڑی شاید یہ اسی بنا پر تھا! استقامت اور عزیمت کی زندۂ جاوید علامت، شارح اقبال، تحریر وعمل دونوں سے۔ سید علی گیلانی! مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ، عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام۔ وہ اپنا فرض نبھاکر رخصت ہوئے۔ آزادیٔ افغانستان میں سبھی حریت پسندوں کے لیے بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے۔ چوبیس پارٹیاں نہیں، یک جان یک زبان سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند، جس میں دشمن کو رخنہ تلاش کرنا ناممکن ہو۔ اللہ سے وابستگی، قرآن سے وابستگی پر اتحاد واتفاق بمطابق سورۃ آل عمران وسورۃ الحج۔ پھر فتح آسمان سے اترتی ہے۔ راستے کھلتے ہیں چٹانیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں، شرط یہ ہے کہ: ’اگر تم مومن ہو!‘ (آل عمران۔ 139) افغانستان میں صرف امریکا اور اس کے مغربی حواریوں کا پیسہ نہیں ڈوبا۔ ذلت ونکبت صرف انہی کے حصے میں نہیں آئی۔ بھارت کی سرمایہ کاری بھی رائیگاں گئی۔ غم وغصے سے ہاتھ چبا رہا ہے۔ فارمولا واضح ہے۔ افغانستان میں ایک طرف ایمان اور استقامت کے کوہ گراں تھے، دوسری طرف نفاق، بدعنوانی، چور بازاری، دنیا پرستی، کی انتہا! یہی حق وباطل کی مثال ہے۔ ’جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔‘ (الرعد۔ 17) امت مسلمہ کا المیہ آج یہی تو ہے کہ قول ثابت (کلمہ طیبہ) سے منہ موڑے دنیا میں ڈراموں فلموں میں آزادی کے پھریرے لہراتے پھرنا۔ آزادی اسکرینوں پر، آن لائن نہیں ملتی، ایک ایک خلیے، رگ، ہڈی سے خراج مانگتی ہے! طالبان نے حجت اس امت پر تمام کردی ہے۔ طالبان کا کلمہ صرف جھنڈوں پر نہیں لہرا رہا، ہر بن مو پر ثبت ہے اور خون کے ہر قطرے میں اس کی خوشبو بستی ہے! ہمارے ہاں سازشوں کی تھیوریاں پیش کرکے اپنی ناکامیوں کے جواز گھڑے جاتے رہے۔ ادھر امریکا، بھارت، اسرائیل، فرانس، برطانیہ کی ساری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے گرو بیٹھے عرق آلود پیشانیاں پونچھ رہے ہیں! حق کے مقابل کوئی چال کامیاب نہیں ہوتی۔ ومکر اولئک ھو یبور۔ اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔ (فاطر۔ 10) خود ہمیں آئینہ ایام کے گزشتہ بیس سالوں میں اپنا احتساب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان، جو اس جنگ میں اپنی لاکھ جانوں کی قربانی کی بات کرتا ہے تو وہ ہم نے افغانستان کی حریت، افغانوں کی مدد یا اللہ کی خوشنودی اور مسلم اخوت، نفاذ شریعت کیے لیے نہیں دی۔ امریکا اور بین الاقوامی طاقتوں، عالمی جنگ پرستوں کی جنگی ضروریات، انہی کے اہداف میں تعاون اور اپنی معیشت کی اغراض کے لیے دیں۔ طالبان سے نہ اس کا صلہ مانگا جاسکتا ہے، نہ انہیں اب مشورے اور ہدایات دی جاسکتی ہیں۔ صرف اپنا سا منہ لے کر رہا جاسکتا ہے!
ان بیس سالوں میں جس رکن دین کو خود مسلمانوں نے چھپا دیا، بھلا دیا، عین وہی سببِ نجات بنا افغانستان کے لیے۔ کفر بجا طور پر جس سے دہشت زدہ رہا، اسی کا سامنا اسے کرنا پڑا اور اس کے بدترین خدشات پورے ہوئے۔ یعنی جہاد فی سبیل اللہ! ابوالکلام آزاد نے اسے بیان کیا ہے، ’قرآن کا قانون عروج وزوال‘ میں، یوں گویا وہ ہمارے حالات دیکھ کر امت پر رواں تبصرہ کررہے ہوں۔ اتنے کھرے دوٹوک لہجے پر آج وہ ہوتے تو گوانتامو پہنچے ہوتے! لکھتے ہیں: آج جب ایک دنیا جہاد کی دہشت سے کانپ رہی ہے، جبکہ عالم ِمسیحی کی نظروں میں یہ لفظ عفریت مہیب یا ایک حربہ بے امان ہے، جبکہ اسلام کے مدعیان خود نصف صدی سے کوشش کررہے ہیں کہ کفر کی رضا کے لیے اہل اسلام کو مجبور کریں کہ وہ اس لفظ کو لغت سے نکال دیں۔ جبکہ بظاہر انہوںنے کفر واسلام کے درمیان ایک راضی نامہ لکھ دیا ہے کہ اسلام، لفظ جہاد کو بھلا چکا ہے لہٰذا کفر اپنے توحش کو بھول جائے۔ تاہم آج کل ملحد مسلمین اور مفسدین کا ایک حزب الشیطان بے چین ہے کہ بس چلے تو یورپ سے درجہ تقرب وعبودیت حاصل کرنے کے لیے ’تحریف الکلم عن مواضعہ‘ کے بعد سرے سے اس لفظ کو قرآن سے نکال دے۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے۔ دونوں لازم وملزوم ہیں…… اسلام کی تمام عبادتیں اسی کے لیے ہیں۔ اس کے تمام جسم اعمالی کی روح یہی شے ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی یاد کو اس نے ہمیشہ زندہ رکھنا چاہا اور عیدالاضحیٰ کو یوم جشن ومسرت بنایا۔‘ (اللہ کے حکم پر ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کا سرتسلیم خم کردینا! جان قربان کرنے والی فدائیت!)
جب مذکورہ عقیدہ، زبان سے ادا ہونے کے بعد روبہ عمل آتا ہے تو نتائج ہمیشہ ہی محیرالعقول ہوئے۔ عدد، معدود، اسلحے، ساز وسامان جنگ کی ریل پیل، عالی شان مسندوں اور مجالس والی شہنشاہیاں سب عقیدہ کے مقابل صفر ہوگئیں۔ مسلمان بے سروسامان 313 تھے، تو بدر میں کفر کے لدے پھندے لشکر کے 70 جنرل میکنزی کی سطح کے سردار مرے پڑے تھے اور ایسے ہی 70 قیدی ہوئے۔ یہی کہانی احد، خندق، خیبر، تبوک سے ہوتی ہر خطے میں سلطنتیں الٹاتی الٹاتی افغانستان آن پہنچی اور 3 مرتبہ دہرائی گئی۔ دروغ گوئی حافظہ ندارد کے مصداق باطل ہر دفعہ منہ کی کھاکر بھول گیا اور پھر نئی چالوں، نئے دم خم سے اپنا نیا قبرستان آباد کرنے آن اترا۔ جو کہانی کل تھی وہی آج ہے۔ فاقوں سے پٹخے پیٹوں والے، کھجور کی چپلوں، پیوند زدہ لباسوں، چیتھڑوں میں لپٹی تلواروں والوں نے اس وقت کا ’نیو ورلڈ آرڈر‘ تین براعظموں پر قائم کردیا تھا جو سفید جھنڈے پر لکھے کلمے والا آرڈر ہے! مقابل جب سپین کا راڈرک تھا تو طارق بن زیاد کل 12 ہزار فوج ننگی تلواریں اور کچھ نیزے لیے فتح یورپ کا دروازہ کھولنے جا اترا۔ علاقے کے گورنر، تھیوڈومرنے راڈرک کو اطلاع دی کہ ’ہماری زمین پر ایک بلااتری ہے ہم نہیں جانتے کہ آسمان سے نازل ہوئی ہے یا زمین سے!‘ یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے! (عین وہی جو اچانک افغانستان کے طول وعرض پر چھا گئے!) مقابل ایک لاکھ فوج تھی راڈرک کی، قیمتی اسلحے، گھوڑوں سے مزین! بس یہ دیکھ لیجیے کہ اسپین میں 800 سالہ حکمرانی کا آغاز اس تناسب کی فوج سے ہوا۔ طارق کی تلوار فیصلہ کن تھی۔ فتح ونصرت نے قدم چومے۔ ہسپانوی مقتولین کی لاشوں سے میدان پٹ گیا۔ راڈرک کا سفید گھوڑا دلدل میں (فرار کے بعد) پھنسا ملا جس پر یاقوت وزبرجد سے مرصع ساز کسا ہوا تھا۔ قریب ہی راڈرک کا موزہ جس پر یاقوت اور موتی ٹکے تھے پڑا تھا۔ زرتا رحلہ جو بیش قیمت جواہرات سے مرصع تھا گرا پڑا تھا۔ شان وشوکت والا بادشاہ دریا میں کود کر نسیاً منسیاً ہوگیا۔ خستہ حال ��وج نے دور مظلمہ میں ڈوبے یورپ کو اسپین کی عظیم علوم وفنون بھری حکمرانی سے آراستہ کیا! ملاعمرؒ امیرالمؤمنین امارت اسلامی، قندھار سے ایک جوڑا اور کچھ رقم، صدقۂ فطر اور ذاتی مصارف کے لیے خاموشی سے لیے نکل گئے۔ لمبے سادہ کپڑے اور بڑی پگڑی ان کا لباس تھا۔ 2005ء میں جگہ تبدیل کی تو 5 گھنٹے پیدل سفر کیا رات کے گھپ اندھیرے میں کھائیوں جھاڑیوں امریکی اڈے اور حکومتی حفاظتی چوکیوں سے بچتے بچاتے۔ مقابل فوج کی شان وشوکت، چمکتی سواریاں، شاندار وردیوں پر آراستہ ستارے میڈل، ہیبت انگیز قوت دیکھ لیجیے!
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشک فرو مایہ کوشاہیں سے لڑا دو!
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
afghannews · 3 years
Text
افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے
انیسویں ویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی، اس نے اپنی پوری طاقت سے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سنہ 1919 میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغانوں کو آزادی دینی پڑی۔ اس کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978 میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو گرنے سے بچایا جائے۔ لیکن انھیں یہ سمجھنے میں دس سال لگے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔ برطانوی سلطنت اور سوویت یونین کے درمیان ایک قدر مشترک ہے۔ جب دونوں سلطنتوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ اپنی طاقت کے عروج پر تھے۔ لیکن اس حملے کے ساتھ آہستہ آہستہ دونوں سلطنتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگیں۔ سنہ 2001 میں امریکی قیادت میں افغانستان پر حملہ ہوا اور کئی سالوں تک جاری رہنے والی جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ 
اس حملے کے 20 سال بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے اپنی فوج کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک متنازعہ فیصلہ تھا جس پر پوری دنیا میں شدید تنقید کی گئی۔ اس ایک فیصلے کی وجہ سے طالبان نے افغان دارالحکومت کابل پر انتہائی تیزی سے قبضہ کر لیا ہے۔ بائیڈن نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکی شہریوں کو 'ایسی جنگ میں نہیں مرنا چاہیے جسے افغان خود لڑنے کے لیے تیار نہ ہوں۔' بائیڈن نے افغانستان کی 'سلطنتوں کے قبرستان' کے طور شہرت کو یاد کرتے ہوئے کہا: ' چاہے کتنی ہی فوجی قوت کیوں نہ لگا لیں ایک مستحکم، متحد اور محفوظ افغانستان کا حصول ممکن نہیں ہے۔' افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا 'سلطنتوں کے قبرستان' کے نام سے جانتی ہے؟ آخر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے جیتنے کی کوشش میں کیوں ناکام ہوئیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب افغانستان کی تاریخ اور اس کے جغرافیائی محل و وقوع میں پوشیدہ ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
islamiclife · 3 years
Text
وزیراعظم نے فرانسیسی ادیب کا نبی آخرزماں ﷺ سے متعلق قول پسندیدہ ترین قراردے دیا
وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر حضرت محمد ﷺ سے متعلق اپنا پسندیدہ قول شیئر کیا۔ ان کا پسندیدہ قول فرانسیسی ادیب “ الفانس دی لمارتین” کا ہے۔ فرانسیسی ادیب کے مطابق “اگر مقصد کی عظمت، انکساری اور حیرت انگیز نتائج انسانی ذہانت کے تین معیار ہیں تو کس کی ہمت ہے جو تاریخ کے عظیم انسان محمدﷺ سے موازنہ کر سکے؟ دنیا کی معروف شخصیات نے صرف اسلحہ، قانون اور سلطنتیں تخلیق کیں لیکن انہوں نے ان چیزوں کی محض بنیاد رکھی، یہ ایسی مادی طاقتیں ہیں جو ان کے سامنے ہی نیست و نابود ہو گئیں۔ لیکن رسول ﷺ نے نہ صرف فوج، قانون سازی، سلطنت، قوم ، خاندان بلکہ اس وقت کی آباد دنیا کے ایک تہائی حصے میں لاکھوں لوگوں میں انقلاب برپا کیا، لیکن اس سے بھی زیادہ، انہوں نے دیوتاؤں، مذاہب ، طرزفکر، عقائد اورایمان کے نظریات کو بدل کر رکھ دیا۔  
0 notes
urduinspire · 4 years
Text
اصحابِ کہف کون تھے؟ ایک دلچسپ تحریر
Tumblr media
حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال بے حد خراب اور نہایت ابتر ہو گیا۔ لوگ بت پرستی کرنے لگے اور دوسروں کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ خصوصاً ان کا ایک بادشاہ ''دقیانوس''تو اس قدر ظالم تھا کہ جو شخص بت پرستی سے انکار کرتا تھا یہ اُس کو قتل کرڈالتا تھا۔ اصحابِ کہف شہر ''اُفسوس''کے شرفاء تھے جو بادشاہ کے معزز درباری بھی تھے۔ مگر یہ لوگ صاحب ِایمان اور بت پرستی سے انتہائی بیزار تھے۔ ''دقیانوس''کے ظلم و جبر سے پریشان ہو کر یہ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لئے اُس کے دربار سے بھاگ نکلے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہوئے اور سو گئے، تو تین س�� برس سے زیادہ عرصے تک اسی حال میں سوتے رہ گئے۔ دقیانوس نے جب ان لوگوں کو تلاش کرایا اور اُس کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ غار کے اندر ہیں تو وہ بے حد ناراض ہوا۔ اور فرط غیظ و غضب میں یہ حکم دے دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار اُٹھا کر بند کردیا جائے تاکہ یہ لوگ اُسی میں رہ کر مرجائیں اور وہی غار ان لوگوں کی قبر بن جائے۔ مگر دقیانوس نے جس شخص کےسپرد یہ کام کیا تھا وہ بہت ہی نیک دل اور صاحب ِ ایمان آدمی تھا۔ اُس نے اصحاب ِکہف کے نام اُن کی تعداد اور اُن کا پورا واقعہ ایک تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق کے اندر رکھ کر دیوار کی بنیاد میں رکھ دیا۔ اور اسی طرح کی ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرادی۔ کچھ دنوں کےبعد دقیانوس بادشاہ مر گیا اور سلطنتیں بدلتی رہیں۔ یہاں تک کہ ایک نیک دل اور انصاف پرور بادشاہ جس کا نام ''بیدروس'' تھا، تخت نشین ہوا جس نے اڑسٹھ سال تک بہت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اُس کے دور میں مذہبی فرقہ بندی شروع ہو گئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اُٹھنے اور قیامت کاانکار کرنے لگے۔ قوم کا Read the full article
0 notes
nazarchohan-blog · 4 years
Text
کرونا ایک نعمت بن کر آیا اس ظالم دنیا میں ۔
Tumblr media
کرونا کے بعد کی دنیا ۔
کرونا ایک ٹرانزیشن ہے ایک اور ارتقاء کی ۔ انسان اپنی تخلیق کے مقاصد سے ۱۸۰ ڈگری دور چلا گیا تھا ۔ یہ ہونا تھا ، ہو کر رہے گا ۔ انسان کا یہاں دنیا میں آنے کا مقصد ، مال و دولت اکٹھا کرنا یا پیسہ بنانا بلکل بھی نہیں تھا ۔ بلکہ صرف اور صرف پیار محبت اور شکرگزاری تھا ۔ شکر گزاری تو اللہ تعالی کی نعمتوں کی کیا کرنی تھی ، اُلٹا اپنی سلطنتیں بنانے کی کوشش کی ۔ چل پڑے دنیا فتح…
View On WordPress
0 notes
greatestwarriors · 5 years
Text
امیر تیمور کی فتوحات
تیموری سلطنت کو گورکانیان بھی کہا جاتا ہے۔ اس وسیع سلطنت میں ازبکستان، ایران، کاکیشیا، میسوپوٹامیا، افغانستان، وسط ایشیا کے بیشتر حصے شامل تھے۔ برصغیر، شام اور ترکی کے بعض حصے بھی اس میں شامل رہے۔ اس کی بنیاد امیر تیمور نے 1370ء سے 1405ء تک رکھی۔ امیر تیمور چاہتا تھا کہ چنگیز خان کی طرح ایک عظیم منگول سلطنت قائم کرے۔ 1467ء میں یہ سلطنت سکڑنا شروع ہوئی مگر تیمور کی اولاد چھوٹی ریاستوں پر حکمران رہی۔ سولہویں صدی میں ایسی ہی ایک ریاست فرغانہ جو اب ازبکستان کا حصہ ہے، کے شہزادے ظہیر الدین بابر نے موجودہ افغانستان کے ایک حصہ پر حملہ کیا اور ایک چھوٹی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 20 برس بعد وہ برصغیر وارد ہوا اور مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔
تاریخ میں دو سلطنتیں تیموری سلطنت کہلاتی ہیں جن میں سے پہلی امیر تیمور نے وسط ایشیا اور ایران میں قائم کی جبکہ دوسری ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے نام سے قائم کی۔ امیر تیمور دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع شہر سبز میں 1336ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک اچھا سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ وہ ترکستان اور موجودہ افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہونے کے بعد 1366ء میں بلخ میں تخت نشین ہوا۔ بلخ میں تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔ اس غرض سے اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک جاری رہا۔
تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ اگلے چند سالوں میں اس نے کاشغر، خوارزم، خراسان، ہرات، نیشاپور، قندھار اور سیستان فتح کر لیا۔ 1386ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا اور اس مہم کے دوران پورے شمالی ایران پر قابض ہو گیا۔ روس کی مہم سے واپسی کے بعد تیمور نے 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا۔ اس مہم کے دوران اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے احمد جلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہو گیا۔
تیمور ایران کی مہم سے فارغ ہوکر ابھی تبریز واپس ہی آیا تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ تختمش نے حملہ کر دیا ہے۔ تیمور نے دریائے تیرک کے کنارے اسے شکست فاش دی۔ 1398ء میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا 1398ء کو دہلی فتح کر لیا۔ اگلے سال اس نے شام فتح کر لیا۔ 1402ء میں تیمور نے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو جنگ انقرہ میں شکست دی اور سمرقند واپس آنے کے بعد چین پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس سفر کے دوران وہ بیمار پڑ گیا اور 18 فروری 1405ء کو انتقال کر گیا۔  
معروف آزاد
0 notes
emergingpakistan · 5 years
Text
مالی : براعظم افریقہ کا آٹھواں بڑا ملک
جمہوریہ مالی براعظم افریقہ کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ مالی کے شمال میں الجزائر، مشرق میں نائیجریا، جنوب میں برکینا فاسو اور آئیوری کوسٹ، جنوب مغرب میں گنی اور مغرب میں سینیگال اور موریطانیہ واقع ہیں۔ شمال میں سیدھی اس کی سرحد مرکزی صحارہ تک جاتی ہے۔ زیادہ تر آبادی جنوب میں ہے۔ یہ سابقہ فرانسیسی سوڈان کا حصہ رہا۔ آزادی کے بعد ماضی کی سلطنت مالی کے نام پر مالی کہلایا۔ مالی بمبارا زبان میں دریائی گھوڑا یا گینڈا کو کہتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت بماکو ہے۔ جہاں مالی واقع ہے یہاں کبھی تین افریقی سلطنتیں ہوا کرتی تھیں جو صحارہ میں ہونے والی تجارت کو کنٹرول کرتی تھیں۔
گھانا سلطنت، مالی سلطنت اور سونغائی سلطنت۔ یہ مغربی افریقہ کا سنہرا دور تھا اور وہاں ریاضی، فلکیات، ادب اور فن ترقی کر رہا تھا۔ 1300ء میں اپنے عروج کے زمانے میں مالی سلطنت فرانس سے دگنے رقبے پر مشتمل تھی۔ مالی میں موسم گرم و خشک ہے اور سطح زمین زیادہ تر ہموار ہے جو شمال کی طرف قدرے بلند ہوتی جاتی ہے۔ زیادہ تر ملک صحارہ میں واقع ہے جہاں گرمیوں میں گرم ہوائیں اور ریتلے طوفان چلتے ہیں۔ جنوبی علاقہ نسبتاً سرسبز ہے۔ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جہاں سونا، یورینیم، فاسفورس کے مرکبات، نمک اور چونا کی کانیں بکثرت ہیں۔ مالی کا شہر ٹمبکٹو مغربی افریقہ کی تین مذکورہ سلطنتوں میں اہم ترین شہر تھا۔ صحارہ سے منسلک ان سلطنتوں میں سونے، نمک، غلاموں وغیرہ کی وسیع تجارت ہوتی تھی۔
عروج کے زمانے میں ٹمبکٹو صحارہ سے ہونے والی تمام تجارت کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ علم کا مرکز بھی تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں یہ علاقہ فرانسیسیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ مالی نے 1960ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی۔ مالی کی سرحد سے کوئی سمندر منسلک نہیں یعنی یہ لینڈ لاک ملک ہے۔ اس کا شمار دنیا کے گرم ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ملک کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ کپاس بڑی مقدار میں برآمد کی جاتی ہے۔ مشہور فصلیں چاول، مکئی، سبزیاں، تمباکو ہیں۔ ملک کی 80 فیصد برآمدات زرعی اجناس، سونا اور مویشیوں پر مشتمل ہیں۔ 
معروف آزاد
0 notes
dhanaklondon · 5 years
Photo
Tumblr media
نابلس کا پس منظر ※نابلس کا پس منظر※ (تحریر رؤف قاضی) فلسطین اتھارٹی کا کیپیٹل شہر رام اللہ ہے، رام اللہ کے شمال کی جانب دو پہاڑوں جبلِ عیبال اور جبلِ جرزیم کے درمیان قدیم شہر نابلس آباد ہے، بیت اللہ مقدس سے رام اللہ جاتے ہوئے راستہ میں اسرائیلی چیک پوئنٹ کی وجہ سے عموماً بذریعہ کوچ ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے اور پھر رام اللہ سے نابلس بذریعہ کوچ جاتے ہوئے کوئی ایک گھنٹہ اور دس منٹ لگتے ہیں ، نابلس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ حضرت یعقوب علیہ اسلام نے جب اپنے ماموں لابن کی دو بیٹیوں سے نکاح کیا تو اُن کے جہیز میں دو لونڈیاں بھی آئیں ، ان چار خواتین کے بطن سے حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی، حضرت یعقوب علیہ اسلام نے حران سے واپسی پر سکم کے مقام پر سکونت اختیار کر لی ،سکم کے مقام پر رہتے ہوئے ��ضرت یعقوب کے بیٹوں نے حسد کی آگ میں جلتے ہوئے اپنے بھائی حضرت یوسف علیہ اسلام کو سکم سے کوئی پندرہ کلو میٹر شمال ایک کنویں میں جو کہ دوتان کے مقام پر تھا، اُس میں پھینک دیا، اس کنویں سے حضرت یوسف کو جلعاد سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے باہر نکالا اور مصر لے جا کر “تانس “ کے بازار میں کوڑیوں کے مول بیچ دیا، حضرت یعقوب قدیم بستی سکم کے کنویں بیر یعقوب کے آس پاس کھیتوں میں دیوانوں کی طرح روتے رہتے، یہ کنوں موجودہ شہر نابلس کی مسجد الخضرة جسے مسجد یعقوب بھی کہتے ہیں اُس کے پاس تھا، ایک دن جب حضرت یعقوب سکم میں اپنے گھر بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت یوسف کے بھائی مصر سے حضرت یوسف کی قمیض لائے جس کے چھونے سے حضرت یعقوب کی آنکھوں کی بینائی لوٹ آئی ، حضرت یعقوب مصر کے وزیر خزانہ یعنی اپنے صاحبزادے حضرت یوسف کے اصرار پر معہ اہل و عیال سکم سے مصر اُس کے پاس چلے گئے اور باقی کی ساری زندگی مصر کے علاقہ جوشن میں گزار دی، یعنی کہ حضرت یعقوب کو پھر زندگی میں سکم کو لوٹنا نصیب نہ ہوا، سترہ سال مصر میں رہنے کے بعد جب حضرت یعقوب کا انتقال ہوا توآپ کی لاش کو بیٹوں نے بیت المقدس سے جنوب کی سمت فلسطینی شہر حبرون میں اپنے داداحضرت اسحاق علیہ اسلام اور پڑدادا حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پہلو میں دفن کر دیا،اور خود مصر لوٹ گئے، چونکہ حضرت یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل تھا، اس نام کی مناسبت سے حضرت یعقوب کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی تھی، ایک زمانے تک ان کی عزت کی جاتی رہی اور احترام سے بنی اسرائیل کہہ کر بلایا جاتا رہا، اٹھارویں فرعونی خانوادوں کے دور میں ان کی عزت کم ہونے لگی اور انیسویں فرعونی خانوادں کے دور میں بنی اسرائیل مکمل غلام بنا لئے گئے، تب فرعون رعمسیس کے زمانہ اقتدار میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو حکم ہوا ، تو بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کر کے انہیں ملک فلسطین لے جا، حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر سے نکلے اور افرادی قوت کے بل پر فلسطین کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر قبضہ کر کے مقامی لوگوں کو فلسطینی علاقے سے نکال باہر کیا،لیکن پھر اپنی نا اتفاقی کے سبب یوں بکھرے کہ اڑوس پڑوس کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں جب چاہتی ان پر چڑ دوڑتی تھیں، پیغمبر حضرت شموئیل نے ان کو اکٹھا کیا اور طالوت (Saul) نامی شخص کو بنی اسرائیل کا بادشاہ بنایا، تو بنی اسرائیل کی پہلی باقاعدہ جنگ اشدود کے علاقہ پر قائم سلطنت عمالقہ کے بادشاہ جالوت سے ہوئی، جس کو انگریزی میں گولیتھ Gollat) کہتے ہیں، حضرت طالوت کے سپاہی حضرت داؤد علیہ اسلام نے جالوت کو قتل کر دیا، اس جنگ کے بعد حضرت داؤد کا نکاح بادشاہ طالوت کی بیٹی سے ہوا، حضرت داؤد کے بعد ان کے صاحبزادے حضر ت سلیمان نے اس علاقے پر زبردست حکومت کی، حضرت سلیمان کی موت کے بعد ملک یہودہ اور اسرائیل میں تقسیم ہوا، بنی اسرائیل کے اکثر قبیلوں نے اسرائیل کا بادشاہ حضرت سلیمان کے محل کے متولی نباط نامی شخص کے بیٹے یربعام کو مقرر کر دیا، جبکہ عمونیہ نامی خاتون کے بیٹا رحبعام بن حضرت سلیمان یہودہ کا بادشاہ نامزد ہوا، یہ دونوں سلطنتیں آپس میں لڑتی رہتی تھیں جس کے نتیجہ میں یہ بہت کمزور ہو گئیں، پہلے فارسیوں نے فلسطین میں گھس کر سلطنت اسرائیل کو ختم کیا، اور پھر یہودہ کی اینٹ سے سینٹ بجا دی، لمبی غلامی کے بعد آزادی ملی یہودی حکومت قائم کی مگر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے شوق نے رومنوں کو ملک میں گھسنے کی اجازت دی ، رومنوں نے ملک میں داخل ہو کر تباہی مچائی تمام شہر تباہ و برباد کر دئیے ، جن میں سکم بھی تھا، سکم کے تباہ ہو جانے پر رومن بادشاہ ویسپازیان نے اس مقام پر نا پولس شہر کی بنیاد رکھی ، جو وقت کے ساتھ ساتھ بگڑ کر نابلس مشہور ہوا،
0 notes
latestnewsvideos · 5 years
Photo
Tumblr media
ریاستیں جب برباد ہوتی ہیں وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاناما اور جعلی اکاؤنٹس کیس سے پتا چل گیا کہ ریاستیں کیوں ناکام ہوتی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ ملک کیسے غریب ہوا اور قرض میں ڈوبا؟ وزیراعظم کے نزدیک یہ ریاست کو سمجھنے کی اہم دستاویزہیں، یہ کیس اسٹڈی ہیں ۔ عمران خان نے کہا کہ ہمیں ریاست مدینہ کے ماڈل کی پیروی کرنا ہوگی، تاکہ ہمارا ملک انصاف پر مبنی اور خوشحال ریاست بن سکے۔ موضوع ہمہ جہت ، دلچسپ ، فکر انگیز اور ملکی صورتحال کے بحران زدہ سیاق وسباق میں دلربائی کے تمام سامان لیے ہوئے ہے اورکیوں نہ ہو جب اس باب میں ہم ان فلسفیوں اور تہذیب شناس مفکرین اور دانشوروں کے اقوال زریں لائے ہیں، جن سے اپنے حکمرانوں کو خبردارکیا جا سکتا ہے ، کہ وہ اہل پاکستان کو امریکیوں جیسا تنہا ہجومd)  lonely crow (نہ بنائیں بلکہ ان کی مثبت خطوط پر ذہن سازی ہوسکتی ہے اور انھیں اس ملک میں جمہوریت وآمریت کی انہونیوں کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے ۔ ظہیرکاشمیری کا معنی خیز شعر ہے۔ یہ انقلابِِ زمانہ تھا یا فریب ِنظر گزرگیا ہے مگر انتظار باقی ہے کون سا زمانہ شناس نہیں جانتا کہ تاریخ عظیم الشان سلطنتوں اور شوکت وجلال کی حامل تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانوں کو دیدہ عبرت نگاہ بناکر پیش کرتی ہے ۔ مشہور برطانوی مورخ آرنلڈ ٹائن بی کہتا ہے کہ تہذیبیں خودکشی کرتی ہیں ، قتل نہیں ہوتیں ۔ تاریخ کی 22 معلوم سلطنتوں اور تہذیبوں میں 19اخلاقی سقوط کا شکار ہوکر تباہ ہوئیں، جیسے اب امریکا کی حالت ہے۔ یہ بات انھوں نے22 اکتوبر 1975 کو اپنے انتقال سے پہلے کہی تھی ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس شہر کے شہری چہل قدمی کو عاجز آجائیں وہ شہر نہیں ایک بچھا ہوا جال ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ریاستیں اور ان کی تہذیب حرکت کا نام ہے،کیفیت کا نہیں، یہ سفر ہے بندرگاہ نہیں، پھر عروج یافتہ مملکت کے لیے وہ یہ موتی پروتا ہے کہ فراغت وفرصت کے لمحات سے لطف اندوز ہونے کے لیے ذوق کمال تہذیبوں کی آخری پراڈکٹ ہواکرتا ہے، اب دیکھیے آرنلڈ ٹائن بی نے جو بات کہی ہے وہ صدر ٹرمپ کے عہد حکومت پرکتنی فٹ آتی ہے، ٹائن بی کہتا ہے امریکا ایک بڑا سگ ِدوستاں ہے اور چھوٹے سے کمرے میں جب اپنی دم ہلاتا ہے توکوئی ایک کرسی ضرور الٹ جاتی ہے۔ مونٹیسکو کہتا ہے کہ یہ مہم جو ہوتے ہیں جوعظیم کارنامے سر انجام دیتے ہیں، وہ لوگ نہیں جو عظیم ریاستوں کے محکوم ہوتے ہیں۔ کسی فلسفی کا قول ہے ، ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ سلطنتیں کیسے زوال پذیر ہوتی ہیں،جی ہاں اس لیے کہ وہ اپنے جھوٹ پر زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ کسی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سلطنتیں تباہ ہوجاتی ہیں ،ان کا نام ونشان مٹ جاتا ہے، جن کا تاریخ ہی جائزہ لیتی ہے، اور اس ورثے تک پہنچ جاتی ہے جو وہ چھوڑ جاتی ہیں ۔عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔ دیکھیے اس قول میں کیا راز پنہاں ہے کہ شوکت وجلال بغیر توقیرکے، دولت بغیر دانش وحکمت کے اور طاقت وحاکمیت بغیر اصول کے،اس سارے قصے کا جواب تاریخ نے برباد ہوتی، ان عظیم سلطنتوں کی شکست کے آئینے میں بیان کیا ہے، چاہے وہ عجمی تہذیب ہو یا بابل ونینوا، یونان ہو یا روم ، یہ چاروں تہذیبیں آج کہاں ہیں؟ سر ونسٹن چرچل کے الفاظ ہیں کہ مستقبل کی ریاستیں ذہنی ریاستیں ہونگی۔ تھامس کارلائل کے مطابق دنیا میں ہر جگہ انسانی روح لازوال سلطنتوں کے دہانے پر،کہیں روشنی اورکہیں تاریکی کے بیچ ضرورت اور آزاد ارادے کی صورت کھڑی نظر آتی ہے، عظیم رومن شہنشاہ مارکس آریلیس کہتے ہیں کہ ماضی کے دریچوں سے جھانک کر دیکھو جس میں ریاستیں بدلتی اور عروج و زوال سے گلے ملتی ہوئی دیکھی جاتی ہیں، مستقبل کی پیش بینی زمان و مکاں کے اسی آئینے میں کی جاسکتی ہے۔ مشہور فلم ڈائریکٹر مارٹن اسکورسیز بتاتے ہیں کہ انھیں قدیم تاریخ کی ورق گردانی کرنا بے حد پسند ہے، میں اس میں دیکھتا ہوں کہ کس طرح سلطنتیں بلندی سے پستی میں کیسے گرتی ہیں، وہ در اصل اپنی تباہی کے بیج خود بوتی ہیں۔ لارڈ بائرن کی سوچ ہے کہ کسی جمہوریہ کو دیکھو جو ان ایمپائرز کے درمیان کس شان سے کھڑی ہے جو اسلحے کے بوجھ سے دبی جاتی ہیں،ایک جمہوری ریاست کا پرچم سربلند رہتا ہے جب کہ ایمپائر کا جھنڈا خوف کی علامت ہوتا ہے۔ اب آئیے ، ابن خلدون کی طرف جو قوموں اور سلطنتوں کے حوالوں سے کہتے ہیں کہ ان میں عبقریت کا فقدان ، ژرف نگاہی کی کمی اور بصیرت کا ناپید ہونا لازم ہوتا ہے۔ابن خلدون کے افکارکے بارے میں مولانا محمد حنیف ندوی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابن خلدون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا انداز فکر نظریہ ارتقا کے بانی چارلس ڈارون کے نظریے کے قریب تھا اور اس لحاظ سے وہ ڈارون سے بھی پہلے ڈارون ہے۔ ابن خلدون کے مطابق انسان حیوانات ہی کے ایک ارتقائی کڑی کا نام ہے،اس نے لکھا کہ ارتقا کا یہ عمل جاری رہتا ہے اور ہر ہر نوع کا آخر، عامی نوع کے افق اول میں تحلیل ہونے کی پوری استعداد رکھتا ہے، تا آنکہ یہ سلسلہ حیوانات تک جا پہنچتا ہے، پھر حیوانات کی بے شمار قسمیں اورکڑیاں ہیں جن میں کوئی ایک کڑی تکوین و تدریج کی منزلیں طے کرتی ہوئی انسانیت کے افق تک پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کبھی کسی حکومت کے عہد میں ایک انوکھا خیال بھی جدت واختراع کی شمع روشن کردیتا ہے مگر ثقافتی زوال میں کسی کو اس تخیل کی خبر نہیں ہوتی، مثلاً بلوچی زبان کے ایک بہت پرانے گیت میں کلوننگ کا تصور ’’ڈولی‘‘ کی کلوننگ سے پانچ عشرے قبل پیش کیا گیا تھا، اس بلوچی شعر میں اپنے محبوب کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ پنچیں کساں ہم رنگاں رایا رواناں وت من نزاناں منی دوست کجامیں ترجمہ: پانچوں محبوبائیں ایک جیسی شکل وصورت کی لگتی ہیں اور مجھے پتا نہیں چلتا کہ ان میں میرا محبوب کون سا ہے۔دیکھیے یہ بریک تھرو ایک ایسے بیمار ریاستی نظام میں ہوتا ہے جہاں کسی شاعر کا کلوننگ سے متعلق انجانا تخیل بھی کسی کو چونکا نہیں سکا۔ فرانز فینن جیسا انقلابی دانشور افتادگان خاک نامی اپنی کتاب میں محکوم ریاستوں میں دبے ہوئے لوگوں کے کالے رنگ اور سفید ماسک پرگہری بات کہہ دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ اپنے عقیدے پر سختی سے قائم رہنے والے افراد کے سامنے جب ان کے عقیدے کے خلاف شواہد پیش کیے جاتے تو وہ انھیں سن کر ناآسودہ اور غیر مطمئن ہوجاتے، فینن اسے کرخت ذہنی رویےcognitive dissonance سے تعبیرکرتے ہیں۔ ایک محکوم ریاست کی نوآبادیاتی جورو ستم سے برسر پیکار دھرتی کے ستائے لوگوں کو فینن بتاتے ہیں کہ ایک زبان بولنا فی الحقیقت ایک دنیا اورکلچر سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے۔ وہ آزادی کی تڑپ اور غلامی ومحکومی سے نجات کے لیے بغاوت کی نئی تعریف لاتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ محکوم اپنی ہی لتھڑی ہوئی ریاست میں خود کو ستم رسیدہ ہی سمجھتے ہیں اور مزاحمت اور بغاوت اس لیے نہیں کرتے کہ کسی خاص ثقافت ان کے پیش نظر رہتی ہیں، بلکہ ان کی جدوجہد اس نکتہ پر ہوتی ہے کہ ’’اے میرے جسم ، مجھے انسان بنا ایسا جو سوال کرسکے۔ حقیقت میں وہ سوال ایک غلام ریاست وسلطنت میں اس لیے کرنے کو بے چین رہتا ہے کہ اس کا اپنے ماحول میں اب سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔ کیا کسی کو رئیس امروہی کا یہ شعر یاد ہے کہ اس آزادی نے مجھ کو کیا دیا ہے فقط آزاد ہوکر رہ گیا ہوں The post ریاستیں جب برباد ہوتی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو. Source link
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
طالبان: تباہ کن ، دہشت گرد قوتیں کچھ عرصے تک غلبہ حاصل کر سکتی ہیں ، لیکن ان کا وجود مستقل نہیں: پی ایم مودی
طالبان: تباہ کن ، دہشت گرد قوتیں کچھ عرصے تک غلبہ حاصل کر سکتی ہیں ، لیکن ان کا وجود مستقل نہیں: پی ایم مودی
سومناتھ ، وزیر اعظم۔ نریندر مودی۔ جمعہ کو کہا کہ تباہ کن قوتیں اور لوگ جو دہشت گردی کے ذریعے سلطنتیں بنانے کے نظریے پر عمل کرتے ہیں وہ کچھ عرصے کے لیے غلبہ حاصل کر سکتے ہیں ، لیکن ان کا وجود مستقل نہیں ہے کیونکہ وہ انسانیت کو ہمیشہ کے لیے دبا نہیں سکتے۔ وہ مشہور کے چند منصوبوں کا عملی طور پر افتتاح کرتے ہوئے بول رہے تھے۔ سومناتھ مندر۔ میں گجرات۔.
مودی نے کہا ، “سومناتھ مندر کو کئی بار تباہ کیا گیا ، کئی بار بتوں کی بے حرمتی کی گئی اور اس کے وجود کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا ، “وہ قوتیں جو تباہی کے لیے کوشاں ہیں اور جو دہشت گردی سے سلطنتیں بنانے کے نظریے پر عمل کرتی ہیں وہ کچھ عرصے کے لیے غلبہ حاصل کر سکتی ہیں ، لیکن ان کا وجود کبھی بھی مستقل نہیں ہوتا کیونکہ وہ انسانیت کو ہمیشہ کے لیے دبا نہیں سکتے۔”
وزیر اعظم نے کہا کہ یہ سچ تھا جب ماضی میں سومناتھ مندر کو تباہ کیا جا رہا تھا اور یہ آج بھی سچ ہے۔
ان کے ریمارکس کے تناظر میں آئے ہیں۔ طالبان افغانستان پر قبضہ
مودی نے یہ بھی کہا کہ بھارت جو 2013 میں 65 ویں پوزیشن پر تھا۔ ٹریول اینڈ ٹورزم مسابقتی انڈیکس۔، 2019 میں 34 ویں پوزیشن پر کود گیا۔
. Source link
0 notes
alihas09 · 4 years
Text
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال بے حد خراب اور نہایت ابتر ہو گیا۔ لوگ بت پرستی کرنے لگے اور دوسروں کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ خصوصاً ان کا ایک بادشاہ ”دقیانوس”تو اس قدر ظالم تھا کہ جو شخص بت پرستی سے انکار کرتا تھا یہ اُس کو قتل کرڈالتا تھا۔
اصحابِ کہف شہر ”اُفسوس”کے شرفاء تھے جو بادشاہ کے معزز درباری بھی تھے۔ مگر یہ لوگ صاحب ِایمان اور بت پرستی سے انتہائی بیزار تھے۔ ”دقیانوس”کے ظلم و جبر سے پریشان ہو کر یہ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لئے اُس کے دربار سے بھاگ نکلے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہوئے اور سو گئے، تو تین سو برس سے زیادہ عرصے تک اسی حال میں سوتے رہ گئے۔ دقیانوس نے جب ان لوگوں کو تلاش کرایا اور اُس کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ غار کے اندر ہیں تو وہ بے حد ناراض ہوا۔ اور فرط غیظ و غضب میں یہ حکم دے دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار اُٹھا کر بند کردیا جائے تاکہ یہ لوگ اُسی میں رہ کر مرجائیں اور وہی غار ان لوگوں کی قبر بن جائے۔
مگر دقیانوس نے جس شخص کےسپرد یہ کام کیا تھا وہ بہت ہی نیک دل اور صاحب ِ ایمان آدمی تھا۔ اُس نے اصحاب ِکہف کے نام اُن کی تعداد اور اُن کا پورا واقعہ ایک تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق کے اندر رکھ کر دیوار کی بنیاد میں رکھ دیا۔ اور اسی طرح کی ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرادی۔ کچھ دنوں کےبعد دقیانوس بادشاہ مر گیا اور سلطنتیں بدلتی رہیں۔ یہاں تک کہ ایک نیک دل اور انصاف پرور بادشاہ جس کا نام ”بیدروس” تھا، تخت نشین ہوا جس نے اڑسٹھ سال تک بہت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اُس کے دور میں مذہبی فرقہ بندی شروع ہو گئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اُٹھنے اور قیامت کاانکار کرنے لگے۔ قوم کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ رنج و غم میں ڈوب گیا اور وہ تنہائی میں ایک مکان کے اندر بند ہو کر خداوند قدوس عزوجل کے دربار میں نہایت بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری کر کے دعائیں مانگنے لگا کہ یا اللہ عزوجل کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما دے تاکہ لوگوں کو مرنے کے بعدزندہ ہو کر اٹھنے اور قیامت کا یقین ہوجائے۔
بادشاہ کی یہ دعا مقبول ہو گئی اور اچانک بکریوں کے ایک چرواہے نے اپنی بکریوں کو ٹھہرانے کے لئے اسی غار کو منتخب کیا اور دیوار کو گرا دیا۔ دیوار گرتے ہی لوگوں پر ایسی ہیبت و دہشت سوار ہو گئی کہ دیوار گرانے والے لرزہ براندام ہو کروہاں سے بھاگ گئے اور اصحابِ کہف بحکم الٰہی اپنی نیند سے بیدار ہو کر اٹھ بیٹھے اور ایک دوسرے سے سلام و کلام میں مشغول ہو گئے اور نماز بھی ادا کرلی۔ جب ان لوگوں کو بھوک لگی تو ان لوگوں نے اپنے ایک ساتھی یملیخاسے کہا کہ تم بازار جا کر کچھ کھانا لاؤ اور نہایت خاموشی سے یہ بھی معلوم کرو کہ ”دقیانوس”ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ رکھتا ہے؟
”یملیخا”غار سے نکل کر بازار گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر میں ہر طرف اسلام کا چرچا ہے اور لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔یملیخا یہ منظر دیکھ کر محو حیرت ہو گئے کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟کہ اس شہر میں تو ایمان واسلام کا نام لینا بھی جرم تھا آج یہ انقلاب کہاں سے اورکیونکر آگیا؟
پھر یہ ایک نانبائی کی دکان پر کھانا لینے گئے اور دقیانوسی زمانے کا روپیہ دکاندار کو دیا جس کا چلن بند ہوچکا تھا بلکہ کوئی اس سکہ کا دیکھنے والا بھی باقی نہیں رہ گیاتھا۔ دکاندار کو شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو کوئی پرانا خزانہ مل گیا ہے چنانچہ دکاندار نے ان کو حکام کے سپرد کردیا اور حکام نے ان سے خزانے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی اور کہا کہ بتاؤ خزانہ کہاں ہے؟
”یملیخا” نے کہا کہ کوئی خزانہ نہیں ہے۔ یہ ہمارا ہی روپیہ ہے۔ حکام نے کہاکہ ہم کس طرح مان لیں کہ روپیہ تمہارا ہے؟ یہ سکہ تین سو برس پرانا ہے اور برسوں گزر گئے کہ اس سکہ کا چلن بند ہو گیا اور تم ابھی جوان ہو۔ لہٰذا صاف صاف بتاؤ کہ عقدہ حل ہوجائے۔ یہ سن کر یملیخا نے کہا کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کا کیا حال ہے؟ حکام نے کہا کہ آج روئےزمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ ہاں سینکڑوں برس گزرے کہ اس نام کا ایک بے ایمان بادشاہ گزرا ہے جو بت پرست تھا۔
”یملیخا” نے کہا کہ ابھی کل ہی تو ہم لوگ اس کے خوف سے اپنے ایمان اور جان کو بچا کر بھاگے ہیں۔ میرے ساتھی قریب ہی کے ایک غار میں موجود ہیں۔ تم لوگ میرے ساتھ چلو میں تم لوگوں کو اُن سے ملادوں۔ چنانچہ حکام اور عمائدین شہر کثیر تعداد میں اُس غار کے پاس پہنچے۔ اصحاب ِ کہف ”یملیخا” کے انتظار میں تھے۔ جب ان کی واپسی میں دیر ہوئی تو اُن لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ شاید یملیخا گرفتار ہو گئے اور جب غار کے منہ پر بہت سے آدمیوں کا شور وغوغا ان لوگوں نے سنا تو سمجھ بیٹھے کہ غالباً دقیانوس کی فوج ہماری رفتاری کے لئے آن پہنچی ہے۔ تو یہ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ ذکر ِ الٰہی اور توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے۔
حکام نے غار پر پہنچ کر تانبے کا صندوق برآمد کیا اور اس کے اندر سے تختی نکال کر پڑھا تو اُس تختی پراصحاب ِ کہف کا نام لکھا تھا اور یہ بھی تحریر تھا کہ یہ مومنوں کی جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس بادشاہ کے خوف سے اس غار میں پناہ گزیں ہوئی ہے۔ تو دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے ان لوگوں کو غار میں بند کردیا ہے۔ ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی یہ غار کھلےتو لوگ اصحاب ِ کہف کے حال پر مطلع ہوجائیں۔ حکام تختی کی عبارت پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اور ان لوگوں نے اپنے بادشاہ ”بیدروس” کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ فوراً ہی بید روس بادشاہ اپنے امراء اور عمائدین شہر کو ساتھ لے کر غار کے پاس پہنچا تو اصحاب ِ کہف نے غار سے نکل کر بادشاہ سےمعانقہ کیا اور اپنی سرگزشت بیان کی۔
بیدروس بادشاہ سجدہ میں گر کر خداوند قدوس کا شکر ادا کرنے لگا کہ میری دعا قبول ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانی ظاہر کردی جس سے موت کے بعد زندہ ہو کر اُٹھنے کا ہر شخص کو یقین ہو گیا۔ اصحاب ِ کہف بادشاہ کو دعائیں دینے لگے کہ اللہ تعالیٰ تیری بادشاہی کی حفاظت فرمائے۔ اب ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ پھر اصحاب ِ کہف نے السلام علیکم کہا اور غار کے اندر چلے گئے اور سو گئے اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وفات دے دی۔ بادشاہ بیدروس نے سال کی لکڑی کا صندوق بنوا کر اصحابِ کہف کی مقدس لاشوں کو اس میں رکھوا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب ِ کہف کا ایسا رعب لوگوں کے دلوں میں پیدا کردیا کہ کسی کی یہ مجال نہیں کہ غار کے منہ تک جا سکے۔ اس طرح اصحاب ِ کہف کی لاشوں کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے سامان کردیا۔ پھر بیدروس بادشاہ نے غار کے منہ پر ایک مسجد بنوا دی اور سالانہ ایک دن مقررکردیا کہ تمام شہر والے اس دن عید کی طرح زیارت کے لئے آیا کریں۔
اصحابِ کہف کی تعداد میں جب لوگوں کا اختلاف ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ : قُل رَّبِّیۡۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِیۡلٌ (پ15،الکہف:22) ترجمہ قرآن:۔ تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتاہے انہیں نہیں جانتے مگرتھوڑے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں انہی کم لوگوں میں سے ہوں جو اصحابِ کہف کی تعداد کو جانتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اصحاب ِ کہف کی تعداد سات ہے اور آٹھوں اُن کا کتا ہے۔ (تفسیرصاوی، ج ۴ ،ص۱۱۹۱،پ۱۵،الکہف:۲۲)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نےاصحابِ کہف کا حال بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔ (پ15،الکہف:9۔13) ترجمہ قرآن:۔کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے( یا تختی والے) ہماری ایک عجیب نشانی تھے جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی پھر بولے اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راہ یابی کےسامان کر تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا پھر ہم نےانہیں جگایا کہ دیکھیں دو گرہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہےہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں وہ کچھ جوان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت بڑھائی۔
اس سے اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کا پورا پوراحال بیان فرمایا ہے
اصحابِ کہف کے نام:۔ ان کے ناموں میں بھی بہت اختلاف ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ اُن کے نام یہ ہیں۔ یملیخا، مکشلینا، مشلینا، مرنوش،دبرنوش، شاذنوش اور ساتواں چرواہا تھا جو ان لوگوں کے ساتھ ہو گیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اُس کا ذکر نہیں فرمایا۔ اور ان لوگوں کے کتے کا نام” قطمیر ”تھا اور ان لوگوں کے شہر کا نام ”افسوس”تھا اور ظالم بادشاہ کا نام ”دقیانوس”تھا۔ (مدارک التنزیل ،ج ۳، ص…۲۰۶،پ۱۵،الکہف:۲۲)
اور تفسیر صاوی میں لکھا ہےکہ اصحابِ کہف کے نام یہ ہیں۔ مکسملینا، یملیخا، طونس، نینوس، ساریونس، ذونوانس، فلستطیونس۔ یہ آخری چرواہے تھےجو راستےمیں ساتھ ہو لئے تھے اور ان لوگوں کے کتےکا نام ”قطمیر” تھا (صاوی،ج۴،ص۱۱۹۱،پ۱۵،الکہف:۲۲ )
اصحابِ کہف…کتنےدنوں تک سوتےرہے:
جب قرآن کی آیت وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَازْدَادُوۡا تِسْعًا ﴿۲۵﴾ (پ۱۵،الکھف:۲۵) (اور وہ اپنےغار میں تین سو برس ٹھہرے نواوپر)نازل ہوئی تو کفار کہنےلگےکہ ہم تین سو برس کے متعلق تو جانتے ہیں کہ اصحاب کہف اتنی مدت تک غارمیں رہےمگر ��م نو برس کو نہیں جانتےتو حضور اقدس ص نےفرمایا کہ تم لوگ شمسی سال جوڑ رہےہو اور قرآن مجید نےقمری سال کےحساب سے مدت بیان کی ہے اور شمسی سال کےہر سو برس میں تین سال قمری بڑھ جاتے ہیں۔ (صاوی،ج۴،ص۱۱۹۳،پ۱۵،الکہف:۲۵)
( یہ واقعہ تفسیر خازن کے حوالے سے پیش کیا گیا، ج۳،ص۱۹۸۔۲۰۰)
#gallery-0-4 { margin: auto; } #gallery-0-4 .gallery-item { float: left; margin-top: 10px; text-align: center; width: 33%; } #gallery-0-4 img { border: 2px solid #cfcfcf; } #gallery-0-4 .gallery-caption { margin-left: 0; } /* see gallery_shortcode() in wp-includes/media.php */
اصحابِ کہف کون تھے؟ ایک دلچسپ تحریر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال بے حد خراب اور نہایت ابتر ہو گیا۔ لوگ بت پرستی کرنے لگے اور دوسروں کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ خصوصاً ان کا ایک بادشاہ ''دقیانوس''تو اس قدر ظالم تھا کہ جو شخص بت پرستی سے انکار کرتا تھا یہ اُس کو قتل کرڈالتا تھا۔
0 notes