Tumgik
#جواہرات
paknewsasia · 2 years
Text
بھارتی میوزک انڈسٹری نے دو جواہرات کو کھو دیا؛ ہنی سنگھ
بھارتی میوزک انڈسٹری نے دو جواہرات کو کھو دیا؛ ہنی سنگھ
معروف بھارتی ریپ گلوکار ہنی سنگھ نے کہا ہے کہ کہ بھارتی میوزک انڈسٹری نے دو جواہرات کو کھو دیا۔ بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ہنی سنگھ نے کہا کہ میوزک انڈسٹری نے دو جواہرات کو کھو دیا، سدھو موسے والا اور کے کے کی موت نے ایک خلا چھوڑ دیا ہے اور پوری قوم سوگ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر سنے کے بعد اُن کے پاس اپنا دُکھ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں تھے، سدھو موسے والا اور کے کے کی اچانک موت کا سُن…
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
ہالینڈ نوآبادیاتی دور میں لوٹا مال واپس کرنے کو تیار، انڈونیشیا کو شاہی خزانہ، سری لنکا کو جواہرات جڑی توپ ملے گی
ہالینڈ  نوآبادیاتی دور میں انڈونیشیا اور سری لنکا سے ہتھیائے گئے قیمتی نوادرات واپس کرنے کو تیار ہے۔ جو اشیا واپس کی جائیں گی ان میں ایک جواہرات سے سجی ہوئی کانسی کی توپ اور “لومبوک خزانہ” سے لوٹے گئے زیورات شامل ہیں۔ ایک رپورٹ میں حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ اگر ممالک ان اشیا کی درخواست کریں تو وہ اشیا واپس کرے۔ ہالینڈ کے وزیر ثقافت نے کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ ہم ایسی اشیا کو واپس کر رہے ہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
چائنا انٹرنیشنل فیئر فار ٹریڈ ان سروسز میں غیرملکی تاجروں کو نئے مواقع مل رہے ہیں، رپورٹ
چائنا انٹرنیشنل فیئر فار ٹریڈ ان سروسز میں غیرملکی تاجروں کو نئے مواقع مل رہے ہیں، رپورٹ
بیجنگ (عکس آن لائن) چائنا انٹرنیشنل فیئر فار ٹریڈ ان سروسز کا انعقاد 31 اگست سے 5ستمبر تک بیجنگ میں ہوا جس میں شریک غیرملکی تا جرمتعدد نئے مواقع و امکانات سے متعارف ہوئے ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تاجرعقیل احمد چوہدری پہلی مرتبہ اس میلے میں شرکت کر رہے ہیں ۔ان کا گھرانہ پاکستان میں جواہرات کے کاروبار سے منسلک ہے اور اب چین کے شہر شنگھائی اور شین یانگ میں بھی ان کی دکانیں کھل گئی ہیں ۔ ان کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
وہ ریاست مدینہ اور یہ
Tumblr media
حضرت عمر منبر پرکھڑے خطاب کررہے تھے کہ مجمع میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا، پہلے یہ بتائیں کہ مال غنیمت میں جو چادریں آئی تھیں اور ہر شخص کو ایک ایک چادر ملی ہے جس سے لباس نہیں بن سکتا اورآپ نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ ایک سے زیادہ چادروں سے بنا ہے، گویا آپ نے دو چادریں لی ہیں۔  حضرت عمر نے بڑے تحمل سے فرمایا، اس کا جواب میرا بیٹا دے تو بہتر ہوگا۔ بیٹا کھڑا ہوکر بولا ، بے شک میرے والد کا لباس دو چادروں سے بنا ہے اور ان میں ایک چادر میں نے اپنے حصے کی دی ہوئی ہے۔ ایک اور موقع پر ملکہ روم کی طرف سے خوشبو کی ایک شیشی آئی تو ان کی زوجہ کو وہ بہت پسند آئی اور لینا چاہی لیکن حضرت عمر نے ان کے ہاتھ سے شیشی چھین کر بیت المال میں داخل کی حالانکہ وہ شیشی ایک طرح سے ملکہ روم نے مسلمانوں کے خلفیہ کی اہلیہ محترمہ کے لیے بھیجی تھی لیکن حضرت عمر کا فیصلہ بھی درست تھا کہ اگر خلیفہ اسلام کی بیوی نہ ہوتی تو ملکہ روم انھیں تحفہ کیوں بھیجتی۔ اس سے پہلے کہ ہم ’’توشہ خانہ‘‘ پر بحث کریں، یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایسے تحائف افراد کو نہیں دیے جاتے ہیں بلکہ اقوام کو دیے جاتے ہیں۔
عمرثانی عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ تھے تو کسی علاقے کا حاکم حساب دینے آیا تھا ، حساب کتاب ختم ہو گیا تو حاکم نے خلیفہ سے ان کا اوران کے خاندان کا حال پوچھنا شروع کیا، عمر بن عبدالعزیز نے پہلے چراغ بجھایا اور پھر جواب دیا، حاکم نے چراغ بجھانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا، اس چراغ میں بیت المال کا تیل جل رہا ہے جب تک سرکاری بات چل رہی تھی، جائز تھا، لیکن ذاتی بات چیت میں سرکاری تیل اور چراغ جائز نہیں۔ ایک وہ ریاست مدینہ تھی اور ایک یہ ریاست مدینہ اور یہ ہم نہیں کہتے، اتنی زیادہ گستاخی اور ان پاک ناموں کی اتنی بے حرمتی اور تضحیک کی جرات ہمارے اندر کہاں۔ یہ تو کچھ خاص الخاص لوگ ہوتے ہیں جو سب کچھ کہہ بھی سکتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں۔ ایک وہ بھی بیت المال تھا اور ایک یہ بھی بیت المال ہے جس کے ایک حصے کو ’’توشہ خانہ‘‘ کہتے ہیں ، وہ بھی حکمران تھے جو تو شہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے اور یہ بھی حکمران ہیں جو توشہ خانہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اوراگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اسے کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے یہ بھی مت کہہ کہ جو کہتے تو گلہ ہوتا ہے
Tumblr media
بیت المال کی تو بات ہی نہیں کریں گے کہ جدی پشتی چور اس کا مال تو پہلے بانٹ چکے ہیں اوراب صرف ’’بیت ‘‘ہی رہ گیا ہے۔ اس کے صرف ایک چھوٹے سے حصے توشہ خانہ کا ذکر کرتے ہیں جو یوں ہے کہ جب ہمارا کوئی سربراہ کسی ملک کے دورے پر جاتا ہے، میزبان ملک اسے تحفے تحائف دیتا ہے، قانونی طور پر اسے وہ تحائف توشہ خانے کے سپرد کرنا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ تحائف اس فرد کو ذاتی طور پر نہیں دیے جاتے بلکہ ایک دوسرے ملک کو دیتا ہے لیکن یہاں اس کے لیے یہ نرالا دستور نکالا گیا ہے کہ اگر وہ سربراہ چاہے کہ کسی پسند کی چیز کو اپنا لے تو قانون تو اس کی جیب میں پڑا ہوتا ہے، اسے لیے توشہ خانے کے ذمے داران سے کہتا ہے اور وہ ذمے داران ان تحائف کی قیمت چوری کے مال سے بھی کم لگا کر ان کے حضور پیش کر دیتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے نوکر ہوتے ہیں بینگن کے نہیں۔ اس سلسلے میں یوں تو صرف ایک حکمران ایوب خان کے علاوہ باقی سب نے اپنا اپنا کام دکھایا ہے، ایوب خان کو اپنے طویل دور حکومت میں تیس تحائف ملے تھے اور اس نے ان میں سے ایک بھی تحفہ نہیں رکھا تھا، سب کے سب توشہ خانہ کے حوالے کر دیے تھے۔ 
باقی سب نے اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ اشنان کیے ہیں ، اس کھیل میں سب سے ٹاپ اسکورر شوکت عزیز تھا جسے اس ملک کو سنوارنے کے لیے امپورٹ کیا گیا تھا اور جب وہ ملک کو خوب خوب ’’سنوار‘‘ کر واپس جا رہا تھا تو جہازمیں اس کے ساتھ گیارہ سو چھبیس لوٹے گئے تھے، ’’لوٹے‘‘ اس لیے کہ اس نے تحائف اپنے نام کرانے کے لیے چار مرتبہ توشہ خانے کے قوانین میں تبدیلیاں کی تھیں۔ ان قیمتی تحائف کے لیے اس نے صرف انتیس لاکھ روپے ادا کیے تھے، وہ بھی یہیں کہیں کسی اورسرکاری جیب سے جب کہ ان تحائف کی قیمت دو کروڑ ساٹھ لاکھ روپے سے زیادہ تھی، ان تحائف میں گلے کے ہار، جواہرات ، سونا، ہیرے کی گھڑیاں اور قالین شامل تھے، نیپال سے ملے ہوئے دو رومالوں کی قیمت صرف پچاس روپے ادا کی گئی تھی۔ اس سے باقیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور شوکت عزیز اس فہرست میں اول کھڑا ہے، اس کے پیچھے باقی سارے حکمرانوں کی ایک لمبی قطار کھڑی ہے اور سب کے نیفے پھولے ہوئے ہیں۔ اب بعد از خرابی بیسار احتساب بیورو جاگا ہے،عدالتیں بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ہیں لیکن چور اتنے عادی، اتنے دلیر اور اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ باقاعدہ سینہ زوری پر اترآئے ہیں۔
سعد اللہ جان برق  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
qamer · 1 year
Photo
Tumblr media
یونس بحرِ ظلمات میں آبِ حیات کے مشکیزے بکھیر رہا ہے. فرمانِ مبارک سرکار گوہر شاہی. سیدی یونس الگوہر نے فرمایا. 🙏. یہ محفل بحرِ ظلمات میں آبِ حیات ہے وہی آبِ حیات جو خضر(ع) نے اپنے مصاحبین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کو دیں گے. یہ واقعہ قرآن مجید میں درج ہے. یہ واقعہ جو خضر ع کے حوالے سے آیا ہے اس میں بحرِ ظلمات سے مراد ہے یہ دنیا جو ظلمت سے بھری ہوئی ہے اور اس کے اندر جو آبِ حیات ہے وہ ذکرِ قلب ہے فرمایا اب میں تشریح کر کے بتاتا ہوں. حقیقت میں آبِ حیات کہا جاتا ہے عملِ اکسیر کو. عملِ اکسیر وہ عمل ہے جس عمل میں آپ ذکرِ قلب حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. فرمایا جب ہم نے اس محفل کو شروع کیا ایک آدمی محفل میں آتا تھا اس کو بہت مزہ آتا تھا بیس سال پہلے کی بات ہے. ایک، دو دن گذر گئے وہ محفل میں نہیں آیا تو میں نے اس کو فون کیا کہ تم محفل میں نہیں آ رہے، اس نے جواب نہیں دیا ایک ہفتہ گذر گیا وہ محفل میں نہ آیا. ایک رات سرکار اس کے خواب میں آگئے. سرکار نے اس کے خواب میں آ کے کہا "یونس اس وقت جو یہ محفل سجا کے بیٹھا ہے وہ خضرِ وقت ہے اور اس بحرِ ظلمات میں آبِ حیات کے مشکیزے بکھیر رہا ہے اس کی باتوں کو ہیرے اور جواہرات نہ سمجھنا وہ آبِ حیات ہے. فرمایا یہ محفل جو ہے خضر کی آبِ حیات ہے. 09.03.2023. #ImamMehdiGoharShahi #ifollowGoharShahi #YounusAlGohar #ALRATV Watch ALRA TV 👇 https://youtube.com/@ALRATV https://www.instagram.com/p/CpnToRrPkWt/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
bastawihashimqasmi · 1 year
Link
0 notes
nurulquran · 1 year
Text
🎀🎊🌀
https://nurulquran.com/pktrip2022/
*In Lahore* 🚗
*استاذہ عفت مقبول صاحبہ کے ساتھ لائیو سیشن بدھ 4 جنوری*(ان شاء اللہ)
✨✨✨✨✨✨
بھوک سے تڑپتے انسان کو اگر آپ عالیشان لباس پیش کریں گے تو وہ لینے سے انکار کرکے یہی کہے گا میں بھوک سے مر رہا ہوں مجھے کھانا دے دو۔
شدت کی پیاس سے جان بہ لب انسان کے سامنے ہیرے جواہرات بکھیر دیے جائیں تو اس کے نزدیک ان کی اہمیت پتھر کے برابر ہوگی۔
ضرورت کے وقت انسان کو وہی چاہیے ہوتا ہے جس کی اس کو شدید طلب ہوتی ہے۔
ہر انسان فطرت پر پیدا کیا گیا ہے اور ہر روح کی پکار توحید ہی ہوتی ہے۔
لیکن انسان، شیطانی وسواس کا شکار ہوکر اس پکار کو پہچان نہیں پاتا اور دنیا کی آسائشوں کو اپنی پیاس سمجھ کر ذلیل و برباد ہوجاتا ہے۔
اپنی روح کی پیاس بجھائیں
اس کی پکار کو محسوس کیجیے۔ استاذہ عفت مقبول کے لیکچر کے زریعے اپنی روح کو توحید کے پانی سے سیراب کریں
✨✨✨✨✨✨
پروگرام میں شمولیت کے لیے پہلے سے اس نمبر پر بذریعہ ٹیکسٹ میسج رجسٹریشن کروائیے۔👇🏻
+92 331 4312625
🔅ہر سیٹ بہت اہم ہے لہذا پوری ذمہ داری کے ساتھ رجسٹریشن کروائیے
🔅چھوٹے بچوں کو ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہے۔
🔅صدقۂ جاریہ کی نیت سے شیئر کیجیئے
لاہور اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں دروس، سیمینارز، ورکشاپس کی معلومات اور updates کے لیے اِس لنک سے connect رہئیے👇🏻
https://nurulquran.com/pktrip2022/
دعا گو:🤲🤲
🎀✨ *ٹیم نورالقرآن*
Tumblr media
0 notes
pakistan-news · 2 years
Text
پینسٹھ پینس کی ملکہ
گزشتہ روز برطانیہ پر سات دہائیوں تک حکومت کرنے والی ملکہ کی آخری رسومات میں جتنے سربراہانِ حکومت و مملکت و ریاستی نمایندوں نے شرکت کی وہ معلوم تاریخ میں بے مثال ہے۔ روس ، بیلا روس ، شمالی کوریا اور برما کے سوا ہر ملک کو دعوت دی گئی۔ روسی وزارتِ خارجہ نے اسے ایک گھٹیا سفارتی حرکت اور ملکہ کے بین الاقوامی شخصی وقار کی توہین قرار دیا۔ البتہ انسانی حقوق کے داعی کچھ برطانوی حلقوں نے سعودی صحافی جمال خشوگی کی موت کے پس منظر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی شرکت پر بھنویں بھی چڑھائیں۔  جاپانی شہنشاہ ناروہیٹو اور ملکہ مساکو نے بھی آخری رسومات میں شرکت کر کے پہلی بار یہ روایت توڑی کہ جاپانی بادشاہ بیرونِ ملک کسی سوگوار تقریب میں شرکت نہیں کرتا۔دو ہزار انیس میں تخت سنبھالنے کے بعد شہنشاہ نارو ہیٹو نے پہلی بار ملک سے باہر قدم رکھا۔ آخری رسومات میں یورپ کے تمام شاہی خاندانوں کی نمایندگی تھی۔ ان خانوادوں کی برطانوی شاہی خاندان سے دور پرے کی پرانی رشتہ داریاں بھی ہیں، چند برطانوی شہری اس پر بھی چیں بہ جبیں تھے کہ ایسے دور میں جب برطانیہ کوویڈ کے بعد مسلسل اقتصادی بحران اور مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ اتنے طمطراق سے آخری رسومات ادا کرنے کے بجائے سادگی بھی اختیار ہو سکتی تھی۔
اتنے غیرملکی مہمانوں کی حفاظت کے لیے برطانوی تاریخ کے سب سے مہنگے پولیس آپریشن پر ہی کروڑوں پاؤنڈ لگ گئے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ پچھلے ستر برس میں برطانیہ نے انسانی حقوق پامال کرنے والی حکومتوں کے ساتھ جو اقتصادی و عسکری روابط رکھے اور اس سے پہلے پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں اپنی نوآبادیات میں آزادی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے جس طرح کے جبری ہتھکنڈے استعمال کیے وہ ملکہ کے علم میں بھی بخوبی تھے۔ مگر ان کے نام پر ہونے والی ان زیادتیوں پر شاہی محل کی جانب سے کبھی علامتی بے چینی بھی ظاہر نہیں کی گئی۔ کچھ حلقوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اکیسویں صدی میں ایک بے اختیار بادشاہت کی شان و شوکت دکھانے بلکہ خود بادشاہت کا ادارہ برقرار رکھنے کا کیا جواز ہے۔ مگر ملکہ کے آخری دیدار کے لیے میلوں لمبی لائن میں چوبیس گھنٹے تک ہزاروں شہریوں کے کھڑے رہنے کے مناظر بتاتے ہیں کہ اکثریت آج بھی بادشاہت برقرار رکھنے کی حمایتی ہے اور اس ادارے کو اتحاد اور قومی فخر کا نمایاں ترین استعارہ سمجھتی ہے۔
شاہ پرستوں کی دلیل ہے کہ بادشاہت صدیوں پرانے پرشکوہ تسلسل کی علامت ہے۔بادشاہت ہی کے تحت برطانیہ ایک عام تجارتی ریاست سے ایسی عالمی سلطنت میں ڈھلا جس کے طول و عرض میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی کہ شاہی خاندان کے پروٹوکول، روایات اور سرکاری مصروفیات پر جو اخراجات ہوتے ہیں وہ دراصل انھی کی املاک سے حاصل ہونے والے پیسے سے ہوتے ہیں۔ یہ اثاثے محلات ، زرعی رقبے ، اصطبل ، کمرشل منصوبوں، ڈاک ٹکٹ کے قیمتی کلیکشن، زیورات و جواہرات ، رائیلٹی اور پینٹنگز کی شکل میں ہیں۔ ان ذرایع سے حاصل ہونے والی پچھتر فیصد آمدنی سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے اور پچیس فیصد آمدنی سوورن گرانٹ کے نام پر شاہی خاندان کے اخراجات کے لیے مختص ہے۔ سوورن گرانٹ کا حقدار بھی پورا شاہی خاندان نہیں بلکہ بادشاہ اور اس کے براہِ راست وارث ہیں۔ اس گرانٹ کا سالانہ تخمینہ ایک سو دس ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے، اگر اس گرانٹ کو برطانوی شہریوں پر تقسیم کیا جائے تو پینسٹھ پنس فی کس بنیں گے۔
البتہ ایک لاکھ تیس ہزار ایکڑ پر مشتمل ڈچی آف لنکاسٹر نامی زرعی اراضی اور املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی براہ راست شاہی خاندان کو ملتی ہے مگر قانون یہ ہے کہ شاہی اثاثوں کو کرائے پر تو دیا جا سکتا ہے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ ان مراعات کے عوض شاہی خاندان کی مختلف سرگرمیوں ، خصوصی تقریبات اور غیر ملکی دوروں کے نتیجے میں برطانیہ کے لیے جو عالمی تشہیر اور خیر سگالی جنم لیتی ہے اور غیرملکی سیاحوں کی جتنی تعداد برطانیہ میں پیسے خرچ کرتی ہے۔ اس کا حساب کتاب کیا جائے تو شاہی خاندان پر جو اخراجات ہوتے ہیں ان کا چار سے پانچ گنا پیسہ برطانوی معیشت کو شاہی خاندان کی کشش اور سافٹ پاور کے سبب واپس حاصل ہو جاتا ہے۔ شاہی آمدنی روایتی طور پر ٹیکس سے مستثنٰی رہی ہے مگر انیس سو بانوے سے ملکہ نے اپنی ذاتی آمدنی پر انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس دینے کی روایت ڈالی۔ اگرچہ ملکہ برطانیہ پانچ سو ملین ڈالر کے ذاتی اثاثے رکھتے ہوئے ملک کی سب سے امیر خاتون تھیں۔ اور شاہی خاندان کی مجموعی اثاثہ جاتی دولت کا تخمینہ تقریباً اٹھائیس ارب ڈالر ہے۔ لیکن دنیا میں اس وقت قائم دس امیر ترین بادشاہتوں کی فہرست میں برطانوی شاہی خاندان کہیں پانچویں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔
مثلاً پندرہ ہزار ارکان پر مشتمل سعودی شاہی خاندان کی مجموعی دولت کا اندازہ ایک اعشاریہ چار کھرب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ یہ دولت اسپین یا آسٹریلیا کی سالانہ قومی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔ شاہ سلیمان بن عبدالعزیز تقریباً اٹھارہ ارب ڈالر کے ذاتی اثاثوں کے مالک ہیں۔ جب کہ شہزادہ ولید بن طلال کے اثاثوں کی مالیت سولہ ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ کویت کا ایک ہزار افراد پر مشتمل الصباح خاندان تین سو ساٹھ ارب ڈالر کے اثاثوں کا مالک ہے۔ قطر کے آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل التہانی خاندان کے مجموعی اثاثوں کی مالیت لگ بھگ تین سو پینتیس ارب ڈالر ہے۔ امیرِ قطر شیخ تمیم بن حماد کی ذاتی دولت کا اندازہ تقریباً دو ارب ڈالر ہے۔ مغربی ممالک میں مختلف تعمیراتی و خدماتی شعبوں میں قطر کی اچھی خاصی سرمایہ کاری ہے۔ اسی طرح ابوظہبی کے النہیان خاندان کے اثاثوں کی مالیت ڈیڑھ سو ارب ڈالر اور دبئی کے المکتوم خاندان کے اثاثوں کی مالیت اٹھارہ ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ ان خاندانوں نے بھی برطانوی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ مراد یہ ہے کہ دنیا کے دس امیر ترین شاہی خاندان مجموعی طور پر دو اعشاریہ چار کھرب ڈالر مالیت کے اثاثوں کے وارث ہیں۔
برطانیہ چونکہ طویل عرصے تک سب سے بڑی نوآبادیاتی سلطنت کا مالک رہا لہٰذا اس تسلط کے طفیل کئی ایسے نوادرات بھی ہاتھ لگے جو جدید تعریف کے مطابق غصب شدہ دولت کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثلاً برطانوی بادشاہ کے عصا میں پانچ سو تیس قیراط وزن کا ہیرا اسٹار آف افریقہ جڑا ہوا ہے۔ یہ ہیرا جنوبی افریقہ سے لندن منتقل کیا گیا۔ اسی طرح تاجِ برطانیہ میں جو کوہِ نور جگمگا رہا ہے وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس سے پہلے کابل کے تخت پر براجمان شاہ شجاع اور اس سے پہلے کئی راجاؤں کی پگڑی کی زینت رہا۔ انگریزوں کے ہاتھ یہ ہیرا اٹھارہ سو انچاس میں پنجاب کی فتح کے بعد لگا۔ آج بھی بھارت ، پاکستان اور افغانستان کا کوہِ نور پر دعوی برقرار ہے۔ مگر اسی دنیا میں ایسی بھی بادشاہتیں ہیں جو سرکاری امداد کے بغیر گزارہ کرتی ہیں۔ مثلاً لکٹینسٹائین کے شاہی خاندان کو حکومت سے کوئی پیسہ نہیں ملتا۔ اس کا گزارہ باپ دادا کے اثاثوں پر ہے۔ لکسمبرگ کے بادشاہ ، ملکہ اور ان کے دو بچے ہی سرکاری وظیفہ حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ جب کہ ہالینڈ کا شاہی خاندان خود کماتا اور کھاتا ہے اور ملک کے لیے سفارتی خدمات کی صورت میں اسے بس ٹی اے ڈی اے ملتا ہے، حالانکہ تینوں یورپی ریاستیں ہر اعتبار سے خوشحال ہیں۔
بادشاہت کوئی آسان پیشہ نہیں۔ کبھی کبھی شاہی میزبان کی فرمائش کی لاج رکھنے کے لیے مہمان کو بھی اپنی روایات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً ستمبر انیس سو اٹھانوے میں سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ ملکہ برطانیہ کی بیس ہزار ایکڑ پر مشتمل بالمورل اسٹیٹ میں خصوصی مہمان بنے تو ظہرانے کے بعد ملکہ نے انھیں اپنی زمینوں کی سیر کرانے کا فیصلہ کیا۔ ملکہ نے خود لینڈ روور کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ شہزادہ عبداللہ کچھ لمحے کو ٹھٹھکے اور پھر بادلِ نخواستہ ملکہ کے برابر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئے۔ اس شاہی ڈرائیونگ کے اکیس برس بعد سعودی خواتین کو بھی گاڑی چلانے کی اجازت مل گئی، مگر یہ اجازت شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد ان کے وارثِ تخت شاہ سلیمان کے ولی عہد محمد بن سلیمان کی مرہونِ منت ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
warraichh · 2 years
Text
*سپین پر مسلمانوں کا قبضہ ایک طلسماتی پیشن گوئی پر مبنی اچھوتی تحریر !!*
قدیم یورپ میں جادو اور طلسمات کا راج افریقہ سے بھی بڑھ کر تھا اور یہ نہایت منظم ادارہ تھا جسے سرکاری حمایت حاصل تھی‘ بالخصوص رومی سلطنت کے دور میں خود حکمران طلسم کی مدد لیا کرتے تھے۔
مسلمانوں نے شمالی افریقہ سے یلغار کر کے سپین کا بیشتر علاقہ فتح کر لیا اور طویل عرصے تک یہ علاقہ ’اندلس‘ کی شکل میں اسلامی دنیا کے نقشہ کا اہم حصہ رہا۔ اندلس نام کا صوبہ آج بھی سپین میں موجود ہے۔ اندلس اصل میں وندولیزیا کی عربی شکل تھا۔ سپین کی فتح کا جب بھی ذکر آتا ہے ٹولیڈو (عربوں کے زمانے میں اس شہر کا نام طلیطلہ رکھ دیا گیا تھا) کے طلسم کا ذکر ضرور آئے گا۔
یہ طلسم یورپ میں بہت مشہور رہا ہے اور ہر انگریزی اور اسلامی تاریخ میں اس کا ذکر تواتر کے ساتھ آیا ہے۔ سائنسی ذہن اس کہانی کو درست نہیں مانتا مگر اس سوال کا بھی کوئی جواب ممکن نہیں ہے کہ مسلمان اور عیسائی دونوں طرف کے مورخین نے اس کہانی کو اتنے تواتر کے ساتھ کیوں بیان کیا ہے۔ بہرحال کہانی کچھ یوں ہے:::
رومیوں کے عہد میں یہاں ایک بڑی عمارت پہاڑوں پر قائم تھی جس کے جلے ہوئے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بادشاہ راڈرک نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو ا سے پتہ چلا کہ رومیوں نے اس عمارت میں ایک طلسم قائم کر رکھا تھا جسے دنیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کا زبردست اہتمام تھا۔ ایک دن ا یسا ہوا کہ بادشاہ راڈرک کے دربار میں دو نہایت عمررسیدہ بوڑھے نمودار ہوئے۔ انھوں نے زمانہ قدیم کا لباس پہن رکھا تھا اور سفید قباﺅں کے ساتھ اپنی کمر پر پراسرار قسم کے پٹکے باندھ رکھے تھے اور ان پٹکوں پر بارہ برجوں کو نقش کیا گیا تھا۔ چابیوں کے کئی گچھے بھی ان پٹکوں سے لٹک رہے تھے۔
ان بوڑھوں نے بادشاہ کو بتایا کہ ہرقل اعظم نے قدیم شہر کے قریب جو مضبوط برج بنا رکھا ہے اس میں ایک طلسم بند ہے۔ برج کا راستہ بڑے وزنی پھاٹکوں سے روکا گیا ہے جن میں بڑے بڑے تالے لگے ہیں ہر نئے تخت نشین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان میں اپنے تالے کا اضافہ کرے اور یہ بھی بتایا کہ جو بادشاہ اس طلسم کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا‘ وہ تباہ ہو جائے گا۔ ا نھوں نے کہا کہ ہم نسل درنسل اس طلسم کے محافظ ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ جس نے بھی اس طلسم کو افشا کرنے کی جستجو کی برباد ہو گیا۔
اے بادشاہ! آپ سے عرض ہے کہ آپ بھی اپنے پیشروﺅں کی طرح اس طلسم پر اپنا قفل ڈال دیں۔ بوڑھے اپنی مفروضات بیان کر کے چلے گئے لیکن راڈرک کو بے پناہ اشتیاق میں مبتلا کر گئے۔ ا س نے طے کر لیا کہ وہ یہ طلسمی راز دریافت کرے گا۔ اہل دربار نے اسے بہت ڈرایا لیکن اس کی ضد قائم رہی۔
ایک ��وز راڈرک اپنے مصاحبین کے ہمراہ برج کی پہاڑی کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک بہت اونچی پہاڑی ہے جسے چاروں طرف سے اونچی نیچی چٹانوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے گویا اس کی حفاظت کر رہی ہیں۔ اس پہاڑی کے اوپر زمرد اور سنگ مر مر سے بنا ہوا ایک پرانا لیکن خوبصورت برج قائم ہے جس پر بڑی کاریگری سے طرح طرح کے نقوش کندہ کیے گئے ہیں۔ یہ نقش سورج کی کرنوں میں چمک رہے تھے۔
انھوں نے دیکھا کہ پتھر کاٹ کر ایک راستہ بنایا گیا ہے جس پر ایک بڑا پھاٹک لگا ہوا ہے اور اس پھاٹک پر وہ سارے تالے لٹک رہے ہیں جو اپنے اپنے دورِ حکومت میں سارے بادشاہ اس پر لگاتے رہے ہیں۔ ان میں راڈرک سے پہلے کے آخری رومی فرمانروا کا تالا بھی تھا۔ راڈرک نے حیرت سے دیکھا کہ پھاٹک کے دونوں طرف عمر رسیدہ بوڑھے بھی موجود تھے جو اس دن دربار میں آئے تھے۔ راڈرک نے انھیں تالے کھولنے کا حکم دیا۔
شاہی حکم سے مجبور دونوں بوڑھوں نے تالے کھولنے شروع کیے۔ سورج غروب ہو رہا تھا جب سارے تالے کھل گئے تو پھاٹک سے اندر جا کر راڈرک نے دیکھا کہ ایک بڑا کمرہ ہے۔ وہ اس کمرے میں داخل ہوا جس کی دوسری طرف ایک دروازہ تھا اور اس دروازے کے پاس ایک مجسمہ اس طرح کھڑا تھا گویا پہرہ دے رہا ہے۔ اس مجسمے کے ہاتھ میں ایک بڑا فولادی گرز تھا اور بت کے سینے پر لکھا تھا: ”میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔“راڈرک نے نہایت خوف کے عالم میں دیکھا کہ مجسمہ گرز کو بار بار زمین پر مار رہا تھا۔
راڈرک ہمت کرکے مجسمے سے مخاطب ہوا۔” میں اندر کسی قسم کی بے ادبی کی نیت سے نہیں جا رہا‘ مجھے جانے دو‘ میں صرف راز دریافت کرنا چاہتا ہوں۔“ اس کی یہ التجا سن کر گرز رُک گیا بادشاہ مصاحبین سمیت اندر داخل ہو گیا۔ اندر ہر طرف ہیرے اور جواہرات بکھرے پڑے تھے اور درمیان میں ہر قل اعظم کی نصب کردہ میز رکھی ہوئی تھی۔ میز پر ایک صندوقچہ رکھا تھا جس پر لکھا تھا: ”اس میں برج کا راز ہے۔ بادشاہ کے سوا کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے لیکن اسے خبردار رہنا چاہیے کہ جو کچھ اس پر ظاہر ہو گا وہ اس کی موت سے پہلے پہلے ضرور ہو کر رہے گا۔“
اب پیشگوئیوں کا ایک سلسلہ اس کا منتظر تھا جن کی شکل تحریری نہیں بلکہ عملی تھی۔ یعنی ایک فلم اس کے سامنے چلنے والی تھی۔ راڈرک نے صندوقچہ کھول دیا۔ اندر سے صرف ایک چمڑا نکلا جس پر گھڑسواروں کی تصویریں نقش تھیں۔ اوپر لکھا تھا۔
” اوبے لحاظ! دیکھ یہ وہ لوگ ہیں جو تجھے تیرے تخت سے نیچے پٹخ دیں گے اور تیرے ملک پر قابض ہو جائیں گے۔“ یہ فقرہ پڑھ کر بادشاہ نے جو دوبارہ ان تصویروں کو دیکھا تو یکایک یوں لگا جیسے وہ جنگ کے میدان میں ہے۔ روشنی دھندلا گئی اور اس دھندلکے میں ایک مدھم سا منظر اسے نظر آنے لگا۔ تصویروں والے آدمی حرکت میں آگئے تھے۔
چمڑے کا مختصر ٹکڑا ایک وسیع میدانِ جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ایک طرف سپین کے عیسائی تھے تو دوسری طرف شمالی افریقہ کے مسلمان۔ گھوڑوں کے دوڑنے اور ہتھیاروں کے چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں‘ میدانِ حشر برپا ہو گیا تھا۔ تلواریں اور گرز چمک رہے تھے۔ یہ فلم کب تک چلتی رہی‘ بادشاہ اور اس کے مصاحبین کو ا س کا کچھ ہوش نہ تھا۔ انھیں آخری منظر یہ نظر آیا کہ مسلمانوں کی فوج نے عیسائیوں کو شکست دے دی تھی۔ فتح کے نعرے گونج رہے تھے اور شکست خوردہ فوج کا ایک سوار تاجِ شاہی پہنے بھاگ رہا تھا۔ اس سوار کا چہرہ دوسری طرف تھا‘ بھاگتے بھاگتے وہ گھوڑے کی پیٹھ سے گرا‘ پھر سارا منظر غائب ہو گیا۔
بادشاہ راڈرک اور اس کے مصاحبین پر یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اتنا خوف طاری ہوا کہ وہ وہاں سے اندھا دُھند بھاگ نکلے۔ لیکن وہ جونہی کمرے سے باہر نکلے ایک حیرت ان کا انتظار کر رہی تھی۔ نگران مجسمہ اپنے گرز سمیت وہاں سے غائب تھا اور ایک طرف دونوں بوڑھوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں جو اس پراسرار برج کے رکھوالے تھے اور جن کے پاس اس برج کے دروازے پر لگے ہوئے مختلف حکمرانوں کی طرف سے لگائے گئے تالوں کی چابیاں تھیں۔ وہ بھاگتے چلے گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پہاڑ کو آگ لگی ہوئی تھی‘ پتھر جل جل کر چٹخ رہے تھے اور اچھل اچھل کر ادھر اُدھر گر رہے تھے۔ راڈرک اوراس کے ہمرا ہی دوڑتے ہی چلے گئے یہاں تک کہ واپس اپنے محل تک آپہنچے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بعد میں جو کچھ ہوا، وہ اس ’فلم‘ کے مطابق ہی ہوا جو راڈرک کو دکھائی گئی تھی۔ فلم میں جس گھڑ سوار کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا وہ خود راڈرک تھا۔ شکست کھانے والی فوج اسی کی تھی مسلمانوں نے جنگ جیت لی اور اس علاقے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ وہ یہ ’فلم‘ نہ دیکھتا تو بھی وہی کچھ ہوتا جو ہوا۔ تو بوڑھے دربانوں کی اس بات کاکیا مطلب تھا کہ جو اس طلسم کو کھولے گا وہ تباہ ہو جائے گا کیونکہ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ جو طلسم نہیں کھولے گا وہ بچ جائے گا۔ کیا اس کی تشریح کی جا سکتی ہے کہ راڈرک کے لیے جس طرح شکست مقدر تھی اسی طرح طلسم کھولنے کی اس کی کوشش بھی اس کا مقدر تھی؟
(نوٹ…. اندلس کو ۱۱۷ء میں طارق بن زیاد نے فتح کیا۔ طارق بن زیاد نے اپنے لشکر کو سمندر پار کرتے ہی تمام کشتیاں جلا دینے کا حکم دیا تاکہ اس کے سپاہی واپسی کی راہ بند دیکھ کر ہر قیمت پر فتح حاصل کریں۔ جس جگہ پر اس کا لشکر اُترا اسے بعد میں جبل الطارق کا نام دے دیا گیا۔ طارق کی جنگ اندلس کے حکمران راڈرک سے ہوئی۔ راڈرک کا تعلق گاتھ قوم سے تھا۔
راڈرک اور طارق بن زیاد کے درمیان یہ فیصلہ کن جنگ جھیل لاجنڈا کے قریب وادی برباط یا وادی بکر کے کنارے ہوئی تھی۔ اس جنگ میں راڈرک کو شکست ہوئی اور طارق کی فوج نے قرطبہ اور ٹولیڈو (طلیطلہ) پر قبضہ کر لیا۔ اندلس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس ملک کے جنو��ی حصے پر ایک یورپی قوم ونڈال کی حکومت رہی تھی۔ انھوں نے اس علاقے کا نام وندا لیزیا رکھ دیا تھا۔ عربوں نے اسے اندلس پڑھا۔ ۲۹۴۱ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد عیسائی اندلس کا نام سپین رکھا گیا‘ لیکن جنوبی حصے کا نام اب بھی اندلس یا اندلیب ہے۔)
0 notes
urdunewspost · 3 years
Text
شنگھائی درآمدی ایکسپو میزبان 'غیر معمولی اطالوی جواہرات' کے پویلین کی میزبانی کرتا ہے
شنگھائی درآمدی ایکسپو میزبان ‘غیر معمولی اطالوی جواہرات’ کے پویلین کی میزبانی کرتا ہے
[ad_1]
Tumblr media
ایک اطالوی جیولر نے شنگھائی میں CIIE میں اپنا ہنر دکھایا۔ تصویر: بشکریہ بازگشت
شنگھائی میں چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو (CIIE) میں پرتعیش سامان ، خوراک ، خدمات اور جدید ٹیکنالوجیز پر توجہ دینے والی اطالوی کمپنیوں نے “میڈ اِن اٹلی” کی انفرادیت کا مکمل مظاہرہ کیا۔مثال کے طور پر ، “غیر معمولی اطالوی جواہرات” کے پویلین میں ، نمائش کے علاقے میں تقریبا square 300 مربع میٹر پر محیط ایک مشہور…
View On WordPress
0 notes
45newshd · 5 years
Photo
Tumblr media
جعلی اکاؤنٹس کیس کے ملزم لیاقت قائم خانی نے گھر سے برآمد قیمتی جواہرات سمیت اکثر اشیاء کی ملکیت تسلیم کرنے سے انکار کردیا،یہ چیزیں دراصل کس کی ہیں؟ حیرت انگیز انکشاف کراچی (این این آئی)جعلی اکاؤنٹس کیس کے ملزم لیاقت قائم خانی نے گھر سے برآمد اکثر اشیاء کی ملکیت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔قومی احتساب بیورو (نیب) ذرائع کے مطابق میئر کراچی کے مشیر ملزم لیاقت قائم خانی نے فنگرپرنٹ سے کھولے گئے لاکر سے برآمد اکثر قیمتی جواہرات سے بھی لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ملزم لیاقت قائم خانی کا بیان میں کہنا ہے کہ 8 بھائی ہیں اور سب مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہیں، گھر سے برآمد ساری گاڑیاں میری نہیں بلکہ خاندان اور دیگر پارٹنرز کی ہیں۔
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
کراچی: ابراہیم حیدری کے ماہی گیروں نے 70 کروڑ کی نادر مچھلیاں پکڑ لیں
کھلے سمندر میں شکار کے دوران جال میں پھنسنے والی گولڈن سوامچھلی نے ابراہیم حیدری کے ماہی گیروں کی چاندی کردی،راتوں رات کروڑ پتی بن گئے،سوا مچھلی کے ائیربلیڈر(پوٹا)ہیرے جواہرات کے مول بکتا ہے۔ ابراہیم حیدری کے ماہی گیرحاجی یونس بلوچ کی کراچی کے کھلے سمندر (شمالی بحیرہ عرب )میں مچھلی کے شکار پر موجود لانچ کے عملے کے ہاتھ  70 کروڑ کی سوا مچھلی اگئی،اتنی بڑی مقدار میں سوا مچھلی کے شکار سے مائی گیروں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
عمران خان کا انقلاب صرف آن لائن انقلاب ہے، طلال چوہدری
عمران خان کا انقلاب صرف آن لائن انقلاب ہے، طلال چوہدری
فیصل آباد (نمائندہ عکس )مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ عمران خان کا انقلاب صرف آن لائن انقلاب ہے، آن گراﺅنڈ انقلاب لانا ان کے بس کی بات نہیں، یہ کیسا انقلاب ہے جس کے قائد بنی گالامیں اے سی والے کمرے کے اندر چھپے بیٹھے ہیں، عمران خان سے جب بھی حساب لینے کی بات کی جائے تو ان کے پیٹ میں انقلاب کا مروڑ اٹھتا ہے، جس دن ان کے ہیرے جواہرات کی چوری پکڑی جائے تو انہیں انقلاب یاد آنے لگتا ہے،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
qamer · 2 years
Photo
Tumblr media
سیدی یونس الگوہر نے فرمایا. 🙏 خضرعلیہ السلام نے اپنے مصاحیبین کو کہا تھا چلو میں تمہیں آبِ حیات کا پتا دیتا ہوں. سب کو بحرِ ظلمات میں لے گیا. ڈھونڈتے رہے کہیں آبِ حیات ملا نہیں تو خضر نے کہا یہ کنکر پتھر اٹھا لو.،کچھ لوگوں نے اُٹھا لیئے کچھ نے نہیں. جب بحرِ ظلمات سے باہر آئے تو ان کے ہاتھ میں جو کنکر پتھر تھے وہ ہیرے جواہرات تھے. فرمایا اسی طرح جو فقیر کی بات ہوتی ہے وہ مان لو. تم کہتے رہو گے ربّ چاہیئے، رب چاہیئے اور فقیر کہے گا بس تم نعتیں پڑھتے رہو. وہ کہے گا ہم تو دس سال سے نعتیں پڑھ رہے ہیں ربّ تو ملا نہیں،پھر ایک دن آئے گا پھر پتا چلے گا، جسے ڈھونڈ رہے تھے تم، اُسی سے تو بات کر رہے تھے وہ کیا ملے گا. 16.05.2022. #ifollowGoharShahi #ImamMehdiGoharShahi #GoharShahi #YounusAlGohar #ALRATV Watch ALRA TV 👉https://youtube.com/c/ALRATV"Watch Sufi Online with Younus AIGohar" is a daily show aired LIVE at *3:00 AM*For *Zikar-e-Qalb* (Activation of the Spiritual Heart) contact Shaykh Amjad Gohar on this number +447401855568How to Send Your Questions:1. Message us on Facebook/alratv2. Text or call our WhatsApp number: +447472540642 #ALRATVhttps://www.facebook.com/alratv#YounusAlgoharhttps://www.facebook.com/HHYounusAlGohar https://www.instagram.com/p/CdvB5CWv7GI/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
alibabactl · 4 years
Text
آج سر سید احمد خان کا یوم پیدائش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرسید احمد خاں برصغیرمیں مسلم نشاط ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا.
سر سید احمد خان انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انہیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی. آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔
" سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اسوقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے ۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ ..... وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس ،خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ ... سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔
سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل كی. ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاك كا مطالعہ كیا اور عربی اور فارسی ادب كا مطالعہ بھی كیا۔ اس كے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل كی.جریدے Sayyad القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی.
سر سید نے کئی سال کے لئے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس نے کورس مکمل نہیں ہے.
ابتدائی تعلیم حاصل كرنے كے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی كام سیكھا۔ 1837ء میں آگرہ میں كمیشنر كے دفتر میں بطور نائب منشی فرائض سنبھالے۔ 1841ئ اور 1842ئ میں مین پوری اور 1842ء اور1846ء تك فتح پور سیكری میں سركاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی كرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام كے دوران آپ نے اپنی مشہور كتاب " آثار الصنادید" 1847ء میں لكھی۔ 1857ئ میں آپ كا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام كے دوران آپ نے اپنی " كتاب سركشی ضلع بجنور" لكھی۔ جنگ آزادی كے دوران آپ بجنور میں قیام پذیر تھے۔ اس كٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اوربچوں كی جانیں بچائیں۔آپ نے یہ كام انسانی ہمدردی كیلئے ادا كیا۔ جنگ آزادی كے بعد آپ كو آپ كی خدمات كے عوض انعام دینے كیلئے ایك جاگیر كی پیشكش ہوئی جسے آپ نے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔
1857ء میں آپ كو ترقی دے كر صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ كی تعیناتی مراد آباد كر دی گئی۔ 1862ء میں آپ كا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے۔
1877ء میں آپ كو امپیریل كونسل كا ركن نامزد كیا گیا۔ 1888ء میں آپ كو سر كا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان كی یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ كو ایل ایل ڈی كی اعزازی ڈگری دی۔ 1864ء میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس میں مضامین سرسید نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ اورادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ 1887ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اوراپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔
۔ 1859 ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گیے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں Tatler اور Spectator کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ (علیگڑھ تحریک)۔۔۔۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔
آپ نے 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں وفات پائی اور اپنے محبوب کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔ سرسید کی تمام زندگی قوم و ادب کی خدمت میں گزری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں ۔ ۔ ۔ انہوں نے دربار کو جانا ��م کردیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو ، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی ، دلوانا شروع کردیا تھا۔ سرسید کہتے تھے کہ:
" ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اُٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اُٹھا ۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہوگئی ۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا ۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے ، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے ، پوچھا کہ " تمہارا بیٹا ہے؟" انہوں نے کہا، "حضور کا خانہ زاد! " بادشاہ چپکے ہو رہے۔ لوگوں نے جانا بس اب محل میں چلے جائیں گے ، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ تسبیح خانہ میں بھی ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی دربار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترہ پر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتئ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ بادشاہ نے مجھے اہنے سامنے بلایا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ " دیر کیوں کی؟" حاضرین نے کہا ، " عرض کرو کہ تقصیر ہوئی " مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ " سو گیا تھا! " بادشاہ مسکرائے اور فرمایا، " بہت سویرے اُٹھا کرو! " اور ہاتھ چھوڑ دئیے ۔ لوگوں نے کہا، " آداب بجا لاؤ! " میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اُٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے۔ تمام درباری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی
۔۔۔
1855 ء میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف "آئین اکبری" کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مرزا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا ۔ اس میں انہو ں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی ، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کردیا۔
دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے ۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصدا ً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔
سر سید کہتے تھے کہ :
" جب میں مرادآباد میں تھا ، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے ، میں نے سنا کہ وہ مرادآباد میں سرائے میں آکر ٹھہرے ہیں ۔ میں فورا سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔"
ظاہراً جب سے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لئے مرزا نے مرادآباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔ الغرض جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی ۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا ۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا توبہت گھبرائے ، سرسید نے کہا:
" آپ خاطر جمع رکھئے ، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔"
مرزا صاحب نے کہا، " بھئی مجھے دکھا دو ، تم نے کہاں رکھی ہے؟" انہوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی ۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، " بھئی ! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے ، شاید اسی لئے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے:
واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنند چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند
سرسید ہنس کے چُپ ہورہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی ، رفع ہوگئی ، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے
۔۔۔۔
تصانیف
۔۔۔۔۔
آثار الصنادید
خطبات احمدیہ
الکلام
سفرنامہ لندن
تاریخ بجنور
۔۔۔۔۔۔
سرسید كا نقطہ نظر تھا كہ مسلم قوم كی ترقی كی راہ تعلیم كی مدد سے ہی ہموار كی جا سكتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ وہ جدید تعلیم حاصل كریں اوار دوسری اقوام كے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلكہ مسلمانوں كے لیے جدید علوم كے حصول كی سہولتیں بھی فراہم كرنے كی پوری كوشش كی۔ انہوںنے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم كی طرف مسلمانوں كو راغب كیا۔ انہوںنے انگریزی كی تعلیم كو مسلمانوں كی كامیابی كے لیے زینہ قرار دیا تاكہ وہ ہندوئوں كے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل كر سكیں۔
1859 میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ئ میں غازی پور میں مدرسے قائم كیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی كے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے كا بندوبست بھی كیا گیا۔
1875ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سكول كی بنیاد ركھی جو بعد ازاں ایم ۔اے۔ او كالج اور آپ كی وفات كے بعد 1920ء میں یونیورسٹی كا درجہ اختیار كر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ كی خدمات حاصل كیں۔
1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفك سوسائٹی كے نام سے ایك ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے كے قیام كا مقصد مغربی زبانوں میں لكھی گئیں كتب كے اردو تراجم كرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی كے دفاتر علی گڑھ میں منتقل كر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل كو انگریزی زبان سیكھنے كی ترغیب دی تاكہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سكے۔ یوں دیھکتے ہی دیكھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم كا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی كی خدمات كی بدولت اردو زبان كو بہت ترقی نصیب ہوئ ۔
1886ئ میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے نام سے ایك ادارے كی گنیاد ركھی گئی۔ مسلم قوم كی تعلیمی ضرورتون كے لیے قوم كی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور كانفرنس كی كاركردگی سے متاثر ہو كر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں كا آغاز كیا۔ لاہور میں اسلامیہ كالج كراچی میں سندھ مسلم مدرسہ٬ پشاور میں اسلامیہ كالج اور كانپور میں حلیم كالج كی بنیاد ركھی۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس مسلمانوں كے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق كے تحفظ كے لیے بھی كوشاں رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید نے زیادہ زور جدید تعلیم پر دیا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے۔ سر سید کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رخ اختیار کر لیا ہے اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جا سکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کر دی۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد ہی اپنے ہم وطنوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا۔[4] اس سوسائٹی کے جلسوں میں جس میں نئے نئے سائنسی مضامین پر لیکچر ہوتے اور آلات کے ذریعہ تجربے بھی کیے جاتے، کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو بتایا جا سکے کہ بنا جدید علوم خاص طور پرسائنس کے میدان میں ترقی نہیں کی جا سکتی اور اسی لیے سائنٹفک سوسائٹی نے جن دو درجن کتابوں کا ترجمہ کرایا ان میں چند کو چھوڑ کر زیادہ تر ریاضی اورسائنس سے متعلق تھیں۔ سر سید احمد خاں کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ یورپ جس راستے پر جا رہا ہے اور جو تعلیم حاصل کر رہا ہے وہی راستا اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی گارنٹی ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ درسگاہیں کیسی ہیں اور ان کا نظام تعلیم کیا ہے؟ اس لیے وہ خود انگلستان گئے، وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھا، تعلیمی اداروں میں رہے، اساتذہ سے ملاقاتیں کیں اور اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ انگلستان کی ہر چیز نے ان کو متاثر کیا۔[4] انہوں نے کہا:[5] ” میں نے صرف اس خیال سے کہ کیا راہ ہے جس سے قوم کی حالت درست ہو، دور دراز سفر اختیار کیا اور بہت کچھ دیکھا جو دیکھنے کے لائق تھا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میں نے کوئی عمدہ چیز دیکھی، جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جب کبھی علمی مجلسیں دیکھیں، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے، جب کبھی کھیل کود، عیش و آرام کے جلسے دیکھے، یہاں تک کہ جب کبھی کسی خوب صورت شخص کو دیکھا مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں، جہاں تک ہو سکا ہر موقع پر میں نے قومی ترقی کی تدبیروں پر غور کیا سب سے اول یہی تدبیر سوجھی کہ قوم کے لیے قوم ہی کے ہاتھ سے ایک مدرسہ العلوم قائم کیا جائے جس کی بنا آ پ کے شہر میں اور آپ کے زیر سایہ پڑی۔ “
۔۔۔
سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلا راجہ رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یار دعمل تو مایوسی ، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زی�� زمین پرورش پارہا تھا ۔ اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ ابتداءمیں سرسیداحمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لئے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہوگئے۔ اس مقصد کے لئے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔ 1869 ءمیں سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ، اور گارڈین سے متاثر ہو کر ۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لئے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں. علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی.
سر سید احمد خاں نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی داغ بیل ڈالی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا:
” میں ہندوستانیوں کی ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہو جائے، اگرگورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ “
ا س تحریك كے دیگر قائدین میں سے محسن الملك٬ وقار الملك٬ مولانا شبلی نعمانی٬ مولانا الطاف حسین حالی٬ اور مولانا چراغ علی خاص طور پر قابل ذكر ہیں۔ ان لوگوں نے وہ كارہائے نمایاں انجام دیے كہ آنے والی مسلم نسلیں ان كی جتین بھی قدر كریں كم ہے۔ سرسید اور ان كے ساتھیوں نے علی گڑھ تحریك كو ایك ہمہ گیر اور جامع تحریك بنا دیا۔ یوں مسلمانوں كی نشاۃ الثانیہ كا آغازہوا۔
۔۔۔۔۔۔
1857ءكی جنگ آزادی كی تمام تر ذمہ داری انگریزوں نے مسلمانوں پر ڈال دی تھی اور انہیں سزا دینے كے لئے ان كے خلاف نہایت ظالمانہ اقدامات كئے گئے ہندو جو كہ جنگ آزادی میں برابر كے شریك تھے۔ انہیں بالكل كچھ نہ كہا گیا۔ انگریز كی اس پالیسی كی وجہ سے مسلمان معاشرتی طور پر تباہ ہو گئے اور ان معاشی حالت ابتر ہو گئی انگریزوں نے فارسی كی بجائے جو كہ مسلمانوں كی زبان تھی۔ انگریزی كو سركاری زبان كا درجہ دے دیا تھا۔ مسلمان كسی صورت بھی انگریزی زبان سیكھنے پر رضا مند نہ تھے، دوسری طرف ہندووٕں نے فوری طور پر انگریزی زبان كو اپنا لیا تھا اور اس طرح تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نكل گئے۔
ان اقدامات نے مسلمانوں كی معاشی اور معاشرتی حالت كو بہت متاثر كیا تھا مسلمان جو كبھی ہندوستان كے حكمران تھے، ادب ادنیٰ درجے كے شہری تھے۔ جنہیں ان كے تمام حقوق سے محروم كر دیا گیا تھا۔
سرسید احمد خان مسلمانوں كی ابتر حالت اور معاشی بدحالی كو دیكھ كر بہت كڑھتے تھے آپ مسلمانوں كو زندگی كے باعزت مقام پر دیكھنا چاہتے تھے اور انہیں ان كا جائز مقام دلانے كے خواہاں تھے۔ آپ نے مسلمانوں كی راہنمائی كا ارادہ كیا اور انہیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل كرنے كے لئے جدوجہد كی تلقین كی۔
سرسید احمد خان نے یہ محسوس كر لیا تھا كہ ہندوستان كے مسلمانوں كی موجودہ حالت كی زیادہ ذمہ داری خود مسلمانوں كے انتہا پسند رویے كی وجہ سے ہے۔ ہندوستان كے مسلمان انگریز كو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور انگریزی تعلیم سیكھنا اپنے مذہب كے خلاف تصور كرتے تھے۔ مسلمانوں كے اس رویے كی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں كے درمیان ایك خلیج حائل رہی، سرسید احمد خان نے یہ محسوس كر لیا تھا كہ جب تك مسلمان انگریزی تعلیم اور انگریزوں كے متعلق اپنا رویہ تبدیل نہ كریں گے ان كی حالت بہتر نہ ہو سكے گی اور وہ تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہندووٕں سے پیچھے رہیں گے۔ آپ نے مسلمانوں كو یہ تلقین كی كہ وہ انگریزوں كے متعلق اپنا رویہ بدلیں كیونكہ انگریز ملك كے حكمران ہیں۔ آپ نے اپنی تحریك كا آغاز مسلمانوں اور انگریزوں كے درمیان غلط فہمی كی فضا كو ختم كرنے سے كیا۔
۔۔۔۔۔۔
سرسید احمد خان یہ سمجھتے تھے كہ مسلمانوں كی موجودہ بدحالی كا سب سے بڑا سبب مسلمانوں كا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ آپ یہ سمجھتے تھے كہ مسلمانوں كو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت كا رویہ ترك كر كے مفاہمت كا راستہ اختیار كرنا چاہئے۔ دوسری طرف ہندو جدید تعلیم حاصل كر كے تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نكل گئے تھے اور اعلیٰ ملازمتیں حاصل كر لی تھیں۔ آپ نے مسلمانوں كو اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے كی تلقین كی اور انہیں یہ باور كرایا كہ جب تك وہ اپنا انتہا پسند رویہ ترك كر كے انگریزی علوم نہیں سیكھیں گے وہ كسی طرح بھی اپنی موجودہ بدحالی پر قابو نہ پا سكیں گے۔ آپ نے قرآن پاك كے حوالے دے كر مسلمانوں كو یہ سمجھایا كہ انگریزی علوم سیكھنا اسلام كے خلاف نہیں ہے آپ نے انتہا پسند عناصر سے مسلمانوں كو خبردار كیا۔ مسلمانوں كی تعلیمی بہتری كے لئے آپ نے متعدد اقدامات كئے۔
1859ء میں مراد آباد كے مقام پر ایك مدرسہ قائم كیا گیا جہاں فارسی كی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مدرسے میں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ 1863ئ میں غازی پور میں سائنٹیفك سوسائٹی قائم كی گئی جس كا مقصد انگریزی علوم كو اردو اور فارسی میں ترجمہ كرنا تھا تاكہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ كرسكیں۔ 1866ئ میں سائنٹیفك سوسائٹی كے زیر اہتمام ایك اخبارجاری كیا گیا جسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ كہا جاتا ہے یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع كیا جاتا تھا۔ اس اخبار كے ذریعے انگریزوں كو مسلمانوں كے جذبات سے آگاہ كیا جاتا تھا۔
1869ء میں آپ كے بیٹے سید محمود كو حكومت كی طرف سے اعلیٰ تعلیم كے لئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے كے ہمراہ انگلستان چلے گئے۔ وہاں جا كر آپ نے آكسفورڈ اور كیمبرج یونیورسٹیوں كے نظام تعلیم كا مشاہدہ كیا۔ آپ ان یونیورسٹیوں كے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور یہ ارادہ كیا كہ ہندوستان جا كر ان یونیورسٹیوں كی طرز كا ایك كالج قائم كریں گے۔
آپ انگلستان سے 1870ء میں واپس آئے اور [[ہندوستان] میں انجمن ترقی مسلمانان ہند كے نام سے ایك ادارہ قائم كیا جس كا مقصد مسلمانوں كو جدید تعلیم سے روشناس كرانا تھا۔ 1870ءمیں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لكھا جس میں آپ نے مسلمانوں كے ان معاشرتی پہلووٕں كی نشاندہی كی جن كی اصلاح كرنا مقصود تھی اور مسلمانوں كو تلقین كی كہ وہ اپنے ان پہلووٕں كی فوری اصلاح كریں۔
۔۔۔۔۔۔
انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں كی تعلیمی ترقی كے لئے ایك كمیٹی قائم كر دی جس نے اعلیٰ تعلیم كے لئے ایك كالج كے قیام كے لئے كام شروع كیا۔ اس كمیٹی كو محمڈن كالج كمیٹی كہا جاتا ہے۔ كمیٹی نے ایك فنڈ كمیٹی قائم كی جس نے ملك كے طول و عرض سے كالج كے لئے چندہ اكٹھا كیا۔ حكومت سے بھی امداد كی درخواست كی گئی۔
1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سكول قائم كیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم پڑھانے كا بندوبست كیا گیا۔ 1877ء میں اس اسكول كو كالج كا درجہ دے دیا گیا جس كا افتتاح لارڈ لٹن نے كیا۔ یہ كالج رہائشی كالج تھا اور یہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید كی یہ دلی خواہش تھی كہ اس كالج كو یونیورسٹی كا درجہ دلا دیں۔ یہ كالج سرسید كی وفات كے بعد 1920ء میں یونیورسٹی بن گیا یہاں سے فارغ التحصیل طلباءنے آگے چل كر تحریك پاكستان میں نمایاں كردار ادا كیا۔
۔۔۔۔
سرسید احمد خان نے 27دسمبر 1886ء كو محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كی بنیاد ركھی اس كانفرنس كا بنیادی مقصد مسلمانوں كی تعلیمی ترقی كے لئے اقدامات كرنا تھا۔ اس كا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ كانفرنس نے تعلیم كی اشاعت كے لئے مختلف مقامات پر جلسے كئے۔ہر شہر اور قصبے میں اس كی ذیلی كمیٹیاں قائم كی گئیں۔ اس كانفرنس كی كوششوں سے مسلمانوں كے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس كانفرنس نے ملك كے ہر حصے میں اجلاس منعقد كئے اور مسلمانوں كو جدید تعلیم كی اہمیت سے روشناس كرایا۔ اس كانفرنس كے سربراہوں میں نواب محسن الملك، نواب وقار الملك، مولانا شبلی اور مولانا حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں۔
محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل كر تعلیمی ترقی كے اقدامات پر غور كیا جاتا تھا اور مسلمانوں كے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور كیا جاتا تھا۔[7]
آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام بھی 1906ء میں محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے موقع پر ڈھاكہ كے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے موقع پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایك خصوصی اجلاس میں شركت كی۔ اجلاس میں فیصلہ كیا گیا كہ مسلمانوں كی سیاسی راہنمائی كے لیے ایك سیاسی جماعت تشكیل دی جائے۔ یاد رہے كہ سرسید نے مسلمانوں كو سیاست سے دور رہنے كا مشورہ دیا تھا۔ لیكن بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقار الملك نے كی۔ ننواب محسن الملك، مولانامحمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، حكیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ كا صدر سید امیر علی كو بنایا گیا۔
۔۔۔
1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کردیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ مولانا حالی نے حیات جاوید میں سرسید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سرسید احمد نے 1867 ء میں ہی اردو ہندی تنازعہ کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علیحدہ ہوجانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انہوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع ترہوتی جارہی ہے۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ اور آگے چل کر مسلمانوں ار ہندوؤں کی راہیں جدا ہوجائیں گی۔[8]
اردو زبان كی ترقی و ترویج كا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی كی منزلیں طے كرتی ہوئی ہندوستان كے مسلمانوں كی زبان بن گئی۔ اردو كئی زبانوں كے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لئے اسے لشكری زبان بھی كہا جاتا ہے۔ اس كی ترقی میں مسلمانوں كے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت كام كیا ہے سرسید احمد خان نے بھی اردو كی ترویج و ترقی میں نمایاں كام كیا لیكن چونكہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت كرتا تھا جس سے مسلمانوں كی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندووٕں نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی۔
1867ء میں بنارس كے چیدہ چیدہ ہندو رہنماوٕں نے مطالبہ كیا كہ سركاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی كو یكسر ختم كر دیا جائے اور اس كی جگہ ہندی كو سركاری زبان كے طور پر رائج كیا جائے۔ ہندووٕں كے اس مطالبے سے سرسید احمد خان پر ہندووٕں كا ت��صب عیاں ہو گیا اور انہیں ہندو مسلم اتحاد كے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا كہ :
٫٫ مجھے یقین ہو گیا ہے كہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایك قوم كے كبھی نہیں ایك دوسرے كے ساتھ مل كر نہیں رہ سكتے۔٬٬
سرسید احمد خان نے ہندووٕں كی اردو زبان كی مخالفت كے پیش نظر اردو كے تحفظ كے لئے اقدامات كرنیكا ارادہ كیا1867ء میں آپ نے حكومت سے مطالبہ كیا كہ ایك ٫٫ دار الترجمہ٬٬ قائم كیا جائے تاكہ یونیورسٹی كے طلبائ كیلئے كتابوں كا اردو ترجمہ كیا جا سكے ہندووٕں نے سرسید احمد خان كے اس مطالبے كی شدت سے مخالفت كی لیكن آپ نے تحفظ اردو كے لئے ہندووٕں كا خوب مقابلہ كیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایك تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم كی اورسائنٹیفك سوسائٹی كے ذریعے اردو كی حفاظت كا بخوبی بندوبست كیا۔
ہندووٕں نےاردو كی مخالفت میں اپنی تحریك كو جاری ركھا۔1817ء میں بنگال كے لیفٹیننٹ گورنر كیمبل نے اردو كو نصابی كتب سے خارج كرنے كا حكم دیا۔ ہندووٕں كی تحریك كی وجہ سے 1900ء میں یو پی كے بدنام زمانہ گورنر انٹونی میكڈانلڈ نے احكامات جاری كئے كہ دفاتر میں اردو كی بجائے ہندی كو بطور سركاری زبان استعمال كیا جائے۔
اس حكم كے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900 ء كو علی گڑھ میں نواب محسن الملك نے ایك جلسے سے خطاب كرتے ہوئے حكومت كے اقدام پر سخت نكتہ چینی كی۔ نواب محسن الملك نے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك میں مختلف مقامات پر اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خلاف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی حفاظت كے لئے علی گڑھ كے طلبائ نے پرجوش مظاہرے كئے جس كی بنائ پر گونر میكڈانلڈ كی جانب سے نواب محسن الملك كو یہ دھمكی دی گئی كہ كالج كی سركاری گرانٹ بند كر دی جائے گی۔
اردو كے خلاف تحریك میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔ اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشكار ہو گئی۔ اس تحریك كے بعد مسلمانوں كو اپنے ثقافتی ورثے كا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت كے تحفظ كے لئے متحد ہوئی۔
سرسیّد احمد خان نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔
۔۔۔۔
آپ نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم كے حصول اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحای پر دین تاكہ وہ ہندوئوں كے برابر مقام حاصل كر سكیں۔ سرسید ہندو مسلم اختلافات كو ختم كر كے تعاون اور اتحاد كی راہ رپ گامزن كرنے كے حق میں بھی تھے۔ انہوںنے دونوں قوموں كو ایك دوسرے كے قریب لانے كی مسلسل كوششیں كیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ بھرتی كیے اور ہندو طلباء كو داخلے دیے ہندووں نے اردو كے مقابل ہندی كو سركاری دفاتر كی زبان كا درجہ دلوانے كے لیے كوششیں شروع كر دیں۔ 1857ء میں اردو ہندی تنازعے نے سرسید كو بددل كر دیا اور اانہوںنے صرف اور صرف مسلمانوں كے حقوق كے تحفظ كے لیے اپنی تحریك كے ذریعے كام شروع كر دیا۔ زبان كا تنازعہ سرسید كی سوچ اور عمل كو بدل گیا۔ انہوںنے دو قومی نظریہ كی بنیادپر برصغیر كے سیاسی اور دیگر مسائل كے حل تلاش كرنے كا فیصلہ كیا۔
سرسید كی سیاسی حكمت عملی كی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں كو ایك علیحدہ قوم ثابت كیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ كے افكار كو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ كی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال كی۔ انہوںنے كہا كہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب كے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایك مكمل قوم وك درجہ ركھتے ہیں۔ مسلمانوں كی علیحدہ قومی حیثیت كے حوالے سے سرسید احمد نے ان كے یلے لوكل كونسلوں میں نشستوں كی تخصیص چاہی اعلیٰ سركاری ملازمتوں كے لیے كھلے مقابلے كے امتحان كے خلاف مہم چلائی٬ اكثریت كی مرضی كے تحت قائم ہونے والی حكومت والے نظام كو ناپسند كیا۔ ا نہو ں نے مسلمانوں كی علیحدہ پہچان كروائی اور دو قومی نظریہ كی بنیاد پر ان كے لیے تحفظات مانگے۔ سر سید مسلمانوں كوسیاست سے دور ركھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوںنے مسلمانوں كو 1885ء میں ایك انگریز اے او ہیوم كی كوششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگریس سے دورركھا۔ بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید كی پالیسی كی افادیت كو ثابت كر دیا ان كو بجا طور پر پاكستان كے بانیوں میں شمار كیا جاتاہے۔
مولوی عبدالحق نے سرسید كی قومی و سیاسی خدمات كے حوالے سے لكھا ہے:
٫٫قصر پاكستان كی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مرد پیر نے ركھی تھی٬٬
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود
1 note · View note
zahidashz · 4 years
Text
ایک سُنار کے انتقال کے بعد اُس کا خاندان مصیبت میں پڑ گیا.
کھانے کے بھی لالے پڑ گئے.
ایک دن اس کی بیوی نے اپنے بیٹے کو نیلم کا ایک ہار دے کر کہا 'بیٹا، اسے اپنے چچا کی دکان پر لے جاؤ.
کہنا یہ بیچ کر کچھ پیسے دے دیں.
بیٹا وہ ہار لے کر چچا جی کے پاس گیا.
چچا نے ہار کو اچھی طرح دیکھ اور پرکھ کر کہا بیٹا، ماں سے کہنا کہ ابھی مارکیٹ
بہت مندا ہے.
تھوڑا رُک کر فروخت کرنا، اچھے دام ملیں گے.
اور اسے تھوڑے سے روپے دے کر کہا کہ تم کل سے دُکان پر آکر بیٹھنا.
اگلے دن سے وہ لڑکا روز مّرہ دکان پر جانے لگا اور وہاں ہیروں و جواہرات کی پرکھ کا کام سیکھنے لگا.
ایک دن وہ بڑا ماہر بن گیا.
لوگ دور دور سے اپنے ہیرے کی پرکھ کرانے آنے لگے.
ایک دن اس کے چچا نے کہا، بیٹا اپنی ماں سے وہ ہار لے کر آنا اور کہنا کہ اب مارکیٹ میں بہت تیزی ہے،
اس کے اچھے دام مل جائیں گے.
ماں سے ہار لے کر اس نے پرکھا تو پایا کہ وہ تو جعلی ہے.
وہ اسے گھر پر ہی چھوڑ کر دکان لوٹ آیا.
چچا نے پوچھا، ہار نہیں لائے؟
اس نے کہا، وہ تو جعلی تھا.
تب چچا نے کہا جب تم پہلی بار ہار لے کر آئے تھے، اُسوقت اگر میں نے اسے جعلی بتا دیا ہوتا تو تم سوچتے کہ آج ہم پر برا وقت آیا تو چچا ہماری چیز کو بھی جعلی بتانے لگے.
آج جب تمہیں خود عِلم ہو گیا تو پتہ چل گیا کہ ہار نقلی ہے.
*سچ یہ ہے کہ علم کے بغیر اس دنیا میں ہم جو بھی سوچتے،دیکھتے اور جانتے ہیں،سب غلط ہے.اور ایسے ہی غلط فہمی کا شکار ہو کر رشتے بگڑتے ہیں.*
ذرا سی رنجش پر، نہ چھوڑ کسی بھی اپنے کا دامن.
زندگی گزر جاتی ہے، اپنوں کو اپنا بنانے میں... 😊😊
1 note · View note