Tumgik
#اچھی پیداوار
akksofficial · 2 years
Text
اچھی پیداوار کے حصول کے لئے فصل کو نقصان رسا ں کیڑوں کے حملہ سے محفوظ رکھیں، ماہرین زراعت
اچھی پیداوار کے حصول کے لئے فصل کو نقصان رسا ں کیڑوں کے حملہ سے محفوظ رکھیں، ماہرین زراعت
قصور (عکس آن لائن):ماہرین زراعت نے مسورکے کاشتکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اچھی پیداوار کے حصول کے لئے فصل کو نقصان رسا ں کیڑوں کے حملہ سے محفوظ رکھیں تاکہ انہیں بھرپور مالی فائدہ حاصل ہوسکے۔انہوں نے بتایا کہ ٹوکا اگتی ہوئی مسورکی فصل کے چھوٹے پودوں کو کاٹ کر کھاتاہے جس سے پیداواربری طرح متاثرہوتی ہے۔انہوں نے بتایاکہ چورکیڑے کی سنڈیاں دن کے وقت پودوں کے قریب چھپی رہتی ہیں اور رات کو چھوٹے پودوں کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
Tumblr media
Quran (7:58)
جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔
Verimli bölgenin bitkisi Rabbinin izniyle bol çıkar. Verimsiz olandan ise kavruk bitkiden başkası çıkmaz.
Dan tanah yang baik, tanaman-tanamannya tumbuh subur dengan seizin Allah; dan tanah yang tidak subur, tanaman-tanamannya hanya tumbuh merana.
La vegetación de un país bueno sale con la ayuda de su Señor, mientras que de un país malo sale pero escasa.
และเมืองที่ดี นั้นพืชของมันจะงอกออกมา ด้วยอนุมัติแห่งพระเจ้าของมัน และเมืองที่ไม่ดีนั้นพืชของมันจะไม่ออกนอกจากในสภาพแกร็น
17 notes · View notes
airnews-arngbad · 1 month
Text
 Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date : 07 March 2024
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ  :  ۷ ؍مارچ  ۲۰۲۴؁ ء
وقت  :  صبح  ۹.۰۰   سے  ۹.۱۰   بجے 
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں  ... 
٭ کسی کو بر سر روزگار کرنا نیکی کا  کام ہے ‘  سنت گاڑ گے بابا صاف بھارت  اسکل اکیڈ می کی 
افتتاحی تقریب میں وزیر اعلیٰ کا اظہار خیال 
٭ آنے والے 5؍ برسوں میں ملک کے آئندہ50؍ برسوں مستقبل کا تعین ہوگا ‘مرکزی وزیر داخلہ امِت شاہ
٭ چھترپتی شیواجی مہاراج کی ساڑھے تین سو سالہ جشن تاج پوشی کی مناسبت سے ریاستی حکو مت کے
متعدد پروگرامس کا اہتمام 
اور
٭ کھیلو اِنڈیا اسپورٹس ٹور نا منٹ میں تمغے جیتے والے کھلاڑی اب سرکاری ملازمتوں کے بھی اہل ہوںگے 
اب خبریں تفصیل سے...
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا ہے کہ گھر کے ایک فرد کو روزگار ملنے سے تمام افراد کو سہارا مل جاتا ہے ۔ اِس لیے کسی کو روزگار  کا موقع فراہم کرنا  نیکی کا  کام ہے ۔ وہ کل تھانہ شہر کے کو پری میں سنت گاڑ گے بابا صاف بھارت اسکل اکیڈ می کی افتتاحی تقریب میں اظہار خیال کررہے تھے ۔ یہ اکیڈ می مہاراشٹر اسٹیٹ اسکل ڈیو لپمنٹ یو نیور سٹی کی معرفت شروع کی گئی ہے ۔ اِس موقعے اپنی تقریر میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ شعبہ فروغ ہنر مندی نہایت اطمینان بخش کام کر رہا ہے ۔ اِس شعبے کی جانب سے اب تک ایک لاکھ ملازمتیں دی گئی ہیں  اور   ایک لاکھ نوجوانوں کو اپنا کاروبار کر نے کا اہل بنا یا گیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ضرورت کے وقت نوکری کرنا چاہیے  لیکن  نو کری دینے والابننے کی کوشش بھی کرنا چاہیے ۔وزیر اعلیٰ نے توقع ظاہر کی کہ اِس کام میں سنت گاڑ گے بابا صاف بھارت اسکل اکیڈ می نہایت گرانقدر کر دار ادا کرے گی ۔
***** ***** ***** 
عالمی درجے کی سوامی وویکانند انٹر نیشنل اسکل ڈیو لپمنٹ پروبودھنی کا افتتاح بھی کل وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ہاتھوں کیاگیا ۔ اِس پربودھنی کے توسل سے جاپان  ‘  جر منی  ‘  اسرائیل   اور  فرانس   اِن 4؍ ممالک کے مختلف شعبہ جات میںبھارت کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دستیاب کر وائے جا ئیں گے ۔
***** ***** ***** 
آنے والے 5؍ برسوں میں ملک کے آئندہ 50؍ برسوں کا مستقبل طئے ہوگا ۔ مرکزی وزیر داخلہ امِت شاہ نے یہ بات کہی ہے ۔ وہ کل ممبئی میں منعقدہ انڈیا گلو بل فائونڈیشن کی سالانہ سر مایہ کاری کانفرنس میں اظہار خیال کر رہے تھے ۔انھوں نےبتایا کہ ہماری حکو مت کے پاس گزشتہ 10؍ برسوں کی شاندار کار کر دگی ہے  اور  آئندہ 25؍ برسوں کے لیے تر قیاتی لائحہ عمل بھی تیار ہے ۔
***** ***** ***** 
  آئندہ لوک سبھا چُنائو کے پیش نظر کل مہا وِکاس آگھاڑی کے رہنمائوں کی ایک میٹنگ منعقد کی گئی تھی ۔ اِس میں ونچت بہو جن آگھاڑی کے رہنما پر کاش امبیڈکر بھی موجود تھے ۔ شیو سینا اُدھو باڑا صاحیب ٹھاکرے گروپ کے  رکن پارلیمان  سنجئے رائوت نے یہ بات بتائی ۔ انھوں نے بتا یا کہ مہا وکاس آگھاڑی کے رہنمائوں کے ساتھ مثبت تبادلہ خیال کیاگیاہے ۔جناب سنجئے رائوت نے مزیدبتا یا کہ کونسی جماعت کتنی نشستوں پر چُنائو لڑے گی اِس کافیصلہ بھی جلد ہی کر لیا جائے گا ۔ 
***** ***** ***** 
مہا تما پھُلے زرعی یونیور سٹی میں  دیسی گائے تحقیقی مرکز کےشعبہ مویشیان  اور  شعبہ ڈیری سائنس کے ذریعے میویشوں سے متعلق صلاح و  مشورہ  دینے کےمقصد سے تیار کر دہ  ’’  پھُلے امرُت کال  ‘‘  نامی  موبائل ایپ کا افتتاح کل وزیر برائے زراعت دھننجئے منڈے کے ہاتھوں کیا گیا ۔ بدلتے موسم کے باعث جانوروں کو لاحق ہونی والی بیماریوں  اور  تکا لیف کا علاج تجویزکرنے کے مقصد سے یہ موبائل ایپ تیار کیا گیا ہے ۔
اپنی نوعیت کا یہ ملک بھر میں پہلا موبائل ایپ ہے ۔
***** ***** ***** 
واشم زرعی پیداوار بازار کمیٹی میں کل تور  دال کی قیمت فی کوئنٹل 10؍ ہزار  325؍ روپئے رہی ۔ہمار�� نمائندے نے خبر دی ہے کہ سویا بین کی قیمت میں اضا فہ ہونے کی وجہ سے کل کی نیلا می میں تور  دال کو  اِس سیزن کی اب تک کی سب سے اچھی قیمت ملی ہے ۔ جس کی وجہ سے تور دال کے کاشتکار وں میں خوشی کا ماحول ہے ۔
***** ***** ***** 
نئے رائے دہندگان کی حوصلہ افزائی اور  رائے دہی کی ترغیب دینے کے مقصد سے حکو مت نے  ’’  میرا پہلا ووٹ  ملک کے لیے   ‘‘  نامی مہم شروع کی ہے ۔ لہذا دھا را شیو کے تیر نا انجینئرنگ کالج کی جانب سے اِس سلسلے میں کیے گئے اقدام سے متعلق پروفیسر وکرم سنگھ مانے نے بتا یا کہ ضلع کلکٹر دفتر  اور دھارا شیو دفتربرائے انتخابات کی رہنمائی میں ہم نے نوجوان طلباء کے نام فہرست رائے دہندگان میں درج کروائے ہیں ۔
انھوں نے بتا یا کہ انجینئرنگ کالج دھارا شیو کی جانب سے نوجوانوں کو ووٹ دینے کی حوصلہ افزائی بھی کی جار ہی ہے۔
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
چھتر پتی شیوا جی مہاراج کی ساڑھے تین سو سالہ جشن تاج پوشی کی منا سبت سے ریاستی حکو مت نے متعدد پروگرامس کا اہتمام کیا ہے ۔ اِسی سلسلے میں آج ثقافتی امور کے وزیر  سُدھیر مُنگٹی وار کے ہاتھوں چندر پور میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جائے گا ۔ ساتھ ہی چھترپتی شیواجی مہاراج کے نا یاب خطوط کی نقاب کشائی  اور  اُن پر مبنی کتابوں کا اجراء بھی کیا جائے گا ۔
***** ***** ***** 
چھتر پتی سنبھا جی نگر کے آیوروید معالج   ویدیہ سنتوش نیو پور کر  کو رتن ایوارڈ سے سر فراز کیا گیا ہے ۔دِلّی میں واقع قومی آیوروید یو نیور سٹی کے 27؍ ویں جلسہ تقسیم اسناد میں  یو نیور سٹی کے سیکریٹری  پدم شری  ویدیہ  راجیش کوٹے چا  کے ہاتھوں یہ ایوارڈ عطا کیا گیا ۔ نیو پور کر گزشتہ 33؍ برسوں سے چھتر پتی سنبھا جی نگر میں بطور آیور وید معالج خد مات انجام دے رہے ہیں۔
***** ***** ***** 
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر کی علاقائی نیوز اکائی میں کانٹریکٹ کی بنیاد پر جز وقتی  رپورٹر  کا تقرر کرنے کے لیے در خواستیں طلب کی جا رہی ہیں ۔ تعلیمی قابلیت  ‘   تجربہ   اور  عمر   وغیرہ کی تفصیلات  newsonair.gov.in/vacancies    اِس ویب سائٹ پر
 درج ہیں ۔ امید وار اپنی در خواست آئندہ 12؍ مارچ تک  c s n r n u [email protected]    اِس  ای  میل  آئی ڈی پر  یا
    ہیڈ آف آفس  ‘  ریجنل نیوز یونٹ  ‘  آکاشوانی ‘  جالنہ روڈ   ‘  چھتر پتی سنبھا جی نگر ۔  اِس پتے پر اِرسال کر سکتے ہیں ۔
***** ***** *****
کھیلو انڈیا ٹور نا منٹ میں حصہ لینے والے کھلاڑی اب سرکاری ملازمتوں کے لیے بھی اہل ہوں گے ۔ مرکزی وزیر برائے کھیل انوراگ سنگھ ٹھاکر نے کل ٹوئیٹ پیغام کے ذریعے یہ اطلاع دی ۔ انھوں نے بتا یا کہ اِس خصوص میں انتظامیہ  اور  وزارت ِ کھیل کے دفتری قواعد   و  ضوابط میں بھی ترمیم کی گئی ہے ۔ جناب انوراگ سنگھ ٹھاکر نے بتا یا کہ کھیل کے  میدانوںمیں ملک کو آگے بڑھانے  اور  کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے مقصد سے مذکورہ فیصلہ کیا گیاہے۔
***** ***** ***** 
ریاست بھر میں اسپورٹس کامپلیکس کی 89؍ تجاویز کو انتظامی  اور  تکنیکی منظوری دیدی گئی ہے ۔ اِس خصوص میں کل اسپورٹس ڈیو لپمنٹ کمیٹی کی میٹنگ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ اِس موقعے پر  وزیر برائے کھیل  سنجئے بنسوڑے نے یہ بات بتائی  ۔ انھوں نے بتا یا کہ اِس میں 7؍ ضلع اسپورٹس کامپلیکس  اور  82؍ تعلقہ اسپورٹس کامپلیکس کا شمار ہے ۔ جناب سنجئے بنسوڑے نے مزید بتا یا کہ5؍ تعلقوں میں نئے اسپورٹس کامپلیکس قائم کرنے کے لیے تخمینہ  اور  خاکے کو بھی منظوری دیدی گئی ہے ۔
***** ***** ***** 
بھارت  اور  انگلینڈ کے مابین  5؍واں ٹیسٹ کرکٹ مقابلہ آج دھرم شالا میں کھیلا جائے گا ۔یہ مقابلہ اب سے  ٹھیک آدھے گھنٹے بعد یعنی  ساڑھے نو بجے سے شروع ہو گا ۔ خیال رہے کہ اِس سیریز میں بھارت کو 1 - 3 ؍  سے بر تری حاصل ہے ۔
***** ***** ***** 
لاتور ضلعے میں ممکنہ پانی کی قلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے لاتور ضلع کلکٹر ورشا ٹھاکر گھو گے نے تمام متعلقہ شعبوں کوبہترین منصوبہ بندی کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ ساتھ ہی انھوںنے ذخیرہ شدہ پانی کی غیر قا نو نی نکاسی کو روکنے کے لیے اقدام کرنے کی بھی ہدایت دی ہے ۔ گزشتہ روز اِس خصوص میں منعقدہ میٹنگ میں وہ اظہار خیال کر رہی تھیں ۔ اِس موقعے پر محتر مہ ور شا ٹھا کر گھو گے نے لاتور کے باسیوں سے پانی کا استعمال نہایت کفایت شعاری سے کرنے کی اپیل بھی کی ۔
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے  ...
٭ کسی کو بر سر روزگار کرنا نیکی کا  کام ہے ‘  سنت گاڑ گے بابا صاف بھارت  اسکل اکیڈ می کی
افتتاحی تقریب میں وزیر اعلیٰ کا اظہار خیال 
٭   آنے والے 5؍ برسوں میں ملک کے آئندہ50؍ برسوں مستقبل کا تعین ہوگا ‘مرکزی وزیر داخلہ امِت شاہ
٭ چھترپتی شیواجی مہاراج کی ساڑھے تین سو سالہ جشن تاج پوشی کی مناسبت سے ریاستی حکو مت کے 
متعدد پروگرامس کا اہتمام 
اور
٭ کھیلو اِنڈیا اسپورٹس ٹور نا منٹ میں تمغے جیتے والے کھلاڑی اب سرکاری ملازمتوں کے بھی اہل ہوںگے 
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
rimaakter45 · 3 months
Text
جانوروں کی فلاح و بہبود اور ویگنزم کا عروج: ایک عالمی تناظر
Tumblr media
تعارف
جانوروں کی فلاح و بہبود تیزی سے دنیا بھر میں بحث کا ایک اہم موضوع بن گیا ہے، زیادہ سے زیادہ افراد ایک ہمدرد اور پائیدار طرز زندگی کو فروغ دینے کے طریقے کے طور پر ویگنزم کو اپنا رہے ہیں۔ ویگنزم، جس میں پودوں پر مبنی خوراک اور جانوروں سے حاصل کی جانے والی تمام مصنوعات سے اجتناب شامل ہے، کا مقصد جانوروں پر ہونے والے ظلم کا مقابلہ کرنا، ماحول کی حفاظت کرنا اور انسانی صحت کو بہتر بنانا ہے۔ اس مضمون کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جانوروں کی فلاح و بہبود اور ویگنزم.
جانوروں کی بہبود کا تحفظ
جانوروں کی فلاح و بہبود سے مراد جانوروں کی صحت اور معیار زندگی ہے، جس میں مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جیسے کہ رہائش کے حالات، خوراک اور پانی تک رسائی، تکلیف سے آزادی، اور درد اور تکلیف سے بچنا۔ جانوروں کی بہبود کے حامی اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ جانوروں کے ساتھ احترام اور مہربانی کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔ تاہم، جانوروں کی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے، کھیتی باڑی کے سخت طریقے رائج ہو گئے ہیں، جس کے نتیجے میں جانوروں کے ساتھ بدسلوکی اور بدسلوکی ہوتی ہے۔
بہت سے لوگ ویگن طرز زندگی کو اپنانے کا انتخاب کرنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک خوراک کی صنعت میں جانوروں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ جانوروں کو چھوٹی جگہوں پر قید کرنا، پیداوار کے ظالمانہ طریقوں کا استعمال، اور ان کی جذباتی اور ذہنی ضروریات پر غور نہ کرنا اہم خدشات ہیں۔ ان صنعتوں میں حصہ نہ لینے کا انتخاب کرکے، ویگنز جانوروں کی فلاح و بہبود کے مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے فعال طور پر کام کرتے ہیں۔
ماحولیاتی پائیداری
جانوروں کی زراعت کی صنعت ماحولیاتی انحطاط میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مویشیوں کی پیداوار عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً 14.5 فیصد بنتی ہے، جو اسے موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم محرک بناتی ہے۔ مزید برآں، صنعت پانی اور زمین کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہے، جس سے جنگلات کی کٹائی، صحرائی اور پانی کی کمی ہوتی ہے۔ کھاد، کیڑے مار ادویات اور کھادوں کی وجہ سے ہونے والی آلودگی انتہائی کھیتی باڑی کے طریقوں میں استعمال ہونے والے ماحولیاتی انحطاط کو مزید بڑھاتی ہے۔
ویگن جانوروں کی زراعت اور ماحولیاتی تباہی کے درمیان تعلق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی خوراک سے جانوروں کی مصنوعات کو ختم کرکے، وہ اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرتے ہیں، پانی کو بچاتے ہیں، اور قیمتی ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ پودوں پر مبنی طرز زندگی خوراک کی پیداوار کے لیے ایک زیادہ پائیدار اور ماحولیات کے بارے میں شعور رکھنے والے نقطہ نظر کی حمایت کرتا ہے، جو انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے ایک صحت مند سیارے کے لیے کام کرتا ہے۔
اخلاقیات اور ہمدردی
بنیادی اصول جو ویگنزم کو تقویت دیتے ہیں ان کی جڑیں اخلاقیات اور ہمدردی میں ہیں۔ یہ عقیدہ کہ جانوروں کو نقصان اور استحصال سے آزاد زندگی گزارنے کا حق ہے اس فلسفے کا مرکز ہے۔ جانوروں کے استحصال پر بنائی گئی پوری صنعتیں، جیسے فیکٹری فارمنگ، کھال کی پیداوار، اور جانوروں کی جانچ، ان اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ویگنزم فعال طور پر جانوروں کے اعتراض اور اجناس کو چیلنج کرتا ہے اور سماجی رویوں میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے کہ جانوروں کو جذباتی مخلوق کے طور پر دیکھنے کے لیے جو احترام اور غور و فکر کے مستحق ہیں۔ یہ اخلاقی نقطہ نظر کھانے کے انتخاب سے آگے بڑھتا ہے، طرز زندگی کے فیصلوں جیسے کہ لباس، کاسمیٹکس، اور تفریح کو متاثر کرتا ہے۔ ویگنزم کو اپنانے سے، افراد اپنے اعمال کو اپنے اخلاقی عقائد کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں اور ایک زیادہ ہمدرد دنیا کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
صحت کے فوائد
اخلاقی اور ماحولیاتی وجوہات کے ساتھ ساتھ، ویگنزم ممکنہ صحت کے فوائد کی ایک حد پیش کرتا ہے۔ ایک اچھی طرح سے پلانٹ پر مبنی خوراک تمام ضروری غذائی اجزاء فراہم کر سکتی ہے جب کہ دائمی بیماریوں جیسے دل کی بیماری، قسم 2 ذیابیطس، اور کینسر کی بعض اقسام کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ ویگن غذا عام طور پر فائبر، وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور ہوتی ہے اور سیر شدہ چکنائی اور کولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر، بہت سے لوگ اپنی مجموعی صحت اور تندرستی کو بہتر بنانے کے لیے ویگنزم کو اپناتے ہیں۔
نتیجہ
جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے بڑھتی ہوئی تشویش، جانوروں کی زراعت کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری کے ساتھ، طرز زندگی کے انتخاب کے طور پر ویگنزم کے عروج کو ہوا دی ہے۔ ویگنز زیادہ ہمدرد اور پائیدار دنیا کے لیے فعال طور پر کام کرتے ہیں، جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کو بے نقاب کرتے ہیں اور ان کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرتے ہیں۔ جیسے جیسے زیادہ افراد ویگنزم کو اپناتے ہیں، تحریک تیز ہوتی جاتی ہے، جس سے جانوروں کی بہبود کے مسائل اور پودوں پر مبنی طرز زندگی کے فوائد کو عالمی بحث میں سب سے آگے لایا جاتا ہے۔
0 notes
risingpakistan · 4 months
Text
کیا گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات کا وقت آگیا ہے؟
Tumblr media
پاکستان کیسے بحرانوں کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے اس کی ایک اچھی مثال قدرتی گیس ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہاں وافر گیس بھی دریافت ہوئی جبکہ ملک کے ابتدائی سرکاری اداروں میں 1950ء میں بننے والی پاکستان پیٹرولیم بھی شامل تھی۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس اپنے قیام کے وقت توانائی کے بہت کم ذرائع تھے اور عملی طور پر توانائی کی پیداواری صلاحیت تک موجود نہ تھی، ایسے میں پاکستان نے مقامی گیس کی وافر مقدار کو اپنے لیے بڑی پیمانے پر ایک صنعت کی بنیاد بنایا درحقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے پرانی کھاد بنانے والی کمپنی اینگرو نے 1960ء کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کام کرنا شروع کیا جب اس کی پیرنٹ کمپنی ایسو، تیل دریافت کرنے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے حادثاتی طور پر مری فیلڈز میں گیس دریافت کر لی۔ اس وقت مری فیلڈز ریگستان میں دور کہیں موجود تھی۔ چونکہ ایسو تیل کی کمپنی تھی اس لیے گیس کی دریافت ان کے کسی کام کی نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے گیس کے ان ذخائر کو کچھ سالوں تک ایسے ہی چھوڑ دیا۔ چند سال بعد کسی کو خیال آیا کہ اس گیس کا استعمال کر کے کھاد بنائی جاسکتی ہے بس اس کے لیے حکومت سے مناسب قیمت کے لیے بات چیت کرنی ہو گی کیونکہ کھاد کی قیمتیں مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں ہوتی ہیں۔
یہ 1960ء کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب ایسو فرٹیلائزر کا قیام عمل میں آیا جو کہ شاید اس وقت پاکستان کی دوسری کھاد بنانے والی کمپنی تھی۔ اس کے بعد سے اور بھی دریافتیں ہوئیں، دیگر کھاد کی کمپنیاں بھی وجود میں آئیں جن میں بالخصوص ’فوجی فرٹیلائزر‘ نمایاں ہے جو 1970ء کی دہائی کے اختتام پر قائم ہوئی۔ پہلے تھرمل پاور پلانٹس بھی 1970ء کی دہائی میں قائم ہوئے جس کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر پانی سے بجلی کی پیداوار کی صلاحیت بھی منگلا اور تربیلا ڈیم کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ دونوں ڈیم 1960ء کی دہائی کے وسط سے 1970ء دہائی کے اواخر تک فعال ہوئے۔ اس سلسلے میں گڈو تھرمل پاور اسٹیشن سب سے بڑا اور پرانا پلانٹ تھا جس نے 1974ء میں کام کرنا شروع کیا، یہ مکمل طور پر قدرتی گیس پر چلتا تھا۔ یہ کندھ کوٹ میں واقع تھا جو کہ زیادہ آبادی والے تین شہروں کراچی، لاہور اور کوئٹہ سے قریب واقع تھا تاکہ یہ ان تینوں شہروں کو توانائی فراہم کر سکے۔ یہ پلانٹ اب بھی فعال ہے لیکن اس کے کمیشن ہونے کے بعد اس کے کچھ ٹربائنز کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
Tumblr media
1990ء کی دہائی تک پاکستان میں دنیا کے بڑے پائپ گیس ڈسٹری بیوشن انفراسٹرکچر میں سے ایک موجود تھا، اس وقت تک کھاد کی تیاری اور توانائی کی پیداوار کے علاوہ پاکستان کے گھریلو صارفین کو بھی بڑی مقدار میں قدرتی گیس فراہم کی جاتی تھی۔ اس دوران دیگر صنعتی دعوے دار بھی پیدا ہوئے جیسے سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کے شعبے جہاں خاص طور پر پروسیسنگ میں بوائلرز کو چلانے کے لیے گیس کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا۔ یوں اس ملک میں گیس نے بنیادی ایندھن کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہ بات بظاہر حیران کُن لگے لیکن ملک میں قدرتی گیس کی وافر مقدار نے دراصل ہمیں تیل کی قیمتوں کے ان مختلف بحرانوں سے محفوظ رکھا جن کا ان دہائیوں میں عالمی معیشت کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان 1970ء اور 2000ء کے اواخر میں آنے والے تیل کے بحران کی لپیٹ میں نہیں آیا۔ یہاں یہ ذکر صرف اس بات کی نشاندہی کے لیے کیا گیا ہے کہ اگر ملک میں قدرتی گیس کی فراہمی نہ ہوتی تو ملک ان سے کہیں زیادہ متاثر ہوتا کیونکہ قدرتی گیس نے ان بحرانوں کے اثرات کو کافی حد تک کم کیا۔
1980ء کی دہائی کے اوائل سے ہی یہ آگہی لوگوں میں پھیلنا شروع ہو گئی تھی کہ ملک میں گیس کی قیمتیں تبدیل ہونے والی ہیں اگرچہ ملک میں کوئی بھی اس پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں تھا۔ آئی ایم ایف قیمتوں کے تعین میں اصلاحات پر زور دے رہا تھا لیکن جنرل ضیاالحق کی حکومت تعمیل پر راضی نہیں تھی۔ اس حوالے سے دلائل پیش کیے گئے کہ اس سے خوارک کے تحفظ پر اثرات مرتب ہوں گے جو کہ آج ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں یہ آگہی زور پکڑ گئی اور ایک ایسے کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد پورے پاکستان میں قیمتوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس کمیشن کی سربراہی آفتاب غلام نبی قاضی نے کی جو کہ اس وقت سینیئر سرکاری افسر اور غلام اسحٰق خان کے قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی تعیناتی نے ظاہر کیا کہ حکومتِ وقت گیس کی قیمتوں کے حوالے سے اقدامات لینے کے لیے سنجیدہ ہے۔ کمیشن نے سب سے پہلے کھاد کی قیمتوں پر کام کیا جس کے بعد تیل، اور زرعی مصنوعات جیسے گندم اور کپاس پر بھی توجہ مرکوز کی۔
متعدد وجوہات کی بنا پر کمیشن کھاد کی قیمتوں کو ریگولیٹ نہیں کر پایا۔  مینو فیکچرز نے کہا کہ کھاد کی قیمت اس مطابق ہونی چاہیے جس پر نیا پلانٹ فعال ہو سکے۔ کمیشن نے دیکھا کہ کھاد کا براہِ راست تعلق گیس سے ہے اور غذائی اشیا کی قیمتوں پر بھی کھاد کی قیمت اثرانداز ہوتی ہے، تو گویا کھاد اہم ہے کیونکہ اس کے دیگر اشیا کی قیمتوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کھاد کی قیمتوں کو مکمل طور پر کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔ پھر ساتویں پانچ سالہ منصوبے میں یہ بات سر اٹھانے لگی کہ پاکستان کے گیس کے ذخائر ختم ہونے والے ہیں اور کوئی نئی دریافت بھی نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ہونے کا امکان ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں پیش گوئیاں سامنے آئیں کہ پاکستان کے گیس فیلڈز 2008ء یا 2010ء کے قریب ممکنہ طور پر کمی کے دور میں داخل ہو جائیں گے۔ بنیادی طور پر گیس پر انحصار نہ کرنے والی صنعتوں کی تعداد دیکھتے ہوئے اور زراعت و خواراک کی پیداوار پر اس کے اثرات کی وجہ سے یہ تباہی کی پیش گوئی کے مترادف تھا۔
منصوبے میں خبردار کیا کہ اس تباہی سے بچنے کے لیے اقدامات لینا شروع کرنا ہوں گے۔ گیس کی دریافت کی کوششیں تیز کریں، کھپت کو کم کریں اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں اصلاحات لے کر آئیں۔ لیکن ان میں سے کوئی اقدامات نہیں لیے گئے۔ قیمتوں کا یہی نظام برقرار رہا۔ ایسی کوئی قابلِ ذکر دریافت نہیں ہوئی جوکہ ذخائر کم ہونے کی پیش گوئی کو غلط ثابت کر سکتی۔ کھپت کم کرنے کے بجائے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں جنرل پرویز مشرف نے ایک نیا سیکٹر متعارف کروایا جہاں گھریلو گیس کو گاڑیوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے فوراً بعد خاص طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت میں کیپٹیو پاور بھی سامنے آئی۔ متوقع طور پر 2010ء سے قدرتی گیس کے ذخائر میں کمی آنا شروع ہوئی۔ 5 سال بعد 2015ء میں تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے گیس کی درآمدات کا آغاز کیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک میں گیس کی کل طلب کا تقریباً حصہ درآمد کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قیمتیں مکمل طور پر بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہیں۔ تو اب ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہمیں گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال ہم نے گیس کی قیمتوں میں ایک بڑا اضافہ دیکھا۔ رواں سال بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شاید اگلے سال اس سے زیادہ اضافہ ہو۔ جب آپ ایک مقام پر ٹھہرے رہتے ہیں اور اصلاحات لے کر نہیں آتے تو ہمیں ایسی ہی کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خرم حسین  
یہ مضمون 21 دسمبر 2023ء کو ٖڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
urdu-poetry-lover · 8 months
Text
روایت ہے کہ ایک جنگل میں شیر چیف ایگزیکٹو تھا۔ ادھر ایک ننھی سی چیونٹی محنت مزدوری کیا کرتی تھی۔ صبح سویرے وہ ہنستی گاتی کام پر آتی اور فوراً کام پر لگ جاتی اور ڈھیر سا کام نمٹا دیتی۔ شیر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چیونٹی کسی قسم کی نگرانی اور راہنمائی کے بغیر اتنا زیادہ کام کر رہی ہے اور پیداوار کے ڈھیر لگائے کھڑی ہے حالانکہ اسے بہت واجبی سی تنخواہ ملتی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر چیونٹی کسی قسم کی نگرانی کے بغیر اتنا کام کر رہی ہے تو اس کے سر پر ایک سپروائزر مقرر کر دیا جائے تو پھر وہ کتنا زیادہ کام کرے گی۔ یہ سوچ کر شیر نے ایک کاکروچ کی بطور سپروائزر تعیناتی کر دی جو اپنے وسیع تجربے اور بہترین رپورٹنگ کی وجہ سے مشہور تھا۔ کاکروچ نے چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے تو حاضری کا سسٹم بنایا۔ اس نے ایک مکڑی کو بطور سیکرٹری بھی تعینات کر دیا تاکہ وہ دفتری امور میں اس کی مددگار ہو اور اس کی رپورٹس ٹائپ کرنے کے علاوہ ان کی موزوں طریقے سے فائلنگ کرے اور ٹیلی فون بھی سنبھالے۔ شیر نے کاکروچ کی رپورٹیں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔ اس نے کاکروچ کو کہا کہ میاں یہ سب پڑھنا میرا بہت وقت لیتا ہے، ایسا کرو کہ گراف کی شکل میں ایگزیکٹو سمری بھی بنایا کرو جس میں پیداوار کی شرح اور ٹرینڈ بھی دکھائی دیں اور اسے ایک پریزنٹیشن کی شکل میں بھی ای میل کیا کرو۔ میں یہ پریزنٹیشن جنگل کے بورڈ کی میٹنگ میں بھی پیش کروں گا تاکہ ڈائریکٹروں کو بھی علم ہو کہ جنگل بہت ترقی کر رہا ہے۔ کاکروچ کو یہ سب کچھ کرنے کے لئے ایک کمپیوٹر اور لیزر پرنٹر خریدنا پڑا اور اس نے ایک مکھی کو بطور آئی ٹی ایکسپرٹ نوکری دے دی جو انہیں سنبھالے اور پریزینٹشن بنائے۔ دوسری طرف چیونٹی حاضریاں لگا لگا کر، کاکروچ کو رپورٹیں دے دے کر اور مکھی کو پریزنٹیشن کے لئے مواد فراہم کر کر کے اپنی جان سے بیزار ہونے لگی۔ اس کا زیادہ وقت اب کام کی بجائے میٹنگوں میں صرف ہوتا۔ اس کا دن کا چین اور رات کا آرام لٹ گیا اور وہ اپنے کام سے تنگ آنے لگی۔ دوسری طرف شیر کو جب پریزنٹیشن دیکھ دیکھ کر علم ہوا کہ چیونٹی کے ڈیپارٹمنٹ کی پیداوار بہت متاثر کن ہے تو اس نے سوچا کہ ڈیپارٹمنٹ کو بڑھایا جائے تاکہ جنگل مزید ترقی کرے۔ اس نے ایک جھینگر کو اس ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا جو مینیجمنٹ کے سامنے بہت اچھی پریزنٹیشن دینے اور اچھا بولنے کے لئے مشہور تھا۔ جھینگر نے آتے ہی سب سے پہلے اپنے دفتر کے لئے ایک نئے قالین اور آرام دہ کرسی کا آرڈر دیا تاکہ اس کے دفتر کی ایگزیکٹو لک بنے۔ جھینگر کو بھی ایک کمپیوٹر اور پرسنل اسسٹنٹ کی ضرورت تھی جو اس کے لئے کام کو ترتیب دے سکے اور اس کے لئے بجٹ کنٹرول کرنے اور پیداوار کو ترقی دینے کی کی حکمت عملی بنانے میں معاون ہو۔ اس نے اپنے پرانے آفس سے ایک لیڈی بگ کا تبادلہ اپنے اس دفتر میں کروا لیا۔ چیونٹی کا ڈپارٹمنٹ اب ایک افسردہ جگہ تھی جہاں کوئی نہیں ہنستا مسکراتا تھا اور معمولی بات پر دوسرے سے جھگڑنے لگتا تھا۔ یہ ماحول دیکھ کر جھینگر نے شیر کو قائل کر لیا کہ ڈپارٹمنٹ کا حال بہتر کرنے کے لئے کسی ماہر سے سٹڈی کروائی جائے۔ چیونٹی کے ڈپارٹمنٹ کے اخراجات اور آمدنی کا گوشوارہ دیکھ کر شیر نے یہ محسوس کیا کہ ڈپارٹمنٹ پیداوار دن بدن گرتی جا رہی ہے اور اخراجات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی ڈپارٹمنٹ خسارے میں جا رہا ہے۔ شیر نے ایک الو کو ڈپارٹمنٹ کی سٹڈی پر مامور کیا جو بزنس ری انجینرنگ کا ایک ماہر مشہور کنسلٹنٹ تھا تاکہ وہ ڈپارٹمنٹ کا آڈٹ کرے، پیداوار کے پہلے سے بہت کم ہونے کی وجوہات کا پتہ چلائے اور صورت حال بہتر کرنے کے لئے مشورے دے۔ الو نے ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے انٹرویو کیے، کاکروچ کی رپورٹوں کے ڈھیر کا لفظ لفظ پڑھا، پیداوار کا عمل دیکھا اور تین مہینے میں دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ شیر کو پیش کر دی جس میں کارکنوں کے رویے، کام میں دلچسپی، پیداواری عمل اور عملے کی تنخواہوں کا مبسوط جائزہ لیا اور والیم ٹین میں یہ نتیجہ نکالا کہ ڈپارٹمنٹ اس لئے خسارے میں جا رہا ہے کیونکہ ادھر ضرورت سے بہت زیادہ عملے کو نوکری دی گئی ہے۔ شیر نے ایک ہفتہ لگا کر رپورٹ پڑھی۔ اس کے بعد اس نے چیونٹی کو نوکری سے نکال دیا کیونکہ الو کی رپورٹ کے مطابق وہ اپنے کام میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی اور وہ فیلڈ میں کام کرنے کی بجائے دن بھر ڈپارٹمنٹ کے دوسرے اہلکاروں کے دفتروں میں بیٹھی رہتی تھی۔ اس کا رویہ بھی بہت زیادہ منفی اور سرد تھا جو دفتر کے ماحول کو بلاوجہ تلخ کر رہا تھا اور کاکروچ کی بہترین رپورٹنگ اور جھینگر کی بہترین موٹیویشنل سپیچز کے باوجود پہلے سے کم پروڈکشن کر رہی تھی
0 notes
lkmarketing · 8 months
Text
Leeka Corp کے ساتھ اپنا سولر پاور پلانٹ کتنی آسانی سے بنائیں؟
کول پاور پلانٹس اب بھی دنیا کی سب سے زیادہ بجلی فراہم کر رہے ہیں، اب کوئلے کے ذخائر ختم ہونے کے دہانے پر ہیں، قیمتیں زیادہ ہونے لگتی ہیں، لوگ بجلی کی زیادہ قیمتیں ادا کر رہے ہیں۔ سال 2021 میں استعمال ہونے والے کوئلے کے ذخیرے کی وجہ سے کئی ممالک کے کوئلے کے پلانٹس بند ہونے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر بلیک آؤٹ ہو گیا ہے۔ اگر بجلی نہ ہو تو بہت سی مشینیں کام کرنا چھوڑ دیں گی، کمپیوٹر نہیں چلیں گے، بہت سے لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
کول پاور پلانٹس کے علاوہ، سولر پاور پلانٹس لوگوں کی روزمرہ زندگی کے لیے بڑی مقدار میں بجلی پیدا کرنے کا سستا اور زیادہ آسان طریقہ ہے۔ شمسی توانائی کے پلانٹس کے لیے زیادہ قیمت کیا ہے سولر پینلز،جو سورج کی روشنی کو بجلی میں تبدیل کرنے کا بنیادی جزو ہیں، آپ انہیں Leeka corp سے کم قیمت کے ساتھ ٹائر 1 اور OEM دونوں برانڈز کے قابل اعتماد کوالٹی پینلز کے لیے آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔
Leeka corp چین میں بڑے ٹائر-1 برانڈز کا اتحاد ہے، قیمتوں میں دھوکہ دہی سے نمٹنے کے لیے، گاہک کی معلومات کو شیئر اور منسلک کیا جاتا ہے، اس طرح اگر کوئی کسٹمر اچھی ساکھ رکھتا ہے، تو وہ سر فہرست ہوں گے، بصورت دیگر، اگر وہ ہمیشہ قیمت پوچھتے ہیں، یہاں تک کہ نیچے کی قیمت، نہ خریدیں، یہاں تک کہ غائب ہو گئے، وہ بلیک لسٹ ہو جائیں گے۔
اس کاروباری پالیسی کا مقصد ایک بہتر کاروباری ماحول بنانا، ایماندار اور قابل اعتماد لوگوں کی مدد کرنا، ان لالچی لوگوں کے ہاتھوں مکمل کاروباری سلسلہ کو تباہ ہونے سے بچانا ہے۔ آپ کے اپنے شمسی توانائی کے پلانٹ کو قائم کرنے کے لئے، طویل مدتی بجلی کی پیداوار اور قابل اعتماد بجلی کی پیداوار کی ضمانت کے لیے سولر پینل اہم اجزاء ہیں۔ اگر سولر پینل خراب ہوں گے تو اس میں کافی مسائل ہوں گے، زیادہ تر آپ کا سولر پلانٹ آپ کی توقع کے مطابق کام نہیں کرے گا۔
اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے ایک تشبیہ دی گئی ہے کہ لوگ سستی خریدنا چاہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ایک کار بنانے والا ایک کار کو تین پہیے دیتا ہے جس کے لیے عام طور پر چار کی ضرورت ہوتی ہے۔ Leeka corp ہمیشہ اعلیٰ معیار کی مصنوعات فراہم کرنے کے لیے اپنے صارفین کا احترام کرتی ہے
Leeka corp سے سولر پینلز حاصل کرنے کے بعد، اگلے مرحلے پر جانا بہت آسان ہے۔ آپ اپنے لیے سولر پینلز لگانے کے لیے کچھ سولر انسٹالرز کو ملازمت دے سکتے ہیں۔ یا، اگر آپ کو سولر انسٹالیشن میں مہارت ہے، تو آپ اسے خود انسٹال کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو سولر انسٹالر نہیں ملتا ہے اور آپ کو سولر انسٹالیشن کا کوئی علم نہیں ہے۔ آپ کتابوں اور ویب سائٹس سے بہت سے سبق حاصل کر سکتے ہیں،
آپ پہلے چھوٹے پیمانے پر سولر پلانٹ لگانا شروع کر سکتے ہیں، جب آپ کو کچھ تجربہ ہو تو آپ زیادہ سے زیادہ انسٹال کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ اپنا سولر پلانٹ لگانے کے بعد، آپ دوسروں کے لیے سولر پلانٹ لگانے کے لیے اچھی طرح سے تربیت یافتہ ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ آپ پیسہ کمانے کے لیے سولر انسٹالیشن کمپنی بھی قائم کر سکتے ہیں۔
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
پاکستان میں کوئی من موہن سنگھ نہیں آئے گا
Tumblr media
نوے کی دہائی بہت ہی پرشور تبدیلیوں کا نقطہِ آغاز تھی۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔ پرانا عالمی نظام بکھر رہا تھا اور نئے نظام کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ کویت پر صدام حسین کے قبضے کے سبب پورا خطہ بے یقینی کے دھاگے سے لٹک گیا تھا اور جنگ کے بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ خود انیس سو اسی کی دہائی میں بھارت نے بے تحاشا غیر ملکی قرضے لیے مگر قومی پیداوار کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتی رہی اور اس رفتار پر بین الاقوامی مالیاتی حلقے ’’ہندو ریٹ آف گروتھ ‘‘ کی پھبتی کسنے لگے۔ بھارت انیس سو چوراسی میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد سے مسلسل معاشی گرداب میں تھا۔ راجیو گاندھی کی حکومت بوفورز توپوں کے اسکینڈل میں بدنام ہو چکی تھی۔ انیس سو نواسی میں اس اسکینڈل زدہ حکومت کو شکست ہوئی اور کانگریس کے سابق باغی وزیرِ خزانہ وی پی سنگھ نے حکومت بنائی، مگر وہ حکومت پونے دو برس ہی چل پائی اور پھر جنتا دل کی اقلیتی حکومت کانگریس کی حمایت سے وجود میں آئی اور چندر شیکھر نومبر انیس سو نوے میں وزیرِ اعظم بنے، مگر وہ کانگریس کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہے۔
اقتصادی تصویر یہ بن رہی تھی کہ بھارت سیاسی و علاقائی بے یقینی کے ماحول میں بیرونی تجارت کے توازنِ ادائیگی، بجٹ خسارے، روپے کی گراؤٹ اور سوویت یونین سے مقامی کرنسی میں تجارت کے سوتے خشک ہونے کے سبب ایک گہری اقتصادی دلدل میں پھنس چکا تھا۔ حالت اتنی پتلی ہو گئی تھی کہ چندر شیکھر حکومت فروری انیس سو اکیانوے میں لوک سبھا سے قومی بجٹ تک منظور نہ کروا پائی۔ انیس سو اسی کی دہائی میں ترقیاتی ڈھانچے اور صنعت کاری کی جدت کے نام پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے جو بھاری مشروط قرضے لیے گئے اب ان کی واپسی کا مرحلہ درپیش تھا۔ سود چڑھتا جا رہا تھا اور قسطیں دینا مشکل تر۔ جنوری انیس سو اکیانوے میں ریزرو بینک آف انڈیا کے خزانے میں صرف ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر باقی تھے جو بمشکل ڈھائی سے تین ہفتے کی درآمدات کور کر سکتے تھے۔ مارکیٹ کو یقین ہو چلا کہ بھارت تاریخ میں پہلی بار دیوالیے پن کا اعلان کرنے والا ہے۔
Tumblr media
چنانچہ انتہائی اقدام کے طور پر سڑسٹھ ٹن سونا بینک آف انگلینڈ اور زیورخ کے یونین بینک کے پاس گروی رکھوایا گیا۔ اس کے عوض مئی کے مہینے میں آئی ایم ایف نے رعایتی شرح سود پر دو اعشاریہ دو بلین ڈالر کا ہنگامی قرضہ دینا منظور کیا تاکہ بھارت فوری ڈیفالٹ سے بچ جائے۔ اس دوران سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی عام انتخابات کی مہم کے دوران تامل ناڈو میں ایک جلسے میں ایک سری لنکن ٹائیگر کے خودکش حملے کا شکار ہو گئے۔ کانگریس نے چندر شیکھر کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا اور ان کی جگہ جون میں کانگریس نے پی وی نرسیمہا راؤ کی قیادت میں مرکزی حکومت تشکیل دی۔ من موہن سنگھ کو وزیرِ خزانہ اور مونٹیک سنگھ اہلووالیہ کو ریزور بینک آف انڈیا کا گورنر مقرر کیا گیا۔ یوں بھارت ایک بند گلی سے کھلی اور اصلاحی معیشت کے دور میں داخل ہو گیا۔ روپے کی قدر میں بیس فیصد کمی کا اعلان ہوا اور اسے مارکیٹ کے مدو جزر پر چھوڑ دیا گیا تاکہ ڈبکیاں لگا کے خود ہی سرکار کی انگلی پکڑے بغیر تیرنا سیکھ لے۔
بھارت نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے کیے وعدوں کے مطابق معیشت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا۔ سرخ فیتے کی بابو گیری کو ڈھیلا کر کے سرمایہ کاروں کو سہولت و مراعات دینے اور دیگر بین الاقوامی منڈیوں سے سرمایہ دار کو کھینچنے کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کیا گیا۔ جب اصلاحات کا آغاز ہوا تو بھارت کے پاس ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کا زرِمبادلہ تھا۔ آج بھارت کے زرِ مبادلہ کے زخائر چھ سو پچیس بلین ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ انیس سو اکیانوے میں بھارتی معیشت کا پیداواری حجم دو سو چھیاسٹھ ارب ڈالر تھا۔ آج وہ چین اور جاپان کے بعد ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جس کا معاشی حجم ساڑھے تین کھرب ڈالر سے اوپر ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بھارت میں انیس سو اکیانوے کے بعد جو جو بھی حکومتیں آئیں اور جس جس پارٹی کی بھی آئیں انھوں نے سیاسی و نظریاتی فرق کے باوجود بنیادی اصلاحی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی سائنس نہیں لڑائی اور نہ ہی اسے انا کا مسئلہ بنایا۔ بلکہ ہر حکومت اس اصلاحاتی عمل کا تسلسل برقرار رکھنے کی نئیت سے آگے ہی لے کر گئی۔
اگرچہ ان اصلاحات کے سبب بھارتی مڈل کلاس کا حجم گزشتہ تین دہائیوں میں تین گنا بڑھ چکا ہے، مگر طبقاتی عدم مساوات بھی بڑھی ہے۔ مثلاً انیس سو اکیانوے میں چوٹی کی دس فیصد آبادی میں دولت کا ارتکاز پینتیس فیصد تھا جو آج بڑھ کے پچپن فیصد تک پہنچ گیا ہے جب کہ انیس سو اکیانوے میں نچلے پچاس فیصد کمزور معاشی طبقے کی آمدنی بیس فیصد سے گھٹ کے آج تیرہ فیصد تک آ گئی ہے۔ لیکن یہ عدم مساوات طبقاتی ڈھانچے میں ارتقائی تبدیلی اور تعلیم و ہنرمندی کے فروغ اور بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب رفتہ رفتہ کم ہو سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت بطور ریاست اب دیوالیہ پن کے خطرے سے نکل کے ایک مضبوط معاشی قوت بننے کی راہ پر چل نکلا ہے۔ تاوقتیکہ سماج کو طرح طرح کے حیلوں سے تقسیم کرنے والی پالیسیاں آگے چل کے معیشت پر خود کش حملہ نہ کر دیں۔ پاکستان کو بھی ایک من موہن سنگھ اور مونٹیک سنگھ کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں کہ قومی درد رکھنے والے معاشی ماہرین اس ملک سے ناپید ہو چکے ہیں یا بیرون ملک خدمات انجام نہیں دے رہے یا وہ اس ملک کی حالت سدھارنے کے لیے واپس نہیں آنا چاہتے۔ 
مگر بھارت میں ایسے لوگوں کو پالیسی سازی اور اس پر عمل درآمد کے لیے کھلا ہاتھ دے دیا گیا۔ ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ ان ماہرین سے اتنا ہی استفادہ کرنے کی عادت میں مبتلا ہے جہاں ان مالیاتی و اصلاحی پالیسیوں سے خود حکمران اشرافیہ کے بنیادی انفرادی و اجتماعی مفادات متاثر نہ ہوں۔ جب تک یہ عادت نہیں چھوٹتی تب تک ہمیں کسی محمد شعیب، ایم ایم احمد، وی اے جعفری، اسد عمر، حفیظ شیخ، شوکت عزیز، شوکت ترین اور اسحاق ڈار پر ہی گذارہ کرنا پڑے گا۔ کوئی من موہن سنگھ سامنے نہیں آئے گا۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
asimhanif · 2 years
Photo
Tumblr media
*🍑🍒🍃آڑو کھانے کے ناقابل یقین فوائد 🍑🍑🍒🍃* آڑو بہت فائدہ مند ،فرحت بخش اور لذیز پھل ہے ۔آڑو *کیلشئیم،پوٹاشیم،میگنیشیم،آئرن، میگنیز،زنک،اور کاپر کے خزانے سے لبریز ہے* اسمیں کولیسٹرول نہیں ہوتا اور کیلوریز کم ہوتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ یہ غذائی ریشہ کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔اینٹی اوبیسیٹی اور انٹی انفلیمنٹری خاصیت سے بھرپور اور برے کولیسٹرول کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔طرزِزندگی سے متعلق تمام مسائل جیسے موٹاپا، ذیابیطس،آنکھوں کی کمزوری اور دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرتاہے ۔آڑو کو ہمیشہ چھلکے کے ساتھ کھائیں آڑو آپکی مجموعی صحت کے لئے بے پناہ مفید ہے ذیل میں آڑو کے کچھ فوائد موجود ہیں اور مجھے امید ہے کہ ان فوائد کو جان کر یقیناًآپ آڑو اپنی غذا میں ضرورشامل کریں گے۔ *۱۔وٹامن سی اور مفید اینٹی* آکسیڈنٹ کا بہترین ذریعہ ہونے کے باعث آڑو کینسر کے ان زرات کی تشکیل کو روکتاہے جو کینسر کا سبب بنتے ہیں اعلیٰ فائبر پر مشتمل ہونے کے باعث ��ڑی آنت کے کینسر سے بچاتاہے۔ *۲۔وہ تمام پھل جو اینٹی آکسیڈنٹ* اور وٹامن سی پر مشتمل ہوں اور آپ انھیں انکی قدرتی حالت میں کھائیں تو یہ پھل جھریاں کم کرکے مجموعی طورپر جلد کی ساخت کو بہتر بنانے اور سورج اور آلودگی کے باعث ہونے والے جلد کے نقصانات سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وٹامن سی کولیجن کی پیداوار میں مدد فراہم کرتاہے جو آپکی جلد کے نظام میں اہم کردار ادا کرتاہے ۔ *۳۔ٹیکساس اے اور ایم کی جانب* سے ایک اور مطالعہ کے مطابق آڑو اور آلو بخارا کا ایکسٹریکٹ چھاتی کے کینسر کے خلیات کی سب سے جارحانہ اقسام کا خاتمہ کرنے میں موثر ہیں اور اس عمل سے عام صحت مند خلیوں کو نقصان بھی نہیں پہنچتاہے۔ *۴۔ایک درمیانہ آڑو دو گرام فائبر* مہیا کرتاہے۔ تحقیق کے مطابق ٹائپ ایک ذیابیطس میں اعلیٰ غذائی ریشہ کے باعث خون میں شوگر کی سطح کم ہوتی ہے اور ٹائپ ٹو ذیابیطس میں بلڈ شوگر میں لیپڈزاور انسولین کی سطح میں بہتری آتی ہے۔ *۵۔آڑو میں موجود فائبر،پوٹاشیم، وٹامن سی* ، اور فیٹی ایسڈ موجود ہوتے ہیں جو دل کی صحت برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پوٹاشیم کی مقدار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ سوڈیم کی مقدار میں کمی جیسی اہم غذائی تبدیلی کسی بھی شخص میں دل کی بیماری کے خطرات کو کم کرسکتی ہے۔ *۶۔مطالعہ سے ثابت ہوا ہے کہ جو افراد ایک دن میں ۴۰۶۹ ملی گرام پوٹاشیم لیتے ہیں* تو انمیں ۴۹ فیصد دل کے مرض کے باعث موت کا خطرہ کم ہوتاہے ان لوگوں کے مقابلے میں جو ایک دن میں ۱۰۰۰ ملی گرام پوٹاشیم لیتے ہیں۔ ۷۔دن میں تقریباً دو سے تین آڑو کھانے سے آنکھوں کی صحت میں اچھی پیش رفت ہوتی ہے او https://www.instagram.com/p/CdlV5T1MI8C/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
omrani1 · 4 years
Text
سرسوں رایا کی پیداواری ٹیکنالوجی
Land Preparation.
کسی بھی فصل کی اچھی پیداوار کے لیے ذمین کا نرم بھربھرا اور ہوادار ہونا ضروری ہے۔یاد رہے کہ اوسط پیداوار کا انحصار زمین کی ساخت پر منحصر ہوتا ہے۔ 20 تا 35 من کا دارومدار ہلکی کلراٹھی سے مکمل میرا ذمین پر ہوتا ہے۔
٢۔سرسوں رایا ہر طریقہ( چھٹہ ۔ڈرل) سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔
Seed Rate per Acre 2 - 2.5 kg per acre
110 تا 120 دن پک کرتیار
Germination ۔
وتر کی اہمیت۔
”وتر۔وتر۔وتر“
بیج کے اگاؤکا دارومدار وتر پر ہوتا ہے۔رایا کی کاشت سے ھٹ کر وتر کا انحصار بیج کی ساخت پر ہوتا ہے۔ باریک قسم کے بیج کا اگاؤ اکثر و بیشتر وتر کی کمی کے باعث پہلے پانی پر کم ہوتا ہے۔ جو کہ کسان کو اس شدید غلط فہمی کی طرف لے جاتا ہے شاید بیج کی کوالٹی ناقص ہے۔ اس بدگمانی کو دور کرنے کے ليے اپنے کھیت میں بیج کو تلاش کر کے چیک کریں۔اگر گلنا شروع ہو گیا ہے تو بیج ناقص ہے۔وگرنہ دوسرے پانی پر اگاؤ مکمل ہو جاۓ گا۔
بعض اوقات ناگزیر وجوہات کی بنا پر وتر کم محسوس ہوتا ہے۔اس صورت میں ہلکی نم مٹی میں بیج کو well mix کر لیں۔اور پانچ سے چھ گھنٹوں کے لیے چھوڑ دیں۔۔انشااللہ بہترین اگاؤ ہوگا۔ شام کے وقت چھٹہ کی صورت میں وتر کی کمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔
Fertilizers..
ذمین کی تیاری کے وقت ایک بوری DAP ڈال کر بیج کو کاشت کر لیں۔
پہلا پانی ۔
پہلا پانی 22 سے28 دنوں میں لگائیں اور پانی لگاتے وقت آدھی بوری یوریا لگائیں۔
یاد رہے کہ تمام پھلی دار فصلیں نائٹروجن کا کارخانہ ہوتی ہیں۔ لہذا ذمیندار بھائیوں سے گزارش ہے کہ متناسب کھادیں استعمال کریں۔
دوسرا پانی ۔
دوسرا پانی موسمئ حالات کو دیکھ کر لگائیں ��قریبا جب فصل 50 سے 60 دن کئ ھو جائے۔ فصل کئ حالت کے مطابق یوریا کا استعمال کریں
تیسرا پانی۔
جب اندازاََ فصل پھولوں پر آ جاۓ تو (آدھی بوری پوٹاش، 2کلو سلفر اور 10 کلو یوریا فی ایکڑ ) لازمی طور پر ڈالیں۔تاکہ صحت مند اور معیاری فصل کاحصول ہو۔
دیمک ذدہ علاقوں میں گوبر کی کھاد مت ڈالیں۔
بہاریہ کی کاشت تک فصل تیار۔
Problems of Labour
"محتاج ہیں ارباب ہنر؛ بے ہنروں کے"
NOTE: FRESH SEED
Average Yield: 20 to 35 mound per acre.
Oil recovery : 42% ( InshaAllah)
Exepected Rate: Rs.3500 _ 4000 per mound.
1 note · View note
akksofficial · 1 year
Text
چین کی تبدیلیوں کو دیکھا جا سکتاہے، چینی صدر
چین کی تبدیلیوں کو دیکھا جا سکتاہے، چینی صدر
بیجنگ (عکس آن لائن) کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے جنرل سیکرٹری شی جن پھنگ نےچھبیس سے اٹھائیس اکتوبر تک صوبہ شان شی کےشہر یان این اور صوبہ حہ نان کے شہرنان یانگ کا دورہ کیا ہے۔ یہ سی پی سی کی بیسویں قومی کانگریس کے بعد ان کا ملک کے اندر پہلا دورہ تھا۔ہفتہ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق جنرل سیکرٹری شی جن پھنگ یانگ این شہر کےگاوں نان گوہ گئے،جہاں رواں سال میں سیب کی اچھی پیداوار ہوئی ہے۔ انہوں نے مقامی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years
Text
رمضان المبارک : ہرگھرکیلئے اچھی خبر آگئی
رمضان المبارک : ہرگھرکیلئے اچھی خبر آگئی
حکومت نے رمضان المبارک کے دوران شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے خوردنی تیل کی درآمد پر 10 فیصد ٹیکس چھوٹ کی منظوری دے دی جس کے بعد تیل کی قیمت کم ہونے کا امکان ہے۔ وزارت خزانہ کے اعلامیے کے مطابق یہ منظوری وزیر خزانہ شوکت ترین کی زیر صدارت خوردنی تیل کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں دی گئی۔ اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار، سیکریٹری صنعت و پیداوار، چئیرمین ایف بی آر اور دیگر سینئر افسران…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
airnews-arngbad · 2 years
Text
آکاشوانی اورنگ آباد‘ علاقائی اُردو خبریں-بتاریخ: 14 اکتوبر 2022‘ وقت: صبح 09:00-09:10
 ::::: سرخیاں::::::
سب سے پہلے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ فصل قرض پابندی سے واپس کرنے واے اور 50ہزار روپئوں کی امداد کیلئے اہل کسانوں کی فہرست جاری۔
٭ شدید بارش سے متاثرہ تاہم حکومتی معیار پر پورے نہ اُترنے والے کسانو ںمیں 755 کروڑ روپئے امداد تقسیم کرنے کا حکمنامہ جاری۔ 
٭ دیوالی کے موقع پر ایک ہزار 494  اضافی بسیں چلانے کا ST کارپوریشن کا فیصلہ۔
٭ عدالت ِ عظمیٰ کے دو ججوں کے درمیان عدم اتفاق کے بعد حجاب بندی معاملہ چیف جسٹس کو منتقل۔
٭ پارٹی کا نام اور نئی انتخابی نشانیوں کی تقسیم میں کیا گیا امتیازی سلوک۔ شیوسینا کے ٹھاکرے گروپ کا مرکزی انتخابی کمیشن پر الزام۔
اور۔۔٭ خواتین کے ایشیاء کپ کرکٹ مقابلے میں کل بھارت اور سری لنکا کے درمیان آخری میچ۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاست کے امدادِ باہمی کے وزیر اتل ساوے نے اطلاع دی ہے کہ فصل قرض کی بروقت ادائیگی کرنے والے اور 50 ہزار روپئوں کی امداد کیلئے اہل قرار دئیے گئے کسانوں کی فہرست ظاہر کردی گئی ہے۔ وزیرِ موصوف نے بتایا کہ 2017 تا 2020 کے دوران پابندی کے ساتھ قرض واپس کرنے والے کسانوں کی یہ فہرست بینک کی شاخوں‘ امدادِ باہمی اداروں اور گرام پنچایتوں کے دفتروں میں نوٹس بورڈ پر چسپاں کی گئی ہے۔ انھوں نے فہرست میں موجود کسانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے آدھار کارڈ‘ قرض اور بینک پاس بک کے ساتھ قریب واقع آپلے سرکار کیندر یا بینک کی شاخ میں جاکر اپنے آدھار کارڈس کی تصدیق کروالیں۔ ساوے نے مزید بتایا کہ جن گرام پنچایت حلقوں میں انتخابی ضابطۂ اخلاق نافذ ہے وہاں کے اہل کسانوںکے نام انتخابات کے بعد مذکورہ فہرست میں شامل کیے جائیں گے۔
***** ***** *****
رواں برس ماہِ جون تا اگست کے دوران شدید بارش سے متاثرہ وہ کسان جو حکومت کے جاری کردہ معیار پر پورے نہ اُتر سکے ان کی مالی امداد کے خاطر ریاستی حکومت نے 755 کروڑ روپئوں کا فنڈ جاری کیا ہے۔ اس سلسلے میں کل سرکُلر جاری کیا گیا۔ ان کسانوں کی امداد کیلئے کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا تھا۔ وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اس خصوص میں جاری ایک حکمنامے کے ذریعے ضلع انتظامیہ کو مذکورہ فنڈ تقسیم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ امداد اور باز آبادکاری محکمے کے ذریعے 755 کروڑ روپئوں کا یہ فنڈ امراوتی‘ اورنگ آباد اور پونے ڈویژن کے 9  اضلاع میں تقسیم کیا جائیگا۔ اس کے مطابق مراٹھواڑہ کے لاتور ضلع کے 3 لاکھ 42 ہزار 71 کسانوں کو سب سے زیادہ 290 کروڑ روپئے جس کے بعد عثمان آباد ضلع کے ایک لاکھ 46 ہزار 310 کسانوں کو 153 کروڑ روپئے‘ ہنگولی ضلع کے ایک لاکھ 34 ہزار 406 کسانوں کو 132 کروڑ‘ اورنگ آباد ضلع کے 16 ہزار 410 کسانوں کو ساڑھے 17 کروڑ روپئے‘ پربھنی ضلع کے 4 ہزار کسانوں کو ساڑھے تین کروڑ‘ جالنہ ضلع کے ایک ہزار 150کسانوں کو 97 لاکھ روپئے اور بیڑ ضلع کے 160 کسانوںمیں 17 لاکھ روپئوں کی امداد تقسیم کی جائیگی۔
***** ***** *****
اس بار گنّا Crushing کا موسم آئندہ سنیچر سے شروع ہوگا۔ اس موسم کے دوران ایک ہزار 443 لاکھ ٹن گنّے کی Crushing کے ذریعے 138 لاکھ ٹن شکر کی پیداوار متوقع ہے۔ یہ اطلاع شکر کمشنر شیکھر گائیکواڑ نے دی۔ اس برس اچھی بارش کے سبب گنّے کی فصل کے رقبے میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دو برسوں سے ایتھینال کی پیداوار پر زور دیا جارہا ہے۔ جاری سال میں گنّے سے 12 لاکھ ٹن ایتھینال کی پیداوار کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ شکر کمشنر گائیکواڑ نے بتایا کہ گذشتہ کرشنگ کے موسم کے دوران 60 شکر کارخانوں پر گنّے کی فی ٹن قیمت کم و بیش 300 کروڑ روپئوں کی رقم بقایہ ہے۔ کسانوں کو اس رقم کی ادائیگی کے بغیر ان کارخانوں کو رواں ہنگام میں کرشنگ کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ 
***** ***** *****
ریاست کے ST کارپوریشن نے دیوالی کے موقع پر ایک ہزار 494 اضافی بسیں چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئندہ 21 تا 31  اکتوبرکے دوران یہ اضافی گاڑیاں چھوڑی جائیں گی۔ شیکھر چنّے نے یہ اطلاع دی۔ انھوں نے بتایا کہ مسافروں کی بڑھتی تعداد کے مطابق مرحلہ وار بس گاڑیوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اضافی گاڑیوں کیلئے ریزرویشن کیا جارہا ہے۔ اس کے تحت اورنگ آباد سے سب سے زیادہ 368 اضافی بسیں چلائی جائیں گی۔
***** ***** *****
عدالت ِ عظمیٰ میں حجاب بندی معاملے کی سماعت کے دوران دو ججوں کے درمیان عدم اتفاق کے بعد یہ معاملہ چیف جسٹس کو منتقل کردیا گیا ہے۔ کرناٹک حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے فیصلے کرناٹک ہائیکورٹ کی جانب سے منظور کیے جانے کے بعد اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں داخل مختلف درخواستوں کی سماعت کے بعد جسٹس سدھانشو دھولیہ نے کرناٹک ہائیکورٹ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔ جس کے بعد اب یہ حجاب بندی مقدمہ چیف جسٹس کی سربراہی والی تین رُکنی بینچ کو سونپ دیا گیا ہے۔
***** ***** *****
کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے سے ریاست کے 14 ہزار اسکولس بند کرنے کی کاروائی روکنے کی گذارش کی ہے۔ انھوں نے وزیرِ اعلیٰ کو اس خصوص میں خط لکھا ہے۔ اپنے مکتوب میں انھوں نے کہا کہ ضلع پریشد کے تحت سرکاری اسکولس جن میں طلبہ کی کم تعداد ہے دور دراز‘ دیہی اور قبائلی میں واقع ہیں۔ یہ اسکولس بند کیے جانے سے ان علاقوں کے طلباء کا تعلیمی نقصان ہوگا‘ اس لیے ��سکولس بند کرنے کی یہ کاروائی روکی جائے۔ 
***** ***** *****
اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کے ریاستی وزیر چندر کانت پاٹل نے کورونا سے یتیم ہوجانے والے طلبہ کی مکمل فیس معافی پر رواں برس بھی عمل درآمد کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کورونا کے باعث سرپرست گنوانے والے طلبہ کی کُل فیس تعلیم مکمل ہونے تک معاف کرنے کا فیصلہ حکومت نے گذشتہ برس کیا تھا۔ وزیرِ موصوف نے کہا کہ طلبہ کا تعلیمی نقصان نہ ہو اس لیے یونیورسٹیاں اور امداد یافتہ کالجس اس پر خصوصی دھیان دیں۔
***** ***** *****
ممبئی ہائیکورٹ نے ممبئی میونسپل کارپوریشن کو اندھیری مشرق اسمبلی حلقے کے ضمنی انتخاب کیلئے شیوسینا اُدّھو بالا صاحب ٹھاکرے گروپ کی جانب سے امیدوار بنائی گئی رُتوجا لٹکے کو استعفیٰ منظوری کا خط آج صبح گیارہ بجے تک دینے کا حکم دیا ہے۔ امیدواری درخواست دینے سے قبل لٹکے کیلئے ضروری تھا کہ وہ کارپوریشن کی ملازمت سے استعفیٰ دیں۔ تاہم کارپوریشن کی جانب سے استعفیٰ قبول نہیں کیا جارہا تھا۔ جس کے بعد لٹکے نے عدالت سے اس معاملے میں حکم جاری کرنے کیلئے درخواست دائر کی تھی‘ اس فیصلے کے بعد لٹکے نے کل پارٹی سربراہ اُدّھو ٹھاکرے سے ملاقات کی۔
اسی بیچ اس ضمنی انتخاب کیلئے امیدواری فارم داخل کرنے کا آج آخری دِن ہے۔ اب تک دو آزاد اور کرانتی کاری جئے ہند سینا نے امیدواری درخواست داخل کی ہے۔ مہا وِکاس آگھاڑی کی جانب سے اس انتخاب میں امیدوار کے طور پر رُتوجا لٹکے آج پرچہ داخل کریں گی۔ BJP اور شندے گروپ کی جانب سے اس انتخاب میں کسے امیدوار بنایا جائے اس حوالے سے کل شب وزیرِ اعلیٰ کی رہائش گاہ پر میٹنگ کی گئی۔ BJP کے انتخابی نشان پر مرجی پٹیل کا اس چنائو میں حصہ لینے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
***** ***** *****
شیوسینا کے ٹھاکرے گروپ نے مرکزی انتخابی کمیشن پر پارٹی کا نام اور انتخابی نشانیوں کی تقسیم کے دوران امتیازی سلوک کرنے اور شندے گروپ کو غیر ضروری فائدہ پہنچانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ٹھاکرے گروپ کی جانب سے مرکزی انتخابی کمیشن کو لکھے گئے خط میں امتیازی سلوک کے 12نکات بیان کیے گئے ہیں۔ 
***** ***** *****
بیڑ ضلع کے پرلی تعلقے میں جل یُکت شیوار منصوبے میں بدعنوانی کرنے والے ٹھیکے دار اور مزدور ایجنسیوں کو جاری کی گئی نوٹس غیر مکمل پتے کے سبب واپس آگئی۔ ضلع کلکٹر رادھا بنود شرما نے یہ اطلاع دی۔ انھوں نے کہا کہ اب ان ٹھیکے دارں اور مزدور ایجنسیوں کو بلیک لسٹ کردیا جائیگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر ان ٹھیکے داروں اور مزدور ایجنسیوں نے آئندہ 20  اکتوبر تک ضلع زرعی افسر دفتر کے ضلع سپرنٹنڈنٹ کو اپنے صحیح پتے دستیاب نہیں کیے تو یہ مانا جائے گا کہ انھیں کاروائی پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اس کے بعد بلیک لسٹ کرنے کی یکطرفہ کاروائی کی جائیگی۔
***** ***** *****
بنگلہ دیش میں کھیلے جارہے ایشیاء کپ کرکٹ میچ کا آخری مقابلہ بھارت اور سری لنکا کے درمیان کل ہوگا۔ سیمی فائنل کے پہلے مقابلے میں کل بھارت نے تھائی لینڈ کو 74 رنوں سے شکست دے دی۔ وہیں سری لنکا نے دوسرے کھیلے گئے سیمی فائنل میں پاکستان کو سنسنی خیز مقابلے میں ایک رن سے ہرادیا۔ 
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ فصل قرض پابندی سے واپس کرنے واے اور 50ہزار روپئوں کی امداد کیلئے اہل کسانوں کی فہرست جاری۔
٭ شدید بارش سے متاثرہ تاہم حکومتی معیار پر پورے نہ اُترنے والے کسانو ںمیں 755 کروڑ روپئے امداد تقسیم کرنے کا حکمنامہ جاری۔ 
٭ دیوالی کے موقع پر ایک ہزار 494  اضافی بسیں چلانے کا ST کارپوریشن کا فیصلہ۔
٭ عدالت ِ عظمیٰ کے دو ججوں کے درمیان عدم اتفاق کے بعد حجاب بندی معاملہ چیف جسٹس کو منتقل۔
***** ***** *****
0 notes
risingpakistan · 4 years
Text
کرونا وائرس کے نقصانات تو بہت، فائدے کیا ہیں؟
ہلاکتیں، معاشی ابتری اور پوری دنیا میں لاک ڈاؤن، یہ کرونا وائرس کے کچھ ایسے اثرات ہیں جن سے ہر شخص پریشان ہے۔ لیکن اس وبا کے پھیلنے سے کچھ ایسی تبدیلیاں بھی واقع ہوئی ہیں جو دنیا کے لیے خوش گوار ہیں اور جن کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے منفی اثرات کے ساتھ کچھ ایسے مثبت اثرات بھی آئے ہیں جو خوش آئند ہیں۔ آئیے ان میں سے چند ایک کا جائزہ لیتے ہیں۔
ہاتھ دھونے کی پابندی کرونا وائرس ہمیں باقاعدگی سے ہاتھ دھونے کی پابندی سکھا رہا ہے جو کسی بھی شخص کی اچھی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ بیماریوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے امریکی ادارے 'سینٹر فور ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن' کے مطابق جراثیم انسان کے جسم میں ہاتھوں کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں۔ انجانے میں کسی بھی سطح یا چیز کو چھونے سے جراثیم ہاتھوں پر منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر غذا کے ساتھ آپ کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ماہرین صحت یہ تاکید کرتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں کو صاف رکھا جائے اور کوئی بھی چیز کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئے جائیں۔ کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے اس سے بچاؤ کی سب سے اہم احتیاطی تدابیر میں بار بار ہاتھ دھونا بھی شامل ہے۔ سو اس وبا سے بچاؤ کے دوران اگر یہ عادت ہماری زندگی کا حصہ بن جائے تو اس کے لیے ہمیں کرونا وائرس کا شکریہ ادا کرنا ہو گا۔
گلیوں اور سڑکوں کی صفائی کرونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے دنیا بھر میں سڑکوں، گلیوں اور محلوں کی صفائی کی جا رہی ہے اور جراثیم کش ادویات کا اسپرے بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی مختلف شہروں میں سڑکوں اور عمارتوں پر جراثیم کش ادویات کا اسپرے کیا جا رہا ہے۔​
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرونا وائرس کی وبا کے شدت پکڑتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو کرونا وائرس کے باعث صنعتوں کا بند ہونا اور کئی ملکوں اور شہروں میں لاک ڈاؤن ہے جس کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں واضح فرق پڑا ہے۔ خام تیل کی زیادہ پیداوار اور کم استعمال کی وجہ سے عالمی منڈی میں قیمتوں میں واضح فرق پڑا ہے۔ اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان میں بھی پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 15 روپے فی لیٹر تک کم کی گئی ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کی ایک اور وجہ سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کے معاملے پر جاری چپقلش بھی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کا کریڈٹ کرونا وائرس کو بھی جاتا ہے۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے معیشت کو فائدہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد یہ توقع بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ تیل درآمد کرنے والے ملکوں کی معیشت کو اس کا خاصا فائدہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان بھی تیل درآمد کرنے والے ملکوں میں شامل ہے اور اس کی درآمدات میں سب سے زیادہ تیل کا حصہ شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشی تجزیہ کار یہ امید بی ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کی یہی صورتِ حال برقرار رہی تو پاکستان کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں کمی کرونا وائرس کے باعث جہاں صنعتیں بند ہونے سے معیشت کا پہیہ رک گیا ہے وہیں دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں لاک ڈاؤن کے سبب گاڑیوں کے استعمال میں بھی واضح کمی آ گئی ہے۔ کرونا وائرس کے سبب دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی اپنے گھروں میں بند ہے۔ اس سب کا نتیجہ پیٹرولیم مصنوعات کے کم استعمال کی صورت میں نکل رہا ہے جس کا فائدہ ماحولیات کو بھی پہنچ رہا ہے۔ آلودگی میں کمی چونکہ کرونا وائرس کے سبب انڈسٹریاں بند ہیں اور گاڑیاں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ لہٰذا دنیا بھر میں آلودگی میں نمایاں کمی آ رہی ہے اور مختلف آلودہ ترین شہریوں کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہو رہا ہے۔ کراچی کا ایئر کوالٹی انڈیکس ان دنوں 58 اے کیو آئی ہے جس کا مطلب ہے کہ کراچی کی فضا میں آلودگی معتدل درجے کی ہے جس کا کوئی نقصان نہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 400 اے کیو آئی کے قریب پہنچ گیا تھا۔ یعنی لاہور کی فضا انتہائی آلودہ ہو گئی تھی۔ لیکن اب لاہور کی ایئر کوالٹی 76 اے کیو آئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈسٹریاں اور گاڑیاں بند ہونے سے آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ پنجاب ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق اگر انڈیکس کی ریڈنگ صفر سے 50 کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے ہے آب و ہوا بہت اچھی ہے۔ اگر 50 سے 100 کے درمیان ایئر کوالٹی انڈیکس ہو تو آب و ہوا معتدل ہے اور اس کے نقصانات نہیں ہیں۔ لیکن اگر یہ ریڈنگ 400 سے 500 کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے کہ فضائی آلودگی زیادہ بڑھ گئی ہے جب کہ لاہور میں یہ ریڈنگ متعدد بار 580 تک پہنچ چکی ہے۔
ٹیلی ورکنگ سیکھنے کا موقع کرونا وائرس کے سبب زیادہ تر اداروں کے ملازمین یا تو چھٹیوں پر ہیں یا وہ گھر سے ہی کام کر رہے ہیں۔ گھر سے کام کرنا پاکستان میں متعدد لوگوں کے لیے ایک منفرد تجربہ بھی ہے چونکہ یہاں دفاتر میں کام کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔ لیکن اس وبا سے بچنے کے لیے لوگوں کو ایک طرف گھروں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ تو وہ اپنی سہولت کے لیے ٹیلی ورکنگ کے طریقوں اور نت نئی ایپلی کیشنز سے آشنا ہو رہے ہیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 5 years
Text
Tumblr media
قراۃ العین حیدراور آگ کا دریا
بہت سالوں بعد قراۃ العین حیدر کے ناول ‘‘آگ کا دریا’’ کو دوبارہ پڑھنے کی فرصت نصیب ہوئی تو اردو ادب کے اس اہم ترین ناول کا مطالعہ انتہائی یکسوئی سے کیا اورنہ صرف قراۃ العین حیدر کی فنِ ناول نگاری سے بلکہ ہندوستان کی تاریخ کے کئی ادوار سے بھی بے حد محظو ظ و مستفید ہوئی۔
چونکہ بہت سے دوست اس ناول کے بارے میں اپنی اپنی آراء سے مستفید ہونے کا موقع عطا فرمارہے تھے تو سوچا کہ ہم بھی اپنی رائے کا اظہار کر ہی دیں۔
آگ کا دریا پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں ادیبہ کا مختصرتعارف پیش کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ قراۃ العین حیدر ۲۰جنوری ۱۹۲۷ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کئے جاتے ہیں اورآپ کی والدہ نذر سجاد بھی ایک اچھی ادیبہ گردانی جاتی ہیں۔ قراۃ العین حیدر نے ایک انتہائی علمی ادبی ماحول میں پرورش پائی اور خود بقول ان کے نو سال کی عمر سے کہانی لکھنا شروع کر دی۔ ان کی پہلی کہانی گیارہ سال کی عمر میں چھپی اوران کے افسانوں کے مجموعے ‘‘شیشے کے گھر’’اور‘‘ستاروں سے آ گے’’ جب منظر عام پر آئے تو قراۃ العین حیدر کی عمر صرف بیس اکیس برس تھی اور آپ اردو ادب میں اپنا ایک مقام بنا چکی تھیں۔ پھراس کے بعد تو ان کا قلم کبھی رکا ہی نہیں اور ۲۱ اگست ۲۰۰۷ء تک ایک کے بعد ایک شہپارہ تخلیق کرتی چلی گئیں۔ ان کی تصنیفات ‘میرے بھی صنم خانے، آخرِ شب کے ہم سفر، کارِ جہاں دراز ہےاورچاندنی بیگم’ کو اردو ادب میں بہت بلند مقام حاصل ہے جبکہ‘آگ کا دریا’ کو اردوب ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
قراۃ العین حیدر کو کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ جن میں پدم شری، پدم بھوشن، ساہتیہ اکادمی اعزاز اور بھارت کا سب سے بڑا ادبی اعزاز گیان پیٹھ شامل ہیں۔ آپ کو اردو ادب کی ورجینا وولف بھی کہا جاتا ہے۔
اور اب بات کرتے ہیں‘آگ کا دریا’ کی۔ جب یہ ناول ۱۹۵۹ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آیا تواس نے اردو ادب کے قارئین اور ناقدین کو چونکا دیا کیونکہ اردو ناول نگاری میں لکھنے کی یہ نئی تکنیک اور تاریخ کے اتنے ادوار کا احاطہ کرنا اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا۔ ناول میں کہانی ڈھائی ہزار سال پہلے شروع ہوتی ہے اور بیسویں صدی کے نصف پر آ کر ختم ہوتی ہے۔ اس طرح ان ڈھائی تین ہزار سالوں میں ہندوستان کی تاریخ آریاؤں سے لیکر مغلوں، انگریزوں اور پھر تقسیم ہند اور تقسیم ہند کے بعد کے جن ادوار سے گزری اوران میں جتنے عبرتناک واقعات رونما ہوئے اس ناول میں ان سب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ وقت کا ایک دریا ہے جو بہے چلا جا رہا ہے۔
ہندوستان میں اردو کے سرکردہ ادیب مجیب رضوی کہتے ہیں کہ‘‘قرۃ العین حیدر کا ایک منفرد انداز تھا۔ ان کا کینوس اتنا بڑا تھا کہ برصغیر کی کسی بھی زبان میں کوئی بھی اس درجے کو نہيں پہنچ پایا’’۔ اسی طرح ہندی کے ایک ادیب پنکج بشٹ کا کہنا ہے کہ ‘‘قرۃ العین حیدر کو جو مرتبہ اردو میں حاصل ہے وہی اہمیت وہ ہندی میں بھی رکھتی ہیں۔ وہ بیسوی صدی کے بھارت کے سب سے بڑے ناول نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے عہد حاضر کو تاریخ کے امتزاج کے ساتھ پیش کیا ہے’’۔
آگ کا دریا میں جہاں وقت ایک دریا ہے جو انسا نوں کو بہائے لئے جا رہا ہے وہاں ہی مختلف شعبہ ہائے علوم کے دریا ہیں جن میں قاری ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ اردو کے معروف نقاد محمد حس�� قرۃ العین حیدر کو اس عہد کی سب سے بڑی ناول نگار قرار دیتے ہوئے کہتے ہيں کہ ‘‘انہوں نے اپنے عہد کے پست و بلند کا بہت گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ان کے ناول اور کہانیاں سب اس کے گواہ ہيں کہ ان کا مطالعہ، تجربہ اور مشاہدہ کتنا گہرا تھا۔’’اس ناول میں بھی انہوں نے تاریخ، مابعد التاریخ،میتھالوجی، آرکیالوجی، فلسفہ،نفسیات،آرٹ غرض علم کے ہر شعبے سے استفادہ کرتے ہوئے سرزمینِ ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ کو ناول کے پس منظر میں بہت سلیقے سے برتا ہے۔
قراۃ العین حیدر کے دوسرے ناولوں کے کرداروں کی طرح ‘آگ کا دریا’ کے کردار بھی اپنے عہد کے جیتے جاگتے کردار ہیں وہ اپنے اپنے عہد میں جیتے، اسی عہد کی زبان بولتے اور اسی عہد کی تہذیب کےعکاس ہیں۔ یہ کردار وقت کے بہتے دھارے پر رونما ہوتے، اپنا کردار ادا کرتے بہے چلے جاتے ہیں۔ بہادرشاہ ظفرکے اس شعر کے مصداق:
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گی
یہ کردار بھی اپنے عہد کی رنگ بھومی (تماشا گاہ) پر ظاہر ہوتے اپنی بولی بولتے اوراُڑ جاتے ہیں۔
آگ کا دریا میں منظر کشی اور جزئیات نگاری کا فن بھی اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ قراۃ العین حیدر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی پیداوار تھیں اور زبان وبیان پر مکمل عبور رکھتی تھیں پھر ان کا مطالعہ اور مشاہدہ بھی اتنا گہرا تھا کہ کوئی بھی واقع ہو، کوئی بھی منظر ہو وہ اسے اس خوبی اور تفصیل سے پیش کرتی ہیں کہ خاکے بنتے چلے جاتے ہیں اورقاری کے تخیل کے پردے پر تصّویریں ابھرتی چلی جاتی ہیں۔
اکثر قاری آگ کا دریا کے اسلوب پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں کہ نا ول کے پہلے حصّے کی زبان بہت مشکل ہے اور عام قاری ان کے ہندی اور سنسکرت الفاظ کو سمجھنے سے قاصرہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قراۃ العین حیدر نے ناول کے پہلے حصّے میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اور وہ زبان پاکستانی قاری کے لئے بلا شبہ مشکل بھی ہے جبکہ ہندوستان میں اردو دان طبقہ زبان کی روایت، ہندی سینما اور ہندی ٹیلیویژن کی بدولت ا ن الفاظ سے روشناس ہے۔ مگر میرے خیال میں یہ استعمال بے جا نہیں ہے۔ آگ کا دریا اپنی موضوعاتی وسعت اور زمان ومکان کے تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی پھیلاؤ کی وجہ سے شاید ان الفاظ کے استعمال کا متقاضی تھا۔ جس طرح پورے ناول میں کردار اپنے طبقاتی پس منظر اور اپنے عہد کی مناسبت سے زبان بولتے نظر آتے ہیں اسی طرح پہلے حصّے میں بھی فلسفے کی گتھیاں سلجھاتے ہندو مت اور بدھ مت کے طالب علم اور استاد ہوں یا مہا بھارت کے کرداروہ وہی زبان بولتے نظر آتے ہیں جوان کے سماجی پس منظر سے مطابقت رکھتی ہے۔
اگرچہ اردو ادب بہت سے بلند پایہ ناولوں سے مالا مال ہے مگر آگ کا دریا اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتاہے۔ پروفیسر شمیم حنفی تو آگ کا دریا کو اردو ادب کا سب سے بڑا ناول قرار دیتے ہیں۔
2 notes · View notes
lkmarketing · 9 months
Text
ین کے پاس پروڈکٹ تیار کرنے کے لیے درکار ہر چیز کا مکمل مادی ذریعہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ ہمیشہ ایک ہی معیاری سولر پینل دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت سستے خرید سکتے ہیں۔ تاہم، اگر آپ دوسرے ممالک سے خریدتے ہیں، تو انہیں پروڈکٹ تیار کرنے کے لیے زیادہ تر مواد چین سے حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
چونکہ وہ خریدار دوسرے ممالک سے سستی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی اچھے معیار کی مصنوعات؟ سب سے پہلے، چین سے شپنگ لاگت کے بارے میں سوچو. دوم، ہینڈلنگ لاگت، کسٹم اور ٹیکس کے بارے میں سوچیں۔ اس طرح، اگر آپ پیسے والی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں، تو ہمیشہ چین سے خریدیں۔ چین ایک نانبائی کی طرح ہے جس کے اپنے صحن میں گندم، مرغیاں اور چقندر اُگاتا ہے اور اس کے پاس سب کچھ کرنے کے لیے صحن کے کونے میں تمام مشینیں ہوتی ہیں۔
دوسرے ممالک ایک نانبائی کی طرح ہیں جس کے پاس صرف ایک روٹی مشین ہے، انہیں روٹی بنانے کے لیے ہر چیز چین سے خریدنی پڑتی ہے۔ تو یہ نمبر ایک وجہ ہے کہ آپ کو چین سے خریدنا چاہئے۔
2، چین ایک ایسا ملک ہے جس پر لوگوں کی حکومت ہے، نہ کہ امیر اور متعصب اقلیتوں کے ذریعے۔ اس کی سیاست اور قانون کے اصول عام لوگوں کے لیے بنائے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی مصنوعات خریدنا بہت منصفانہ اور محفوظ ہے۔ جس ملک سے آپ خرید رہے ہیں اگر اس پر عوام کی حکومت نہیں ہے، یہاں تک کہ اس کے اپنے شہریوں کے حق کی بھی ضمانت نہیں دی جا سکتی، تو غیر ملکی خریداروں کے حق کی ضمانت کیسے ممکن ہے؟ چین میں، کاروبار میں قانون سب کچھ ہے، چاہے مقامی طور پر تجارت ہو یا برآمد۔
قانون کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بھی ہیں جو خریداروں کے بنیادی حقوق کی بھی ضمانت دیتی ہیں۔ اخلاقیات کی بنیاد پر، اگر آپ کسی پروڈکٹ کے لیے 100 امریکی ڈالر ادا کرتے ہیں، تو زیادہ سے زیادہ 10 امریکی ڈالر منافع کے طور پر لیے جائیں گے، باقی 90 امریکی ڈالر خود پروڈکٹ میں لگائے جائیں گے۔ اگر کاروبار میں اخلاقیات کم ہوں گی تو زیادہ منافع لیا جائے گا، پھر پیداوار پیدا کرنے کے لیے کم فنڈ لگایا جائے گا۔ مصنوعات کی تیاری کے لیے جتنا کم فنڈ استعمال کیا جائے گا، اتنا ہی غریب پروڈکٹ ہوگا۔ اس لیے آپ کو یہاں جیسی اعلیٰ نسلی کمپنیوں سے خریداری کرنے کی ضرورت ہے۔
قانون سے مختلف، جو صرف بنیادی حق کی ضمانت دیتا ہے جیسے کہ آپ ادائیگی کریں گے آپ جو چاہیں گے حاصل کریں گے۔ اخلاقیات کا مطلب ہے کہ آپ اپنی خواہش سے بہتر حاصل کریں گے، جو زیادہ انسان دوست اور دوستانہ ہے۔ چین میں لوگ اچھی اخلاقیات پر زور دیتے ہیں اور ایک ثقافت رکھتے ہیں جو ایک ہزار سال پرانی تاریخ ہے۔
آپ کو دوسرے ممالک سے تاریخ کی ثقافت نہیں مل سکتی، اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ دوسرے ممالک سے خریدتے ہیں تو وہ صرف پیسے کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن چین میں، وہ آپ کے لیے پرانے دوست کی طرح کام کریں گے
واضح رہے کہ چینی تارکین وطن اور مقامی چینی لوگ الگ الگ چیزیں ہیں۔ بہت سے غیر ملکی چینی باشندوں سے تعلق رکھنے والے چینی باشندوں کے بارے میں متعصبانہ ذہن رکھتے ہیں کیون��ہ ان میں سے کچھ بری عادات رکھتے ہیں کیونکہ وہ مکمل طور پر غیر ملکی ثقافتوں سے متاثر ہیں۔
 چین میں دنیا کا سب سے مستحکم سیاسی اور سماجی ماحول ہے، کوئی جنگ نہیں، اور باقی دنیا کی طرح کوئی اچانک سیاسی تبدیلیاں نہیں ہیں، جو اسے کسی بھی مصنوعات کی خریداری کے لیے سب سے محفوظ مقام بناتی ہے۔ اگر آپ جس ملک سے خرید رہے ہیں اس میں جنگ ہے، تو آپ ممکنہ طور پر اپنا پیسہ پانی میں ڈال رہے ہیں۔ چین امن کا حامی ہے اور دوسرے ممالک کے سیاسی نظام کا احترام کرتا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ اس ملک کے لوگوں کو یہ انتخاب کرنے کی اپنی آزادی ہے کہ وہ کون سا سیاسی نظام بہتر سمجھتے ہیں۔
چین کا موقف ہے کہ ایک ملک کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اس ملک میں رہنے والے اسے دوسرے ممالک کے لوگوں سے بہتر جانتے ہیں، اس طرح وہ دوسرے ممالک کے لوگوں سے بہتر کام کر سکتے ہیں، جو کہ انسانی حقوق کا بنیادی احترام ہے۔ . آپ کو ہمیشہ ایسے ملک سے خریدنا چاہیے جو انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے، نہ کہ اس کے برعکس۔
,
چین دنیا کے کسی بھی ملک کا دشمن نہیں ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب آپ کوئی بھی مصنوعات خریدیں گے تو آپ کسی دشمنی کا سامنا نہیں کریں گے۔ چین تمام ممالک کو اس کرہ ارض پر ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے اور اس کرہ ارض کے تمام لوگ ایک خاندان کے لوگ ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ غیر ملکی سوچتے ہوں کہ ایسا نہیں ہے، وہ چینی باشندوں کی اقلیت کے بارے میں کچھ متعصبانہ ذہن رکھتے ہیں، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ چینی تارکین وطن۔
مرکزی دھارے کے چینی لوگ بہت اچھے ہیں۔ چین سے خریداری کرتے وقت آپ کے ساتھ دھوکہ دہی کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں جو کہ اس موقع کی طرح ہے جب آپ کسی گلی میں چلتے ہیں تو آپ کے سر پر پرندوں کا ٹکڑا گر جاتا ہے۔ اگرچہ امکان بہت کم ہے، کاروبار میں، ہم ہمیشہ اس بات کو روکیں گے کہ کیا ہو سکتا ہے، مجموعی طور پر، چین سے خریداری کرنا ایک بہت اچھا اور منافع بخش کاروبار ہے۔
کوئی بھی مینوفیکچرر براہ راست مینوفیکچرر یا اینڈ مینوفیکچرر نہیں ہے، آپ کسی بھی چینی مینوفیکچررز، تجارتی کمپنیوں، یا چھوٹے یا بڑے کاروباروں سے خریدنے کو ترجیح دے سکتے ہیں جن کے بارے میں آپ کے خیال میں بہترین کام کرتا ہے۔ مینوفیکچررز کو مینوفیکچررز اور سپلائرز سے خریداری کرنے کی ضرورت ہے، مکمل پروڈکٹ ایک بہت ہی پیچیدہ نظام ہے، اس میں سے کوئی ایک شخص یا صنعت کار ہی ختم نہیں کر سکتا۔
چین کے پاس دنیا کی بہترین سپلائی چین، خام مال کا ذریعہ، اور تیار شدہ پروڈکٹ فیکٹری میں کام کے ساتھ ساتھ ہے، جس کی وجہ سے ایک پروڈکٹ کی پیداوار دنیا میں سب سے کم لاگت میں بھی کم وقت میں ہوتی ہے۔ تیار شدہ مصنوعات خریدنا ہمیشہ عقلمندی کی بات ہے، نہ کہ اجزاء کو اپنے کاروبار کے ذریعے جمع کرنا۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، ایک جز دس سے اوپر کی فیکٹریاں مل کر تیار کر سکتی ہیں، اور آپ آخر تک نہیں جا سکتے۔
، چین دنیا کا سب سے بڑا ٹکنالوجی دیو ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ ہمیشہ دیگر ممالک کے مقابلے سولر پینلز جیسی مصنوعات بہتر طریقے سے خرید سکتے ہیں۔ روم ایک دن میں نہیں بنتا، جو ٹیکنالوجی جیسی ہو، چین دنیا کی فیکٹری ہے، آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ اگر آپ دوسرے ممالک سے خریداری کرتے ہیں، تو انہیں یقینی طور پر چین سے مواد کی ضرورت ہوگی۔
چین میں دنیا کی سب سے بڑی مقامی مانگ ہے، اگر آپ اپنی خریداری کو دوسرے ممالک میں تبدیل کرتے ہیں، تو آپ صرف غریب معیاری مصنوعات اور خدمات کا انتخاب کرتے ہیں، جس کا حقیقت میں چین پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے
 چین صرف خود کو ترقی دے رہا ہے، ملک دنیا کے دوسرے ممالک سے مقابلہ نہیں کرتا۔ اگرچہ چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، چین کا امریکہ کو پیچھے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس ملک میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی ہے، اور اس کا اپنا مقصد لوگوں کی پیداوار کو آزاد کرنا، اور غربت کو دور کرنا ہے، لہذا جب اس ملک میں سے ہر ایک کی زندگی بہتر ہو،
کل معیشت بڑھے گی، لیکن وہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کو پیچھے چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا، چین صرف اپنی ترقی کر رہا ہے۔ لہذا یہ بہت اچھا ہے کہ آپ اس ملک میں کمپنیوں کے ساتھ شراکت کریں تاکہ ان کی مصنوعات اور منافع سے فائدہ اٹھائیں۔
0 notes