Tumgik
#اٹھا
apnibaattv · 1 year
Text
پاکستان کے سب سے بڑے حقوق گروپ نے مذہبی آزادی پر 'خطرہ' اٹھا دیا | انسانی حقوق کی خبریں۔
اسلام آباد، پاکستان – پاکستان میں حقوق کے ایک ممتاز گروپ نے ملک میں مذہبی آزادی کی حالت پر “کافی خطرے کی گھنٹی” کا اظہار کیا ہے۔ منگل کو جاری کردہ عقیدے کی خلاف ورزی: ​​مذہب کی آزادی یا عقیدے کی آزادی 2021-22 کے عنوان سے جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں، پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے کہا کہ ملک کی مذہبی اقلیتوں کو ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے واقعات جولائی 2021 اور جون 2022 کے درمیان…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
harf-e-kun · 16 days
Text
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا جلا کے رکھنا کمال یہ ہے
Khizan ki rut mein gulab lahja bana ke rakhna kamal ye hai
Hawa ki zad pe diya jalana jala ke rakhna kamal ye hai
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
Zara si laghzish pe tod dete hain sab talluq zamane wale
So aise waison se bhi talluq bana ke rakhna kamal ye hai
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا کمال یہ ہے
Kisi ko dena ye mashwara ki wo dukh bichhadne ka bhool jaaye
Aur aise lamhe mein apne aansu chhupa ke rakhna kamal ye hai
خیال اپنا مزاج اپنا پسند اپنی کمال کیا ہے
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
Khayal apna mizaj apna pasand apni kamal kya hai
Jo yaar chahe wo haal apna bana ke rakhna kamal ye hai
کسی کی رہ سے خدا کی خاطر اٹھا کے کانٹے ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا کمال یہ ہے
Kisi ki rah se Khuda ki Khatir utha ke kante hata ke patthar
Phir us ke aage nigah apni jhuka ke rakhna kamal ye hai
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا کمال یہ ہے
Wo jis ko dekhe to dukh ka lashkar bhi ladkhadaye shikast khaye
Labon pe apne wo muskurahat saja ke rakhna kamal ye hai
26 notes · View notes
amiasfitaccw · 5 months
Text
Tumblr media
خرچہ نہیں اٹھا سکتے تو ٹانگیں اٹھانے کا بھی کوئی حق نہیں
52 notes · View notes
0rdinarythoughts · 11 months
Text
Tumblr media
Muhammad Al-Maghout wrote on the grave of his wife Saniya Saleh:
"یہ دنیا کا آخری بچہ ہے"
"Here lies the last child in the world"
تیس سال اور وہ مجھے ایک زخمی سپاہی کی طرح اٹھا کر لے گئی اور میں اسے چند قدم بھی اس کی قبر تک نہ لے جا سکا۔
Thirty years and she carried me like a wounded soldier, and I could not carry her to her grave for a few steps
اس نے یہ بھی لکھا: اس کے بعد تمام عورتیں ستارے ہیں، گزرنے والی اور بجھنے والی ہیں اور وہ اکیلی آسمان ہے۔
He also wrote: All women after her are stars, passing and extinguishing, and she alone is the sky.
58 notes · View notes
my-urdu-soul · 7 months
Text
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
-احمد سلمان
18 notes · View notes
mazahbigay · 1 year
Text
شادی پر باجی کی ممے کو دیکھ کر بھائی گرم ہو کر مٹھ لگاتا اور بہن غیر مرد کے نیچے لیٹ کر ٹانگیں اٹھا کر پورا اندر لیتی۔ بھائی کو بھی پتہ ہوتا کہ بہن شادی سے پہلے ہی کئی مردوں کے أگے گھوڑی بنی ہے۔ باہر کے جوان مرد جب بہن سے محبت کرتے تو أگے پیچھے سے پوری کھول دیتے۔
Tumblr media
48 notes · View notes
urduu · 7 months
Text
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی پانچ بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ھے ،
اِس یونیورسٹی میں 16 ہزار ملازم ہیں۔
جن میں سے ڈھائی ہزار پروفیسر ہیں ۔
سٹوڈنٹس کی تعداد 36 ہزار ھے۔
اس یونیورسٹی کے 160 سائنسدانوں اور پروفیسرز نے نوبل انعام حاصل کئے ہیں
ہارورڈ یونیورسٹی کا یہ دعویٰ ھے کہ ہم نے دنیا کو آج تک جتنے عظیم دماغ دیۓ ہیں وہ دنیا نے مجموعی طور پر پروڈیوس نہیں کیۓ اور یہ دعویٰ غلط بھی نہیں ھے کیونکہ دنیا کے 90 فیصد سائنسدان ، پروفیسرز ، مینجمنٹ گرو اور ارب پتی بزنس منیجرز اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم رھے ہیں ،
اس یونیورسٹی نے ہر دور میں کامیاب ہونے والے لوگوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ھے.
ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک میگزین ھے ، جس کا نام ھے
Harvard University Business Review
اور اس کا دنیا کے پانچ بہترین ریسرچ میگزینز میں شمار ہوتا ھے ،
اس میگزین نے پچھلے سال تحقیق کے بعد یہ ڈکلئیر کیا کہ ہماری یونیورسٹی کی ڈگری کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے ، یعنی اگر آپ دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں سے بھی ڈگری حاصل کرتے ہیں تو وہ محض پانچ سال تک کارآمد ھو گی.
یعنی پانچ سال بعد وہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا رہ جائے گی ۔
آپ خود بھی یقیناً ایک ڈگری ہولڈر ہوں گے ، چند لمحوں کے لیے ذرا سوچئے اور جواب دیجئے
آپ نے آخری مرتبہ اپنی ڈگری کب دیکھی تھی اور آپ کی ڈگری اِس وقت کہاں پڑی ھے شائد آپ کو یہ یاد بھی نہ ہو ۔
ہمارے پاس اِس وقت جو علم ھے اُس کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے یعنی پانچ سال بعد وہ آوٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہوگا اور اس کی کوئی ویلیو نہیں ہوگی
آپ اگر آج ایک سافٹ ویئر انجینئر بنتے ہیں تو پانچ سال بعد آپ کا نالج کارآمد نہیں رہے گا اور آپ اس کی بنیاد پر کوئی جاب حاصل نہیں کر سکیں گے ۔
اس کو اس طرح سمجھ لیں جیسے کمپیوٹر کی ڈپریسیشن ویلیو %25 ہے مطلب چار سال بعد ٹیکنالوجی اتنا آگے بڑھ جا چکی ہوگی کہ آج خریدا ہوا کمپیوٹر چار سال بعد مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔
*آج کے دور میں انسان کے لۓ بہت زیادہ ضروری ھے*
*مسلسل نالج*
آپ خود کو مسلسل اَپ ڈیٹ اور اَپ گریڈ کرتے رھیں ۔۔پھر ہی آپ دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں
*آپ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے شعبے سے متعلق کوئی نیا کورس ضرور کریں*
یہ کورس آپ کے نالج کو بڑھا دے گا اور نئی آنے والی ٹیکنالوجی سے آپ کو باخبر رکھے گا۔
نالج بھی اس وقت تک نالج رہتا ھے جب تک آپ اُس کو ریفریش کرتے رہتے ہیں ۔۔
آپ اسے ریفریش نہیں کریں گے تو وہ ٹہرے ہوئے گندے پانی کی طرح بدبو دینے لگے گا۔
آج آپ دیکھیں ہم دنیا سے بہت پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔
دو وجوہات تو بہت واضع ہیں اکثر شعبوں میں ہم 50 سال یا اس سے بھی پرانی ٹیکنالوجی سے کام چلا رہے ہیں۔۔مثال کے طور پر ہمارا ریلوے نظام۔۔ہمارا نہری نظام، فی ایکڑ پیداواری نظام ،خوراک کو محفوظ کرنے کا طریقہ کار وغیرہ وغیرہ
دوسری وجہ نوکری مل جانے کے بعد مکھی پر مکھی مارنے کی عادت ، ہم شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب نوکری کا حصول تھا وہ مل گئی۔۔جس طرح سالوں سے وہ شعبے چل رہے ہیں ہم اس کا حصہ بن جاتے ہیں بجائے اس کے کہ اپنے علم سے وہاں بہتری لائیں ، ادارے کی کارکردگی میں ایفشینسی لائیں اور خود اپنے اور لوگوں کے لئیے سہولتیں پیدا کریں۔
دنیا میں بارہ برس میں آئی فون کے چودا ورژن آگئے ، لیکن آپ اپنے پرانے نالج سے آج کے دور میں کام چلانا چاہ رھے ھیں ۔۔
یہ کیسے ممکن ھے؟
یہ اَپ گریڈیشن آپ کو ہر سال دوسروں کے مقابلے کی پوزیشن میں رکھے گی ۔ ورنہ
دنیا آپ کو اٹھا کر کچرے میں پھینک دے گے
9 notes · View notes
hasnain-90 · 2 months
Text
‏پھول کب تک سبھی کانٹوں کو چھپا کر رکھیں؟
‏رنگ کب تک کسی چہرے کو سجا کر رکھیں؟
‏خواب کب تک ہمیں کاندھے پہ اٹھا کر رکھیں؟ 🥀
4 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 7 months
Text
صرف آواز کی خوشبو ہی نہیں لائے تھے ہم
خامشی کو بھی لگے ہاتھ اٹھا کر لے آئے
سلیم کوثر
6 notes · View notes
aiklahori · 9 months
Text
مجھے نہیں پتہ، یہ تحریر سچی ہے یا فسانہ؛ بس شرط ہے کہ آنکھیں نم نہ ہونے پائیں۔ آپ دوستوں کے ذوق کی نظر:
۔۔۔
میں ان دنوں جوہر شادی ہال کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک نگاہ پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!"
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پیسے نکالے، دو کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا.
بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی.
ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے". اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو۔۔
---
ذریعہ : فیسبک
8 notes · View notes
apnibaattv · 2 years
Text
اسحاق ڈار نے وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
اسحاق ڈار نے وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
صدر مملکت عارف علوی نے سینیٹر اسحاق ڈار سے حلف لیا۔ اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما… سینیٹر اسحاق ڈار سینیٹر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے ایک دن بعد بدھ کو وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں صدر مملکت عارف علوی نے اسحاق ڈار سے حلف لیا جس میں وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں اور کابینہ کے ارکان نے بھی شرکت کی۔ مفتاح اسماعیل کے استعفیٰ کے بعد ڈار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
safdarrizvi · 2 months
Text
اب کے بیگم مری میکے سے جو واپس آئیں
ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں
میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا ہے
تن کے بولیں کہ مجھے آپ نے سمجھا کیا ہے
ذہن نے میرے بنائی ہے اک ایسی سکیم
دنگ ہوں سن کے جسے علم معیشت کے حکیم
آپ بازار سے انڈے تو ذرا دوڑ کے لائیں
تاکہ ہم جلد سے جلد آج ہی مرغی کو بٹھائیں
تین ہفتوں میں نکل آئیں گے چوزے سارے
تو سہی آپ کو پیار آئے وہ پیارے پیارے
چھ مہینے میں جواں ہو کے وہی مرغ بچے
نسل پھیلاتے چلے جائیں گے دھیرے دھیرے
دیکھ لیجے گا بہ تائید خدائے دانا
پولٹری بنے گا مرا مرغی خانہ
پولٹری فارم میں انڈوں کی تجارت ہوگی
دور عسرت اسی مرغی کی بدولت ہوگی
میں وہ عورت ہوں کہ حکمت مری مردوں کو چرائے
انہیں پیسوں سے خریدوں گی میں کچھ بھینسیں اور گائے
ڈیری فارم بنے گا وہ ترقی ہوگی
جوئے شیر آپ ہی انگنائی میں بہتی ہوگی
عقل کی بات بتاتی ہوں اچنبھا کیا ہے
دودھ سے آپ کو نہلاؤں گی سمجھا کیا ہے
بچے ترسیں گے نہ مکھن کے لئے گھی کے لئے
آپ دفتر میں نہ سر ماریں گے دفتر کے لئے
میرے خوابوں کے تصدق میں بشرط تعمیل
چند ہی سال میں ہو جائے گی دنیا تبدیل
سحر تدبیر کا تقدیر پہ چل جائے گا
جھونپڑا آپ کا کوٹھی میں بدل جائے گا
الغرض ہوتی رہی بات یہی تا سر شام
نو بجے رات کو سونے کا جو آیا ہنگام
سو گئیں رکھ کے حفاظت سے اسے زیر پلنگ
خواب میں آتی رہی نشۂ دولت کی ترنگ
سن رہی تھی کوئی بلی بھی ہماری باتیں
پیاری بیگم کی وہ دلچسپ وہ پیاری باتیں
رات آدھی بھی نہیں گزری تھی کہ اک شور مچا
چیخ مرغی کی سنی نیند سے میں چونک پڑا
آنکھ ملتا ہوا اٹھا تو یہ نقشہ پایا
اس بچاری کو صحنچی میں تڑپتا پایا
دانت بلی نے گڑائے تھے جو گردن کے قریب
مر گئی چند ہی لمحوں میں پھڑک کر وہ غریب
صبح کے وقت غرض گھر کا یہ نقشہ دیکھا
چہرہ بیگم کا کسی سوچ میں لٹکا دیکھا
روٹی بچوں نے جو مانگی تو دو ہتھڑ مارا
اسے گھونسہ اسے چانٹا اسے تھپڑ مارا
2 notes · View notes
moizkhan1967 · 2 months
Text
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے، جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے ، جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں، سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
احمد سلمان
5 notes · View notes
amiasfitaccw · 4 months
Text
Tumblr media Tumblr media
ملائم پیٹ مخمل سا کلی ناف سی کی صورت اٹھا سینہ صفا پیڑو عجب جوبن کی ناری ہے
14 notes · View notes
0rdinarythoughts · 11 months
Text
Tumblr media
لوگوں کے ساتھ گھل مل جانا ایک بھاری بوجھ ہے جسے ہر کوئی اٹھا نہیں سکتا۔
Mingling with people is a heavy burden that not everyone can carry.
Tarkovsky
31 notes · View notes
my-urdu-soul · 4 months
Text
زخم رہیں ہرے بھرے، درد بھی کچھ سِوا رہے
آب و ہوائے شہرِ غم اتنی تو پُر فضا رہے
زخم کی کائنات کیا، اتنی کہ دل دُکھا رہے
غم کی بساط بس یہی، ایک ملال سا رہے
وہ جو ہمی کو بزم میں دیکھے تو دیکھتا رہے
اُس کے حضور حرفِ شوق یاد ہمیں بھی کیا رہے
سوچ رہا ہُوں، کب تلک ہجر کی آگ میں جلوں
دیکھ رہا ہُوں، تابکے ضبط کا حوصلہ رہے
کون تمام زندگی ایک ہی داستاں لکھے
کون تمام عمر یُوں راتوں کو جاگتا رہے
دیکھ، مری طرف بھی دیکھ، میں بھی ہُوں تیری بزم میں
سوچ ، مرے لیے بھی سوچ، کوئی تو رابطہ رہے
تیرے مزاج آشنا بزم سے اُٹھ گئے سبھی
مجھ کو تو مل گئی خبر تجھ کو بھی کچھ پتہ رہے
اپنے ہی آپ سے لڑوں کس سے شکایتیں کروں
کون ہے مجھ سے خوش یہاں، تُو بھی اگر خفا رہے
میرے الم ہیں بے شمار، میری شکایتیں ہزار
تو بھی نہیں مرا قرار، تجھ سے بھی کیوں گِلہ رہے
موسم ابر و باد میں دل کا گلاب کِھل اٹھا
رنگوں میں کھو گئی فضا، آج تو رتجگا رہے
-اطہر نفیس
9 notes · View notes