Tumgik
#اجلاس
apnibaattv · 1 year
Text
مشترکہ اجلاس میں آج 7 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا جائے گا۔
اسلام آباد: بدھ (آج) کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سات نکاتی ایجنڈے پر غور کیا جائے گا جس میں ملک میں اجتماعی سیاسی اور امن و امان کی صورتحال، مقامی حکومتوں کے انتخابات کے حوالے سے قانون سازی اور بھارت کو متنازعہ علاقے سے محروم کرنا شامل ہے۔ 5 اگست 2019 کو کشمیر کو اس کی نیم خود مختار حیثیت دی گئی۔ اقتصادی بحران، چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)، جموں و کشمیر، قومی اداروں کے احترام، آبادی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی بیسویں مرکزی کمیٹی کے پہلے کل رکنی اجلاس کا انعقاد
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی بیسویں مرکزی کمیٹی کے پہلے کل رکنی اجلاس کا انعقاد
بیجنگ (عکس آن لائن)کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی بیسویں مرکزی کمیٹی کا پہلا کل رکنی اجلاس اتوار کے روز بیجنگ میں منعقد ہوا۔اجلاس میں سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی بیورو کے ارکان،مرکزی سیاسی بیورو کی قائمہ کمیٹی کے ارکان اورمرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری کا انتخاب کیا گیا۔شی جن پھنگ نے اجلاس کی صدارت کی اور سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے بعد اہم خطاب کیا۔چینی میڈ یا کے مطا بق کل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
وفاقی کابینہ کا اجلاس آج ہوگا، 5 نکاتی ایجنڈا جاری
وفاقی کابینہ کا اجلاس آج ہوگا، 5 نکاتی ایجنڈا جاری
وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج ہوگا جس کے لئے 5 نکاتی ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ 5 نکاتی ایجنڈے پر غور کرے گی اور قومی ویسٹ مینجمنٹ پالیسی 2022 کابینہ میں پیش ہوگی۔ مختلف ممالک سے متعلق ویزا پالیسی میں تبدیلی کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا جبکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 22 جون کے فیصلوں کی توثیق ہوگی۔ کابینہ کی قانون سازی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 2 years
Text
کابینہ اجلاس نہ بلانے اور سمریوں کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری پر پی پی پی کو تحفظات
کابینہ اجلاس نہ بلانے اور سمریوں کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری پر پی پی پی کو تحفظات
وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں شامل سب بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی کابینہ کے اجلاس معمول کے مطابق نہ بلانے اور اہم سمریوں کی منظوری سرکولیشن کے ذریعے لینے پر تحفطات کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر معاملے پر اعتراض اٹھایا ہے۔ اردو نیوز کو دستیاب سید خورشید شاہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
سینیٹ نے الیکشن ملتوی اور الیکشن شیڈول معطل کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور
سینیٹ نے الیکشن ملتوی کرنے اور انتخابی شیڈول معطل کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لیں، سینیٹر دلاور خان نے قرارداد پیش کی، جب کہ ن لیگ کے افنان اللہ نے قرارداد کی مخالفت کی۔ سینیٹ اجلاس میں سینیٹر دلاور خان نے الیکشن کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی کیلئے قرارداد پیش کی اور مؤقف پیش کیا کہ ایک قرار داد سینیٹ سیکرٹریٹ کو جمع کروائی ہے، بہرا مند تنگی نے جو بات کی اسی پر ایک قرار داد لانا چاہتا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
newstimeurdu · 2 years
Text
شفاف الیکشن کی ضمانت کیلئے اصلاحات کروائی جائیں: مولانا فضل الرحمان
شفاف الیکشن کی ضمانت کیلئے اصلاحات کروائی جائیں: مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد: امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسمبلی اجلاس کوتحلیل کرنا سازش ہے، لیٹروالی سازش نہیں۔ چاہتے ہیں انتخابات ہوں لیکن آئین مجروح ہوچکا ہے، شفاف الیکشن کی ضمانت کیلئے اصلاحات کرائی جائیں، ماحول میں الیکشن میں جانے کا مطلب گدلے پانی میں جانا ہے، بالکل بھی نرم رویہ اختیارنہیں کرسکتے۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کا کہنا تھا کہ ملک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
forgottengenius · 2 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
emergingpakistan · 5 months
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبار�� قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
غزہ پر حملہ، اقوامِ متحدہ کا اجلاس کل طلب
غزہ پر حملہ، اقوامِ متحدہ کا اجلاس کل طلب
غزہ پر حملہ، اقوامِ متحدہ کا اجلاس کل طلب نیویارک،7 اگست( آئی این ایس انڈیا ) اسرائیل کے فلسطین پر حملے کے پیش نظر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے کل اجلاس طلب کر لیا۔امریکی میڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔امریکی میڈیا نے بتایا ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیلی فوج کے غزہ پر میزائل حملوں پر گفتگو ہو گی۔ واضح رہے کہ غزہ کے جبالیہ مہاجر کیمپ…
Tumblr media
View On WordPress
4 notes · View notes
apnibaattv · 1 year
Text
جسٹس عیسیٰ نے چیف جسٹس بندیال سے جے سی پی کا اجلاس 'فوری' طلب کرنے کی درخواست کی
جسٹس عیسیٰ نے چیف جسٹس بندیال سے جے سی پی کا اجلاس ‘فوری’ طلب کرنے کی درخواست کی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال پر زور دیا کہ وہ سپریم کورٹ کی خالی نشستوں کو پر کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کا اجلاس “فوری طور پر” طلب کریں کیونکہ خالی نشستیں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو “غیر فعال” کر سکتی ہیں۔ 28 ستمبر کو لکھے گئے خط میں، puisne جج نے CJP – جو JCP کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
وزیر اعظم شہباز شریف سے جان کیری کی ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال
وزیر اعظم شہباز شریف سے جان کیری کی ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال
نیو یارک(نمائندہ عکس ) وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے ماحولیاتی تبدیلی جان کیری نے ملاقات کی۔ دونوں رہنماوں کی ملاقات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کے موقع پر ہوئی، ملاقات کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ قبل ازیں وزیراعظم نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی برادری سے کہا کہ وہ پاکستان کے سیلاب زدگان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں G20 کا اجلاس کرنا عالمی برادری کو دھوکہ دینا ہے، عبدالحمید لون
بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں G20 کا اجلاس کرنا عالمی برادری کو دھوکہ دینا ہے، عبدالحمید لون
حریت رہنما عبدالحمید لون نے کہا ہے کہ بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں G20 کا اجلاس منعقد کرنا عالمی برادری کو دھوکہ دینا ہے۔ عبدالحمید لون نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مقبوضہ جموں کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، یورپی یونین ممبران کے مقبوضہ جموں کشمیر کے دورے کے بعد بھارت کا یہ دوسرا بھونڈا مذاق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جی 20 ممالک بھارت کے مقبوضہ جموں کشمیر میں اجلاس کو یکسر مسترد کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 2 years
Text
صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرلیا
صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرلیا
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب کرلیا۔ اس ضمن میں ایوانِ صدر سے جاری اعلامیے کے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 26 مئی بروز جمعرات سہ پہر 4 بجے طلب کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق مشترکہ اجلاس آئین کے آرٹیکل 54(1)چ کے تحت طلب کیا گیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 4 months
Text
ڈالر کی اصل قیمت 244 ہے، روپیہ مزید مضبوط ہونا چاہئے، اسحاق ڈار
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ڈالر کی اصل قیمت 244 ہے، دسمبر 2017 تک پاکستانی روپیہ ایشیا کی مستحکم ترین کرنسی تھی،مضبوط کرنسی ہی ملکی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اسحاق ڈار نے سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی   پر قابو پانے کیلئے اسٹیٹ بینک انٹرسٹ ریٹ کو بڑھاتا ہے،میں ڈی ویلیوایشن  کو مدر آف اکنامک ایول کہتا ہوں،شاہد خاقان عباسی کے زمانے میں 10…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ivnanews · 2 years
Text
داستان مهسا امینی به رئیس جمهور رسید
در پی اتفاقات رخ داده در گشت ارشاد و مشکلاتی که برای مهسا امینی دختر ۲۲ ساله ایجاد شد، ابراهیم رئیسی که این روزها برای شرکت در اجلاس سران شانگهای در ازبکستان به سر می برد به وزیر کشور دستور پیگیری و بررسی ماجرا را داد.
https://ivnanews.ir/%D8%AF%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%87%D8%B3%D8%A7-%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D8%A8%D9%87-%D8%B1%D8%A6%DB%8C%D8%B3-%D8%AC%D9%85%D9%87%D9%88%D8%B1-%D8%B1%D8%B3%DB%8C%D8%AF
1 note · View note
jhelumupdates · 2 days
Text
ضلع جہلم میں ناجائز منافع خوری پر سخت ایکشن جاری رکھا جائے گا، ڈپٹی کمشنر سمیع اللہ فاروق
0 notes